Thursday, December 2, 2021

کرونا کا نیا حملہ اور تیل کی سیاست

کرونا کا نیا حملہ اور تیل کی سیاست

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانے کیلئے امریکہ، ہندوستان اور برطانیہ نے  اپنے تزویراتی ذخائر (Strategic Reserves)سے کروڑوں بیرل تیل بازار میں لانے کا اعلان کیاہے۔گزشتہ جمعرات (25نومبر) کو واشنگٹن سے جاری ہونے والے اعلامئے میں کہا گیا ہےکہ صدر بائیڈن نے امریکی ذخیرے سے  5 کروڑ بیرل تیل نکالنے منظوری دیدی ہے۔ اسی کیساتھ  برطانیہ نے ڈیڑھ کروڑ اور ہندوستان نے اپنے محفوظ ذخائر سے 50 لاکھ بیرل تیل جاری کرنے کا اعلان کردیا۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی محفوظ تیل کا کچھ حصہ فروخت کیلئے پیش  کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

قصرِ مرمریں کے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اپنے محفوظ ذخائر کا منہہ کھولنے سے پہلے صدربائیڈن نے روس اور سعودی عرب کی قیادت سے تیل کی پیداوار میں اضافے کی بات کی تھی لیکن ان ممالک کا موقف ہے کہ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا محرک پیداوارمیں کمی نہیں بلکہ امریکی ،چینی اور یورپی بندرگاہوں پر 'بحری ٹریفک جام' ہے۔ کروڑوں بیرل تیل سے لدے جہاز ساحلوں کے قریب کھلے سمندر میں قطار بنائے کھڑے ہیں۔ گودیوں پر جگہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے تیل اتارنے میں تاخیر اس بحران کا سبب  ہے۔

گویا زنجیرِ فراہمی یا Supply Chain  میں خلل سے پیٹرولیم مصنوعات سمیت تمام اشیا مہنگی ہوگئی ہیں اور جب تک بندرگاہوں پر سامان اتارنے کا کام معمول کے مطابق نہیں آجاتا تیل کی پیداواربڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مزید تیل بردار جہاز یا ٹینکروں کے آنے سے بندرگاہوں پر  دباو اور بڑھ جائیگا۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے  تیل کی قیمت میں ایک پائی کا اضافہ نہیں کیا بلکہ سعودی ارامکو اپنے ایشیائی صارفین یعنی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ اور فلپائن کو قیمتوں میں 3 ڈالر فی بیرل رعائت دے رہی ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ان  ذخائر کے پس منظر پر چند سطور۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ 1973کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسرائیل کے 'پشتیبانوں' کو تیل کی فراہمی پر جزوی پابندی عائد کردی تھی۔امریکہ، برطانیہ، کینیڈااور نیدرلینڈ (ہالینڈ) ان پابندیوں کے بنیادی ہدف تھے۔ بعد میں جاپان، پرتگال اور جنوبی افریقہ کو بھی تیل کی فراہمی محدود کردی گئی۔ اس مقصد کیلئے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی انجمن اوپیک OPECنے اپنی پیداوار 25 فیصد کم کردی۔ اسوقت اوپیک پا نچ بانی ارکان یعنی  سعودی عرب، عراق، ایران، کوئت اور وینیز ویلا سمیت 10 ارکان پر مشتمل تھی۔ دوسرے ارکان الجزائر، لیبیا، نائیجیریا، انڈونیشیا اور قطر تھے۔ دنیا میں فروخت ہونے والا 80 فیصد سے زیادہ تیل یہی ممالک فراہم کرتےتھے۔ اس زمانے میں تیل کی کوئی اقتصادی و تزویراتی اہمیت نہ تھی اور خام تیل  3 ڈالر فی بیرل فروخت ہوتا تھا۔

اوپیک کے اعلان کے ساتھ ہی تیل کی قیمت 10 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ خام تیل کی عدم دستیابی سے مغرب بلبلا اٹھا۔ پیٹرول پمپوں پر لمبی قطاروں ساتھ ایندھن کا راشن شروع ہوا، بجلی کی پیدوار میں خلل اور کارخانوں کے پہییے سست ہوگئے۔ امریکی بازار حصص پر جھاڑو پھر گیا اور سرمایہ کاروں کے کروڑوں ڈالر ڈوب گئے۔ یہ پہلا اور غالباً آخری موقعہ  تھا جب عربوں نے تیل  بطور ہتھیار استمال کیا۔ تاہم بائیکاٹ زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکا کہ عرب ممالک تیل نکالنے اور اسے صاف کرنے کی ٹیکنالوجی سمیت تمام اہم معاملات میں مغربی دنیا کے محتاج تھے۔ 

