Thursday, June 5, 2025

 

 امریکہ کے تجویز کردہ امن معاہدے پر اہل غزہ کے تحفظات

غزہ میں امن کی حالیہ کوشش بھی ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے 29 مئی کو امن معاہدے کا جو 13 نکاتی متن غزہ مزاحمت کاروں کو بھجوایا نو کچھ اسطرح تھا۔

1۔ مدت: 60 دن، صدر ٹرمپ اس بات کے ضامن ہیں کہ اسرائیل مدتِ معاہدے کے دوران اسکی پاسداری کریگا

2۔ اہل غزہ پہلے سات دنوں میں 10 قیدی اور 18 لاشیں اقوام متحدہ کے حوالے کرینگے۔

3۔ معاہدے ہوتے ہی غزہ کیلئے امداد پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی جائینگی۔ تقسیم کی نگرانی اقوام متحدہ اور فلسطینی ہلال احمر کرینگی

4۔ معاہدہ ہوتے ہی اسرائیل تمام فوجی کاروائی روکدیگا۔ غزہ پر فوجی طیاروں اور جاسوس پروازیں 10 گھنٹہ روزانہ تک محدود کردی جائینگی۔ قیدیوں کی حوالگی کے دوران 12 گھنٹے تک غزہ کی فضا میں کوئی جہاز نہیں اڑے گا

5۔ معاہدہ کے بعد قیدیوں کے پہلے گروپ کے تبادلے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوجوں کا شمالی غزہ اور نتظارم راہداری (Netzarim Corridor) سے انخلا شروع ہوجائیگا۔ ساتوں دن قیدیوں کے دوسرے گروپ کے تبادلے کےساتھ اسرائیلی فوج جنوبی غزہ خالی کرنا شروع کردیگی۔ دونوں طرف کی ٹیکنیکل ٹیمیں واپسی کا حتمی نقشہ طئے کرینگی

6۔ عبوری معاہدہ ہوتے ہی ضامن (یعنی امریکہ) اور مصالحت کاروں (قطر اور مصر) کی نگرانی میں پائیدار اور مستقل امن کیلئے بات چیت شروع ہوجائیگی جن میں مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کیا جائیگا۔

تمام قیدیوں اور باقیات کا تبادلہ

اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلا

بعد از انخلا، غزہ کا انتظام و انصرام

7۔ امریکی صٖدر معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہیں اور انکا اصرار ہے کہ عبوری جنگ بندی کے دوران دونوں فریق اخلاص کے ساتھ معاملات طئے کرکے علاقے میں مستقل اور جامع امن کو یقینی بنائیں۔

8۔ پانچ اسرائیلی قیدیوں کے عوض اسرائیل، عمر قید کی سزاپانے والے 125 اور دوسرے 1111 قیدیوں کو رہا کریگا۔ اٹھارہ لاشوں کے بدلے 180 فلسطینی قیدی رہا کئے جائینگے۔

9۔ معاہدے کے دسویں دن مزاحمت کار زندہ اور مردہ قیدیوں کی مکمل فہرست اقوام متحدہ کے حوالے کرینگے

10۔ جامع امن معاہدے کی صورت میں باقی ماندہ تمام قیدی رہا کردئے جائینگے

11۔ امریکہ، قطر اور مصر یہ ضمانت دیتے ہیں کہ 60 دنوں کے عبوری دور میں معاہدے کی پابندی یقینی بنائی جائیگی۔ اسکے علاوہ مکمل و پائیدار امن کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جائینگی۔

12۔معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے اسٹیو وٹکاف حتمی مذاکرات کی صدارت کرینگے

13: فریقین کی رضامندی کی صورت میں صدر ٹرمپ خود اس معاہدے کا اعلان کرینگے

ان تجاویز کے بارے میں جناب ٹرمپ اتنے پرامید تھے کہ قصر مرمرٰیں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ غزہ جنگ بندی اب ہفتوں یا دنوں کی نہیں  گھنٹوں کی بات ہے۔

مزاحمت کاروں کاکہنا ہے کہ معاہدے میں اصل بات یعنی اسرائیلی فوجوں کی واپسی کا معاملہ گنجلک ہے۔ متن کے مطابق انخلا کی تفصیل مستقل امن معاہدے کیلئے مذاکرات میں طئے کی جائینگی۔ جب قیدی رہا ہوگئے تو پھر اسرائیل کو من مانی سے کون روک سکتاہے؟؟صدر ٹرمپ اور امریکہ جو بھی چاہے دعویٰ کرتے پھریں، لیکن مزاحمت کار انھیں غیر جانبدار ثالث تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ خود اسٹیو وٹکاف کے بیانات میں دھمکی و دھونس بہت نمایاں ہے۔ یکم جون کو اہل غزہ نے متن پر اپنے تحفظات کیساتھ جواب امریکہ کے حوالے کردیا۔ مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ پیشکش مسترد تو نہیں کررہے  لیکن متن کا مجموعی جھکاو اسرائیل کی طرف ہے۔ اہل غزہ نے اپنے جواب میں کہا کہ اگر جنگ بندی عبوری مدت کی کرنی ہے تو یہ دورانیہ سات سال ہونا چاہیے تاکہ اس عرصے میں مکمل و پائیدار جنگ بندی کیلئے بامقصد مذاکرات ہوسکیں۔ امدادی سامان کی تقسیم امریکہ اور اسرائیل کے بجائے غزہ کی مقامی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہو اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی ضمانت دی جائے۔ معاہدے کے متن میں ایسی تبدیلی ضروری ہے جسکے تحت مستقل امن معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں بھی اسرائیل جنگ کا دوبارہ آغاز نہ کرسکے۔ غزہ سے جواب ملتے ہی اسٹیو وٹکاف نے کہا کہ مزاحمت کاروں کی جوابی شرائط ناقابل قبول ہیں اور یہ لوگ وقت ضایع کررہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیردفاع نے دھمکی دی کہ اگر امریکی تجاویز ناقابل قبول ہیں تو مزاحمت صفحہ ہستی سے مٹنے کو تیار ہوجائیں۔ غزہ کے جواب سے ایک ہی دن پہلے قیدیوں کے لواحقین سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ مزاحمت کاروں ے مکمل خاتمے سے پہلے جنگ ختم نہیں کرینگے۔

امن بات چیت کے دوران اسرائیل کی وحشیانہ کاروائی میں شدت آگئی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق 17 سے 27 مئی کے دوران ایک لاکھ 80ہزار اہل غزہ اپنے گھروں سے بیدخل کیے گئے، مارچ میں عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے اب تک سوا چھ لاکھ شہری دربدر ہوئے۔ ہلاکت خیز بمباری میں تیزی و ہلاکت خیزی کا ذکر خود اسرائیلی فوج فخریہ انداز میں کررہی ہے۔ ایک حالیہ اعلان میں کہا گیا کہ محمد سنوار کونشانہ بنانے کےلیے اسرائیل نے 13مئی کو یورپین اسپتال پر تیس سیکنڈ میں پچاس بم گرائے۔پریس نوٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملے میں محمد سنوار کے ساتھ تین دوسرے اہم کمانڈر بھی جاں بحق ہوئے۔ محمد سنوار ، یحییٰ سنوار کے بھائی اور مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ ہیں جنکے جاں بحق ہونے کی مزاحمت کار تردید کررہے ہیں۔ اعلامئے کے مطابق حملہ اسقدر مہارت سے کیا گیا کہ ایک بھی مریض یا غیرمتعلقہ فرد کو خراش تک نہیں آئی۔ ہسپتال پر آدھے منٹ میں تیس بنکر بسٹر گرے اور کوئی زخمی نہیں ہوا؟؟؟؟۔ جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے۔ عینی شاہدین کا کہناہے کہ استقبالیہ کے سوا پوری عمارت زمیں بوس بوگئی۔

نیتن یاہو، صدر ٹرمپ کی مدد سے  غزہ پر جہنم کے نئے دروازے کھولدینے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن انکی انتہا پسند پالیسیوں نے اسرائیل کو خانہ جنگی راہ پر لاکھڑا کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں حکومت مخالف مظاہرین، حکمران لیکڈ اتحاد کے مرکز پر ٹوٹ پڑے اور پر عربی اور عبرانی میں 'قطری سفارتخانہ' لکھدیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی احباب پر قطر سے رشوت کھانے کا الزام ہے۔ اس دوران 'سول نافرمانی'، 'بن گوئر (وزیراندرونی سلامتی) دہشت گرد ہے'، 'بے مقصد جنگ بند کرو' کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔ ہجوم پر قابو پانے کیلئے گھڑ سوار پولیس استعمال کی گئی اور 75 افراد گرفتار ہوئے۔

مظاہرے روکنے کیلئے طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ شہری حقوق کی اسرائیلی انجمن ACRIنے 29 مئی کو یوم سبت پر جنگ بندی اور غزہ نسل کشی کے خلاف تل ابیب میں مظاہرے کا پروگرام بنایا تو پولیس کی جانب سے منتظمین کو بتایا گیا کہ غزہ میں شہید و زخمی ہونے والے بچوں کی تصویروں والے پوسٹروں اور پلے کارڈز کی نمائش 'قومی جذبات بھڑکانے" کی ملک دشمن کارروائی ہے اور اور جو بھی ایسے پلے کارڈز لہراتا پایا گیا اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ اسی روز اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر اور مرکزی بندرگاہ حیفہ کے جلسہ عام میں عرب سیاسی اتحاد حدش طعل کے سربراہ اور رکن پارلیمان ایمن عودہ نے کہا کہ 'اقوام عالم اور خاص طور سے مغرب میں اسرائیل ایک قابل نفرت ریاست بن چکا ہے۔چھ سو دن سے جاری جنگ کے بارے میں اسرائیلی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ کاش ہم یہ دن نہ دیکھتے۔ یہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور انکے متعصبانہ نظریے کی تاریخی شکست ہے۔ غزہ جیت گیا، غزہ جیت رہا ہے اور غزہ جیتے گا'

دوسری طرف فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرچکے ہیں اور جون میں اس حوالے سے اہم فیصلہ متوقع ہے۔جواب میں اسرائیلی وزیر تزویراتی امور ران ڈرمر نے دھمکی دی کہ اگر  یورپ نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا تو غربِ اردن کااسرائیل سے الحاق کرلیا جائیگا۔اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نیتن یاہو کی کابینہ نے غرب اردن میں 22 نئی بستیاں تعمیر کرنے کی منطوری دیدی اور اراضی کے حصول کیلئے نابلوس میں فلسطینی مکانات کے انہدام کا کام شروع ہوگیا۔ اب اسرائیل کے سب سے پرجوش حامی جرمنی نے بھی نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرنا شروع کردیاہے۔ فن لینڈ کے شہر ٹرکو (Turku)میں 19 مئی کو نورڈک سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے کہا کہ 'غزہ پر اسرائیلی فوج کے نئے حملوں کی کوئی منظق نظر نہیں آتی۔ اس سے دہشت گردی کا سدباب کیسے ہوگاا؟ مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔یہ میں پہلی بار نہیں کہہ رہا۔ وقت آگیا ہے کہ اس موقف کا برملا اظہار کیا جائے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے'

مغرب میں مخالفت کا مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیل نے ہولوکاسٹ (Holocaust)کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا ہے۔ یروشلم میں بین الاقوامی اتحاد برائے یاددہانیِ ہولوکاسٹ یا International Holocaust Remembrance Alliance کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر بلبلائے کہ اگر اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی لگائی گئی تو اقوامِ عالم کی یہ واحد یہودی ریاست تباہ ہوجائیگی اور دنیا ایک نئے ہولوکاسٹ (Holocaust)کا مشاہدہ کریگی۔کپکپاتے لہجے میں انھوں نے کہا کہ جو ملک، ریاستیں اور سیاستدان اسرائیل پر پابندیاں لگانا چاہتے ہیں انھں اندازہ ہی نہیں کہ اسکے کیا نتائج نکلیں گے۔ یہ دراصل یہودی قوم کو دفاع کے وسائل سے محروم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ایسے وسائل جو ہمیں جلا وطنی کے طویل سالوں اور ہولوکاسٹ کے دوران میسر نہ تھے۔

غزہ نسل کشی کے بارے میں امریکی طلبہ کی حمائت پرجوش ہوتی جارہی ہے۔ نیوزویک اور آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosکے حالیہ جائزوں کے مطابق امریکی کالجوں اور جامعات کے 65 فیصد طلبہ آزاد فلسطین کے حامی اور غزہ نسل کشی پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔اسی کیساتھ انتظامیہ کی سختی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف تقریر پر برہم ہوکر، مایہ ناز امریکی دانشگاہ MITنے ہندوستان نژاد طالبہ میگھا ویموری کو جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت سے روکدیا۔ میگھا کو طلبہ یونین کے صدر کی حیثیت سے جلسہ تقسیم اسناد میں تقریر کرنی تھی۔دوروز پہلے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میگھا نے کہا تھا کہ MITانتظامیہ جو چاہے کرے، طلبہ غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے رہینگے کہ یہ مسلمان یہودی یا عرب اسرائیل کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے۔

معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی جامعات پر نسل کشوں کے دروازے بند ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سینگالی دارالحکومت ڈاکار کی جامعہ شیخ دیوپ میں تعلقاتِ عالم پر تقریر کیلئےاسرائیلی سفیر یووال واکس (Yuval Waks)بطور مقرر مدعو کئے گئے۔موصوف کے جامعہ آتے ہی طلبہ نے آزاد فلسطین اور غزہ کے قاتل واپس جاو کے نعروں سے انکا استقبال کیا ۔ مظاہرے کی شدت دیکھ کر فاضل سفیر نے وہاں سے دم دباکر بھاگنے ہی میں غنیمت جانی۔

سیاسی و سفارتی محاذ پر اسرائیل کی تنہائی کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں خطرات کے باوجود غزہ کی مدد کیلئے پرعزم ہیں۔یکم جون کو سوئٹزرلینڈ کی گریتا تھونبرگ (Greta Thornburg)  کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی ایک کشتی اٹلی کی سسلین بندرگاہ Cataniaسے غزہ کیلئے روانہ ہوگئی۔اس قافلے کا اہمتام یورپی و فلسطینی رفاحی ادارے  Freedom Flotilla Coalition(FCC) نے کیا ہے۔ گریتا تھورنببرگ صاحبہ کے ساتھ امریکی ڈرامہ سیریز Game of Thronesکے اداکار لیام کننگھم(Liam Cummingham)، انسانی حقوق کے برازیلی رہنما Thiago Avilaاور یورپی پارلیمان کی فرانسیسی رکن ریماحسن سمیت انسانی حقوق کے 12 کارکن Madleenنامی کشتی پر سوارہیں۔اگر رکاوٹ نہ ٖڈالی گئی تو یہ کشتی ایک ہفتے میں غزہ پہنچے گی۔ ایک ماہ قبل FCCکے زیراہمتام گریتا تھونبرگ کی قیادت میں اسی نوعیت کی الضمیر یا Conscienceنامی کشتی 29 اپریل کو الجزائری بندرگاہ بنزرت (Bizerte)سے روانہ کی گئی تھی۔ جب یہ کشتی مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھی تو 2 مئی کو اس پر اسرائیل نے  ڈرون حملہ کیا جس سےکوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن کشتی کے آگلے حصے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اسکا مشن منسوخ کردیا گیا۔گریٹا صاحبہ اور انسانی حقوق کے دوسرے کارکنوں کو پورا یقین ہے کہ اس قافلے کا بھی وہی حال ہوگا جو الضمیر اور اس سے  پندرہ برس پہلے ترک کشتی ماوی مرمرہ (MV Mavi Marmara)کا ہواتھا۔ خطرے کا احساس کرتے ہوئے مشن کے آغاز پر گریٹا نے کہا 'چاہے جیسی بھی مشکلات حائل ہوں، ہمیں کوشش کرتے رہنا ہے کہ (خیر کی)کوشش کا خاتمہ درصل انسانیت کا خاتمہ ہے۔ یہ مشن خواہ کتنا بھی خطرناک کیوں نہ ہو، (غزہ) نسل کشی پر دنیا کی خاموشی سے زیادہ خطرناک نہیں'  

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 6 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 6 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 جون 2025


Thursday, May 29, 2025

 

یہ جنازہ نہیں میرے شہزادے کی برات ہے ، کفن پر دولہا لکھو، ایک ماں کی فریاد

یوم سبت (24 مئی) پر تل ابیب سے ایک سنسنی خیز بیان جاری ہوا جسکے مطابق آخری اور فیصلہ کن حملے کیلئے اسرائیل نے اپنی پوری پیدل اور بکتر بند فوج غزہ طلب کرلی ہے۔ اعلامئے میں مزید کہا گیا کہ گولانی چھاپہ مار ڈویژن، گیواتی کمانڈوز بریگیڈاور نحل ٹینک ڈیژن کے ساتھ تمام محفوظ یا reserveدستوں نے بھی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ فوج کے سربرہ جنرل ایال ضمیر کا کہنا تھا کہ اس بھرپور حملے کا مقصد مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔

اسکے دودن بعد 26 مئی کی صبح امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز  نے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف کے حوالے سے خبر دی کہ اہل غزہ 70 دن کی عبوری جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، مزاحمت کار اپنے سینکڑوں قیدیوں اور جزوی اسرائیلی انخلا کے عوض 70 دنوں میں اسرائیل کے 10 قیدی رہاکردینگے۔اس  معاہدے کے ضامن صدر ٹرمپ ہیں جنھوں نے بانکوں کو یقین دلایا ہے کہ 70 دنوں میں  پائیدار و مستقل امن معاہدہ ہوجائیگا اور اگر معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں آئیں تب بھی اسرائیل غزہ پر حملہ نہیں کریگا۔

اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد اسٹیو وٹکاف نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کیلئے امریکی تجویز اسرائیل نے تسلیم کرلی ہے اور مزاحمت کاروں کو چاہئے کہ وہ بھی اسرائیل کی پیشکش قبول کرلیں۔ اسی کیساتھ ٹائمز آف اسرائیل نے اہل غزہ سے منسوب ایک بیان شائع کیا جس میں الزام لگایاگیا ہے کہ جناب وٹکاف پہلے طئے کی گئی شرائط سے مکر رہے ہیں یعنی اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا انکے ترمیم شدید اعلان میں شامل نہیں۔جواب میں جناب وٹکاف خوب غرائے اور کہا کہ مزاحمت کار ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔غزہ امن کے بارے میں جناب وٹکاف اور صد ٹرمپ کی نیتوں کا فطور بہت واضح ہے۔ یہ دونوں میدانِ Real Estate کے شہسوار ہیں اور انھیں لٹے پٹے غزہ کی پشت پر نفع بخش Beach Frontنظر آرہا ہے۔ زمین مفت اور تعمیر قطر، سعودی و متحدہ عرب امارات کے پیسوں سے۔ یعنی آم کے آم آور گٹھلیوں کے دام

گزشتہ انیس ماہ کے دوران، بنکر بسٹر بموں سمیت اسرائیل نے اپنے ترکش کا ہر تیز آزمالیا۔ اسکے نتیجے میں غزہ کھنڈر اور اہل غزہ زندہ درگور ہوگئے لیکن اسرائیل اب تک اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہ کرسکا۔ اسی جنجھلاہٹ کا نتیجہ ہے کہ حملوں میں شدت کیساتھ وحشت و درندگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اسرائیل کے امریکی دوستوں کے خیال میں 'اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا'

صد ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور فلورڈا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس رینڈی فائن نے غزہ پر جوہری بم گرانے کی تجویز دے ہے۔راسخ العقیدہ یہودی، مسٹر فائن یکم اپریل کو سابق مشیر سلامتی مائک والز کی خالی کردہ نشست پر رکن منتخب ہوئے ہیں، صدر ٹرمپ نے موصوف کی انتخابی مہم می  بنفس نفیس حصہ لیا تھا۔ واشنگٹن میں اسرائیلی سفارتخانے کے دو اہلکاروں کے قتل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے رینڈی فائن نے فاکس ٹیلی ویژن پر کہاکہ 'فلسطینیوں کا موقف (cause) بذات خود ایک شیطنت ہے۔ غزہ میں تنازعہ کا خاتمہ مسلم دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔دوسری جنگ عظیم میں نازیوں سے ہتھیار ڈالنے کی بات کی گئی نہ جاپانیوں سے۔ہم نے جاپانیوں پر دو بار ایٹم گرایا اور معاملہ ختم۔ یہاں بھی اسی کی ضرورت ہے۔جیسے امریکہ نے جاپان پر جوہری بم گرایا، شائد اب اسی کی ضرورت غزہ میں ہے'

بلاشبہ نہتے افراد کا قتل حد درجہ افسوسناک ہے، لیکن غزہ میں ہونے والے واقعات کا دکھ ساری دنیا محسوس کررہی جسکا رد عمل 21 مئی کی شام کو نظر آیا جب امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے یہودی میوزیم سے باہر آتے اسرائیلی سفرتخانے کے دوافسران یارون لچنسکی اور اسکی گرل فرینڈ سارہ ملگرم کو ایک 30 سالہ شخص الیاس راڈریگز نے  گولی مار کر ہلاک کردیا۔حملے کے بعد بھاگنے کے بجائے الیاس نے میوزیم کے اندر جاکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔پولیس کمشنر پامیلا اسمتھ کے مطابق گرفتاری کے وقت الیاس 'آزاد فلسطین' کے نعرے لگارہا تھا۔دوسرے روز عدالت کے روبرو بھی الیاس نے کہا کہ غزہ میں ہونے والے مظالم نے اسے راست اقدام پر مجبور کیا۔ الیاس ایک تعلیم یافتہ اور برسرروزگار شخص ہے۔ اسکے ریکارڈ میں کسی قسم کی مجرمامہ یا پُر تشدد سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی اندراج نہیں۔ سوشلسٹ خیالات کی طرف مائل الیاس، انسانی حقوق کا سرگرم کارکن ہے۔واضح رہے کہ الیاس مسلمان نہیں۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ اور یورپ کے یہودیوں میں شدید خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔ جرمنی میں انسداد سام دشمنی (Antisemitism)کے کمشنر فیلیکس کلائن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کے مزید واقعات پیش آسکتے ہیں۔اسرائیلی ماہرین کی فکرمندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ الیاس راڈریگز کسی گروپ یا گروہ سے وابستہ تھا اور نہ اس نے اس کام کیلئے کسی کی مدد لی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ نسل کشی عام لوگوں کو راست قدم اٹھانے پر اکسارہی ہے اور اس قسم کے واقعات کو روکنا بہت مشکل ہے۔

پابندیوں اور بدترین سینسر کے باوجود اب غزہ نسل کشی کی خبریں اسرائیل پہنچ رہی ہیں اور وہاں بھی عوام سطح پر بیچینی کا اظہار ہورہا ہے۔ سابق ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ جنرل (ر) یائر گولان نے کہا کہ اسرائیل بہت تیزی سے Apartheid دور کا جنوبی افریقہ بن رہا ہے۔ ایک معقول ملک شہریوں کے خلاف نہیں لڑتا، بچوں کو شوقیہ نہیں مارتا اور آبادیوں کو بے دخل کرنا اسکی قومی حکمت عملی نہیں ہوتی۔ جنرل صاحب کے اس بیان پر وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے انھیں محفوظ یا ریزرو دستے سے فارغ کردیا۔ اسرائیل میں تمام فوجی ریٹائر ہونے کے بعد ریزرو شمار ہوتے ہیں جنھیں بوقت ضرورت محاذ پر بھیجا جاسکتا ہے۔ دوسرے دن بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیل کے سابق وزیراعظم، یہود المرٹ نے کہدیا کہ 'غزہ میں اسرائیلی اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے “بہت قریب” ہیں'

غرب اردن میں ہونے والے تشدد اور جبری بیدخلی پر بھی دنیا تشویش کا اظہار کررہی ہے۔اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلئے اسرائیل نے غیر ملکی سفارتکاروں کو غرب اردن کا دورہ کرنے کی اجازت دیدی۔ وفد کی آمد سے  پہلے علاقے کی ادھیڑی ہوئی سڑکوں کی استرکاری کی گئی اور عمارتوں کو رنگ روغن کرکے چمکا دیا گیا۔ اس سارے انتظامات کے بعد 21 مئی کو فوج کی نگرانی میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا، روس، چین، ہندوستان، جاپان سمیت 21ممالک اور یورپی یونین کے سفارتکاروں کو جنین لایا گیا۔چونا کاری کاکام اس قدر جلدبازی اور بھونڈے پن سے کیا گیا تھاکہ اسکا مصنوعی پن صاف نظر آرہا تھا، چنانچہ یورپی یونین کے سفارتکار برابر والی گلی میں چلے گئے جہاں سڑک ادھڑی اور مکانات کی دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں۔ اس پر اسرائیلی فوج نے زبردست ہوائی فائرنگ شروع کردی۔سفارتکار بھاگ کر وہاں سے واپس آگئے اور کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔اسرائیلی فوج نے اس پر معذرت کرتے ہوئے کہاکہ وفد نے پہلے سے طئے شدہ راستے سے انحراف کیا تھا اور فائرنگ دہشت گردوں کو متنبہ کرنے کیلئے کی گئی تھی۔

اسرائیلی مظالم پر دنیا میں بیداری تو ہے لیکن ردعمل سست ہونے کیساتھ  گروہ بندی، اسلاموفوبیا اور تعصب  بہت واضح ہے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے حالیہ اجلاس میں اسرائیل سے تجارت اور تعاون کے معاہدوں پر نظر ثانی کی قرارداد27میں سے 17ممالک نے منظور کرلی۔ گویا دوتہائی سے بھی کم یورپی ممالک غزہ کے معاملے کو سنگین سمجھ رہے ہیں۔یہ تحریک ہالینڈ نے پیش کی تھی جسکی بلغاریہ، کروشیا، یونانی قبرص، چیک ریپبلک، جرمنی، یونان، ہنگری، اٹلی اور لتھوانیہ نے مخالفت کی جبکہ لٹویا غیر جانبدار رہا۔ دوسری طرف برطانیہ نے اسرائیل سے آزادانہ تجارت کے معاہدے (FTA)پر مذاکرات منجمد کردئے ہیں۔ پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ غزہ اور غرب اردن میں اسرائیل کا رویہ انتہائی برا اور انسانیت کے خلاف جرائم شمار ہوسکتا ہے

موسیقی کے عالمی مقابلے یورویژن (Eurovision) کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔سوئزرلینڈ کے شہر باہزل (Basel)میں ہونے والے اس مقابلے کے اختتام پر فاتح، آسٹریائی گلوکار، Johannes Pietschالمعروف JJ نے ایوارڈ لیتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا 'اسرائیل کو مقابلے میں شامل ہوتے دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔ میں چاہتا ہوں کہ اگلا یورووژن ویانا میں ہو اور اسرائیل کے بغیر'

کچھ ایسی ہی صورتحال Ivor Novelloایوارڈ کی تقسیم کے وقت پیش آئی۔ مشہور یورپین فنکار آیور نویلو کی یاد میں ہر سال عمدہ گیت کے تخلیق کار اور دھنیں تیار کرنے والوں کو انعامات دئے جاتے ہیں۔ اس بار یہ تقریب 22 مئی کو لندن کے Grosvenor ہوٹل میں منعقد ہوئی، جس کے مہمان خصوصی آئرلینڈ کے مشہور گلوکار پال ڈیوس ہیوسن المعروف بونوح (Bono) نے غزہ امن فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا 'غزہ میں خونریزی ختم ہو، مزاحمت کار قیدی آزاد کردیں اور اسرائیل نیتن یاہو اوراسکے انتہا پسند ساتھیوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے'

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا لیو چہاردہم نے پوپ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سینٹ پیٹرر برگ چوک پر اپنے پہلے ہفتہ وار خطبے میں کہا کہ 'غزہ کی صورتحال تشویش ناک اور تکلیف دہ ہے۔ میں دلی التجا کرتا ہوں کہ وہاں خاطر خواہ امداد کی اجازت دی جائے۔ اس دشمنی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کی دل دہلا دینے والی قیمت بچے، بزرگ اور بیمار ادا کررہے ہیں ہیں۔ کلیسائے انگلستان (Church of England)کے اسقف ہائے اعظم یا Bishops کے 22مئی کو یارک (York)میں ہونے والے سالانہ اجتماع میں بھی ایک قراردادمنظور ہوئی جس میں کہا گیا کہ 'غزہ میں اسرائیل کے عسکری اقدامات، دفاعی جنگ نہیں بلکہ قابل مذمت جارحیت ہے۔ ہم غزہ کیلئے انسانی امداد کی پابندی کو نسل کشی کی ایک شکل سمجھتے ہیں'۔

امریکی جامعات میں تشدد و گرفتاری کے باوجود اہل غزہ کی حمائت بڑھتی جارہی ہے۔ اجکل جامعات اور دوسرے تعلیمی اداروں میں  تقسیم اسناد کی تقریبات ہورہی ہیں اور بلا استثنیٰ ہر جگہ سند لینے والے طلبہ کی معقول تعداد فلسطینی کفیہ گلے میں ڈال کر ڈگری وصول کررہی ہے۔ بہت دلچسپ صورتحال جامعہ شمالی ٹیکسس (UNT)کے شعبہ طب کے جلسہ تقسیم اسناد میں پیش آئی۔ایک پاکستان نژاد ڈاکٹر کو رئیس کلیہ نے اعزازی مفلر پہنایا تو اس نے  فلسطین کا پرچم لہرادیا۔ اس لڑکے کی جرات رندانہ سے زیادہ غیر متوقع سامعین کا ردعمل تھا۔ اس علاقے اور جامعہ پر قدامت پسندوں کے اثرات بہت گہرے ہیں لیکن فلسطینی پرچم دیکھ کر سارا مجمع کھڑا ہوگیا اور دیر تک تالی بجتی رہی۔

اور آخر میں دوواقعات کہ جنکا بصری تراشہ بھی ہم سے نہ دیکھا گیا۔

شہید ہونے والے ایک بچے کی ماں بلک بلک کر کہہ رہی تھی۔ 'تم سب کو تمہارے رب کا واسطہ، اسے جنازہ نہ کہو یہ میرے شہزادے کی بارات ہے'۔امدادی کارکنوں سے اس نے رو رو کر فریاد کی کہ کفن پردولہا لکھدو۔ جب ایک کارکن نے کالے مارکر سے کفن پر 'العریس' یعنی دولہا تحریر کیا تب اس نے تدفین کیلئے میت اٹھانے کی اجازت دی۔ دوسرا واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ ناصر ہسپتال سے وابستہ مشہور ماہر اطفال ڈاکٹر آلاء النجار 21 مئی  کی شام بدترین بمباری کے بعدزخمیوں اور لاشوں کو دیکھ رہی تھیں۔ سب کے جسم اس بری طرح جھلسے ہوئے تھے کہ شناخت مشکل تھی۔ڈاکٹر صاحبہ ایک لاش کی شناخت کررہی تھیں تو انھیں پتہ چلا کہ کوئلہ بنا یہ لاشہ انکے بڑے صاحبزادے یحییٰ کا ہے۔ اسکے بعد تو جس لاش کو بھی ہاتھ لگاتیں وہ انکے کس بچے کی تھی۔ بمباری میں انکے دس میں سے نو  بچے شہید ہوگئے اور بری طرح جھلسا ہوا دسواں لخت جگر موت و حیات کی کشکمش میں ہے۔ لیکن آفرین ہے احساسِ ذمہ داری پر کہ اپنے مہ پاروں کی لاشوں کو ایک طرف کرکے وہ معمول کے مطابق زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگئیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 مئی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 مئی 2025

رزنامہ امت کراچی 30 مئی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم جون 2025



Friday, May 23, 2025

 

 غزہ نسل کشی کے 600 دن

لشکرِ جدعون یا Gideon's Chariot آپریشن کا آغاز۔ اسرائیل کا نیا مذہبی ٹچ

امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباو نہیں ڈالے گا۔ اسٹیو وٹکاف

امریکہ غزہ کو کوچہ آزادی میں تبدیل  کرنا چاہتا ہے، صدر ٹرمپ

غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estateنہیں۔ مزاحمت کاروں کا صدر ٹرمپ کو جواب

اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے ۔ہسپانوی وزیراعظم

اطالوی ارکانِ پارلیمان کا غزہ نسل کشی کیخلاف بابِ رفح پر مظاہرہ

آزاد فلسطین کے حق میں حریدی فرقے کا جلوس، انتہا پسند وزیرکی بیوی کوطمانچے لگ گئے

امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک جاری

جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اسکے چار دن بعد یعنی 27 مئی کو غزہ نسل کشی کے 600 دن مکمل ہوجائینگے اور اس وحشت کے ختم ہونے کا بظاہر کوئی انکار بھی نہیں۔ وزیراعظم نیتن یاہو اور انکے جنونی اتحادی غزہ کے ایک ایک شہری کے قتل یا انخلا سے پہلے بمباری بند کرنے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف  اسرائیلی نسل پرستوں کی غیر مشروط پشت پناہی کیلئے امریکہ کا عزم بہت واضح اور غیر مبہم ہے۔ گزشتہ ہفتے جب اسرائیلی وزیراعظم نے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP)سے باتیں کرتے ہوئے کہاکہ غزہ پر حملے کسی صورت نہیں روکے جائینگے۔ اگر مزاحمت کار قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہوئے تو وقتی طور پر فائربندی ہوگی اور قیدیوں کی بازیابی کے بعد حملے دوبارہ شروع کردئے جائینگے۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فلسطین کیلئے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف نے صاف صاف کہا کہ امریکہ غزہ خونریزی ختم کرنے کیلئے اسرائیل پر دباو نہیں ڈالے گا۔ اگر مزاحمت فلسطینیوں سے مخلص ہیں تو ہتھیار رکھ کر غزہ چھوڑ دیں کہ اسکے سوا اسرائیلی حملے روکنے کا دوسرا اور کوئی راستہ نہیں۔

دوسروں سے کیا شکوہ کہ خود عرب دنیا کی جانب سے اس معاملے پرکوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات اس کا کسی اہم نشست میں کہیں ذکر بھی سنائی نہیں دیتا۔ چند روز پہلے عرب شیوخ و سلاطین نے صدرٹرمپ کی ایک مسکراہٹ پر اربوں ڈالر نچھاور کردئے اور کسی کو ان مظلومو ں کے حق میں ایک لفظ بولنے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ ہر جگہ ٹرمپ صاحب غزہ کے مزاحمت کاروں پر غُراتے رہے اور انتہائی رعونت سے بولے اگر میں امریکہ کا صدر ہوتا تو طوفان الاقصیٰ کا واقعہ پیش نہ آتا۔ساری دنیا کو انسانیت کے خلاف اس گھناونے جرم کی مذمت کرنی چاہئے۔ غزہ کے مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ غزہ موت کی وادی ہے، ایک عمارت بھی سلامت نہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ غزہ کو کنٹرول میں لے کر اسے کوچہ آزادی میں تبدیل کردے۔ ان ارشادات گرامی پر عرب رہنما انتہائی سعادت مندی سے سرجھکائے رہے لیکن اہل غزہ نے ترنت ایک بیا داغا کہ  غزہ بے نامی پلاٹ یا قابل فروخت Real Estate نہیں۔یہ فلسطینی ریاست کا اٹوٹ انگ ہے۔ قتل عام اور نسل کشی کے باوجود ہم تھکے نہیں اور مزید قربانیوں کیلئے تیار و کمر بستہ ہیں۔غزہ انخلا کے حوالے سے امریکہ کے NBCٹیلی ویژن نے انکشاف کیا ہے کہ دس لاکھ اہل غزہ کو لیبیا منتقل کرنے کے امریکی منصوبے کو آخری شکل دی جارہی ہے۔

اسوقت غزہ میں اسرائیلی کا ہدف مزاحمت کاروں کے عسکری سربراہ اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار ہیں۔ انکے قتل کیلئے سارے غزہ پر 30 ہزار پونڈ کے بنکر بسٹر کم گرائے جارہے ہیں ۔جمعرات 22 مئی کو فجر سے شروع ہونے والی بمباری کا سلسلہ آج چوتھے دن بھی جاری ہے۔ حملے کے پہلے دن فجر سے ظہر کے درمیان 94 افراد جاں بحق ہوئے اور ملبے تلے دبے لوگوں کی تعداد اس سے تین گنا ہے۔ اب تک محمد سنوار کے قتل کی کوئی مستند خبر نہیں آئی۔

یوم سبت پر 17 مئی کو لشکرِ جدعون (Gideon's Chariot) کے نام سے نیا آپریشن شروع کیا گیا ہے جسکے لئے  محفوظ دستوں کے پانچ تازہ دم ڈویژن اور ٹینکوں کا نیا دستہ غزہ پہنچا دیا گیا۔ عبرانی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی ایک اہلیہ حضرت قطورہ کی اولاد خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہوگئی اور یہ علاقہ مدین کہلایا۔ کچھ عرصے بعد مدین لٹیروں اور ڈاکووں کا مسکن بن گیا۔ ترازو میں ڈنڈی مارنے کی شیطانی روائت کا آغاز بھی مدین سے ہوا تھا۔توریت کی سورہ Judges کے مطابق ایک خداترس جنگجو،  جدعون 300 سپاہیوں کا مختصر لشکر لے کر یہاں آیا اور اس نے ان بے ایمانوں کو شکست دیکر مدین پر دوبارہ فلسفہ ابراہیمی کے تحت منصفانہ حکومت قائم کردی۔نہتے اور بھوکے پیاسے فلسطینیوں کے قتل عام کو خدا ترس مجاہدین سے منسوب کرتے ان وحشیوں کو ذرا شرم نہ آئی۔

عالمی رہنما غزہ نسل کشی پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہی لیکن امریکہ کے خوف سے اسرائیل پر دباو ڈالنے کیلئے پابندیوں اور دوسری تادیبی کاروائیوں کی کسی میں ہمت نہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے غزہ پر مکمل قبضے کی مہم کو انسانی حقوق و بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قراردیتے ہوئےایک بیان میں کہا کہ فوجی دباؤ ڈال کر شہری آبادی کو مصری سرحد کی طرف دھکیلنا غزہ کو ایک خاص نسل یعنی فلسطینیوں سے خالی کرانے کی منظم مہم ہے ، جسے غیر قانونی نسلی تطہیر کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔جناب ترک نے کہا کہ نسلی تطہیر بین الاقوامی قوانین کے تحت انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے

سب سے مضحکہ خیز بیان فرانس کے صدر ایمیونل میکراں کا ہے۔البانیہ کے دارالحکومت ترانہ کی یورپی سربراہ کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ غزہ بدترین انسانی المئے کا شکار ہے اور وہ اس مسئلے پر امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم سے بات کرینگے۔اگر یہ بات انھوں نے ازراہ تفنن کی ہے تو یہ بھونڈا مذاق اور سنجیدگی کی صورت میں ہمیں انکی دماغی حالت پر شک ہورہا ہے۔غزہ کے قتل عام میں امریکی اسلحہ اور اسرائیلیوں کے بازو استعمال ہورہے ہیں اور قصاب سے بکرے پر رحم کی درخواست کو خللِ دماغ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟؟؟

غزہ نسل کشی کے خلاف ہسپانیہ کا موقف کسی حد تک جاندار لگ رہا ہے۔ بغداد میں عرب لیگ سربراہی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران وزیراعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل نے انتہاکردی ہے۔ ہسپانیہ،  اقوام متحدہ میں ایک قرارداد کے ذریعے عالمی عدالت انصاف (ICC)سے جنگ بندی کا حکم جاری کرنے کو کہے گا کہ یہ فلسطین اسرائیل تنازعہ نہیں انسانیت کا معاملہ ہے۔ اس سے ایک دن پہلےوزیراعظم سانچیز نے اپنی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ایک نسل کش ریاست ہے اور میڈرڈ ایسے ملک سے کاروبار نہیں کرسکتا۔وزہراعظم سانچیز نے اسرائیل کو یورویژن (Eurovision)موسیقی میلے سے نکالنےکا مطالبہ بھی کیا۔نغمات کا سالانہ عالمی مقابلہ آجکل سوئزرلینڈ کے شہر باہزل (Basel)میں ہورہا ہے۔ ہسپانوی وزیراعظم نے میلے کے منتظمین سے مطالبہ کیا کہ غزہ نسل کشی کی بناپر اسرائیل کو اس قسم کے مقابلوں میں حصہ لینے کا حق نہیں۔ انھوں نے یاد دلایا کہ یوکرین جارحیت کے بعد روس پر یورویژن کے دروازے بند کئے جاچکے ہیں۔

پارلیمان میں ارکان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اطالوی وزیراعظم محترمہ جارجیا میلونی نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کے دوران بین الاقوامی قانون کا احترام کرنا چاہیے. انسانی امداد پر پابندی کا کوئی جواز نہیں۔ اٹھارہ مئی کو اطالوی ارکانِ پارلیمان نے مصر غزہ سرحد یعنی باب ر فح پر معصوم بچوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے نمائندے شامل تھے۔شائد اسی دباو کا نتیجہ ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے اہل غزہ کیلئے امدادی سامان پر پابندی اٹھالی ہے۔ یہ اعلان ہوتے ہی انکے انتہاپسند اتحادیوں کا شدید رد عمل سامنے آیا اور عظمت یہودی جماعت نے کہا ہے کہ اگر امدادی سامان کی بحالی برقرار رہی تو وہ حکومت سے الک ہوجائینگے۔جماعت کے سربراہ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے کہا کہ دنیا جو چاہے کرلے ہم شیطانی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہونگے۔ دلچسپ بات کہ موصوف کے انتہا پسند موقف کی خود اسرائیل میں مزاحمت شروع ہوچکی ہے۔یروشلم کے مضافاتی علاقے بیت الشمس (Beit Shemesh)میں انکا حریدی فرقے کی طرف سے صیہونیت مردہ باد، فری فری فلسطین کے نعروں سے استقبال ہوااور انکی اہلیہ کو یاروں نے طمانچے جڑدئے۔

جس دن نیتن یاہو نے لشکرِ جدعون کا اعلان کیا اسی روزہزاروں اسرائیلیوں نے  غزہ میں زندہ دفن کردئے جانیوالے بچوں کی تصویریں لیکر زبردست مظاہرہ کیا۔ تل ابیب کے مرکزی چوک میں مظاہرین نے بچوں کا قتل عام موسیٰؑ کی تعلیمات کے خلاف ہے کہ نعرے لگائے۔

گزشتہ ہفتے جب  اسرائیلی وزیرخارجہ جدون سعر جاپان کے دورے پر آئے تو ٹوکیو پریس کلب کے سامنے مقامی صحافیوں نے مظاہرہ کیا۔ اپنی تقریروں میں پریس کلب کے رہنماوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ کو آزاد صحافت کا قبرستان بنادیا ہے۔ غزہ نسل کشی کے خلاف ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ خونزیری کی علامت کے طور پر مظاہرین نے سرخ لباس پہن رکھے تھے۔ خواتین نے اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ شرکت کی۔

اس حوالے ے بڑی موثر پیشرفت غزہ نسل کشی کے خلاف برطانیہ، کینیڈا اور فرانس کی مذمت اور پابندیاں لگانے کی دھمکی ہے۔ ان تینوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا 'اسرائیلی حکومت کا شہری آبادی کے لیے بنیادی انسانی امداد کا انکار ناقابل قبول ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کا خطرہ ہے۔ہم مغربی کنارے پر بستیوں کی توسیع کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اسرائیل پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں'

پابندیوں اور ملک بدری کے باوجود امریکی جامعات بھی سینہ سپر ہیں۔گزشتہ ہفتے جامعہ اسٹینفورڈ (Stanford University)، کیلی فورنیا کے طلبہ اور اساتذہ نے غزہ سے ہم آہنگی کیلئے بھوک ہڑتال شروع کردی۔ کیمپ میں موجود اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ ہڑتال اور احتجاج کیساتھ اہل غزہ سے ہم آہنگی کا اظہار ہے کہ بھوک سے بلکتے بچوں کو دیکھ ہمیں پیٹ بھر کے کھانا کھاتے شرم آتی ہے۔

طلبہ کا خلاف ٹرمپ اتتظامیہ کی انتقامی کاروائیوں پر عدالتوں سے داد رسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون کے طالب علم ڈاکٹر بدر خان سوری کو وفاقی جج نے ضمانت پر رہا کردیا۔ ہندوستان نژاد ڈاکٹر سوری مبینہ طور پر مزاحمت کاوں کے ایک سابق رہنما کے داماد ہیں۔انھیں 17 مارچ کو ایمگریشن پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس سے پہلے غزہ نسل کشی کی مذمت کے الزام میں گرفتار ہونے والے محسن مہدوی اور پی ایچ ڈی کی ترک نژاد طالبہ Rümeysa Öztürkکو بھی ضمانت پر رہائی مل چکی ہے۔

ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوے: اٹھارہ مئی کو صحافی عزیزالحجار، عبدالرحمان اور خاتون صحافی نور قندیل اسرائیلی بمباری میں اپنی جانوں سے گئے۔حملے میں عزیزالحجار کی اہلیہ اور نور قندیل کے شوہر خالدابوسیف بھی جاں بحق ہوئے۔غزہ میں جان سے گزرنے والے صحافیوں کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کرچکی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 مئی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 مئی 2025

روزنامہ امت کراچی 24 مئی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 مئی 2025


Thursday, May 22, 2025

 

صدر ٹرمپ کا دورہ خلیج

امریکی اسلحے کی خریداری اور سرمایہ کاری پر کھربوں خرچ ہونگے

قطر نے ماضی میں دہشت گردوں کی مالی اعانت کی ہے۔ صدر ٹرمپ

ٹرمپ کارپوریشن کی Crypto Currencyمیں امارات کی بھاری سرمایہ کاری

شام پر عائد امریکی پابندیاں ختم کردی گئیں

صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطیٰ کا دور کرنے کی روائت برقرار رکھی۔ اس سے پہلے جنوری 2017 میں حلف اٹھانے کے بعد وہ 20 مئی کو سعودی عرب پہنچے تھے اور اس بار بھی وہ جنوری 2025 میں باگ ڈور سنبھالنے کے بعد 13 مئی کو سعودی عرب پہنچے۔فرق یہ تھا کہ جناب ٹرمپ اس بار اسرائیل نہیں گئے بلکہ انھوں نے قطر، اور متحدہ عرب امارات کو شرف میزبانی بخشا۔ تاہم کاروباری معاہدوں اور سلامتی و عالمی امور پر تزویراتی گفتگو کے اعتبار سے 2017 اور حالیہ دوروں میں کوئی فرق نہ تھا۔ صدر ٹرمپ کے دورے کا بنیادی مقصد امریکہ میں سرمایہ کاری، امریکی اداروں کیلئے کاروبار کے مواقع ڈھونڈھنا، اسرائیل سے عرب ومسلم ممالک کے تعقات، غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا، ایران کےجوہری پروگرام کے خلاف عرب دنیا کو آگاہی اور اسی کیساتھ ٹرمپ کارپوریشن کے مفادات کو آگے بڑھانا تھا۔ صدر ٹرمپ کو اس بات پر بڑا ناز ہے وہ امریکی تاریخ کے پہلے بزنس مین صدر ہیں اور انھیں مول تول میں مہارت حاصل ہے۔ وہ فخر سے خود کو deal makerکہتے ہیں۔

سب سے پہلے وہ سعوددی عرب پہنچے جہاں آوبھگت کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ صدر ٹرمپ کی ارغوانی ٹائی کی مناسبت سے جامنی قالین بچھائے گئے۔ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات میں دونوں رہنماوں نے مفاہمت کی ایک یادداشت (MOU)پر دستخط کئے جسکے تحت سعودی عرب، امریکی اسلحہ ساز ادراوں سے 142 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا۔ امریکہ سے اسلحے کی خریداری بڑا گنجلک معاملہ ہے کہ سودا خریدار اور اسلحہ ساز اداروں لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، جرنل ڈائنامکس وغیرہ سے ہوتا ہے لیکن امریکی کانگریس اسلحے کی روانگی پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی ہے۔

پاکستان اس عذاب سے گزر چکا ہے۔ ضیاالحق انتظامیہ نے ایف 16 کی خریداری کیلئے طیارہ ساز ادارے لاک ھیڈ مارٹنMartin  Lockheedسے معاہدہ کیا اورپرچیز آرڈر کے ساتھ پیشکی ادائیگی بھی کردی گئی، لیکن امریکی کانگریس نے پاکستان کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی لگادی۔لاک  ہیڈ نے رقم کی واپسی سے انکار کردیا۔ انکا موقف تھا کہ جہازوں کی کھیپ تیار ہوچکی ہے لہٰذا رقم واپس نہیں ہوسکتی اور چونکہ پابندی حکومت نے لگائی ہے، اسلئے لاک ہیڈ اسکی ذمہ دار نہیں۔ دس بارہ سال بعد جب لاک ہیڈ کو ان طیاروں کا ایک دوسرا خریدار مل گیا تو یہ رقم اس تکلف سے واپس ہوئی کہ اسکا ایک حصہ لاک ہیڈ نے گودام کے کرائے اور سروس چارج کے نام پر رکھ لیا، کچھ رقم گندم اور سویابین کی شکل میں واپس ہوئی اور ایک حقیر ساحصہ نقد عطا ہوا۔

اسلحے کی خریداری کے علاوہ سعودی عرب نے امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری دراصل شہزدہ محمد بن سلمان کے وژن 2030کا حصہ ہے جسکے تحت سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم کیا جارہا ہے۔ولی عہد کی ہدائت پر  مملکت، سیاحت، صنعت، بینکنگ اور تجارت کےمیدان میں بھاری سرمایہ کاری کررہی۔ تیل کے معاملے میں بھی اب خام تیل کی فروخت کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات اور اس سے متعلقہ خدمات سعودیوں کی ترجیحات ہیں۔اسی وجہ سے سعودی ارامکو نے 2 ارب 65 کروڑ ڈالر دیکر گاڑیوں میں Oil Changeاور فلٹر کی سہولت فراہم کرنے والے امریکی ادارے Valvoline کی ملکیت حاصل کی ہے۔ اگلے دس سال کے دوران سعودی ارامکو، امریکہ میں LNG، تیل صاف کرنے کے کارخانے اور تیل و گیس کے دوسرے وسائل کے حصول و ترقی پر 200 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگی۔

سعودی عرب میں قیام کے دوران صدر ٹرمپ نے خلیج تعاونی کونسل GCCکے سربراہی اجلاس میں  شرکت کے علاوہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ہمراہ شام کے صدر احمد الشرح سے خصوصی ملاقات کی جس میں  ترکیہ کے صدر طیب رجب ایردوان فون پر موجود تھے۔ بات چیت کے درران صدر ٹرمپ نے شامی صدر کی بصیرت، ذہانت اور حوصلے کی تعریف کرتے ہوئے انھیں شام سے فلسطینیی مزاحمت کاروں کونکالنے اور داعش کو کچلنے کی تلقین کی، ساتھ ہی شام کو دعوت دی گئی کہ وہ معاہدہ ابراہیمؑ کا حصہ بن جائے۔ اس موقع پر انھوں نے شام پر سے تمام پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا۔ اسی کیساتھ قطر اور سعودی عرب نے شام پر واجب الادا عالمی بینک کا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرضہ اداکردیا۔

سعودی عرب سے امریکی صدر قطر پہنچے اور ائرپورٹ سے شاہی محل تک بلند وبالا، عالیشان و خوبصورت عمارات اور انکے حسنِ تعمیر سے جناب ٹرمپ بہت متاثر ہوئے۔ مہمان کے استقبال میں مقامی روایات کا بھی خیال رکھاگیا کہ صدارتی قافلے کی راستے میں اونٹوں کی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شاہی محل پہنچنے پر صدر ٹرمپ تلواروں کی رقص سے لطف اندوز ہوئے۔ اس موقع پر قطر نے امریکہ کے طیارہ ساز ادارے بوئنگ سے 160 طیارے خریدنے کا اعلان کیا جسکی مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔ اس دوران باہمی سرمایہ کاری کے جو وعدے وعید ہوئے اسکا مجموعی حجم ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔مہرومحبت کے ان گرم جوش اشاروں کے باوجود صدر ٹرمپ نے صاف صاف کہدیاکہ ماضی میں قطر دہشت گردوں کی بھاری مالی اعانت کرتا رہا ہے۔ امریکیوں کے خیال میں قطر کا الجزیرہ ٹیلی ویژن، دہشت گردوں کا ترجمان ہے اور اشاروں کنایوں میں امریکی قائدین کئی بار اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

قطر کی جانب سے قیمتی تحفے کی بازگشت اب امریکی کانگریس میں سنائی دے رہی ہے۔ امیر قطر ، صدر ٹرمپ کو ایک 747جمبو جیٹ تحفے میں دینا چاہتے ہیں۔ چالیس کروڑ ڈالر کا پُرتعیش سہولیات سے مزین یہ جہاز عملاً ایک اڑتا ہوا محل ہے جسے جناب ٹرمپ، صدارتی طیارے یا Air Force oneکے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں اس غیر معمولی قیمت کے حامل تحفے پر ماہرین اخلاقیات اور علمائے قانون رائے زنی فرمارہے ہیں وہیں کچھ تیکنیکی معاملات پر بھی بحث ہورہی ہے۔امریکی ماہرین کو ڈر ہے کہ قطریوں نے جہاز پر جاسوسی کے انتہائی حساس آلات نصب کردئے ہی، چنانچہ خفیہ کیمروں اور ریکارڈرز کی تلاش میں سارے جہاز کو ادھیڑنا پڑیگا۔اسکے علاوہ جہاز پر خصوصی ریڈار اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں کی تنصیب پر بھی خطیر رقم خرچ ہوگی یعنی 40 کروڑ کے جہاز پر 75 کروڑ ڈالر اضافی خرچ کرنے ہونگے۔ تادم تحریر صدر ٹرمپ نے تحفہ قبول نہیں کیا اور 18 مئی کو قائد حزب اختلاف چک شومر نے Presidential Airlift Security Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون سینیٹ میں پیش کردیا۔ بل کے مطابق غیر ملکی ملکیت میں رہنے والا کوئی طیارہ ائرفورس ون نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر قانون منظور ہوگیا تو یہ قطر کیلئے شرمندگی کا سبب بنے گا کہ اسکا 40 کروڑ ڈالر کا قیمتی تحفہ امریکہ نے مسترد کردیا۔

صدر ٹرمپ کا آخری پڑاو متحدہ عرب امارات تھا جہاں ایک نئے انداز میں انکا استقبال کیا گیا۔قدیم زمانے میں  دیدہ و دل فرش راہ کے عملی مظاہے کیلئے کنیزیں اپنے بال زمین پر بچھا دیتی تھیں اور مہمان اس پر چلتا ہوا محل پہنچتاتھا۔ ابوظہبی پہنچنے پرنازنینوں نے بال تو فرشِ راہ نہیں کئے لیکن محل کی رہداری میں میں لڑکیاں دونوں طرف اپنی سیاہ زلفیں لہرارہی تھیں۔متحدہ عرب امارات نے مصنوعی ذہانت یا AI کیلئے جدید پرتیں (Chips)بنانے والے اداروں اور امریکہ میں توانائی اور صنعتی منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔اسکے علاوہ اماراتی اسٹیٹ بینک، ٹرمپ کارپوریشن کے Crypto Currency کاروبار میں 2 ارب ڈالر لگائے گا۔ ٹرمپ کارپویشن جدہ اور دوحہ میں ٹرمپ ٹاور تعمیر کررہی ہے۔شامی صدر نے دمشق میں ٹرمپ ٹاور کیلئے سرکاری زمین پرکشش شرائط پر فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ یعنی اس دورے میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کے ساتھ اپنے ذاتی کاروبار کیلئے بھی سرمایہ اکھٹا کیا۔

صدر ٹرمپ کے دورہ امارات میں 'مذہبی رنگ' نمایاں تھا۔انھوں نے ابوظہبی کی جامع مسجد شیخ زاید کی زیارت کی اور دوسرے دن وہ یہودی معبد (Synagogue) گئے۔ صدر ٹرمپ نے معبد کو ابراہیمی مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کا استعارہ قراردیا۔ زائرین کی کتاب میں صدر ترمپ نے لکھا کہ 'یہ معبد انسانیت کیلئے امید کی کرن ہے یعنی علاقے کے انسانوں نے تصادم پر تعاون، دشمنی پر دوستی، غربت پر خوشحالی اور مایوسی پر امید کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرلیا ہے'۔ بلاشبہ الفاظ بہت شاندار ہیں لیکن بقائے باہمی کا یہ بھاشن اس شخصیت کی طرف سے دیا گیا جسکی فراہم کی ہوئی گولیوں ، گولوں، ڈرون و بم اور توپ خانے نے غزہ کو قبرستان بنادیااور اس پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ایک دن پہلے انھوں نے بہت رعونت سے کہاکہ غزہ رہنے کے قابل نہیں، شہری وہاں سے نکل جائیں۔ امریکہ اس پر قبضہ کرکے غزہ کو کوچہ آزادی میں تبدیل کردیگا۔ کاش کوئی انکو بتاتا کہ آزادی کی ضرورت انسان کو ہے، قبرستان کو نہیں۔ انکی یہ تحریر اس لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہے کہ غزہ کو کوچہ آزادی بنانے کے خواہشمند صدر ٹرمپ نے اپنے ملک کو غریب ہسپانویوں کیلئے قید خانہ بنادیا ہے۔

اگر صدر کے اس دورے کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس سے لگتا ہے کہ خلیجی رہنما نے آوبھگت میں حد سے تجاوز تو کیا لیکن صدر ٹرمپ سے روابط بڑھانے کا یہی سب سے موثر طریقہ ہے۔ صدر ٹرمپ تعریف کے خوگر اناپرست انسان ہیں۔ اپنی ٹقریروں میں انھوں نے ہر جگہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن پر سخت تنقید کی اور امریکہ بلکہ عالم تمام کی ہر خرابی کا ذمہ دار Sleepy Joeکو ٹہرایا۔ سرمایہ کاری اور تجارت کے باب میں خلیجیوں نے صدر ٹرمپ کی جھولی بھردی اور موصوف Billion and Billions  کے نعرے لگاتے واپس چلے گئے۔عرب رہنماوں کو معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ کو بڑے اعدادوشمار پسند ہیں چنانچہ انھوں نے منہہ مانگا وعدہ کرلیا۔مثال کے طور پر قطر نے  بوئنگ سے جو 160 طیارے خریدنے کا وعدہ کیا ہے، ان میں 130 کے پرچیز آرڈر کئی سال پہلے جاری ہوچکے ہیں اور اب مزید 30 جہاز اگلے 15 سالوں میں خریدے جائینگے یعنی پرانی بوتل میں نئی شراب انڈیل کر قطریوں نے صدر ٹرمپ کیلئے خوشی کا سامان کردیا۔ سعودی عرب، امریکہ سے جو اسلحہ خردینا چاہتا ہے ان کیلئے کانگریس کی توثیق درکار ہے اور اسرائیل نے ابھی سے ان پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ اسلحے کی خریداری کیلئے جس MOUپر دستخط ہوئے ہیں اس میں سعودی جوہری پروگرام میں تعاون بھی شامل ہے۔ متن میں بہت صراحت کیساتھ Civil Nuclear Capabilitiesلکھا گیا ہے تاکہ کوئی ابہام نہ ہو۔ لیکن اس بےضرر پروگرام پر بھی اسرائیل کو تشویش ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف یائر لیپڈ نے کہا کہ سعودی عرب کو شہری جوہری صلاحیتوں کی ترقی کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی ہوگی اور اس سے مشرق وسطیٰ میں جوہری دوڑ کانیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اصل کامیابی خلیجی ممالک کی جانب سے ٹرمپ کارپوریشن کی پزیرائی ہے، خیال ہے کہ خلیجی ریاستیں ٹرمپ کارپویشن میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگی۔

 ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اپریل 2025

ہفت روزہ  دعوت دہلی 23 اپریل 2025