بارش،
بھوک، بارود اور بے حسی کا عالمی اتحاد
غزہ میں اس وقت
صرف بارود ہی نہیں برس رہا، موسم بھی بے رحم ہو چکا ہے۔ طوفانی بارشیں، سرد ہوائیں
اور اسرائیلی گولیاں، تینوں ایک ساتھ حملہ آور ہیں۔ خیمے اڑ چکے ہیں، جو بچے تھے
وہ پانی میں ڈوب گئے۔ مرمتی سامان کی عدم دستیابی نے ان بوسیدہ پناہ گاہوں کو
دوبارہ کھڑا کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ وقفے وقفے سے بارش، سرد ہوائیں اور ساتھ ہی
اسرائیلی نشانچیوں کی مشق۔ یہ ہے جنگ بندی کے سائے میں غزہ کی زمینی حقیقت۔
خیموں
پر بارش، لاشوں پر خاموشی
خوراک کی تلاش میں دو نوجوانوں
نے غلطی سے جنگ بندی کی پیلی لکیر کی دوسری طرف پاوں رکھا اور فوراًاسرائیلی نشانچیوں کا ہدف بن گئے۔ ایک دن
پہلے غزہ شہر کے التفاح محلے میں شادی کی تقریب پر اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری
کی، چھ افراد جاں بحق ہوئے۔ حسبِ روایت وضاحت آئی کہ “غلطی” ہو گئی، ہدف دہشت گرد
تھے۔ یہی منطق ایک ہفتہ قبل چھ سالہ سندس کی جان لینے والے ڈرون حملے میں بھی دی
گئی تھی کہ بچوں کی دوڑ بھاگ “خطرہ” محسوس ہوئی۔
مکمل ناکہ بندی کے باعث گرم کپڑے میسر
نہیں۔ پچھلے ہفتے 14 دن کا محمد خلیل ابو الخیر ماں کے سینے سے لپٹا ٹھٹھر کر دم
توڑ گیا۔ امن معاہدے کی پہلی شرط امداد پر پابندیوں کا خاتمہ تھی، مگر نہ صرف ناکہ
بندی برقرار ہے بلکہ خیموں اور گرم کپڑوں کی غزہ آمد پر مزید قدغنیں عائد کر دی
گئی ہیں۔
آئی پی
سی رپورٹ: غذائی صورتحال سنگین تر
آئی پی سی (Integrated Food Security Phase Classification) اقوامِ متحدہ اور عالمی
امدادی اداروں کا تسلیم شدہ تکنیکی فریم ورک ہے، جو کسی بھی خطے میں غذائی قلت اور
بھوک کی شدت کو پانچ درجوں میں تقسیم کرتا ہے:
فیز 1 (معمول)، فیز 2 (دباؤ)، فیز 3 (سنگین)، فیز 4 (ایمرجنسی) اور
فیز 5 (تباہ کن/قحط)۔یہ درجہ بندی انسانی بحران کی شدت ناپنے کا عالمی معیار سمجھی
جاتی ہے۔
آئی پی سی کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی اس وقت مجموعی طور پر
ایمرجنسی فیز 4 میں ہے۔ اگرچہ 10 اکتوبر کے بعد امداد میں اضافے کے باعث صورتحال
جولائی اور اگست کی نسبت کچھ بہتر ہوئی ہے، مگر شدید غذائی عدم تحفظ، خوراک کی قلت
اور ناقص صحت و صفائی بدستور لاکھوں افراد، خصوصاً بچوں، کو متاثر کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد اب بھی فیز 5، یعنی تباہ کن سطح پر موجود
ہیں۔
اس رپورٹ کو اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ادارے کوگاٹ (COGAT) نے مکمل طور پر مسترد کرتے
ہوئے امدادی ٹرکوں اور خوراک کی بڑی مقدار کا حوالہ دیا ہے۔ جب بڑی طاقتیں پشت پر
ہوں تو انکار کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔سوال مقدار نہیں بلکہ رسائی، منصفانہ تقسیم اور تسلسل ہے۔ خوراک کا
داخل ہونا اور بھوک کا ختم ہونا ایک جیسی بات نہیں۔ جب لاکھوں انسان صرف “زندہ
رہنے” کی حد تک خوراک پائیں، تو اسے بہتری نہیں کہا جا سکتا، یہ محض بحران کی
طوالت ہے۔
دورِ
حاضر کے غارتگر
غزہ میں جنگ بندی کے باوجود تباہی کا سلسلہ
جاری ہے۔ امریکی سیٹلائٹ کمپنی Planet
Labs کی تصاویر بتاتی
ہیں کہ مشرقی غزہ، شجاعیہ، خان یونس اور رفح میں عمارتوں کی منظم مسماری جاری ہے، حتیٰ
کہ وہ عمارتیں بھی مہندم کی جارہی ہیں جو جنگ کے دوران بڑی حد تک محفوظ رہیں۔
برطانیہ کے تحقیقی ادارے Forensic Architecture کے مطابق، جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فوج نے
“پیلی لکیر” کے ساتھ 48 نئے اڈے قائم کئے اور خان یونس و رفح میں پورے محلوں کو
