Thursday, July 27, 2023

کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے ۔۔۔ زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

 

کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے ۔۔۔    زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

روس نے 'یوکرین معاہدہ گندم' کی  تجدید سے انکار کردیا ہے۔ ماسکو سے 17 جولائی کو ایک ہنگامی اعلامیہ جاری ہوا جسکے مطابق  یوکرین کی بندرگاہوں سے بحراسود آنے والے تمام جہازوں کو  بلا استثنیٰ عسکری ہدف تصور کیا جائیگا۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی گندم  کی قیمتیں  نو فیصد بڑھ گئیں۔

یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتاتھا ویسے ہی یوکرین  اور روس کاسرحدی علاقہ  روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ85 لاکھ ایکڑ (7.5million hectares)رقبے پر گندم، جو، مکئی، rye، تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کیا جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔

یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔لیبیا اپنی ضرورت کا 43  اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔افریقی ممالک، ملائیشیا ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔

بدقسمتی سے مشرقی یورپ کا یہ زرخیر خطہ نو برس سے میدان جنگ ہے۔ یہاں جنگ و جدل کا آغاز  فروری 2014 میں ہوا جب جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضے کے ساتھ ہی، مشرقی یوکرین  کے دونیسک Donetskاور لوہانسک  Luhanskصوبوں کےکچھ علاقوں پر روس نواز باغیوں نے قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس علاقے کو جغرافیہ داں دونبس Donbasکہتے ہیں۔ گزشتہ برس  فروری میں روس نے یوکرین پر بھرپور حملہ کردیا جسے کریملن نے 'خصوصی عسکری کاروائی' قراردیا۔ نیٹو رکنیت کیلئے یوکرین کی خواہش اس حملے کی بنیادی وجہ تھی۔

اس جنگ میں جہاں ایک طرف بیگناہ یوکرینی شہری مارے جارہے ہیں ، 60 لاکھ سے زیادہ شہری پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے  اور ہنستے بستے ملک کا بڑاحصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا وہیں اس جنگ نے توانائی اور غذائی بحران پیدا کردیا۔

قدرت کی مہربانی سےگندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیت اب تک محفوظ ہیں۔ تاہم پیداوار میں کمی  واقع ہوئی اور اس بار گندم کے برآمدی حجم کا تخمینہ ایک کروڑ 70 لاکھ ٹن ہے۔  کھیت تو محفوط رہ گئے لیکن  جنگ کی وجہ غلےکی  برآمد انتہائی مشکل کام ہے۔گندم اور دوسری غذائی اجناس کی برآمد  کیلئے بحر اسود میں کھلنے والی اوڈیسا اور مائیکولائیف (روسی تلفظ نائیکولائف) بندرگاہیں استعمال ہوتی ہیں،۔

ان بندرگاہوں پر جہاز سازی کا کام  بھی ہوتا ہے جس میں یوکرینی  بحریہ کے عسکری جہاز شامل ہیں ، جسکی وجہ سے یہ بندرگاہیں روس کی 'خصوصی' توجہ کامرکز بن گئیں۔ روسی بحریہ نے یوکرین کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے۔کشیدگی کی بناپر تجارتی جہازوں کے لئے اوڈیسہ سے گندم اٹھانا ممکن نہ رہا اور ساری دنیا خاص طور  سے افریقہ اور بحرروم کے ممالک میں غذائی قلت پیدا ہوگئی۔

ترک صدر طیب ایردوان نے غذائی بحران کو کافی پہلے بھانپ لیا تھا، چنانچہ انھوں نے روس اور یوکرین سے بات چیت شروع کردی۔ غلے کی ترسیل یقینی بنانے کیلئے ترک صدر نے اپنے وزیردفاع اور بحریہ کے سربراہ کو  روسی و یوکرینی ہم منصبوں سے   گفتگو کی ہدائت کی۔ روس کو خدشہ تھا کہ  امریکہ ، گندم اٹھانے کی آڑ میں بحری راستے سے یوکرین کو اسلحہ بھیجنے کی کوشش کریگا۔

بحر اسود اور بحر روم پر تر ک بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط اور  روس و یوکرین دونوں  کو صدر ایردوان پر اعتماد ہے۔گزشتہ سال اگست میں ترکیہ، روس، یوکرین اور اقوام متحدہ کے درمیان  معاہدہ طئے پاگیا جس کے تحت  گندم اٹھانے کیلئے اوڈیسہ جانے والے جہازوں کی باسفورس پر روس، یوکرین اور ترک بحریہ تلاشی لینگی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان پر اسلحہ یا کوئی دوسرا قابل اعتراض مواد نہیں۔ اسی کیساتھ ترک بحریہ نے گندم بردار جہازوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔معاہدے کے مطابق  غلے سے لدے جہازوں  کو ترک نگرانی میں بحر اسود سے آبنائے باسفورس کے ذریعے بحیرہ  مرمرا (نہرِ استنبول) کے راستے بحر روم پہنچایا جائیگا۔ یہ معاہدہ  اس سال 18 مارچ تک کیلئے تھا جسکی صدر ایردوان کی درخواست پر 90 دن  تک توسیع کردی گئی۔

اس ماہ کی 17 تاریخ کو آبنائے کرچ Kerchپر بنے پل کو نشانہ بنایا گیا۔ روس کو کریمیا سے ملانے والا یہ پل، فوجی کمک کا کلیدی راستہ ہے۔ اس پل پر  بارود سے بھری گاڑ ی کے ذریعے پہلے بھی حملہ ہوچکا ہے لیکن اس بار  یوکرینی بحریہ نے حملے کیلئے مبینہ طور پر زیرِ اب ڈرون استعمال کئے ۔روسی بحریہ کو شبہہ ہے کہ حملہ آور بحری ڈرون اوڈیسا سے رونہ کئے گئے تھے۔ اسی بناپر روس کا موقف ہے  کہ  یوکرینی بندرگاہوں سے بحر اسود کی طرف آنے والے جہازوں اور بحری ٹریفک پر اعتماد  نہیں کیا جاسکتا لہذا  17 جولائی کو معاہدے کی مدت مکمل ہونے پر اسکی تجدید نہیں کی جائیگی۔

یوکرینی غلے کی فراہمی رکنے سے قرنِ افریقہ (Horn of Africa)کے ممالک خاص طور سے صومالیہ بری طرح متاثر ہوگا جسکا بڑا علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ اس ملک میں گزشتہ سال غذائی قلت سے 40ہز ار اموات ہوئیں جنکی اکثریت ننھے بچوں کی ہے۔ اسکے علاوہ یمن، مصر، لبنان اور شام کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔

امریکیوں کا خیال ہے کہ کرش پل پر ڈرون حملے سے مشتعل ہوکر روس نے معاہدے کی تجدید سے انکار کیا ہے۔ غیر جانبدار ذرایع چچا سام کے تجزئے سے متفق  نہیں۔گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران غلے سے لدے درجنوں جہاز لاکھوں ٹن گندم اور دوسرا غلہ لے کر اوڈیسا سے روانہ ہوئے۔ باسفورس میں جہازوں کی تلاشی کا بہت ہی موثر  انتظام ہے اور گزشتہ سال اگست سے اب تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ بحری قزاقی کی کوئی واردات ہوئی۔ اس تناظر میں ڈرون حملے کو روس کے اس غیر متوقع اور غیر منطقی روئے  کا واحد جواز قراردینا مشکل ہے۔ پل پر ڈرون حملے کے بعد روس نے یوکرین کی ناکہ بندی تو سخت کردی ہے لیکن گندم معاہدے کی تجدید سے انکار کے اصل عوامل کچھ اور  ہیں۔

روس کے  سرکاری موقف میں بھی ڈرون حملے کا ذکر نہیں۔ تجدید سے انکار کا اعلان کرتے ہوئے روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف Dmitry Peskovنے کہا کہ  روسی غذائی اجناس کی برآمدات پر غیر ضروری پابندیاں عائد ہیں۔کریملن کے  ترجمان نے یقین دلایا کہ جیسے ہی روسی غلے کو یوکرینی مال کی طرح  بازار تک آزادانہ رسائی ملی ماسکو  فوری طور پرمعاہدے کی تجدید کردیگا۔ ہفتہ 22 جولائی کو ماسکو میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا کہ  ' معاہدے کا بنیادی مقصد یعنی  ضرورت مند ممالک کو اناج کی فراہمی ، پورا نہیں ہوا   کہ روس کو اپنا غلہ اور اجناس برآمد کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے'۔ گزشتہ دنوں روسی صدر نے اپنے ترک ہم منصب سے  باتیں کرتے ہوئے جناب ایردوان سے شکوہ کیا تھاکہ  معاہدے میں یوکرین کیساتھ روسی برآمدات کو بھی تحففظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔لیکن معاہدے کے اس حصے کی پاسداری نظر نہیں آرہی

روسی برآمدات پر پابندی تکنیکی نوعیت کی ہے۔ ترک بحریہ، بحر اسود کی  روسی بندرگاہ نووورسسک Novorossiyskسے غلہ لیکرنکلنے والے جہازوں کو بھی تحفظ فراہم کررہی ہے۔لیکن روس کو اپنے اناج کے خریدار تلاش کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ بظاہر روسی برامدات پر کوئی قد غن  نہیں لیکن امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روسی ٖغلے کے خریداروں کیلئے امریکی ڈالر میں ضمانت نامہ ادائیگی (LC)کھولنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔

معاہدہ گندم کی تجدید سے  انکار کے بعد روسی فضائیہ نے اوڈیسا بندرگاہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جمعہ 21 جولائی کو بندرگاہ کے ارد گرد غلے کے گوداموں پر میزائیلوں کی بارش سے  110 ٹن مٹر جل کر خاک ہوگئے۔ میزائیل حملے میں کرینوں اور جہازوں پر سامان لادنے والے اوزار اور مشینو ں کو بھاری نقصان پہنچا۔ روس کے نائب وزیرخارجہ Sergei Ryabkov نے ان حملوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ روسی وزارت دفاع یوکرینی بندرکاہوں اور اس سے متصل پانیوں کو عسکری ہدف قراردے چکی ہے اور خطرے کے خاتمے تک حملے جاری رہینگے۔

معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر ترک صدر ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ اپنے حالیہ  بیان میں انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو بحیرہ اسود میں اناج راہداری کی بحالی کے لیے روس کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ جناب ایردوان کے مطابق روس کو امتیازی سلوک کی شکایات اور تحفظات ہیں۔ اگر انھیں دور کردیا جائے  تو روس بحر اسود کی اناج راہداری فعال کرنےکے حق میں ہے۔ صدر یردوان نے کہا کہ مغربی ممالک کو اس معاملے پر  مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ طیب ایردوان  نے اپنے روسی ہم منصب کو اگلے ماہ ترکیہ آنے کی دعوت دی ہے اور وہ اسی ہفتے صدر پیوٹن سے فون پر بات بھی کرینگے۔

دنیا کو فاقہ کشی کے عذاب سے بچانے کیلئے جناب ایردوان کی کوششیں قابل تعریف تو  ہیں لیکن  کافی نہیں۔ اس کیلئے امریکہ اور یورپ کو اپنا متکبرانہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ مغرب کی لگائی پابندیوں نے روسی معیشت کا گلا گھونٹ  دیا ہے۔ صدر پیوٹن جناب ایردوان کو قابل اعتماد اور منصف مزاج مصالحت کا ر سمجھتے ہیں لیکن روسی غلے کی ترسیل پر پابندی ہٹائے بغیر روس کو  معقولیت کی طرف مائل کرنا جناب ایردوان کیلئے بے حد مشکل ہے ۔ اس تنازعے کا افسوسناک  پہلو یہ ہے کہ انااور مغرب کے خبطِ عظمت کی قیمت ایشیا اور افریقہ کے بھوکے اداکررہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 28 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 28 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, July 20, 2023

انوکھا لیکن انتہائی موثر، مدلل و مہذب احتجاج

 

انوکھا لیکن انتہائی موثر، مدلل و مہذب احتجاج

ایک ہفتے سے جاری ہیجان، خلجان و بحران بلکہ ذہنی اذیت کا 15 جولائی کو خوبصورت اختتام ہوگیا۔ مسلمانانِ عالم کے قلب و جگر پر دو دہائیوں سے توہین و تضحیکِ قرآن و صاحبِ قرانؐ کے تیر برس رہے ہیں لیکن اس بار مسیحیوں اور یہودیوں  نے بھی اس اذیت کا مزہ چکھ لیا۔

ہوا کچھ اسطرح کہ سوئیڈن کے دارالحکومت میں پولیس کمشنر کو ایک درخواست موصول ہوئی جس میں مسیحی اور عبرانی اناجیل جلانے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ آگے بڑھنے نے پہلے عبرانی انجیل پر چند سطور۔ عبرانی انجیل کو تناخ بھی کہا جاتا ہے جو دراصل:

تورہ (توریت )

نبیّم(عبرانی تلفظ نویم)

 اور کتابم (عبرانی تلفظ کیتووم) کا مجموعہ ہے۔

توریت مصحف کے بجائے طومار(scroll)کی شکل میں ہے، یہ ہدایات و الہامی احکامات، نبیّم، قصص الانبیا اور کتابم، ترانہِ داودؑ (زبور) سمیت آسمانی صحیفوں یا اسفارات الکتابات پر مشتمل ہے۔

