Thursday, July 25, 2024

القدس شریف میں اسرائیلی وزیر کی ایک اور دراندازی اس بار اپنے لوگ ہی ناراض ۔۔۔۔

 

القدس شریف  میں اسرائیلی وزیر کی  ایک اور دراندازی

 اس بار اپنے لوگ ہی ناراض ۔۔۔۔

آج  حکومتی اتحاد کے قائد، عزم یہود جماعت (Otzma Yehudit) کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی، اتامار بین گوئر(Itamar Ben Givr)نے اعلان کیا  کہ القدس شریف کی  Statis Queحیثیت میں مناسب تبدیلی کرلی گئی ہے اوراب یہودی  'جبلِ بیتِ محترم (Har ha Bait)المعروف Temple Mountپر عبادت کرسکیں گے۔جناب بن کوئر نے گزشتہ ہفتے  ٹیمپل ماونٹ پر عبادت کی تھی۔

اس معاملے کے تاریخی پس منظر پر ایک مختصر گفتگو

یروشلم  تینوں ابراہیمی مذاہب یعنی    اسلام ، یہودیت اور مسیحیت  کیلئے یکساں  محترم ہے

عثمانی دور سے یروشلم چار کوارٹر میں تقسیم ہے۔

  • غربی یا یہودی کوارٹر جہاں دیوار گریہ واقع ہے
  • مشرقی بیت المقدس  جسے القدس شریف کہا جاتا ہے۔  گنبد صخرا اور مسجد  اقصیٰ   کا یہ علاقہ   مسلمانوں کیلئے محترم ہے۔ مسجد سے گنبدصخریٰ کا علاقہ دراصل مسجد اقصیٰ کا دالان ہے
  • بیت اللحم    کا علاقہ مسیحی کوارٹر کہلاتا ہے، یہ حضرت عیسیٰ کا مقام پیدائش ہے، یہیں وہ  پہاڑی ہے جس سے حضرت مسیحؑ وعظ ارشاد فرماتے تھے
  • اور آرمینین کوارٹر

احبا ب کی دلچسپی کیلئے عر ض ہے کہ عثمانی اقتدر سے پہلے یہودیوں کو یروشلم آنے کی اجازت نہیں تھی۔ انھیں یہاں آنے اور زیارت تک قیام کرنے  کی اجازت  عثمانیوں نے دی تھی۔

جنگ 1967 میں بیت المقدس پر  قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت نے اس کے احترام کی تحریری ضمانت القدس شریف اوقاف اور اقوام متحدہ کو تحریری شکل میں جمع کرائی ہے ، جسے Status Que Maintenance Documentکہتے ہے۔ دستاویز کے مطابق

  • القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ صرف مخصوص اوقات میں ہوگا
  • غیر مسلم زائرین کی تعداد دودرجن سے کم ہوگی اور یہ افراد محدود وقت تک کمپاونڈ میں رہیں گے
  • غیر مسلم زائرین کو کمپاونڈ میں عبادت کی اجازت نہیں ہوگی
  • القدس شریف میں کسی قسم کا اسلحہ نہیں لایا جائیگا

حالیہ  حکومت  کے انتہا پسند،   Status Quoدستاویز کو منسوخ کردینا چاہتے ہیں اور اسی  کے اظہار  کیلئے بن گوئز نے گزشتہ ہفتہ گنبدصخرا کے سائے میں عبادت کی

مزے کی بات کہ اب  مسلمانوں سے زیادہ یہودی علما  بن گوئر کی مذمت کررہے  ہیں۔ یہودیو ں کا کہنا ہے کہ  70 عیسوی میں یروشلم کی تباہی اور رومن بادشاہ Titusکے ہاتھوں ہیکل سلیمانی کے انہدام کے بعد نئے ہیکل کی تعمیر تک  ٹیمپل ماونٹ یہودیوں کیلئے حرام ہے۔ وہاں عبادت کا  کیا سوال کہ اسکی حدود میں داخلہ بھی سخت گناہ ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق ہیکل سلیمانی کی تعمیرِ نو کا مقدس فریضہ مقدس   فریضہ  نجات دہندہ المعروفHa-mashiach اپنے دست مبارک سے انجام دینگے۔ یہودیوں کے یہاں نجات دہندہ حضرت عزیر ؑ یا حضرت دوادؑ کے کوئی دوسرے خلیفہ ہونگے جبکہ مسیحیوں  اور مسلمانوں کے خیال میں   Messiah حضرت مسیح ؑہیں۔

ٹیمپل ماونٹ پر عبادت کے بارے  میں  بن گوئر کی شیخی سے قدامت پسندسخت مشتعل ہیں۔

کنیسہ(پارلیمان )میں تقریر کرتے ہوئے نین یاہو کی اتحادی جماعت  Shasپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرداخلہ  موشے اربل نے کہا "  ٹیمپل ماونٹ پر عبادت کرکے  حضرت سلیمانؑ کے خلاف جس عظیم توہین  رسالت (blasphemy) کا ارتکاب کیا گیا ہے اس پرخاموش  نہیں رہا جاسکتا '

اسی جماعت کے ایک اور رکن پارلیمان موشے  گیفی نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ ٹمپل ماونٹ میں یہودیوں کے داخلے پر مکمل پابندی لگائی جائے

 علما کے فتووں  کے باوجود بن گوئر ٹیمپل ماونٹ پر عبادت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے  کہا 'ساری دنیا اسے القدس شریف پکارتی ہے حالانکہ یہ ہمارا Har haBayīt  یا جبلِ بیتِ محترم ہے۔ یہ ہمارے لئے کائنات کا مرکز ہے۔




عالمی عدالت نے غزہ اور غربِ اردن پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی قراردے دیا آزاد فلسطینی ریاست ناقابلِ قبول ہے، اسرائیلی کنیسہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند؟؟؟؟؟

 

عالمی عدالت نے غزہ اور غربِ اردن پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی قراردے دیا

آزاد فلسطینی ریاست ناقابلِ قبول ہے، اسرائیلی کنیسہ

سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامند؟؟؟؟؟

عالمی عدالت انصاف (ICJ)کا کہنا ہے کہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم (القدس شریف) اور غزہ پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی ہے اور اسے فوراً ختم ہونا چاہیے۔ تقریباًدوسال پہلے دسمبر 2022 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے متعمد عام نے اسرائیلی قبضے پر عالمی عدالت کی رائے طلب کی تھی۔ جمعہ 19 جولائی کو پندرہ رکنی بینچ کی جانب سے عدالت کے سربراہ جسٹس سلام نواف نے ICJ کی Advisory Opinionیا 'مشاورتی رائے' پڑھ کر سنائی۔ عدالت نے قبضے کو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی قراردیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ان علاقوں پر اپنی حکمرانی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی تلافی بھی کرنی چاہئے۔

یہ 'عالیشان' عدالت قوت نافذہ سےمحروم ہے چنانچہ اسکے فیصلے، حکم کے بجائے 'رائے' یا سفارش کہلاتے ہیں۔ اور جب معاملہ اسرائیل کا ہوتو عالمی عدالت کی مجال کہ تل ابیب کو حکم دے سکے۔ مسند پر بیٹھے قاضی حضرات لجاجت بھرے لہجے میں یہ کہہ کر رہ گئے 'جاں کی امان پاوں تو عرض کروں '۔ستم ظریفی کہ جس پندرہ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے اس میں امریکی جج محترمہ سارہ کلیولینڈ بھی شامل ہیں لیکن واشنگٹن کیلئے یہ فیصلہ قابل قبول نہیں۔

