Thursday, June 19, 2025

 

امریکہ نے نیتن  یاہو کی کشتیِ اقتدار ڈوبنے سے بچالی

غزہ میں تقسیم امداد کے کیمپوں پر فائرنگ اور بمباری

ابو شہاب مافیا اور مزاحمت کاروں میں تصادم

اسرائیلی فوج کو افرادی قلت کا سامنا،  عرب و دروز دہشت گرد میدان میں اتار دئے گئے

امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے

قافلہ صمود کی آڑ میں اخوانی مصر پر چڑھائی کررہے ہیں۔ جنرل السیسی کا واویلہ

غزہ کی پہلی خاتون ماہی گیر کا ذکر اور گرٹیا تھورنبرگ کا امریکی صدر سے مکالمہ

امریکہ کی کوششوں بلکہ دباو سے نیتن یاہو اپنی کرسی بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائک ہکابی نے حریدی رہنماوں سے مسلسل گفتگو کرکے انھیں حکومتی اتحاد کا حصہ بنا رہنے پر آمادہ کرلیا۔ اور رائے شماری کے دوران کنیسہ (پارلیمان)تحلیل کرنے کی قرارداد 53 کے مقابلے میں 61 ووٹوں سے مستردکردی گئی۔ مزے کی بات کہ رائے شماری سے ایک دن پہلے حزب اختلاف کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے متحدہ توریتِ یہود  (UTJ) اور پاسبان توریت یا Shasنے قرارداد برائے تحلیلِ پارلیمان کی حمائت کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ بہادر نیتن یاہو کی حکومت تو بچا گئے لیکن وعدہ خلافی کی وجہ سے حریدی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔اتحاد سے وابستہ جماعت، اسرائیل یونین (Agudath Yisrael)کے سربراہ اور وزیرہاوسنگ اسحاق گولڈنوف کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ تحریک کی ناکامی کے دوسرے ہی دن اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔ اسرائیلی علمائے سیاست کا خیال ہے کہ اگر پارلیمان تحلیل ہوجاتی تب بھی نگران وزیراعظم تو نیتن یاہو ہی رہتے لیکن سیاسی اعتبار سے سے لاچار وزیراعظم خونریزی کا نیا کھیل شروع نہ کرسکتے تھے۔

غزہ میں امدادی سامان کے کیمپوں پر موت کی تقسیم کا مکروہ عمل جاری رہا اور قطار بنائے لوگوں پر فائرنگ سے سینکڑوں نوجوان اپنی جانوں سے گئے۔ ہفتہ 14 جون کو خان یونس سے امداد لیکر جانیوالے لوگوں پر بمباری بھی کی گئی جس سے 40 افراد جاں بحق اور سینکڑون زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے اس وحشیانہ قدم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ جس راستے سے واپس جارہے تھے وہ پہلے سے اعلان شدہ جنگی علاقہ ہے۔ بمباری سے غزہ کے تمام ہسپتال زمیں بوس ہوچکے اور اب غیر ملکی غیرسرکاری تنظیموں یا NGOsکے مراکز اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ بارہ جون کو دیرالبلاح میں فرانسیسی  تنظیم Doctors Without Borders پر میزائیل حملہ کیا گیا جس میں چار بچوں سمیت، آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے۔تنطیم کا کہنا ہے کہ اس عمارت پر واضح نشانات موجود تھے اور اسرائیلی فوج کو بھی مطلع کیا جاچکا تھا کہ یہاں صرف زخمی بچے اور انکے لواحقین کو آنے کی اجازت ہے۔

اسرائیل نے جرائم پیشہ ابو شہاب کی قیادت میں غنڈوں کا جو جتھہ بنایا ہے، اسکی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اور مزاحمت کاروں کو گھات لگاکر نشانہ بنانے کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج کےدروز چھاپہ مار ابوشہاب مافیا کیساتھ مل کر مزاحمت کاروں پر حملے کررہے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتدرہ فلسطین (PA)نے بھی اپنے جنگجو اس کام کیلئے غزہ بھیج دئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مزاحمت کاروں کی کاروائی میں ابوشہاب جتھے کہ 12 دہشت گرد مارے گئے۔

غزہ میں خانہ جنگی اور مزاحمت کاروں کی پشت میں چھرا گھونپنے کیلئے دہشت گرد تنظیم منظم کرنے کی ایک بڑی وجہ فوج میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل کو فوری طور پر 7000 نئے لڑاکا سپاہیوں کی ضرورت ہے لیکن انکے بھرتی مراکز پر الو بول رہے ہیں۔ حریدی قیادت نے اپنے 'لڑکوں' کو بھرتی دفاتر کے قریب بھی جانے سے منع کردیا ہے اور غیر حریدی کہہ رہے ہیں اگر مدارس کے طلبہ کو غیر اعلانیہ استثنیٰ ملا ہوا ہے تو ہماری جان بھی فالتو نہیں۔غزہ سے آنے والے بیساکھیوں پر گھسٹتے اور رہنما کتے یا سفید چھڑی لئے راستے ٹٹولتے جوانانِ رعنا کو دیکھ عام لڑکے خوفزدہ ہوگئے ہیں لہٰذا فوج کیلئے کرائے کے دہشت گرد بھرتی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

بحری راستے سے غزہ پہنچنے میں ناکامی کے بعد تیونس سے روانہ ہونے والے قافلہ صمود میں شمولیت کیلئے دنیا بھر سے لوگ قاہرہ کیلئے عازم سفر ہیں لیکن مصری حکومت اسکی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ سرکاری ذرایع ابلاغ قافلہ صمود کو شمالی افریقہ کے اخوانیوں کا مصر پر دھاوا قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ مراکش سے سینکڑوں افراد پرواز کے ذریعے قاہرہ پہنچے جنھیں فوراً واپس مراکش بھیج دیا گیا۔ فرانس، ہالینڈ اور میکسیکو سے بھی انسانی حقوق کے کارکن قاہرہ پہنچے ہیں۔ اب تک انھیں صحرائے سینائی کو غزہ سے ملانے والے ر فح پھاٹک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ قاہرہ کی خواہش ہے کہ یہیں ائرپورٹ کے باہر غزہ سے یکجہتی کا علامتی مظاہرہ کرکے یہ لوگ اپنے ملک واپس چلے جائیں۔

