پہلے 100 دن
نو دسمبر کو افغان حکومت کے 100 دن مکمل ہوگئے۔نئی حکومت کی کارکردگی جانچنے کی اس کسوٹی کے موجد FDRکے نام سے مشہور، امریکی صدر فرینکلن ڈی ررزویلٹ ہیں جنھوں نے بدترین کساد بازاری یا گریٹ ڈیپریشن کے بعد 4 مارچ 1933 کواقتدار سنبھالا تھا۔ بیروزگاری عروج پر اور بازار حصص میں شدیدترین مندی تھی۔بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے لاکھوں خاندانوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لٹ چکی تھی۔ آٹھ نومبر 1932کو ہونے والے ان انتخابات میں FDRنے ریپبلکن صدر ہربرٹ ہوورز) (Herbert Hoover کو بری طرح سے شکست دے دی۔ بیروزگاری کاخاتمہ، امریکیوں کی بچت کا تحفظ اور خوشی و خوشحالی انکے منشور کے بنیادی نکات تھے۔اس وقت انتخابات سے انتقالِ اقتدار کا عبوری دور تقریباً چار مہینے کا تھا۔ اس عرصے میں صدر ہووور نے معیشت کی بہتری کیلئےکئی صدراتی آڈینینس جاری کئے۔سبکدوش ہونے والے صدرکی خواہش تھی کہ صدارتی احکامات کی شکل میں انھوں نے جو پالیسی وضع کی ہےاسکاتسلسل برقرار رکھا جائے اور FDRاپنے منشور پر عملدرآمد معطل کردیں۔
صدر روزویلٹ نے اپنے پیشرو کی یہ تجویز مسترد کردی۔ انکاکہناتھا کہ امریکی عوام نے انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے انقلابی منشور پر ووٹ دئے ہیں اور وہ عوام سے کئے گئے وعدوں سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ منشور پر عملدرآمد کے لئے تیز رفتار قانون سازی کی ضرورت تھی چنانچہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس (پارلیمان) کا خصوصی اجلاس طلب کیا جو تین مہینے سے کچھ زیادہ یعنی 100 دن جاری رہا جسکے بعد FDRنے 'خوف نہیں امید' یا Hope over fearکے عنوان سے ایک جذباتی خطاب کیا جس میں انھوں نے اپنے اقتدار کے پہلے 100 دن کی قانون سازی اور اسکے معیشت پر متوقع اثرات کا جائزہ پیش کیا اور وہیں سے پہلے سودن کی اصطلاح وضع ہوئی۔
افغان حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے 100 دن کا سنگ میل کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں کہ نئی حکومت عبوری ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ یہ بندوبست کتنا عرصہ جاری رہیگا۔ لیکن بین الاقوامی سیاست کے علما اور صحافتی حلقے 'ملاوں کے سو دنوں' کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں، چنانچہ ہم بھی آج گزشتہ تین مہینوں کے دوران مولویوں کے 'لچھن' کی روشنی میں انکے عزم و ارادے اور ترجیحات پر نظر ڈالیں گے۔
اس ضمن میں نئی افغان حکومت کا ایک اہم قدم خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک تفصیلی ہدائت نامہ ہے۔ وزارت اطلاعات نے اس دستاویز کو 'حقوقِ نسواں کا چارٹر' قرار دیاہے۔ اس انقلابی حکم نامے کے چند اہم نکات کچھ اسطرح ہیں:
- نکاح کیلئے لڑکی کی رضامندی لازمی ہے۔ اس معاملے میں جبر، خوف، ادلہ بدلہ، جائیداد کی تقسیم اور کسی بھی قسم کی مالی پیشکش و ترغیب یا زبردستی، سنگین جرم قرارپائیگی
- خاتون جائیداد یا پراپرٹی نہیں کہ اسے کسی سودے کا حصہ بنالیا جائے۔ عورت معاشرے میں برابر کی حصہ دار ہے، جسکی آزادی پر کوئی سودے بازی نہیں ہوسکتی
- شوہر کی موت پر عدت گزارنے کے بعد عورت اپنے مستقبل کافیصلہ خود کریگی
- بیوہ کو نکاح ثانی کی صورت میں مہر طئے کرنے کا مکمل اختیار ہوگا
- بیوہ عورت کو ترکے میں اسکا جائز حق ہر قیمت پر دلایا جائیگا
- ایک سے زیادہ اہلیہ رکھنے والا مرد تمام بیویوں سے انصاف کا پابند ہوگا
- مقامی عدالتیں خواتین کو انکے والدین، شوہر، بھائی اور بہن کے ترکے سے شریعت کے مطابق حق دلوانے کی پابند ہیں۔ حق تلفی کی صورت میں عورت قاضی القضاۃ کو درخواست دے سکتی ہے جسکی سماعت 48 گھنٹے کے اندر اندر ہوگی
