غزہ نسل کشی کے کیساتھ غرب اردن میں حیات و اسباب حیات کی پامالی
فلسطینی اراضی پر پانچ نئی اسرائیلی بستیوں کا
قیام
عالمی عدالت میں اسرائیلی قیادت کے پروانہ
گرفتاری کے خلاف برطانیہ کی درخواست
جیسا کہ اس سے پہلے کئی
نشستوں میں ہم عرض کر چکے ہیں، اسرائیل
غزہ نسل کشی جاری رکھتے ہوئے غربِ اردن کے سیاسی جغرفیہ اور معاشرتی و تمدنی ھئیت
کو تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ سارے کا سارا غرب اردن محاصرے میں ہے اور فوجی
کاروائیوں میں یہاں 600 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ گرفتار شدگان کی تعداد
10 ہزار سے زیادہ ہے۔ دوکانیں، کارخانے
اورتجارتی مراکز مسمار کردئے گئے جسکی وجہ سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں غارت
ہوچکیں۔زرعی زمینوں پر بلڈوزر پھیر دئے گئے۔اسرائیلی فوج اور قابضین مویشی ہنکا لے
گئے۔ بے گھر ہونے والے ہزاروں فلسطینیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرج اردنی سرحد کی طرف دھکیل
دیا گیا، جہان تپتی دھوپ میں یہ لوگ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔بعض مقامات پر اقوام
متحدہ نے انکے لئے خیموں کا انتظام کیا ہے۔
حکومت کے انہتاپسند
وزیرخزانہ بیزلیل اسموترچ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی بستیوں کی تعمیر شروع
کردی۔ گزشتہ سال امریکی صدر نے کہا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے مزید بستیاں قائم نہ
کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔اسکی تصدیق کرتے ہوئے جناب نیتھن یاہو نے مبہم انداز
میں کہا تھا کہ اسرائیلی حکومت 'فی الحال' مزید بستیوں کی منظوری نہیں دیگی۔ لفظِ 'فی الحال' میں حیلہ سازی کی
اسرائیلی روایت پوری مکارانہ شان کیساتھ موجود تھی۔
طریقہ وارادت کچھ اسطرح ہے
کہ فلسطینی آبادیوں کے کنارے انسداد دہشت گردی کے نام پر فوج حفاطتی چوکیاں قائم
کرتی ہے۔ یہ چوکیاں محض چند مربع گز علاقہ نہیں بلکہ ہر چوکی کیلئے فلسطینیوں کی سینکڑوں
ایکڑ زمینیں 'کرائے' پر لی گئیں۔ کرائے سے چھٹکارے کیلئے زیادہ تر مالکان کو دہشت
گردی کے الزام میں گولی ماردی گئی۔چوکیوں پر تعینات فوجیوں اور انتظامی اہلکاروں
کیلئے قبضہ کی ہوئی اراضی پر
رہائشی کوارٹر تعمیر کرلئے گئے۔ ضروری اشیا کیلئے وہاں دوکان بلکہ بازار بھی قائم
ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد وہاں معبد (Synagogue)
بھی تعمیر کرلیاگیا جسکے گرد مزید لوگ آکر آباد ہوگئے۔ 'محلہ'بن
جانے والی چوکیوں کو 'پوسٹ' کا نام دیدیا جاتا ہے۔ پوسٹ دراصل ایسی اسرائیلی
بستی ہے جسے قانونی تحفظ حاصل نہیں، بلدیاتی اصطلاح میں یہ کچی بستیاں ہیں۔
اس ہفتےاسرائیلی حکومت نے غر
بِ اردن کی چار اور اثقلان میں ایک پوسٹ کو 'قانونی' حیثیت دینے کا اعلان کیا
ہے۔یعنی اب یہاں پہلے سے قابض لوگوں کو مالکانہ حقوق دے دئے جائینگے اور بلدیہ سے
نقشہ منظور کراکر یہاں پارک، تجارتی مراکز، سڑکوں اور اسکولوں کیلئے مزید اراضی
عدالتی حکم کے ذریعے ہتھیائی جائیگی۔ ان بستیوں کو دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھنے
کیلئے چوکیاں بناکر قبضےکا نیا سلسلہ شروع ہوگا۔
گزشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز نے