تناخ کا ایک نام مقرا بھی ہے یعنی باربار پڑھی جانیوالی کتاب۔ مسیحی انجیل  کو عام طور سے عہد نامہ جدید یا New Testament اور عبرانی انجیل کو عہدنامہ عتیق یا  Old Testament کہاجاتا ہے۔یہودی چونکہ نبوتِ عیسیؑ کے منکر ہیں اسلئے وہ عہد نامہ جدید کو برحق نہیں مانتے جبکہ مسیحیوں کی اکثریت عہدنامہ عتیق میں درج اخلاقی قوانین کو تو تسلیم کرتی ہے لیکن اس میں درج آداب اور مراسم عبودیت سے متعلق احکامات جیسے قربانی، حلال و حرام، طہارت وغیرہ کو نہیں مانتی۔ یعنی حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت پر ایمان لیکن انکی شریعت کے کچھ حصوں پر تحفظات۔

نوٹ: مندرجہ بالا  معلومات کی فراہمی اور تصدیق و تصحیح کیلئے  راقم الحروف امریکہ کے مشہور پادری و شاعر جناب ڈاکٹر افضال فردوس اور برادرم ڈاکٹر آصف حسین کا مشکور ہے

پولیس کمشنر کو ملنے والی درخو است میں دارالحکومت کی مرکزی جامع مسجد  کے سامنے  قرآن سوزی کی وحشیانہ واردات کو نظیر بناتے ہوئے استدعاکی گئی کہ درخواست دہندہ اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے انجیلِ مقدس اور عبرانی انجیل کو آگ لگانا چاہتا ہے۔ عرضی میں عدلیہ کے اس فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جو سلوان مامیکا کی درخواست پر سنایا گیا تھا۔دو ماہ پہلے جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ہر قسم کے اجتماع اور احتجاج کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔عدالت نے قرآن سوزی کے بارے میں سلوان کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مذہبی یا سیاسی علامت کو نذرِ آتش کرنا اس نظرئے اور علامت کے خلاف احتجاج ہے جس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

عدالتی فیصلے کے بعد سلوان ممیکا نے عین عید الاضحیٰ کے دن مسجد کے سامنے قرآن کے نسخے کو آگ لگادی تھی۔عدالتی فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے اس دوران سلوان کو نہ صرف مکمل تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ قرآن جلانے کے عمل میں بھی وردی پوش پولیس سپاہیوں نے سلوان کی مدد کی۔

پولیس کمشنر نے انجیل جلانے کی اجازت دیدی۔ پولیس کے اعلامئے میں  ٹحفظ امنِ عامہ کے پیشِ نظر درخواست دہندہ کا نام خفیہ رکھا گیا۔ اجازت کے بعد سوشل میڈیا پر اعلان کیا گیا کہ یوم سبت یعنی ہفتہ 15 جولائی کو اسٹاک ہوم کے اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے New Testamentاور Old Testamentکے نسخے نذرِ آتش کئے جائینگے۔

اس خبر پر سوئیڈن کے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں میں زبردست اشتعال پھیلا۔اس ملک میں آباد یہودیوں تعداد 15000 کے قریب ہے چنانچہ سوئیڈش یہودیوں کی جانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن اسرائیل میں اس اعلان پر آگ لگ گئی۔ امریکہ اور یورپ میں بھی تشویش کی لہر دوڑی اور مذہبی حساسیت و احترام کے حوالے سے گوری اقوام کا دہرا معیار بھی سامنے آگیا۔مسلمانوں کیلئے انجیل اور توریت، قرآن کریم ہی کی طرح مقدس و متبرک ہیں لہٰذا اس خبر پر مسلمانانِ عالم اتنے ہی مغموم بلکہ کسی حد تک مشتعل ہوئے جتنے وہ قرآن کی بیحرمتی پر تھے تاہم توہین قرآن کی مکروہ و غلیظ حرکت پر آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا عطر چھڑکنے والوں کا تناخ اور انجیلِ مقدس کی متوقع توہین پر ردعمل بالکل مختلف تھا۔

آپ کو یاد ہوگا امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل نے توہین قرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مذہبی کتب کو جلانا توہین اور دل شکنی کا باعث ہے اور قانونی ہونے کی صورت میں بھی یہ کام مناسب نہیں' ساتھ ہی انھوں نے ترکیہ کو تلقین کی کہ سوئیڈن کی نیٹو کیلئے رکنیت کی جلد از جلد توثیق کردی جائے۔ ایسا ہی مذمتی بیان نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کا تھا۔ برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس عمل کو پسند نہیں کرتے تاہم کچھ لوگوں کیلئے یہ آزادی ی اظہار رائے کا معاملہ ہے۔سوئیڈن کے وزیراعظم اولف کرسٹرسن نے اپنے عراقی ہم منصب سے فون پر باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قرآن جلانے کے عمل کو 'مناسب' نہیں سمجھتے لیکن بادی النظر میں سلوان قانون شکنی کا مرتکب نہیں ہوا۔ امریکہ، یورپی یونین اور مغرب کے کسی بھی ملک یا قائد نے اس غیلظ عمل کیلئے مذمت (condemn)کا لفظ استعمال نہیں کیا اور ہر جگہ اس قابل مذمت عمل کو آزادی اظہار کا تحفظ فراہم کیا گیا۔

عبرانی انجیل جلانے کے اعلان پر اسرائیلی قیادت اور امریکی حکام کے منہہ سے جھاگ نکلنے لگے۔اب قرآن سوزی کا عمل  بھی قابل مذمت قرارپایا۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوق نے کہا کہ 'ریاست کے صدر کی حیثیت سے میں نے قرآن کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس ہے اور اب مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ یہودیوں کی ابدی کتاب یہودی بائبل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے جارہا ہے'۔ اپنے بیان میں جناب اسحق ہرزوق نے کہا کہ مقدس کتابوں کی توہین، اظہار رائے کی آزادی نہیں ، یہ صریح اشتعال انگیزی اور نفرت کا عمل ہے۔ پوری دنیا کو مل کر اس گھناؤنے فعل کی مذمت کرنی چاہیے۔

سامی (semitic)نسل کیخلاف امتیازی سلوک پر نظر رکھنے والی امریکی نمائندہ محترمہ Deborah Lipstadtنے کہاکہ امریکہ کو تورات جلانے کے منصوبے پر گہری تشویش ہے اور واشنگٹں اسے قابل مذمت قدم سمجھتا ہے۔ اگرچہ امریکہ جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع کے حق اور سب کے لئے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کی حمایت کرتا ہے ، لیکن اس طرح کے اقدامات خوف کا ماحول پیدا کریں گے۔ اس سے یہودیوں اور دیگر مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کی سویڈن میں مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔

ہفتے کے دن پولیس کے تحفظ میں ایک 32 سالہ شامی نژاد نوجوان احمد علوش اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے  کتاب اور لائیٹر لئے نمودار ہوا۔ میگافون پر تقریر کرتے ہوئے احمد نے کہا

