نوٹ؛ یہ مضمون روسی حملے سے چاردن پہلے لکھا گیا ہے
مشرقی
یورپ کی خوفناک جنگ
نیٹو
اور روسی دفاع بہانہ ۔۔ توانائی اور دانہ
اصل نشانہ
کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سےپہلے سچائی شہید ہوتی ہےلیکن
مشرقی یورپ کی حالیہ کشیدگی کے دوران پہلی گولی چلنے سےقبل ہی سچائی کو زندہ دفن
کردیا گیا۔ صدر بائیڈن روسی حملے کیلئے تاریخ پر تاریخ دے رہے ہیں۔ پہلے کہا گیا
کہ حملہ بیجنگ اولمپک کے خاتمے سے پہلے ہوگا اور اسکے بعد امریکی وزیرخارجہ انٹونی
بلینکن نے فرمایا کہ 16 فروری کو حملہ متوقع ہے۔ امریکی صدر تقریباً ہر روز ڈرا'
رہے ہیں کہ حملہ کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف روس کا اصرار ہے کہ سپاہی فوجی مشقوں کیلئے بھیجے گئے ہیں اور جیسے جیسے
مشقیں ختم ہورہی ہے فوجی دستے واپس بلائے جارہے ہیں۔امریکہ، روس کی یقین دہانیوں
کو سفید جھوٹ کہہ رہا ہے تو ماسکو کا خیال ہے کہ
صدر بائیڈن کا جنگی جنون وسط مدتی
انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ یہ انتخابات 8 نومبر کو ہونگے جب ایوان نمائندگان (قومی
اسمبلی) کی تمام سیٹوں اور سینیٹ کی ایک
تہائی نشستوں پر چناو ہوگا
جمعرات (17 فروری) کو امریکی وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گراف، چارٹ
اور رنگین نقشوں کی مدد سے یوکرین پر روس کے متوقع حملے کی تفصیلات بیان کیں۔ انکا کہنا تھا کہ کاروائی کا آغاز خوفناک بمباری اور میزائیل اندازی سے ہوگا، ساتھ ہی Cyberحملوں کے ذریعے
یوکرین کا مواصلاتی نظام اور بنیادی
ڈھانچہ مفلوج کردیا جائیگا۔ میدان صاف ہونے کے بعد روسی ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں
کی شکل میں آگے بڑھتی فولادی دیوار کی حفاظت میں ہر طرف سے پیادہ دستے آگے بڑھائے
جائینگے۔جناب بلینکن نے کہا روسی افواج کیلئے اہداف کا بھی تعین کرلیا گیا ہے۔
تاہم اس سنسنی انکشاف کے دفاع میں امریکی
وزیر خارجہ نے کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
گزشتہ ہفتےاخباری
کانفرنس کے دوران جب ایک صحافی نے انھیں یاددلایا کہ 18 برس پہلے عراق میں بڑے
پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار المعروف WMDکی موجودگی کے حوالے سے انکے سابق ہم منصب کولن پاول بھی
اسی طرح نشان زدہ نقشے دکھا کر عراق میں WMD کی موجودگی ثابت کرتے تھے۔ اس پر بقراطی بگھارتے
ہوئے موصوف نے فرمایا 2003 میں اس قسم کی باتیں جنگ شروع کرنے کی دلیل کے طور پر
کی گئیں جبکہ میں جنگ روکنے کیلئے یہ باتیں بتارہا ہوں۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو وہاں بھی جھوٹ کا بازار گرم ہے اور
جناب پیوٹن کی نیت کا فتور کسی سے پوشیدہ نہیں۔سات سال پہلے جہاں انھوں نے جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضہ کرکے لاکھوں تاتار اور
قازق مسلمانوں کو بے دخل کیاوہیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمشرقی یوکرین کے
دوصوبوں پر قبضہ جمالیا۔ لوہنسک (Luhansk)اور دونیٹزک (Donetsk)صوبے
یوکرین کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔
یہاں آباد تاتاروں کو مغربی جانب دھکیلنے کے بعد اسے روس
نواز سرب باغیوں کے حوالے کردیا گیا۔ جلد ہی جھرلو برانڈ یفرنڈم کے بعد یہ دونوں
