امریکہ کے تجویز کردہ امن
معاہدے پر اہل غزہ کے تحفظات
غزہ میں امن کی حالیہ کوشش بھی ناکام ہوتی
نظر آرہی ہے۔صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے 29 مئی کو امن معاہدے کا جو 13
نکاتی متن غزہ مزاحمت کاروں کو بھجوایا نو کچھ اسطرح تھا۔
1۔ مدت: 60 دن، صدر ٹرمپ اس بات کے ضامن ہیں کہ اسرائیل مدتِ معاہدے
کے دوران اسکی پاسداری کریگا
2۔ اہل غزہ پہلے سات دنوں میں 10 قیدی اور 18 لاشیں اقوام متحدہ کے
حوالے کرینگے۔
3۔ معاہدے ہوتے ہی غزہ کیلئے امداد پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی
جائینگی۔ تقسیم کی نگرانی اقوام متحدہ اور فلسطینی ہلال احمر کرینگی
4۔ معاہدہ ہوتے ہی اسرائیل تمام فوجی کاروائی روکدیگا۔ غزہ پر فوجی
طیاروں اور جاسوس پروازیں 10 گھنٹہ روزانہ تک محدود کردی جائینگی۔ قیدیوں کی
حوالگی کے دوران 12 گھنٹے تک غزہ کی فضا میں کوئی جہاز نہیں اڑے گا
5۔ معاہدہ کے بعد قیدیوں کے پہلے گروپ کے تبادلے کے ساتھ ہی
اسرائیلی فوجوں کا شمالی غزہ اور نتظارم راہداری (Netzarim Corridor) سے انخلا شروع ہوجائیگا۔
ساتوں دن قیدیوں کے دوسرے گروپ کے تبادلے کےساتھ اسرائیلی فوج جنوبی غزہ خالی کرنا
شروع کردیگی۔ دونوں طرف کی ٹیکنیکل ٹیمیں واپسی کا حتمی نقشہ طئے کرینگی
6۔ عبوری معاہدہ ہوتے ہی ضامن (یعنی امریکہ) اور مصالحت کاروں (قطر
اور مصر) کی نگرانی میں پائیدار اور مستقل امن کیلئے بات چیت شروع ہوجائیگی جن میں
مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کیا جائیگا۔
• تمام قیدیوں اور باقیات کا تبادلہ
• اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلا
• بعد از انخلا، غزہ کا انتظام و انصرام
7۔ امریکی صٖدر معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہیں
اور انکا اصرار ہے کہ عبوری جنگ بندی کے دوران دونوں فریق اخلاص کے ساتھ معاملات
طئے کرکے علاقے میں مستقل اور جامع امن کو یقینی بنائیں۔
8۔ پانچ اسرائیلی قیدیوں کے عوض اسرائیل، عمر قید کی سزاپانے والے
125 اور دوسرے 1111 قیدیوں کو رہا کریگا۔ اٹھارہ لاشوں کے بدلے 180 فلسطینی قیدی
رہا کئے جائینگے۔
9۔ معاہدے کے دسویں دن مزاحمت کار زندہ اور مردہ قیدیوں کی مکمل
فہرست اقوام متحدہ کے حوالے کرینگے
10۔ جامع امن معاہدے کی صورت میں باقی ماندہ تمام قیدی رہا کردئے
جائینگے
11۔ امریکہ، قطر اور مصر یہ ضمانت دیتے ہیں کہ 60 دنوں کے عبوری دور
میں معاہدے کی پابندی یقینی بنائی جائیگی۔ اسکے علاوہ مکمل و پائیدار امن کیلئے
سنجیدہ کوششیں کی جائینگی۔
12۔معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے اسٹیو وٹکاف حتمی مذاکرات کی صدارت
کرینگے
13: فریقین کی رضامندی کی صورت میں صدر ٹرمپ خود اس معاہدے کا اعلان
کرینگے
ان تجاویز کے بارے میں جناب ٹرمپ اتنے پرامید تھے کہ قصر مرمرٰیں میں
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ غزہ جنگ بندی اب
ہفتوں یا دنوں کی نہیں گھنٹوں کی بات ہے۔
مزاحمت کاروں کاکہنا ہے کہ معاہدے میں اصل بات یعنی
اسرائیلی فوجوں کی واپسی کا معاملہ گنجلک ہے۔ متن کے مطابق انخلا کی تفصیل مستقل
امن معاہدے کیلئے مذاکرات میں طئے کی جائینگی۔ جب قیدی رہا ہوگئے تو پھر اسرائیل
کو من مانی سے کون روک سکتاہے؟؟صدر ٹرمپ اور امریکہ جو بھی چاہے دعویٰ کرتے پھریں،
لیکن مزاحمت کار انھیں غیر جانبدار ثالث تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ خود اسٹیو وٹکاف
کے بیانات میں دھمکی و دھونس بہت نمایاں ہے۔ یکم جون کو اہل غزہ نے متن پر اپنے
تحفظات کیساتھ جواب امریکہ کے حوالے کردیا۔ مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ پیشکش
مسترد تو نہیں کررہے لیکن متن کا مجموعی
جھکاو اسرائیل کی طرف ہے۔ اہل غزہ نے اپنے جواب میں کہا کہ اگر جنگ بندی عبوری مدت
کی کرنی ہے تو یہ دورانیہ سات سال ہونا چاہیے تاکہ اس عرصے میں مکمل و پائیدار جنگ
بندی کیلئے بامقصد مذاکرات ہوسکیں۔ امدادی سامان کی تقسیم امریکہ اور اسرائیل کے
بجائے غزہ کی مقامی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہو اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی
ضمانت دی جائے۔ معاہدے کے متن میں ایسی تبدیلی ضروری ہے جسکے تحت مستقل امن معاہدہ
نہ ہونے کی صورت میں بھی اسرائیل جنگ کا دوبارہ آغاز نہ کرسکے۔ غزہ سے جواب ملتے
ہی اسٹیو وٹکاف نے کہا کہ مزاحمت کاروں کی جوابی شرائط ناقابل قبول ہیں اور یہ لوگ
وقت ضایع کررہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیردفاع نے دھمکی دی کہ اگر امریکی
تجاویز ناقابل قبول ہیں تو مزاحمت صفحہ ہستی سے مٹنے کو تیار ہوجائیں۔ غزہ کے جواب
سے ایک ہی دن پہلے قیدیوں کے لواحقین سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا
تھا کہ وہ مزاحمت کاروں ے مکمل خاتمے سے پہلے جنگ ختم نہیں کرینگے۔
امن بات چیت کے دوران اسرائیل کی وحشیانہ کاروائی میں شدت آگئی ہے
اور اقوام متحدہ کے مطابق 17 سے 27 مئی کے دوران ایک لاکھ 80ہزار اہل غزہ اپنے
گھروں سے بیدخل کیے گئے، مارچ میں عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے اب تک سوا چھ
لاکھ شہری دربدر ہوئے۔ ہلاکت خیز بمباری میں تیزی و ہلاکت خیزی کا ذکر خود
اسرائیلی فوج فخریہ انداز میں کررہی ہے۔ ایک حالیہ اعلان میں کہا گیا کہ محمد
سنوار کونشانہ بنانے کےلیے اسرائیل نے 13مئی کو یورپین اسپتال پر تیس سیکنڈ میں
پچاس بم گرائے۔پریس نوٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملے میں محمد سنوار کے ساتھ تین
دوسرے اہم کمانڈر بھی جاں بحق ہوئے۔ محمد سنوار ، یحییٰ سنوار کے بھائی اور مزاحمت
کاروں کے عسکری سربراہ ہیں جنکے جاں بحق ہونے کی مزاحمت کار تردید کررہے ہیں۔ اعلامئے
کے مطابق حملہ اسقدر مہارت سے کیا گیا کہ ایک بھی مریض یا غیرمتعلقہ فرد کو خراش
تک نہیں آئی۔ ہسپتال پر آدھے منٹ میں تیس بنکر بسٹر گرے اور کوئی زخمی نہیں
ہوا؟؟؟؟۔ جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے۔ عینی شاہدین کا کہناہے کہ استقبالیہ کے
سوا پوری عمارت زمیں بوس بوگئی۔
نیتن یاہو، صدر ٹرمپ کی مدد سے
غزہ پر جہنم کے نئے دروازے کھولدینے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن انکی انتہا
پسند پالیسیوں نے اسرائیل کو خانہ جنگی راہ پر لاکھڑا کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب
میں حکومت مخالف مظاہرین، حکمران لیکڈ اتحاد کے مرکز پر ٹوٹ پڑے اور پر عربی اور
عبرانی میں 'قطری سفارتخانہ' لکھدیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی احباب پر قطر سے
رشوت کھانے کا الزام ہے۔ اس دوران 'سول نافرمانی'، 'بن گوئر (وزیراندرونی سلامتی) دہشت گرد ہے'، 'بے
مقصد جنگ بند کرو' کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ ہجوم پر قابو پانے کیلئے گھڑ سوار
پولیس استعمال کی گئی اور 75 افراد گرفتار ہوئے۔
مظاہرے روکنے کیلئے طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ شہری
حقوق کی اسرائیلی انجمن ACRIنے 29 مئی کو یوم سبت پر جنگ بندی اور غزہ نسل کشی کے خلاف تل ابیب
میں مظاہرے کا پروگرام بنایا تو پولیس کی جانب سے منتظمین کو بتایا گیا کہ غزہ میں
شہید و زخمی ہونے والے بچوں کی تصویروں والے پوسٹروں اور پلے کارڈز کی نمائش 'قومی
جذبات بھڑکانے" کی ملک دشمن کارروائی ہے اور اور جو بھی ایسے پلے کارڈز
لہراتا پایا گیا اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ اسی روز اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر اور
مرکزی بندرگاہ حیفہ کے جلسہ عام میں عرب سیاسی اتحاد حدش طعل کے سربراہ اور رکن
پارلیمان ایمن عودہ نے کہا کہ 'اقوام عالم اور خاص طور سے مغرب میں اسرائیل ایک
قابل نفرت ریاست بن چکا ہے۔چھ سو دن سے جاری جنگ کے بارے میں اسرائیلی کھل کر کہہ
رہے ہیں کہ کاش ہم یہ دن نہ دیکھتے۔ یہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور انکے
متعصبانہ نظریے کی تاریخی شکست ہے۔ غزہ جیت گیا، غزہ جیت رہا ہے اور غزہ جیتے گا'
دوسری طرف فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ آزاد فلسطینی ریاست کو
تسلیم کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرچکے ہیں اور جون میں اس حوالے سے اہم فیصلہ
متوقع ہے۔جواب میں اسرائیلی وزیر تزویراتی امور
ران ڈرمر نے دھمکی دی کہ اگر یورپ نے
فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا تو غربِ اردن کااسرائیل سے الحاق کرلیا جائیگا۔اپنی
دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نیتن یاہو کی کابینہ نے غرب اردن میں 22 نئی
بستیاں تعمیر کرنے کی منطوری دیدی اور اراضی کے حصول کیلئے نابلوس میں فلسطینی
مکانات کے انہدام کا کام شروع ہوگیا۔ اب اسرائیل کے سب سے پرجوش حامی جرمنی
نے بھی نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع
کردیاہے۔ فن لینڈ کے شہر ٹرکو (Turku)میں 19 مئی کو نورڈک سربراہ کانفرنس سے
خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ 'غزہ پر اسرائیلی فوج کے نئے
حملوں کی کوئی منظق نظر نہیں آتی۔ اس سے دہشت گردی کا سدباب کیسے ہوگاا؟ مجھے اس
سے شدید اختلاف ہے۔یہ میں پہلی بار نہیں کہہ رہا۔ وقت آگیا ہے کہ اس موقف کا برملا
اظہار کیا جائے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے'
مغرب میں مخالفت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیل نے ہولوکاسٹ (Holocaust)کا
ڈھول پیٹنا شروع کردیا ہے۔ یروشلم میں بین الاقوامی اتحاد برائے یاددہانیِ ہولوکاسٹ یا International
Holocaust Remembrance Alliance کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر بلبلائے
کہ اگر اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی لگائی گئی تو اقوامِ عالم کی یہ واحد یہودی
ریاست تباہ ہوجائیگی اور دنیا ایک نئے ہولوکاسٹ (Holocaust)کا مشاہدہ کریگی۔کپکپاتے
لہجے میں انھوں نے کہا کہ جو ملک، ریاستیں اور سیاستدان اسرائیل پر پابندیاں لگانا
چاہتے ہیں انھں اندازہ ہی نہیں کہ اسکے کیا نتائج نکلیں گے۔ یہ دراصل یہودی قوم کو
دفاع کے وسائل سے محروم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے وسائل جو ہمیں جلا وطنی کے
طویل سالوں اور ہولوکاسٹ کے دوران میسر نہ تھے۔
غزہ نسل کشی کے بارے میں امریکی طلبہ کی حمائت پرجوش ہوتی جارہی
ہے۔ نیوزویک اور آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosکے حالیہ جائزوں کے مطابق امریکی کالجوں اور
جامعات کے 65 فیصد طلبہ آزاد فلسطین کے حامی اور غزہ نسل کشی پر سخت تشویش میں
مبتلا ہیں۔اسی کیساتھ انتظامیہ کی سختی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف تقریر پر
برہم ہوکر، مایہ ناز امریکی دانشگاہ MITنے ہندوستان نژاد طالبہ میگھا ویموری کو جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت
سے روکدیا۔ میگھا کو طلبہ یونین کے صدر کی حیثیت سے جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر
کرنی تھی۔دوروز پہلے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میگھا نے کہا تھا کہ MITانتظامیہ جو چاہے کرے، طلبہ
غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے رہینگے کہ یہ مسلمان یہودی یا عرب اسرائیل کا
نہیں انسانیت کا معاملہ ہے۔
معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی جامعات پر نسل
کشوں کے دروازے بند ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سینگالی دارالحکومت ڈاکار کی
جامعہ شیخ دیوپ میں تعلقاتِ عالم پر تقریر کیلئےاسرائیلی سفیر یووال واکس (Yuval Waks)بطور مقرر مدعو کئے گئے۔موصوف
کے جامعہ آتے ہی طلبہ نے آزاد فلسطین اور غزہ کے قاتل واپس جاو کے نعروں سے انکا
استقبال کیا ۔ مظاہرے کی شدت دیکھ کر فاضل سفیر نے وہاں سے دم دباکر بھاگنے ہی میں
غنیمت جانی۔
سیاسی و سفارتی محاذ پر اسرائیل کی تنہائی کے ساتھ انسانی حقوق کی
تنظیمیں خطرات کے باوجود غزہ کی مدد کیلئے پرعزم ہیں۔یکم جون کو سوئٹزرلینڈ کی گریتا
تھونبرگ (Greta Thornburg) کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی ایک کشتی اٹلی
کی سسلین بندرگاہ Cataniaسے غزہ کیلئے روانہ ہوگئی۔اس قافلے کا اہمتام
یورپی و فلسطینی رفاحی ادارے Freedom
Flotilla Coalition(FCC) نے کیا ہے۔ گریتا تھورنببرگ صاحبہ کے ساتھ امریکی
ڈرامہ سیریز Game of Thronesکے
اداکار لیام کننگھم(Liam Cummingham)،
انسانی حقوق کے برازیلی رہنما Thiago Avilaاور
یورپی پارلیمان کی فرانسیسی رکن ریماحسن سمیت انسانی حقوق کے 12 کارکن Madleenنامی کشتی پر سوارہیں۔اگر رکاوٹ نہ ٖڈالی گئی تو یہ کشتی ایک ہفتے میں غزہ پہنچے گی۔ ایک
ماہ قبل FCCکے زیراہمتام گریتا تھونبرگ کی قیادت میں اسی نوعیت کی الضمیر
یا Conscienceنامی کشتی 29 اپریل کو الجزائری بندرگاہ بنزرت (Bizerte)سے
روانہ کی گئی تھی۔ جب یہ کشتی مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھی تو 2 مئی کو اس پر اسرائیل نے ڈرون حملہ کیا جس سےکوئی جانی نقصان تو نہ ہوا
لیکن کشتی کے آگلے حصے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اسکا مشن منسوخ کردیا گیا۔گریٹا
صاحبہ اور انسانی حقوق کے دوسرے کارکنوں کو پورا یقین ہے کہ اس قافلے کا بھی وہی
حال ہوگا جو الضمیر اور اس سے پندرہ برس پہلے ترک کشتی ماوی مرمرہ (MV Mavi Marmara)کا
ہواتھا۔ خطرے کا احساس کرتے ہوئے مشن کے آغاز پر گریٹا نے
کہا 'چاہے جیسی بھی مشکلات حائل ہوں، ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے کہ (خیر کی)کوشش کا
خاتمہ درصل انسانیت کا خاتمہ ہے۔ یہ مشن خواہ کتنا بھی خطرناک کیوں نہ ہو، (غزہ)
نسل کشی پر دنیا کی خاموشی سے زیادہ خطرناک نہیں'
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 جون 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 6 جون 2025
روزنامہ امت کراچی 6 جون 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 جون 2025