Thursday, November 27, 2025

 

معاہدۂ ابراہیمؑ کی تدفین — ضامنوں کی بے حسی اور  فلسطینیوں کی استقامت

عالمی سفارت کاری کی ساری خاموشی اور پردہ پوشی ایک جھٹکے میں اس وقت بے نقاب ہوگئی جب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے دوٹوک و غیر مبہم لہجے میں اعلان کردیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کریں گے۔ چاہے اس کے نتیجے میں سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ تعلقاتِ معمول کی امید ہی کیوں نہ دم توڑ جائے۔ ان کے نزدیک فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ یہ اعلان بھی اسی روز سامنے آیا جب مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کی جانب سے پیش کیا جانے والا مبیّنہ “Ultimate Solution” بہت جوش و خروش سے پیش کیا جارہا تھا۔اب ٹرمپ کا "حل" فرسودہ اور سعودی اسرائیل تعلقات کا خواب بکھرچکا ہے۔تل ابیب کی جانب سے دوریاستی حل مسترد کردئے جانے کے بعد فلسطینیوں کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ تنازعے کا تصفیہ 1948 کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔

یورپی ممالک کی خاموشی

نیتن یاہو کے اس اعلان پر وہ یورپی ممالک جنھوں نے بڑے طمطراق سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا وہ بالکل خاموش ہیں۔ یہ خاموشی ضامنوں اور عالمی برادری کی غیر سنجیدگی کو بے نقاب کرتی ہے۔

پاکستان کا مبہم سفارتی رویّہ

غزہ کیلئے عبوری انتظامیہ اور انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) کی راہ ہموار کرنے والی امریکی قرارداد کی منظوری کے وقت اجلاس کی صدارت پاکستانی مستقل مندوب عاصم افتخار احمد کررہےتھے۔جنھوں نے تحریک کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے امریکہ کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی سانس میں یہ بھی فرمایا کہ وہ حتمی متن سے “مکمل طور پر مطمئن نہیں” اور پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی بعض اہم تجاویز شامل نہیں کی گئیں۔یہ طرزِ عمل نیانہیں۔ ٹرمپ منصوبے پر کئی مسلم ممالک کے ساتھ توثیقی دستخط کے بعد پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ اسلام آباد کو معاہدے کے بعض حصوں پر تحفظات ہیں۔

سلامتی کونسل میں صدارت کی ذمہ داری کے باوجود اسی طرح کا غیر فیصلہ کن ردِعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سفارت کاری ابہام کا شکار ہے۔ ایسے اہم مواقع پر مبہم پالیسی نہ صرف پاکستان کی مؤثر نمائندگی کو کمزور کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر اسلام آباد کی  سنجیدگی پر بھی سوال اٹھاتی ہے۔

غزہ پر تازہ درندگی — جنگ بندی روند دی گئی

پورا ہفتہ غزہ اور لبنان پر طیارے و ڈرون بم، ٹینک  زمین اور اسرائیلی جہاز بحرِ روم سے گولے برساتے رہے۔ مکان پہلے ہی مسمار ہوچکے ہیں اب اس درندگی کا نشانہ خیمے ہیں۔ ہفتے (22 نومبر) کے روز معصوم بچوں سمیت 64 افراد اپنی جانوں سے سے گئے اور جھلسے ہوئے  کئی سو افراد زخمی ہیں۔واضح رہے کہ سبت (ہفتہ) میں چھری سےسبزی کاٹنا بھی سخت گناہ ہے۔دس اکتوبرکو جنگ بندی کے بعد سے گزشتہ 44 دنوں میں اسرائیل نے فائربندی کی 497 خلاف ورزیاں کیں جن میں342 نہتے شہری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

حزب اللہ کے رہنما جاں بحق

پہلے جنوبی لبنان اسرائیلی حملوں کا ہدف تھالیکن اس ہفتے بیروت شہر کا نشانہ بنایا گیا، 23 نومبر کو جنوبی بیروت کے علاقے حارۃ حریک پر زبردست بمباری سے کئی بلندوبالا عمارتیں مسمارہوگئیں۔حملے میں  حرب اللہ کے عسکری سربراہ ہیثم علی طباطبائی المعروف ابوعلی سمیت 28 افراد جاں بحق ہوگئے۔

زمینی پیشقدمی

امن معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج پیلی لائن تک ہٹالی گئی تھیں لیکن 20 نومبر کو شمال میں اسرائیل فوج نے اس لکیر سے 300 میٹر آگے بڑھ کر پوزیشن سنبھال لی اور یہ کمزور امن سمجھوتہ عملاً کالعدم ہوگیا۔ دوسری طرف مزاحمت کاروں نے بھی خبردار کردیا ہے کہ “جنگ بندی” سے مزید مذاق برداشت نہیں کیا جائے گا۔