صوبے، ڈونیٹزک پیپلز ریپبلک (روسی مخفف DNR)اور لوہانسک پیپلز ریپبلک
(روسی مخفف LNR ) کے نام سے
خودمختار ممالک بنا دئے گئے جسے اب تک خود
روس نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ کچھ عرصہ بعد ان دونوں 'ملکوں' نے خود کو Noverussiaیا نیو رشیا کے نام
سے مسیحی فیڈریشن میں ضم کرلیا جسکا سرکاری مذہب Orthodox روسی مسیحیت قرارپایا۔ تاہم یہ
وفاق 2015 سے معطل ہے۔
یوکرین، نیورشیا کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا گیا
علاقہ کہتا ہے جسے واپس لینے کیلئے وقتاً فوقتاً فوجی کاروائی ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ
چند دنوں سے یہ محاذ پھر گرم ہے۔ روس نواز باغیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اورنیٹو کی
شہہ پر یوکرین انکے شہری علاقوں پر گولہ باری کررہا ہے جسکی وجہ سے خون جمادینے
والی سردی میں ہزاروں افراد پناہ لینے کیلئے مشرقی سرحد عبور کرکے روس جانے پر
مجبو ہوگئے ہیں۔ صدر بائیڈن کے خیال میں یہ یوکرین پر حملے کیلئے روس کی جانب سے
جوازتراشی کا مکروہ عمل ہے۔
روسی صدر دنیا کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ یوکرین کیخلاف کسی
قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتے اور 'فوجی مشقیں' امریکہ اور نیٹو کی متوقع توسیع
پسندی کیخلاف مزاحمت کی تیاری کیلئے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنا سارے کا سارے
اسلحہ یوکرین کی سرحد پر لادھرا ہے۔ مشرق
میں روس یوکرین سرحد اور جنوب میں بحرا اسود کے ساتھ شمال میں بلارُس یوکرین سرحد
پر بھی روسی سپاہی مورچہ زن ہیں۔ معاملہ صرف روائتی ہتھیار تک محدود نہیں بلکہ 19
فروری کو روس نے علاقے میں آوازسے کم ازکم پانچ گنا تیز رفتار میزائلوں کی مشق کی۔
مغربی روس اور بحر اسود سے داغے جانیوالے یہ میزائیل جوہری ہتھیار لے جانے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنگ ہوگی یا نہیں اسکے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے
لیکن اگر جنگ چھڑگئی تو ساری دنیا کو اسکی
بھاری قیمت اداکرنی ہوگی ۔ جیسا کہ ہم ایک نشست میں پہلےعرض کرچکے ہیں کہ نیٹو اور
امریکہ روسی حملے کاجواب سونے کی گولیوں سے دینگے یعنی سینہ و سر کو نشانہ بنانے
کے بجائے سخت اقتصادی پابندیوں کے ذریعے روسیوں کے پیٹ پر لات رسید کی جائیگی۔
یوکرین پر حملے کی صورت میں جوابِ آں غزل کے طور پر روس سے جرمنی آنے والی
گیس پائپ لائن بند کردی جائیگی ۔ یورپ میں ایندھن کی 40 فیصد ضرورت روسی
گیس سے پوری ہوتی ہے جو روسی تیل اور گیس کے مجموعی برآمدی جحم کانصف ہے۔ چیک
ریپبلک، لٹویہ، فن لینڈ، پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ اور
سلاواکیہ کی90 فیصد توانائی روس سے آنے والی گیس کی مرہونِ منت ہے۔گیس پائپ لائن بند کرنے سے بلاشبہ روسی معیشت پر کاری ضرب لگے گی۔لیکن اس
سے ساری دنیا میں تیل کی قیمتوں پر اثر پڑیگا۔ یورپ کو فراہم کی جانیوالی گیس کا
حجم تقریباً 183 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔ کہاجارہاہے کہ ناروے، قطر ، آذربائیجان
اور الجزائر روسی گیس کی کمی پوری کرنے کیلئے پرعزم ہیں لیکن اسکے نتیجے میں دوسرے
ملکوں کو تیل اور LNGکی فراہمی متاثر
