Thursday, May 6, 2021

بائیڈن سرکار کے پہلے 100 دن۔ چشم کشا انکشافات اور ایشیائی نیٹو کا عزم

بائیڈن سرکار کے پہلے 100 دن۔ چشم کشا انکشافات اور ایشیائی نیٹو کا عزم

ہفتہ 29 اپریل کو صدر جو بائیڈن حکومت کے 100 دن مکمل ہوگئے۔ نئے امریکی صدر کی کارکردگی جانچنے کی اس کسوٹی کے موجد FDRکے نام سے مشہور صدر فرینکلن ڈی ررزویلٹ ہیں جنھوں نے بدترین کساد بازاری یا گریٹ ڈیپریشن کے بعد 4 مارچ کو1933 اقتدار سنبھالا تھا۔ بیروزگاری عروج پر اور بازار حصص میں شدیدترین مندی تھی۔بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے لاکھوں خاندانوں کی عمر بھی کی جمع پونجی لٹ چکی تھی۔ آٹھ نومبر 1932کو ہونے والے ان انتخابات میں FDRنے ریپبلکن صدر ہربرٹ ہوورز) (Herbert Hoover کو بری طرح سے شکست دی تھی۔ بیروزگاری کاخاتمہ، امریکیوں کی بچت کا تحفظ اور خوشی و خوشحالی انکے منشور کے بنیادی نکات تھے۔اس  وقت انتخابات سے انتقالِ اقتدار کا عبوری دور تقریباً چار مہینے کا تھا۔ اس عرصے میں  صدر ہووور نے معیشت کی بہتری کیلئےکئی صدراتی آڈینینس جاری کئے۔سبکدوش ہونے والے صدرکی خواہش تھی کہ صدارتی احکامات کی صورت میں انھوں جو پالیسی وضع کی ہےاسکاتسلسل برقرار رکھا جائے اور FDRاپنے منشور پر عملدرآمد معطل کردیں۔

صدر روزویلٹ نے اپنے پیشرو کی یہ تجویز مسترد کردی۔ انکاکہناتھا کہ امریکی عوام نے انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے انقلابی منشور پر  ووٹ دئے ہیں اور وہ عوام سے کئے گئے وعدوں سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ منشور پر عملدرآمد کے لئے تیز رفتار قانون سازی کی ضرورت تھی چنانچہ  انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس (پارلیمان) کا خصوصی اجلاس طلب کیا جو تین مہینے سے کچھ زیادہ یعنی 100 دن جاری رہا ہے جسکے بعد FDRنے 'خوف نہیں امید' یا Hope over fearکے عنوان سے انتہائی جذباتی خطاب کیا جس میں انھوں نے اپنے اقتدار کے پہلے 100 دن کی قانون سازی اور اسکے معیشت پر متوقع اثرات کا جائزہ پیش کیا اور وہیں سے پہلے سودن کی اصطلاح وضع ہوئی۔

علمائے سیاست کا خیال ہے کہ نئےصدر کی کارکردگی جانچنے کیلئے 100 دن کا سنگ میل کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔ امریکہ میں اٹارنی جنرل سمیت پوری کابینہ کی سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔ مجالس قائمہ کے روبرو سماعت ہی میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں جسکے بعد ایوان میں رائے شماری کا مرحلہ آتا ہے۔کابینہ کی تکمیل میں دوماہ لگتے ہیں، تب کہیں جاکر نئی انتظامیہ کام شروع کرتی ہے۔ چار سالہ اقتدار مجموعی طور پر 1461 دنوں پر محیط ہے اور اس اعتبار سے ابتدائی 100دن مدتِ اقتدار کے 7 فیصد سے بھی کم ہے۔لیکن امریکہ میں گزشتہ 88 سال سے نئے  صدر کے پہلے100 دنوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔

اس تمہید کے بعد اب جناب بائیڈن کے سو دنوں کا جائزہ لیتے ہیں۔عام طور سے پہلے سو دن کی کارکردگی پر ذرایع ابلاغ  تجزئے پیش کرتے ہیں اور صدر خود کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اس بار نئی حکومت کی کامرانیوں اور مواقع و امکانات کےجائزے کیلئے کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی نے صدر بائیڈن کو امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی۔یہ تقریب اس اعتبار سے منفرد تھی کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار کانگریس کے دونوں ایوانوں کی سربراہی خواتین کے ہاتھوں میں ہے اور خطاب کے دوران دو خواتین یعنی ایوان زیریں کی اسپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ کی صدر نشیں کملادیوی ہیرس صدر کی پشت پر تھیں۔ یہ دونوں صدر بائیڈن کی پرجوش حامی ہیں۔ گزشتہ سال جب صدر ٹرمپ نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تو پیچھے بیٹھی اسپیکر نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تقریر کے اختتام پر صدارتی خطاب  کا مسودہ پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔اس منظرکو کروڑوں لوگوں نے ٹی وی پر براہ راست دیکھا۔

کرونا وبا کی وجہ سے اس بار مہمانوں سمیت صرف 200 افراد کو مدعو کیا گیاتھا حالانکہ سینٹرز اور ایوان نمائندگان کے ارکان کی  مجموعی تعداد ہی 535 ہے۔ عام طور سے کانگریس سے صدر کے خطاب میں ارکانِ پارلیمان کے علاوہ وزرا، سپریم کورٹ کے جج، فوج کے سربراہان، دوست ممالک کے سفرا اور کاروباری شخصیات سمیت 1000 ہزار مہمانوں کو مدعو کیا جاتاہے۔

ایک گھنٹہ چار منٹ دورانئے کی اس تقریر میں صدر جو بائیڈن نے امریکی معیشت کو درپیش مشکلات اور بہتری کے مواقع و  امکانات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ساتھ ہی 6 جنوری کو کانگریس کی عمارت پر یلغار اور بڑھتی ہوئی نسلی کشیدگی کے تناظر میں جمہوریت کو حائل خطرات کا بھی ذکر کیا۔اس دوران انھوں نے خارجہ امور کے باب میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان مکالمہِ اربع یا Quadrilateral Security Dialogueالمعروف Quad، چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا سرسری سا تذکرہ کیا۔ یہی ہمارا آج کاموضوع ہے۔

لیکن اس سے پہلے امریکہ کے بارے چند چشم کشا حقائق جسکا ذکر سماجیات کے علما تو کافی عرصے سے کررہے ہیں لیکن سینیٹر برنی سینڈرز کے علاوہ کسی بھی سیاست دان  میں اس اعتراف کی جرات نہ تھی۔ صدر بائیڈن نے کہا:

  • امریکہ میں شوہر یاظالم محبوب (بوائے فرینڈ) کی فائرنگ سے ہر ماہ پچاس خواتین ہلاک ہورہی ہیں
  • کرونا وبا کی وجہ سے 20 لاکھ نوکری پیشہ خواتیں گھر بیٹھ رہیں کہ نہ تو گھر میں کوئی ہے جو بچوں کی دیکھ بھال کرسکے اور نہ وہ آیا کے اخراجات برداشت کرسکتی ہیں۔
  • امریکہ کے غریب طبقے کا افلاس اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ مفت خوراک کے مراکز پر ایک تھیلے راشن کیلئے کاروں کی کئی میل طویل قطار نظر آتی ہے
  • امریکہ کے ایک کروڑ گھروں اور 4لاکھ تعلیمی اداروں میں فراہم کیا جانیوالا پانی سیسے (Lead)سے آلودہ ہے
  • کرونا وبا کے دوران 2 کروڑ امریکی بیروزگار ہوگئے لیکن اسی عرصے میں ملک کے 650 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان لوگوں کی مجموعی دولت کا حجم اب 4 ہزار ارب ڈالر ہے
  • گزشتہ برس امریکہ کی 55 کارپوریشنوں کا مجموعی منافع 40 ارب ڈالر تھا لیکن ان میں سے کسی ادارے نے ایک پائی ٹیکس ادا نہیں کیا 