اس سلسلے میں تربیتِ عامہ کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویزکئے گئے ہیں
- وزارتِ اوقاف کی نگرانی میں علما اورخطیب خواتین کے حقوق کی آگاہی مہم چلائنیگے۔کتابچوں اور تقریروں کے ذریعے عوام کو یہ بات سمجھائی جائیگی کہ اللہ کے عطا کردہ حقوق کی عدم ادائیگی سخت گناہ ہے۔خواتین سے بدسلوکی اور حق تلفی رب کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے۔
- وزارت اطلاعات، سمعی و بصری Audio-Visualپیغامات، مکالمے اور تقریروں کے ذریعے خواتین کے شرعی حقوق سے عوام کو آگاہ کریگی
- عدالتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدائت جاری کرینگی کہ خواتین خاص طور سے بیواوں کے حقوق کی پامالی سنگین جرم ہے اورخواتین کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے انکے حقوق کی ہر سطح ہر پاسداری کی جائے
- صوبائی گورنر اور ضلعی حکام اس ضمن میں وزارت انصاف، وزارت اطلاعات ، وزارت اوقاف اور دوسرے حکام سے مکمل تعاون کریں تاکہ خواتین کی حق تلفی کا کوئی امکان بھی باقی نہ رہے
اس موقع پر امریکہ کے موقر تعلیمی ادارے جامعہ ہارورڈنے جنگ کے اخراجات یعنی Cost of Warکے عنوان نے بیس سالہ طویل جنگ کے حتمی اعدادوشمار پیش کئے ہیں۔ یہ تفصیلی اور تحقیقی جائزہ جامعہ ہارورڈ اور رھوڈز آئی لینڈ(Rhodes Island) کی جامعہ براون کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
جائزے کے مطابق اس بے مقصد خونزیری پر امریکہ بہادر نے اپنے اتحادیوں سمیت 7438فوجی اور سویلین گنوائے جبکہ آزادی کی اس جدوجہد میں 16942طالبان اپنی جان سے گئے۔ اس وحشت کا نشانہ بننے والے قلم کے مزدوروں یعنی صحافیوں کا تخمینہ 72 ہے۔ اعدادوشمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شیر خوار بچوں سمیت ان افغان شہریوں کو شمار نہیں کیاگیا جو امریکی بمباری کا نشانہ بنے۔ ان بدنصیبوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔امریکی قوم کو اپنے سورماوں کا یہ شیطانی شوقِ کشور کشائی 22 کھرب 26 ارب ڈالر کا پڑا۔ ان میں سے 144 ارب ڈالر افغانستان کی 'تعمیرِ نو'پر خرچ کئے گئے جسکا بڑا حصہ سابقہ افغان حکومت کے اہلکار اور جرنیل ڈکار گئے۔
اس لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اور انکے نائب امراللہ صالح فرار ہوتے ہوئے کروڑوں ڈالر کی وہ نقدی بھی ساتھ لے گئے جو سرکاری ملازمین کی تنخواہ کیلئے وزارت خزانہ کی تجوریوں میں رکھی تھی۔ ان سرکاری ملازمین کو مئی کے ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ تعمیر نو پر ڈیڑھ سو ارب خرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان میں اوسط آمدنی 2 ڈالر روزانہ سے کم ہے۔یہ خطیر رقم اس ملک پر 'خرچ' کی گئی ہے جسکی کُل آبادی صرف چار کروڑ ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو نہ صرف افغان رہنماوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ چچا سام کے اہلکاروں نے بھی بہتی گنکا میں خالی ہاتھ گیلے کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ڈبکی لگاکر تفصیلی اشنان فرمایا۔
خواتین حقوق کے چارٹر اور امریکی قبضے کے اجمالی عسکری و اقتصادی جائزے کے بعد اگر ملاوں کے سو دن پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات بہت واضح ہے کہ 31 اگست کو جب اسٹوڈنٹس کابل میں داخل ہوئے تو اسوقت نہ صرف ملکی خزانہ مفلس کی جیب کی طرح بالکل خالی تھا بلکہ سرکاری ملازمین کو انکی تین مہینے کی تنخواہیں بھی واجب الادا تھیں۔ افغان سرکاری ملازمین کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے جنھیں تنخواہوں اور مراعات کی مد میں مجموعی طور پر35کروڑ ڈالر ادا کئے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ امریکہ میں افغانستان اسٹیٹ بینک کے 9ارب ڈالر منجمد کردئے گئے۔
زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان اسوقت دنیا سے تجارت تو دور کی بات، ضروری اشیائے خوردونوش بھی نہیں خرید سکتا۔ گویا چار کروڑ جیتے جاگتے خوددار انسانوں کی گزر بسر دوسرے ممالک اور خیراتی اداروں کی مدد پر ہے۔ ایسی صورت میں گھر کا باورچی خانہ نہیں چل سکتا ملک کا کاروبار کیسے رواں دواں رکھا جائے۔
دوسری جانب افغانستان کے دوست اور دشمن سب وسیع البنیاد یا ٰInclusiveحکومت کا راگ الاپ رہے بیں۔ جہاں تک سب کو لے کر چلنے کی بات ہے تو اس معاملے میں طالبان نے اب تک خاصی وسیع القلبی کا مظاہرہ کیاہے۔ سابق حکومتوں کے اعلٰی حکام کو عام معافی دیدی گئی جن میں فوجی افسران اور خفیہ اداروں کے وہ اہلکار بھی شامل ہیں جو ملاوں پر تشدد میں ملوث تھے۔ سابق صدر حامد کرزئی، چیف ایکزیکیٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق اقتدار کے دوسرے رہنما بہت اطمینان سے افغانستان میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد کی کرپشن زباں زدِ عام ہے لیکن نئے عبوری آئیں کے تحت احتساب عدلیہ کے سپرد کردیاگیا ہے اور عبوری بندوبست میں انتظامیہ کو عدلیہ کے معاملات میں دخل اندازی کا بالکل بھی اختیار نہیں۔
انکلیسیو حکومت کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسوقت افغانستان میں گلبدین حکمتیار اور چند ایک دوسرے رہنماوں کو چھوڑ کر سیاسی قیادت دو کیمپوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف وہ مجاہدین ہیں جنھوں نے 20 سال کا ایک ایک لمحہ آزادی کی جنگ میں صرف کیا اور دوسری جانب وہ لوگ جو قابضین کے دست وبازو بنے ہوئے تھے۔ملاایک بات بہت صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ قابضین، انکے سہولت کاروں اور پشتیبانوں کو دل سے معاف کردیا گیا اور کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں ہوگی لیکن ان میں سے کسی کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائیگا۔ اس بنا پر انکلیسو حکومت مطالبہ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
یہ درست کہ جنگجو ملاوں کو حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ لیکن مساجد و مدارس کے ذریعے انکی رسائی افغانستان کے ہر گلی کوچے تک ہے اور وہ عوامی مسائل کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔زمینی صورتحال پر گہری نظر کا نتیجہ ہے کہ پہلے سو دنوں میں اسٹوڈنٹس امن و امان قائم کرنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔اگست سے پہلے کابل شہر میں کوئی بھی شخص موبائل فون لے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ اسی طرح خواتین کے پرس چھیننے کے واقعات بھی عام تھے لیکن اب تمام بڑے شہروں میںStreet crime تقریباً نہ ہونے کے برابرہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں داعش کی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں لیکن باقی افغانستان میں صورتحال بڑی حد تک قابو میں ہے۔ بدامنی و بےچینی کے خاتمے کی بڑی وجہ سستا اور فوی انصاف ہے۔ مختلف مساجد میں قاضی عدالتوں کے ذریعے چھوٹے موٹے تنازعے فوری طور پر نبٹادئے جاتے ہیں جسکی وجہ سے گلی محلوں میں جھگڑوں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا ہے۔اکثر علاقوں میں قاضی عدالتیں امریکی قبضے کے دوران بھی کام کررہی تھیں اور اب یہ نظام مزید مستحکم ہوگیا ہے۔
ملاوں کے مخالفین بھی انکی امانت و دیانت کے معترف ہیں جسکی وجہ سے انکا ٹیکس کا نظام بہت بہتر ہوگیا ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران وزارت خزانہ نے محصولات کی مد میں 23 ارب افغانی (24 کروڑ ڈالر) اکٹھے کئے جن سے سرکاری ملازمین کی منجمد تنخواہ کا کچھ حصہ جاری کردیا گیا۔اسی کیساتھ مقامی تاجروں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے زرمبادلہ کمانے کے غیر روائتی راستے اختیار کئے جارہے ہیں۔ حال ہی میں کئی ٹن چلغوزے چین کو برآمد کئے گئے ہیں جو چینیوں کو بہت پسند آئے اور وزارت تجارت کے مطابق اس نوعیت کے کچھ دوسرے 'چھوٹے سودوں' کیلئے بات چیت جاری ہے