اس آفت سے سبق سیکھتے ہوئے امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں نے  عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے ۔ ایک طرف ملک کے اندر تیل و گیس کے وسائل کی تلاش و ترقی  کیلئے  ٹھوس اقدامات کئے گیے جن میں سلیٹی چٹانوں کو کھنگھالنے کا انقلابی قدم شامل ہے تو دوسری طرف مقامی وسائل کی ترقی کیساتھ  مستقبل بنیادوں پر خام تیل کے  عظیم الشان  تزویراتی ذخائر  تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا جسےLimited  Strategic Petroleum Reserveیا ISPRLکانام دیا گیا۔ اس مقصد کیلئےزیرزمین   depleted Reservoir کو استعمال کیا جارہا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ   جن  ذخائر سے    تیل  اور گیس کی قابلِ پیداوار مقدار نکال لی گئی انکی مسامدار چٹانوں کو خام تیل  سے بھردیا گیا۔ 

اس منصوبے کے تحت امریکہ میں   اسوقت چار بڑے ذخائر تیل سے لبالب بھرے ہوئے ہیں

·         خلیج میکسیکو میں فری پورٹ کے مقام پر  زیرآب  (Offshore)غاروں میں 25 کروڑ 40 لاکھ بیرل تیل  محفوظ ہے جہاں سے پندرہ لاکھ بیرل تیرل روزانہ نکالا جاسکتا ہے۔

·         ہیوسٹن کے قریب ونی Winnieکے علاقے میں  Big Hillنامی ذخیرے میں  16 کروڑ بیرل تیل  جمع ہے جہاں سے گیارہ لاکھ بیرل تیل روزانہ   نکالا جاسکتا ہے۔

·         لوزیانہ میں  لیک چارلس کے ساحلی مقام پر کنویں کھود کر مسام دار چٹانوں میں 22 کروڑ 27 لاکھ  تیل ذخیرہ کیاگیا ہے۔ ان ذخائر سے روزانہ تیرہ لاکھ بیرل تیل نکالا جاسکتا ہے۔

·         لوزیانہ کے ریاستی دارالحکومت بیٹن روج Baton Rougeمیں 7 کروڑ 60 لاکھ بیرل تیل جمع ہے جہاں سے تیل نکالنے کی گنجائش ساڑھے پانچ لاکھ بیرل تیل یومیہ ہے۔

اس  وقت  ان چارذخائر میں مجموعی طور72 کروڑ بیرل تیل موجود ہے۔

ہندوستان میں تزویراتی  ذخائر  کیلئےReserves Company Indian Strategic Petroleum یا ISPRLکے نام سے ایک ادارہ قائم کیاگیا ہے۔ آئی ایس پی آر ایل  نے اب تک چار ذخائر تعمیر کئے ہیں، جن میں چھ کروڑ94 لاکھ بیرل تیل ذخیرہ ہے۔ ان ذخائر کی تفصیل کچھ اسطرح ہے۔

·         آندھراپردیش میں ویساکھ پتنم کے مقام پر قائم ہونے والے ذخیرے کی گنجائش 98 لاکھ بیرل ہے۔

·         کرناٹکا ریاست  کے مقام منگلور میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ بیرل تیل ذخیرہ ہے۔

·         کرناٹکا ہی میں پادور کے مقام پر ایک کروڑ 85 لاکھ بیرل تیل جمع ہے۔

·         سب سے بڑا ذخیرہ ریاست اڑیسہ میں چندیکھول کے مقام پر ہے جسکی گنجائش  3 کروڑ  بیرل  کے قریب ہے۔

برطانیہ میں قایم کئے جانیوالے SPRکی تفصیلات پوشیدہ رکھی گئی ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں اس ذخیرے کا مجموعی حجم نو کروڑ بیرل ہے۔ چین نے 'برے وقتوں' کیلئے  تین کروڑ 70 لاکھ بیرل محفوظ کررکھے ہیں۔  جنوبی کوریا اور جاپان میں قائم کئے گئے SPRکا مجموعی حجم دو کروڑ بیرل بتایا جاتا ہے۔

کیا تیل کی یہ اضافی مقدار قیمتیں گرانے کیلئے کافی ہے ؟ ہمارا خیال ہے کہ  بازار کی نفسیات  کے تحت وقتی طور پرتو قیمتیں دباو میں ضرور آجائینگی لیکن  اس سے  دام میں مسلسل گراوٹ کا امکان نہیں۔ ان تمام ممالک میں صرف امریکی ذخیرے کا حجم غیر معمولی ہے ورنہ  چچا سام کے  'حسکے' میں برطانیہ اور  ہندوستان کی یہ کوششیں ،خود اُنھیں کو مشکل میں ڈال سکتی ہیں۔مثال کے طور پر ہندوستان کے تزویراتی ذخیرے کی گنجائش  سات کروڑ اور یومیہ درآمد 45 لاکھ بیرل ہے،یعنی  اس مقدار سےصرف 16 دن کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ ایسا ہی حال چین، جنوبی کوریا  اور جاپان کا ہے۔