گزشتہ نشست میں ہم نے امریکی مرکزِ دانش Pew Researchکی جانب سے دنیا کے 24 ملکوں کے ایک جائزے کا ذکر کیا تھا جسکے مطابق دنیا میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ اب 12 جون کو شایع ہونے والی امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے بارے میں ایک رپورٹ جو جامعہ کونی پیّاک (Quinnipiac)نے جاری کی ہے۔ 1929 میں قائم ہونے والی ریاست کینٹی کٹ کی یہ نجی دانشگاہ جو پہلے کنیٹی کٹ کالج کہلاتی تھی، رائے عامہ کا جائزہ لینے میں مہارت رکھتی ہے۔ جامعہ کے حالیہ جائزے کے مطابق ریپبلکن پارٹی کے 64 فیصد حامی اسرائیل کے طرفدار ہیں اور سات فیصد فلسطینیوں کے ہمدرد۔ ایک برس پہلے 78 فیصد ریپبلکن، اسرائیل کے حامی تھے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کے 12 فیصد ووٹر اسرائیل اور 60 فیصد فلسطینیوں کے حامی ہیں۔ مئی 2024 میں 30 فیصد ڈیموکریٹس، اسرائیل کے حامی تھے۔

امریکی جامعات کیساتھ عدالتی سطح پر غزہ نسل کشی کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ کئی ماہ سے قید جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل کی درخواست ضمانت ایک بار پھر مسترد کردی گئی۔ وفاقی جج Michael Farbiarzنے محمود کی درخواست ضمانت پر اپنے فیصلے میں لکھا کہ 'خلیل کے وکلا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انکے موکل کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ مسٹر محمود ایمیگریشن جج کی عدالت میں درخواست ضمانت دائر کریں'۔ انھیں جج صاحب نے سماعت کے دوران تبصرہ کیا تھا کہ 'بادی النظر میں محمود خلیل کی گرفتاری نامناسب لگتی ہے'۔ دلچسپ بات کہ محمود خلیل اور دوسرے بہت سے طالب علموں پر بنیادی الزام کیمپس پر خیمہ زنی ہے۔ امریکی جامعات سے تو احتجاجی کیمپ اکھڑوادئے گئے لیکن اب پیرس میں کئی جگہ خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔

اور آخر میں غزہ کی ایک حوصلہ مند خاتون کا ذکرکہ جنکا نام فریڈم Flotilla کے حوالے سے ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کا استعارہ بن گیا۔ غزہ کی طرف جانے والی کشتی کو مدلین کا نام دیا گیاتھا۔اکتیس سالہ مدلين کُلاب غزہ کی پہلی مچھیرنی  (fisherwoman)ہیں۔ غزہ کے ساحل پر ماہی گیری آسان نہیں کہ وہاں اسرائیلی بحریہ کی کشتیاں عاملینِ بحر کو ہراساں کرتی رہتی ہیں۔ کئی بار تلاشی کے نام پر ماہی گیروں سے بدتمیزی اور تشدد عام ہے۔ یہ لٹیرے دن بھر پکڑی جانیوالی مچھلیاں بھی چھین لیتے ہیں۔

مدلین نے پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کیساتھ ماہی گیری شروع کی۔ جب میدلین 13 سال کی تھیں تو انکے والد شدید بیمار بلکہ معذود ہوگئے۔ چنانچہ مدلین نے ماہی گیری کی ذمہ داری سنبھال لی۔ میدلین کی جرات غزہ کے مچھیروں میں مثال بنی ہوئی ہے۔ وہ اسرائیلی بحریہ کی مداخلت کا 'مرادنہ وار' مقابلہ کرتی ہیں۔غزہ پر بمباری کے دوران میدلین کی کشتیاں تباہ ہوگئیں، جال جل گئے لیکن انھیں اسکا کوئی غم نہیں۔ 'کہتی ہیں میرا صرف اثاثہ تلف ہوا، میری بہنوں کے تو سہاگ اجڑ گئے اور گود ویران ہوگئی۔ آزادی بڑی قیمتی شئے ہے جسکی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی اور ہم اسکے لئے تیار ہیں'۔میدلین چار بچوں کی ماں ہیں جبکہ ایک نئے مہمان کی آمد آمد ہے۔ میدلین کی جرات سے متاثر ہوکر غزہ جانے والی کشتی کا نام میدلین رکھا گیا۔

اسی حوالے سے ایک اور فولادی لڑکی کا صدر ٹرمپ سے الیکٹرانک مکالمہ بھی قارئین کو دلچسپ محسوس ہوگا۔ قافلہ آزادی یا Flotilla کی قائد پر طنز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا “ گریٹا تھورنبرگ جیسی "عجیب و غرب" اور مغلوب الغضب' لڑکی کو Anger management کے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے'۔ جواب میں گریٹا نے امریکی صدر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا' ہاں میں شدید غصے میں تھی اور ہوں، لیکن مجھے علاج کی نہیں بلکہ دنیا کو (غزہ نسل کشی پر) مجھ جیسی مزید غصہ کرنے والی لڑکیوں کی ضرورت ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 جون 2025


 

