Thursday, December 23, 2021

عالمی سطح پر نئی صف بندی

 

عالمی سطح پر نئی صف بندی

ادھر کچھ عرصے سے بڑی طاقتوں کے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔اب تک ان بیٹھکوں کی نوعیت رسمی اوربظاہر خیر سگالی کا اظہار نظر آرہی ہے لیکن سیاسیات کے علما،عالمی صف بندی میں تجدید کے ایک نئے رجحان کا امکان ظاہر کررہے ہیں۔

پندرہ نومبر کو امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر ژی جی پنگ  کے مابین سمعی و بصری رابطے پر مجازی یا virtual  ملاقات ہوئی۔ بات چیت کے بارے میں قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس)  نے بتایا کہ دونوں رہنماوں نے  اُن تمام امور پر گفتگو کی جہاں ان ملکوں کے مفادات مشترک ہیں اور اسی کیساتھ ان معاملات پر بھی کھل کر بات  کی گئی  جہاں ہمارے مفادات، اقدار اور نقطہ نظر مختلف یا متوازی ہیں۔ صحافتی حلقوں کے مطابق  ویغور مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے  صدر بائیڈن کے سخت رویئے پر دونوں رہنماوں کے درمیان تیزوتند جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ 

اس ضمن میں آزاد بین الاقوامی ٹریبیونل کا حالیہ فیصلہ قارئیں کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اس آزاد ٹریبیونل کو کسی حکومت کی مدد یا سرپرستی حاصل نہیں اور اسےستمبر 2020میں NGO Coalition for Genocide Responseنے قائم کیا تھا۔ آزاد ٹریبیونل کی تشکیل اس لئے ضروری سمجھی گئی کہ عالمی عدالت یا ICCنے یہ کہہ کر اس معاملے کی تحقیق سے انکار کردیا تھا کہ چین ICCکا رکن نہیں۔

تحقیقات کے دوران ویغور متاثرین سمیت 30 گواہ پیش ہوئے جن میں عالمی شہرت یافتہ وکلا اور دانشور شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے بیانات کے حق میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کئے۔ٹریبیونل نے چینی حکومت کو سنکیانک کے ویغور مسلمانوں اور دوسری لسانی اقلیتوں کی نسل کشی، بہیمانہ تشدد اور بدسلوکی کا مرتکب قراردیا ہے۔ ٹریبیونل کے سربراہ سر جیفری نائس نے 9 دسمبر کو لندن میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت ویغوروں کی آبادی کم کرنے کیلئےجبری بانجھپن کے گھناونے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔سر نائس کا کہنا تھا کہ استغاثہ کی جانب سے موصول ہونے والے تمام شواہد مستند اور ہر قسم کے شک و شبہات سے پاک ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ظلم و ستم کی یہ کاروائی وفاقی حکومت کے ایما اور حکم پر ہورہی ہے۔چینی حکومت نے ان تحقیقات میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے سر نائس سمیت ٹریبیونل کے ارکان پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ٹریبیونل چین کے خلاف سفید جھوٹ کاپرچار کررہا ہے۔

ٹریبیونل فیصلے کی مختصر روداد کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ویغور مسلمانوں کی حالتِ زار کے علاوہ صدر بائیڈن اور انکے چینی ہم منصب نے  باہمی تجارت کے امور، تائیوان، ہانگ کانگ، شمالی کوریا کے جوہری پروگرام، مشرق وسطٰی اور افغانستان کے  معاملے پر گفتگو کی اور اکثر معاملات پر  We agree to disagree کہہ کر، بات چیت جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ دوسرے موضوع پر تبادلہ خیال شروع ہوگیا۔

چینی صدر سے دو دو ہاتھ کے تین ہفتہ بعد صدر بائیڈں نے سات دسمبر کو اپنے روسی ہم منصب سے آن لائن ملاقات کی جسے واشنگٹن کےسفارتی حلقے 'دھواں دھار' گفتگو قراردے رہے ہیں۔دوگھنٹہ جاری رہنے والی ملاقات کا ایک نکاتی ایجنڈ یوکرین تھا۔ صدربائیڈن نے روسی صدر کو ڈرایا کہ اگر یوکرین پر حملہ کیا تو بہت برا ہوگا۔ پوٹن صاحب نے  ترکی بہ ترکی جواب  دیا کہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن اگر نیٹو نے رکنیت کا دائرہ یوکرین تک بڑھایا تو آپ کی بھی خیر نہیں۔آپ نیٹو کو ہماری سرحدوں سے دور رکھئے،ہم یوکرین سے دور رہینگے۔