اس سے دودن پہلے اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے 9 کے مقابلے میں 68ووٹوں سے ایک قرارداد منظورکرلی جس میں کہا گیا ہےکہ آزاد فلسطینی ریاست کسسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ قرارداد کے مطابق قلبِ اسرائیل میں قائم ہونے والی فلسطینی ریاست سے مملکت کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آزاد فلسطین دراصل انتہا پسند وہشت گرد اسلامی ریاست ہوگی جس سے صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ ہماری پڑوسی عرب ریاستیں بھی عدم استحکام کا شکار ہوجائینگی۔ دائیں بازو کے انتہا پسند اور حزب اختلاف کے معتدل ارکان نے قرارداد کے پرجوش حمائت کی

دونوں عرب جماعتوں اور لیبر پارٹی نے قرارداد کی مخالفت میں ہاتھ بلند کئے۔ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ کی Yesh Atid(مستقبل پارٹی)کے ارکان رائے شماری کے دوران ایوان سے باہر چلے گئے۔

اسی دن کنیسہ کے عرب ارکان پٹتے پٹتے بچے۔ اسرائیل میں عرب شہریوں کو بھی ووٹ کا حق حاصل ہے لیکن شہریت کا حق صرف ان لوگوں کے پاس ہے جو قیام رہاست کے وقت اسرائیل میں آباد تھے۔ یعنی غرب اردن، غزہ اور گولان کے رہائشی اسرائیل کے شہری نہیں۔ اسوقت 120 رکنی اسرائیل پارلیمان میں عرب ارکان کی تعداد 10 ہے،جن میں سے 5 کا تعلق اخوانی خیالات کی حامل رعم سے ہے جبکہ سییکیولر ہداش جماعت کے پانچ ارکان پیں۔ بحث کے دوران وزیراعظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہداش کے سربراہ ایمن عودۃ نے کہا 'بی بی اصل دہشت گرد تم ہو جو غزہ کے بے گناہوں کو قتل کررہے ہو' ۔جس پر حکومتی ارکان نے زبردست ہنگامہ کیا۔ اسکے بعد جب رعم کے سربراہ منصور عباس تقریر کیلئے کھڑے ہوئے تو حکومتی ارکان انکی ڈیسک کے سامنے آگئے اور 'جنگ بند کراو' کے نعرے لگائے۔ منصور عباس نے کہا 'یقیناً جنگ بندی ہونی چاہئے کہ لڑائی میں 50 ہزار بے گناہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس پر کئی ارکان منصور عباس کو مارنے کیلئے دوڑے اور اسپیکر نے مائیک بند کرکے انھیں بیٹھ جانے کا حکم دیدیا۔

غزہ میں زیرحراست اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کیلیے مذاکرات جاری ہیں جنکے بارے بعد امریکی وزیرخارجہ ہردوسرے روزفرماتے ہیں کہ اصولی اتفاق ہوچکا اوردستخط چند روز کی بات ہے۔ اسرائیل میں یہ تاثر عام ہے کہ جنگ بند ہوتے ہی جانی نقصانات اور 7 اکتوبر کو اسرائیلی سرغرسانی میں کمزوری کی جو حقیقت سامنے آئیگی اسکے بعد نیتھن یاہو کی حکومت ایک گھنٹے سے زیادہ نہ چل سکے گی۔ خود اتحادی جماعتیں بھی بی بی سے خوش نہیں اور حالیہ جائزے کے مطابق حکمراں اتحاد کے ارکان میں اب انتہاپسند وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر وزیراعظم کیلئے پہلی ترجیح ہیں۔ وزیراعظم کو ابھی بھی امید ہے وہ مزاحمت کاروں کے کسی بڑے رہنما کو قتل کرواکر اہل غزہ سے اپنی شرائط پر قیدی رہا کرواسکتے ہیں۔ تیرہ جولائی کو خان یونس کے المواصی پناہ گزین کیمپ پر 2000 پاونڈ کے بم برسائے گئے اور حملہ ساری رات جاری رہا۔ صبح اسرائیلی فضائیہ نے فخر سے اعلان کیا کہ مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ محمد الضیف اس حملے میں مارے گئے۔ وزیراعظم بھرپور حفاظتی انتظام لیکن 'فاتحانہ شان' کیساتھ غزہ پہنچے، فوجیوں سے خطاب کیا اور انھیں محمد ضیف ے قتل کی خوشخبری سنائی۔اسی شام غزہ سے اعلان ہوا کہ ہر مزاحمت کار شوق شہادت سے سرشار ہے اور کسی کی موت سے جدوجہد متاثر نہیں ہوگی لیکن محمد ضیف کو اسکے رب نے دشمن کی تذلیل کیلئے زندہ رکھا ہوا ہے۔اس وضاحت کے بعد بھی اسرائیلی حکومت کا اصرار تھا کہ محمد ضیف جاں بحق ہوچکے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نے خود فرمایا 'ہم یقین کیساتھ نہیں کہہ سکتے کہ المواصی پناہ گزیں کیمپ پر حملے میں مزاحمت کاروں کا کماندارِاعلی مارا گیا یا نہیں لیکن جنگجووں میں شگاف صاف نظر آرہا ہے۔ اس حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت 70 بے گناہ شہری جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب بی بی نے ڈانلڈ ٹرمپ سے امیدیں وابستہ کرلیں ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق امریکی صٖدر نے دھکی دی کہ 'ہم (غزہ سے) اپنے قیدیوں کی واپسی چاہتے ہیں اور بہتر ہے کہ وہ میرے عہدہ سنبھالنے سے پہلے واپس آ جائیں ورنہ آپ کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ مشرق وسطیٰ کی حالیہ جنگ اہل غزہ کے حملے سے شروع ہوئی۔ اگر میں امریکہ کاصدر ہوتا تو اسرائیل پر حملہ ممکن ہی نہیں تھا۔

جناب ٹرمپ کی غرور سے چور تقریر،کئی سفید جھوٹ،دروغ آمیز دعووں اور عالمی معاملات پر شیخی سے عبارت تھی۔خود کو دبنگ اور مضبوط رہنما ثابت کرتے ہوئے بولے 'میں نے افغان ملا سے براہ راست فون پر بات کی اور صاف صاف کہدیا اگر ہمارے جوانوں پر آج کے بعد کوئی حملہ ہوا ہو تو ہم ایسا ہتھیار استعمال کرینگے جسے دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ جواب میں ملا نے وعدہ کیا Your Excellencyایسا نہیں ہوگا اور دیکھو اسکے بعد میرے دورِ اقتدار میں وہاں ہماری فوج پر ایک بھی حملہ نہ ہوا۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات سے کئی سال پہلے وہ 13 اپریل 2017کو افغانستان پر 21600 پونڈ کا Massive Ordnance Air Blast Bomb (MOAB)گرا چکے تھے اور جب یہ حربہ بھی ناکام رہا تب مذاکرات شروع ہوئے۔ جس فون گفتگو کا صدر ٹرمپ نے حوالہ دیا وہ دھمکی نہیں ملاوں سے جان کی امان کیلئے تھی۔ قطر امن مذاکرات کے بعد جب امریکہ بہادر افغانستان سے واپسی کو تیار ہوگئے تو سوال اٹھاکہ واپس ہوئی امریکی سپاہ کی حفاظت کا بندوبست کیا ہوگا۔ امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد کو انکے افغان ہم منصب نے یقین دلایا کہ اگر امریکی اپنا بھاری اسلحہ یہیں چھوڑنے پر تیار ہوجائیں تو ذاتی اسلحے سے لیس انکے سپاہیوں کو واپسی کا محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے لیکن اس صورت میں امریکہ کو ڈرون حملے اور بمباری نہ کرنے کی ضمانت دینی ہوگی۔ باہمی اتفاق پر مولوی صاحب نے اصرار کیا کہ وہ اس فائر بندی کی امریکی قیادت سے ضمانت چاہتے ہیں جس پر 3 مارچ 2020 کو سابق امریکی صدر اور ملا کی فون پر بات ہوئی۔ گفتگو کے فوراً بعد ڈانلڈ ٹرمپ نے قصرِ مرمریں میں صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے 'ملا عبدل سے 35 منٹ بات کی ہے' جناب ٹرمپ نے گفتگو کو مثبت اور اچھی قراردیتے ہوئے کہا ہم بھی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں اور ملا بھی۔ میرے عبدل سے اچھے تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔جس Your Excellencyپر جناب ٹرمپ کو ناز ہے تو یہ سیاسی رکھ کھاو (Protocol)کا حصہ ہے جسکا ملا صاحب نے اہتمام کیا جسے خوف سے تعبیر کرکے سابق امریکی صدر نے اپنی کم ظرفی ظاہر کردی۔

