امن معاہدے پر اسرائیل کی آمادگی؟؟؟
غزہ کی گرمی!! بانکوں کا غازہ بکھر رپاہے
اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیردفاع کی بول چال بند
غزہ میں جنگ بندی کیلئے
اسرائیل کی جانب سے کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور 'مزاحمت کاروں کو فنا کرنے سے پہلے
تلواریں نیام میں نہیں جائینگی 'پر اصرار کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین
نیتھن یاہو المعروف بی بی نے امن بات چیت کیلئے
اپنی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی کو قطر بھیج دیا۔ایک ہفتہ قبل اسرائیلی
فوج کے چھ حاضر اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پرنیویارک ٹائمز
کو بتایا تھا کہ معمول سے زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے غزہ تعینات سپاہیوں میں تھکن کے آثار ہیں تو دوسری
طرف شدید جانی و مالی نقصان کے باوجود اہل غزہ پرعزم اورمزاحمت کی شدت برقرار ہے
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئے مزاحمت کار مارے جانیوالوں کی جگہ لے رہے ہیں۔
ان جرنیلوں کا کہنا تھا کہ
مزاحمت کاروں کے مکمل خاتمے پر اصرار کے بجائے ہمیں قیدیوں کی رہائی کے عوض مکمل
جنگ بندی کا بائیڈن امن منصوبہ قبول کرلینا چاہئے۔ حسب توقع بی بی نے نیویارک
ٹائمز کی رپورٹ کو من گھڑت، گمراہ کن اور دشمن کی سازش قرار دے کر مسترد کردیا
لیکن اسکے
دوسرے ہی دن اسرائیل کے عبرانی جرائد میں اسرائیلی قومی سلامتی کونسل کے اعلیٰ
افسران کے حوالے سے بھی تقریباً ویسی ہی رپورٹ شایع ہوئی کہ مزاحمت اور غیر معمولی گرمی نے اسرائیلی فوج کا حوصلہ پست کردیا
ہے۔کئی مقامات پر مزاحمت کاروں نے فوج پر چھروں سے حملے کئے ہیں جس نے اسرائیلی
فوج میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے اور پیادہ فوجی آبادی کے قریب جانے سے ہچکچا رہے
ہیں۔ کونسل سے وابستہ اعلی سطحی اہلکاروں کا خیال
ہے کہ غزہ اسرائیل کا افغانستان بننے والا ہے۔
کونسل کی جانب سے وزیراعظم
کو بھیجے گئے خفیہ مراسلے کے مطابق 'پاپوش کی کیا فکر کہ دستار سنجھالو' یعنی غزہ
کے ساتھ اب غرب اردن میں جاری پرامن مزاحمت، مسلح ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں جنین،
رام اللہ اور نابلوس میں مزاحمت کاروں کی بچھائی بارودی سرنگوں نے کئی اسرائیلی
فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاریا جبکہ ایک درجن کے قریب سپاہی شدید زخمی ہیں۔ نیتھن یاہو غزہ پر مکمل کنٹرول کا ڈھول
پیٹ رہے ہیں لیکن زمینی حقائق اسکے بالکل
برعکس ہیں۔غزہ سے تابوتوں اور معذور سپاہیوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعرات 27
فروری کو ہنگامی کابینہ کے اجلاس میں سلامتی کونسل کے مراسلے پر گفتگو کے بعد ہی
اسرائیلی وزیراعظم نے موساد کے سربراہ کو قطر بھیجا۔
مزاحمت
کاروں کے ترجمان نے اپنے ایک بصری پیغام میں بتایا کہ اسرائیلی
حکومت کے سرد روئے نے غزہ میں زیرحراست اسرائیلی قیدییوں کو نفسیاتی مریض بنادیا
ہے۔دوسری طرف مکمل ناکہ بندی اور غذائی قلت کی وجہ سے اسرائیلی قیدیوں کا کھانا
پینا بھی متاثر ہورہا ہے۔ترجمان نے انکشاف کیا کہ حال ہی میں کئی قیدیوں نے خودکشی
کرے کی کوشش کی۔ویڈیو سامنے آتے ہی قیدیوں
کے لواحقین تشویش کا شکار ہوگئے اورتل ابیب میں ایک مظاہرے کے دوران ایک بڑا بینر
لہرادیا گیا جس پر لکھا تھا 'ہتھیار ڈالو، معافی مانگو، فوج واپس بلاو لیکن ہمارے
پیاروں کو ہم سے ملادو۔'