بچوں کی لاشیں… عالمی یومِ اطفال کا تلخ تحفہ

نام نہاد امن معاہدے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 67 بچے جان سے جاچکے ہیں۔ اسکی تصدیق کرتے ہوئے اقوام متحدہ چلڈرن فنڈ یا UNICEFکے ترجمان Ricardo Piresنے کہا۔یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ہربچہ خواب و امنگ سے مالا مال گھرانے کا فرد تھا جسکی زندگی عرصے سے جاری وحشیانہ تشدد نے یکایک چھین لی۔ جمعرات 20 نومبر،  عالمی یومِ اطفال تھاجس دن  غزہ کے بچوں کو اسرائیل، اس کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی طرف سے سات جنازوں کا تحفہ ملا۔ننھے جنازے باپ کے کندھوں پر بڑے بھاری ہوتے ہیں،  اوراہل غزہ کے کندھے اپنے مہہ رخوں اور مہہ پاروں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے ٹوٹ چکے ہیں۔

بارش، سردی اور خیموں کا شہر — اذیت میں اضافہ

موسم سرما کی پہلی بارش نے  اہل غزہ کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے۔ خیمے ٹپکنے سے بچے کھچے گرم کپڑے اور دوسرا سامان گیلا ہوگیا اور معصوم بچے شدید سردی میں ٹھٹھررہے ہیں۔ بارش نے خیمہ بستیوں کی بے بسی اور بڑھا دی ہے

اسرائیلی جیلوں میں تشدد سے درجنوں فلسطینی جاں بحق

اسرائیلی ڈاکٹروں کی تنظیم Physicians for Human Rights-Israel کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق غزہ خونریزی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی جیلوں میں 98 قیدی 'پراسرار موت' کاشکار ہوئے ہیں۔ جنکے جسموں پر تشدد اور بھوک کی علامات ہیں۔ سرکش قیدیوں کا کھانا پینا بند کرکے انکی المناک موت کو دوسرے قیدیوں کی عبرت کیلئے استعمال کیا جاریا ہے

قطر کی مذمت — ثالثی کے ٹوٹتے ہوئے دھاگے

تازہ اسرائیلی حملوں کے بعد قطر وہ واحد ضامن ملک ہے جس نے کھل کر اسرائیل کی “سفاک کارروائیوں” کی مذمت کی ہے۔ قطری وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ صریح اشتعال انگیزی جنگ بندی سبوتاز کر سکتی ہے۔ بیان میں ریاست اسرائیل کے بجائے Israeli Occupationکا لفظ استعمال کیا گیا۔ جس سے تاثر قائم ہواکہ قطر بھی دوریاست کے بجائے نہر یا بحر فلسطین کا حامی ہے۔

غرب اردن — قبضہ، چاکنگ، توڑ پھوڑ، نسل کشی

گزشتہ سات دن مغربی کنارے پر بھی آگ اور خون کا ہفتہ ثابت ہوئے۔ نابلوس، بیت فوریک، حوارہ، الخلیل اور سوسہ پر حملے گئے گئے۔ ایک 80 سالہ بزرگ کو نماز کیلئے جاتے ہوئے انکے گدھے سمیت زخمی کر دیا گیا۔ گھروں، گاڑیوں، باغات کو آگ لگا دی گئی۔ بدنام زمانہ قوم پرست گروہ Tag Mehir دیواروں پر 'قیمت چکاؤ' جیسے نعرے  لکھ کر دہشت دہشت پھیلاتا رہا۔

جانوروں کی نسل کشی

المُغَیَّر میں فلسطینی کسانوں کی بھیڑوں کو زہر دے دیا گیا۔ جب ظلم بے قابو ہو جائے تو فصلوں، گھروں اور عبادت گاہوں کے بعد جانور بھی محفوظ نہیں رہتے۔

آثارِ قدیمہ کے نام پر بیدخلی کا نیا حربہ

اسرائیلی وزارت دفاع کے ماتحت ادارے Coordinator for Government Affairs in the Territories (COGAT)نے اعلان کیا ہے کہ اس نے غربِ اردن میں نابلوس کے علاقے سبسطیہ کی 1,800 دونم (تقریباً 445 ایکڑ) اراضی کو ’’ایک قدیم آثارِ قدیمہ کے مقام کے تحفظ اور ترقی‘‘ کے نام پر ضبط کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔زمین پر قبضے کا تازہ فیصلہ محض ’’آثارِ قدیمہ کی حفاظت‘‘ کا منصوبہ نہیں، بلکہ فلسطینی آبادی کو ان کی اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کی ایک نئی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے۔