جناب ٹرمپ کی متوقع فتح کی شکل میں ڈوبتے نیتھن یاہو کو تنکے کا سہارا مل گیا ہے لیکن زمینی حقیقت جوں کی توں ہیں۔بے گناہوں کے قتل عام کے باوجود اسرائیلی فوج اب تک کوئی بڑا عسکری ہدف حاصل نہیں کرسکی جبکہ اسکی ناقابل تسخیرٹیکنالوجی کی پرتیں بھی ایک کے بعد ایک کھلتی جارہی ہیں۔

جمعہ 19 جولائی کو خلیج عدن س داغے جانیوالے ڈرون نے دارالحکومت تل ابیب کے مرکز شہر (Downtownکو نشانہ بنایا۔اسرائیلی فوج کے تصویری اعلامئے میں کہا گہا ہے کہ UAV(ڈرون)، ڈپلومیٹک انکلیو، فوجی قبرستان اور ساحل کے قریب عین قلب شہر کی ایک رہائشی عمارت پر گرا جس سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یعنی یہ ڈرون برطانیہ، امریکہ، بحرین اور اردن کے جدید ترین نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکتا اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوا اور امریکی آئرن ڈوم سمیت اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام پوشیدہ رہ کر دارالحکومت کے وسط تک پہنچ گیا۔

جواب میں دوسرے روز اسرائیلی فضائیہ نے بحیرہ احمر کی یمنی بندرگاہ ٖحدیدۃ پر بمباری کی جس سے درجنوں شہری ہلاک ہوئے۔ یمن کے لوگ بمباری کے عادی ہیں کہ ان بیچاروں کو سعودی، اماراتی، مصری اور امریکی فضائیہ، دہائیوں سے مشق ستم بنائے ہوئے لیکن تل ابیب پر حملہ اسرائیلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

غزہ اور غرب اردن میں اسرائیلی وحشت و بربریت کیساتھ دنیا بھر میں آزادی اظہار پر قدغنوں کا سلسلہ ساری ہے۔ اس ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم امریکی کانگریس کے مشتترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے۔اس موقع پر کچھ ارکان کانگریس نے احتجاج کا اعلان کیا ہے جن میں سینیٹر برنی سینڈرز بھی شامل ہیں۔دنیا بھر کی پارلیمان میں اجلاس سے واک آوٹ اور بائیکاٹ معمول کا حصہ ہے لیکن امریکی کانگریس کے اسرائیل نواز عناصر اس معاملے پر بہت حساس ہیں۔ریپبلکن پارٹی کےقومی کنونشن کے موقع پرکانگریس کے اسپیکر مائک جانسن نے دھمکی دی کہ وہ خصوصی اجلاس کیلئے سارجنٹ ایٹ آرمز کی اضافی نفری منگوا رہے ہیں اور جو رکن اسمبلی قابو سے باہر ہوا وہ گرفتاری کیلئے تیار رہے۔

دوسری طرف عالمی رائے عامہ تیزی سے منفی ہونےکی بناپر اسرائیل کو ثقافت اور کھیل کے میدان میں تنہائی کا سامنا ہے۔بیلجئیم کی قومی فٹبال ٹیم اور اسرائیل کا میچ 'خدشے' کے پیش نظر منسوخ کردیا گیاہے۔ بیلجئیم فٹبال فیڈریش (RBFA)کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے میچ 6 ستمبر کو برسلز میں ہونا تھا لیکن شہری حکومت نے حفاظتی خدشے کے پیش نظر میچ منعقد کرانے سے انکار کردیا ہے اور ملک کا کوئی بھی دوسرا شہر میزبانی کو تیار نہیں۔

تاہم اسرائیل کی عرب رہنماوں میں مقبولیت کم ہوتی نظر نہیں آتی۔صدر بائیڈن نے 16 جولائی کو انکشاف کیا کہ سعودی عرب امریکہ سے سلامتی کی ضمانت کے بدلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے۔ایک انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا 'مجھے سعودیوں کا فون آیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں' حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ہفت روزہ فرائیڈے اسیشل کراچی 26 جولائی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 جولائ 2024

روزنامہ امت کراچہ 26 جولائی 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 جولائی 2024


مکتی باہنی کے لواحقین کیلئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ بنگلہ دیش میں فسادات، بدترین سینسر۔ سارا ملک مفلوج

 

مکتی باہنی کے لواحقین کیلئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ

بنگلہ دیش میں فسادات، بدترین سینسر۔  سارا ملک مفلوج

بنگلہ دیش آجکل شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ رائٹرز کے مطابق 19 جون کو صرف دو گھنٹے کے دوران ڈھاکہ کے مرکزی ہسپتال میں جامعات کے27 طلبہ کی لاشیں لائی گئیں جن میں لڑکیاں بھی شامل ہیں۔یہ خونریزی اب تک 200 نوجوانوں کا لہو چاٹ چکی ہے۔ ملک گیر کرفیو، فون و موبائیل اور انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود ہنگامے جاری ہیں۔ ذرایع ابلاغ کے ساتھ فون (لینڈ لائن) پر پابندی کی وجہ سے  بیرونی دنیا سے بنگلہ دیش کا رابطہ منقطع ہے۔سیاسی تجزیہ نگاوں کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی پابندیاں 2011میں مصری صدر محمد مورسی کی معزولی پر ہونے والے ہنگاموں کی خبریں روکنے کیلئے جنرل السیسی نے لگائی تھیں۔حوالہ:رائٹرز

بنگلہ دیشی طلبہ کو سرکاری ملازمتوں میں نام نہاد جنگِ آزادی کے سپاہیوں کی اولاد کیلئے کوٹہ مختص کرنے پر اعتراض ہے۔

کوٹہ سسٹم کا پس منظر  کچھ اسطرح ہے کہ قیامِ بنگلہ دیش کے بعد سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کے ارکان کیلئے 10 فیصد آسامیاں مختص کردی گئیں۔قوم پرستوں کا کہنا تھا کہ ایک سال سے زیادہ  عرصہ جاری رہنے والی جنگ آزادی میں مصروفیت کے سبب ان نوجوانوں کا تعلیمی سال ضائع ہوا جسکا مداوا ضروری ہے۔ آہستہ آہستہ کوٹے کا حجم تیس فیصد کرکے سپاہیوں کے بچوں کے ساتھ انکے پوتے پوتی،نواسے اور نواسیوں کو بھی کوٹے کا حقدار قرار دیدیا گیا۔ اسوقت یہاں سرکاری ملازمتوں میں مختلف طبقات کا کوٹہ کچھ اس طرح ہے۔

اقلیت : 5 فیصد

خواتین: 10 فیصڈ

پسماندہ اضلاع : 10

مکتی باہنی کے جوانوں کے بچے :30 فیصد

وزیراعظم کی صوابدید: 1 فیصد

میرٹ: 44 فیصد

دنیا کے دوسرے مسلم معاشروں کی طرح بنگلہ دیش میں نوجوانوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے جسکی بڑی تعداد بیرزگاری کا عذاب سہہ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ 20 لاکھ تعلیمیافتہ بنگالی نوجوان بیروزگار ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کا بڑا حصہ مکتی باہنی کے لواحقین کیلئے وقف ہے۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی ادارے اور آجر انتہائی ظالمانہ شرائط پر نوجوانوں کو نوکریاں پیش کررہے ہیں

