Thursday, May 13, 2021

فلسطینی!! وطن میں غریب الوطن

فلسطینی!! وطن میں غریب الوطن

ایک طرف اسلامی دنیا رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اللہ کی رحمتیں سمیٹنے میں مصروف ہے تو قبلہ اول کے اردگرد آنسو گیس کا دھواں اور ربڑ کی گولیوں کی تڑٹراہٹ گونج رہی ہے۔ ان مظلوموں نے  اس بار غسلِ عید بھی اپنے پاک لہو سے کیا۔اب تک ایک 16 سالہ بچے سمیت6 فلسطینی حرمتِ قدس پر قربان ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے۔ درجنوں افراد اسرائیلی فوج کے گھڑ سوار دستوں سے کچل کر گھائل ہوئے۔ رمضان کی ستائیسویں شب فلسطینیوں کیلئے شام غریباں بن گئی جب حرم شریف کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے اندر بھی  اسرائیلی فوج نے ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ اسی کیساتھ مسجد کی بجلی بند کرکے خوفناک چمک اور بھیانک آواز پیداکرنے والے Sound Grenadesپھینکے گئے۔گھپ اندھیری،کھچاکھچ بھری مسجد میں قیامت خیز دھماکوں سےکانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل عفیف کہفی Aviv Kohafiنے مظاہرے کچلنے کیلئے اضافی فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس نشست میں غزہ کا ذکر نہیں ہوگا کہ اسکے تصور سے ہی کلیجہ منہہ کو آتا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ سارا شہر کنکریٹ کا ایسا قبرستا ن ہے جہاں جیتے جاگتے انسان زندہ  دفن ہیں۔ سارے اسرائیل  میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے۔

قیام اسرائیل کے وقت سے کوشش ہے کہ فلسطینی اپنا وطن چھوڑ کر مصر، شام اور اردن چلے جائیں لیکن ان سخت جانوں کواصرار ہے کہ 'ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائینگے'

فلسطینیوں کے اجڑنے کی داستان 74 سال پرانی ہے جب 1947میں اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے اور برطانیہ نے ترنت ہی فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس بندربانٹ کا ذکر ہم اپنے ایک مضمون میں اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد اسرائیلیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی  42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ اس پورے قصے بلکہ المئے کا احاطہ ایک کالم بلکہ ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں، چنانچہ آج ہم اپنی گفتگو بیت المقدس تک محدود رکھیں گے جہاں آجکل قیامت بپا ہے۔

تقسیم کے وقت بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ گنبد صخریٰ، مسجد اقصیٰ، دیوارِ گریہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت اہم متبرکات اور مقدسات مشرقی جانب دیوار سے گھرے ایک مربع کلومیٹر کے قریب رقبے میں ہیں جنھیں بلدۃ القدیم یا Old City کہا جاتا ہے۔ اولڈ سٹی اور مضافات پر مشتمل پورا علاقہ مشرقی یروشلم یا القدس الشرقیہ کہلاتاہے۔ اُسوقت القدس شریف یا بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی اکثریت تھی، جبکہ مغربی بیت المقدس میں یہودی آباد تھے۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مشترکہ اثاثے کا مطلب ہی تھا کہ ہتھیار وسیاست سے پاک اس غیر عسکری علاقے کا انتظام مقامی آبادی کے ہاتھ میں ہوگا،جہاں لوگ صرف زیارت و عبادت کی غرض سے جاسکیں گے اور علاقہ ساری دنیا کے غیر مسلح و پرامن زائرین کیلئے ہر وقت کھلا رہیگا۔ تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عملدرآمد اور اسکے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اسطرح اداکی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اس دوران ہزاروں فلسطینی مارے گئے۔ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی حالانکہ معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو پھل تراش سے بڑی چھری اور پٹاخہ تک  لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینی سینہ تان کر سامنے آئے لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے نہتے جوانوں کی مزاحمت کو کچل دیا۔ 'فتح مبیں' کے بعداسرائیلی رہنماڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ ستم ظریفی کے اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر جس میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا،امریکہ اور روس دونوں کے دستخط تھے۔