مکالمہ اربع کا نام لئے بغیر جناب بائیڈن  نے کہا کہ  ہم بحرجنوبی چین میں نہ صرف  عسکری موجودگی برقراررکھیں گے بلکہ چینی صدر کو بتادیا گیاہے کہ امریکہ ہندوبحرالکاہل Indo-pacific میں نیٹو کی طرز پر موثر عسکری قوت رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔اپنے خطاب میں صدر نے تفصیل نہیں بتائی لیکن اس  غیر مبہم بیان سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ  کواڈ کو نیٹو کے انداز میں منظم کیا جائیگا۔ کواڈ (چار) ممالک  کے درمیان  بحرالکاہل  کی نگرانی کیلئے  فوجی تعاون   2007 سے جاری  ہے جسے جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو ایبے نے ایشیائی قوس جمہوریت یا Asian Arc of Democracy قراردیاتھا۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اور قومی سلامتی کیلئے صدرر بائیڈن کے مشیر جیک سالیون کا شمار کواڈ کے معماروں میں ہوتاہے۔ یہ دونوں حضرات اوباما انتظامیہ میں نائب وزیرخارجہ تھے۔

کواڈ  کا  تزویراتی  (Strategic)ہدف  بحرالکاہل خاص طور سے بحر جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو غیر موثر کرنا ہے۔ عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال  کیلئے کواڈ ممالک وقتاً فوقتاً  بحری مشقیں  کرتے ہیں۔ اس نوعیت   کی  پہلی مشق 1992میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت  سے اسے  مالابار بحری مشق  پکارا گیا۔  بعد میں اس سرگرمی کا نام ہی مالابار مشق پڑگیا۔اب تک اس نوعیت کی 24 مشقیں ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بڑا مظاہرہ  2020 میں ہوا جب تین سے چھ نومبر کو خلیج بنگال اور  17 سے 20 نومبر تک بحرعرب میں دوستانہ میچ  ہوا۔

گزشتہ دس بارہ سالوں میں بیجنگ نے بحر جنوبی  اور مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے بنا کراس پر اڈے قائم کردئے ہیں۔ عسکری ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کچھ تنصیبات جوہری نوعیت کی بھی ہیں۔امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لیناآاسان نہیں  لہٰذا کواڈ کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب  سے اہم آبنائے ملاکا ہے۔

ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی  آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل ہے۔ آبنائے ملاکا بحرالکاہل کو بحر ہند سے ملاتی ہے۔ کواڈ بندوبست  کے تحت اس آبنائے کے شمالی دہانے کی نگرانی ہندوستانی ناو سینا (بحریہ)  کو  سونپی گئی ہے جبکہ اسکے جنوب مشرقی کونے پر آسٹریلوی بحریہ نظر رکھتی  ہے۔ بحر انڈمان سے خلیج بنگال تک   بھارتی بحریہ کے جہاز گشت کررہے ہیں۔  جزائر انڈمان پر امریکی و بھارتی بحریہ کی تنصیبات بھی ہیں۔

گزشتہ ماہ کواڈ کا    مجازی (Virtual)سربراہی اجلاس ہوا جس میں چاروں ملکوں نے  بحرالکاہل و بحر ہند تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے مل کر کام کرنے کا عزم کیا۔کواڈ کی سرگرمیاں بحر الکاہل اور بحر ہند تک محدود ہیں لیکن امریکہ اور کواڈ اتحادی گوادر کو چینی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔گزشتہ سال ہونے والی مالابار مشقیں بحر عرب میں بھی کی گئی تھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحفظات نہ ہو تب بھی کواڈ اتحادیوں کو گوادر سے دلچسپی ضرور ہے۔