گزشتہ کئی برس سے کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک جاری ہے۔ حکومت نے اعتراض کو 'جماعتی سازش' قراردیکر مسترد کردیا اور سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ شبر کے درجنوں کارکن 'پولیس مقابلے' کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبہ کےتیور دیکھ کر حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کیساتھ وزیراعظم کی اتحادی جاتیہ پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈالدیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا احساس تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انھوں  نےاپنی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم کردیا۔منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدلیہ اس میمورنڈم کو کالعدم قراردیدیگی

اس طرح ایک طرف تو بنگلہ دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے بلا خوف وزیراعظم کا حکم کالعدم قراردیدیا اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں گی کہ میں نے تو اپنی سی کوشش کرلی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں

اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5 جون کو عدالت عالیہ نے مکتی باہنی کے لواحقین کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی قراردے دیا۔عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبہ اس پر سخت برہم تھے۔ لاوا پکتا رہا اور 12 جولائی کو ملک بھر کی جامعات کے طلبہ سڑکوں پر آگئے۔ حکمراں عوامی لیگ اور انکی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں چار طلبہ ہلاک اور سینکڑوںزخمی ہوئے ۔ تشدد سے تحریک میں مزید شدت آگئی۔

ہفتہ 13 جولائی کو وزیراعظم نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جذباتی خطاب کیا۔ انکا کہنا تھا کہ انتخابات ہارنے کے بعد جماعت اسلامی اور بی این پی تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔پاک فوج کے تنخواہ دار “جماعتی” سنار بنگلہ کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مکتی باہنی کے احسانات نہیں بھول سکتے۔ حسینہ واجد نے جذباتی انداز میں کہا'دیش کو 1971 کی سی صورتحال کا سامنا ہے۔  بنگلہ دیش میں اگر مکتی باہنی کی اولاد کو نوکری نہیں ملے گی تو کیا 1971کے “خونی رجاکاوں”کی اولاد کو نوازا جائے۔ یہ دراصل 1971 میں مکتی باہنی کے مقابلے میں پاکستانی رجاکاروں(رضاکاروں) کی مزاحمت کی طرف اشارہ تھا جو البدر اور الشمس کے عنوان سے منظم ہوئے تھے۔ 

قومیت کا یہ تیر کارگر تو کیا ہوتا، وزیراعظم کی تقریر  کے بعد جامعات میں کچھ نئے نعرے گونجنے لگےکہ

توئی کی ، امی کی، رجاکار، رجاکار (تو کون؟ میں کون؟ رضاکار، رضاکار)۔ چھیتے گلم اودھیکار، ہوئے گلم رجاکار(اگر حق چاہتے ہو تو رضاکار بن جاؤ)۔

طلبہ کیساتھ اب عام سیاسی کارکن بھی مظاہرہ کررہے ہیں۔ منگل 16 جون  کو کاکس بازار میں عوامی لیگ اور چھاترو لیگ کے تمام دفاترتباہ کر دئے گئے۔ اسی روز ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن کی مرکزی عمارت جلادی گئی اور اسلے تین دن بعد مظاہرین ڈھاکہ جیل ہر چڑھ دوڑے اور وہاں نظر بند 800 قیدیوں کو باہر نکال کر عمارت کونذزِ آتش کردیا گیا۔ (حوالہ: رائٹرز)

پولیس کے  غیر موثر ہوجانے پر بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (BGB) کے دستے طلب کرلئے گئے۔ اس پر مزید اشتعال پھیلا کہ عام بنگالی،  BGBکو 'بھارتی گارڈ' کہتے ہیں۔ گارڈز کی تعیناتی پر ہنگاموں میں مزید شدت آگئی اور مشتعل مظاہرین نے ڈھاکہ چاٹگام شاہراہ کے مرکزی پل کونذرِ آتش کرکے دارالحکومت کا باقی ملک سے رابطہ جزوی طور معطل کردیا۔ طلبہ نے الزام لگایا کی عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کے کارکن BGPکی وردی پہن کر فائرنگ کررہے ہیں۔ طلبہ کا کہنا تھا حکومت مارے جانیوالوں کی لاشیں غائب کررہی ہے۔

جمعہ 19 جولائی کو BGBہٹاکر ملک کو فوج کے حوالے کردیا گیا اور ساتھ ہی طلبہ کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے حسینہ واجد نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کا خون بہتے نہیں دیکھ سکتے۔عدالتی احکام کی خلاف ورزی ممکن نہیں لیکن قابل عمل درمیانی راستہ تلاش  کرنے کیلئے ہم 'اپنے بچوں' کو بات چیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی کیساتھ وزیراعظم نے طلبہ سے مذاکرات کیلئے وزیرقانون انیس الحق اور وزیرتعلیم محب الحق پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کردی۔ لیکن طلبہ نے مذاکرات کی دعوت مسترد کردی۔ طالب علم رہنما حسنات عبداللہ نے صاف صاف کہاکہ پہلے کوٹے کی منسوخی کا سرکاری گزٹ جاری کرو پھر بات ہوگی۔ دبلے پتلے چھریری بدن کے حسنات نے پرعزم لہجے میں کہا کہ ہم اپنے مطالبات سے پیچھے نہی ہٹیں گے نہ اپنے ساتھیوں کے لہو کا سودا کرینگے، حوالہ: ہندوستان ٹائمز، روزنامہ ہندو، بی بی سی۔

بہیمانہ تشدد بھی جب کام نہ آیا تو باعزت پسپائی کیلئے عدلیہ سے مشاورت کی گئی اور 19 جولائی کو سرسری سماعت کے بعد ڈھاکہ ہائیکورٹ نے مکتی باہنی کا کوٹہ5 فیصد کردیا۔ عدالتی حکم کے مطابق 2 فیصد آسامیاں اقلیتوں  کیلئے  مختص ہونگی جبکہ 97 فیصد تقرریوں کی بنیاد قابلیت (میرٹ) ہوگی۔ذرایع عامہ پر بندش کی وجہ سے عدالت کے اس نئے حکم کا پر طلبہ کا ردعمل ،تادم تحریر سامنے  نہیں آیا

ہفت روزہ فرائیڈے اسیشل کراچی 26 جولائی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 جولائ 2024

روزنامہ امت کراچہ 26 جولائی 2026

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 جولائی 2026


Friday, July 19, 2024

قاتلوں کی اولاد کیلئے کوٹہ۔ بنگلہ دیش میں فسادات

 

قاتلوں کی اولاد کیلئے کوٹہ۔ بنگلہ دیش میں فسادات

بنگلہ دیش کے طلبہ آجکل سڑکوں پر ہیں۔ انھیں سرکاری ملازمتوں میں نام نہاد جنگِ آزادی کے سپاہیوں کی اولاد کیلئے کوٹہ مختص کرنے پر اعتراض ہے۔ قیامِ بنگلہ دیس کے بعد سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کے ارکان کیلئے 10 فیصد آسامیاں مختص کردی گئیں اور آہستہ اہستہ کوٹے کا حجم تیس فیصد کرکے سپاہیوں کے بچوں کے ساتھ انکے پوتے پوتی،نواسے اور نواسیوں کو بھی کوٹے کا حقدار قرار دیدیا گیا۔ اسوقت بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کیلئے مختلف طبقات کیلئے کوٹہ کچھ اس طرح ہے۔

اقلیت  : 5 فیصد

خواتین : 10 فیصڈ

پسماندہ اضلاع  : 10

مکتی باہنی کے جوانوں کے بچے  :30 فیصد

وزیراعظم کی صوابدید : 1 فیصد

قابلیت یا میرٹ : 44 فیصد

گزشتہ کئی برس سے کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک جاری ہے۔ حسینہ واجد نے اعتراض کو 'جماعتی سازش' قراردیکر مسترد کردیا اور سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ شبر کے درجنوں کارکن 'پولیس مقابلے' کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبہ کےتیور دیکھ کر حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کیساتھ وزیراعظم کی اتحادی جاتیہ پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈالدیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا احساس تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انھوں اپنی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم کردیا۔

منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدالت اس میمورنڈم کو کالعدم قراردیدیگی

اس طرح ایک طرف تو بنگلہ دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے بلا خوف وزیراعظم کا حکم کالعدم قراردیدیا اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں گی کہ میں نے تو اپنی سے کوشش کی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں

اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5 جون کو عدالت عالیہ (بنگلہ دیش میں عالیہ ہی عظمیٰ ہے) نے مکتی باہنی کے لواحقین کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی قراردے دیا۔

عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبہ میں لاوا پکتا رہا اور جمعہ کو ملک بھر کی جامعات کے طلبہ سڑکوں پر آگئے۔ حکمراں عوامی لیگ اور انکی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں چار طلبہ ہلاک اور سینکڑوںزخمی ہوئے ۔ طلبہ پرعزم ہیں کہ وہ کوٹہ سسٹم ختم لرکے رہینگے۔




رمضان و عیدین کے بعد عاشورہ محرم بھی لپو لہو صدر بائیڈن کی امن تجاویز یا نئی خانہ جنگی کا منصوبہ؟؟ انتہا پسندوں نے غربِ اردن کو قتل و غارت کی اماجگاہ بنادیا۔ اسرائیلی جنرل کا اعتراف

 

رمضان و عیدین کے بعد عاشورہ محرم بھی لپو لہو

صدر بائیڈن کی امن تجاویز یا نئی خانہ جنگی کا منصوبہ؟؟

انتہا پسندوں نے غربِ اردن کو قتل و غارت کی اماجگاہ بنادیا۔ اسرائیلی جنرل کا اعتراف

اہل غزہ نے رمضان,عیدالفطر اورعیدِ قرباں کےبعد عاشورہ محرم بھی آتش و اہن کی موسلا دھار بارش میں گزارا۔ ذبحِ عظیم اور عاشورہ میں گہرا منطقی تعلق ہے کہ وادی منیٰ میں خلیل اللہ ؑ کے لختِ جگر ؑ نے رب کی رضا کیلئے اپنی گردن خنجر کے نیچے رکھی اور اس عزم کو محبوبِ خدا (ص) کے محبوب نظر (ر) نے کربلا میں عملی جامہ پہنادیا۔ خاک برسروخوں بداماں اہل غزہ گزشتہ سات دہائیوں سے امامِ عالی مقام (ر) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانی اور ثبات و قرار کی جو داستان رقم کررہے ہیں اسکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انبیا کی سرزمین کے یہ  باسی سرکٹانے کیساتھ عقوبت کدوں کو آباد کرکے سنتِ یوسف ؑ بھی ایک نرالی شان سے ادا کررہے ہیں۔

قید و بند صبر و وقار سے جھیلنے اور موت کو بانکپن سے لگانے کی ادا کا کوئی جواب نہیں تو غزہ کی پرعزم ماوں کا صبروضبط بھی بےمثال ہے۔ باہمی تذکیر کیلئے  ایسے ہی ایک واقعے سے گفتگو کا آغاز۔کئی ماہ سے گرفتار تین فلسطینیوں کو رہائی پر زنجیروں میں جکڑ کر غزہ روانہ کیا گیا اور غزہ پہنچنے پر جیسے ہی یہ لوگ فوجی گاڑی سے اترے، وہاں پہلے سے موجود اسرائیلی سپاہیوں نے مشکیں کسے ان پابہ زنجیر نوجوانوں کو گولی مارکر قتل کردیا۔وہاں موجود ایک قیدی کامل غیبیان کے چچا عبدالہادی غیبیان نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ عبدالہادی کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے ان بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے لیکن کسی نے معافی نہ مانگی۔ جب عبدالہادی نے اپنی بھابھی کو انکے بیٹے کے اس بہیمانہ قتل کی اطلاع دی تو صابر و شاکر خاتون نے کہا کہ 'آنسووں پر قابو نہیں لیکن دل اپنے رب سے راضی ہے۔' ہر حال میں اللہ کا شکر۔(حوالہ: رائٹرز)۔ بیچاری آنسو بہانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی کہ غزہ کے ملبے تلے بے گناہ بچوں کے ساتھ انسانیت اور انصاف پہلے ہی سے دفن ہے۔

غزہ کیساتھ غربِ اردن میں ظلم و ستم کو جو بازار گرم ہے اسکا اعتراف خود اسرائیلی مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل یہودا فاکس نے کیا ہے۔ جنرل فاکس کی جکہ اب جنرل اوی بلتھ تعینات کردئے گئے ہیں۔تبدیلیِ کمان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل فاکس نے کہا “قوم پرست انتہا پسند، جنگ کی آڑ میں غرب اردن کو قتل و غارت کی آماجگاہ بناچکے ہیں”۔ اس نشست میں فوج کے سربراہ اور وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ فوجی قیادت کومخاطب کرتے ہوئے جنرل فاکس نے مزید کہا کہ غرب اردن میں قوم پرست جرائم نے سر اٹھا لیا ہے۔ اسرائیل سے وفاداری کی آڑ میں یہ لوگ نہتے اور پرامن فلسطینی باشندوں کے خلاف نفرت و خوف کی آگ بھڑکارہے ہیں جسکا مقصد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا ہے۔جنرل فاکس کا کہنا تھا کہ پرامن فلسطینیوں پر حملے کرکے علاقے میں افرتفری پھیلانے کا اسکے سوا اور کوئی غرض نہیں کہ مقامی باشندوں کو بیدخل کرکے انکے گھروں، کھیتوں اور مویشی کے باڑوں پر قبضہ کرلیا جائے  (حوالہ: یووشلم پوسٹ)

غزب اردن پر اسرائیلی دستور کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہ علاقہ فوج کی سنٹرل کمانڈ کے تحت ہے۔ اسے آپ مارشل لا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مرکزی کمان کے سربراہ کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صاحب بھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔

گزشتہ سال سات اکتوبر سے جاری بمباری سے  38345 ہزار شہری جاں بحق ہوچکے ہیں جنکی دوتہائی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ بدھ 10 جولائی کو اسرائیلی فضائیہ نے بمبار طیارے روانہ کرنے سے پہلے اعلان کیا کہ بمباری کا ہدف الشجیعہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے پناہ گزین کیمپ ہیں۔ یعنی اب شہری ہلاکتوں پر ناگزیر یا Collateral نقصان کا پردہ ڈالنے کا تکلف بھی ضروری نہیں اور دیدہ دلیری سے اعلان کرکے کیمپوں پر حملہ کیا جارہا ہے۔ اسی رات غزہ کے النصیرات خٰیمہ بستی میں اقوام متحدہ کا ایک اسکول نشانہ بنا۔ وہاں پناہ لینے والے 16 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اس اسکول میں بمباری سے متاثر 500 بے گھر افراد کو رکھا گیا ہے جنکی اکثریت ضعیف افراد، خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اسکے دوسرے دن  غزہ میں فٹبال کھیلتے بچوں پر بمباری کی گئی جس سے پچاس سے زیادہ بچے راکھ بن گئے۔ حوالہ: CNN