اُدھر صدر بائیڈن سخت دباو میں ہیں۔ صدارتی مباحثے
میں بدترین کارکردگی کی وجہ سے ان پر دستبرداری کیلئے دباو بڑھ رہا ہے۔ ڈیموکریٹک
پارٹی کو عطیات دینے والے بڑے معاونین نے صاف صاف کہدیا ہے کہ وہ ہارتے گھوڑے پر
رقم لگانے کو تیار نہیں اور نہ صرف صدارتی مہم بلکہ وہ پارٹی کے کانگریس اور
بلدیاتی امیدواروں کو بھی چندہ نہیں دینگے۔ چنانچہ امریکی صدر غزہ جنگ بندی کے
ذریعے خود کو عالمی سطح کا مدبر اور قائد ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ قصرِ مرمریں کے مطابق 5 جولائی کو صدر بائیڈن نے اسرائیلی
وزیراعظم کو فون کرے غزہ میں فوری جنگ
بندی پر زور دیا۔ بات چیت کے دوران جناب بائیڈن نے نیتھن یاہو کو بتایا کہ غزہ
خونریزی سے امریکی مسلمانوں اور امریکہ کے یورپی اتحادیوں میں سخت تشویش ہے چنانچہ
اس جنگ کا بند ہوجانا خود اسرائیل اور امریکہ کے مفاد میں ہے۔ بات چیت جیت کے
دوران صدر بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم سے کہا کہ غزہ کی جنگ سے نیتھن یاہو کی
مقبولیت متاثر ہورہی ہے اور قیدیوں کی باعزت و سلامتی کیساتھ واپسی سے اسرائیلی
وزیراعظم کی سیاسی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔
اسی شام امریکی ٹیلی ویژن ABCکو انٹرویو دیتے
ہوئے امریکی صدر نے کہا 'میں ہی وہ شخص تھا جس نے
مشرق وسطیٰ کے لیے ایک امن منصوبہ تیار کیا جو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے'۔موصوف
کا اشارہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف تھا جسے طوفان
اقصیٰ نے خاک میں ملادیا۔امریکی صدر کی
اس لاف زنی کا مقصد جناب ڈانلڈ ٹرمپ کے
ہاتھوں بننے والی درگت کا ازالہ تھا۔
اسرائیلی امن تجویز کے جواب
میں 5 جولائی کو مزاحمت کاروں نے جنگ بندی پر اصولی رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 'اہل غزہ عارضی جنگ بندی، امدادی سامان کی بلاروک ٹوک
ترسیل اور اسرائیلی فوج کی غزہ سے پسپائی کے 16 دن بعد خواتین اور ضعیف قیدیوں کی
رہائی پر تیار ہوگئے ہیں ۔ اپنے غیر سرکاری جواب میں مزاحمت کاروں نے کہا کہ
اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد وہ عارضی جنگ بندی کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے
کو تیار ہیں تاکہ قیدیوں کے تبادلے کی تفصیلات طئے ہوسکیں تاہم اس دوران امداد کی
ترسیل اور تعمیر نو کے کام میں رکاوٹ جنگ بندی کی خلاف ورزی تصور کی جائیگی۔
غزہ امن کیلئے نیتھن یاہو کی
'خواہش' اور جواب میں مزاحمت کاروں کی آمادگی حوصلہ افزا تو ہے لیکن عسکری محاذ پر
پئے در پئے ناکامیوں نے اسرائیلی وزیراعظم کی طبیعت میں جو چڑچڑاپن پیدا کردیا ہے
اس سے معاملات کے بگڑجانے کا امکان بھی موجود ہے۔ اسرائیلی ذرایع کا خیال ہےکہ
نیٹھن اپنی ناکامی کا ملبہ گرانے کیلئے ہدف کی تلاش میں ہیں۔ عبرانی ٹی وی چینل
12، Ynetاور ٹائمز آف
اسرائیل کے مطابق امن معاہدے پر وزیراعظم نیتھن یاہو اور
وزیردفاع یوسف گیلینٹ کی بات چیت بند ہے۔ ہفتہ جولائی کو اسرائیلی اخبارات میں بی بی (نیتھن
یاہو) اور وزیردفاع کی ایک ملاقات کی روداد شایع ہوئی جو کچھ اسطرح تھی
بی بی: آپ موساد کے سربراہ
اور شاباک (داخلی سراغرسانی) کے
ڈائریکٹر سے قیدیوں کی رہائی پر بات نہ کیا کریں۔ یہ معاملات میں دیکھ رہا ہوں۔
اگر فوج کے سربراہ اور سراغ
رسانی کے ذمہ داروں سے مجھے ملنے کی اجازت نہیں تو میں کس کام کا وزیر دفاع؟ مسٹر
گیلینٹ کا سوال