میرے توریت و انجیل جلانے کے اعلان سے مسلمان، مسیحی اور یہودی سب مغموم و مشتعل ہیں۔ دیکھو! میرے ہاتھ میں صرف قرآن کریم ہے۔ میرے اعلان کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ توہینِ قرآن سے اربوں مسلمان دلگرفتہ ہیں۔ لوگو! میرے لئے یہ تصور بھی محال ہے کہ میں ان مقدس کتابوں کو نذرِ آتش کردوں جسکی تصدیق قرآن نے کی ہے۔ یہ کہتے ہوئے احمد کی آواز بھرأ گئی۔ اس نے ہاتھ میں تھامے قرآن کو ادب سے بوسہ دیا اور  سینے سے لگاتے ہوئے لائٹر کو کچرے کے ڈرم میں بھینک دیا۔

رندھے ہوئے لہجے میں احمد نے  کہا آج مسیحیوں اور یہودیوں کو جو تکلیف پہنچی  ہے ہم اس اذیت سے کئی بار گزرے ہیں۔ مقدس کتابوں کا جلانا ایک گھناونا فعل ہے جس پر مہذب معاشرے میں پابندی ہونی چاہئے۔میں صرف یہ دکھانا چاہتا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کی حدود ہوتی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اگرقرانی تعلیمات پسند نہیں تو آپ کو اس پر تنقید کا حق ہے لیکن مقدس اوراق کو جلانا آزادی اظہار نہیں فکری دہشت گردی ہے۔ تمام حقوق  وفرائض کی طرح حقِ ازادیِ اظہاو گفتار کی بھی کچھ قیود ہیں۔ کیا سوئیڈن کے بادشاہ کو برسرعام گالی دی جاسکتی ہے؟احمد علوش نے کہا کہ  ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا، ہم ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اگر میں تورات و بائبل اور دوسرے قرآن کو جلا ئیں گے تو یہاں جنگ ہو جائے گی۔ میں جو دکھانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔

نوجوان احمد علوش کوئی سیاسی مدبرو مفکر نہیں لیکن اسکی یہ تین منٹ کی گفتگو مذہبی رواداری، باہمی احترام اور اختلافی معاملات میں اعتدال پر رہنے کاعادلانہ منشور  ہے۔ کیا مہذب دنیا سونے میں تولے جانے کے قابل ان ارشادات سے کچھ سبق سیکھے گی؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 21 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, July 13, 2023

فلسطینی اپنے وطن ہی میں بے وطن زمینیں خالی کرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر فلسطینی علاقوں میں خونی آپریشن

 

فلسطینی اپنے وطن ہی میں بے وطن

زمینیں خالی کرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر فلسطینی علاقوں میں خونی آپریشن

اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو  المعروف بی بی کے  حکم پر غربِ اردن کے مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کا مکمل اختیار وزیرخزانہ  بیزلل اسموترچ (Bezalel Smotrich) کو دیدیا۔ گفتگو کے آغاز پر جناب اسموترچ کے  تعارف سے قارئین کو بی بی سرکار کی نئی قبضہ پالیسی سمجھنے میں آسانی ہوگی

 تینتالیس سالہ اسموترچ انتہائی متعصب قدامت پسند بلکہ انتہا پسند ہیں اور ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف پُر تشدد کاروائیوں میں بنفس نفیس شرکت کی بنا پر کئی بار انکے خلاف پولیس پرچہ کاٹ چکی ہے۔دو دہائی پہلے  جب اسرائیلی فوج کو غزہ میں بھاری نقصان کا سامنا ہوا تو وزیراعظم ایرل شیرون نے وہاں سے فوج واپس بلالینے کا فیصلہ کیا۔ جناب اسموترچ  نے جو اسوقت ایک نوجوان سیاسی کارکن تھے، زبردست ہنگامہ کھڑا کردیا اور ایرل شیرون  پر نامرد وزیراعظم کی پھبتی کستے ہوئے 'دفاعِ غزہ' کیلئے عوامی فوج بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن اسوقت موصوف کا قد کاٹھ اتنا نہ تھاکچھ کرپاتے چنانچہ وہ چائے کی پیالی میں طوفا ن اٹھاکر رہ گئے۔ فروری 2005 میں کنیسہ ّ(پالیمان) نے  Disengagement from Gaza کے عنوان سے ایک قرارداد منظور کرلی۔

پسپائی منصوبے کے تحت  اسرائیل نے  غزہ میں اپنی 21 بستیوں کو مسمار کرکے وہاں سے تمام فوجی اور  شہری واپس بلالئے۔ اسی  کیساتھ  مغربی کنارے کے شمالی حصوں میں تعمیر کی گئی چار بستیاں   صنور، خومش،  غنیم اور قدیم کو مسمار کرکے ان علاقوں  میں اسرائیلیوں کے  جانے پر پابندی لگادی گئی۔یعنی جنین کا مضافاتی حصہ  اورسارا  غزہ   اسرائیلیوں کیلئے   علاقہ ممنوعہ یا no go areaبن گیا۔ پسپائی کے خلاف اسموترچ نے احتجاجی تحریک منظم کی اور موصوف شرپسندی کے الزام میں دھر لئے گئے۔ جب  اسباب کی تلاشی لی گئی تو انکے قبضے سے 700 لٹر پٹرول برآمد ہوا، تفتیش پر اسموترچ نے اعتراف کیا کہ وہ غزہ سے واپسی مسدود کرنے کیلئے وہاں سے نکلنے والے راستوں پر آگ بھڑکانا چاہتے تھے۔ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر تین ہفتے بعد بغیر مقدمہ درج کئے انھیں رہا کردیا گیا۔

اسکے بعد سے انھوں نے فلسطینیوں کی زمین پر نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کو زندگی کا مقصد بنالیا۔ اس مقصد کیلئے  2006 میں اسموترچ نے Regavimکے نام سے  ایک ادارہ قائم کیا۔ رقبے کا عبرانی تلفظ  Regevہے  اور عام بول چال میں چھوٹے قطع زمین کو رقب  کہا جاتا ہے۔ ایک عبرانی نظم 'دونم و دونم ،  رقب و رقب' اس تنظیم کا ترانہ ہے۔ دونم dönüm رقبہ ناپنے کی ترک اکائی ہے جو 1000 مربع میٹر کے برابر ہے۔اس ترانے کا لب لباب یہ  عزم ہے کہ بڑا ہاتھ مارنے کے بجائے  ہر ہلّے میں گز دوگز زمین ہتھیالی  جائے۔

جناب اسموترچ ، مذہبی صیہونی جماعت یا Religious Zionist Partyکے سربراہ ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ا نکی جماعت نے کنیسہ کی 7 نشستیں جیتیں جو 120 رکنی ایوان میں کوئی قابل ذکر تعداد  نہیں لیکن  بی بی کی حکومت 64 ارکان کی حمائت پر کھڑی ہے اور اقتدار برقرار رکھنے کیلئے کم ازکم 61 ارکان کی حمائت ضروری ہے۔ اس تناظر میں 7 غیر اہم عدد نہیں۔ اسموترچ کی جماعت پارلیمانی حجم کے اعتبار سے حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔

فلسطینی اراضی کو ہتھیانے کا سلسلہ 1920 میں برطانوی قبضے (British Mandate)سے جاری ہے۔ اس حوالے سے پہلا بڑا ہاتھ قیامِ اسرائیل کے وقت مارا گیا جب 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل کر انکی  2 کروڑ مربع میٹر اراضی ہتھیالی گئی، پھر وقتاً فوقتاً  نئی مہمات کے ذریعے  سو، ڈیڑھ سو ایکڑ کی قسطیں وصول کی جارہی ہیں۔  اس دوران محترمہ گولڈامائر جیسی بزعم خود معتدل اور بائیں بازو کی طرف مائل اسحاق شامیر بھی برسراقتدار آئے لیکن فلسطینیوں کو آبائی گھروں سے  بیدخل کرکے ا نکی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا۔آزاد ذر ائع کے مطابق  1967 سے 2021 تک فلسطینیوں کی 2783 مربع کلومیٹر  اراضی ان سے چھیں لی گئی۔  پتھیایا گیا رقبہ کتنا بڑا ہے اسکا اندازہ اس طرح کیجئے کہ سارے امریکہ میں صرف چار شہروں کا رقبہ 2000 مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں دلی کا رقبہ سب سے زیادہ  یعنی 1484 مربع کلومیٹر ہے  جبکہ پاکستان میں  کراچی کے علاوہ کوئی بھی شہر  2000 مربع کلومیٹر سے زیادہ  پر محیط نہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہتھیائی جانیوالی  زمینوں پر صرف مکانات ہی تعمیر نہیں کئے گئے  بلکہ سڑکیں، بڑی شاہراہیں، باغات،لائبریری، اسپتال اور ذخائرِ آبپاشی و آبنوشی بھی انہی ہڑپ شدہ اراضٰی پر تعمیر ہوئے۔ غرب اردن کو صیہونی ریاست کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کیلئے علاقے کا نام  يہودا  والسامرة (Judea and Samaria)کردیا  گیا جو دراصل سلطنت سلیمانؑ تھی۔ اقوام متحدہ نے نام کی تبدیلی غیر قانونی قراردیتے ہوئے اپنی  دستاویزات  میں علاقے کا نام  اب بھی الضفۃ الغربیہ یا West Bank لکھ رکھاہے۔

دسمبر 2016 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل،  مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کرچکی ہے اور یہ  غالباً تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ جب امریکہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ حسب توقع سلامتی کونسل کی اس  قرارداد سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا اور فلسطینی اراضی پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا کہ  انصاف مذمت سے نہیں ظالم کی مرمت سے نصیب ہوتا ہے۔بستیوں پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سابق اسرائیلی وزیرداخلہ  محترمہ  ایلٹ شیکڈ نے کہا کہ یہودا اور سامرہ میں یہودیوں کی آبادکاری  ہماری فطری ضرورت  اور بنیادی حق ہے  جس پر بات چیت کی کوئی ضرورت یا گنجائش نہیں۔

گزشتہ سال اگست میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جنین میں فلسطینی بستیاں مسمار کرکے 4000 کے قریب نئے گھر تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی۔ پالیسی میں بہت صراحت سے درج ہے کہ ان مکانوں کی ملکیت ہی نہیں بلکہ رہائش بھی صرف یہودیوں کیلئے ہوگی۔ انتہائی بے شرمی سے پالیسی متن میں یہ بھی لکھدیا گیا کہ  یہاں آباد  فلسطینیوں کوپناہ گزین  خیموں میں منتقل کردیا جائیگا۔

سلامتی کونسل کی قرادادوں کی کیا حیثیت کہ بی بی حکومت، اسرائیلی عدلیہ کے احکامات  کو بھی کسی قابل نہیں سمجھتی۔غزہ سے پسپائی کے وقت غربِ اردن کی جن چار بستیوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ان میں حومش بھی  شامل تھی، یہ بستی  1978 میں فلسطینیوں سے 700  دونم ( dönüm) یا 173 ایکڑ آراضی  چھین کر ایک نجی اسرائیلی ادارے نے  تعمیر کی تھی، جو غالباً پہلی قبضہ بستی ہے۔ حومش قبضہ بستی کو  اسرائیلی سپریم کورٹ 2005 میں غیرقانونی قراردے چکی ہے جسکے بعد یہاں کے اکثر مکانات منہدم کردئے گئے لیکن 2006 میں عدالتی احکامات کو روندتے ہوئے حومش کی تعمیر نو کا سلسلہ شروع ہوا اور 2009 میں اسے یادِ ھنأ حموش (حموش یادگاری بستی) کا نام دیدیا گیا۔ عدالت نے نئی بستی بھی غیر قانونی قراددیدی۔ گزشتہ برس دسمبر میں اسرائیلی کنیسہ نے حموش تعمیرِ نو کی قرارداد 50 کے مقابلے میں 59 ووٹوں سے مسترد کردی۔ اسکے کچھ ہی دن بعد جب نیتھن یاہو دوبارہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے سرکاری حکم کے ذریعے حموش کو آئینی تحفط فراہم کردیا۔ دوسرے ہی دن عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کرکے اسے تاحکمِ ثانی معطل کردیا۔ اسکے باوجود حموش کی تعمیر نو کا کام دھڑلے سے جاری ہے۔ حکومت عدالتی حکم ماننے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ عدلیہ کے منہہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے وزیردفاع Yoav Gallant نے اسرائیلی فوج کے نام اپنے اس مراسلے کی نقل عدالت میں جمع کرادی جس میں فوج کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حومش میں مکان بنانے کیلئے تعمیری کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرے۔

قانون کی پامالی کیخلاف  7 جولائی کو امن پسند اسرائیلیوں نے رام اللہ کے قریب فلسطینی شہر برقہ سے حومش تک جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ امن مارچ کا اہتمام درجن بھر تنظیموں اور مراکز دانش (think tanks)نے کیا تھا۔ کنیسہ کے چند عرب ارکان بھی  جلوس میں شریک تھے۔ مظاہرے کے آغاز سے پہلے  ہی جلوس کے راستے پر فوج نے رکاوٹیں کھڑی کردیں اور مظاہرین کی طرف بندوقیں تان کر منتشر ہو جانے کا حکم دیا۔ منتظمین کو بتایا گیا  کہ جلوس کو روکنے کا حکم اسرائیلی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل یہودا فوکس نے دیا ہے۔