غزہ قتل عام میں معاونت و سہولت کاری کیلئے امریکہ سے 500پاونڈ کے 1700 بموں کی ترسیل شروع کردی گئی ہے۔رفح حملے کے آغاز پر صدر بائیڈن نے 500اور 2000پاونڈ کے بموں کی فراہمی معطل کردی تھی۔گزشتہ ہفتے امریکی اور اسرائیلی وزارت دفاع کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانچ سو پاونڈ کے بم اسرائیل پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ 2000پاونڈ کے 1800بموں کی کھیپ بھی جلد اسرائیل روانہ کردی جائیگی۔ تاہم 11 جولائی کو پریس کانفرنس کے دوران  NPRکی نمائندہ عاصمہ خالد کے سوال پر صدر بائیڈن نے کہا  کہ 'اسرائیل کو 2000 پاونڈ کے بم نہیں دئے جائینگے۔ امریکی صدر نے کہا 'غزہ لڑائی کے آغاز پر ہی اسرائیلی قیادت سے کہدیا گیا تھا کہ وہ غلطی مت کرو جو امریکہ نے افغانستان میں کی تھی۔ ہمیں بن لادن کے خاتمے کے بعد افغانستان سے نکل جانا چاہیے تھا لیکن ہم وہاں کھڑے اور جمے رہے جسکا امریکہ کو بدترین نقصان ہوا۔صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ غزہ پر قبضہ خود اسرائیل کے لئے اچھا نہیں۔ غزہ کے خراب عناصر کمزور ہوچکے ہیں، لہذا اب اسرائیل کے وہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے  بی بی انتظامیہ ، اسرائیلی تاریخ کی قدامت پسند ترین حکومت ہے (جن کو سمجھانا مشکل ہے)'

واشنگٹن میں ہونے والے نیٹو اجلاس میں ترک صدر طیب رجب ایردوان نے اسرائیل کیلئے امریکی مدد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔اس موقع پر نیوزویک کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ شہریوں کا وحشیانہ قتل، ہسپتالوں، امدادی مراکز اور دیگر مقامات پر حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ اسرائیلی جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں میں سہولت کار اور برابر کی شریک ہیں۔ اخباری ذرایع کےمطابق اجلاس کے دوران امریکی صدر کی جانب سے نیٹو اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی خواہش پر صدر ایردوان نے  صاف صاف کہا کہ ترکیہ ، نیٹو اور اسرائیل تعاون کی کسی تجویز کی توثیق تو کیا حمائت بھی نہیں کریگا۔ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا 'جب تک مشرق وسطیٰ میں دوریاستی حل سمیت مکمل امن قائم نہیں ہوجاتا، نیٹو اسرائیل تعاون ترکیہ کیلئے قابل قبول نہیں'۔ نیٹو دستور کے تحت کسی بھی نئے معاہدے کی تمام کے تمام ارکان سے توثیق لازمی ہے۔

غزہ امن کیلئے دونوں فریق اب تک قابل عمل معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ اسرائیل غزہ سے  پسپائی پر تو تیار ہیں لیکن ر فح کی مصر سے ملنے والی سرحد یعنی Philadelphia Corridorاپنے قابو میں رکھنا چاہتاہے جو مزاحمت کاروں کیلئے قابل قبول نہیں۔ٹائمز آف اسرائیل نے 11 جولائی کو بتایا کہ اسرائیل ر فح بھی خالی کرنے پر تیار ہوگیا ہے۔خبر شایع ہوتے ہی وزیراعظم نیتھن یاہو کے انتہاپسند اتحادیوں نے آسمان پر اٹھالیا۔ دباو میں اکر  بی بی نے اعلان کردیاکہ ر فح سے انخلا فیک نیوز ہے ، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ لیکن اسکے تھوڑی ہی دیر بعد مذاکرات میں حصہ لینے والے کم ازکم دو اسرائیلی اہلکاروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کرنے شرط پر ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیل،  مزاحمت کاروں کی یہ شرط ماننے یعنی ر فح سے ہٹنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بی بی کا جھوٹ  اور باربار کا U turnامن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

قطر اور قاہرہ میں جاری بات چیت کے ساتھ صدر بائیڈن کے تین مرحلوں پر مشتمل غزہ امن منصوبے کی جو تفصیلات واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوئی ہیں اس سے  یہ تجویز منصوبہ امن سے زیادہ غزہ میں ایک نئی خانہ جنگی کا نقطہ آغاز لگ رہا ہے۔یہ تفصیلات امریکہ کے معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ اگنیشس (David Ignatius)نے امریکی حکام سے گفتگو کے بعد اپنے کالم میں درج کی ہیں۔جناب اگنیشیس کے مطابق جنگ بندی کے بعد امریکی تربیت یافتہ مقتدرہ فلسطین (PA) کے 2500 سپاہی غزہ تعینات کئے جائینگے۔ یہ زیادہ تر وہ سپاہی ہیں جو اہلِ غزہ اور PLOکے درمیان 2006 کے خونریز تصادم سے پہلے وہاں کے رہایشی تھے۔تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد ان سپاہیوں کی منظوری اسرائیل دیگا اور اس فوج کو 'معتدل عرب ' ممالک کی حمائت حاصل ہوگی۔ سادہ سے الفاط میں یہ اسرائیلی فوج ہٹاکر عربی بولنے والے اسرائیل نواز دستوں کی تعیناتی کا منصوبہ ہے۔ یا یوں کہیے کہ اب عرب سپاہی اہل غزہ کے سامنے صف آرا ہونگے۔ رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اہل غزہ بحالی امن کیلئے اپنے اختیار کی قربانی دیکر پٹی کا اختیار و اقتدار مقتدرہ فلسطین کو دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔اب تک اسرائیل اور اہل غزہ کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا لیکن کچھ دن پہلے غزہ کے مزاحمت کاروں نے بہت دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ وہ غزہ کے انتظامی امور میں کسی بھی فریق کی مداخلت قبول نہیں کرینگے۔

فتح و کامیابی کے دعووں کے باوجود اسرائیلی فوج اب تک کوئی قابل ذکر عسکری ہدف حاصل نہ کرسکی۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی دستے شجیعہ محلے سے پسپا ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشن مکمل ہونے پر فوجی واپس بلائے جارہے ہیں لیکن مزاحمت کاروں کا دعویٰ ہے کہ 'ہمارے نشانچیوں نے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردیا'

اسی کیساتھ لبنانی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف ایک اور کامیاب جاسوسی مشن کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک گھنٹے کے اس بصری تراشے میں حیفا کے بحری اڈے، اسکے شمال میں نھاریا کے ڈرون مرکز، نہر خلیل کے کنارے صفد کی عسکری تنصیبات کے علاوہ مغربی جولان میں قائم فوجی اڈے دکھائے گئے ہیں۔عسکری ماپرین کا خٰیال ہے کہ ایران ساختہ جاسوسی ڈرون امریکی آئرن ڈوم حفاظتی نظام کو غچہ دیکر ایک گھنٹے تک حساس مقامات اور تنصیبات کی اطمینان سے فلمبندی کرتا رہا اور اسرئیلیوں کو اسکی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔چند ہفتہ پہلے بھی لبنانی ڈرون نے ایسی ہی ایک ویڈیو جاری کی تھی جسکی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہمارے ترکش میں اسکے علاوہ بھی بہت سے تیر ہیں۔ لبنانی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف راکٹ بازی کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے  اور اب کریات شمعونہ کے علاوہ مقبوضہ شامی علاقے مرتفقات الجولان (Golan Heights)بھی انکا ہدف ہے۔ بارہ جولائی کو جولان پر مسلح ڈرونوں کی بارش سے کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی اورمتعدد اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔ گولان کا پہاڑی سلسلہ شام کا علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کرلیا اور اپنے دور حکومت میں سابق صدر ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا تھا۔