دنیا کا بدلتا رویّہ — سنگاپور کی پابندیاں

سنگاپور نے فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد اقدامات  پر چار اسرائیلیوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔وزارتِ خارجہ نے ان چاروں پر مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اقدامات انجام دینے اور دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔ان افراد پر اس سے پہلے یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت کئی ممالک پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔اس سے پہلے سنگاپور کے وزیرِ خارجہ ویوین بالا کرشنن نے پارلیمان میں کہا تھا کہ سنگاپور مناسب وقت پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے اُن اسرائیلی سیاستدانوں پر بھی تنقید کی جو مغربی کنارے اور غزہ کے حصوں کو ضم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سنگاپور کا فیصلہ اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف آبادکار تشدد اب محض ایک “داخلی معاملہ” نہیں رہا، بلکہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جو اسرائیل کے روایتی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، اب اس پالیسی پر خاموشی ترک کررہے ہیں۔

امریکی سفارت کاری اور اسرائیلی بیانیہ

دوسری طرف اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائیک ہکابی اسرائیلی طاقت کو مذہبی تفسیر کے ذریعے درست ثابت کرنے میں مصروف  اور ہر انسانی المیے کو "خدا کی منشا" قرار دیتے ہیں۔انھوں نے حالیہ حملوں کو "دہشت گردی" کہا لیکن اسے چند نوجوانوں کی شرارت قرار دے کر اصل حقیقت کو کم کر دیا۔ ان کا غرب اردن کو "جودیا و سامریہ" کہنا اسرائیل کے سیاسی بیانیے کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

اہلِ غزہ کا آہنی عزم — ملبے پر فٹبال ٹورنامنٹ

درندگی سے ایک لاکھ کے قریب لوگ شہید، ہزاروں معذور، مسلسل بمباری، اشیائے ضرورت و کھانے کی قلت، پانی نایاب لیکن  نئی زندگی کا عزم سلامت ہے۔دیر بلاح میں معذور نوجوانوں کے درمیان فٹبال میچ ہوا۔
مقابلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جسمانی نقصان کے باوجود جوانانِ غزہ مستقبل سے مایوسی نہیں۔

ایک بچی — امید کی علامت

نو سالہ  الہام ابوحجاج اوراسکے  چھوٹے بھائی کے سوا سارا خاندان اسرائیلی بمباری کا شکار ہوگیا۔ خود الہام کا سارا جسم جل گیا تھا لیکن اللہ نے اسے سلامت رکھا اور زخم بھرگئے۔ الجزیرہ سے باتیں کرتے ہوئے الہام نے کہا ہر حال میں اللہ کا شکر، جو ہوجائے، میں غزہ چھوڑ کر کہیں نہیں جاونگی۔رب ساتھ ہے تو غم کیسا؟وہ اپنے بھائی کے ساتھ انہی پتھروں پر اپنا گھر دوبارہ بنا رہی ہے۔

نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی، یورپ کی خاموشی، ضامنوں کی بے حسی، سفارتی ابہام اور اسرائیلی درندگی دیکھ کر مایوسی چھانے لگتی ہے لیکن اہلِ غزہ کے کھیلوں میں جھلکتا عزم، معذور نوجوانوں کی مسکراہٹ، اور الہام جیسی بچیوں کو گھر تعمیر کرتے دیکھ کر یقین آجاتا یے کہ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فلسطینی عوام شکست قبول نہیں کریں گے۔ ظلم کے سائے گہرے ہیں، مگر امید کا چراغ بجھنے والا نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 نومبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 نومبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 نومبر 2025


Thursday, November 13, 2025

 

غزہ ! رونگٹے کھڑے دینے والے انکشافات

وحشت کے آغاز ہی سے غزہ کے بارے میں چونکا دینے والی خبریں سامنے آرہی رہی ہیں، مگر برطانوی چینل ITV پر نشر ہونے والی نئی دستاویزی فلم Breaking Ranks: Inside Israel’s War” اس سلسلے میں ایک نئی اور ہولناک جہت کا اضافہ کرتی ہے۔اس فلم میں موجودہ اور سابق اسرائیلی اہلکار پہلی بار کھلے انداز میں کیمرے کے سامنے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک گھنٹے کی اس فلم میں پہلے سے رپورٹ شدہ باتوں کے علاوہ کچھ ایسے مخصوص واقعات بھی پیش کیے گئے ہیں جو اس سے قبل منظرِ عام پر نہیں آئے تھے۔

یہ فلم ایرانی نژاد معروف فلم ساز بنجامن زینڈ (Ben Zand) نے ترتیب دی ہے، جو مشکل اور حساس موضوعات پر تحقیقی دستاویزی فلموں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ متعدد فوجیوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی، لیکن ان کے بیانات مل کر ایک ایسی عسکری مہم کی تصویر کھینچتے ہیں جسے کئی اہلکاروں نے ’’بے مہار‘‘ اور ’’اخلاقی طور پر گمراہ کن‘‘ قرار دیا۔