امریکہ اور روس سے توثیق کے بعد اسرائیلی فوج نے علاقے میں نسلی تطہیر کا کام شروع کیا اور یہاں آبادلاکھوں  فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ بھی اسطرح کے بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس  عظیم الشان جیل خانے میں  12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ بہت سے فلسطینیوں نے جان بچانے کیلئے اردن کا رخ کرلیا۔جبری اخراج کے پہلا مرحلے میں فلسطینیوں  سےمجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز Hectares یا 2 کروڑ مربع میٹر اراضی چھین لی گئی۔ تاہم چند ہزار سخت جان مشرقی بیت المقدس  رہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران 15 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنےعرب پڑوسیوں کیخلاف جنگ چھیڑ دی۔ ان دنوں عرب لیگ ایک موثر ادارہ تھا چانچہ سعودی عرب، عراق اور شمالی یمن سمیت تمام عرب ممالک نے القدس کی آزادی کیلئے فوجی دستے بھیجے۔ جنگ میں عربوں کی کارکردگی خراب رہی لیکن اردنی افواج نے مشرقی بیت المقدس کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرالیا۔ مغربی بیت المقدس بدستور اسرائیل کے پاس رہا۔ اسرائیلی دہشت گری سے تنگ آکر تل ابیب، حیفا اور یہودی اکثریت کے دوسرے علاقے سے کافی فلسطینی مشرقی یروشلم آگئے جو اب اردن کی ہاشمی سلطنت کا حصہ تھا۔

جنگ ختم ہونے کے باوجود مشرقی بیت المقدس میں دہشت گردانہ کاروائی جاری رہی حتیٰ کہ 5 جون 1967 کو خوفناک عرب اسرائیل اسرائیلی جنگ کا آغاز ہواجو صرف 6 دن جاری رہی لیکن اس مختصر دورانیے میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں، اردن سے مشرقی بیت المقدس سمیت غرب اردن  اور مصر سے صحرائےسینائی کا بڑا علاقہ چھین لیا۔ جنوبی لبنان کے کچھ علاقے پر بھی اسرائیل نے قبضہ جمالیا۔مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرتے ہی اسرائیل نے اسکے مشرقی ومغربی حصے باہم ضم کرکے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قراردے دیا۔ اسرائیل کے اس فیصلے کے خلاف سلامتی کونسل میں بات اٹھی لیکن امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کرکے قرارداد کو غیر موثر کردیا۔ عربوں کی اشک شوئی کیلئے کہا گیا کہ عالمی برادری مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا حصہ تصور کرتی ہے۔

پانچ سال بعداکتوبر 1973 میں ایک اور جنگ ہوئی جسکا آغاز یہودیوں کے تہوار، کپر کے روز ہوا اسلئے اسرائیلی اسے یوم کپر جنگ کہتے ہیں جبکہ عربوں کیلئے یہ  جنگ اکتوبر ہے۔ جنگ چونکہ رمضان میں ہوئی اسلئے اسے معرکہِ رمضان بھی کہا جاتا ہے۔ اٹھارہ دن جاری رہنے والی اس جنگ میں مصر اور شام کو شکست ہوئی اور اسرائیلی فوجیں نہر سوئز عبور کرکے قاہرہ سے صرف 60 کلومیٹر فاصلے تک پہنچ گئیں۔

پئے درپئے عسکری شکست سے عربوں میں مایوسی کی لہردوڑ گئی اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ لائحہِ عمل کے بجائے شام، مصر اور اردن نے اپنے ملکی مفادات کو آگے بڑھانا شروع کردیا، سب سے پہلے صدرانوارالسادات نے 1978 میں اسرائیل سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا جو کیمپ ڈیود عہدِ امن کے نام سے مشہور ہوا جسکے بعد 1994 میں اردن کے شاہ حسین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔

امریکہ کے دباو پر اسرائیل سے تعلقات کے ہونکے میں جہاں عربوں نے فلسطینیوں کو نظر انداز کردیا وہیں اسرائیل نےمقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی بستیاں قائم کرنی شروع کردیں۔ پہلے تو ہاوسنگ سوسائیٹیاں بناکر فلسطینیوں کے خالی و غیر آباد علاقوں پر  قبضہ کیا گیا۔اسکے بعد فلسطینیوں کی ہنستی آبادیوں پر بلڈوزر پھیر نے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بے گھر ہونے والے عرب غربِ اردن کے مہاجر کیمپوں کی زینت بن گئے۔