 یہ تو تھا ذکر  'دشمنوں' سے گفت و شنیدکا۔ اسی دوران چچا سام نے اپنے حلیفوں، دوستوں اور نیازمندوں کو بھی شرف ملاقات بخشا۔ نو اور دس دسمبر کو چوٹی کانفرنس برائے جمہوریت منعقد ہوئی جسکی تفصیل ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں۔ اس کانفرنس کی دعوت نہ ملنے پر سوڈان کے وزیراعظم عبداللہ حمدوک،  مصر کے جنرل السیسی، سنار بنگلہ کی وزیراعظم حسینہ واجد اور تیونس کے صدر قیس سعید مغموم بلکہ ناراض ہیں۔

امریکہ کے سخت روئے اور جمہوریت کانفرنس کے نام پر حلیفوں کی طلبی کے جواب میں روس اور چین کے درمیان بھی تزویراتی (strategic)نوعیت کی بات چیت شروع ہوئی اور 15 دسمبرکو روس اور چین کے سربراہوں نے بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس کی طرح سمعی اور بصری رابطے پر مجازی  سربراہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔

اس گفتگو کا سب سے اہم نکتہ یوکرین تھا جہاں متوقع اور مبینہ مداخلت پر یورپ  اور روس کے درمیان  دھمکیوں کا تبادلہ جاری ہے۔یوکرین نے سوویت یونین کے قیام اور تحلیل دونوں میں  کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ دسمبر 1991میں یوکرین سوویت ریپبلک،  بلارس سوویت ریپبلک اور رشین سوویت ریپبلک کا اجلاس صدر بورس یلسن کی صدارت میں ہوا جس میں سوویت یونین کی بطور ریاست تحلیل کا رسمی اعلان کیا گیا تھا۔

آزادی کے وقت سے ہی روس اور یوکرین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یوکرین کا بحر اسود سے جڑا جزیرہ نمائے کریمیا ہے۔ دس ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل یہ جزیرہ نما، بحر اسود اور بحر ازاق سے گھرا ہوا ہے اور تین میل لمبی ایک تنگ سی خشک پٹی اسے یوکرین سے ملاتی ہے۔ ابتدا میں کریمیا عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد اسے یوکرین میں ضم کردیا گیا۔ یہ خطہ کریمیائی تاتار اور ترک نژاد تاتاروں کا مسکن ہے۔ تاتار منگولوں کے اس لشکر کا ہراول دستہ تھے جنھوں نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ لیکن بغداد کے مرکزی کتب خانے، جدیدترین ہسپتالوں، لائبریریوں اور دمشق کے عالیشان مدرسوں کو نذر آتش کرنے والے یہ وحشی بہت دنوں تک اسلام دشمنی پر قائم نہ رہ سکے اور خود غارتگر اعظم ہلاکو کا بیٹا مسلمان ہوگیا اور بعدمیں یہی تاتاری عظیم الشان عثمانی سلطنت کے معمار ثابت ہوئے۔ جوانانِ تتاری کسقدر صاحب نظر نکلے(اقبال

دہائیوں بلکہ ایک صدی سے زیادہ طویل روس تاتار کشکمش اسوقت عروج پر پہنچی جب مارچ 2014 میں روسی فوج نے کریمیا پر قبضہ کرلیا اور لاکھوں تاتاروں کو قازقستان کی طرف ہانک دیا گیا۔ یورپ کو تاتاروں سے تو بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیکن  کریمیا پر قبضے کے بعد  بحر اسود پر روسی بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط ہوگئی ہے۔ یورپ کو یہ بھی ڈر ہے کہ انگلی پکڑتے پکڑتے  اگر روسیوں نے پورا ہاتھ پکڑلیاتو کریملن کی مشرقی سرحدیں پولینڈ، سلاواکیہ، ہنگری اور رومانیہ سے جا ملینگی۔ اس موضوع  پر ہمارے مضمون 'کریمیا کے بعد مشرقی یوکرین۔  مسلمان تاتاروں کاتعاقب' فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 مئی 2014 میں  مزید تفصیلات موجود ہیں۔

صدر پوٹن نے یوکرین کا ذکر کرتے ہوئے اسں  حوالے سے مغربی یورپ، نیٹو اور امریکہ کے تمام تحفظات کو 'روس فوبیا' کا شاخسانہ قرار دیا۔ روسی رہنما کا کہنا تھا کہ مغربی یورپ اپنی جارحیت پر پردہ ڈالنے کیلئے کریملن پر جھوٹے الزامات لگارہا ہے۔ صدر پوٹن نے کہا کہ روس ، یوکرین سمیت اپنے کسی پڑوسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، لیکن  یورپ کے جنگجو یوکرین کو  نیٹو کی رکنیت دیکر  کواسے  روس سے لڑاناچاہتے ہیں۔صدر ژی پنگ نے یوکرین کے معاملے پر روسی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا پر  جبر اور  مرضی مسلط کرنے والے اپنے مقاصد کیلئے چھوٹے ملکوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ چین روس اور یوکرین دونوں کی دوستی پر فخر کرتا ہے۔