یہی تو کہہ رہا ہوں ، تم
وزیراعظم نہیں ہو، اپنی حد میں رہو۔ بی بی
غزہ جنگ کے بارے میں اسرائیل
کے پسپائی کی طرف مائل تیور کے باوجود امریکہ میں اسرائیل کے حامی مزید پرجوش نظر
آرہے ہیں۔ چار جولائی کو اسرائیل کے زبردست حامی سینیٹرلنڈسے گراہم (Lindsay Graham)کی رہائش گاہ کے باہر غزہ
نسل کشی کے خلاف پرامن مظاہرہ کیا گیا۔اس
موقع پر مظاہرین کے نام اپنے بیغام میں
سینٹر صاحب نے کہا 'غزہ میں بچوں کو نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے کرہ ارض پر سب سے زیادہ اور بدترین بنیاد پرست فلسطینی، غزہ کے
ہیں۔میں غزہ میں اسرائیلی کاروائی کی مکمل اور غیر مشروط حمائت کرتا ہوں'
اسکے مقابلے میں کولمبیا کے
ارکان پارلیمان نے اپنی اسمبلی کی عمارت پر 'غزہ میں نسل کشی بند کرو' کا بینر لہرادیا۔ اسی نوعیت کے بینر اور
فلسطینی پرآسٹریلیامیں پارلیمان کی عمارت پر بھی
لہرائے گئے۔ یہاں آسڑیلیا ہی سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر قارئین کی دلچسپی کا باعث
ہوگا۔
آسٹریلیا
میں برسر اقتدار لیبر پارٹی کی سینیٹر فاطمہ پیام سینیٹ
میں آزاد فلسطین ریاست کی قرارداد پیش
کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم انتھونی البانیز سے جب بات
کی تو وزیراعظم نے اپنی 'مجبوری' کا ذکر کرکے انھیں ایوان میں اس معاملے پر کچھ
کہنے سے منع کیا۔ فاطمہ نے انھیں یاد دلایا کہ مسئلے کا دوریاستی حل پارٹی کی
اعلان شدہ پالیسی کا حصہ ہے۔ تاہم وزیراعظم صاحب خوفزدہ تھے۔ افغان نژاد فاطمہ
کہاں ڈرنے والی تھیں چنانچہ انھوں نےقرارداد سیینیٹ میں جمع کرادی جس پر پارٹی نے فاطمہ کی رکنیت معطل کردی اور سینیٹ میں اسکا داخلہ بند
ہوگیا۔پانچ جولائی کو 29 سالہ فاطمہ نے لیبر پارٹی سے استعفیٰ دیکر آزاد نشستوں پر
بیٹھنے کا اعلان کردیا۔ مغرب میں آزادی اظہار ِرائے ایسی مقدس گائے ہے کہ قرآن
جلانے اور خاکے اڑانے پر بھی پابندی ممکن نہیں لیکن ایک منتخب نمائندے کو محض قرارداد پیش کرنے پر معطل کردیا گیا۔
آزادی اظہار کا ایسا ہی
مظاہرہ 4 جولائی کی برطانوی انتخابات کے موقع پر نظرآیا جب بہت سے انتخابی مراکز
پر فلسطینی لہرادئے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر انتظامیہ فوراً حرکت میں آئی اور تمام
پرچم اتار دئے گئے۔
افسران کہا کہنا تھا کہ غیر قانونی پرچم کشائی کی
جمہوری نظام میں گنجائش نہیں۔ اس پر کسی منچلے نے تبصرہ کیا کہ 'ہلاکت خٰیز
جدید ترین اسلحے سے لیس اسرائیلی فوج نہتے اہل غزہ سے خوفزدہ اور دنیا کی قدیم ترین
جمہوریت، ایک پرچم سے لززہ اندام
آزادی
اظہار اور خواتین کے احترام کے ایک 'شاندار' مظاہرے پر گفتگو کا اختتام
جنگ بندی
اور نئے انتخابات کیلئے 30 جون کو تل ابیب
میں زبردست مظاہرہ ہوا جسکی قیادت لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان نعمہ لزیمیNaama Lazimi کر رہی تھیں۔ نعمہ صاحبہ کے حکومت مخالف نعرے پر پولیس افسر نے
خاتون رکن پارلیمان کو تھپڑ جڑدیا، فحش گالیاں دیں اور خوفزدہ کرنے کیلئے کہا گیا
کہ اگر نعمہ لزیمی غزہ دہشت گردوں کی حمائت سے باز نہ آئیں تو انکی والدہ کو بے
حرمت کردیا جائیگا
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12جولائی 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 21 جولائی 2024
روزنامہ امت کراچی 12 جولائی 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 جولائی 2024
No comments:
Post a Comment