وزیرخزانہ اسموترچ کے ایک نجی سمعی تراشے (Audio Clip)کا متن شایع کیا تھا جس کے مطابق وزیرموصوف اپنے ساتھیوں کو
مبارکباد دے رہے تھےکہ وزیراعظم نے ان پانچ بستیوں کے قیام کی منظوری دیدی ہے۔
وزیراعظم کے دفتر سے اس خبر کی تردید یا تصدیق نہیں ہوئی لیکن 28 جون کو کابینہ کے
سکریٹری یوسی فُکس (Yosi Fuchs)نے اعلان کیا کہ ہنگامی
کابینہ نےپانچ چوکیوں کو بستی بنانے کی منظوری دیدی ہے۔ فاضل سکریٹری نے وضاحت کی
کہ یہ نئی بستیاں نہیں اور اسرائیلی حکومت صرف فوجی چوکیوں پر اپنی ملکیت قائم کررہی
ہے۔ کابینہ کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ ان پانچ بستیوں میں
کئی ہزار نئے مکانات تعمیر کرنے کی بھی اجازت دیدی گئی ہے۔
اسرائیل اور امریکہ میں برپا
پونے والے سیاسی بحران نے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔اسرائیلی
بحران کا آغاز 24
جون کو اسوقت ہوا جب اسرائیلی ہائیکورٹ نے لازمی فوجی تربیت
سے مدارس کے طلبہ کا استثنٰی غیر آئینی قرار دیدیا۔ لازمی فوجی بھرتی کا اطلاق اب
قدامت پسند حریدی فرقے پر بھی ہوگا جنکے ہاں ہر لڑکے کیلئے توریت کی تعلیم لازمی
ہے ۔ حفظ توریت کے مدارس یا Yeshivaکے طلبہ کو لازمی فوجی تربیت سے استثنی حاصل ہے تاکہ دوسال کی
لازمی فوجی تربیت کی وجہ سے حفظ متاثر نہ ہو۔ حکمران اتحاد کی توریت پارٹی (UTJ)اور پاسبان توریت یا Shasپارٹی کی طرف سے فیصلے کے خلاف شدید رد
عمل سامنے آیا۔ شاس کے سربراہ اریہ مخلوف درعی نے ایک بیان میں کہا کہ توریت یہودی
قوم کا اصل ہتھیار ہے اور دنیا کی کوئی قوت ہمیں اسکی تعلیم سے باز نہیں رکھ سکتی۔
حریدی فرقے کے روحانی پیشوا موسٰی مایا نے مدارس کے طلبہ کیلئےفوجی تربیت کی
مخالفت کرتے ہوئے، مدرسے نہ جانے والے
نوجوانوں کو بھی اسرائیلی فوج میں بھرتی سے منع کردیا۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں
انھوں نے کہا کہ توریت کی تعلیم میں خلل ڈالنا “سبت” کا قانون توڑنے سے کم سنگین
نہیں۔ مایا صاحب کا کہنا تھا کہ توریت کی برکت سے ہی فوج محفوظ ہے ورنہ بڑی آفت
آئیگی۔ربائیوں (یہودی ائمہ) کی ہدایت پر 29 جون (یوم سبت) کو دیوار گریہ کے سامنے
اسرائیلی عدلیہ کے خلاف اجتماعی بددعا کی گئی۔ اس موقع پر خطبہ سبت دیتے ہوئے صفاردی (Sephardic) یہودیوں کے ربائی اعظم اسحق یوسف نے
کہا کہ جاہل جج جو تلمود (یہودی فقہ) کی چند سطر نہیں پڑھ سکتے، مدارس کے بارے میں
حکم جاری کررہے ہیں۔ ان جہلا کو توریت اور اسکے علم کی اہمیت کا کیا پتہ ؟
فیصلے کے خلاف Yeshiva کے طلبہ نے فوجی بھرتی
مراکز پر مظاہرے کئے۔ اس دوران طالب علموں نے وہیں سڑک پر اساتذہ سے توریت کا سبق
لیا ور تلاوت کی۔ مظاہرین نے جو کتبے
اٹھائے ہوئے تھے ان پر لکھا تھا کہ 'اسرائیل اب یہود دشمن (Antisemitic)ملک بن گیا ہے'۔زیراعظم
نیتھن یاہو کی حکومت شاس اور UTJکی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اگر یہ جماعتیں UTJحکمراں اتحاد سے الگ ہو گئیں توحکومت تحلیل ہوجائیگی۔وزیراعظم اس
فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر کے خواہشمند ہیں لیکن فوجی بھرتی سے Yeshiva کا استثنیٰ ختم ہونے ہی
انکی اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کو ہدائت کی کہ فوری طور پر مدارس کے 3000 ہزار