یہ اقدامات مثبت اور حوصلہ افزا تو ہیں لیکن تباہ حال معیشت کی تعمیرِ نو کیلئے کافی نہیں۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، فی الحال افغانستان کا گزارہ پاکستان، روس، چین، ترکی، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی امداد پر ہورہا ہے۔ اب ہندوستان بھی گندم بھجوارہا ہے، لیکن اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔ خزانہ خالی ہونے کے علاوہ سفارتی تنہائی طالبان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب تک دنیا کے کسی ملک نے کابل سرکار کو تسلیم نہیں کیا جسکی وجہ سے افغانوں کیلئے بین الاقوامی تجارت ناممکن حد تک مشکل ہے۔ کابل میں چین، ترکی، روس، پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے معمول کے مطابق کام کررہے ہیں لیکن ان ملکوں نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ حال ہی میں فرانس کے صدر ایمیونل میکراں نے یورپی یونین ممالک کیساتھ مل کر کابل میں سفارتخانہ کھولنے کا عندیہ دیا ہے۔
دوسری طرف معیشت کی حالت روزبروز ابتر ہوتی جارہی ہے ۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP)کے مطابق افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ افغانوں، خاص طور سے بچوں کو خوراک، ادویات اور لباس میسر نہیں ۔اس لئے اگر معاشی مسئلے بلکہ المیے کا حل نہ ڈھونڈا گیا تو امن وامان برقرار رکھنا ملاوں کے لئے مشکل ہوجائے گا۔
اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی برائے افغانستان محترمہ ڈیبورا لائنز Deborah Lyonsnکے خیال میں افغانستان پر عائد پابندیاں خاص طور سے امریکہ کی جانب سے انکے قومی خزانے کا انجماد افغان عوام کی مشکلات کی بنیادی وجہ ہے۔ سترہ (17) نومبر کو ایک اخباری کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یہ بتاچکی ہیں کہ اگرافغانستان پر سے مالی پابندیاں نہ ہٹائی گئیں تو وہاں جنم لینے والا انسانی المیہ ساری دنیا کیلئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے افغانستان کی امداد کیلئے اوآئی سی کا اجلاس پاکستان میں طلب کرنے کی تجویز دی ہے لیکن مفلوج و غیر موثر اوآئی سی سے طالبان سمیت کسی کو کوئی امید نہیں۔
بلا شبہ نئی افغان حکومت کے پہلے سو دن کسی بھی اعتبار سے مایوس کن نہیں اور صدر بائیڈن کی کٹھور دلی کے نتیجے میں مسلط کی جانیوالی مفلسی کے باوجود سرکاری ملازمین کو گزشتہ حکومت کے دور سے رکی تنخواہوں کی ادائیگی، امن و امان میں بہتری، شفاف نظامِ انصاف اور سب سے بڑھ کر بنیادی حقوق سے محروم خواتین کی داد رسی قابل تحسین ہے۔ ملا دوحہ امن معاہدے پر اسکی روح کے مطابق عمل کررہے ہیں۔افغانستان سے پسپائی کے دوران امریکیوں کی متعدد بمباری کے باوجود اسٹوڈنٹس نے امریکہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔اس کے باوجود امریکہ نے افغانستان کے اثاثے منجمند کردئے۔ اگر موجود بحران پر قابوپانے کیلئے اقوامِ عالم نے کابل سرکار کی مخلصانہ مدد نہ کی تو افغانوں کیساتھ جو ہوگا وہ تو ہوگا لیکن اسکے نتیجے میں غیر مستحکم افغانستان ساری دنیا کیلئے دردِ سر بن سکتا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 دسمبر 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی، 10 دسمبر 2021
روزنامہ امت کراچی 10 دسمبر 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر ، 12 دسمبر 2021
روزنامہ قومی صحافت لکھن
و
No comments:
Post a Comment