امریکی تعلیمی اداروں میں تعطیلات کے باوجود سرگرمیاں جاری ہیں۔جامعہ ہارورڈ نے غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاجی خیمہ زنی کرنے والے 5 طلبہ کی معطلی ختم کردی۔ان طلبہ کو جن میں ایک Rhodes Scholar پاکستانی طالب علم اورایک  ہندوستانی طالبہ شامل ہے، پورے سیمیسٹر کیلئے معطل کیا گیا تھا۔اب معطلی ختم کرکے ان طلبہ کو زیرنگرانی (Probation)رکھ لیا گیا ہے۔ نگرانی کا مطلب ہے کہ ان لوگون کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائیگی۔ ان طلبہ نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانا انسانیت کا تقاضہ ہے۔ دوسری طرف جامعہ کولمبیا میں انتقامی کاروائیوں میں شدت آگئی ہے۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر مونیکا شفیق کے حکم پر کولمبیا کالج کی ڈین ڈاکٹر سوزن چینک کم، ڈین انڈرگریجویٹ ڈاکٹر کرسٹن کروم، اور نائب ڈین طلبہ امور ڈاکٹر میتھو پیٹاشنک Matthew Patashnickکو انکے عہدوں سے ہٹادیا گیا۔ ان روسائے کلیات پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے دفتر میں فلسطین کا پرچم آویزاں کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر غزہ نسل کشی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوسٹ نصب کی ہیں جن کا کچھ حصہ یہود دشمن یا Antisemitic کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کیساتھ فلسطینی پرچم ہندوستان میں بھی خوف کی علامت ہے۔ ریاست اترپردیش (UP)کے شہر بھدوہی کے جلوسِ  محرم میں فلسطینی پرچم لہرانے پر ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ حوالہ؛ ٹائمز آف انڈیا

ہفت روزہ فرائیڈےاسپیشل کراچی 19 جولائی 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 19جولائی 2024

روزنامہ امت کراچی 19 جولائی 2024

ہفت روزہ رہبر سری نگر 21 جولائی 2024


Friday, July 12, 2024

ایران، فرانس اور برطانیہ کے انتخابات انتہاپسند، قدامت پسند اور اصلاح پسند و معتدل کا شور

 

ایران، فرانس اور برطانیہ کے انتخابات

انتہاپسند، قدامت پسند اور اصلاح پسند و معتدل کا شور

گزشتہ ہفتے انتخابی سیاست ابلاغ عامہ پر چھائی رہی۔ اٹھائیس جون کو ایران میں نئے صدر کا انتخاب فیصلہ کن ثابت نہ ہوسکا، چنانچہ 5 جولائی کو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار براہ راست صف آرا ہوئے۔فرانس میں 30جون  کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات بھی نتیجہ خٰیز نہ ریے اور  7 جولائی کو دوسرے مرحلے یا Run-off کا میدان سجا۔برطانیہ میں 4جولائی کو 650 رکنی برطانوی دارالعوام کیلئے ووٹ ڈالے گئے۔ اسی دوران امریکہ میں صدارتی مباحثے کے دوران صدر بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی نے امریکی صدرکے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوالیہ نشان کھڑے کردئے۔ آج کی نشست میں ہم ایران، فرانس اور برطانیہ کے انتخابات کا مختصر جائزہ پیش کرینگے۔ امریکہ کے بارے میں گفتگو انشااللہ آئندہ کسی نشست میں

ایران

ایران میں صدارتی انتخابات اگلے برس ہونے تھے لیکن 19 مئی کو صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں المناک وفات کی وجہ  سے  چناو ایک برس پہلے منعقد ہوا۔ ان انتخابات کی روداد ہم گزشتہ نشست میں عرض کرچکے ہیں۔ نتایج کے مطابق ڈاکٹر مسعود پرشکیان 44.36فیصد ووٹ لیکر پہلے نمبر پر آئے اور 40.35فیصد رائے دہندگان نے سعید جلیلی کے حق میں رائے دی۔ باقر قالیباف 14.41فیصد لیکر تیسرے نمبر پر رہے جبکہ مصطفےٰ پورمحمدی کے حاصل کردہ ووٹ ایک فیصد سے کم تھے۔چونکہ کوئی بھی امیدوار 50 فیصد لے مط نشان تک نہ پہنچ سکا اسلئے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے مسعود پرشکیان اور سعید جلیلی کے درمیان 5 جولائی کو براہ راست مقابلہ ہوا جس ڈآکٹر پرشکیان 53.67فیصد ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے۔

مغربی میڈیا مسعود صاحب کو اصلاح پسند قرار دے رہا ہے، شائد اسلئے کہ ڈاکٹر صاحب جبہ و دستار زیب تن نہیں کرتے لیکن آدربائیجان سے تعلق رکھنے والے کرد نسل کے  69 سالہ نو منتخب صدر،  جراحِ قلب (Heart Surgeon)کے ساتھ قرآن کے استاد ہیں اور انھیں نہج البلاغۃ   کا بڑا  حصہ  زبانی یاد ہے۔ڈاکٹر صاحب فوج میں بھی طبی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اپنا مطب چلانے کیساتھ جناب مسعود، دانشگاہ علومِ پزشکی (University of Medical Science)تبریز میں پوفیسر بھی ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد قوم سے خطاب میں ڈاکٹر مسعود نے کہا کہ ساری دنیا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ سب ایرانی اس ملک کے شہری ہیں۔ ملک کی ترقی اور خوشی و خوشحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہے۔

فرانس

فرانس میں ہونے والے انتخابات بھی قبل ازوقت تھے کہ یہاں قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت 2027 میں پوری ہونی تھی لیکن 9 جون کو یورپی پارلیمان کے انتخابات میں فرانس کیلئے مختص نشستوں پر قدامت پسند نیشنل ریلی (NR)کے ہاتھوں اپنی جماعت کی بدترین شکست پر صدر میکراں نے یہ کہہ کر قومی اسمبلی توڑ دی کہ رائے عامہ کے بدلتے رجحان کے تناظر میں استحقاقِ نمائندگی یعنی مینڈیٹ کی تجدید ضروری ہے۔

اتوار 30 جون کو 577 رکنی قومی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالے گئے۔ ۔فرانسیسی انتخابی ضابطے کے تحت کامیابی کے لئے ڈالے جانے والے کل ووٹوں کے پچاس فیصد اور رجسٹرڈ ووٹوں کے 25 فیصد سے زیادہ لینا ضروری ہے۔ اگرکوئی بھی امیدوار اس نشان تک نہ پہنچ سکے تو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کیساتھ رجسٹرڈ ووٹوں کا ساڑھے بارہ فیصد سے زیادہ لینے والے امیدواروں کے درمیان run offمقابلہ ہوتا ہے۔ان انتخابات میں چار بڑے اتحادوں

·         صدر میکران کی نشاۃثانیہ (Renaissance) پارٹی، تحریک جمہوریت، ہورائزن پارٹی، ریڈیکل پارٹی اور یونین ڈیموکریٹس پر مشتمل شہری اتحاد (Ensemble)یا ENA

·         بائیں بازو کا نیشنل پاپولر اتحاد (NPF)

·         میری لاپن کا قوم پرست نیشنل ریلی اتحاد (RN/UXD)اور

·         قدامت پسند ریپبلکن اتحاد (LR)نے حصہ لیا۔

پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کاتناسب 66.71رہا جو 1997 کے بعد سب سےزیادہ ہے۔ نتائج کے مطابق ایمیگریشن مخالف قوم پرستوں نے 33.1 فیصد، بائیں بازو کے اتحاد نے 28.14فیصد، صدر میکران کے ENAنے 21.27فیصد اور ریپبلکن نے 10.22 فیصد ووٹ لئے۔

پہلے مرحلے میں صرف 76 نشستوں کے نتائج فیصلہ کن رہے جن میں سے 38 پر قوم پرست RN/UXD ارکان منتخب ہوئے اور 32 نشستیں بائیں بازو کے NPF نے جیت لیں۔ دو نشستیں صدر میکران کے ENA نے جیتیں ، ایک نشست ریپبلکن کے ہاتھ لگی اور دو پر دائیں بازو کے آزاد امیدوار منتخب ہوگئے۔ پہلے مراحل کے نتائج صدر میکراں کیلئے مایوس کن ریے کہ انکا اتحاد تیسرے نمبر پر آگیا۔ گزشتہ انتخابات میں انکے اتحادیوں نے 249 نشستیں جیت کر سادہ اکثریت حاصل کرلی تھی۔