رہائش کے قابل نہ چھوڑا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے UN Satellite Centre (UNOSAT) نے تفصیلی جائزے کے بعد کہا ہے کہ غزہ کی
81 فیصد عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
یہ غارتگری کسی وحشی لشکر کی نہیں بلکہ ایک
جدید ریاست کی ہے، جو قانون اور سلامتی کے نام پر پورے علاقے کو نقشے سے مٹا رہی
ہے۔ دورِ حاضر کے غارتگر تلوار نہیں اٹھاتے۔ وہ بلڈوزر، سیٹلائٹ اور خاموش عالمی
ضمیر پر انحصار کرتے ہیں۔تصویر کی صورت خلا
سے شہادت تو آجاتی ہے لیکن زمین پر جواب دہی کہیں نظر نہیں آتی۔
غزہ
میں فوج؟ اسلام آباد کی آزمائش
امریکی خبر رساں اداروں کے
مطابق امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ مجوزہ بین الاقوامی “اسٹیبلائزیشن
فورس” کیلئے فوجی فراہم کرے۔اطلاعات
ہیں کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر جلد ہی واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے
جہاں غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبے پر گفتگو متوقع ہے۔ اگر
پاکستان نے اپنے دستے غزہ بھجنے سے انکار کیا تو صدر ٹرمپ ناراض ہو سکتے ہیں جبکہ امریکہ
کا مطالبہ ماننے کی صورت میں عوام کی جانب سے شدید ردعمل کا خدشہ ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی میڈیا کہہ رہا کہ اسلام آباد نے اس حوالے
سے کچھ شرائط پیش کی ہیں جس کے مطابق پاکستانی
فوج غزہ میں شہری مراکز سے دور امدادی سرگرمیوں اور جنگ بندی کی نگرانی کریگی۔
مزاحمت کاروں سے تصادم یا انھیں غیر مسلح کرنے کی کسی مہم میں حصہ نہیں لیا
جائیگا۔ پاکستانی فوج صرف اسی صورت غزہ جائیگی جب ترک فوجی دستے بھی وہاں موجود ہوں۔فلسطینی ماہی گیروں کو تحفظ
فراہم کرنے کیلئے ترک و پاک بحریہ غزہ کے ساحل پر جہاز تعینات کرینگی۔ زمینی فوج
کو فضائی تحفظ (Air Cover) دینے کیلئے اردن میں فضائی اثاثے رکھے جائینگے ۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ مارکو
روبیو نے پاکستانی شرائط کے بارے میں تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ واضح مینڈیٹ
اور دوٹوک(TOR) Term of Referenceکے
بغیر وہ کسی بھی ملک کی جانب سے فوجی تعیناتی کی توقع نہیں کرتے۔بظاہر لگ رہا ہے کہ پاکستان
کی شرائط امریکہ کیلئے قابل قبول نہیں اسی
لئے جناب روبیو نے ایتھیوپیا سے فوج بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ ایتھوپین وزیراعظم
ابی احمد سے فون پر گفتگو میں انھوں نے مبینہ طور پر مالی منفعت کی پیشکش بھی کی۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
گزشتہ ہفتے، امریکہ کے ری
پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے
بعد کہا کہ غزہ کے مزاحمت کار نہ تو غیر مسلح ہو رہے ہیں اور نہ ہی اقتدار چھوڑنے
کے موڈ میں ہیں، بلکہ وہ دوبارہ مسلح اور منظم ہو رہے ہیں۔ فاضل سینیٹر نے یہ بھی
فرمایا کہ لبنان میں حزب اللہ مزید اسلحہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سینیٹر گراہم
نے 2026 کو “امن ” اور “برے کردار کو ختم کرنے” کا سال قرار دینے کی خواہش کا
اظہار بھی کیا۔
امریکی سینیٹر کا یہ بیان دراصل جنگی جنون کو نئی اخلاقی ملمع کاری
فراہم کرنے اور خطے میں جاری خونریزی کے لیے جواز اور بیانیہ تراشنے کی ایک دانستہ
کوشش ہے۔ سینیٹر صاحب نے “برے کردار” کی اصطلاح جان بوجھ کر مبہم رکھی۔ انہوں نے
یہ وضاحت ضروری نہ سمجھی کہ آخر وہ کردار کون ہے جو پورے خطے کے امن کے لیے سب سے
بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ حالانکہ زمینی حقائق کسی ابہام کے محتاج نہیں۔
اس وقت غزہ کی غیر قانونی و غیر انسانی ناکہ بندی، امداد پر
قدغنیں، شہری علاقوں پر مسلسل حملے، شادی کی تقریبات اور جنازوں کو نشانہ بنانا،
اور غربِ اردن میں گھروں کی منظم مسماری جیسے انسانیت کش اقدامات کسی مزاحمتی گروہ
کے نہیں بلکہ ایک ریاست کے ہیں۔ یہ سب وہ حقائق ہیں جن پر “برے کردار” کی تعریف
پوری اترتی ہے، مگر واشنگٹن کے جنگ پسند حلقے انہیں دیکھنے سے گریزاں ہیں۔
غربِ
اردن: پتھر کے جواب میں گولی
غزہ کے ساتھ ساتھ غربِ اردن میں صورتحال دن
بدن سنگین ہو رہی ہے۔ جنین، قباطیہ اور نور شمس پناہ گزین کیمپ، ہر جگہ ایک ہی
کہانی ہے۔ بچوں کے پتھراو کے جواب میں مشین گن، جنازوں پر فائرنگ، گھروں کی مسماری
اور غیر ملکی مبصرین پر پابندیاں۔ حتیٰ کہ کینیڈا کے ارکانِ پارلیمان کو بھی غربِ
اردن کے دورے سے روک دیا گیا۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب عالمی برادری “امن” کے
بیانات میں مصروف ہے۔
جہاں فصل اُگتی تھی، اُب کالونی اگے گی
اسرائیلی حکومت نے غربِ اردن میں فلسطینیوں کو بے دخل کر کے 19
اسرائیلی کالونیاں (Settlements) بنانے کی منظوری دیدی ہے، جسکے نتیجے میں مزید کئی ہزار فلسطینی بے گھر ہوجائینگے۔ اس سال مجموعی
طور پر 210 نئی کالونیاں بسائی گئی ہیں۔ جنین کے جن 19 علاقوں سے فلسطینیوں کوبے
دخل کیا جارہا ہے وہاں بڑے پیمانے پر ٹماٹر، سنگترے اور سبزیوں کی کاشت ہوتی ہے۔
بحرِ
روم کی گیس: فلسطین کا حق، یورپ کی سہولت
مصر و اسرائیل نے گیس برآمد کے ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔ جس
کے تحت لیویاتھن (Leviathan) گیس میدان سے 2040 تک 34 ارب 70 کروڑ ڈالر کے عوض 130 ارب مکعب میٹر (130bcm)گیس مصر کو فراہم کی جائیگی
جو اسے LNGمیں تبدیل کرکے یورپ کو
فروخت کریگا۔
جن تین گیس میدانوں، کارِش (Karish)، لیویاتھن (Leviathan) اور ثمر (Tamar) سے اسرائیل گیس حاصل کر رہا
ہے، ان میں سے لیویاتھن اور ثمر غزہ کے ساحلوں سے متصل سمندری حدود میں واقع ہیں،
جبکہ کارِش لبنان کے متنازع پانیوں میں آتا ہے۔ اہلِ غزہ اور لبنان کا یہ دعویٰ
محض جذباتی نعرہ نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کے سمندری قوانین (UNCLOS) کی روح کے عین مطابق ہے۔ مگر
توانائی کی عالمی منڈی میں “حق” کا تعین اب نقشوں سے نہیں، طاقت سے ہوتا ہےچنانچہ یورپی
یونین نے گیس کی ضرورت پوری کرنے کیلئےاخلاقیات
کو پسِ پشت ڈال دیا ۔ مصر اور دیگر فریقین اسے “غیر سیاسی” قرار دے رہے ہیں، مگر
جب ملکیت متنازع ہو تو تجارت غیر سیاسی نہیں رہتی اور مصر کا موقف عذرِ گناہ بدتر
از گناہ کی ایک شکل ہے۔
غزہ کے
بچے! استقامت کے کوہِ گراں
غزہ کے بچے شاید تاریخ کی سب سے مضبوط نسل
ہیں۔ نو سالہ الہام، تیرہ سالہ رہف، چھ سالہ محمد، سب ملبے میں سے زندگی چن رہے
ہیں۔ ماں باپ کے بغیر، چھوٹے بہن بھائیوں کے سہارے، ٹوٹے گھروں کو دوبارہ بنانے کا
عزم،یہ وہ استقامت ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ملتی ہے۔ آج چھ سالہ محمد الیازجی کا
ذکر جسکا سارا خاندان ملبے تلے آگیا لیکن
اللہ نے محمد اور اسکی چھ ماہ کی بہن تالین کو سلامت رکھا۔ یہ معصوم بچہ ایک شفیق
ماں کی طرح اپنی بہن کو 'پال' رہا ہے۔ الجزیرہ کے نمائندے نے جب محمد اورتالین کو
دیکھا تو اس بچے کے سلیقے اور بہن کیلئے اسکی محبت دیکھ کر حیران رہ گیا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 دسمبر 2025
ہفت روزہ دعوت سرینگر 26 دسمبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 28 دسمبر 2026
No comments:
Post a Comment