طلبہ کو فوج میں بھرتی کیا جائے، ساتھ ہی محترمہ نے دھمکی بھی دی کہ جو مدارس
بھرتی میں تعاون نہیں کرینگے انکی سرکاری امداد معطل کردی جائیگی۔حکومتی مدد سے بے
نیاز ہونے کیلئے مدارس نے چندہ جمع کرنا شروع کردیا، چند ہی گھنٹوں میں امریکی
حریدیوں نے 10 کروڑ ڈالر جمع کرلئے۔عدالتی فیصلے نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ
کردیا ہے۔
امریکہ کا سیاسی بحران صدر
بائیڈن کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت ہے۔ جمعرات 27 جون کو ہونے والے صدارتی مباحثے
میں امریکی صدر کی آواز لرز رہی تھی، لہجے میں لکنت کے ساتھ انھیں سوالوں کا جواب
دینے میں سخت مشکل پیش آئی۔ ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ یہ ایک انوکھا مباحثہ تھا، جناب
ٹرمپ دھڑلے سے جھوٹ بولتے رہے اور صدر بائیڈن سے بولا ہی نہ گیا۔امریکی صدر بائیڈن
کی انتہائی خراب کارکردگی پر ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت پریشان ہے۔ کانگریس کیلئے
قسمت آزمائی کرنے والے ڈیموکرٹک امیدوار بھی خوفزدہ ہیں کہ کہیں صدر کیساتھ انکی
بھی چھٹی نہ ہوجائے جسے یہاں Down the ballot
effect. کہا جاتا ہے یعنی ووٹر صدر کے ساتھ اسی جماعت کی پوری ٹکٹ پر ٹھپہ
لگادیتے ہیں۔ انکی جماعت میں یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ نومبر کیلئے پارٹی کا ٹکٹ
جناب بائیڈن کے بجائے کسی اور فرد کو عطاکردیا جائے۔ قانونی اعتبار سے ڈیموکریٹک
پارٹی جناب بائیڈن کو دستبرداری پر مجبور نہیں کرسکتی لیکن انھوں نے مباحثے میں
اپنی خراب کارکردگی کا خود ہی اعتراف کرلیا ہے۔
مباحثے میں دونوں امیدواروں
نے خودکو اسرائیل کا سب سے بڑا دوست و
پشتیان ظاہر کیا۔ صدر بائیڈن پرجوش انداز میں بولے'ہم نے اسرائیل کا تحفظ کیا، ہر
قسم کی مدد فراہم کی۔فلسطینی مزاحمت کاروں کی کمر توڑدی۔ انکے قائدین کا وہی حشر
کیا جو اسامہ بن لادن کا ہوا' ۔جواب دیتے ہوئے سابق امریکی صدر نے کہا 'صدر باائیڈن اسرائیل کے حامی نہیں یہ عملاً
فلسطینی ہیں لیکن ایک بیکار فلسطینی، اسی لئے فلسطینی بھی انکو پسند نہیں کرتے '
ڈانلڈ ٹرمپ نے مزید کہا اگر میں حکومت میں
ہوتا تو فلسطینی مزاحمت کار 7 اکتوبر کو حملہ نہ کرپاتے۔ اسلئے کہ غزہ مزاحمت
کاروں کو ایران سے مدد ملتی ہے اور ہم ایران کو دیوالیہ کرچکے تھے۔
عدم مقبولیٹ سے گھبرائے ہوئے
صدر بائیڈن نے اسرائیل کیلئے 2000 پونڈ کے بموں کی ترسیل دوبارہ شروع
کردی۔ر فح پر حملے کے بعد اپریل میں ان ہلاکت خیز بموں کی فراہمی معطل کردی گئی
تھی۔ امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی AXIOSکے مطابق روزانہ تین دیوقامت امریکی طیارے ہلاکت خیزی کا سامان صحرائے
نقب میں بئیر سبع (Beersheba)کے نواتم فوجی اڈے پر لارہے ہیں۔
امریکہ اور
یورپ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی نئی بات نہیں لیکن گزشتہ ہفتے انکشاف
ہوا کہ ہندوستان بھی غزہ نسل کشی کیلئے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ اسرائیلی
خبر رساں ادارے Ynetnewsکو
ایک انٹرویو دیتے ہوئے دہلی میں اسرائیل
کے سابق سفیر دانیال کارمن Daniel Carmon نے بتایا کہ غزہ جنگ کیلئے ہندوستان، اسرائیل کو ڈرون اور توپ کے
گولے فراہم کررہا ہے۔جناب کارمن نے کہا کہ بقول ہندوساتی مشیر سلامتی اجیت دوال، 'یہ
1999 کے پاک ہندکارگل تصادم میں اسرائیلی
مدد پر ہندوستان کا اظہار تشکر ہے'
غزہ نسل کشی کیلئے اسرائیل
کو مہلک اسلحے کی بلاروٹوک فراہمی کیساتھ انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا
کام بھی جاری ہے۔برطانیہ نے 2جون کو عالمی فوجداری
عدالت (ICC)کے
نام ایک درخواست میں فاضل عدالت کو آگاہ
کیا ہے کہ اسرائیل ICCکو تسلیم نہیں کرتا، لہٰذا اسکے شہری عدالت کے دائرہ اختیار (Jurisdiction)سے باہر ہیں۔اسے بنیاد بناکر
اسرائیلی وزیراعظم،وزیردفاع اور فوج کے مجوزہ پروانہِ گرفتاری منسوخ کرنے کی
استدعا کی گئی ہے۔اب وارنٹ کے اجرا سے پہلے عدالت کو برطانوی درخواست نبٹانا ہوگی،
جس میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
دنیا بھر کی حمائت و فوجی
مدد اور 270
دن کی بلا تعطل بمباری کے بعد بھی اسرائیل، فوجی اہداف کے حصول سے کافی دور ہے۔گزشتہ
نشست میں ہم نے اسرائیلی فوج کے ترجمان کی مایوسی کاذکر کیا تھا جنکے خیال میں غزہ
مزاحمت عسکری سے زیادہ نظریاتی ہے جسے ختم کردینا ممکن نہیں۔ اب 28 جون کو شناخت
ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اسرائیلی بریگیڈیر جنرل نے عبرانی
روزنامے ایدیت خرنوت Yedioth Ahronothسے باتیں کرتے ہوے کہا کہ غزہ کے مزاحمت کاروں کی قوتِ حکمرانی کمزورکرنے
میں وقت لگے گا، یہ طاقت ختم ہوجانےکے بعد بھی تحریک ختم ہونے والی نہیں۔ غزہ کی
سرنگوں کو تباہ کرنا ایک پیچیدہ کام ہے جس میں چھ ماہ سے زیادہ لگ سکتے ہیں۔ کچھ ایساہی تجزیہ بلوم
برگ کی سینئر دفاعی تجزیہ نگار محترمہ جمانا برساچی (Joumanna Bercetce کا ہھی ہے۔ ایک انتر ویومیں انھوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں
مژاحمت کے خاتمے کے ہدف سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے۔
فوج کے اندر پھیلی اسی
مایوسی کا نتیجہ ہے کہ لبنان پر حملے کے بارے میں اسرائیلی قیادت یکسو نہیں۔
وزیراعظم، لبنان اور ایران کومزہ چکھانے کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن واشنگٹن میں انکے
وزیردفاع یوف گیلینٹ نے کہا کہ معاملے کا سیاسی و سفارتی تصفیہ اسرائیل کی ترجیح
ہے۔ اخباری کانفرنس میں روائتی تکبر کا اظہار کرتے ہوئے وزیرباتدبیر بولے ہمارے
بمباروں کے لئے لبنان کو پتھر کے دور میں پہنچا دینا کچھ مشکل نہیں اور پرامن
تصفیے کی خواہش کوہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
ایک طرف اسرائیلی وزیردفاع
کی امریکہ میں شیخی تو دوسری جانب توانائی کے اسرائیلی ماپر اور بجلی تقسیم کرنے
والے ادارے National Electrical System Management
Company کے سی ای او، .شال گولڈاسٹائین فکر مند ہیں کہ لبنان سے میزائیلوں
کی بارش بجلی کے نظام کو مفلوج کرسکتی ہے۔اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب
گولڈ اسٹائن نے کہا کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے پاس ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تباہ کن
میزائیل ہیں اور وہ بیک وقت 4000 میزائیل داغ سکتے ہیں۔امریکی ساختہ آئرن ڈوم
دفاعی نظام ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ 150فضائی اجسام کو روک سکتا ہے۔ بچ نکلنے
والے میزائیل power grids اور high-tension towersکو نشانہ بنائنگے۔