ایک ہفتے بعد 7 جولائی کو 501 نشستوں کیلئے دوسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی۔

تیس جون کو انتہاپسندوں کی کامیابی سے جہااں غیر ملکی تارکین وطن میں شدید خوف و ہراس پھیلاوہیں روشن خیال اور ترقی پسندوں کے ساتھ ماحول دوست گرین اتحاد بھی قدامت پسندوں سے سخت خوفزدہ تھا، چنانچہ ملک بھر کی مزدور یونینوں، خواتین کی انجمنوں، اساتذہ اور بائیں بازو سے وابستہ عناصر نے زبردست تحریک چلائی اور 7 جولائی کو جب ووٹنگ ختم ہونے کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ایسا لگا کہ گویا بائیں بازو اور گرین اتحاد نے قدامت پسندوں کا راستہ روکدیا ہے۔

انتخابی مراکز پر ووٹ ڈال کر نکلنے والوں کے جائزے یعنی Exit Pollکے مطابق

بائیں بازو کے NPFاور گرین اتحاد کو 177-192

صدر میکران کے ENAاتحاد کو 152-158

اور

دائیں بازو کے قدامت و انتہاپسند اتحاد RN/UCDاتحاد کو 138-145نشستیں ملنے کی توقع ہے۔

فرانس میں حکومت سازی کیلئے کم ازکم 289 نشستوں کی ضرورت ہے اور نتائج کے مطابق تمام جماعتیں اور اتحاد واضح اکثریت کے نشان سے کافی پیچھے ہیں۔ صدر میکراں اور NPFاتحاد ، انتہاپسند میری لاپن سے شرکتِ اقتدارکو تیار نہیں یعنی ENAاورNPFکیلئے مل کر حکومت بنانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔اس صورت میں وزارت عظمیٰ  NPF کو ملنے کا امکان ہے۔ آج انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آتے ہی وزیراعظم جبریل اتال Gabriel Attalنے استعفیٰ دیکرNPFکیلئے راستہ خالی کردیا۔

آنے والے دنوں میں فرانس کے صدر اور وزیراعظم کا سیاسی قبلہ مختلف سمت میں ہوگا اور اگر مفاہمت و رواداری کا راستہ اختیار نہ کیا جاسکا تو دو ملاوں میں مرغی حرام بھی ہوسکتی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال 1997 میں پیش آئی تھی جب ایوان صدارت میں قدامت پسند جیک شیراک رونق افروز تھے تو ایوان وزیراعظم سوشلٹ وزیراعظم Lionel Jospin کے ہاتھ میں تھا۔

انتخابی نتائج کو فرانس کایہودی طبقہ مایوس کن قرار دے رہا ہے۔پیرس کے ربائیِ اعظم موسےٰ صباغ Moshe Sebbagکا خیال ہے کہ انتخابات میں یہود دشمن (Anti-sematic) سوشلسٹ عناصر کی کامیابی کے بعد فرانس میں یہودیوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ایک بیان میں ربائی صاحب نے کہا کہ 'میں نوجوان فرانسیسی یہودیوں سے کہتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اسرائیل یا کسی محفوط ملک چلے جائیں۔ یہاں انکا کوئی مستقبل نہیں۔ بڑی عمر کے یہودیوں کیلئے  تو یہاں رہنا ٹھیک ہے لیکن ہماری نئی نسل کے لئے فرانس مناسب مقام نہیں۔ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

برطانیہ

یہاں گزشتہ انتخابات دسمبر 2019 میں منعقد ہوئے تھے اور نیا چناو اس سال دسمبر میں ہونا تھا لیکن نسل پرست ایمگریشن پالیسی، مہنگائی اور پارٹی کی اندرونی رسہ کشی کی بناپر حکمران قدامت پسند جماعت المعروف ٹوری پارٹی خاصی غیر مقبول تھی۔ وزیراعظم رشی سوناک کو خوف تھا کہ وقت گزرنے کیساتھ پارٹی کی مقبولیت مزید کم ہوگی لہذا انھوں نے جماعت کے دوسرے رہنماوں کی مخالفت کو نظر انداز کرکے پارلیمان تحلیل کردی۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی رائے عامہ کے جو جائزے شایع ہوئے وہ ٹوری کیلئے انتہائی مایوس کن تھے اور 4 جولائی کے نتائج نے ان جائزوں کو درست ثابت کردیا۔

ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے دارالعوام کی 650 میں سے 411 نشستیں جیت کر بہت ہی واضح اکثریت حاصل کرلی جو 2005 کے بعد اس جماعت کی پہلی اور پارلیمانی حجم کے اعتبار سے 1997کے بعد سب سے بڑی کامیابی ہے جب ٹونی بلئیر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے 418نشستیں جیتی تھیں۔ حکمران قدامت پسند ٹوری پارٹی نے 121 نشستوں پر کامیابی حاصل کی، پانچ سال پہلے ٹوری کا پارلیمانی حجم 365 تھا۔ ان انتخابات میں لبرل ڈیموکریٹس کی کارکردگی مثالی رہی اور انکے 72 امیدوار کامیاب ہوئے، 2019 میں لبرل کو صرف 11 نشستیں ملی تھیں۔بھر پور کامیابی کے باوجود لیبر کو اسکے مضبوط حلقوں میں فلسطین کے حامی پانچ آزاد امیدواروں نے شکست دیدی جن میں سب سے اہم فلسطینیوں کے پرجوش حامی جیرمی کوربن (Jeremy Corbinکی فتح ہے۔چار سال پہلے اسرائیل پر تنقید  کے “جرم” میں Antisemitismکا الزام لگاکرانھیں لیبر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ جناب کوربن نے لندن کے مضافاتی حلقےIslington Northسےلیبر پارٹی کے امیدوار کو شکست دیکر دارالعوام کی نشست آزاد حیثیت سے جیت لی۔ تاہم اہل غزہ کے پرجوش وکیل جارج گیلووے (George Galloway)مانچسٹر میں Rochdale کی نشست پر لیبر پارٹی سے شکست کھاگئے۔ اسی حلقے سے انھوں نے فروری کے ضمنی انتخابات میں کامیابئ حاصل کی تھی۔

بھاری اکثریت سے کامیابی ہونے  برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر کی پالیسیوں کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کہ ابھی انکی حکومت تشکیل ے مرحلے میں ہے لیکن انھوں نے اقتدار سبنھالتے ہی ٹوری پارٹی کی جانب سے غیر ملکی تارکین وطن کو افریقی ملک روانڈا بھجنے کا منصوبہ ترک کردیا ہے۔ سابق حکومت نے تارکین وطن کیلئے روانڈا میں بیگار کیمپ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ چھ جولائی کو اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوتے  نئے وزیاعظم  نے یہ منصوبہ کچرے کی توکری کی نذر کرنے کا اعلان کیا۔ غزہ اور فلسطین کے حوالے سے نئی حکومت پر عوامی دباو تو رہیگا لیکن یورپ اور امریکہ کی طرح برطانیہ پر اسرائیل نواز عناصر کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ اس باب میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ برطانیہ کی نئی خاتون اول 50 سالہ وکٹوریہ کے والد برنارڈ الیگزینڈڑ ایک  راسخ العقیدہ یہودی ہیں جنکی دعوت پر وکٹوریہ کی کیتھولک والدہ نے یہودی مذہب اختیار کرلیا۔

اس ضمن میں برطانیہ کے نئے وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی (David Lammy) نے غزہ میں پائیدار امن کیلئے  بھرپور کوشش کا اعلان کیا ہے۔ گیانا سے آئے ماں باپ کے گھر میں جنم لینے والے ڈیوڈ  نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی انکی اولین ترجیح ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12جولائی  2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 جولائی 2024

روزنامہ امت کراچی 12 جولائی  2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 جولائی 2024