چین اور روس کی اس چوٹی ملاقات سے  تین  دن پہلے لیورپول، برطانیہ میں G-7کی وزرائے خارجہ کانفرنس ہوئی۔ جی 7 دنیا کی سات بڑی معیشتوں، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، کینیڈا، اٹلی اور جرمنی پر مشتمل ہے۔ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامئے میں روس کو متنبہ کیا گیا کہ وہ یوکرین  کیخلاف مہم جوئی سے باز رہے۔ کریملن نے اس دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ جی 7اپنے کام سے کام رکھے۔روس اور یوکرین  رابطے میں ہیں اور تنازعات کے حل کیلئے ہمیں مفت مشوروں کی ضرورت نہیں۔

امریکہ، روس اور چین ایک عرصے سے ایک دوسرے کے اعصاب بلکہ  گردنوں پر سوار ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران عالمی صف بندی میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔آج کی نشست میں  ہم الفت کی ان نئی پیش بندیوں کا ذکر اپنے 'محلّے' یعنی برصغیر تک محوود رکھیں گے۔

پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات آزادی کے پہلے روز سےصرف کشیدہ ہی نہیں بلکہ یہ دونوں ملک عملاً حالت جنگ میں ہیں۔چنانچہ بڑی طاقتوں سے تعلقات استوار کرتے وقت یہ دونوں ان ممکنات کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ اگر کسی وقت کشیدگی خونزیز جنگ میں تبدیل ہوگئی تو  یہ ' طاقتور دوست' پڑوسی کی گوشمالی یا اسکے 'شر' سے محفوظ رکھنے میں کیامدد فراہم کرسکتے ہیں۔

اس تناظر میں اگر ہم پاکستان اور ہندوستان کے امریکہ، روس اور چین سے تعلقات کا جائزہ لیں تواندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ہی پاکستان  امریکہ  کا 'جگری دوست' بن گیا۔ اس سیاسی سفارتی اور سماجی قربت نے پاکستان کو عسکری معاہدوں SEATOاور  معاہدہ بغداد المعروف CENTO سے وابستہ کردیا۔ دوسری طرف ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے روس سے 'نظریاتی' ہم آہنگی برقرار رکھتے ہوئے غیر وابستگی کی راہ کی۔ گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں غیر جانب دار تحریک یا NAMایک مضبوط قوت بن کر ابھری اور 120ملکوں نے نام کی رکنیت اختیار کرلی۔ بھارت کے نہرو،اندونیشیا کے صدر سوئیکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر اور یوگوسلاواکیہ کے مارشل ٹیٹو نام کے روح روا ں تھے۔ سیٹو اور سینٹو کی رکنیت اختیار کرکے پاکستان نے روس سے دشمنی مول لے لی۔چین کے تعلقات چونکہ بھارت سے کشیدہ تھے اسلئے امریکہ سے عہدوپیمان کے باوجود دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر چین اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں کوئی فرق نہ آیا۔

سیٹو، سینٹو معاہدوں کا پہلا امتحان 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ہوا جب اسلام آباد کی توقع کے برخلاف امریکہ نے جنگ میں پاکستان کی مدد نہ کی جبکہ بھارت مخالفت میں چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔امریکہ کی 'بیوفائی' پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے 1968 میں پاکستان نے امریکہ سے پشاور کے مضافاتی علاقے  بڈھ بیر میں قائم فوجی اڈہ خالی کرالیا۔ تین سال بعد 1971 کی جنگ ہوئی۔ اس بار پاکستان کی مدد کیلئے چھٹے امریکی بحری بیڑے کی آمد کا شور ہوا لیکن معاملہ مشغلہِ زبان سے آگے نہ بڑھا۔ اس تمام عرصے میں ہندوستان نے نام کیساتھ روس اور اسکے مشرقی یورپی حلیفوں سے قریبی تعلقات بحال رکھے۔

