Wednesday, December 1, 2021

چین پاکستانی اقتصادی راہداری (CPEC)اور پاک چین دوستی کیخلاف سازش

 

چین پاکستانی اقتصادی راہداری (CPEC)اور پاک چین دوستی کیخلاف سازش

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کا دوسرا نام مچھیروں کی بستی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا رزق ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ قدرت نے گوادر سے متصل بحر عرب کو مچھلیوں سے آباد کررکھا ہے جہاں چھوٹی بڑی سینکڑوں قسم کی مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ گوادر میں  آباد مکرانی بلوچوں کی  اکثریت کئی صدیوں سے مچھلی پکڑنے کا کام کررہی ہے اور اس مقصد کیلئے کیلئے چھوٹی کشتیاں استعمال  ہوتی ہیں ۔

 یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گوادر ،سلطنت عُمان  کا حصہ تھا جسے 1958 میں وزیراعظم فیروزخان نون نے ساڑھے پانچ ارب روپئے کے عوض پاکستان میں شامل کیا تھا۔

سی پیک منصوبے کے آغاز سے گوادر میں غیر مقامی لوگوں کی آمد ورفت بہت بڑھ گئی ہے۔ حفاظت کیلئے ہرنُکّڑ پر حفاظتی چوکیا ں بھی ہیں جہاں تعنیات افراد کے رویئے کے بارے میں عام بلوچوں کو شکایات ہیں۔کئی جگہ دیواریں اور باڑھ بھی کھڑی کی گئی ہیں جس پر مقامی لوگوں کو شدید اعتراض ہے۔ ترقی کے نام پر گوادر کی زمینیں باہر کے لوگوں کو فروخت کی جارہی ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کی تقریباً ہر بڑی تقریب اور اجتماع میں مختلف ادارے رہائشی اور تجارتی مقاصد کیلئے گوادر کی زمین فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔

ادھر کچھ عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر ماہی گیروں کی سرگرمیاں  پرمحدود کردی گئی ہیں۔ بلوچ مچھیرے سویرے کشتیاں لے کر نکلتے ہیں اور شام تک آبی رزق کی  تلاش جاری رہتی ہے۔ لیکن اب  ماہی گیری کے اوقات متعین کردئے گئے  ہیں۔ انھیں  ماہی گیری لائسنس بنانے کیلئے کہا جارہا ہے۔ جس پر ان لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں لیکن کشتیوں کی جانچ پڑتال اور دوسری  گنجلک کاروائی کی وجہ سے  لائسنس حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور اس تمام عرصے میں وہ ماہی گیری نہیں کرسکتے جبکہ ان لوگوں کے لئے ماہی گیری کے علاوہ تلاشِ رزقِ حلال کااور کوئی ذریعہ نہیں۔

یہ تمام اقدامات سی پیک اور  چینیوں کی حفاظت کے نام پرکئے جارے ہیں

ایک طرف مقامی ماہی گیروں پر پابندی تو دوسری  جانب جدید ترین جال بردار کشتیاں یا Fishing Trawlersساحل کے بہت قریب ماہی گیری میں مصروف ہیں۔ یہ ٹرالر  باریک جال استعمال کررہے ہیں جسکے نتیجے میں یہ بڑی اور چھوٹی تمام مچھلیاں  پکڑ لیتےہیں۔جب تک یہ ٹرالر سمندر میں موجود ہوں مقامی مچھیروں کو ماہی گیری  کی اجازت نہیں۔ انکے جانے کے بعد بلوچ  مچھیرے پرانی کشتیوں پر جاتے ہیں تو  بوسیدہ جال خالی رہتے ہیں کہ تمام مچھلیاں پکڑی جاچکیں اور بچا کھچے مال المعروف catchسے کشتی کے ڈیزل کا خرچ بھی نہیں نکلتا۔سرکار کا موقف  ہے کہ یہ ٹرالر چینی حکومت کے ہیں اور انکے تحفظ کیلئے مقامی ماہی گیروں کو 'ضابطے' کاپابند بنایا جارہا ہے

 اس امتیازی سلوک کے خلاف  جماعت اسلامی کے صوبائی قیم مولاناہدایت الرحمان بلوچ کی قیادت میں گزشتہ کئی ہفتوں سے زبردست مہم چل رہی ہے۔ جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے یہ مچھیرے اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔ اب ان مچھیروں نے گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک شاہراہ  سمیت گوادر آنے اور جانیوالے تمام شاہراہوں پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

گوادر میں بے چینی پر چینیوں کو سخت تشویش ہے ۔ کل بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاو Lijian Zhaoنے بہت ہی غیر مبہم الفاظ میں کہا کہ گوادر کا ساحل تو دور کی بات، گہرے سمندروں میں بھی کوئی چینی ٹرالر موجود نہیں اور چین مقامی مچھیروں کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انکا کہنا تھا کہ سی پیک اور گوادر منصوبے کا واحد ہدف پاکستانی عوام کی خوشحالی ہے اور چین کو پاکستا  ن میں ماہی گیری سے کوئی دلچسپی نہیں۔چینیوں کی جانب سے اس وضاحت کے بعدچند سوالات ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں

  • گوادر کے ساحل کے قریب بلوچ ماہی گیروں کے رزق پر ڈاکہ مارنے والے یہ ٹرالر کس کے ہیں؟
  • انھیں چینی ٹرالر کہہ کر انکی حفاظت کے نام پر مقامی مچھیروں کو کس کے ایما پر تنگ کیا جارہاہے؟

ہمیں تو صاف لگ رہا ہے کہ  مفادات پرستوں نے  چینیوں کے تحفظ کے نام پر مقامی ماہی گیروں کو سمندر سے  دور کردیا ہے اور اب  وہ اطمینان سے   قیمتی آبی وسائل لوٹ رہے ہیں۔ یہی بات مولانا ہدایت الرحمان نے بھی کی ہے کہ 'چین کے انکارکے بعد کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ ٹرالر مافیا صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ ہیں یا مافیاحکومت سے زیادہ طاقتور ہے؟

سب سے اہم بات کہ  اس سے چین کی ساکھ اورپاک چین تعلقات متاثر ہورہے ہیں۔


 

No comments:

Post a Comment