اس سلسلے میں بڑی کاروائی 2014 میں ہوئی جب  یہودا اور السامریہ کے ہنستے بستے شہر  خالی کرائے گئے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کا موقف تھاکہ  یہودا اور سامریہ میں 1967سے نافذ  مارشل لا کی وجہ سے علاقے کی  تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد پہلے ہی فوج کی ملکیت ہے۔ اب اس ہٹ دھرمی کا کیا علاج کہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود اسرائیلی عدالت اپنے ایک فیصلے میں   یہودا اور سامریہ سمیت پوری وادی اردن کو مقبوضہ علاقہ قراردے چکی ہے۔ دوسری مدت کا انتخاب جیتنے کے بعد صدر اوباما نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل و فلسطین دو آزاد و خودمختار ریاستوں کے حامی ہیں اور انکے خیال میں مشرقی بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔ امریکی صدر کی خواہش کو پیروں تلے روندتے ہوئے یہودا اور سامریہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کردی گئیں۔صدراوباما نے بھی یہ توہین بے شرمی سے برداشت کرلی۔

ادھر کچھ عرصے سے مشرقی بیت المقدس کی حیثیت تبدیل کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔گزشتہ دنوں جب فلسطین کے پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوا تو نیتن یاہو نے صاف صاف کہا کہ مشرقی بیت المقدس دارالحکومت کا حصہ اور اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ فلسطینیوں کو القدس شریف اور مسجد اقصیٰ تک رسائی تو ہے لیکن یہ علاقہ انکی سیاسی عملداری میں شامل نہیں لہٰذا یہاں انتخابات نہیں ہونگے۔

اسی کیساتھ مشرقی بیت المقدس میں آباد فلسطینیوں کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی مہم کا آغاز ہوا جس میں گھروں پر چھاپے، اوباش نوجوانوں کے حملے۔ جعلی پولیس مقابلوں میں فلسطینیوں کا قتل، بلدیہ کی طرف سے تجاوزات ہٹانے کے نوٹس، کرونا کی خلاف ورزیوں پر دوکانوں کی بندش وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی چند دن پہلے آرائشِ گیسو کی ایک ماہر 60 سالہ فلسطینی خاتون کو فوج نے گولی مار کر قتل کردیا۔ بیت اللحم کی رہائشی فہیمہ الحروب کا چلتا ہوا سیلون فوج نے بند کرادیاتھا، نتیجے کے طور پر وہ بیچاری کوڑی کوڑی کی محتاج ہوگئی۔ اس صدمے سے فہیمہ دماغی توازن کھو بیٹھی اور سڑکوں پر بے مقصد مٹر کشتی اسکی عادت بن گئئ۔پیر 10 مئی کو یہ خاتون نابلوس کے قریب سڑک پر چلتے چلتے فوجی چوکی کے پاس پہنچ گئی۔ سپاہیوں نے رکنے کا اشارہ کیا لیکن دماغ سے ماوف خاتون کو تنبیہ کا پتہ ہی نہ چلا اور وہ خراماں خراماں چلتی رہی۔ اسرائیلی فوجیوں نے چند گز کے فاصلے سے اسکے سرکو نشانہ بنایا اور یہ خاتون موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں تین دن بعد 16 سالہ سعید عودہ اسرائیلی فوج کا نشانہ بنا۔

موجودہ کشیدگی کا سبب مشرقی یروشلم کے قدیم محلے  شیخ  جرّاح کے مکینوں کو ملنے والے نوٹس ہیں۔ یہ چٹھیاں کہیں اور سے نہیں بلکہ عدالت سے آئی ہیں۔ سینکڑوں اسرائیلی شہریوں نے اجتماعی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ شیخ جراّح کے مکینوں سے جائیداد اور دوکانیں خالی کرائی جائیں۔ وزارت  دفاع کےمطابق یہاں آباد لوگوں کوبیدخل کرکے غرب اردن کے مہاجر کیمپ منتقل کردیا جائیگا اور اس مقام پر اسرائیلیوں کیلئے  530 مکانات اور شاپنگ سینٹر تعمیر ہونگے۔

شیخ جراح ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے ذاتی طبیب تھے جنکے نام پر 1865میں یہ محلہ آباد ہوا، یعنی  اسرائیل کے قیام سے 83 سال پہلے۔ اب کہا جارہا ہے کہ یہاں  آباد لوگوں کے پاس قبضے (لیز) کی قانونی دستاویزات نہیں تھیں لہٰذا جائیداد بحقِّ سرکار ضبط کرکے 'شفاف نیلامی' کے ذریعے اسرائیلیوں کو فروخت کردی گئی۔ 'خریداروں' نے  پراپرٹی پر قبضے کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ سائلین کا دعویٰ بڑا مضبوط ہے کہ ادائیگی براہ راست سرکار کو کی گئی ہے اور تعمیر کیلئے بینکوں سے قرض منظور ہونے کے بعد تعمیراتی اداروں سے معاہدے بھی ہوچکے ہیں۔اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کا آغاز 10 مئی کو ہونا تھا لیکن ہنگاموں کی وجہ سے  کاروائی ملتوی کردی گئی۔

