تغافل انکی روش اور یہاں یہ خودداری
ا مریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلیکن کل اسرائیل،مصر اور اردن روانہ ہورہے ہیں ۔ امریکی حکومت کے مطابق دورے کا مقصد غزہ فائر بندی کومستحکم کرکے ایک پائیدار امن معاہدے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ سفر کا اعلان کرتے ہوئے جناب بلینکن نے اپنے ٹویٹ میں فلسطینیوں سے “اپنائیت” جتانے کیلئے اسرائیل کے بجائے یروشلم اور رام اللہ (مقتدرہ فلسطین کا صدر مقام)لکھا ہے۔
معلوم نہیں واشنگٹن کو یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ فلسطینی امریکہ کو اس تنازعے میں ایک دیانت دار ثالث سمجھتے ہیں حالانکہ
- امریکہ اسرائیل کا انتہائی مخلص دوست اور اتحادی ہے۔فلسطینیوں کےخلاف جو ہتھیار استعمال ہورہے ہیں وہ سب کے سب امریکہ کے فراہم کردہ ہیں۔
- صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو 2028تک اوسطاً سوا چار ارب ڈالر سالانہ عسکری مدد فراہم کرنے کا معاہدہ کیاہے اوربائیڈن انتظامیہ نے اس معاہدے پر نظر ثانی یا ترمیم کا کوئی عندیہ نہیں دیا
- غزہ پر حالیہ بمباری کی امریکی صدر نے مذمت سے انکار کردیا اور امریکہ نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی ایک قرارداد کو تین بار ویٹو کیا
اس پس منظر میں امریکی وزیرخارجہ کا دورہ اسرائیل سے تجدیدِ دوستی اور عزمِ حمائت کے اظہار کا سبب تو بنے گا لیکن فلسطینیوں کیلئے یہ فوٹو سیشن اور زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں
فاضل وزیرخارجہ بات کرنے رام اللہ جارہے ہیں جو فلسطینی سیاست کے حوالے سے غیر موثر بلکہ عضو معطل ہوچکا ہے
فلسطینی سرگرمیوں کے مراکز اب الشیخ الجراح، مشرقی بیت المقدس اور غزہ ہیں
مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس اپنے صدارتی محل تک محدود ہیں ۔ وہ رام اللہ کی گلیوں میں بھی گھوم نہیں سکتے، فلسطینیوں کی نمائندگی کیا کرینگے
اسرائیل خبر رساں ایجنسیوں نےفلسطینی رائے عامہ کے جو جائزے شائع کئے ہیں، اسکے مطابق اگر آج انتخابات منعقد ہوں تو راندہ درگاہ ہماس بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریگی۔ اسی خوف کے پیش نظر مئی میں ہونے والے انتخابات منسوخ کئے گئے
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس تنازعے کے صرف دو فریق ہیں یعنی اسرائیل اورفلسطین۔ خواہش کچھ بھی ہو لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ فلسطینیوں کی غالب اکثریت ہماس کو اپنا نمائندہ سمجھتی ہے لیکن امریکہ، اسرائیل اور مغرب نے اس تنظیم کو دہشت گرد قراردے دیاہے
اب معاملہ یہ ہے کہ قانونی پابندیوں کی بناپر دہشت گرووں سے مذاکرات ممکن نہیں جبکہ روائتی تکبر دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اجازت نہیں دیتا
یعنی
تغافل انکی روش اور یہاں یہ خود داری
ہمارے حال کی پھر کیا انھیں خبر ہوگی
No comments:
Post a Comment