مشرقی بازو کی علیحدگی کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں سردمہری پیدا ہوگئی۔ جب1977 میں SEATOاور اسکے دوسال بعد CENTO  معاہدے تحلیل ہوگئے تو امریکہ سے رہی سہی عسکری وابستگی بھی ختم ہوگئی لیکن اسی دوران روس افغانستان پر چڑھ دوڑا اور 1981 میں صدر رونالڈ ریگن کے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان نے کمیونزم کے خلاف دفاعی لائن کا علم اٹھالیا۔ دوسری طرف ہندوستان نے افغانستان پر روس کی حملے کی حمائت تو نہیں کی لیکن بھرپور مخالفت سے نہ صرف پرہیز کیا بلکہ امریکی کی قیادت میں ہونے والے1980 کےماسکو اولمپک بائیکاٹ میں بھی شریک نہ ہوا، جبکہ افغانستان تنازعے نے روس پاکستان کشیدگی کو مزید تلخ کردیا۔

افغانستان سے روس کی پسپائی پر حسب روائت و توقع  امریکہ ایک بار پھر پاکستان سے بیگانہ ہوگیا اور جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نائن الیون سانحے کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت نے دامے، درمے، قدمے سخنے افغانستان پر امریکی حملے کی حمائت کی۔ تاہم امریکہ کے تحقیر آمیز روئیے سے  یہ بات بہت واضح ہوگئی کہ دوستی  دھمکی و جبر کا نتیجہ تھی۔صدر بائیڈن نے جو اسوقت ملک کے نائب صدر تھے، ببانگ دہل پاکستان کو دوغلہ اور ناقابل اعتماد اتحادی قراردیا۔

مختصر یہ کہ امریکہ اور پاکستان کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں رہے۔ ان ممالک کے تعلقات ہندوپاک کی ان شادیوں کی طرح ہیں جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں مگر بچوں کے مستقبل اور خاندان کی عزت کیلئے بادل ناخواستہ نباہ کیا جاتا ہے۔ہیلری کلنٹن صاحبہ کے  دورے اسلام آباد میں ایک پاکستانی خاتون نے پاک امریکہ تعلقات کو ساس بہو کے روائیتی رشتے سے تشبیہ دی تھی جہاں نٹ کھٹ ساس کسی طور اپنی  بہو سے راضی نہیں۔گزشتہ 74 سال کے دوران بڑی طاقتوں سے اسلام آباد کے جس نوعیت کے تعلقات رہے ہیں اس پس منظر میں روس، چین بمقابلہ امریکہ نئی عالمی صف بندی میں پاکستان کا کوئی کلیدی کردار نظر نہیں آتا۔ اپنے محل وقوع اور علاقے کی ایک مضبوط جوہری قوت کی حیثیت سے پاکستان ایک اہم کردار اداکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن خارجہ پالیسی کے باب میں اسلام آباد کا سیاسی عزم غیر واضح ہے۔

اب اگر اسی پہلو کا دِلّی بیٹھ کرنظارہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ہندوستانی قیادت نے اب تک اپنے پتے بہت مہارت سے کھیلے ہیں۔ہندوستان اپنی ضرورت کا ستر فیصد اسلحہ روس سے خریدتا ہے۔ دو سری طرف اس وقت ہندوستان کا سب سے مضبوط مخالف چین ہے۔ چین کے گھیراو کیلئے امریکہ نے اتحاد اربعہ یا QUAD کے نام سے جو عسکری اتحاد تشکیل دیا ہے ہندوستان نہ صرف اسکا سرگرم رکن ہے بلکہ بحر جنوبی چین کی نگرانی کیلئے آبنائے ملاکہ کے بحر ہند کی طرف کھلنے والے دہانے کی نگرانی بھی ہندناو سینا (بحریہ) کے ذمے ہے۔

کیاامریکہ مخالف اتحاد موثر بنانے کیلئے چین، روس کو ہندوستان سے اپنےتعلقات پرنظر ثانی کو کہے گا تو اسکا جواب پوٹن مودی حالیہ ملاقات میں مل چکا ہے جب روسی صدر نے صاف صاف کہدیا کہ روس بھارت اور  روس چین دوستی ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ بھارت چین تنازعات میں روس اپنی غیر جانبدار حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے گا۔پچھلے کچھ سالوں میں روس پاکستان تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے جس پر بظاہر دلی کو کوئی اعتراض نہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ روسی اسلحے کی خریداری کے باوجود ہندوستان کے تزویراتی مراسم امریکہ کے ساتھ ہیں اور بحرالکاہل یا جنوب ایشیا مٰیں امریکہ اور روس کے مابین مفادات کا براہ راست کوئی ٹکراو نہیں۔ اس تناظر میں کریملن دہلی گرمجوشی امریکہ کے حق میں ہے کہ  اسطرح  مخالف فریق سے بالواسطہ بات چیت کا راستہ کھلا رہیگا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 دسمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 دسمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 24 اگست 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 اگست 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment