اسرائیل نے اپنے قیدیوں کی بازیابی کے بعد
فلسطینیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا
رہائی کیلئے غزہ میں منعقد کی جانیوالی
عوامی تقریب اسرائیل کیلئے توہین آمیز قرار
اہل غزہ نے معصوم اسرائیلی بچوں کو گلا گھونٹ
کر ہلاک کیا۔ نیتن یاہوکا الزام
یہ بچے اسرائیلی بمباری میں
17881فلسطینی نونہالوں کی طرح قتل ہوئے
اہل غزہ نے زندہ اسرائیلی قیدیوں کو معاہدے
میں طئے مدت سے 8 دن پہلے رہا کردیا
وادی اردن میں خوفناک فوجی آپریشن
برازیل کے بعد ہالینڈ آنے والے اسرائیلی
سپاہیوں پر نسل کشی میں سہولت کاری کا مقدمہ
بحر مردار کے ساحل پر قدموں کے نشانات ۔
اسرائیلی فوج میں سراسیمگی
جنگ دوبارہ شروع کرنے کیلئے صدر ٹرمپ کے مبہم اصرار اور
بدعنوانی و بے ایمانی کے الزامات میں جیل جانے کے ڈر سے اسرائیلی وزیراعظم جنگ کو
طول دینے کے خواہشمند ہیں۔غزہ جانے والے امدادی سامان کا راستہ رکوادینے کیساتھ 22
فروری کو انھوں نے 6 اسرائیلی قیدیوں کے عوض 602 فلسطینیوں کو رہا کرنے سے عین وقت
پر انکار کرکے عارضی جنگ بندی معاہدے کو عملاً معطل کردیا۔ ہم نے 'عین' اسلئے لکھا
کہ ان قیدیوں کو رہائی پر پہنانے کیلئے ٹی شرت کی 'رونمائی' بھی ہوچکی تھی جس پر
عربی میں لکھا ہے کہ 'ہم اپنے دشمنوں کا تعاقب
کرکے انھیں پکڑتے ہیں اور انکی بربادی تک چین سے نہیں بیٹھتے'۔شکنجوں میں جکڑے بے
بس قیدیوں کے سامنے بزدل و کم ظرف ہی ایسی شیخی بگھارتے ہیں۔
مزاحمت کاروں کو خوفزدہ کرنے
کیلئے ایک بصری تراشہ اسرائیلی فوج نے جاری کیا ہے جس میں کمال عدوان ہسپتال کے
ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ ہتھکڑی اور بیڑیوں سے جکڑے نظر آرہے ہیں۔مایہ ناز
ماہر اطفال ڈاکٹر ابو صفیہ کی عمر 51 سال ہے لیکن بدنام زمانہ عقوبت کدے عوفر جیل
میں ہونے والے بدترین تشدد نے ڈاکٹر صاحب کی حالت خراب کردی ہے اورلنگڑاتے ہوئے وہ
انتہائی ضعیف لگ رہے ہیں۔ بے گناہ قیدی پر تشدد ایسی کونسی بہادری ہے کہ جس کی
نمائش کی جائے؟۔
اس سے پہلے وعدے اور
معاہدےکے مطابق اہل غزہ نے 20 فروری کو ایک خاتون شری بیباس (Shiri Bibas)، اسکے دو بچوں اور ایک 85 سالہ مرد عدد لفشز (Oded Lifshitz)کی لاشیں اقوام متحدہ کے حوالے کردیں۔ یہ تمام لوگ
نومبر 2023 میں اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوئے جنھیں امانتاً غزہ کے بنی سہیلہ
قبرستاں میں دفنا دیاگیا تھا۔ چار سالہ ایریل اور 10 ماہ کے فیر کے تابوت پر اہل
غزہ نے سوگوار بیباس خاندان کیلئے عربی اور عبرانی میں یہ پیغام لکھدیا کہ 'کاش ہم
ان بچوں کو تمہاری طرف زندہ بھیجتے لیکن تمہارے جنگجو رہنماؤں نے 17881فلسطینی نونہالوں
کےساتھ انھیں بھی قتل کردیا'
بچوں کے تابوت وصول ہوتے ہی
اسرائیلی و امریکی رہنماوں نے جھوٹ کا طوفان کھڑا کردیا اور ان معصوم بچوں پر تشدد
اور انکی ہلاکت کی ایسی روح فرسا داستانیں پھیلائی گئیں کہ جنھیں پڑھ کر ہر سلیم
الفطرت انسان کومزاحمت کاروں سے نفرت ہوجائے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ان بچوں کو
مزاحمت کاروں نے انکی ماں کے سامنے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا اور پھر بدترین تشدد
کرکے شری بیباس کو قتل کردیا۔انتہا پسندوں نے الزام لگایا کہ قتل سے پہلے شری
بیباس کو بے آبرو بھی کیا گیا۔ اس بات پر صدر ٹرمپ اتنے مشتعل ہیں کہ انھوں نے
فرمایا'اب بی بی جو چاہے کریں، امن معاہدہ برقرار رکھیں یا غزہ پر چڑھ دوڑیں،
امریکہ دونوں صورتوں میں اسرائیل کی پشت پر ہوگا' اسی دوران لاشوں کے تجزئے کے بعد اسرائیلی حکام نے کہا کہ Forensicتجزئے کےدوران بچوں کی باقیات
کی تو شناخت ہوگئی لیکن انکی ماں شری بیباس کی لاش کی شناخت نہ ہوسکی۔ جس پر اہل
غزہ کا کہنا تھا کہ بمباری میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے اور اسوقت DNA کی سہولت موجود
نہیں تھی اسلئے اندازے سے سنگِ مرقد پر نام لکھے گئے تھے۔ مزاحمت کاروں نے دوسری
قبر سے باقیات نکال کر اقوام متحدہ کے حوالے کردیں اور ماہرین نے تصدیق کردی کہ یہ
شری بیباس کی میت ہے۔
اتفاق کہ اسی روز قلبِ تل
ابیب کے مرکزی لاری اڈے پر ایک ریموٹ کنٹرول بم حملے میں چار بسیں جل کر خاک
ہوگئیں۔ واقع میں کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔لیکن خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)کے
مطابق جمعرات کی شام نصب کئے جانیوالے بموں کو دوسرے دن صبح انتہائی رش کے وقت
قیامت برپا کرنی تھی۔اسرائیلیوں کی خوش قسمتی کہ پروگرامنگ میں سہو کی وجہ سے یہ بم قبل از وقت
پھٹ گئے۔ چند گھنٹوں کی تحقیقات میں شاباک نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ بم نصب کرنے
والے دہشت گرد شمالی غرب اردن کے شہر جنین سے آئے تھے۔ جنین، طولکرم اور وادی اردن
اور اس سے ملحقہ وادیوں میں اسرائیلی فوج نے گزشتہ دوماہ سے خوفناک آپریش شروع
کررکھا ہے۔ شاباک کی 'رپورٹ' سامنے آتے ہی وزیردفاع اسرائیل کاٹز کی قیادت میں ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں کے قافلے شمالی غربِ اردن میں وادی
یزرائیل ( Jezrael)پہنچ
گئے۔جنین اور اسکے مضافاتی علاقے مقیبلہ (Muqeible)سے 40 ہزار افراد کو انکے گھروں سے نکال کے اردنی سرحد کی طرف ہانک
دیا گیا۔اس وادی کا نام کئی صدیوں سے مرج ابو عامرتھا۔زرخیزی کی وجہ سے قدیم
اسرائیلی اسے زرعین بھی کہتے تھے۔ اسرائیلی قبضے کے بعد زرعین کو اللہ کی رحمت یا
یزرائیل کا نام دیدیا گیا۔ قبضہ گردی کو سندِ جواز افراہم کرنے کیلئے فلسطینی
علاقوں کے ناموں میں تبدیلی کی مہم کئی سال سے جاری ہے جیسے غربِ اردن اب اسرائیلی
نقشوں میں یہوداو السامرہ ہے۔
ان
اشتعال انگیزی بلکہ درندگی کے باوجود اہل غزہ نے معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھتے
ہوئے 22 فروری کو چھ اسرائیلی اقوام متحدہ کے حوالے کردئے۔ حالانکہ معاہدے میں جو
نظام الاوقات طئے ہوا تھا اسکے مطابق 22 فروری کو تین قیدی، 27 فروری کو چار لاشیں اور پھر 2 مارچ کو تین
قیدی حوالے کرنے تھے۔ یعنی مزاحمت کاروں نے زندہ قیدیوں کی رہائی معاہدے میں دی
گئی مدت سے آٹھ دن پہلے ہی مکمل کرلی۔ اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ 2 مارچ کو
رہاہونے والوں میں ایک عرب بدو ہشام السید بھی شامل ہے اور اہل غزہ چاہتے تھے کہ
ہشام رمضان کے آغاز سے پہلے اپنے گھر پہنچ جائے، ہشام اور حبشہ نژاد اویرا منگسٹو
دس سال سے اہل غزہ کی قید میں تھے۔ اب صرف چار لاشوں کی حوالگی کا مرحلہ باقی ہے
جو اگر معاہدہ باقی رہا تو 27 فروری کو مکمل ہوجائیگا۔قیدیوں
کی رہائی کی جگہ لگے ایک بل بورڑکی اسرائیلی ذرایع ابلاغ نے خوب تشہیر کی۔ بورڈ پر
حضرت موسیٰؑ سے اللہ کے کلام کا ذکر ہے جس میں ملاقات کے دوران حضرت کو انکے رب نے
جوتے اتارنے کا حکم دیا تھا فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ
بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (سورہ طٰہ آئت 12)۔ اس
آئت کےتناظر میں بل بورڈ پر لکھاہے 'اپنے جوتے اتاردو کہ اس مقدس سرزمین کا چپہ چپہ شہدا کے مقدس خون
سے رنگین ہے'۔ حوالگی کے دوران ایک
قیدی نے حسنِ سلوک کے اعتراف میں اپنی نگرانی پر مامور بانکے کا ماتھا چوم لیا۔
یہ مناظر
دیکھ کر اسرائیل کے انتہا پسند سخت مشتعل ہوگئے اور وزیراعظم کے زیرصدارت ایک
ہنگامی اجلاس میں، وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز، وزیرخارجہ گدون سعر،انتہاپسند وزیرخزانہ اسموترچ اور پاسبان توریت (Shas)پارٹی کے سربراہ آریہ مخلوف درعی نے وزیراعظم کو فلسطینی
قیدیوں کی رہائی معطل کرنے کا مشورہ دیا۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم نے فلسطینیوں کی رہائی یہ کہہ کر روکدی کہ غزہ میں منعقد کی جانیوالی
عوامی تقریب اسرائیل کیلئے توہین آمیز ہے۔ انکا کہنا تھاکہ 'دہشت گرد' تقریب کو اسرائیل کیخلاف گھناونے
پروپیگنڈتے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ بی بی نے کہا کہ جب تک ہمیں یہ ضمانت نہیں مل جاتی کہ
اسرائیلی قیدیوں کو "ذلت آمیز" تقریب
کے بغیر آزاد کیا جائیگا، کوئی فلسطینی قیدی رہا نہیں ہوگ۔تاہم فوجی حکام کو اس فیصلے پر شدید تحفظات ہیں اور انکا
خیال ہے کہ اس سے مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کھٹائی میں پڑسکتی ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین نے بھی فلسطینی
قیدیوں کی رہائی معطل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ اپنے انتہا
پسند اتحادیوں کو خوش کرنے کے کیلئے نیتن یاہو نے یہ قدم اٹھایا ہے جس سے مزید
قیدیوں کی رہائی متاثر ہوسکتی ہے ۔ حوالہ: Walla
Newsاسرائیل۔ تجزیہ
نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کی آشیر واد پر نیتن یاہو جنگ بندی معاہدہ ختم کرکے غزہ
پر فضائی حملے دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔
پہلا مرحلہ مکمل ہونے سے
پہلے ہی مستقل جنگ بندی کیلئے بات چیت شروع ہونی تھی لیکن مذاکرات اب تک شروع نہیں
ہوئے۔ چند روز پہلےاسرائیلی ٹیلی ویژن Ynet کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وزارت دفاع
کے اعلیٰ حکام نے بتایا تھا کہ نیتن یاہو ناقابل قبول شرائط عائد کرکے دوسرے مرحلے
کے مذاکرات کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دینا چاہتے ہیں۔
اسرائیل میں عوامی سطح پر
حیرت اور غصے کا اظہار ہورہا ہے کہ جس معاہدے کے تحت اسرائیلی قیدی اب رہا ہورہے
وہ پہلے کیوں نہیں ہوا؟ ۔ اس بارے میں ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 'سینئر حکومتی ذرائع' نے بتایا کہ معاہدے
میں تاخیر، ڈائریکٹرموساد ڈیوڈ برنی اور اندرونی خفیہ ادارے شاباک (Shin Beit) کے سربراہ رونن بار کے
اقدامات کی وجہ سے ہوئی ۔ جبکہ ان دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ بی بی انے انکے ہاتھ
باندھ رکھے تھے، جسکی وجہ سے انکی وزیراعظم سے کئی بار منہہ ماری بھی ہوئی۔اسی لئے
دوسرے مرحلے کے مذکرات کیلئے اسرائیل وفد کی قیادت اب بی بی کے معتمد وزیر
تزویراتی امور ران ڈرمر کریں گے۔بات چیت سے پہلے ہی بی بی نے مذاکرات کو سوتاژ
کرنے کیلئے وہ شرائط رکھدیں ہیں جن پر غزہ کے بانکے کبھی آمادہ نہیں ہونگے۔ مثال
کے طور پر اسرائیل چاہتا ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈالدیں۔اسی دن وزیرتزویراتی امور ران ڈرمر نے اعلان کیا کہ امن
معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کا لبنان سے انخلا مکمل ہوگیا لیکن اسرائیلی سرحد سے
متصل لبنانی حدود میں پانچ چوکیوں کاقبضہ اسرائیل نہیں چھوڑیگا۔ لبنان کے ساتھ بی
بی کی نظریں شام پر بھی ہیں، 24 فروری کو انھوں نے کہا کہ انتہا پسند شامی حکومت سے جنوبی شام کی دروز
برادری کو سخت خطرہ ہے،
چانچہ اسرائیل، دمشق کے جنوبی علاقے میں شامی فوج یا تحریر
الشام(HTS) کے
دستوں کو داخل نہیں ہونے دیگا۔ ترکیہ کے بارے میں بھی اسرائیل کی نیت
میں فتور نظر آرہا ے۔ گزشہ ہفتے تل ابیب کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹروں کےوفد
سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے کہا کہ ایران، لبنانی مزاحمت کاروں کی مدد کیلئے رقم اور دوسرے
وسائل فراہم کررہا ہے اور نقدی کی لبنان اسمگلنگ میں ترکیہ کی سہولت کاری کے شواہد
ملے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا بی بی کی شوخیاں ٹرمپ انتظامیہ کی نازبرداریوں کی
بنا پر ہیں۔ اپنے باس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور شری بیباس کے بچوں کے المناک 'قتل'
پر آنسو بہاتے ہوئے وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دھمکی دی کہ مزاحمت کار تمام قیدیوں کو فوراً رہا کردیں ورنہ
انکا خاتمہ کردیا جائیگا۔ بی بی مسلسل یہ تاثر دے رہے
ہیں مستقل جنگ بندی کیلئے، مزاحمت کاروں کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالناہوگا۔
کیا دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں یہی امریکہ اور اسرائیل کا بنیادی یا deal breaker موقف ہوگایا یہ 'اوپر سے
آکر' مرعوب کرنے کی ایک کوشش ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ بی بی نے اپنے انتہا پسند
اتحادیوں کی انا کی تسکین کیلئے شیخی بگھاری ہو۔
امریکہ اور یورپ کی غیر
مشروط مدد کے علی الرغم ، صابر اور پرعزم اہل غزہ سے یکجہتی کا سلسلہ بھی جاری یے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ ہتھیانے کی کوششوں کے خلاف بطور احتجاج ، آئر لینڈ کی
قائدحزب اختلاف میری لو میکڈانلڈ نے وہائٹ ہاوس کی سینٹ پیٹرکس ڈے تقریبات کا
بائیکات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئرش دنیا کا یہ تہوار 17 مارچ کو منایا جائیگا۔
گزشتہ نشست میں ہم نے برازیل کا ذکر کیا تھا جہاں تفریح کیلئے آنے والے اسرائیلی
فوجیوں کے خلاف نسل کشی کا پرچہ کاٹا گیا۔ اس ہفتے ایسا ہی واقعہ ایمسٹرڈیم
(ہالینڈ) میں پیش آیا۔ جہاں اسرائیل کے دوسپاہی تفریح کیلئے آئے تھے۔دونوں نے غزہ
میں اپنی بربریت کی تصاویر بہت فخر سے سوشل میڈیا پر دی تھیں۔ان وحشیوں کے تعاقب
میں سرگرم، ہند رجب فاونڈیشن نے عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے فیصلے کی روشنی میں انکی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور انسانی حقوق
کے وکلا نے فوجیوں کے خلاف قانونی درخواست دیدی۔ اسرائیلی خفیہ ادارے نے پہلے تو
ان سپاہیوں کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدائت کی اور چینل 12 کے مطابق 19
فروی کو انھیں ہنگامی طور سے اسرائیل واپس بلالیا گیا۔
شیخی بگھارتےاسرائیلی ہلکی
سی آہٹ سے بھی خوفزدہ ہیں، 24فروری کو بحر
مردار (Dead Sea)کے شمالی
ساحل پر جب پیروں کے نشانات نظر آئے تو خفیہ ادراوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ ڈر ہے کہ اس
راستے سے غرب اردن کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔ خشکی سے گھری یہ نمکین نہر غرب
اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اسے بحر لوط بھی کہتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 فروری 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 28 فروری 2025
روزنامہ امت کراچی 28 فروری 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 مارچ 2025