زمینیں خالی کرانے کیلئے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں میں خونی آپریشن شروع کررکھے ہیں۔ پیر 3 جولائی  کو  فوج  جنین پر چڑھ دوڑی اور عسکری ترجمان نائب امیرالبحر (ریر ایڈمرل) ڈینیل حجاری نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ بریگیڈ لیول کی کاروائی ہے۔ حملے میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کیساتھ ہلکا توپخانہ اور امریکی ساختہ گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال ہوئے۔ وحشت کو  مذہبی رنگ  دینے کیلئے اسے مسکن و باغات (عبرانی بیت و واغان) آپریشن کا نام دیا گیا۔ عبرانی انجیل میں جنین کا یہی نام ہے۔ اس بہیمانہ کاروائی میں ایک درجن سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوئے جو زیادہ تر 18 سال کے کم عمر بچے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی ڈرونوں نے ہسپتالوں اور شفاخانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جسکی وجہ  سےشدید زخمی افراد سڑکوں پر ایڑیاں رگرتے رہے۔ کاروائی کے دوران مایہ ناز چھاپہ مار شکن اسرائیلی دستے Egozیونٹ کا ایک افسر بھی  ہلاک ہوا جسکے انتقام کیلئے  جنین کا ایک پورا محلہ نیست و نابود کردیا گیا،

چند دن پہلے رام اللہ کا مضافاتی علاقہ ترمسعيّا (Turmus Ayya) اسرائیلی انتہا پسندوں نے جلاکر خاک کردیا فروری کے اختتام پر نابلوس کے قصبے حوّارہ میں جو کچھ ہوا اسے خود ااسرائیلی فوج نے پوگرم  (Pogrom)قراردیا۔ پوگرم  کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے انکا آبائی  علاقہ خالی کرانے کیلئے برپا کئے جانیوالے فساد کو کہتے ہیں۔ اس  روسی لفظ کا استعمال پہلی بار 1618 میں یوکرینی یہودیوں کی نسل کشی کیلئے ہوا۔ اسوقت سے  یہودیوں کی کسی خاص علاقے میں نسل کشی کو پوگرم کہا جاتا ہے۔ گویا اسرائیلی فوج نے بھی یہ تسلیم کیا کہ حوّارہ پر حملہ فلسطینیوں سے علاقہ خالی کرانے کی  ایک مشق تھی۔

انسان کو انکے گھروں سے بیدخل کرنے کی وحشیانہ روائت بہت پرانی ہے، سترہویں صدی کے آغاز پر یورپی نسل پرست لاکھوں افریقیوں کو انکے گھروں  سے پکڑ کر پابہ زنجیر امریکہ لے آئے۔سوئے اتفاق کہ 1619 میں جب افریقی غلاموں سے لدا پہلا جہاز امریکہ اترا، تقریباً عین انھیں دنوں بر صغیر میں ایسٹ انڈیاکمپنی نے اپنا'کاروبار' شروع کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد سارا ہندوستان غلام بنالیا گیا۔ اب  1920 سے یعنی تجدیدِ رسمِ غلامی کے چارسوسال بعد، فلسطینیوں  کو بے گھر کرکے بھیڑ  بکریوں کی طرح خیموں  کی طرف ہنکایا جارہا ہے۔ اولادِ آدم ان  مظالم کابہت خاموشی  سے مشاہدہ کررہی ہے اور  اپنے دفاع میں مزاحمت کرنے والے 'مہذب' دنیا کے لئے دہشت گردہیں کہ بسمل کے تڑپنے اور پھڑپھڑانے سے امنِ عالم  متاثر ہورہا ہے۔

اب آپ مسعود ابدلی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 14 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت  دہلی ، 14 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 14 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, July 6, 2023

 

ترازوِ انصاف کا پلڑا ۔۔۔ قاتل کے طرف جھکا ہوا

آج یروشلم کی عدالت نے ایک ذہنی معذور فلسطینی کے قتل میں ملوث اسرائیلی فوج کے افسر کو بری کردیا۔

مئی 2020 کو یروشلم کے قدیم شہر کا 32 سالہ ایاد حلاج معمول کی کلاس کیلئے کے معذوروں کے خصوصی اسکول جارہا تھا۔ اسکی پشت پر کتابوں کا بستہ اور ہاتھ میں موبائل فون تھا۔ فوجی ترجمان کے مطابق وہاں ناکے پر موجو افسر نے ایاد کے موبائل فون کو پستول سمجھا، چنانچہ اسے رکنے کا اشارہ کیا گیا ساتھ ہی افسر نے ہاتھ اوپر کرو کی صدا لگائی۔ ایاد نے اشارہ نہ سمجھا، سماعت سے محرومی کی بنا پر وہ آواز بھی نھیں نہ سن سکا اور اطمینان سے چوکی عبور کرگیا۔

ایک افسر اسکے پیچھے دوڑا، دھکیل پر اسے ایک کچرا کنڈی تک لے گیا اور چند فٹ کے فاصلے سے اسے گولی ماردی جس سے وہ گرا، افسر نے اسکے سر کو نشانہ بناکر دوسری گولی چلائی جس سے ایاد موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

بریت کا جو فیصلہ سنایا گیا ہے، اسکے الفاط ملاحظہ فرمائیں۔

'عدالت کا دل مقتول کے لواحقین کے ساتھ ہے، احترامِ عدالت میں ایاد کے والدین ہر سماعت پر یہاں موجود تھے، ہم نے انصاف کے لیے ان کی فریاد تحمل سے سنی۔تاہم، عدالت کو مشکل حالات میں بھی اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ واقعات کے معروضی تجزئے سے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں کہ [حلاج کے] جسم کے نچلے حصے پر گولی چلانے کا فیصلہ بد نیتی پر مبنی تھا۔ بادی النظر میں اسے 'مخلصانہ غلطی' کے علاوہ اور کچھ نہیں ثابت کیا جاسکتا'

پہلی گولی سے حلاج زمین پر گرچکا تھا اور فوجی نے دوسری بار ٹرپتے شخص کے سر کو نشانہ بنایا۔ اسکا دفاع کرتے ہوئے، عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ

'جسم کے اوپری حصے کی طرف فائر کی گئی دوسری گولی کا محرک، مدعا علیہ یعنی افسر کا یہ احساس تھا کہ وہ "واضح خطرے" میں ہے۔ اسلئے کہ دہشت گرد ہار نہیں مانتے اور مرتے مرتے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں

جج حضرات نے سپاہی کی ناتجربہ کاری کو بھی بریت کیلئے بطور دلیل استعمال کیا اور فیصلے میں لکھا 'یہ بات بھی قابل ذکر ہے ک وہ ایک نوجوان افسر تھا جسکو یہ پہلی آزمائش پیش آئی'

حوالہ: Times of Israel

اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو

اب آپ مسعود ابدلی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


عدلیہ کی سرپرستی میں توہینِ قرآن کی مہم

 