گولڈ اسٹائن کے خیال میں ایسا کرنا لبنانیوں کیلئے مشکل نہیں کہ آئرن ڈوم نچلی سطح
پر پرواز کرنے والے میزائیلوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ برقی ماہر کا کہنا تھا
کہ اسرائیلی میں پینے کیلئے سمندر کے پانی کو میٹھا بنایا جاتا ہے اور بجلی معطل
ہونے سے آبنوشی کا سارا نظام درہم برہم ہوجائیگا۔ صحت کے ماپرین کا کہنا ہے کہ اگر
بجلی 72 گھنٹے سے زیادہ منقطع رہی تو گرمی کے اس موسم میں بچوں کی زندگیوں کو خطرہ
ہوسکتا ہے۔لبنانی میزائیل، بحیرہ روم میں
گیس کی تنصیبات کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔ وزیر توانائی ایلی کوہن نے مسٹر
گولڈاسٹائین کے تجزئے کو غیر ذمہ دارانہ قراردیا ہے
اسرائیلی انتہاپسندوں کے
ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کو ملک کے دانشوروں کی جانب سے بھی گہری تنقید کا سامناہے۔سابق
وزیراعظم یہودابراک سمیت درجنوں اسرائیلی سیاستدانوں، سابق حکومتی اہلکاروں،
پروفیسروں اور سائنسدانوں نے ایک خط میں امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے
وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو کا خطاب منسوخ کرنے کی درخواست کی ہے۔اسپیکر کانگریس
کی دعوت پر نیتھن یاہو 24 جولائی کو مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے۔ خط میں کہا گیا
ہے کہ نیتھن یاہو علاقے میں کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں اور انھوں نے طول اقتدار
کیلئے اسرائیلی قیدیوں کی جان خطرے میں ڈل دی ہے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتہا
پسند اور غیر ذمہ دار سربراہ حکومت کو امریکی کانگریس میں خوش آمدید کہنا نیتھین
یاہو کی جارحانہ پالیسی کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔دستخط کرنے والوں میں
اسرائیل اکیڈمی برائے سائنس اور فنون کے صدر ڈاکٹر ڈیوڈ ہیرل، موساد کے سابق
سربراہ تامر پاردو، موساد کے سابق سربراہ طالع سیسن اور نوبل انعام یافتہ ہارون
شیشانور شامل ہیں۔
اہل غزہ کی پشت میں خنجر زنی
کی ایک واردات پر گفتگو کااختتام:
غزہ حارحیت کے آغاز سے
امریکہ اور یورپ نے اسرائیل میں اسلحے کا انبار لگادیا ہے، اس 'کارِ خیر' میں
ہندوستان بھی پیچھے نہیں۔ معاملہ صرف توپ و تفنگ کا نہیں بلکہ F35بمباروں کیساتھ تباہ کن بحری جہازوں کی
فراہمی کا کام بھی جاری ہے۔ بحری راستے سے غزہ اترنے کیلئے امریکہ نے دو نئےLanding Craft اسرائیل کیلئے تعمیر کئے ہیں. گزشتہ ہفتے اس کھیپ کا دوسرا جہاز
کوممیوت INS Komemiyutامریکہ
سے اسرائیل روانہ ہوا،جسےایندھن اور عملے کی خوراک و آرام کیلئے کسی بندرگاہ پر ٹہرنا تھا۔
ہسپانیہ (اسپین) نے اس جہاز کو اپنی بندرگاہ پر رکنے کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر
انکار کردیاکہ انکا ملک غزہ کی خلاف جارحیت میں تعاون نہیں کرسکتا۔ برطانوی کالونی
جبرالٹر نے بھی معذرت کرلی،
لیکن مراکش نے نہ صرف اجازت دیدی بلکہ طنجہ کی بندرگاہ پر جہاز میں ایندھن بھرنے
کے ساتھ عملے کی “عرب روایات” کے مطابق بھرپور تواضع بھی کی گئی
ہفت روزہ
فرائیڈے اسپیشل 5 جولائی 2024
ہفت
روزہ دعوت دہلی 5 جولائی 2024
روزنامہ
امت کراچی 5 جولائی 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 جولائی 2024
No comments:
Post a Comment