نیٹو اتحاد کی سب سے اہم شق یہ ہے کہ کہ کسی بھی رکن پر حملہ یا اسکی سلامتی کو خطرہ تمام رکن ممالک پر حملے کے مترادف ہے  اور نیٹو اپنے رکن کے دفاع میں ہتھیار اٹھانے  کا پابند ہے۔ نائن الیون  واقعے کو امریکہ نے اپنی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیا تھا چنانچہ افغانستان پر پوری نیٹو نے حملہ کیا حتیٰ کہ ترکی نے بھی اپنے دستے بھیجے کہ نیٹوچارٹر کے تحت انقرہ اسکا پابند تھا۔ نیٹو کے انداز میں تنظیم پر اگر  کواڈ  نے بھی 'دوست کا دشمن،دشمن'کا اصول اپنالیا تو برصغیر میں دھماکہ خیز صورتحال پید ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد ۔ دلّی کشیدگی  ماضی میں کئی بار خونریز جنگ  کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ایشیائی نیٹو سے پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور علاقے کے کئی دوسرے ملک سفارتی آزمائش کا شکار ہوسکتے ہیں جو امریکہ اورچین دونوں سے دوستانہ تعلقات کے خواہشمند ہیں۔

امریکی صدر نے ایک بارپھر افغانستان سے انخلا کیلئے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ  نائن الیون کے بعد ہونے والی کاروائی کے اہداف حاصل کرلئے گئے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو انصاف  مل گیا اور القاعدہ کو کمزور کردیا گیا، چنانچہ ہمارے بہادرجوان احتشام و افتخار کے ساتھ واپس آرہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو انصاف ملنے کی بات کو خود امریکہ کے بہت سے قانونی ماہرین بھی تسلیم نہیں کرتے۔ امریکی وزارت دفاع  نے ایبٹ آباد آپریشن کی جو تفصیلات بیان کی تھیں اسکے مطابق جب  امریکی چھاپہ ماروں کا اسامہ بن لادن سے سامنا ہوا اسوقت القاعدہ کے سربراہ  اپنی خوابگاہ میں بالکل غیر مسلح تھے۔ وہیں انکی اہلیہ بھی محو خواب تھیں۔ اسکا مطلب ہواکہ کسی خطرے میں پڑے بغیر اسامہ بن لادن کو صحیح سلامت گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ اس صورت میں  نائن الیون اور دوسری دہشت گرد کاروائیوں کی شفاف تحقیقات ممکن تھیں لیکن انھیں موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار کر تحقیق و تفتیش کے باب کو ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا۔

افغانستان سے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے مراکز اب افغانستان سے یمن، صومالیہ شام اور افریقہ کے کچھ دوسرے علاقوں کو منتقل ہوچکے ہیں جہاں القاعدہ اور داعش کی سرگرمیاں بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ صدر بائیڈن نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ افغانستان سے فارغ ہونے والے عسکری، سراغرساں اورمالی وسائل کو دوسرے علاقوں میں سرگرم دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے استعمال کیا جائیگا۔

مسلم یغوروں کا نام لئے بغیر امریکی صدر نے کہا کہ چینی ہم منصب سے گفتگو کے دوران انھوں نے یہ بات غیر مبہم اور دوٹوک انداز میں واضح کردی ہےکہ امریکہ باہمی تعلقات کے حوالے سے انسانی حقوق کی پامالی پراپنی  آنکھیں بند نہیں رکھے گا۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے 'سب سے پہلے امریکہ' کے باب کو بند کرتے ہوئے 'قائدانہ کردارکے ساتھ امریکہ کی واپسی' کا اعلان کیا۔ انکا کہنا تھاکہ واشنگٹن ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے، جمہوریت، آزادانہ تجارت اور انسانی حقوق کا علمبراد بن کر کھڑا ہے اور اب  ان قوموں اور حکومتوں کا کڑا احتساب کیا جائیگا جو ان اقدار کی پامالی کی مرتکب ہونگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 7 مئی 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 7 مئی 2021

روزنامہ امت کراچی 7 مئی 2021

ہفت روزہ رہبر، سرینگر 9 مئی


2021

 

No comments:

Post a Comment