Thursday, December 18, 2025

 

بحرِ روم کی گیس، فلسطین کا ثمر اور یورپ کی سرد خاموشی

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین  نیتن یاہو نے 17 دسمبر کو گیس برآمد کے ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ معاہدے کے تحت لیویاتھن (Leviathan) گیس میدان سے 2040 تک 34 ارب 70 کروڑ ڈالر کے عوض  130 ارب مکعب میٹر 130bcm)گیس مصر کو فراہم کی جائیگی جو اسے LNGمیں تبدیل کرکے  یورپ کو فروخت کریگا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا گیس معاہدہ ہے۔

امریکی کمپنی Chevron اور اسرائیلی ادارہ NewMed Energy سمیت تمام شراکت دار اس معاہدے کے دستخط شدہ فریق ہیں، اور Chevron کی شمولیت گیس کی برآمد کو ممکن بنائے گی

جسے اسرائیلی وزیرِاعظم “تاریخی لمحہ” قرار دے رہے ہیں، وہ درحقیقت عہدِ حاضر میں قدرتی وسائل کی لوٹ مار کی ایک نہایت منظم اور مکروہ مثال ہے۔

جن تین گیس میدانوں، کارِش (Karish)، لیویاتھن (Leviathan) اور ثمر (Tamar) سے اسرائیل گیس حاصل کر رہا ہے، ان میں سے لیویاتھن اور ثمر غزہ کے ساحلوں سے متصل سمندری حدود میں واقع ہیں، جبکہ کارِش لبنان کے متنازع پانیوں میں آتا ہے۔ اہلِ غزہ اور لبنان کا یہ دعویٰ محض جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے سمندری قوانین (UNCLOS) کی روح کے عین مطابق ہے۔ مگر توانائی کی عالمی منڈی میں “حق” کا تعین اب نقشوں سے نہیں، طاقت سے ہوتا ہے۔

ثمر: فلسطین کا درخت، اسرائیل کی فصل

یہ وہی ثمر ہے جسے 2012 میں مصر کے منتخب صدر محمد مورسی نے فلسطین اور لبنان کی مشترکہ ملکیت قرار دیا تھا۔ مرسی معزول ہوئے، قید میں مارے گئے، اور آج وہی ثمر اسرائیل کی توانائی خودکفالت اور یورپ کی گیس فراہمی کا مرکزی ستون بن چکا ہے۔

یورپ کی دوغلی اخلاقیات

روس یوکرین جنگ کے بعد یورپ کو فوری طور پر متبادل گیس درکار تھی، اور اس ضرورت نے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا۔ قاہرہ میں دستخط ہونے والی مفاہمت کی یادداشت میں نہ غزہ کا ذکر ہے نہ فلسطین و لبنان کا، مگر انہی ساحلوں سے نکالی گئی گیس یورپی شہروں کو روشن اور گرم کرے گی۔یہ وہ مقام ہے جہاں انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور قومی خودمختاری سب کچھ “انرجی سکیورٹی” کے نام پر قربان کر دیا جاتا ہے۔

اماراتی انٹری: خاموش مگر فیصلہ کن

تین سال قبل متحدہ عرب امارات کی مبادلہ پیٹرولیم نے ثمر فیلڈ میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اس وقت اسے محض ایک کاروباری فیصلہ سمجھا گیا، مگر آج واضح ہو چکا ہے کہ یہ بحیرۂ روم میں جغرافیائی جڑیں مضبوط کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی۔سونے کی خاطر سوڈانیوں کا خون بہانے والے محمد بن زید کو اب خلیج کے ساتھ ساتھ بحیرۂ روم میں بھی ایک مستقل “ٹھکانہ” مل چکا ہے، جبکہ فلسطینی ایک بار پھر نقشے سے غائب ہیں۔

قانون یا قوت؟

کارِش اور ثمر گیس فیلڈز پر لبنان کا دعویٰ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، اور امریکہ نے اس تنازع پر ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔ عالمی قوانین کے مطابق لیویاتھن فلسطینیوں کی ملکیت ہے، مگر عالمی سیاست میں سوال یہ نہیں کہ دعویٰ کس کا درست ہے، سوال یہ ہے کہ بحری بیڑا کس کے پاس ہے؟ نسل کشی کا شکار اہل غزہ اپنی فریاد لے کر کہاں جائیں جب  اپنا بھائی  ان سے چوری کئے مال کو اخلاقی تحفظ دے رہاہو

ہم نے 15 جون 2022 کو اپنے ایک کالم میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، آج ان کی تصدیق ہو چکی ہے۔ فلسطین کی زمین ہو یا اس کا سمندر، دونوں کی لوٹ مار عالمی منڈی کی رضا مندی سے جاری ہے۔ بحرِ روم کی گیس یورپ کے گھروں کو گرم کرے گی، مگر غزہ کے ساحلوں پر سرد سناٹا ہی رہے گا۔


No comments:

Post a Comment