Thursday, February 27, 2025

 

اسرائیل نے اپنے قیدیوں کی بازیابی کے بعد فلسطینیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا

رہائی کیلئے غزہ میں منعقد کی جانیوالی عوامی تقریب اسرائیل کیلئے توہین آمیز قرار

اہل غزہ نے معصوم اسرائیلی بچوں کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا۔ نیتن یاہوکا الزام

یہ بچے اسرائیلی بمباری میں 17881فلسطینی نونہالوں کی طرح قتل ہوئے

اہل غزہ نے زندہ اسرائیلی قیدیوں کو معاہدے میں طئے مدت سے 8 دن پہلے رہا کردیا

وادی اردن میں خوفناک فوجی آپریشن

برازیل کے بعد ہالینڈ آنے والے اسرائیلی سپاہیوں پر نسل کشی میں سہولت کاری کا مقدمہ

بحر مردار کے ساحل پر قدموں کے نشانات ۔ اسرائیلی فوج میں سراسیمگی

جنگ دوبارہ شروع کرنے کیلئے صدر ٹرمپ کے مبہم اصرار اور بدعنوانی و بے ایمانی کے الزامات میں جیل جانے کے ڈر سے اسرائیلی وزیراعظم جنگ کو طول دینے کے خواہشمند ہیں۔غزہ جانے والے امدادی سامان کا راستہ رکوادینے کیساتھ 22 فروری کو انھوں نے 6 اسرائیلی قیدیوں کے عوض 602 فلسطینیوں کو رہا کرنے سے عین وقت پر انکار کرکے عارضی جنگ بندی معاہدے کو عملاً معطل کردیا۔ ہم نے 'عین' اسلئے لکھا کہ ان قیدیوں کو رہائی پر پہنانے کیلئے ٹی شرت کی 'رونمائی' بھی ہوچکی تھی جس پر عربی میں لکھا ہے کہ 'ہم اپنے دشمنوں کا تعاقب کرکے انھیں پکڑتے ہیں اور انکی بربادی تک چین سے نہیں بیٹھتے'۔شکنجوں میں جکڑے بے بس قیدیوں کے سامنے بزدل و کم ظرف ہی ایسی شیخی بگھارتے ہیں۔

مزاحمت کاروں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ایک بصری تراشہ اسرائیلی فوج نے جاری کیا ہے جس میں کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ ہتھکڑی اور بیڑیوں سے جکڑے نظر آرہے ہیں۔مایہ ناز ماہر اطفال ڈاکٹر ابو صفیہ کی عمر 51 سال ہے لیکن بدنام زمانہ عقوبت کدے عوفر جیل میں ہونے والے بدترین تشدد نے ڈاکٹر صاحب کی حالت خراب کردی ہے اورلنگڑاتے ہوئے وہ انتہائی ضعیف لگ رہے ہیں۔ بے گناہ قیدی پر تشدد ایسی کونسی بہادری ہے کہ جس کی نمائش کی جائے؟۔

اس سے پہلے وعدے اور معاہدےکے مطابق اہل غزہ نے 20 فروری کو ایک خاتون شری بیباس (Shiri Bibas)، اسکے دو بچوں  اور ایک 85 سالہ مرد عدد لفشز (Oded Lifshitz)کی  لاشیں اقوام متحدہ کے حوالے کردیں۔ یہ تمام لوگ نومبر 2023 میں اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہوئے جنھیں امانتاً غزہ کے بنی سہیلہ قبرستاں میں دفنا دیاگیا تھا۔ چار سالہ ایریل اور 10 ماہ کے فیر کے تابوت پر اہل غزہ نے سوگوار بیباس خاندان کیلئے عربی اور عبرانی میں یہ پیغام لکھدیا کہ 'کاش ہم ان بچوں کو تمہاری طرف زندہ بھیجتے لیکن تمہارے جنگجو رہنماؤں نے 17881فلسطینی نونہالوں کےساتھ انھیں بھی قتل کردیا'

بچوں کے تابوت وصول ہوتے ہی اسرائیلی و امریکی رہنماوں نے جھوٹ کا طوفان کھڑا کردیا اور ان معصوم بچوں پر تشدد اور انکی ہلاکت کی ایسی روح فرسا داستانیں پھیلائی گئیں کہ جنھیں پڑھ کر ہر سلیم الفطرت انسان کومزاحمت کاروں سے نفرت ہوجائے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ان بچوں کو مزاحمت کاروں نے انکی ماں کے سامنے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا اور پھر بدترین تشدد کرکے شری بیباس کو قتل کردیا۔انتہا پسندوں نے الزام لگایا کہ قتل سے پہلے شری بیباس کو بے آبرو بھی کیا گیا۔ اس بات پر صدر ٹرمپ اتنے مشتعل ہیں کہ انھوں نے فرمایا'اب بی بی جو چاہے کریں، امن معاہدہ برقرار رکھیں یا غزہ پر چڑھ دوڑیں، امریکہ دونوں صورتوں میں اسرائیل کی پشت پر ہوگا' اسی دوران  لاشوں کے تجزئے کے بعد اسرائیلی حکام نے کہا کہ Forensicتجزئے کےدوران بچوں کی باقیات کی تو شناخت ہوگئی لیکن انکی ماں شری بیباس کی لاش کی شناخت نہ ہوسکی۔ جس پر اہل غزہ کا کہنا تھا کہ بمباری میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے اور اسوقت DNA کی سہولت موجود نہیں تھی اسلئے اندازے سے سنگِ مرقد پر نام لکھے گئے تھے۔ مزاحمت کاروں نے دوسری قبر سے باقیات نکال کر اقوام متحدہ کے حوالے کردیں اور ماہرین نے تصدیق کردی کہ یہ شری بیباس کی میت ہے۔

اتفاق کہ اسی روز قلبِ تل ابیب کے مرکزی لاری اڈے پر ایک ریموٹ کنٹرول بم حملے میں چار بسیں جل کر خاک ہوگئیں۔ واقع میں کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔لیکن خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet)کے مطابق جمعرات کی شام نصب کئے جانیوالے بموں کو دوسرے دن صبح انتہائی رش کے وقت قیامت برپا کرنی تھی۔اسرائیلیوں کی خوش قسمتی کہ  پروگرامنگ میں سہو کی وجہ سے یہ بم قبل از وقت پھٹ گئے۔ چند گھنٹوں کی تحقیقات میں شاباک نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ بم نصب کرنے والے دہشت گرد شمالی غرب اردن کے شہر جنین سے آئے تھے۔ جنین، طولکرم اور وادی اردن اور اس سے ملحقہ وادیوں میں اسرائیلی فوج نے گزشتہ دوماہ سے خوفناک آپریش شروع کررکھا ہے۔ شاباک کی 'رپورٹ' سامنے آتے ہی وزیردفاع اسرائیل کاٹز کی قیادت میں ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں کے قافلے شمالی غربِ اردن میں وادی یزرائیل ( Jezrael)پہنچ گئے۔جنین اور اسکے مضافاتی علاقے مقیبلہ (Muqeible)سے 40 ہزار افراد کو انکے گھروں سے نکال کے اردنی سرحد کی طرف ہانک دیا گیا۔اس وادی کا نام کئی صدیوں سے مرج ابو عامرتھا۔زرخیزی کی وجہ سے قدیم اسرائیلی اسے زرعین بھی کہتے تھے۔ اسرائیلی قبضے کے بعد زرعین کو اللہ کی رحمت یا یزرائیل کا نام دیدیا گیا۔ قبضہ گردی کو سندِ جواز افراہم کرنے کیلئے فلسطینی علاقوں کے ناموں میں تبدیلی کی مہم کئی سال سے جاری ہے جیسے غربِ اردن اب اسرائیلی نقشوں میں یہوداو السامرہ ہے۔

ان اشتعال انگیزی بلکہ درندگی کے باوجود اہل غزہ نے معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھتے ہوئے 22 فروری کو چھ اسرائیلی اقوام متحدہ کے حوالے کردئے۔ حالانکہ معاہدے میں جو نظام الاوقات طئے ہوا تھا اسکے مطابق 22 فروری کو تین قیدی،  27 فروری کو چار لاشیں اور پھر 2 مارچ کو تین قیدی حوالے کرنے تھے۔ یعنی مزاحمت کاروں نے زندہ قیدیوں کی رہائی معاہدے میں دی گئی مدت سے آٹھ دن پہلے ہی مکمل کرلی۔ اسکی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ 2 مارچ کو رہاہونے والوں میں ایک عرب بدو ہشام السید بھی شامل ہے اور اہل غزہ چاہتے تھے کہ ہشام رمضان کے آغاز سے پہلے اپنے گھر پہنچ جائے، ہشام اور حبشہ نژاد اویرا منگسٹو دس سال سے اہل غزہ کی قید میں تھے۔ اب صرف چار لاشوں کی حوالگی کا مرحلہ باقی ہے جو اگر معاہدہ باقی رہا تو 27 فروری کو مکمل ہوجائیگا۔قیدیوں کی رہائی کی جگہ لگے ایک بل بورڑکی اسرائیلی ذرایع ابلاغ نے خوب تشہیر کی۔ بورڈ پر حضرت موسیٰؑ سے اللہ کے کلام کا ذکر ہے جس میں ملاقات کے دوران حضرت کو انکے رب نے جوتے اتارنے کا حکم دیا تھا فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (سورہ طٰہ آئت 12)۔ اس آئت کےتناظر میں بل بورڈ پر لکھاہے 'اپنے جوتے اتاردو کہ اس مقدس سرزمین کا چپہ چپہ شہدا کے مقدس خون سے رنگین ہے'۔ حوالگی کے دوران ایک قیدی نے حسنِ سلوک کے اعتراف میں اپنی نگرانی پر مامور بانکے کا ماتھا چوم لیا۔

یہ مناظر دیکھ کر اسرائیل کے انتہا پسند سخت مشتعل ہوگئے اور وزیراعظم کے زیرصدارت ایک ہنگامی اجلاس میں، وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز، وزیرخارجہ گدون سعر،انتہاپسند وزیرخزانہ اسموترچ اور پاسبان توریت (Shas)پارٹی کے سربراہ آریہ مخلوف درعی نے وزیراعظم کو فلسطینی قیدیوں کی رہائی معطل کرنے کا مشورہ دیا۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم نے فلسطینیوں کی رہائی یہ کہہ کر روکدی کہ غزہ میں منعقد کی جانیوالی عوامی تقریب اسرائیل کیلئے توہین آمیز ہے۔ انکا کہنا تھاکہ 'دہشت گرد' تقریب کو اسرائیل کیخلاف گھناونے پروپیگنڈتے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ بی بی  نے کہا کہ جب تک ہمیں یہ ضمانت نہیں مل جاتی کہ اسرائیلی قیدیوں کو "ذلت آمیز" تقریب کے بغیر آزاد کیا جائیگا، کوئی فلسطینی قیدی رہا نہیں ہوگ۔تاہم فوجی حکام کو اس فیصلے پر شدید تحفظات ہیں اور انکا خیال ہے کہ اس سے مزید اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کھٹائی میں پڑسکتی ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین نے بھی فلسطینی قیدیوں کی رہائی معطل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ اپنے انتہا پسند اتحادیوں کو خوش کرنے کے کیلئے نیتن یاہو نے یہ قدم اٹھایا ہے جس سے مزید قیدیوں کی رہائی متاثر ہوسکتی ہے ۔ حوالہ: Walla Newsاسرائیل۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کی آشیر واد پر نیتن یاہو جنگ بندی معاہدہ ختم کرکے غزہ پر فضائی حملے دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔

پہلا مرحلہ مکمل ہونے سے پہلے ہی مستقل جنگ بندی کیلئے بات چیت شروع ہونی تھی لیکن مذاکرات اب تک شروع نہیں ہوئے۔ چند روز پہلےاسرائیلی ٹیلی ویژن Ynet کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وزارت دفاع کے اعلیٰ حکام نے بتایا تھا کہ نیتن یاہو ناقابل قبول شرائط عائد کرکے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دینا چاہتے ہیں۔

اسرائیل میں عوامی سطح پر حیرت اور غصے کا اظہار ہورہا ہے کہ جس معاہدے کے تحت اسرائیلی قیدی اب رہا ہورہے وہ پہلے کیوں نہیں ہوا؟ ۔ اس بارے میں ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق 'سینئر حکومتی ذرائع' نے بتایا کہ معاہدے میں تاخیر، ڈائریکٹرموساد ڈیوڈ برنی اور اندرونی خفیہ ادارے شاباک (Shin Beit) کے سربراہ رونن بار کے اقدامات کی وجہ سے ہوئی ۔ جبکہ ان دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ بی بی انے انکے ہاتھ باندھ رکھے تھے، جسکی وجہ سے انکی وزیراعظم سے کئی بار منہہ ماری بھی ہوئی۔اسی لئے دوسرے مرحلے کے مذکرات کیلئے اسرائیل وفد کی قیادت اب بی بی کے معتمد وزیر تزویراتی امور ران ڈرمر کریں گے۔بات چیت سے پہلے ہی بی بی نے مذاکرات کو سوتاژ کرنے کیلئے وہ شرائط رکھدیں ہیں جن پر غزہ کے بانکے کبھی آمادہ نہیں ہونگے۔ مثال کے طور پر اسرائیل چاہتا ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈالدیں۔اسی دن وزیرتزویراتی امور ران ڈرمر نے اعلان کیا کہ امن معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کا لبنان سے انخلا مکمل ہوگیا لیکن اسرائیلی سرحد سے متصل لبنانی حدود میں پانچ چوکیوں کاقبضہ اسرائیل نہیں چھوڑیگا۔ لبنان کے ساتھ بی بی کی نظریں شام پر بھی ہیں، 24 فروری کو انھوں نے کہا کہ انتہا پسند شامی حکومت سے جنوبی شام کی دروز برادری کو سخت خطرہ ہے، چانچہ اسرائیل،  دمشق کے جنوبی علاقے میں شامی فوج یا تحریر الشام(HTS)  کے دستوں کو داخل نہیں ہونے دیگا۔ ترکیہ کے بارے میں بھی اسرائیل کی نیت میں فتور نظر آرہا ے۔ گزشہ ہفتے تل ابیب کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹروں کےوفد سے باتیں کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے کہا کہ ایران،  لبنانی مزاحمت کاروں کی مدد کیلئے رقم اور دوسرے وسائل فراہم کررہا ہے اور نقدی کی لبنان اسمگلنگ میں ترکیہ کی سہولت کاری کے شواہد ملے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا بی بی کی شوخیاں ٹرمپ انتظامیہ کی نازبرداریوں کی بنا پر ہیں۔ اپنے باس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور شری بیباس کے بچوں کے المناک 'قتل' پر آنسو بہاتے ہوئے وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دھمکی دی کہ مزاحمت کار تمام قیدیوں کو فوراً رہا کردیں ورنہ انکا خاتمہ کردیا جائیگا۔ بی بی مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں مستقل جنگ بندی کیلئے، مزاحمت کاروں کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالناہوگا۔ کیا دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں یہی امریکہ اور اسرائیل کا بنیادی یا deal breaker موقف ہوگایا یہ 'اوپر سے آکر' مرعوب کرنے کی ایک کوشش ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ بی بی نے اپنے انتہا پسند اتحادیوں کی انا کی تسکین کیلئے شیخی بگھاری ہو۔

امریکہ اور یورپ کی غیر مشروط مدد کے علی الرغم ، صابر اور پرعزم اہل غزہ سے یکجہتی کا سلسلہ بھی جاری یے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے غزہ ہتھیانے کی کوششوں کے خلاف بطور احتجاج ، آئر لینڈ کی قائدحزب اختلاف میری لو میکڈانلڈ نے وہائٹ ہاوس کی سینٹ پیٹرکس ڈے تقریبات کا بائیکات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئرش دنیا کا یہ تہوار 17 مارچ کو منایا جائیگا۔ گزشتہ نشست میں ہم نے برازیل کا ذکر کیا تھا جہاں تفریح کیلئے آنے والے اسرائیلی فوجیوں کے خلاف نسل کشی کا پرچہ کاٹا گیا۔ اس ہفتے ایسا ہی واقعہ ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) میں پیش آیا۔ جہاں اسرائیل کے دوسپاہی تفریح کیلئے آئے تھے۔دونوں نے غزہ میں اپنی بربریت کی تصاویر بہت فخر سے سوشل میڈیا پر دی تھیں۔ان وحشیوں کے تعاقب میں سرگرم، ہند رجب فاونڈیشن نے عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے فیصلے کی روشنی میں انکی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور انسانی حقوق کے وکلا نے فوجیوں کے خلاف قانونی درخواست دیدی۔ اسرائیلی خفیہ ادارے نے پہلے تو ان سپاہیوں کو اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کی ہدائت کی اور چینل 12 کے مطابق 19 فروی کو انھیں ہنگامی طور سے اسرائیل واپس بلالیا گیا۔

شیخی بگھارتےاسرائیلی ہلکی سی  آہٹ سے بھی خوفزدہ ہیں، 24فروری کو بحر مردار (Dead Sea)کے شمالی ساحل پر جب پیروں کے نشانات نظر آئے تو خفیہ ادراوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ ڈر ہے کہ اس راستے سے غرب اردن کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔ خشکی سے گھری یہ نمکین نہر غرب اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اسے بحر لوط بھی کہتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 فروری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 فروری 2025

روزنامہ امت کراچی 28 فروری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 مارچ 2025


 

جرمنی کے عام انتخابات

قدامت پسندوں نے میدان مارلیا

مسلم مخالف، ایمگرنٹس دشمن AfDدوسرے نمبر پر

عالمی فوجداری عدالت کے پروانہ گرفتاری کے باوجود نیتن یاہو کو جرمنی آنے کی دعوت

یورپ کو امریکی اثرورسوخ سے آزاد کرانے کاعزم

جرمنی کے عام انتخابات میں قدامت پسندوں نے برتری حاصل کرلی۔ یہ انتخابات اگلے سال ستمبر میں ہونے تھے لیکن اتحادیوں کی بغاوت اور سیاسی بحران کی بناپر چانسلر اولاف شلزنے قبل ازوقت انتخابات کا فیصلہ کیا۔

انتخابات میں چانسلر اولاف شلز کی آزاد خیال سوشل ڈیموکریٹک (SDP) کو دوسری جنگ عظیم کے بعد بد ترین شکست کا سامنا کرناپڑا اور یہ جماعت 16.4فیصد کیساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔قدامت پسند کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU)نے 22.55اور انکی اتحادی کرسچین سوشل یونین (CSU)نے 5.97ووٹ لے کر میدان مارلیا۔ مسلمان دشمن، ایمگرنٹ مخالف صدر ٹرمپ کی حمائت یافتہ انتہا پسند متبادل برائے جرمنی یا AfD نے20.8 فیصد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ گرین پارٹی کو 11.61 فیصد اور 8.77 فیصد جرمنوں نے بائیں بازو کی Heidi Reichinnekیا The Leftجماعت کے حق میں ووٹ دئے۔

جرمنی میں چانسلر کا انتخاب انکی قومی اسمبلی یا بنداشتک Bundestag کرتی ہے۔ بنداشتک کی جملہ 630 نشستوں کیلئے ہر رائے دہندہ کو دو ووٹ ڈالنے ہوتے ہیں۔ایک ووٹ حلقے کی بنیاد پر براہ راست امیدوار کو دیا جاتا ہے جسے  Erststimme کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا  ووٹ  Zweitstimme کہلاتا ہے جو پارٹی کو دیا جاتا ہے۔ اسے اس طرح سمجھئے کہ اگر عام انتخابات میں آپ NA-1پشاور1کے ووٹرہیں تو ایک بیلٹ پیپر پر تو اس حلقے سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کے نام لکھیں ہونگے جس میں پارٹیوں کے نامزد کردہ اور آزاد امیدوار دونوں شامل ہیں۔جبکہ دوسرے بیلٹ پر صرف پارٹیوں کا نام ہوگا اور اسے آپ  اپنی پسندیدہ پارٹی کے حق میں استعمال کرینگے۔ اس نظام کے تحت نصف یعنی 315نشستیں حلقوں کی بنیاد پر طئے کی جاتی ہیں جبکہ باقی 315 پر متناسب نمائندگی کے مطابق پر صوبے میں حاصل کئے گئے مجموعی ووٹوں کے تناسب سے پارٹیوں کو نشتیں عطا ہوتی ہیں۔ تاہم پارٹی بنیاد پر نشستوں کے حصول کیلئے ڈالےگئےکل ووٹوں کا کم ازکم 5 فیصد حاصل کرنا ضروری ہے۔دونوں بیلٹ کا استعمال غیر مشروط ہے  یعنی ووٹر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حلقے میں آزاد امیدوار یا A پارٹی کے حق میں رائے دے لیکن چاہے تو پارٹی بیلٹ پر Bیا C پارٹی کے سامنے مہر لگادے۔ حالیہ انتخابات میں دو مختلف بیلٹ پیپر کے بجائے دو کالم والا ایک ہی بیلٹ پیپر استعمال ہوا۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 82.5 فیصد رہا جو گزشتہ انتخابات سے سات فیصد زائد ہے۔

اگر انتخابی نتائج کا قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو CDU/CSUکی مجموعی نشستیں 208 ہیں،  AfGنے 152 نشستوں پر کامیابی حاصل کی،  چانسلر شلز کی SDPکے حصے میں 120 نشستیں آئیں، 85 پر گرین اور64 پر The Leftکامیاب ہوا۔ حکومت سازی کیلئے کم از کم 316 نشستیں درکار ہیں اور کوئی جماعت بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکی۔ متوقع چانسلر اور CDU/CSUکے سربراہ فریڈرک مرز نے AfGسے اتحاد کے امکانات کو مسترد کردیا ہے۔ بائیں بازو سے نظریاتی اختلاف کی بناپر The Leftسےاتحاد ممکن نہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ 69 سالہ فریڈرک مرز SDPسے مل کر حکومت بنائینگے۔ جناب مرز کو حکومت کا کوئی تجربہ نہیں۔ وہ خود کو سماجی قدامت پسند اور اقتصادی لبرل کہتے ہیں۔ ایمگریشن کے معاملے میں وہ تعلیمیافتہ لوگوں کے جرمنی آنے کے حامی ہیں لیکن انھیں فلسطینیوں،  شامیوں اور افغانوں کا اپنے ملک آنا پسند نہیں۔ جب اسرائیلی حملے کے آغاز پر اہل غزہ کو جرمنی میں پناہ دینے کی تجویز آئی تو انھوں نے اسکی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں سام مخالف (Antisemitic) عناصر کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں۔

اسرائیل کی محبت میں وہ عالمی فوجداری عدالت (ICC) کا فیصلہ بھی پیروں تلے روندنے کو تیار ہیں۔ جب انتخابات میں کامیابی پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے انھیں مبارکباد کا فون کیا تو جناب مرز نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ صحافیوں کو اس گفتگو کی روداد سناتے ہوئے چانسلر صاحب نے فخر سے کہا کہ میں نے اپنے 'دوست' کو جرمنی آنے کی دعوت دی ہے۔ اس پر ایک صحافی نے انھیں یاد دلایا کہ آپکے دوست نسل کشی کے مقدمے میں ICC کو مطلوب ہیں تو فریڈرک مرز غصے میں آگئے اور بولے 'کیا واہیات بات ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم جرمنی نہیں آسکتا' اور پھر اعتماد سے کہا اگر بی بی جرمنی آئے تو میں بطور چانسلر اس بات کو یقینی بناونگا کہ ہمارا معزز مہمان عزت و احترام سے بحفاظت اپنے وطن واپس جائے۔ یہ ہیں وہ 'مہذب' لوگ جو ساری دنیا کو قانون کی بالادستی کے بھاشن دیتے ہیں۔ سچ ہے کہ آدمی بے حیا ہو جائے تو چاہے کہتا پھرے

فریڈرک مرز یورپی یونین اور NATOکے ساتھ امریکہ کے پرجوش حامی ہیں لیکن وہ صدر ٹرمپ کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔انکا خیال ہے کہ ٹرمپ انتطامیہ یورپی یونین کے مقابلے میں روس سے زیادہ قریب ہے۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پرجناب مرز نے کہا کہ اگر وہ چانسلر منتخب ہوئے وہ اپنے ملک کو امریکہ کے غیر ضروری اثرورسوخ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرینگے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 فروری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 فروری 2025

روزنامہ امت کراچی 28 فروری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 مارچ 2025




Thursday, February 20, 2025

 

غزہ بربریت کے 500 دن

قیدیوں کی رہائی کے بارے میں صدر ٹرمپ کا الٹی میٹم اہل غزہ نے نظر اندازکردیا

مصر کے جنرل السیسی کا دورہ امریکہ منسوخ

شمالی غرب اردن کے 76ہزار فلسطینی اپنے گھروں سے بیدخل کردئے گئے

غزہ بیدخلی منصوبہ کلیسائے روم نے مسترد کردیا

نصف کے قریب اسرائیلی شہری ذہنی دباو کا شکار

تفریح کیلئے برازیل آنے والے اسرائیلی سپاہی پر نسل کشی میں سہولت کاری کا مقدمہ

غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام بلکہ نسل کشی کے 500 دن مکمل ہوگئے اور اب جنگ بندی کا مستقبل بھی مشکوک نظر آرہا ہے۔اچانک پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال کے ذمہ دار امریکی صدر ٹرمپ ہیں۔مہنیوں بات چیت کے بعد اسرائیل اور اہل غزہ تین مرحلے پر محیط مفاہمت کی ایک تجویز پر متفق ہوئے تھے۔جسکے مطابق 6 ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں عارضی جنگ بندی ہوگی اور 1904 فلسطینیوں کے عوض ضعیف، بیمار، خواتین اور کم عمر بچوں سمیت 33 اسرائیلی رہا کئے جاینگے۔ معاہدے کے ایک ضامن سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق یہ بھی طئے پایا تھا کہ عارضی جنگ بندی کے چھ ہفتوں کے دوران دیرپا اور مکمل جنگ بندی کیلئے مذاکرات ہونگے  اور انکے منطقی انجام تک تلواریں نیام میں رہینگی۔

پہلے مرحلے پر 9 فروری تک معاملہ ٹھیک چل رہا تھا۔معاہدے کے مطابق غزہ کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر، نظارم راہداری (Netzarim Corridor)سے اسرائیلی فوج بھی ہٹالی گئی اور بمباری کے دوران شمالی غزہ سے جنوب کی طرف ہجرت کرجانے والے فلسطین اپنے گھروں کو واپس آنا شروع ہوگئے۔ اُسوقت تک اہل غزہ 16 اسرائیلیوں اور 5 تھائی باشندوں کو رہا کرچکے تھے کہ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی غیر معمولی آوبھگت سے وزیراعظم نیتن یاہو شوخی پر اترآئے۔شمالی غزہ کی طرف آنے والے قافلوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گیں۔کئی مقامات پر واپس آتے نہتے لوگوں کو ٹینک کے گولوں اور گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔امدادی سامان خاص طور سے خیمے، عارضی مکانات اور ایندھن لانے والے ٹرکوں کو روک دیا گیا۔اس پر ضامنوں کے نام ایک سندیسے میں غزہ کے بانکوں نے کہا کہ مزاحمت کار امن معاہدے پر اسکے متن اور روح کےمطابق عمل کررہے ہیں۔ نظارم راہداری سے پسپا پونے والی اسرائیلی سپاہ ہمارے نشانے پر تھی لیکن ہم نے اپنے ہاتھ باندھے رکھے۔ دوسری جانب اسرائیل ،امدادی ٹرکوں کاراستہ روک کراور گھر واپس آنے والے فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ ان خلاف ورزیوں کی بنا پر 15 فروری کو ہونے والا تبادلہ اہل غزہ نے معطل کردیا۔ تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ قبضہ گردوں کی جانب سے معاہدے کی پاسداری تک مزاحمت کار بھی اپنے عہد پر قائم رہینگے کہ ہمارے رب نے وعدے کی پاسداری کا حکم دیا ہے۔

اس خبر پر صد ٹرمپ کو تو گویا آگ لگ گئی۔ اپنے مخصوص دانت پیستے لہجے میں انھوں نے کہا کہ اگر 15 فروری 12 بجے دوپہر تک تمام کے تمام اسرائیلی قیدی رہا نہ کئے گئے تو عارضی جنگ بندی ختم کرکے غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دئے جائنگے۔ انھوں نے زور دیکر کہا کہ اب قسطوں میں رہائی قابل قبول نہیں سب کو فوراً رہا کرو۔  غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی پر اصرار کرتے ہوئے وہ متکبرانہ لہجے میں بولے کہ اگر اردن اور مصر نے غزہ مہاجرین کو قبول نہ کیا تو انکی امداد منسوخ کردی جائیگی۔مصاحبین اور درباریوں کو مصرع طرح ملنے کی دیر تھی۔ کیا وزیرخارجہ مارکو روبیو اور کیا وزیردفاع و قومی سلامتی کے مشیر سب ہی نے آتشیں غزلیں بلکہ دو غزلے ارشاد فرمانے شروع کردئے۔اس ہلہ شیری پر نیتن یاہو نے جرنیلوں کو 15 فروری کی رات سے دوبارہ بمباری کا حکم دیدیا۔ قوم کے نام خطاب میں انھوں نے کہا کہ اگر ہفتے کی دوپہر تک ہمارے قیدی رہا نہ ہوئے  تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج حماس کی مکمل شکست تک شدید لڑائی جاری رکھےگی۔دلچسپ بات کہ اس آتش فشانی پر اہل غزہ کی طرف سے جواب آنے سے پہلے ہی اسرائیلی سڑکوں پر آگئے۔ قیدیوں کی رہائی اور امن معاہدے کی پاسداری کیلئے لواحقین نے اسرائیلی وزیراعظم کی سرکاری رہائش کا گھیراوکرلیا۔ چوراہوں پر ٹائر جلائے گئے۔تل ابیب میں امن کی علامت کے طور پر سفید چھتری کیساتھ قیدیوں کے لواحقین نے دھرنا دیا جس پر اسرائیلی میڈیانے سرخی جمائی کہ صرف غزہ ہی نہیں بلکہ تل ابیب کی سڑکوں پر بھی مزاحمت کاروں کا راج ہے۔ اسی کیساتھ یمن کے ایران نواز حوثیوں نے دھمکی دی کہ لڑائی دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں حوثی اہل غزہ کو تنہا نہیں چھوڑینگے۔اسرائیل نہ بھولے کہ ہمارے ہاتھ اسوقت بھی لبلبی یا Trigger پر ہیں۔

اسرائیلی حکومت کے جنگی جنون پر مشتعل ہونے کے بجائے مزاحمت کاروں نے انتہائی شائشتہ لیکن دوٹوک انداز میں کہا کہ دھمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں، معاہدے پر عملدرآمد میں سب کا بھلا ہے۔اگر اسرائیل اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتا ہے توامن منصوبے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے اور امن کی راہ پر آگے بڑھنے کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔

اسی دوران اردن کے بادشاہ عبداللہ چہارم صدر ٹرمپ کے ملاقات کیلئے حاضر ہوئے۔مشترکہ پریس کانفرنس ے دوران شاہِ اردن نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اہل غزہ کواردن بسانے کے سوال پر انھوں نےکہا کہ ہم 2000 بیمار فلسطینی بچوں کو اردن لے جارہے ہیں۔شاہ صاحب نے تجویز دی کہ ٹرمپ منصوبے کو ایسے نافذ کیا جائے جوسب کے مفاد میں ہو، اس معاملے میں ہمیں مصراور دوسرے عرب رہنماوں کے جواب کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس پر صدر ٹرمپ نے گرہ لگائی کہ” میں 99.9فیصد پر اعتماد ہوں کہ مصر مان جائیگا'۔ جب کسی صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ “کیا وہ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی حمایت کرتے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا الحاق تو ہوہی رہا ہے اور بہت اچھی طرح ہورہا ہے” ۔اس دوران شاہ صاحب خاموش رہے۔ اپنے دوست کو شرمندگی سے بچانے کیلئے صدر ٹرمپ نے کہا” ہماری ملاقات میں اس معاملے پر بات نہیں ہوئی'

جہاں تک مصر کا تعلق ہے تو جنرل السیسی نے 18فروری کو امریکہ آنے کی دعوت پر صدر ٹرمپ سے معذرت کر لی ہے۔ اہل غزہ کی وطن بدری کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے جنرل السیسی نے کہا کہ عرب ممالک فلسطینیوں کو بیدخل کئے بغیر غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ بنارے ہیں۔

ادھر اسرائیلی حکومت دہرا کھیل کھیل رہی تھی،  یعنی جرنیلوں کے اجلاس کی میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی اور تاثر یہ ابھرا کہ ہفتے کی شام خوفناک بمباری کا دوبارہ آغاز ہوگا لیکن امدادی قافلوں کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹاکر نیتن یاہو معاہدے کی پاسداری پر بلا اعلان راضی ہوگئے۔چینل 12 کے مطابق قطر پیغام بھجوایا گیا کہ اگر مزاحمت کار معاہدے کی شرائط کے مطابق ہفتے کے روز قیدیوں کے چھٹے گروپ کو رہا کردیں تو اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر عمل جاری رکھے گا۔معاملہ ٹھنڈا رکھنے کیلئےاسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان امر دوستری نے کابینہ کے وزراء کو ہدائت کی ہے کہ وہ غزہ کے بارے میں کوئی انٹرویو نہ دیں اور بیان بازی سے پرہیز فرمائیں۔

امدادی قافلوں کے راستے سے رکاوٹ ہٹتے ہی اہل غزہ نے اعلان کیا کہ 15 فروری کو تین اسرائیلی قیدی رہا کئے جائینگے جن میں روسی و اسرائیلی دہری شہریت کے حامل ساشا طرفانوف اور امریکی و اسرائیلی شہری ساقی دیکل شن شامل ہیں۔اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی اعلامئے میں کہا گیا کہ 'یہ قدم ٹھیک ہے لیکن Okنہیں'۔جمعہ کی شام خان یونس میں اسٹیج سج گیا۔ وہاں نصب ایک بینر پر صدر ٹرمپ کے غزہ سے انخلا کا شائستہ جواب عبرانی و عربی میں درج تھاکہ 'ہجرت تو بس القدس ہی کی طرف ہوگی'۔اسرائیلی قیدیوں کو تقریبِ حوالگی تک غنیمت میں ہاتھ آئی اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر لایا گیا۔ مزاحمت کاروں کی وردی بھی اسرائیلی فوجیوں کی تھی جسے اہل غزہ نے 7 اکتوبر کو فوجی چھاونیوں سے ہتھیایاتھا۔

معاہدے کے مطابق تین اسرائیلیوں کے عوض  369 فلسطینی رہا کردئے گئے۔ ان افراد کو اسرائیل کے قومی نشان چھ کونے والے ستارہ داؤدؑ کی ٹی شرٹ پہنائی گئی جس پر عربی میں لکھا تھا'ہم بھولیں گے نہ معاف کرینگے'۔اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں اسرائیلی قیدیوں اور باقیات کی حوالگی کچھ اسطرح ہوگی:

  • جمعرات 20 فروری: چار اسرائیلیوں کی لاشیں اقوام متحدہ کے حوالے کی جائینگی
  • ہفتہ 22 فروری: تین اسرائیلی قیدی رہاہونگے
  • ہفتہ 27 فروری: مزید چار لاشیں اقوام متحدہ کے سپرد کی جائینگی
  • اتوار 2 مارچ: دس سال پہلے پکڑے گئے دوافراد سمیت تین مزید قیدی چھوڑے جائینگے

اتوار 16 فروری کی دوپہر، مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے واشنگٹن میں قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والز کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ  کہ قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات رواں ہفتے شروع ہوجائینگے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر وہ اسرائیلی و قطری وزرائے اعظم اور مصر سراغرسانی کے سربراہ حسن رشد سے رابطے میں ہیں۔ دلچسپ بات کہ ایک دن قبل تمام قیدیوں کی رہائی سے پہلے مزید بات چیت نہ کرنے کا اعلان کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم نے مسٹر وٹکوف کے بیان کے فوراً بعد مذاکرات میں اسرائیل کی شرکت پر آمادگی ظاہرکردی۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے نے بھی رائے دی کہ جنگ کے دوبارہ آغاز سے غزہ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، اسلئے کہ فوجی طاقت سے مزاحمت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ صرف تین پہلے انھوں نے کہا تھا کہ وہ عارضی جنگ بندی ختم کرنے کے حامی ہیں تاکہ مزاحمت کاروں کو ختم کردیا جائے۔ ان باتوں سے امید پیدا ہورہی ہے کہ غزہ کا امن کم از کم اگلے چند ہفتے برقرار رہیگا۔تاہم اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ غزہ کی طرف آنے والے عارضی مکانات (mobile homes)اور ایندھن سے لدے ٹرکوں کے راستے میں اسرائیلی فوج نے دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جسکی تصدیق کرتے ہوئے وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ اس معاملے کا ہنگامی کابینہ جائزہ لے رہی ہے۔

غزہ کیساتھ شمالی غرب اردن میں بھی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جنین، تلکرم، اسکے مضافات میں قائم نورشمس خیمہ بستی اور وادی اردن کی فارعہ خیمہ بستی سے 76 ہزار فلسطینیوں کو بیدخل کیا جاچکا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے International Federation for Human Rights (FIDH) نے اسکی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا اس غیر انسانی سلوک کے خاتمے کیلئے اسرائیل پر دباو ڈالے۔ غزہ بیدخلی منصوبے پر کلیسائے روم نے بہت سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ویٹیکن کے سکریٹری آف اسٹیٹ Pietro Parolinنے ایک بیان میں کہا غزہ سے no deportationہمارا اصولی موقف ہےجس میں لچک تو کیا بات چیت کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔

نیتن یاہو کے شوقِ کشور کشائی  نے جہاں غزہ اور غرب اردن کے لاکھوں فلسطینیوں کو تباہ کردیا وہیں اسرائیلی بھی اس وحشت کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ مرکزی ناظم حسابات (Comptroller General) میتن یاہو انگلمین نے ذہنی صحت کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے اسکے مطابق جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ بالغ اسرائیلی شہریوں کو اضطراب ، افسردگی اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی علامات کا سامنا ہے۔اسرائیل کی کل یہودی آبادی 72 لاکھ ہے یعنی ملک کے نصف کے قریب لوگ اس جنگ سے ذہنی طور پر متاثر ہیں

نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ اسرائیلی محفوظ دستے کا ایک سپاہی یو وال وگدانی (Yuval Vagdani)جب تعطیلات منانے برازیل آیا تو مجرموں کا پیچھا کرنے والی ہند رجب فاونڈیشن نے عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلے کی بنیاد پر اس فوجی کے خلاف پرچہ کٹوا دیا۔دلائل اتنے جاندار تھے کہ موصوف کی گرفتاری کا پروانہ جاری ہوگیا۔ تاہم اسرائیلی خفیہ ایجنسی بھی غافل نہ تھی، راتوں رات یووال وگڈانی کو برازیل سے فرار کرادیا گیا۔

اور آخر میں فلسطین دشمنی کے ایک اندھے مظاہرےکا ذکر۔میامی بیچ (فلورڈا) میں پولیس نے ایک 27 سالہ انتہا پسند یہودی مردخائے برافمین (Mordchai Brafman) کو گرفتار کیا ہے جس نے اسرائیل سے تفریح کیلئے امریکہ آنے والے یہودی باپ بیٹے کو فلسطینی سمجھ کر قتل کرنے کی کوشش کی۔مردخائے پر قتل کی 'کوشش' کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور فرد جرم میں نفرت پر مبنی حمہ یا hate crimeکاالزام نہیں لگایا گیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 فروری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 فروری 2025

روزنامہ امت کراچی 21 فراوری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23  فروری 2025


Wednesday, February 19, 2025

 

ہندوستانی وزیراعظم کا دورہ امریکہ

بھارت امریکہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین F-35بمبار خریدے گا

بھارتی تارکینِ وطن سے بدسلوکی پر مودی خاموش

مشترکہ اعلامئے میں پاکستان پر دہشت گردوں سے سہولت کاری کا الزام

نیتن یاہو، جاپانی وزیراعظم اشیبا اور اردن کے شاہ عبداللہ چہارم کے بعد نریندرا مودی چوتھے غیر ملکی سربراہ ہیں جنھوں نے ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد واشنگٹن کا دورہ کیا۔ جناب مودی کیساتھ وزیرخارجہ جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال بھی امریکہ آئے تھے۔

جمعرات 13 فروری کو واشنگٹن پہنچتے ہی جناب مودی  نے امریکہ کی انٹیلیجنس سربراہ شریمتی تُلسی گیباڑد سے ملاقات کی۔ کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی ہندو نائب صدر تو تلسی جی پہلی ہندو رکن کابینہ ہیں۔ فرق اتنا کہ کملا واجبی سی ہندو ہیں جبکہ تلسی انتہائی راسخ العقیدہ۔اس کے بعد ہندوستانی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کے مشیر خصوصی اورحکومتی مشنری میں بہتری لانے کیلئے نو تراشیدہ ادارے DOGEکے سربراہ ایلون مسک سے ملاقات کی۔مودی ٹرمپ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جب اس ملاقات کے بارے میں کسی صحافی نے سوال کیا تو امریکی صدر نے کہا 'مجھے نہیں معلوم کہ ایلون مسک مودی سے کیوں ملے اور کیا باتیں ہوئیں۔میرا خیال ہے کہ مسک ہندوستان میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں'۔بھارتی وزارت خارجہ کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم نے ایلون مسک سے جدت طرازی، خلائی تحقیق، مصنوعی ذہانت اور پائیدار ترقی میں ہندوستانی اور امریکی اداروں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم مودی نے ہندنژاد ارب پتی اور ریپبلکن پارٹی صدارتی ٹکٹ کے سابق امیدوار ووک راماسوامی سے بھی ملاقات کی جو مودی جی سے ملنے سرکاری مہمان خانے بلئیر ہاوس Blaire House آئے تھے

جناب مودی کے اس دورے کا بنیادی مقصد تجارتی معاملات پر دونوں ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کا حصول اور پاک ہند تعلقات کے تناظر میں تزویراتی ہدف اسلام آباد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات پر امریکہ کی حمائت حاصل کرنا تھا۔بھارتی وزیراعظم نے انتہائی یکسوئی سے اپنی توجہ ان دومعاملات تک محدود رکھی اورگزشتہ دنوں غیر قانونی تارکین وطن کو جس شرمناک انداز میں پیشہ ور مجرموں کی طرح ہتھکڑیاں لگاکر ہندوستان بھیجا گیا ہےاس جانب مودی جی نے ہلکا سا اشارہ تک نہ کیا۔

جہاں تک باہمی تجارت کا سوال ہے تو اسوقت امریکہ کیلئے ہندوستانی برامدات کا حجم 60 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ امریکہ 38 ارب ڈالر کی مصنوعات ہندوستان بھیجتا ہے۔ توازنِ تجارت میں 22 ارب ڈالر کا خسارہ صدر ٹرمپ کیلئے قابل قبول نہیں۔ فولاد اور المونیم پر صدر ٹرمپ 25 فیصد درآمدی محصول عائد کرچکے ہیں جسکی وجہ سے ان دو دھاتوں کی ہندوستانی برآمدات پونے تین ارب ڈالر سے سُکڑ کر ایک ارب سے بھی کم رہ جانے کا امکان ہے۔ اس ملاقات کے دوسرے دن جاری ہونے والے صدارتی حکم نامے میں صدر ٹرمپ نے دنیا کے تمام ملکوں سے برابری کی بنیاد پر یا Reciprocalمحصولات وصول کرنے کا حکم دیا ہے۔ توازن ادائیگی کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس معاملے میں وہ ہر ملک کا انفرادی طور پر جائزہ لینگے اور انکے لئے اس باب میں کسی قسم کا خسارہ ناقابل برداشت ہے۔

توازن ادائیگی کو بہتر بنانے کیئے ملاقات سے پہلے ہی ہندوستان نے امریکی موٹر سائیکلوں پر درامدی محصول ختم کردیا اور 14 فروری کو رندانِ ہند کو ویلنٹائن کا تحفہ دیتے ہوئے مکئی سے نچوڑی مشہور زمانہ امریکیBourbonوہسکی پر درآمدی محصولات ڈیڑھ سو فیصد سے کم کرکے 100 فیصد کردئے گئے۔ امریکہ سے ہندوستان کو برآمد کی جانیوالی وہسکی کا حجم 25 لاکھ ڈالر سالانہ ہے۔

ملاقات کے دوران ہندوستانی وزیراعظم نے باہمی تجارت کے توازن ادائیگی کو بہتر کرنے کیلئے امریکہ سے اسلحہ، ہوائی جہازوں کے انجن اور LNGخریدنے کا ایک منصوبہ امریکی صدر کو پیش کیا۔اسی کیساتھ انھوں نے امریکی درآمدات پر محصول میں بھاری کٹوتی کا وعدہ بھی کیا۔ تجارتی معاملات کے ساتھ ہندوستانی وزیراعظم نے سرحد پار دہشت گردی اور اس میں پاکستان کے 'ملوث' ہونے پر امریکی صدر سے گفتگو کی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سلامتی اجیت دوال کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ امریکی صدر نے ان معاملات پر ہندوستانی وزیراعظم کے موقف کی تائید کی۔ جناب مودی نے بہت زور دیکر بمبئی حملے المعروف 26/11کے مبینہ ملزم تہور علی رانا کی ہندوستاں حوالگی کا مطالبہ کیا۔ تہورعلی رانا پاکستانی فوج کی میڈیکل کور میں کپتان تھے۔ ریٹائرمنٹ پر وہ کنیڈا منتقل ہوگئے اور ایمگریشن و ویزے کا کام شروع کیا۔ انکے دفاتر شکاگو، امریکی دارالحکومت اور ٹورنٹو میں تھے۔رانا صاحب  2009 میں گستاخانہ کارٹون شایع کرنے والے ڈنمارک کے اخبار Jyllands-Posten پر حملے کی سازش کے الزام میں شکاگو سے گرفتارہوئے اور دورانِ تحقیق انکی فرد جرم میں  بمبئی حملے کا الزام بھی ٹانک دیا گیا جسکی بنیاد حملے کے وقت انکی تاج محل پیلس ہوٹل میں موجودگی ہے۔ تہور رانا صاحب کاکہنا ہے کہ وہ کینیڈا آنے کے خواہشمندوں سے بات چیت کرنے اپنی اہلیہ کے ساتھ بمبئی گئے تھے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی سپریم کورٹ نے تہورعلی رانا کی ہندوستان حوالگی کی منظوری دی تھی۔

ملاقات کےبعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کا لہجہ پرجوش تھا۔ انھوں نے کہا کہ مسٹر مودی اور ہندوستان کے ساتھ ہمارا ایک "خاص رشتہ" ہے۔ہندوستانی وزیراعظم کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نرم دم ِگفتگو گرم دمِ جستجو مودی ان سے کہیں زیادہ سخت مذاکرات کار ہیں۔تاہم باہمی تجارت کے بارے میں جناب ٹرمپ نے صاف صاف کہا کہ بھارت کے ساتھ ویسا ہی ٹیرف ہوگا جیسا وہ امریکا پر عائد کرتا ہے۔

امریکی صدر نے بھارت کو تیل اور گیس فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے پاس بہت تیل اور گیس ہے جو ہم بھارت کو دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایف 35 طیاروں سمیت کئی ارب ڈالر کا فوجی سامان بھارت کو دیں گے۔ گویا امریکہ، اسرائیل،برطانیہ، اٹلی، ہالینڈ، آسٹریلیا، ناروے ، جاپان اور جنوبی کوریا کے بعد ہندوستان  جدید ترین F35غیر مرئی (Stealth)بمبار رکھنے والا دسواں ملک بن جائیگا۔امریکی صدر نے دہشتگردی کیخلاف مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ جناب ٹرمپ نے تہور رانا کی بھارت حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میری انتظامیہ نے 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے کے ایک منصوبہ ساز اور دنیا کے انتہائی برے لوگوں میں سے ایک کی حوالگی منظورکرلی ہے اور انصاف کا سامنا کرنے کے لئے اسے ہندوستان بھیجا جارہا ہے۔

اس موقع پر پرچیوں پر لکھا بیان پڑھتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا بھارت تعلقات کو متحرک بنایا ہے، ٹرمپ امریکا کو عظیم (MAGA)بنانا چاہتے ہے اور ہم بھارت کو عظیم (MIGA)بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے امریکا سے تجارتی تعاون بڑھانے کا اعلان  کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور بھارت مصنوعی ذہانت (AI)،جوہری توانائی سیمی کنڈکٹرز ٹیکنالوجی میں مل کر کام کرینگے اور 2030 تک دوطرفہ تجارت کا حجم 500 ارب ڈالر تک بڑھا دیا جائیگا۔ دفاعی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے مودی جی نے کہا کہ ہند بحرالکاہل خطے میں امن کے قیام کے لیے امریکا بھارت مل کر کام کرینگے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا اور ہندوستان کی فکر اور طرزعمل ایک ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ سرحد پار دہشتگردی ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے مشترکہ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اپنی سر زمین سرحد پار دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دے۔

مشترکہ اعلامئے پر شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ نے پاکستان سے متعلق حوالے کو یکطرفہ، گمراہ کن اور سفارتی اقدار کے منافی قرار دے دیا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ کسی مشترکہ بیان میں ایسے حوالے کو شامل کروا کر بھارت کی جانب سے دہشتگردی کی سرپرستی، محفوظ پناہ گاہوں اور اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے ہندوستانی وزیراعظم کو انکے دورے ہر ایک البم بطور تحفہ پیش کیا۔ 'قدم بقدم' یا Our Journey Togetherکے عنوان سے اس البم میں صدر ٹرمپ کے دورِ اول سے آج تک کی ہندوستان سے متعلق تصاویر لگائی گئی ہیں۔ البم پر صدر ٹرمپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا Mr Prime Minister, you are great

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 فروری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 فروری 2025

روزنامہ امت کراچی 21 فروری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 فروری 2025