ایران پر اسرائیل کا حملہ

 صدر ٹرمپ کا دوغلا کردار یا اصل چہرہ؟؟

جاسوسوں نے ایران کی پشت لہولہان کردی، عسکری و سائنسی قیادت کا خاتمہ

ایرانی میزائیلوں نے اسرائیل کے بہت سے علاقوں کو غزہ بنادیا

اسرائیل کی سب سے بڑی تیل ریفاینری اور تحقیقاتی دانشگاہ تباہ

شہری، تہران فوراً خالی کردیں۔ صدر ٹرمپ کی وارننگ

اسرائیل نے 13 جون کو صبح تین بجے ایران پر حملہ کردیا۔تل ابیب سے جاری ہونے والے فوجی اعلامئے کے مطابق 200 طیاروں نے  ایران کے طول و عرض میں 100 سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا جن میں دارالحکومت تہران، اصفہان، شیراز، مشرقی آذربائجان اور نطنز شامل ہیں۔ نظنز میں مبینہ طور پر یورینیم افزودہ کرنے کی زیرزمین تنصیبات ہیں اسلئے وہاں بنکر بسڑ بم استعمال کئے گئے۔ شیراز بھی خاص نشانہ بنا کہ وہاں میزائیل بنانے کے کارخانے ہیں۔ حملے میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (IRGS)کے سربراہ میجر جنرل حسین سلام، فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری، قائد خاتم الانبیا ؐکمانڈ (جوائنٹ چیف آف اسٹاف) جنرل غلام علی رشید، رہبرِ ایران حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر سلامتی علی شمخانی، سینئر جوہری سائنسدان محمد مہدی طہرانچی، فریدون عباسی اور درجنوں  دوسرے ماہرین جاں بحق ہوگئے۔

مغربی دنیا کو مسلم ممالک کی جوہری صلاحیتوں پر ہمیشہ 'تشویش' رہی ہے چنانچہ 7 جون 1981 کو اسرائیل نے عراق کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جسے آپریشن بیبلیون  (Babylon) کا نام دیا گیا۔ اسرائیل کے 15 طیارے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گرز کر عراق پہنچے اور صرف چند منٹوں میں ری ایکٹر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔

پاکستان کے مسلم بم کا بھی بہت شور تھا لیکن اسی دوران 11 مئی 1998کو ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کردئے اور دنیا بھر کے دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے  28 مئی کو چھ کامیاب تجربات کرکے پاکستان جوہری ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔اسکے بعد قوم نے پابندیوں کاعذاب سہا لیکن یہ آزادی و خودمختاری کی بہت معمولی قیمت تھی۔

اسی دوران لیبیاکے مسلم بم کاواویلہ بلند ہوا۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے لیبیا پر اتنی سخت پابندیاں عائد کیں کہ 19 دسمبر 2003 کو کرنل معمر قذافی پابندیاں ہٹانے کے عوض تمام جوہری، کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیارختم کر نے پر آمادہ ہوگئے۔ جسکے بعد لیبیا نے یورینیم افزودگی کا سامان، سینٹری فیوجز حتیٰ کہ  جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن بھی امریکا کے حوالے کر دیے۔ یہیں سے ڈاکٹر عبدلقدیر خان کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہوا۔امریکی CIAاور برطانیہ کی M16 نے الزام لگایا کہ نام نہاد قدیر نیٹ ورک نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی اور جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن فراہم کیے تھے۔اس بے بنیاد الزام کی بنیاد پر  پرویزمشرف نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی ویژن پر ڈانٹا اور توہین کی۔

جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے تو اسکا آغاز 1950میں Atoms for Peaceکے نام سےامریکہ ایران مشترکہ منصوبے کے طور پر ہوا، لیکن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد جب امریکہ ایران دوستی بدترین دشمنی میں تبدیل ہوگئی تو جوہری تعاون ختم کردیا گیا۔اس صدی کے آغاز پر ایران کے اسلامی بم کی بات شروع ہوئی اور 2003 میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA نے انکشاف کیا کہ ایران، یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے معیار پر افزودہ کرریا ہے۔ تہران نے اسکی سختی سے تردید کی لیکن 2006 میں اس پر سخت پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ستم ظریفی کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی روس اور چین نے ان انسانیت سوز پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔

پابندیوں سے پریشان ہوکر ایران مذکرات پر راضی ہوا اور 2013 میں بات چیت کے آغاز سے  پہلےرہبرِ ایران حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای نے فتویٰ جاری کیا کہ بڑے پیمانے پرانسانوں کوہلاک کرنے والے ہتھیار بنانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لہذا ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنائیگا۔ ان مذکرات میں سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان کے ساتھ جرمنی بھی شامل تھا اسی لئے یہ  P5+1مذاکرات کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسال کی بات چیت اور مول تول کے بعد اپریل 2015کو  Joint Comprehensive Plan of Action یا JCPOA کے عنوان سے معاہدہ طئے پاگیا جسے فارسی میں برجام کہتے ہیں۔فریق ممالک کی پارلیمان سے توثیق کے بعد یہ معاہدہ 16 جنوری 2016سے نافذ العمل ہوگیا۔ معاہدے کے مطابق ہر چھ ماہ بعد IAEAنے ایرانی تنصیبات کا تفصیلی معائنہ کیا اور ہر بار انسپیکٹروں نے رپورٹ دی کہ ایران JCPOAپر اسکی الفاظ اور روح کے مطابق عمل کررہاہے۔ معائینہ کنندگان میں امریکی ماہرین بھی شامل تھے۔اسرائیل کو یہ معاہدہ پسند نہیں تھا اور اس معاملے پر اپنے تحفظات بلکہ ناراضگی کا اظہار کرنے نیتن یاہو بنفس نفیس واشنگٹن آئے لیکن صدر اوباما کا کہنا تھا کہ جس معاہدے کی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے توثیق کی ہو اسکی پاسداری میرا آئینی فرض ہے۔

اپنی 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ڈانلڈ ٹرمپ نے JCPOAپر سخت تنقید کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت کئے تو  معاہدہ ختم کردیا جائیگا اور 8 مئی 2018کو صدر ٹرمپ کے ایک حکم پر امریکہ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوگیا۔اسی کیساتھ ایران پر سخت پابندیاں عائد کردیں گئیں۔ دلچسپ بات کہ صڈر ٹرمپ کے فیصلے سے دوماہ پہلے ہی انسپیکٹروں نے تنصیبات کے تفصیلی جائزے کے بعد all okکی رپورٹ دی تھی۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو امریکی صدر وعدہ خلافی اور معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوئے تھے لیکن باقی پانچ دستخط کنندگان صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تشویش اور افسوس سے آگے نہ بڑھے۔ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے باوجود ایران معاہدے کی شرائط پوری کرتا رہا۔

اس سال 20 جنوری کو حلف اٹھاتے ہی انھوں نے ایران پر جوہری پروگرام ختم کرنے  کیلئے دباو ڈالنا شروع کیا اور خود کو امن پسند ثابت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے کئی دور چلے۔امریکہ کا اصرار تھا کہ ایران جوہری پروگرام بالکل ختم کردے جبکہ ایران نے موقف اختیار کیا کہ پرامن مقاصد کیلئے جوہری توانائی کا حصول اسکا حق ہے چنانچہ یورینیم افزودگی کی زیادہ سے زیادہ حد مقررکردی جائے۔ دوسری طرف نیتن یاہو ایرانی تنصیبات پر حملے کیلئے بیتاب تھے کہ وہ اسکے لئے دوسال سے تیاری کررہے تھے۔میڈیا کے سامنے صدر ٹرمپ بار بار یہی کہتے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہوجائیگا اور میں نیتن یاہو پر زور دے رہا ہوں کہ جنگ و جدل مسئلے کا حل نہیں۔

دس جون کو یہ خبر آئی کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے سفارتخانوں سے ٖغیر ضروری عملے کو ملک واپس بلالیا ہے  جبکہ مقامی ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ رخصت پر چلے جائیں۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں مقیم امریکی شہریوں کو احتیاط کی ہدائت کردی گئی۔ اب یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اسرائیل ایران ہر حملے کیلئے پرعزم ہے۔اگرچہ کہ امریکی وزارت خارجہ یہ تاثر دے رہی تھی کہ ایران پر حملے کے اسرائیلی فیصلے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن نیتن یاہو نے یہ سب کچھ صدر ٹرمپ کی آشیرواد سے کیا۔

آخر کار 13 جون کو بدترین بمباری سے حملے کا آغاز ہوا اور پہلے ہی ہلے میں ایران کی عسکری اور جوہری پروگرام کی تیکنیکی قیادت راستے سے ہٹادی گئی۔  ابھرتے شیر یا Rising Lionنامی آپریشن کی ابتدائی کامیابی میں اسرائیل کی عسکری صلاحیتوں سے زیادہ انکی جاسوسی اور شاطرانہ سراغرسانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے  سراغرساں اداروں کے حوالے سے جو تفصیلات فراہم کی ہیں اسکے مطابق

  • اسرائیل کا ادارہِ سراغرسانی،  موساد تقریباً ایک سال سے معلومات جمع کررہا تھا اور اس مقصد کیلئے سینکڑوں ایرانی جاسوس بھرتی کئے گئے جنھوں نے سارے ملک میں اہم تنصیبات کے بہت قریب رہائش اختیار کی۔ ایرانی فوج و پاسداران کے کلیدی اہلکاوں اور جوہری سائنسدانوں کی نقل و حرکت کی روزانہ کی بنیاد پر نقل و حرکت کا ریکاڑد تیار کیاگیا۔
  • ان ایجنٹوں کیلئےخصوصی ہتھیاراسرائیل سے ایران اسمگل کئے گئے جن میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے امریکی ساختہ SAMمیزائیل اور مہلک دستی بم شامل ہیں۔ایجنٹوں کو فراہم کئے جانیوالے سام میزائیل میں ترمیم کرکے انکا سائز اتنا چھوٹا کردیا گیا تھا کہ انھیں گاڑی کی سیٹ کے نیچے ذخیرہ کیا جاسکے۔

·         امریکی اسلحہ ساز کمپنی Dyneticsکے  GPSنطام سے آراستہ  Small Glide Munition (SGM) میزائیل بھی فراہم کئے گئے۔ ساڑھے چار انچ قطر کے ساڑھے تین فٹ لمبے SGMمیں اعلیٰ معیار کا بارود پھرا ہوتا ہے جو گاڑیوں سے داغے جاسکتے ہیں۔

  • مقامی ریڈار میں خلل ڈالنے کیلئے  Jamming Devicesبھی اسرائیل سے ایران لائے گئے۔
  • موساد کے انکشاف کا سب سے سنسنی خیز پہلو یہ ہے کہ کئی شہروں میں خود کش ڈرون کے خفیہ اڈے بھی بنے۔

حملے سے کچھ پہلے سام میزائیل، اہم تنصیبات کے قریب کھلے علاقوں میں نصب کردئے گئے، جسکا مقصد  ایرانی طیارہ شکن میزائیلوں کو نشانہ بنانا تھا۔کاروائی کے آغازپر جیسے ہی اسرائیلی طیاروں نے بمباری شروع کی، سام میزائیلوں نے ایران کے دفاعی نظام کو غیر موثر کردیا اور انتہائی درستگی کیساتھ SMGاہداف پر داغ دئے گئے۔ ساتھ ہی فوجی اڈوں اور دفاعی تنصیبات کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔یعنی آسمان سے آتش و آہن کی بارش کو تنصیبات کے قریب سے برسنے والے میزائیلوں اور ڈرون کی ضرب نے دوآتشہ کردیا۔ چند ہفتہ پہلے اس سے ملتی جلتی حکمت عملی یوکرین نے روس پر ضربِ کاری کیلئے اختیار کی تھی۔ اتوار 15 جون کو بھی اسرائیلی جاسوسوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور تہران کے پانچ کار بم دھماکوں میں ایک درجن کے قریب جوہری سائنسدان، ماہرین کیمیا، ارضیات، طبیعات و ریاضی جان بحق ہوگئے۔اسرائیل نے اسی انداز میں عراقی سائنسدانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔

یہ تفصیلات موساد نے جاری کی ہیں اور اس شیخی میں  'بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے' کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اسرائیل نے جس درستگی سے فوجی قیادت اور سائینسدانوں کا نشانہ بنایا ہے وہ صرف بمباری سے ممکن نہیں۔ اگر موساد کی جاریکردہ کہانی میں ذرہ برابر بھی حقیقت ہے تو اس سے ایرانی وزارت داخلہ اور محکمہ سراغرسانی کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھتے ہیں۔ مہلک ہتھیار اور ڈرون اسمگل کر کے ایران لائے گئے اور انھیں انتہائی حساس تنصیبات کے قریب ذخیرہ کیا گیا۔ ڈرون کے اڈے بنے،  کاروائی سے ایک دن پہلے سام میزائیل نصب کئے گئے اور موساد کے آپریشن کی ایرانیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کیا یہاں بھی جعفر از بنگال، صادق یا دکن کی تاریخ دہرائی گئی ہے؟

پشت میں لگنے والی اس ضرب کاری کے باوجود ایران نے دوسرے دن ڈرون اور میزائیل حملوں سے جوابِ آں غزل کا اغاز کیااور اسرائیل کے طول و عرض کو بہت مہارت سے نشانہ بنایا۔ایرانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں میزائیل ایک ساتھ داغے کہ امریکہ کا جدید ترین دفاعی نظام مفلوج ہوگیا اور مہلک سلیمان میزائیلوں نے  تیر (Arrow)،غلیلِ داودؑ (David Sling)،آہنی گنبد (Iron Dome)اورآہنی شہتیر (Iron Beam)کی چار پرتوں کو چیر کر تل ابیب سے حیفہ تک اسرائیل کے کئی شہروں کو آگ کی گیند میں تبدیل کردیا۔ اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر، حیٖفہ میں تیل کی سب سے بڑی ریفاینری، حیفہ بندرگاہ کی کئی گودیوں اور تل ابیب کے قریب مایہ ناز تحقیقاتی مرکزWeizmann Institute of Science کو آگ لگ گئی۔ سائنسی علوم پر تحقیقات کا یہ موقر ادارہ جامعہ ریہووٹ Rehovotکا حصہ ہے۔اسکے علاوہ دارالحکومت، اسکے مضافاتی فیشن ایبل علاقے ریشون لی زائن (Rishon Lezion)اور ساحلی شہر بیت یام کا بڑا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔

اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کے متضاد بیانات سے امریکی صدر کا دوغلا کردار آشکار ہوا۔ حملے کے فوراً بعد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دوٹوک انداز میں کہا کہ حملے کا فیصلہ اسرائیل نے خود کیا ہے اورہمارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں لیکن جمعہ کی شام سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے نمائندے  نے کہا 'اسرائیل نے ایران پر حملے سے قبل امریکہ کو مطلع کردیا تھا'۔موصوف نےمزید فرمایا کہ ہر خودمختار ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے اپنے اس حق کا دفاع کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کاروائی پر خوشی کا اظیار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے اپنے نجی پلیٹ فارم پر  کہا'میرے خیال میں یہ شاندار کاروائی تھی۔ہم نے انہیں (ایران) ایک موقع دیا لیکن انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔انہیں سخت مار پڑی، بہت ہی سخت۔ اس سے سخت مار ممکن نہ تھی۔ ابھی تو اور بہت کچھ آنے والا ہے۔

مغربی ممالک کے روئے اور طرزعمل میں بھی تضادات نمایاں رہے۔ ایک طرف فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران کو مذاکرات کی پیشکش کی تو دوسری جانب 16 جون کو کینیڈا کے  G-7سربراہی اجلاس کے افتتاحی بیان میں کہا گیا کہ 'اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اورایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے دیا جائیگا'۔اجلاس کے دوران اٹلی اور فرانس کی تجویز پرایک قرارداد کا متن تیار ہوا جس میں اسرائیل اور ایران پر زور دیا گیا کہ وہ کشیدگی ختم کرکے مذکرات کی راہ ہموار کریں لیکن صدر ٹرمپ نے مسودے پر دستخط سے انکار کردیا۔ صدر ٹرمپ G-7سربراہ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر 16 جون کی شب وطن واپس پہنچ گئے جہاں انھوں نے اپنی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔دوسری جانب بحیرہ جنوبی چین میں تعینات طیارہ بردار جہاز USS Nimitz  مشرق وسطیٰ روانہ ہوچکا ہے۔ امریکی صدر نے اہل تہران سے کہا کہ وہ فوری طور پر شہر خالی کردیں۔اس سے پہلے امریکی صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا تھا کہ ایران(جوہری) معاہدے پر  فوراً دستخط کردے اسلئے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔

صدر ٹرمپ نے اپنا متنوع اور متضاد رویہ برقرار رکھتے ہوئے وطن واپسی کیلئے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے G-7 کے اُس مشترکہ بیان پر دستخط کردئے جس سے انھوں نے صبح اختلاف کیا تھا۔بیان میں سات بڑی معیشتوں کے سربراہوں نے کہا کہ'ہم ایرانی بحران کے پرامن حل پر زور دیتے ہیں تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم اور غزہ میں جنگ بند ہو'۔ اسی کیساتھ جناب ٹرمپ نے  نائب صدر وانس اور اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف کو ہدائت کی کہ کشیدگی کم کرنے کیلئے ایران سے بات چیت شروع کی جائے۔ امریکی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosکے مطابق اسٹیو وٹکاف اور ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کے درمیان ملاقات ایک دودن میں متوقع ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 جون 2025


Sunday, June 15, 2025

 

 غزہ جانے والے امدادی کارواں (Flotilla)کو اشدود پہنچادیا گیا

غزہ کی طرف جانیوالے تیسرا امدادی کارواں المعروف Freedom Flotillaبھی منزل مقصود پر پہنچنے میں ناکام رہا۔سوئٹزرلینڈ کی 22 سالہ گریٹا تھورنبرگ (Greta Thornburg)  کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی Madleenانامی یہ کشتی اٹلی کی سسلین بندرگاہ Cataniaسے یکم جون کو غزہ کیلئے روانہ ہوئی جسکا اہتمام یورپی و فلسطینی رفاحی ادارے  Freedom Flotilla Coalition(FCC) نے کیا تھا۔ گریتا تھورنببرگ صاحبہ کے ساتھ امریکی فنکار لیام کننگھم(Liam Cummingham) اور انسانی حقوق کے برازیلی رہنما Thiago Avilaسمیت انسانی حقوق کے 12 کارکن سوارتھے۔آٹھ جون کو جب اس کشتی نے مصری بندرگاہ سے غزہ کا رخ کیا تو کشتی کے ملاح کو وزیر دفاع، اسرائیل کاٹز کا پیغام موصول ہوا جس میں بہت صراحت سے کہا گیا کہ 'یہود دشمن (Antisemitic)،حماس کی ترجمان گریٹا اور انکے ساتھیوں کو غزہ نہیں آنے دیا جائیگا'۔ اسرائیلی وزیردفاع نے پیشکش کی کہ امدادی سامان غزہ کے شمال میں اشدود کی بندرگاہ پر اتار دیا جائے۔وزیردفاع کے نام اپنے جوابی پیغام میں گریٹا نے کہا کہ ہمارا مشن مظلوموں کی مدد کیساتھ غزہ کی انسانیت کش ناکہ بندی کو توڑنا ہے لہٰذا ہم ہر قیمت پر غزہ جائینگے۔ تھوڑی دیر بعد کشتی کے GPSکو جام کردیاگیا، لیکن حوصلہ مند لوگوں نے روائتی قطب نما کی مدد سے سفر جاری رکھا۔جب مید لین،  غزہ سے 100 کلومیٹر دور تھی تو اسرائیلی بحریہ کی جنگی کشتیوں نے اسکا کا راستہ روکا اورمسلح چھاپہ مار ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کشتی پر اتر گئے۔ تمام کارکنوں کو کشتی کے چیمبر میں دھکیل دیا گیا اور اسرائیلی بحریہ کی Tugboatsنے میدلین کو کھینچ کر اشدود پہنچادیا۔

اس کاروائی کے دوران گریٹا نے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامی (SOS) بیان جاری کیا کہ ' اسرائیلی فوج نے میدلین پر سوار تمام کارکنوں کو اغوا کرلیا ہے۔ ہماری رہائی اور حفاظت کیلئے انصاف پسند عالمی برادری اسرائیل پر دباو ڈالے۔ اسی نوعیت کا ایک بصری پیغام انسانی حقوق کے برازیلی کارکن Thiago Avila کی طرف سے نشر ہوا۔دوسری جانب اسرائیلی وزیردفاع نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'ہماری بحریہ کے بہادر سپاہیوں نے مادر وطن کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے درانداز کشتی کو اشدود پہنچا دیا۔ کشتی پر لدا امدادی سامان غزہ بھیجا جارہا ہے۔ وزیرباتدبیر نے طنز کے تیر برساتے ہوئے اس کشتی کو Selfie Yachtکا نام دیا۔اسرائیلی وزیردفاع نے مزید کہاکہ کہ کشتی پر سوار تمام لوگوں کو 7 مئی 2023 کے طوفان الاقصیٰ کی 43 منٹ دورانئے کی دستاویزی فلم دکھائی جائیگی تاکہ انسانی حقوق کے ان کارکنوں کو پتہ چلے کہ وہ کن وحشیوں کی حمائت کررہے ہیں۔ یہ فلم اسرائیلی فوج نے بنائی ہے۔ یہاں اسرائیل کو ایک اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب ان کارکنوں کو فلم دکھانے ہال لے جایا گیا تو یورپی رکن پارلیمان ریما حسن نے مطالبہ کیاکہ فلم دکھانے کے بجائے ہمیں غزہ جانے دیا جائے تاکہ ہم حقیقت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکیں، ریما صاحبہ کی یہ تجویز مسترد کردی گئی اور جب فلم کا آغاز ہوا تو وفد کی قائد گریٹا چلا کر بولیں'تمام ساتھی آنکھیں بند کرکے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں کہ جھوٹ کا مشاہدہ اور سماعت دراصل ظلم کی حمائت ہے'۔اس پر وزیردفاع نے جھلا کر بیان جاری کیا کہ یہود مخالف(Antisemitic) عناصر میں سچ دیکھنے اور سننے کا حوصلہ بھی نہیں۔منگل 10 جون کو اسرائیلی حکومت نے تمام زیرحراست کارکنوں کو پیرس بھیجنے کا اعلان کیا لیکن یہاں بھی مقطع میں ایک سخن گسترانہ بات آن پڑی۔ فلوٹیلا کی قائد گریٹا تھورنبرگ سمیت انسانی حقوق کے چار دوسرے کارکنوں کو اسرائیلی ائرلائز (El Al) کی پرواز کے ذریعے پیرس پہنچا دیا گیا لیکن ریما حسن سمیت انسانی حقوق کے دوسرے آٹھ کارکنوں نے ملک بدری حکمنامے (Deportation Order)کی تعمیل سے انکار کردیا۔ انکے خیال میں اس دستاویز پر دستخط کا مطلب اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ واپسی کیلئے ہم اسرائیلی ائرلائن پر نہیں بیٹھیں گے۔یہ لوگ 11 جون کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونگے۔ اسرائیل، ریماحسن کودہشت گردوں کی سہولت کار قرار دیتا ہے اسلئے انکے خلاف انتقامی کاروائی خارج امکان نہیں۔

ابھی اسرائیلی میدلین سے نمٹ ہی رہے تھے کہ تیونس سے ڈاکٹروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مشتمل ایک کارواں غزہ کیلئےروانہ ہوگیا۔ صمود نامی یہ قافلہ لیبیا اور مصر کے راستے غزہ جانے کا عزم رکھتا ہے۔ مہم کی قائد جواہر ثنا نے بتایا کہ سینکڑوں افراد پر مشتمل 9 بسوں کا یہ قافلہ جمعہ تک صحرائے سینائی میں غزہ کو کھلنے والے ر فح پھاٹک پہنچے گا۔ بس پر کوئی امدادی سامان نہیں اورہمارا مقصد اسرائیلی ناکہ بندی توڑ کر اہل غزہ کو گلے لگانا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی الجزائر سے بھی بسوں کا ایک بڑا کارواں روانہ ہوگیا جو لیبیامیں قافلہ صمود سے مل جائیگا۔

دوسری طرف برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے نیتن یاہو کے قریبی رفقا، وزیرخزانہ بیزلل اسموترچ اور وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر پر تادیبی پابندیاں عائد کردیں ہیں۔ ان مجرموں پر غربِ اردن میں غنڈہ کردی، فلسطینیوں کی جائیداد جلانے، مقامی لوگوں کو انکے گھروں سے بیدخل کرنے کے علاوہ، دوریاستی حل کی عملی مخالفت کا الزام ہے۔انتہاپسندوزرا کے سفر اور تجارت پر پابندیوں کے علاوہ ان پانچ ملکوں میں ان دونوں کے بینک اکاونٹ منجمد کئے جارہے ہیں۔

امدادی قافلے کی روداد کے بعدعیدالاضحیٰ کا ذکر۔کربلا کی وادیِ اخدود، المعروف غزہ میں دورمضان اور دوعیدالفطر کے بعد دوسری عید الاضحیٰ بھی  آسمان سے آتش و آہن  کی نہ رکنے والی موسلا دھار بارش میں منائی گئی،  'کلمہ پڑھتے ہیں ہم چھاوں میں بمباروں کی' ۔عید سے دوددن پہلے سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور امداد کی بحالی کی قرارداد ویٹو کرکے صدر ٹرمپ نے اہل غزہ کو عید کا تحفہ بھی عطا کردیا۔

انسانیت کے ویٹو کے ساتھ، چچا سام نے اسرائیل کے دفاع میں بین لاقوامی قوانین کو بھی پیروں تلے روند دیا۔پانچ جون کو امریکہ نے اسرائیلی وزیراعظم، سابق وزیردفاع اور فوج کے سابق سربراہ کے خلاف پروانہ گرفتاری جاری کرنے والی عالمی فوجداری عدالت (ICC) کی چار ججوں پر تادیبی پابندیاں عائد کردیں۔امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے یوگنڈا کی جسٹس Solomy Balungi Bossa، پیرو کی جسٹس Luz del Carmen Ibáñez Carranza، بینن کی جسٹس Reine Adelaide Sophie Alapini Gansou اور سلوانیہ کی جسٹس Beti Hohler کے خلاف کاروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ 'ججوں کی حیثیت سے ان چار افراد نے امریکہ اور ہمارے قریبی اتحادی اسرائیل کو نشانہ بنانے کی ناجائز اور بے بنیاد کاروائیوں میں حصہ لیا۔آئی سی سی سیاسی ہوگئی ہے۔ ہم انکے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے کہ انکے پاس امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کے خلاف تحقیقات، الزامات عائد کرنے، اور فیصلہ دینے کے غیر محدود اختیارات ہیں۔

عالمی سطح پر اس قانون شکنی سے اسرائیلی حکومت کو حوصلہ ملا اوراب اسرائیل نے غزہ کے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کو مزاحمت کاروں کے مقابلے کیلئے تربیت دے کر مسلح کرنا شروع کردیاہے۔اسکا انکشاف سابق وزیردفاع اور اسرائیل مادر وطن پارٹی Yisrael Beiteinu کے سربراہ، ایوگڈر لائیبرمین (Avigdor Liberman) نے Kanٹیلی ویژن پر کیا۔ لائیبرمین کا کہنا ہے کہ غزہ میں لوٹ مار اور ڈکیتی کیلئے مطلوب یاسر ابوشہاب کو اس گینگ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جو ماضی میں  ISISسے وابستہ تھا۔

اسرائیل کی جارحانہ سرگرمیوں میں حالیہ اضافے کی ایک بڑی وجہ حکومتی اتحادمیں پڑنے والی دراڑ کے نتیجے میں نیتن یاہو حکومت کا عدم استحکام ہے۔لازمی فوجی تربیت سے حریدی فرقے کے استثنیٰ پر وزیراعظم اور انکے حریدی اتحادیوں میں چپقلش کافی عرصے سے جاری ہے۔حریدیوں کے یہاں ہر لڑکے پر مدارس (Yeshiva)میں جاکر تلاوت و حفظ توریت لازمی ہے۔دوسری طرف لازمی فوجی خدمت قانون کے تحت ہر نوجوان کیلئے دوسال کی فوجی تربیت ضروری ہے۔ حریدی نوجوان فوجی تربیت میں نہیں شریک ہوتے کہ اس سے انکی دینی تعلیم متاثر ہوگی۔ اب تک فوج اس معاملے کو نظر انداز کرتی چلی آئی ہے اور حریدیوں کو فوجی بھرتی سے غیر اعلانیہ استثنیٰ ملا ہوا ہے لیکن غزہ میں فوجیوں کی غیر معمولی ہلاکتوں اور معذوری کی وجہ سے فوج میں افرادی قوت کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ جسکی وجہ سے اب حریدیوں کی بھرتی پر اصرار ہورہا ہے۔گزشتہ ہفتے حریدیوں نے وزیراعظم سے صاف صاف کہدیا کہ اگر ہمارے استثنیٰ کو قانونی تحفظ نہ دیا گیا تو دونوں حریدی جماعتیں یعنی پاسبانِ توریت جماعت (Shas) اور توریت پارٹی (UTJ)حکومتی اتحاد سے الگ ہوجائینگی۔

کشیدگی اتنی بڑھی کہ ایک ہفتہ قبل شیخِ علومِ توریت (Degel HaTorah) اور حریدیوں کے روحانی پیشوا ربائی موسیٰ ہرش، ربائی ڈوو لینڈو اور توریت کونسل نے اپنی سیاسی جماعت UTJکو کنیسہ (پارلیمان) تحلیل کرنے کی قرارداد پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ اسی دوران 7 جون کو یوم سبت پر یروشلم میں حریدیوں کے مرکزی معبد (Synagogue)میں پراسرار آگ بھڑک اٹھی۔شاس کے روحانی سرپرست اور رئیس کلیہ علوم توریت (Rosh Yeshiva) ربائی اسحق یوسف یہیں امامت کرتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں آتشزدگی اسی کشیدگی کا شاخسانہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد شاس نے بھی پارلیمان تحلیل کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کا اعلان کردیا۔ایک سو بیس رکنی کنیسہ میں اس وقت نیتن یاہو کو 67ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ان دونوں جماعتوں کا ساتھ چھوڑ دینے کے بعد حکومت کے حامیوں کی تعداد 50 رہ جائیگی۔ قرارداد پر فوری رائے شماری کی راہ ہموار کرنے کیلئے حزب اختلاف نے نجی بل، استحقاق کے نوٹس اور نکتہ اعتراض کی تمام تحریکیں واپس لے لیں۔خیال ہے کہ بدھ کو قرارداد پر بحث کا آغاز ہوگا۔ تاہم امریکہ اس محاذ سے غافل نہیں اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائک ہکابی حریدی رہنماوں سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ اپنے ایک بیان میں سفیر معظم نے کہا کہ یک ایسے وقت جب ملک کو بدترین دہشتگردی کا سامنا ہے سیاسی عدم استحکام سے ملک کو سخت نقصان پہنچے گا۔حزب اختلاف اسرائیلی سفیر کی ان سرگرمیوں کو بیرونی مداخلت قرار دے رہی ہے جبکہ حکومتی عدم استحکام سے جھنجھلائے نیتن یاہو کے اشتعال کی قیمت مظلوم اہل غزہ ادا کررہے ہیں۔

امریکہ کی غیر مشروط حمائت کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔امریکی مرکزِ دانش Pew Researchنے 6 جون کو 24 ممالک میں رائے عامہ کا جو جائزہ شایع کیا ہے اسکے مطابق اسرائیل مخالفت میں 93 فیصد کے ساتھ ترکیہ پہلے نمبر پر ہے۔انڈونیشیا میں 80 فیصد، جاپان 79 فیصد، ہالینڈ میں 78 فیصد، اسپین اور سوئیڈن میں 75 فیصد اور جنوبی افریقہ کے 54 فیصد لوگ اسرائیل کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ اسرائیل، نائیجیریا اور کینیا میں سب سے زیادہ مقبول ہے جہاں بالترتیب 59 اور 50 فیصد لوگ اسرائیل کے حامی ہیں۔امریکہ میں 53 فیصد لوگ اسرائیل کے مخالف جبکہ ہندوستان میں 34 فیصد لوگ اسرائیل کے حامی ہیں۔ اگر ان 24 ممالک کا اوسط لیا جائے تو مجموعی طور پر 62 فیصد لوگ اسرائیل کے مخالف ہیں۔ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور جنوبی افریقہ میں نوجوان طبقہ اسرائیل کا سخت مخالف ہے۔

غزہ کے معاملے پر کچھ رہنماوں کے دبنگ روئے نے اسرائیل کے حامیوں کو آزمائش میں ڈالدیا ہے۔برازیل کے صٖدر Luiz Inacio Lula da Silva  نے اپنے فرانسیی ہم منصب کے ہمراہ پیرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صاف صاف کہدیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں بلکہ ایک طاقتور مسلح فوج کی جانب سے عورتوں اور بچوں کاقتل عام بلکہ ایک انتہاپسند حکومت کی جانب سے سوچی سمجھی نسل کشی ہے۔جواب میں صدر میکراں، احتیاط و مصلحت کا نقاب اوڑھتے ہوئے ممیائے 'سیاسی رہنما (نسل کشی کی) اصطلاح استعمال کررہے ہیں لیکن وقت آنے پر یہ فیصلہ مورخین کرینگے'۔

اس حوالے سے ہسپانیہ کا رویہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسپین نے اسرائیلی کمپنی سے ٹینک شکن میزائیل خریدنے کا معاہدہ منسوخ کردیا۔ سودے کی مالیت 32کروڑ 50لاکھ ڈالر تھی۔ یہ اسلحہ ایک ہسپانوی کمپنی Pap Tacnosبناتی ہے جو اسرائیل کی Rafael Advanced Defense Systemکا ذیلی ادارہ ہے۔ ہسپانوی وزیردفاع مارگریٹا روبیلز نے کہا کہ غزہ نسل کشی کے بعد ہسپانیہ نے اسرائیلی فوج اور اسکے دفاعی اداروں سے کسی قسم کا تعاون یا مالیاتی لین دین نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خواہ یہ مصنوعات ساختہ اسپین ہی کیوں نہ ہوںْ

نسل کشی کے مرتکبین کا تعاقب بھی جاری ہے۔ایک فرانسیسی خاتون جیکولین ریواولٹ Jacqueline Rivaultنے پیرس کی عدالت کو دہائی دی ہے کہ 24 اکتوبر 2024 کو خان یونس میں اسکی بیٹی کے گھر پر اسرائیل نے میزائیل حملہ کیا جس میں اسکی چھ سالہ نواسی جینا اور جینا کا نوسالہ بھائی عبدالرحیم جاں بحق ہوئے۔ یہ دونوں بچے فرانسیسی شہری تھے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ امریکی ساختہ F-16 طیارے سے دو گائیڈڈ میزائیل اسکی بیٹی کے گھر پر داغے گئے۔ گائیڈڈ میزائیل پہلے سے طئے شدہ ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ یعنی اسرائیلی طیاروں نے رہائشی عمارت کو جان کر نشانہ بنایا اور شہریوں کو جان بوجھ کر ہلاک کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت نسل کشی اور جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔ مزید دلیل دیتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے شہری آبادی پر بمباری کا مقصد فلسطینی آبادی کو ختم کرنا اور پوری پٹی پر انسانی زندگی کو مشکل بنانا ہے جو نسل کشی کی ایک شکل ہے۔ حوالہ: AFP

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 13 جون 2025

ہفت روزہ سرینگر 15 جون 2025