امریکہ کا بھی معاملہ یہ ہے کہ وہاں تیل کی یومیہ کھپت ڈیڑھ کروڑ بیرل ہے یعنی قدرتی وسائل کو بیدریغ استعمال کرنے والے امریکی SPRسے جاری ہونے والا تیل صرف پانچ دن میں پھونک ڈالیں گے۔ دنیا کو اس وقت 9 کروڑ60لاکھ بیرل تیل روزانہ کی ضرورت ہے جبکہ مجموعی عالمی پیدوار کا تخمینہ ساڑھے آٹھ کروڑ بیرل ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اوپیک کے ممالک ہر ماہ اپنی پیداوار میں چار لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کررہے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے اوپیک پر دباو کوئی نئی بات نہیں۔ آج امریکی صدر پیداوار میں اضافے پر اصرار کررہے ہیں جبکہ گزشتہ سال اپریل میں جب تیل کی قیمتیں زمین سے لگ جانے کی بنا پر امریکہ کی کئی تیل کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں تو سابق صدر ٹرمپ کی 'درخواست' پر اوپیک اور روس نے  پیدوار میں 96 لاکھ بیرل کی کمی کی تھی۔

صدر بائیڈن کو بارہ ماہ بعد وسط مدتی انتخابات کا سامنا ہے، جب سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں اور ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی)کا چناو ہونا ہے۔ سینیٹ میں صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی اور حزب اختلاف کی ریپبلکن پارٹی 50:50سے بالکل برابر ہیں  اور435 رکنی ایوان نمائندگان میں حکمران جماعت کو صرف 8 نشستوں کی برتری حاصل ہے۔ مہنگائی سے عام لوگ پریشان  اور رائے عامہ کے جائزے صدر بائیڈن کیلئے  مایوس کن ہیں۔

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جہاں امریکی عوام پریشان ہیں وہیں تیل کمپنیاں بھاری منافع کمارہی ہیں۔ تیل کی صنعت نے ترغیب کاروں (Lobbyists)کا ایک بہت بڑا جتھ ترتیب دے رکھا ہے۔ امریکی سیاست میں ترغیب کاروں کو بادشاہ گرسمجھا جاتا ہے اور صدر بائیڈن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جتھے سے ٹکر لینا انکی سیاسی عاقبت کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس تناظر میں SPRسے تیل جاری کرنے کا حکم مہنگائی کے ستائے امریکیوں کی اشک شوئی سے زیادہ کچھ نہیں۔ انکے اس فیصلے سے مقامی  پمپوں پر پیٹرول کی قیمتیں 15 سے 20 سینیٹ فی گیلن کم ہوگئیں لیکن عالمی سطح پر اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ امریکی برانڈ WTIاور بحرِ شمالی (North Sea)کے برینت کی  قیمتوں میں صرف  37 سینٹ فی بیرل کی کمی نوٹ کی گئی۔ دوسری طرف سعودیوں کا عرب لائٹ ساڑھے تین ڈالر فی بیرل مزید مہنگا ہوگیا۔ صدر بائیڈن چاہتے تھے کہ امریکی تیل کمپنیوں کا مفاد محفوظ رکھتے ہوئے مقامی صارفین کی مشکلات کو کچھ کم کردیا جائے۔ جس میں وہ کامیاب نظر آرہے ہیں۔

یہاں تک کو بازی امریکی صدر کے ہاتھ رہی لیکن  قدرت کے عزائم مختلف نظر آرہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں ظاہر ہونے والی کرونا کی نئی متغیر قسم Omicron اب یورپ پر حملہ آور ہے۔ آسٹریا  میں ملک گیر جبکہ جرمنی اور فرانس میں جزوی لاک ڈاون کا آغاز ہوچکا ہے جسکی وجہ سے معاشی سرگرمیاں یقیناً متاثر ہونگی اور اقتصادیات میں آنے والے متوقع تعطل سے تیل کی طلب اورقیمتوں میں کمی خارج از امکان نہیں۔

 یعنی صدر بائیڈن کے اقدامات سے تو اوپیک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن نامراد کروناکی یورپ میں جارحانہ پیشقدمی نے خرابی کا آغاز کردیا ہے۔ جمعہ کوWTIکی قیمت 82 سے کم ہوکر 69 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ اسی تناسب سے برینٹ بھی نیچے آیا، تاہم عرب لائٹ کی قیمت صرف 2 ڈالر کم ہوئی۔ تیل کیساتھ امریکی بازار حصص بھی 900 پوائنٹ نیچے گرگیا۔

اسوقت یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آنے والے دنوں میں تیل کی قیمت کس نشان پر رہیگی۔اوپیک نے خطرے کا احساس کرتے ہوئے سوچ بچار شروع کردیا ہے اور اگر یورپ میں Omicron کی تباہ کاری جاری رہی تو اوپیک ارکان بازار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے پیدوار میں کٹوتی کا ہتھیار استعمال کرینگے۔ گویا، مہنگائی کی ماری  تیسری دنیا کیلئے راحت کی فی الحال کوئی  امید نظر  نہیں آتی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 3 دسمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی، 3 دسمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 3 دسمبر 2021

ہفت روز رہبر سرینگر 5 دسمبر 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment