Thursday, December 18, 2025

 

غزہ، واشنگٹن  اور 2024 کے انتخابات

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکی انٹیلی جنس کے چھ اہلکاروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ 2024 کے دوسرے نصف میں بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو بعض حساس خفیہ معلومات کی فراہمی عارضی طور پر معطل کر دی تھی۔ ان معلومات میں غزہ پر اڑنے والے امریکی ڈرونز سے حاصل شدہ براہِ راست بصری مشاہدہ (Direct Video Feed) بھی شامل تھا، جسے اسرائیلی حکومت فلسطینی قیدیوں اور جنگجوؤں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔

ذرائع کے مطابق امریکہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ اسرائیل ان معلومات کو اہم فوجی اہداف (High-Value Targets) کے تعاقب میں کس حد تک اور کن ضابطوں کے تحت استعمال کر رہا ہے، تاہم یہ پابندیاں صرف چند دن برقرار رہ سکیں۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب امریکی انٹیلی جنس حلقے اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بات پر بھی سنگین تحفظات لاحق تھے کہ اسرائیل کا داخلی سلامتی ادارہ شاباک (Shin Bet) فلسطینی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کا مرتکب ہو رہا ہے۔

انٹیلی جنس اہلکاروں کے مطابق اسرائیل، امریکی مطالبے کے باوجود، اس بات کی واضح اور تحریری یقین دہانی فراہم کرنے میں ناکام رہا کہ وہ امریکہ سے حاصل کردہ معلومات کو بین الاقوامی قوانینِ جنگ کے مطابق استعمال کرے گا، حالانکہ امریکی قانون کے تحت ایسی یقین دہانی لازمی تصور کی جاتی ہے۔

اس سب کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے مجموعی طور پر اسرائیل کو انٹیلی جنس اور اسلحے کی فراہمی جاری رکھی۔حساس معلومات کی عارضی معطلی بظاہر اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش تھی تاکہ وہ امریکی فراہم کردہ معلومات کو قوانینِ جنگ کے دائرے میں استعمال کرے۔ واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام کو بعض ہنگامی معاملات میں وائٹ ہاؤس کے براہِ راست حکم کے بغیر فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، لہٰذا اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پابندی صدر بائیڈن کی براہِ راست ہدایت کے بغیر عائد کی گئی ہو۔ جب سابق صدر بائیڈن کے ترجمان سے اس معاملے پر تبصرے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اسرائیل کو حساس معلومات کی فراہمی معطل کرنے کی خبر بظاہر ایک جرات مندانہ قدم محسوس ہوتی ہے، لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پابندی محض چند دنوں تک محدود رہی۔ سوال یہ نہیں کہ پابندی کیوں لگائی گئی، بلکہ یہ ہے کہ اگر شہری ہلاکتوں اور قوانینِ جنگ کی ممکنہ خلاف ورزیوں پر امریکی انٹیلی جنس اداروں کے اندر واقعی سنجیدہ تشویش موجود تھی تو یہ اقدام مستقل کیوں نہ ہو سکا؟

یہاں اخلاقیات اور قانون پر سیاست غالب دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پالیسی ساز حلقے انسانی جانوں کے بجائے سیاسی نتائج کے اندیشوں میں زیادہ گھرے رہے۔ یہی امریکی سیاست کا وہ پہلو ہے جس کاعلانیہ اعتراف کرنے کی ہمت اعلیٰ ترین حکام میں بھی شاذ ہی نظر آتی ہے۔

اسی تناظر میں سابق نائب صدر کملا دیوی ہیرس کا حالیہ اعتراف غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بائیڈن انتظامیہ غزہ جنگ کے دوران “معصوم فلسطینیوں کے معاملے میں” اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی، دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ امریکی قیادت سب کچھ جانتے اور مانتے ہوئے بھی فیصلہ کن قدم نہ اٹھا سکی۔

کملا ہیرس کے اس اعتراف اور رائٹرز کی رپورٹ سے 2024 کے صدارتی انتخابات کا ایک اور حساس باب بھی کھلتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن سے کچھ پہلے صدر بائیڈن کی ذہنی صحت کے بارے میں ایسی منظم اور شدید مہم شروع ہوئی کہ پرائمری انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود انہیں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونا پڑا۔ طب کے شعبے میں اپنی کم مائیگی کے باعث یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیڈن کی عمر اور ذہنی صحت واقعی فیصلہ کن مسئلہ بن چکی تھی، مگر اس بیانیے کی اچانک شدت اور سمت بہرحال معنی خیز دکھائی دیتی ہے۔

جو بائیڈن کے میدان سے ہٹتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں غیر معمولی تیزی آ گئی۔ بعض مسلم حلقوں میں یہ مبہم امید بھی پیدا ہوئی یاکردی گئی کہ شاید ٹرمپ غزہ کی جنگ رکوا دیں گے، حالانکہ وہ ہر انتخابی جلسے میں یہ اعلان کرتے رہے کہ اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندیاں لگائی جائیں گی اور جامعات کو “سبق” سکھایا جائے گا۔

یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اگر مشیگن، وسکونسن، پینسلوانیہ، ایریزونا، نیواڈا اور دیگر فیصلہ کن ریاستوں میں مسلم ووٹرز منظم اور بھرپور انداز میں متحرک ہوتے تو وہ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتے تھے۔ تاہم غزہ کے معاملے پر ڈیموکریٹک قیادت کی مبہم، محتاط اور غیر مؤثر پالیسی نے اس طبقے میں بددلی، مایوسی اور انتخابی لاتعلقی کو جنم دیا۔

یہ کہنا شاید درست نہ ہو کہ ڈیموکریٹس کی شکست کی واحد وجہ یہی تھی، مگر یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا اسرائیل کے معاملے پر غیر مشروط وابستگی، اخلاقی کمزوری اور کنفیوز پالیسی کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک نمایاں سیاسی قیمت ادا کی؟

اس پورے منظرنامے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ واقعی “نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم” والا معاملہ پیش آیا۔ اسرائیلی جارحیت سے فاصلہ پیدا کرنے کے نیم دل اور علامتی اقدامات نے امریکی مقتدرہ پر اثرانداز طاقتور حلقوں کے کان کھڑے کر دیے۔ نتیجتاً بائیڈن کی صحت اور یادداشت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے انہیں میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

دوسری جانب انہی حلقوں نے بعض مسلم ووٹروں میں یہ فہم بھی پروان چڑھایا کہ کمزور بائیڈن کے مقابلے میں “طاقتور” ٹرمپ بہتر انتخاب ہو سکتے ہیں، حالانکہ ٹرمپ نے اپنے مسلم مخالف بیانیے کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ انتخابی جلسوں میں وہ کھلے عام غزہ کے مزاحمت کاروں کو تباہی کی دھمکیاں دیتے رہے، “ابراہیم معاہدے” کو آگے بڑھانے اور ایران کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز نہ کرنے کا اعلان کرتے رہے۔

گزشتہ صدارتی انتخابات نے جہاں امریکی مسلم قیادت کی سیاسی بصیرت اور اجتماعی حکمتِ عملی کو بے نقاب کیا، وہیں یہ حقیقت بھی پوری طرح آشکار ہو گئی کہ امریکی سیاست میں اسرائیل سے اختلاف  چاہے وہ محض چند دن کی علامتی پابندی ہی کیوں نہ ہو، سیاسی عاقبت کے لیے کتنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 دسمبر 2025


No comments:

Post a Comment