قاتلوں کی اولاد کیلئے کوٹہ۔ بنگلہ دیش میں
فسادات
بنگلہ دیش کے طلبہ آجکل
سڑکوں پر ہیں۔ انھیں سرکاری ملازمتوں میں نام نہاد جنگِ آزادی کے سپاہیوں کی اولاد
کیلئے کوٹہ مختص کرنے پر اعتراض ہے۔ قیامِ بنگلہ دیس کے بعد سرکاری ملازمتوں میں
مکتی باہنی کے ارکان کیلئے 10 فیصد آسامیاں مختص کردی گئیں اور آہستہ اہستہ کوٹے
کا حجم تیس فیصد کرکے سپاہیوں کے بچوں کے ساتھ انکے پوتے پوتی،نواسے اور نواسیوں
کو بھی کوٹے کا حقدار قرار دیدیا گیا۔ اسوقت بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کیلئے
مختلف طبقات کیلئے کوٹہ کچھ اس طرح ہے۔
اقلیت
: 5
فیصد
خواتین
: 10 فیصڈ
پسماندہ اضلاع : 10
مکتی باہنی کے جوانوں کے بچے :30 فیصد
وزیراعظم کی صوابدید : 1 فیصد
قابلیت
یا میرٹ : 44 فیصد
گزشتہ کئی برس سے کوٹہ سسٹم
کے خلاف تحریک جاری ہے۔ حسینہ واجد نے اعتراض کو 'جماعتی سازش' قراردیکر مسترد
کردیا اور سارے ملک میں اسلامی چھاترو شبر کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
شبر کے درجنوں کارکن 'پولیس مقابلے' کا شکار ہوئے۔ تاہم تحریک جاری رہی اور طلبہ
کےتیور دیکھ کر حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کیساتھ وزیراعظم کی اتحادی
جاتیہ پارٹی نے بھی اپنا وزن تحریک کے پلڑے میں ڈالدیا۔ حسینہ واجد کو اس بات کا
احساس تھا کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے، چنانچہ انھوں اپنی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ
کو اعتماد میں لے کر مکتی باہنی کا کوٹہ ختم کردیا۔
منصوبہ یہ تھا کہ کوٹہ ختم کرنے
کی یادداشت (میمورنڈم) کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کردیا جائے گا اور عدالت اس
میمورنڈم کو کالعدم قراردیدیگی
اس طرح ایک طرف تو بنگلہ
دیشی عدالت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کا موقع ملتا کہ عدلیہ نے بلا خوف وزیراعظم
کا حکم کالعدم قراردیدیا اور دوسری طرف وہ مظاہرین کو کہہ سکیں گی کہ میں نے تو
اپنی سے کوشش کی لیکن عدلیہ کے آگے میرے ہاتھ بندھے ہیں
اور ہوا بھی ایسا ہی کہ 5
جون کو عدالت عالیہ (بنگلہ دیش میں عالیہ ہی عظمیٰ ہے) نے مکتی باہنی کے لواحقین
کا کوٹہ ختم کرنے کا حکم غیر آئینی قراردے دیا۔
عدالت کے فیصلے پر چھاترولیگ نے جشن منایا لیکن طلبہ میں لاوا پکتا رہا اور جمعہ کو ملک بھر کی جامعات کے طلبہ سڑکوں پر آگئے۔ حکمراں عوامی لیگ اور انکی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ نے ہر جگہ مزاحمت کی اور تصادم میں چار طلبہ ہلاک اور سینکڑوںزخمی ہوئے ۔ طلبہ پرعزم ہیں کہ وہ کوٹہ سسٹم ختم لرکے رہینگے۔
No comments:
Post a Comment