بیدخلی کے خلاف یہاں آباد فلسطینی مظاہرے کررہے ہیں جنھیں منتشر کرنے کیلئے طاقت کے بیرحمانہ استعمال نے  بہت سے فلسطینیوں کی جان لے لی۔ پولیس مظاہرین کاتعاقب کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ تک آگئی۔ آخری عشرے کے آغاز سے اسرائیلی فوج و پولیس نے گنبدصخرا کے دالان اور نابلوس کی طرف کھلنے والے دروازے باب العامور المعروف دمشق گیٹ پر قبضہ کرلیاجہاں فلسطینی  رمضان میں  افطار کرتے ہیں۔ اس دروازے کے باہر فلسطینی ٹھیلوں پر افطار کا سامان اور قہوہ فروخت کرتے ہیں۔

جمعرات کی رات پولیس اسوقت مسجد اقصیٰ کی طرف آئی جب لوگ تراویح پڑھ رہے تھے۔ رمضان کی پچیسویں شب ہونے کے سبب مسجد گنجائش سے زیادہ بھری  تھی اور لوگوں نے باہر بھی صفیں بنالی تھیں۔ پولیس نے آتے ہی باہر نماز پڑھنے والوں کو منتشر کرنے کیلئےاشک آور گیس پھینکنی شروع کردی۔ پولیس کا کہنا تھا عبادت مسجد تک محدود ہونی چاہئے اور فلسطینی اوقاف کی ذمہ داری ہے کہ جب مسجد بھرجائے تو وہ بعد میں آنے والوں کو واپس گھر بھیجیں۔ اسی کیساتھ فوج کے سپاہیوں نےلاوڈاسپیکر کے تار کاٹ دئے۔ مسجد خالی کرنے کیلے اشک آور گیس پھینکی گئی جس سے سینکڑوں نمازی زخمی ہوئے اور 53 افراد ڈنڈوں اور ربر کی گولیوں کا نشانہ بنے۔تصادم میں 17 پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔

مقتدرہ فلسطین (PA)کے صدر محمود عباس نے  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم مسلم امت اور اسرائیل کے ' ابراہیمی دوستوں'  کو اس پر کوئی تشویش نہیں۔ صرف ترکی اور پاکستان کی جانب سے مذمتی بیان جاری ہوئے۔صدر ایردوان نے اپنے ایک ٹویٹ میں قبلہ اول پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی کو ایک قابل نفرت قدم قراردیا ہے۔ ترکی، عبرانی اور عربی زبانوں میں جاری ہونے والے پیغام میں ترک صدر نے فلسطینیوں سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔یورپی یونین نے بھی اسرائیلی اقدامات کو امن کیلئے خطرہ قراردیا ہے لیکن عالمی ذرایع ابلاغ  عملاًخاموش ہیں۔ امریکہ کے تینوں مسلمان ارکانِ کانگریس سمیت، ترقی پسند جسٹس ڈیموکریٹس کے 10 ارکان نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مذمتی  ٹویٹس بھیجے ہیں۔

شیخ جرّاح محلے میں اسرائیلی بستیوں کے قیام سے ہزاروں فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کا صدمہ اپنی جگہ لیکن اس سے بڑا ڈر یہ ہے کہ اگر نسل پرست، مشرقی بیت المقدس سے مسلمان بستیاں ختم کرکے یہاں اسرائیلیوں کو آباد کرنے میں کامیاب ہوگئے تو القدس اور مسجد اقصیٰ کا تشخص بری طرح متاثر ہوگا۔ معمولی سی بد امنی پر باہر سے آنے والے فلسطینیوں کا قدیم شہر میں داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔ اس صورت میں مشرقی یروشلم کے مسلمانوں کے دم سے ہی مسجد اقصیٰ آباد رہتی ہے۔ اگر یہ آبادی اجڑ گئی تو خاکم بدہن اللہ کا یہ قدیم گھر بھی و یران ہوسکتا ہے۔ماضی میں تلاشِ آثارِ قدیمہ کے نام پر مسجد اقصیٰ کے انہدام کی کئی کوششیں کی گئیں جسے یہاں آباد مسلمانوں نے ناکام بنایا۔پاسبانوں کی بیدخلی کہیں بنتِ کعبہ کی بیحرمتی کی پیش بندی تو نہیں؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 مئی 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 مئی 2021

روزنامہ امت کراچی 14 مئی 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 16 مئی


2021

 

No comments:

Post a Comment