انکار کی دیوار میں پڑتی دراڑیں

فلم میں شامل کئی فوجیوں نے اعتراف کیا کہ غزہ میں کارروائی کے دوران عسکری ضوابط اتنے ڈھیلے کردئےگئے تھے کہ عام شہریوں کی زندگی یا موت ایک لمحاتی غلط فہمی پر منحصر رہ گئی۔ایک افسر کے مطابق، اُن کے سامنے ایسے واقعات ہوئے  کہ  چھت پر کپڑے سکھاتے لوگوں کو  مشتبہ قرار دے کر اُن پر فائر کھول دیا گیا۔

مچھر پروٹوکول،  انسانی ڈھال کے ذریعے سرنگوں کا نقشہ

فلم کا سب سے خوفناک انکشاف وہ طریقہ ہے جسے “Mosquito Protocol” کانام دیا گیا۔ٹینک کمانڈر ڈینیل (Daniel) نے بتایا کہ گرفتار فلسطینی شہریوں کی جیکٹ میں اسمارٹ فون نصب کرکے انھیں زیرِ زمین سرنگوں میں بھیجا جاتاتاکہ GPSکے ذریعے راستوں کا نقشہ اور خطرات سے آگہی حاصل کی جاسکے۔۔ڈینیل کے مطابق اسکے یونٹ نے سب سے پہلے یہ طریقہ آزمایا، اور ایک ہفتے کے اندر تقریباً ہر کمپنی اپنا ’مچھر‘ استعمال کر رہی تھی۔اکتوبر 2024 کی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بھی اس بات کا ذکر تھا کہ کاوائیوں کے دوران ڈرونزاور کتوں کے ساتھ گرفتار افراد کو بھی خطرناک مقامات پر استعمال کیا جاتا تھا۔

توہین آمیز شناخت

اس مقصد کیلئےاسرائیلی جیل سے لائے گئے  قیدیوں کو ’ بھِڑ یا واسپس‘‘ (Wasps) اور غزہ سے مقامی طور پکڑے گئے افراد کو ’’مچھر‘‘ (Mosquitoes) کہا جاتا تھا۔

کارروائیوں پر مذہبی رہنماؤں کا دباؤ

میجر نیٹا کیس پین (Neeta Caspin)نے ایک واقعہ بیان کیا جس میں بریگیڈ کے مذہبی رہنما ربی ابراہام زاربِو (Rabbi Avraham Zarbiv)نے انہیں کہا کہ  ہمیں بھی 7 اکتوبر جیسا جواب دینا چاہیے, چاہے سامنے شہری ہی کیوں نہ ہوں۔ کوئی امتیاز نہیں کرنا چاہیے۔ یہی واحد راستہ ہے۔ فلم میں رابائی زاربِو خود بولتے دکھائی دیتے ہیں کہ غزہ میں سب کچھ ایک بڑے عسکری ڈھانچے کا حصہ ہے۔ ہم اس جگہ کو تباہ کرنے پر لاکھوں شیکل (اسرائیلی کرنسی) خرچ کر رہے ہیں۔

زاربِو اس سے پہلے  بھ اسرائیلی میڈیا میں بھی اپنے خیالات ظاہر کر چکے ہیں۔ انھوں نے  مئی میں کہا تھا کہ غزہ کو ’’زمین بوس‘‘ کرنا ہی واحد حل ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بصری تراشہ وائرل ہوا جس میں ربائی صاحب  خان یونس میں ایک عمارت کو بُل ڈوزر سے گراتے دکھائے گے۔ پس منظر میں ایک سپاہی کی آواز آتی ہے:
“Rabbi Zarbiv is ‘Zarbiving’ a house in  Gaza.”

جب جوابدہی ختم ہوجائے تو جنگ میں کیا ہوتا ہے؟

فلمساز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ گواہیاں نہ صرف ان اقدامات اور فیصلوں پر روشنی ڈالتی ہیں جو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھے گئے بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے جب جوابدہی ختم ہوجائے تو جنگ میں کیا ہوتا ہے۔'

غزہ جنگ پر دنیا کی بحث اب کسی ایک ملک کے بیانیے تک محدود نہیں رہی۔جب خود کارروائی میں شامل اہلکار یہ کہیں کہ قوانین جنگ معطل کردئے گئے تھے  تو کیا یہ سب محض ’’غلطیاں‘‘ تھیں، یا نظم کے نام پر بے نظم طاقت کی ایک منظم حکمتِ عملی؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 نومبر 2025


 

امریکی انتخابات: نئے رجحانات اور پرانے تضادات

امریکہ کا انتخابی نظام بظاہر سیدھا مگر درحقیقت نہایت پیچیدہ ہے۔ وفاق اور ریاستوں کے اختیارات، آئینی توازن اور ادارہ جاتی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے مدتِ اقتدار اس طرح تقسیم کی گئی ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت یا فرد پورے نظام پر مکمل غلبہ حاصل نہ کر سکے۔ اسی مقصد کے تحت صدر کی مدت چار سال، ایوانِ نمائندگان کی دو سال اور سینیٹ کی مدت چھ سال رکھی گئی ہے۔ سینیٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اور ہر دو سال بعد اس کے ایک تہائی اراکین کی مدت پوری ہو جاتی ہے۔

یوں ہر جفت (even)سال کانگریس اور سینیٹ کے اہم انتخابات منعقد ہوتے ہیں، جبکہ طاق (odd)سال عموماً مقامی اور ضمنی انتخابات تک محدود رہتے ہیں جن میں عام طور پر دلچسپی کم ہوتی ہے۔لیکن اس بار صورتحال مختلف تھی۔

سیاسی تناؤ نے ضمنی انتخابات کو قومی ریفرنڈم بنا دیا

ملکی سیاست میں غیر معمولی کھچاؤ، حکومتی شٹ ڈاؤن کے مضمرات اور معیشت پر بڑھتی ہوئی بے اعتمادی نے اس مرتبہ کے انتخابات کو محض “مقامی” نہیں رہنے دیا۔ مبصرین کے مطابق یہ پورا انتخابی مرحلہ صدر ٹرمپ کی موجودہ مقبولیت پر ایک خاموش ریفرنڈم بن گیا تھا۔

ٹیکساس اور کیلیفورنیا: حلقہ بندیوں کا معرکہ

ٹیکساس میں ریپبلکن قیادت کی جانب سے مرضی کی حلقہ بندی المعروف Gerrymandering نے قومی سطح پر ایک شدید بحث کو جنم دیا۔ جواباً کیلیفورنیا میں ڈیموکریٹس نے اسی موضوع پر عوامی اجازت حاصل کرنے کے لیے ریفرنڈم کرایا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ انتخابی حلقہ بندیاں اب صرف تکنیکی معاملہ نہیں رہیں بلکہ سیاسی طاقت کا بنیادی وسیلہ بن چکی ہیں۔ ہندو پاک میں اس قسم کے ہتھکنڈے قبل از اتتخاب یا پری پول دھاندلی کہلاتے ہیں لیکن امریکہ میں اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔

ورجینیا: حوّا کی بیٹیوں کا راج

ریاست ورجینیا کے نتائج تاریخی ثابت ہوئے جہاں پہلی بار گورنر اور نائب گورنر دونوں خواتین منتخب ہوئیں۔ ریپبلکن امیدوار Winsome Earle-Sears کو ڈیموکریٹک پارٹی کی  Abigail Spanberger نے 57.25 فیصد ووٹ لے کر شکست دے دی۔صدر ٹرمپ نے نسلی بنیاد پر ریپبلکن امیدوار کی حمایت سے احتراز کیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی سیاست میں نسل اور جنس اب بھی فیصلہ کن کردار رکھتے ہیں۔

ورجنیا کی نومنتخب نائب گورنر محترمہ غزالہ ہاشمی حیدرآباد(ہندوستان) میں پیداہوئیں اور چار سال کی عمر میں امریکہ آئی تھیں۔یہاں گورنر و نائب گورنر اور اٹارنی جنرل کے علاوہ  100 رکنی ریاستی اسمبلی (House of delegates)کی 66 نشستیں بھی ڈیموکریٹک پارٹی نے جیت لیں۔غزالہ ہاشمی کے شوہر کا تعلق کراچی سے ہے اسلئے  انھیں ہندوستان کی بیٹی اور پاکستان کی بہو کہا جاسکتا ہے۔

نیوجرسی

نیوجرسی میں بھی ایک خاتون گورنر منتخب ہوئیں۔ ڈیموکریٹک امیدوار Mikie Sherrill نے 56.5 فیصد ووٹ لے کر ریپبلکن پارٹی کے Jack Ciattarelli کو شکست دیدی جو چار سال پہلے بھی ڈیموکریٹس کے ہاتھوں ہار چکے ہیں۔یہاں ڈیموکریٹس کی قوت میں اس بار اضافہ ہوا ہے۔ چار سال قبل ہونے والے  انتخابات میں انہیں 51 فیصد ووٹ ملے تھے، جو اب بڑھ کر ساڑھے چھپن فیصد تک پہنچ گئے ۔

نیویارک: زہران ممدانی کے حلقے میں سیاسی انجینئرنگ

نیویارک میں میئر کے انتخاب میں ایک غیر معمولی سیاسی صف بندی دیکھنے میں آئی۔زہران ممدانی کے مقابل اتحاد بنانے کے لیے نہ صرف سابق میئر کو دستبردار کرایا گیا بلکہ آخری لمحے تک ریپبلکن امیدوار کو بھی ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ یہ طرزِ عمل بتاتا ہے کہ بعض مقامی امیدوار اب محض مقامی شخصیات نہیں رہے، بلکہ یہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے چیلنج سمجھے جاتے ہیں۔

ابھرتے ہوئے رجحان

ان انتخابات سے یہ نمایاں رجحانات سامنے آتے ہیں:

  • ووٹر اب مقامی انتخابات کو بھی قومی سیاست کے تناظر میں دیکھنے لگے ہیں۔
  • سیاسی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور ٹرمپ کا بیانیہ اب بھی مضبوط سماجی قوت رکھتا ہے۔
  • حلقہ بندیاں مستقبل کی سب سے بڑی آئینی و سیاسی کشمکش بننے والی ہیں۔
  • شناخت، نسل اور جنس کی سیاست بدستور مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
  • ریاستی سطح پر ڈیموکریٹس کی گرفت مضبوط ہوئی مگر ریپبلکن مؤقف کمزور نہیں ہوا۔

وسط مدتی انتخابات

اس ہفتے ہونے والے  چناو میں نوجوانوں کی غیر معمولی دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2026 کے وسط مدتی انتخابات میں گھمسان کا رن پڑنا ہے۔ایوانِ نمائندگان کی نئی حلقہ بندیاں، Deportation & Tariff پر صدر ٹرمپ کا زور، تجارتی ومعاشی حکمت عملی، لاطینی ممالک سے کشیدگی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور اور بیرحم سرمایہ دارانہ نظام کی طرف جارحانہ پیشقدمی کی بناپر امریکہ کا سیاسی موسم تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ یہ تبدیلی کس رخ جائے گی، اسکے بارے اسوقت رائے زنی مناسب نہیں کیونکہ اگلے دو سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہنا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 نومبر 2025


 

غزہ، غربِ اردن اور دُنیا کا زنگ آلود  ضمیر

امن معاہدے پر مبارک سلامت کا شور اور غزہ و غربِ اردن پر برستا ظلم کا کوڑا تھمتا نظر نہیں آتا۔خان یونس کے خیموں میں ننھے بچوں نے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہی کیا ہے کہ اسرائیل اور نسل پرستوں نے نصاب پر اعتراض اٹھا دیا۔ٖغرب اردن میں کسان اپنی عمر بھر کی محنت کو خاک میں ملتے دیکھ رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر مغربی عدالتوں اور اداروں کا دوغلا رویہ یعنی خطرے کا اعتراف لیکن حرکت سے گریزاں۔

غزہ: تباہی کے اندھیروں میں علم کی شمع

غزہ کے خیمہ بستیوں میں اس ہفتے بچوں کی تعلیم کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ صاف ستھری کلاسیں، ترتیب سے بیٹھے ننھے بچے، ایک ایسی قوم کا منظر جسے دنیا نے بارہا مٹانے کی کوشش کی، مگر وہ ہر بار نئے حوصلے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔یہ سہولت اقوامِ متحدہ کے ادارے UNRWA کے تحت فراہم کی جارہی ہے۔ اسرائیلی حکام نے ایک بار پھر الزام عائد کیا ہے کہ UNRWA کے نصاب میں "شدت پسندی" کی تعلیم دی جارہی ہے اور یہ کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی نصاب نافذ کیا جانا چاہیے۔ المیہِ غزہ کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ جبر  فلسطینی بچوں کے ہاتھ سے قلم نہ  چھین سکا۔

پیرس واقعہ: سچ اور پروپیگنڈے کی جنگ

پیرس میں اسرائیلی نیشنل آرکسٹرا کے کنسرٹ کے دوران آزاد فلسطین مظاہرےکے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس نے زبردست تشدد کیا۔ یہ کنسرٹ فرانسیسی سرکاری سرپرستی میں ہو رہا تھا، جس پر کم از کم پانچ انسانی حقوق تنظیموں نے اعتراض اٹھایا اور اسے غزہ میں ہونے والی تباہی کی "تشہیر اور بھیانک چہرے پر ثقافت کی نقاب چڑھانے (White Washing) سے تعبیر کیا۔پولیس کی بہیمانہ روئے کی پردہ پوشی کرتے ہو بین لاقوامی ذرایع ابلاغ نے احتجاج کو "شدت پسندی" اور کنسرٹ کو "ثقافتی آزادی" کا منظر بنا دیا۔ لیکن سوشل میڈیا پر بصری تراشے، عینی شاہدین کی گواہیاں اور پولیس تشدد کی تصاویر چند گھنٹوں میں پوری دنیا میں پھیل گئیں۔اب چونکہ مصنوعی ذہانت (AI)کی بدولت زبان کی رکاوٹ بھی ختم ہو چکی ہے لہذا پروپیگنڈہ دم توڑگیا

زیتون  کے تحفظ کا عزم

غرب اردن کی اُمّ شکری دس برس تک اپنے زیتون کے درختوں کو اولاد کی طرح پالتی رہیں، مگر جب وہ اپنی بستی لوٹیں تو ہر شاخ ٹوٹی ہوئی تھی، ہر پتا خشک، اور ہر درخت ایک زخمی وجود کی طرح ان کے سامنے کھڑا تھا۔دو برس سے انہیں اپنی زمین تک رسائی نہیں تھی۔ قبضہ گردبستیوں کے پھیلاؤ، تشدد اور فوجی پابندیوں نے ان کا راستہ روک رکھا تھا۔ اس دوران نہ صرف ان کے گھر کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ ان کے باغات میں مویشی چھوڑ کر درخت بھی برباد کر دیے گئے۔ پچاس برس کی محنت پل بھر میں خاک ہو گئی۔لیکن یہ ضعیف خاتون حوصلہ ہارے والی نہیں۔ اپنے پامال باغ کو دیکھ کر بولیں 'میں اپنے زیتون نہیں چھوڑوں گی، یہ میرا سرمایہ اور میری شناخت ہے،میں یہیں رہونگی اور نئے پودے لگاونگی۔ یہ درحقیقت پوری قوم کا اعلانِ بقا ہے۔

قلم بمقابلہ ڈنڈا: نابلوس میں صحافیوں پر حملہ

جب زیتون کے باغات کی تباہی کا جائزہ لینے صحافیوں کا ایک وفد نابلوس کے قریب بیتا (Beita)پہنچا تو  نقاب پوش قبضہ گردوں نے فوجی سرپرستی میں ان پر حملہ کردیا۔ برطانوی خبر رساان ایجنسی رائٹرز (Reuters)کے  فوٹو جرنلسٹ Raneen Sawafteh ،ایک اسکول پرنسپل اور ہلالِ احمر کے طبی کارکنوں سمیت کئی افراد شدید زخمی ہوئے۔ ان درندں نے سادہ کپڑوں میں ملبوس اسرائیلی ریزرو اہلکار کو بھی پیٹ ڈالا، جو وہاں کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا۔

عالمی اداروں کی بے بسی: ولندیزی (Dutch) عدالت کا فیصلہ

نیدرلینڈز (Netherland)کی نظرِثانی عدالت (Appellate Court)نے انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی وہ درخواست مسترد کر دی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ڈچ حکومت اسرائیل کو اسلحہ اور دوہری استعمال والی اشیا بھیجنا بند کرے۔ججوں نے اعتراف کیا کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کا “سنجیدہ اور حقیقی خطرہ” موجود ہے، لیکن عدالت اس حوالے سے کوئی عمومی پابندی عائد نہیں کرسکتی۔بنچ کیلئے اس بات کا تعین ممکن نہیں کہ ریاست نسل کشی کے خطرے کو روکنے کے لیے کن اقدامات کی پابند ہے۔فیصلے کے مطابق مدعی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ حکومت  حفاظتی جائزے کے بغیر اسلحہ برآمد کرتی ہے چنانچہ عدالت نے ذیلی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے تنظیموں کو مقدمے کے اخراجات بھی ادا کرنے کا حکم دیا۔

عدالت کے اعتراف اور فیصلے کے درمیان ایک واضح تضاد نظر آرہا ہے یعنی خطرہ تسلیم, لیکن اسے روکنے کے لیے کچھ کرنا عدالت کا کام نہیں۔سوال یہ کہ جب عدالتیں خطرے کی تصدیق کر رہی ہیں، تو پھر غزہ کو عملی تحفظ کون فراہم کرے گا؟

ابراہیم معاہدہ: مردہ گھوڑے کو کوڑے

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ قازقستان 6 نومبر سے معاہدۂ ابراہیم ؑکا حصہ بن گیا۔ اخبار کے مطابق قازق حکومت کے ترجمان نے اس شمولیت کو “فطری اور منطقی قدم” قرار دیا ہے۔دلچسپ بات کہ روس سے آزادی کے فوراً بعد ہی قازقستان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے۔ تو پھر اس نئی پیش رفت بلکہ چونچلے کا کیا مقصد ہے؟مردہ بلکہ مدفون معاہدۂ ابراہیم کو دوبارہ ’زندہ‘ کرنے کی کوشش ؟

فلسطین کے حق میں عالمی احتجاج

برمنگھم (Birmingham)میں اسرائیلی فٹبال ٹیم مکابی تل ابیب اور مقامی Aston Villa فٹبال کلب کے مابین میچ کے دوران آزاد فلسطین کے حق میں زبردست مظاہرہ ہوا اور انسانیت کے مجرموں کا ملک میں داخلہ نامنظور کے نعرے لگائے گئے۔ اس دوران سات افراد گرفتار کرلئے گئے۔

دوسری طرف آئر لینڈ کی فٹبال فیڈریشن نے یورپی اور عالمی فٹبال کے مقابلوں سے اسرائیلی ٹیم کو نااہل کرنے کی سفارش کی ہے۔ ہفتہ 8 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس مقصد کیلئے UEFAاور FIFAکو خطوط لکھے جائینگے۔

غزہ میں محدود ماہی گیری کا آغاز

اسرائیلی بحریہ کی جانب سے فائرنگ کے متعدد واقعات کے باوجود فلسطینی ماہی گیروں نے سمندر سے تلاش رزق کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔حوصلہ مند مچھیرے کہتے ہیں 'موت کے ڈر سے اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مارسکتے'  

ملک واپس آؤ—ٹیکس بچاؤ ۔۔۔ اسرائیل کی کھلی پیشکش

اسرائیلی حکومت نے 2026 میں ملک منتقلی کے خواہشمند نئے تارکینِ وطن اور واپس لوٹنے والے شہریوں کے لیے دو برس تک صفر انکم ٹیکس کااعلان کیا ہے۔ اس معاشی رعایت کا سیاسی اور سماجی پس منظر خاصہ گہرا ہے۔ ایک طرف نیویارک میں زہران ممدانی کی کامیابی کے بعد انتہاپسند حلقے مقامی یہودیوں کو یہ مشورہ  دے رہے ہیں کہ “نیویارک تمہارے لئے محفوظ نہیں رہا لہذا اسرائیل منتقل ہو جاؤ”۔ دوسری طرف غزہ جنگ اور ایران کے میزائیل حملوں کی بناپر ہزاروں اسرائیلی، خصوصاً ہائی ٹیک اور مڈل کلاس، ملک چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ایسے ماحول میں صفر ٹیکس جیسی غیر معمولی اسکیم محض معاشی پالیسی نہیں لگتی، بلکہ یہ کمیِ نفوس (Depopulation) کے خطرے کی پیش بندی کیساتھ اندرونی عدم اعتماد، ہجرت اور سیاسی بحران کا اظہار ہے۔

ناروے: اخلاقیات برف خانے میں

ناروے کی حکومت نے اپنے 2.1 ٹریلین ڈالر مالیت کے خودمختار فنڈ (Sovereign Wealth Fund) کے لیے اخلاقی سرمایہ کاری کے اصول عارضی طور پر منجمد کر دیے ہیں، تاکہ وہ اُن بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سرمایہ کاری جاری رکھ سکے جن کے اسرائیلی حکومت سے قریبی تعلقات ہیں۔وزیرِ خزانہ ینس اسٹولٹن برگ (Jens Stoltenberg) نے کہا کہ اگر اخلاقی ضابطے لاگو رہے تو فنڈ کو Amazon، Microsoft اور Google جیسی کمپنیوں سے سرمایہ نکالنا پڑیگا، جس سے "بھاری نقصان" پہنچ سکتا ہے۔ یہ اعلان دنیا کو بتا رہا ہے اگر منافع خطرے میں ہو تو اخلاقیات کی کوئی حیثیت نہیں ۔

غرب اردن میں حملوں کا طوفان

فلسطینی مقتدرہ کے نوآبادیاتی قبضے اور دیوارِ علیحدگی کے خلاف مزاحمتی کمیشن (CRRC) کے مطابق گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے پر 2,350 کارروائیاں کیں۔رام اللہ میں 542، نابلُس میں 412 اور الخلیل (Hebron) پر 410 بار چڑھائی کی گئی۔ ان کارروائیوں میں فائرنگ، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور درجنوں مکانات کی مسماری شامل ہے۔اسی دوران فوج کی سرپرستی میں مسلح قبضہ گردوں نے 716 حملے کیے، جن میں دکانوں، گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی، کھیت اور باغات اجاڑے گئے اور سیکڑوں مویشی لوٹ لیے گئے۔طوباس، مشرقی یروشلم، طولکرم، نابلوس، بیت اللحم، جینین، الخلیل (Hebron) اور رام اللہ سمیت غرب اردن کے تمام شہروں میں چھاپے، سینکڑوں نوجوان گرفتار

استنبول عدالت کا جرات مندانہ حکم

استنبول کے مستغیثِ اعلی (پراسیکیوٹر) نے  37 افراد کے وارنٹِ گرفتاری جاری کیے ہیں، جن میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو، وزیرِ دفاع اسرائیل کٹز، نیشنل سکیورٹی کے وزیر اِیتمار بن گویر، آرمی چیف ایال زمیر اور نیوی کمانڈر ڈیوڈ ساعر سلامہ شامل ہیں۔استغاثہ نے ان لوگوں کو غزہ میں ہونے والی تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔

دنیا کی خشک آنکھیں اور فلسطینیوں کا اٹل عزم

ارضِ فلسطین کا اصل المیہ صرف ظلم اور مظلومیت نہیں بلکہ عالمی ضمیر کا دہائیوں سے برقراراجتماعی جمود ہے۔ دوسری جانب اُمّ شکری کی صدا کہ میں اپنے زیتون نہیں چھوڑوں گی،اس حقیقت کا اعلان ہے کہ زمین سے جڑے لوگ کبھی ہار نہیں مانتے اور جبر،  صبر کو شکست نہیں دے سکتا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 نومبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 نومبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 نومبر 2025