ہوگی۔
مثال
کے طور پر قطر نے گزشتہ برس مجموعی طور پر 77 ملین ٹن LNGبرآمد
کی۔ اس سال وہ دنیا کے مختلف ملکوں سے 97 ملین ٹن LNGفروخت
کرنے کا معاہدہ کرچکا ہے یعنی اسے ان معاہدوں کی لاج رکھنے کیلئے LNG
کی
پیدواری گنجائش میں ایک چوتھائی کا اضافہ کرنا ہوگا۔ گیس ذخیرے کے اعتبار سے توقطر
کیلئے کوئی مسئلہ نہیں کہ اسکے تصدیق شدہ ذخائر کا جم 858 ہزار ارب مکعب فٹ (TCF)ہے،
لیکن قدرتی گیس کو LNGمیں تبدیل کرنے
کیلئے وقت درکار ہے۔ اسکا مطلب ہوا کہ یورپ کی ضرورت پوری کرنے کیلئے قطر اپنے موجودہ گاہکوں کو LNGکی
فراہمی کم از کم وقتی طور پر کم کردیگا۔
دوسری
طرف روس میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش سطح پر ہیں، اسکے اخراجات
آمدنی سے کم ہیں۔ ماسکو کا خزانہ خاصہ مستحکم ہے لہذا یورپ جانے والی گیس پائپ لائن
کی بندش سے وقتی طورپر تو آمدنی متاثر ہوگی لیکن اسکے لئے ایشیا میں نئے گاہک تلاش
کرنا زیادہ مشکل نہ ہوگا
اس
ممکنہ جنگ کے نتیجے میں توانائی کا بحران یقیناً ساری دنیا کو بری طر متاثر کریگا
لیکن اسکے غذائی پہلو پر ہم نے اب تک کسی تشویش کا مظاہرہ نہیں دیکھا حالانکہ
یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable
Oil) کا
سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا
جاتاتھا ویسے ہی یوکرین یورپ کیلئے روٹی کی چنگیری ہے۔گزشتہ برس یوکرین نے ایک
کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کیا۔یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی
گندم کے سے بڑے خریدار ہیں۔چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت
کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔لیبیا اپنی
ضرورت کا 43 فیصد اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتے ہیں۔ملائیشیا ، انڈونیشیا
اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے
گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔ دوسرے ملکوں کی تو خیر ہے لیکن اگر
جنگ کے نتیجے میں یوکرینی گندم کی رسد متاثر ہوئی تو لبنان، شام اور یمن جیسے تباہ حال ملکوں
کیلئے مہنگا غلہ خریدنا بہت مشکل ہوگا۔
بدقسمتی
سے گندم اور ددسرے ضروری دانوں یعنی جو اور ryeکے
کھیت روسی سے ملحقہ مشرقی یوکرین میں ہیں۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ مشرقی یوکرین
کے دو زرخیز صوبوں پر پہلے ہی روس
نوازباغیوں کا قبضہ ہے۔ جنگ کی صورت میں مشرقی یوکرین میدان جنگ بنے گا اور اس
خونریزی کا حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو گولہ باری کا آغاز ہوتے ہی ہر خوشہ ِ گندم جل کر
خاک ہوجائیگا۔اس لڑائی سے جہا ں دنیا بھر میں توانائی کا بحران پیدا ہوگا وہیں
غذائی قلت کے مارے شامی، یمنی اور لبنانی نانِ شبینہ سے محروم ہوجائینگے۔
کشیدگی
کی بنیادی وجہ تو نیٹو رکنیت کیلئے یوکرین
کی خواہش ہے لیکن تیاریوں اور پیش بندیوں سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کی نظر یورپی
گیس منڈی پر ہے اور روس کی یوکرینی گندم پر۔ یعنی نیٹو بہانہ اور گیس و دانہ اصل
نشانہ ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 فروری 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 25 فروری
2022