یورپی پارلیمان کی قرارداد
یورپی پارلیمان نے 29 اپریل کو ایک قراردار بھاری اکثریت سے منظور کرلی جس میں یورپین کمیشن اور یورپین وزارت خارجہ سے سفارش کی گئی ہے کہ پاکستانی درآمدات کیلئے Generalized System of Preferences-Plus یا جی ایس پی پلس کی مراعات پر نظر ثانی کی جائے۔ قرارداد کے حق میں 662 ووٹ آئے جبکہ صرف تین ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ یورپی پارلیمان 705 ارکان پر مشتمل ہے جویونین کے 27 رکن ممالک سے پانچ سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔
یورپی یونین نے جن ممالک کو جی ایس پی کا درجہ دے رکھا ہے ان مقامات سے آنے والی مصنوعات پر درآمدی محصولات انتہائی کم ہیں جبکہ جی ایس پی پلس کے حامل ممالک سے وصول کی جانیولے محصولات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جی سی اپی پلس مراعات، انتہائی پسندیدہ یا MFN سے بھی بہتر ہیں کہ MFNمیں دونوں فریق ایکدوسرے کو صفر محصولات کا درجہ دینے کے پابند ہیں جبکہ جی ایس پی پلس غیر مشروط و یکطرفہ سہولت ہے۔ پاکستان کو یہ درجہ 2014 سے عطا ہوا جس میں گزشتہ برس، دو سال کی توسیع دی گئی ہے۔
یونین نے نے جی ایس پی پلس درجے کیلئے کچھ شرائط عائد کی ہیں جن میں انسانی حقوق کی پاسداری، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور طرزِ حکمرانی میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کا نفاذ شامل ہے۔ ان میں سب سے اہم سزائے موت کی منسوخی ہے۔ یورپی یونین سزائے موت کو انسانی حقوق کی خلاف وزری سمجھتی ہے۔ جی ایس پی پلس درجہ حاصل کرنے کیلئےجناب آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد غیر اعلانیہ معظل کردیاتھا لیکن 2014 میں آرمی پبلک سکول، پشاور پر حملے کے بعد نواز شریف کی حکومت نے پھانسی کی سزا بحال کر دی۔ دلچسپ بات کہ پارلیمان میں سزائے موت کی بحالی کی حکومتی قرارداد کو پیپلز پارٹی کی حمائت حاصل تھی جبکہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام نے اسکی مخالفت کی تھی۔
یورپی یونین کی قرارداد میں کہاگیا ہے کہ:
· توہین رسالت کے قانون کی دفعات 295 سی اور بی کو ختم کیا جائے
· انسداد دہشت گردی قانون مجریہ 1997 میں بھی ترمیم کی جائے تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کے بجائے عام عدالتوں میں ہو اور ملزمان کو ضمانتیں مل سکیں۔
· شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کے تحت سنائی گئی موت کی سزا کو واپس لے کر ان کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ شفقت ایمینول اور انکی اہلیہ شگفتہ کوثر کو 2014 میں سزائے موت سنائی گئی تھی
· شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ انھیں ضروری طبی سہولیات مہیا کرے
· پاکستانی حکومت کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
· فرانس کے خلاف پاکستان میں ہونے والے مظاہروں اور 'حملے' کو ناقابل قبول اور ’فرانس مخالف جذبات‘ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
· قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد سے بھی فرانس کیخلاف کشدیگی میں اضافہ ہوا ہے
· قرارداد میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں توہینِ رسالت و مذہب کے مرتکب کسی بھی مجرم کو آج تک پھانسی نہیں دی گئی لیکن اس قانون کی وجہ سے اقلیتیں خوفزدہ ہیں۔
قرارداد میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ موت کی سزا پانے والے تمام مجرموں کی سزا ختم کرے اور ان کو صاف اور شفاف انصاف مہیا کیا جائے۔اسی کیساتھ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے جس میں عدالتِ عظمیٰ نے ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کو موت کی سزا دینے پر پابندی لگا دی ہے۔
اس قرارداد کو نہ تو متعلقہ مجلس قائمہ میں پیش کیا گیا اور نہ ہی رائے شماری سے پہلے اس پر بحث ہوئی۔ یورپ کے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قرارداد کی حیثیت سفارش کی سی ہے۔پارلیمانی اصطلاح میں اس قسم کی تحریکیںnon-binding Resolutions کہلاتی ہیں۔ اصل فیصلے یورپی کمیشن میں ہو تے ہیں۔ اس 27 رکنی ادارے میں یونین کے ہر رکن کا ایک ایک ووٹ ہے۔ تاہم جس غیر معمولی اکثریت سے یہ قرارداد منظور ہوئی ہے اس سے یورپ کے عوامی رجحان کا پتہ چلتا ہے۔
قرارداد کے محرک، سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی کے چارلی وائمر(Charlie Weimers)، یورپ کے اسلام دشمن مثلث کا حصہ ہیں۔ اس مثلث کے دوسرے دوکونوں پر فرانس کی قائد حزب اختلاف میرین لاپن اور ہالینڈ کے گیرت وائلڈرز براجمان ہیں۔ جناب وائمرز نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز طالب علم رہنما کی حیثت سے کیا جب وہ سوئیڈش ینگ کرسچین ڈیموکریٹس کے صدر منتخب ہوئے جسکے بعد انھوں نے کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔ نسل پرست و متعصب روئے اور فاشسٹ طرزِ گفتگو کی بناپر 2018 میں انھیں کرسچین ڈیموکریٹس نے نکال دیا گیا جسکے بعد وہ سویڈن ڈیموکریٹس میں شامل ہوگئے۔ اس جماعت کا ایک نکاتی منشور ہی یورپ کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے۔
اس حوالے سے وزیرِانسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا تبصرہ بہت شاندار ہے ۔ اپنے ایک ٹویٹ میں ڈاکٹر صاحبہ نے کہا
’بدقسمتی ہے کہ یورپی یونین کی پاکستان مخالف قرارداد کا مجوز ایک ایسی جماعت کا ممبر ہے جسے سویڈن کے وزیراعظم نے ’ایک ایجنڈے والی نیو فاشسٹ پارٹی‘ قرار دیا تھا جس کی ’جڑیں نازی اور نسل پرستانہ‘ ہیں'
بحیثیتِ مجموعی قرارداد پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔ قانون سازی اور آئینی ترمیم و تنسیخ مملکت کی پارلیمان کا استحقاق میں جس میں دخل اندازی کسی بھی خودمختار ملک کیلئے نا قابل قبول ہے۔ حال ہی اسکارف پر پابندی کے فرانسیسی قانون پر صدر عارف علوی کی انتہائی شائستہ تنقید پر پیرس سخت مشتعل ہواتھا اور بلاتاخیر پاکستانی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کرکے تحریری شکوہ تھمادیا گیا۔
قانون میں سقم کی طرف توجہ دلانا تو کوئی معیوب بات نہیں لیکن قانون سازی کو تجارتی تعلقات سے مشروط کرنا سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ناموس رسالت کا حالیہ قانوں 1997 سے نافذ العمل ہے اور اسکے ہوتے ہوئے 2014 میں جی ایس پی پلس کی مراعات پاکستان کو دی گئی تھیں۔ اب ایسے وقت جب پاکستان کی معیشت دباو میں ہے جی ایس پی پلس کے تسلسل کیلئے قانون سازی پر اصرار صریح بلیک میلنگ ہے۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر دباو میں آکر آج یہ بات مان لی گئی تو کل تحفظ ختم نبوت ترمیم کی تنسیخ کا مطالبہ بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو پاکستان کے جوہری پروگرام پر شدید تحفظات ہیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مناسب موقع پر جی ایس پی پلس کو جوہری سرگر میاں منجمد یا roll back کرنے سے مشروط نہیں کیا جائیگا۔
اقتصادی آزمائش اپنی جگہ لیکن افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کو یورپ اچھی طرح سمجھتا ہے۔ سرتوڑ کوششوں کے باوجود واشنگٹن اور برسلز اس حوالے سے پاکستان کی اہمیت کم نہ کرسکے۔ ترقیاتی پروگراموں کے نام پر اربوں ڈالر پھونک دینے کے باوجود اسلام آباد کو دیوار سے لگاکر ہندوستان کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ مغرب کو خوب معلوم ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کی محفوط واپسی اور اسکے بعد وہاں قیامِ امن اور دہشت گردی پر نظر رکھنے کیلئے اسلام آباد کا تعاون ضروری ہے۔ دیکھنا ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی تزویراتی اہمیت کا احساس دلاکر برسلز کو معقولیت اختیار کرنے پر کیسے آمادہ کرتی ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 مئی
2021
No comments:
Post a Comment