عدلیہ کی سرپرستی میں توہینِ قرآن کی مہم

مسلمانوں کو صدمہ پہنچانے کیلئے اہانتِ انبیا (ؑ)، شعائر کی توہین اور  قرآن پاک کی بیحرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کی غرض سے ان قبیح اقدامات کیلئے رمضان اور عیدین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔مسجدِ اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کا جوتوں کیساتھ داخلہ اور القدس شریف میں دراندازی رمضان میں بہت بڑھ جاتی ہے۔بھارتی مسلمانوں پر بھی ایامِ عیدالاضحٰیٰ عام طور سے بھاری گزرتے ہیں۔

گفتگو شروع کرنے سے  پہلے توہینِ قرآن مہم کے بارے میں ایک نظریہِ سازش کا ذکر

چین میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے علمبردار آن لائن جریدے Bitter Winter کے مطابق قرآن سوزی مہم کی پشت پر روس کی یہ کوشش ہے کہ ترکیہ کو مشتعل کرکے سوئیڈن کی نیٹو (NATO)رکنیت ناممکن حد تک مشکل کردی جائے۔ سوئیڈن نیٹو کا امیدوارِ رکنیت ہے اور نیٹو دستور کی رو سے گوشوارہ رکنیت کی منظوری تمام ارکان کی رضامندی سے مشروط ہے۔ترک صدر طیب ایردوان ، سوئیڈن کو مخاطب کر کے صاف صاف کہہ چکے یں'اگرتم ترک جمہوریہ اورمسلمانوں کے مذہبی عقائد کا احترام نہیں کرتے تونیٹو رکنیت کیلئے ہماری حمائت کی توقع مت رکھو'۔ 'ہم مغرب کے متکبرین کو انشاءاللہ سکھا دینگے کہ مسلمانوں کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے'

 ۔

بِٹر ونٹڑ ، اٹلی کا ایک مرکزِ دانش Center for Studies on New Religions (CESNUR)شایع کرتا ہے۔ جریدے کے بانی اور معروف اطالوی ماہر عمرانیات Massimo Introvigneکے مطابق دائیں بازو کے  ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان راسمس پلوڈن (Rasmus Paludan نے  اعتراف کیا ہے کہ قرآن سوزی کیلئے انھیں روسی ٹیلی ویژن (RT)کے نمائندے چینگ فرک Chang Frickنے رقم فراہم کی تھی۔اس اعتراف کی تصدیق برطانوی اخبار کارجین نے بھی کی، جسکا کہنا ہے کہ اس سال جنوری میں ترک سفارتخانے کے سامنے مظاہرے کیلئے اجازت کی فیس چینک فرک نے ادا کی جو 31 ڈالر کے قریب ہے۔ کسی آزاد ذریعے سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی۔تاہم  اتنے بڑے کام کیلئے یہ رقم بہت تھوڑی ہے اور راسموسین نے  شیطانی مہم کئی دہائی پہلے شروع کی تھی جب سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کا کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ ہمیں یہ نظریہِ سازش حُبابی، بے بنیاد اور خود ساختہ لگتا ہے۔

توہینِ قرآن مہم کا اصل محرک مغربی دنیا میں قرآن کی مقبولیت ہے۔ اسوقت امریکہ اور یورپ میں قرآن سب سے مقبول کتاب ہے اور اسکے پڑھنے والوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ قرآن کریم جامعات کے اساتذہ، معروف صحافیوں اور دانشوروں کی ذاتی لائیبریریوں کی زینت ہے اور ایمان نہ رکھنے والے بھی اسکا مطالعہ باقاعدگی سےکرتے ہیں۔ توہین کی وارداتوں سے اسکے اشتیاق میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ فرقان حمید کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے مخالفین کی نفرت میں حسد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے، اسلئے اب اس پر پابندی کی باتیں کی جارہیں ہیں۔

پابندی کی اس مہم کی قیادت آجکل عراق کے فراری 37 سالہ سلوان مومیکا کررہے ہیں۔ مجرم پیشہ سلوان نے پانچ سال پہلے عراق سے فرار ہوکر سوئیڈن میں سیاسی پناہ لی ہے۔ سلوان خود کو الحاد کا علمبردار کہتے ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ دنیا میں ساری خرابیوں کی جڑ مذہی عقائد خاص طور اسلام، سیرتِ سروردوعالم (ص)  اور قرآن ہے۔ سلوان کا کہنا ہے کہ وہ قرآن کو انسانیت کا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں اور اس پر پابندی ان کا نصب العین ہے۔ان کا دعویٰ  ہے کہ وہ مسلمانوں کے مخالف نہیں بلکہ معصوم و سادہ لوح  مسلمانوں کے مخلص ہمدرد ہیں۔ سلوان کے خیال میں مسلم مذہبی عقائد نے مہذب دنیا پر انتہائی سنگین منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور دنیا کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئےقرآن پر عالمگیر پابندی ضروری ہے

اس سال جنوری میں راسمس پلوڈن  نے ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن کے نسخے کو پولیس کی حفاظت میں نذرِ آتش کیا تھا، جسکے بعد سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔عوامی مظاہروں سے حکومت خاصی پریشان ہوئی چنانچہ پولیس نے فروری میں قرآن سوزی کو امن عامہ کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگادی۔ پولیس کے اس فیصلے پر قرآن دشمن سخت طیش میں آگئے۔ انتخابی ناکامی کی وجہ سے راسمس پلوڈن کی اہمیت ختم ہوچکی ہے چنانچہ میدان سلوان کے ہاتھ آگیا۔ انھوں نے سارے ملک کا دورہ کیا اور انتہاپسندوں کو باور کرایا کہ تقسیمِ قرآن کے مربوط نظام کی بنا پر مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور یہ سلسلہ اگر ایسے ہی جاری رہا تو مسلمان بہت جلد سوئیڈن پر چھاجائینگے۔سلوان کی جانب  سے خطرے کی ان گھنٹیوں پر لوگوں نے کان نہ دھرا، اسکی بڑی وجہ  یہ ہے  کہ یہاں بولی جانیوالی زبانوں میں سے کسی پر بھی موصوف کو عبور نہیں اور انھیں 'پناہ گیر' سمجھا جاتا ہے۔ لیکن انگلیوں پر گِنے جانیوالےراسموسین سے متاثر انتہاپسند انکے گرد جمع ہوگئے۔

اسی کیساتھ سلوان نے اسلام مخالف وکلا کے ذریعے  قرآن سوزی پر پابندی کے خلاف عدالت میں درخواست دیدی۔ انکا موقف تھا کہ کسی علامت کو نذرِ آتش کرنا اس نظرئے اور علامت کے خلاف احتجاج ہے جس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔اپریل میں عدلیہ نے فیصلہ سنایا کہ اجتماع اور احتجاج کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے چنانچہ قرآن سوزی پر پابندی غیر آئینی قرار دیدی گئی۔

عدالتی فیصلے پر سلوان ممیکا نے زبردست جشن منایا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ عیدالاضحیٰ کے  روز دارالحکومت کی مرکزی جامع مسجد کے سامنے خواتین سے امتیازی سلوک کی اس دستاویز اور منشورِ دہشت گردی کو نذرآتش کیا جائیگا۔ انھوں نے عدالتی حکم کی نقل کیساتھ پولیس کو مظاہرے کی درخواست دیدی۔ سلوان کا کہنا تھا کہ مسلم انتہاپسند انکے جانی دشمن ہیں لہذاانھیں بھرپور تحفظ چاہئے۔

 عید کے دن صبح سویرے پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، جس مقام پر آتشزنی کی واردات ہونی تھی وہاں پولیس نے تین حصار قائم کرلئے۔ قومی جذبات بھڑکانے کیلئے اس مقام کو سوئیڈن کے پرچموں سے سجادیا گیا اور  لاوڈاسپیکر پر قومی ترانہ اور رزمیہ گیت سنائے جارہے تھے۔

میگا فون پر مغلظات بکتے ہوئے سلوان  نے قرآن پر Bacan(سور کی چربی) مَلی، حقارت سے اسکے صفحات پھاڑ کر اپنےپیروں تلےروندے اور پھر نسخے کو آگ لگادی۔ راسموسین نے قرآن کے سوئیڈش ترجمے کو جلایا تھا اور سلوان نے زخم کی سوزش کو دوچند کرنے کیلئے عربی نسخے کا انتخاب کیا۔ اس دوران سلوان کے گرد پولیس نے حفاظتی حصار بنا رکھا تھا۔

سلوان جیسے انتہا پسندوں کی دنیا میں کمی نہیں لیکن اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قرآن سوزی کی نئی واردات عدالتی حکم پر ہوئی اور پولیس نے سلوان ممیکا کو جو تحفظ فرایم کیا وہ VIP Protocolکے مساوی تھا۔قرآن جلانے کے عمل میں وردی پوش پولیس سپاہیوں نے سلوان کی مدد کی۔

اس موقع پر اسلام کے بارے میں مغرب کا غیر حساس رویہ کھل کر سامنے آیا۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل نے کہا کہ مذہبی کتب کو جلانا توہین اور دل شکنی کا باعث ہے اور قانونی ہونے کی صورت میں بھی یہ کام مناسب نہیں' ساتھ ہی انھوں نے ترکیہ کو تلقین کی کہ سوئیڈن کی نیٹو کیلئے رکنیت کی جلد از جلد توثیق کردی جائے۔ ایسا ہی مذمتی بیان نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کا ہے۔ برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس عمل کو پسند نہیں کرتے تاہم کچھ لوگوں کیلئے یہ آزدای اظہار رائے کا معاملہ ہے۔ ہمیں مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ ہے لیکن ہم نیٹو کیلئے سوئیڈن کی رکنیت کی جلد از جلد توثیق کی توقع کرتے ہیں۔

امریکہ، یورپی یونین اور مغرب کے کسی بھی ملک یا قائد نے اس غیلظ عمل کیلئے مذمت (condemn)کا لفظ استعمال نہیں کیا اور ہر جگہ آزادی اظہار کے عطر سے تعفن کے دف مارنے کی مکروہ کوشش کی گئی۔قرآن کی بیحرمتی کیخلاف بغداد میں اپنے سفارتخانے پر مظاہرے  سے سوئیڈن اتنا مشتعل ہے کہ وزارت خارجہ کے بجائے وزیراعظم اولف کرسٹرسن نے بنفس نفیس اپنے عراقی ہم منصب کو فون کرکے مظاہرے کو 'ناقابل قبول' قراردیا۔ اس گفتگو میں بھی سوئیڈن کے وزیراعظم نے کہا کہ وہ قرآن جلانے کے عمل کو 'مناسب' نہیں سمجھتے لیکن بادی النظر میں سلوان قانون شکنی کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔اسی کے ساتھ بغداد میں مظاہروں سے 'مشتعل' ہوکر سلوان نے دس دن  بعد اسٹاک ہوم کے عراقی سفارتخانے کےسامنے قرآن کے ایک نسخے اور عراقی پرچم نذرِ آتش کرنے کا اعلان کیاہے۔ عراقئ جھنڈے پر اللہ اکبر تحریر ہے۔

مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد سوئیڈن کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'ملکی آئین کے تحت سوئیڈن میں اجتماع، اظہار رائے اور مظاہرے کی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن حکومت کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ حالیہ مظاہروں میں کی جانے والی اسلاموفوبک کارروائیاں مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز ہیں۔ ہم ان اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں اور یہ کسی بھی طرح سویڈش حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔قرآن یا کسی اور مقدس کتاب کو نذر آتش کرنا ایک قابل اعتراض، اشتعال انگیز اور توہین آمیز عمل ہے۔ نسل پرستی، غیر ملکیوں سے نفرت اور عدم رواداری کے اظہار کی سویڈن یا یورپ میں کوئی جگہ نہیں ہے. اس دوٹوک بیان کے بعد مسلم دنیا کو توقع ہے کہ سوئیڈن توہینِ قرآن کی ہرکوشش پر پابندی عائد کردیگا۔

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ''قرآن پاک کی بے حرمتی جیسے نا قابل قبول اور گستاخانہ عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔آزادی اظہار کے نام پر کسی بھی عقیدے کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرنا قابل مذمت عمل ہے اور کسی بھی عقیدے کے ماننے والوں کی دل آزاری اور ان کے مقدسات کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ یقیناًاربوں زخمی دلوں کیلئے پوپ کے دلاسہ حوصلے کے باعث ہے

علمائے قانون  کا کہنا ہے کہ جلانے کے  عمل کو آزادی اظہار کا تحفظ حاصل نہیں کہ یہ عمل بہت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔جب ستمبر  2010میں ایک امریکی پادری ٹیری جونز نے اپنے گرجا کے پارکنگ لاٹ میں  قرآن جلانے کا اعلان کیا تو شہری دفاع  کے مقامی محکمے نے  یہ کہہ کر پابندی لگادی کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے سے حادثاتی آتشزنی کا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہروں کے دوران ٹائروں کو آگ لگانے پرنقصِ امن کے پرچے کاٹے جاتے ہیں حالانکہ ٹائروں کو نذرآتش کرنا مظاہرین کی جانب سے غصے کا اظہار ہے۔

ہم اس سے پہلے بھی ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں کہ تحٖفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ، انسدادِ توہین مذہب کی راہ میں  رکاوٹ نہیں ہے۔خود سوئیڈن ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطانِ معظم کارل سولہ گستاف  (Carl XVI Gustaf) پر تنقید کی اجازت نہیں۔اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا اکرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟

  ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 7 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 7 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 9 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو