Thursday, February 13, 2025

 

اسرائیل فوج غزہ کو تقسیم کرنے والی نظارم راہدری سے پسپا

اسرائیل کے مختصر رقبے پر امریکی صدر کو تشویش

پیجر بربریت کا جشن، امریکی صدر کو طلائی پیجر کا تحفہ

اسرائیلی رکن پارلیمان کی جانب سے جلاوطنی منصوبے کی سخت مزاحمت کا اعلان

سابق اسرائیلی وزیردفاع کی آمد پر شکاگو میں مظاہرہ

اہل غزہ کے مثالی صبر و ضبط کا اعتراف

اسرائیلی و فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے۔آٹھ فروری کو قیدیوں کے پانچویں تبادلے کے بعد آزادی پانے والے اسرائیلی قیدیوں کی تعداد 16 ہوچکی ہے اور اگر اس میں تھائی لینڈ کے پانچ باشندوں کو شامل کرلیا جائے تو تادم تحریر،  مزاحمت کار  21 قیدی رہا کرچکے ہیں جسکے جواب میں چھوٹے  بچوں ، کمسن بچیوں اور عورتوں سمیت 766 فلسطینی نجات پاگئے۔عقوبت کدوں میں بند ان لوگوں کو رہائی سے پہلے غزہ کی تباہی پر مشتمل ڈھائی منٹ کا ایک بصری تراشہ دکھایاگیا۔ یہ خوفناک فلم ان قیدیوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے ہے کہ 7 اکتوبر کو طوفان اقصٰی اٹھانے کی اہل غزہ کو کتنی بھاری قیمت اداکرنی پڑی ہے۔

اس ہفتے غزہ کو تقسیم کرنے والی نظارم راہداری (Netzarim Corridor)سے اسرائیلی فوج کا انخلا مکمل ہوگیا۔غزہ پر جزوی قبضے کے بعد اسرائیل نے سمندر تک ساڑھے ڈیڑھ کلومیٹر چوڑی پکی سڑک تعمیر کرکے پٹی کو دوحصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ کہنے کو تو یہ سڑک ہے لیکن ساڑھے چھ کلومیٹر لمبی اس شاہراہ پر ٹینکوں کی قطار کھڑی کرکے اسرائیل نے اسے آہنی دیوار بنا دیا تھا۔ اہل غزہ کا اصرار تھا کہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات سے پہلے نظارم راہداری خالی کی جائے۔

اس ہفتے اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ واشنگٹن اور امریکی صدر کا غزہ پر قبضہ جمانے کا ارادہ بلکہ خبط ذرایع ابلاغ پر چھایا رہا۔جناب نیتن یاہو المعروف بی بی  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سلطانی ٹرمپ کے دورِثانی میں امریکہ آنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ ہیں۔ تین فروری کو روانگی سے پہلے تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ پر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ  ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطیٰ کو ازسرنو ترتیب دے سکتی ہے اور ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں جناب ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے کی خواہش ظاہر کرکے نئے نقشے کی رونمائی کردی۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ 'دنیا اگر میری میز ہے تو اس میں اسرائیل کا رقبہ میرے صدارتی قلم کی نب سے بھی کم ہے'

ٹرمپ اقتدار کے موجودہ دور کی خصوصیت انکی توسیع پسندانہ خواہش کا برملا اصرار اور تکرار ہے۔ وہ کئی بار کینیڈا کو امریکہ کی اکیانویں ریاست بنانے کی آرزو بیان کرچکے ہیں۔امریکی صدر ڈنمارک سے گرین لینڈ خریدنا اور وہ نہرپانامہ پر امریکی پرچم لہرانے کا عزم رکھتے ہیں۔حلف اٹھاتے ہی انھوں نے خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکہ رکھدیا۔تاہم غزہ پر قبضے کے بارے میں امریکی صدر بے سنجیدہ لگ رہے ہیں۔

بی بی سے  ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا

  • غزہ کے لوگ جہنم میں جی رہے ہیں، یہ رہنے کی جگہ نہیں رہی۔انہیں کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے۔ غزہ کی سرنگوں اور دیگر جگہوں پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک انتشار ہے۔ غزہ میں ہے کیا موت اور تباہی کے سوا؟۔ ہم چاہتے ہیں کہ غزہ کے لوگوں کو مستقل طور پر اچھے گھروں میں آباد کیا جائے، جہاں انہیں غزہ کی طرح گولیوں یا قتل کا سامنا نہ ہو۔
  • مصر اور اردن نے مطلع کیا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن کچھ دوسرے ممالک نے ان کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔
  • ہم امن چاہتے ہیں اور قتل و غارت روکنے کے خواہاں ہیں اور یہی نتن یاہو بھی چاہتے ہیں۔نتن یاہو نے (غزہ میں) اچھا کام کیا ہے ، ہماری دوستی پرانی ہے۔آخر میں ڈھٹائی کیساتھ یہ بھی کہدیا کہ 'میں نوبل امن انعام کا حق دار ہوں، لیکن شرمناک بات کہ مجھے یہ انعام کبھی نہیں ملے گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غزہ پر قبضے کیلئے امریکی فوج بھیجیں گے؟ توانھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا کہ 'ہم وہ کریں گے جو ضروری ہوگا.ہم اس ٹکڑے کو سنبھالنے جا رہے ہیں جسے ہم ترقی دیکر صحت افزا Rivieraبنائینگے۔ امریکہ غزہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسکی تعمیر نو کرنا چاہتا ہے، جسکے بعد سے ایک کھلا عالمی علاقہ بنا دیا جائے گا اورتعمیر نو کے بعد فلسطیینی سمیت دنیا بھر کے لوگ وہاں رہ سکیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کی حمایت کرینگے؟ تو صدرٹرمپ نے کہا کہ وہ اس سوال کا جواب تین چار ہفتوں کے بعد دینگے۔اگراس معاملے کو اسرائیلی رقبے  کے حوالے سے انکے شکوے کے تناظر میں دیکھا جائے تو جواب کیلئے تین ہفتہ انتظار کی زخمت فضول لگ رہی ہے۔

اس دورے کا سب سے شرمناک مرحلہ تحائف کا تبادلہ تھا۔نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو ایک طلائی پیجر Pagerبطور تحفہ پیش کیا۔ گزشتہ برس ستمبر میں اسرائیل نے بارود بھرےہزاروں پیجر لبنان بھیجے تھے۔ان پیجروں کے پھٹنے سے سینکڑوں مزاحمت کار اور عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے یہ تحفہ شکرئیے کے ساتھ وصول کرتے ہوئے اس بربریت کو “شاندار آپریشن “ قراردیا۔جواب میں صدر ٹرمپ نے دورے کی ایک تصویر مہمان  کو پیش کی جس پر انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا  'بی بی عظیم لیڈر'

غزہ پر قبضے کے عزم کی ساری دنیا نے ایک آواز ہوکر مخالفت بلکہ مذمت کی ہے۔امریکی ڈیموکریٹک کے سینیر رہنما سیننٹر رچرڈ بلیو منتھال نے اسے احمقانہ اور انتہائی خطرناک تجویز قراردیا، واضح رہے کہ بلیو منتھال صاحب ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔سینیٹر کرس وین ہولن نے سوال کیا کہ معاشرتی تطہیر کو امن منصوبہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟جبکہ سینیٹر کرس مرفی کے خیال میں غزہ پر امریکی حملہ قتل عام کا سبب بنے گا۔مقبوضہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ غیر قانونی، غیر اخلاقی، مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ اور 'بین الاقوامی جرم" کے ارتکاب کی ایک مکروہ شکل ے

آسٹریلیا کے وزیراعظم انتونی البانیز ، کینڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، چین اور روس کی وزارت خارجہ نے صاف صاف کہاکہ آزاد فلسطینی ریاست ہی مسئلے کا منطقی حل ہے، غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی قابل قبول نہیں۔مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،اردن ، قطر اور مقتدرہ فلسطین(PA) کے وزرائے خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے نام مشترکہ خط میں غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی کے خیال ہی کو شرمناک قراردیا۔ ہسپانوی وزیرخارجہ ہوزے البارز نے کہا کہ غزہ، اہل غزہ کا اور فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔ انکی ملک بدری عالمی برادری کیلئے ناقابل قبول ہے۔ا س بیان پر جناب البارز کے اسرائیلی ہم منصب نے برہم ہوکر فرمایا'اسپین کو بہت ہمدردی ہے تواہل غزہ کو اپنے ملک میں جگہ دیدے'

اور تو اور اسرائیلی عسکری انٹیلیجبس کے سربراہ میجر جنرل سلام بائنڈر نے کہا کہ اس سے غزہ کیساتھ مغربی کنارے سمیت تمام عرب علاقوں میں پُر تشدد سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسرائیلی چینل 13 کے مطابق جنرل صاحب کی اس بات پر وزیردفاع اسرائیل کاٹز سخت برہم ہیں اور انھوں نے فوج کے سربراہ سے جنرل بائنڈر کی گوشمالی کرنے کو کہا ہے۔

اس معاملے پر عالمی صف بندی بڑی واضح ہے۔ ہالینڈ کے متعصب رہنما گیرت وائلڈرز نے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ''بالکل درست جناب ڈانلڈ ٹرمپ۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ،اردن فلسطین ہے، فلسطینیوں کو اردن جانے دیں، غزہ کا مسئلہ حل ہوجائیگا'۔ہنگری کے انتہاپسند وزیراعظم وکٹر اوربن نے بھی غزہ سے فلسطیینیوں کے جبری انخلاکی حمائت کی ہے تاہم اوربن صاحب نے اسکے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے کے بجائے اپنے یورپی اتحادیوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ Trump Tornadoیا ٹرمپ طوفان کا مقابلہ آسان نہیں۔

صدر ٹرمپ تو غزہ پر قبضے کی 'خواہش' سے دستبردار ہوتے نظر نہیں آتے لیکن انکے مشیروں نے وضاحتوں کی شکل میں حفاظتی دیوار کھڑی کرنی شروع کردی ہے۔قصر ابیض کی ترجمان کیرولین لیوٹ (Karoline Leavitt)نے کہا کہ 'امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ  تعمیر نو کے دوران وہاں کے باشندوں کو عارضی طور پر غزہ سے باہر منتقل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت یہ جگہ کسی بھی انسان کے رہنے کے قابل نہیں'۔ دوسرے دن وضاحتوں کے غبارے کو سوئی چبھوتے ہوئے صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کے اپنے چبوترے Truth پر لکھا کہ جنگ کے اختتام پر، اسرائیل غزہ کی پٹی امریکہ کے حوالے کر دےگا۔ امریکہ، دنیا بھر کی عظیم ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ آہستہ آہستہ اور احتیاط سے اس کی تعمیر کا آغاز کرے گا جو زمین پر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور سب سے شاندار رہائشی اور تفریحی مقام ہوگا۔ اس کام کیلئے امریکہ کے کسی فوجی کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس سے خطے میں استحکام آئے گا!!۔ ایک دن بعد فرمایا کہ غزہ کو عظیم تفریح گاہ اور پُر تعیش رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کی انھیں کوئی جلدی نہیں۔

غزہ کیساتھ غرب اردن کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے سابق مشیر نمرود نووک (Nimrod Novik) نے کہا کہ ہم جنین اور غرب اردن میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ مغربی کنارے کو غزہ بنانے کی ایک منظم مہم ہے۔

بہت ہی کم تعداد میں لیکن کچھ اسرائیلی بھی نسل کشی کی کھل کر مذمت کررہے ہیں۔ یہودی رکن کینیسہ (پارلیمان)،جناب عوفر کسیف نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ 'عربوں کی جلاوطنی ناقابل قبول ہے،ہم اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے اسکے لئے ہمیں ٹرکوں کے نیچے لیٹنا یا پلوں کو اڑانا پڑے۔ اس جرات رندانہ پر کنیسہ کی مجلسِ قائمہ برائے اخلاقیات نے عوفر کی رکنیت معطل کردی۔ جس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عوفر کسیف نے ٹویٹر پر لکھا'یہ گھناؤنا فیصلہ میری زبان پر تالہ نہیں لگا سکتا۔ میں غزہ میں جنگی جرائم، قحط اور قتل عام پر کبھی خاموش نہیں رہوں گا'

اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر انجام بد کی صدارتی دھمکیوں کے باوجود امریکہ میں بھی نسل کشی کے مجرموں کا تعاقب جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے سابق اسرائیلی وزیردفاع یوف گیلنٹ کی شکاگو آمد پر لوگوں نے جنگی جرائم کے مرتکب کو گرفتار کرو کے نعرے لگائے۔ انصاف پسند یہودی بھی انشے ایمت معبد (Synagogue) کے سامنے مظاہرے میں شریک ہوئے۔

گفتگو کے اختتام پر اہل غزہ کے بلند اخلاقی پہلو کا ذکر، جسکا اعتراف عالمی امدادی اداروں نے کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خوراک اور امدادی سامان لیکر روزانہ 600 ٹرک غزہ آرہے ہیں لیکن 19 جنوری سے آج تک ایک بھی ٹرک لوٹا نہیں گیا۔ یہ ٹرک اقوام متحدہ کےگوداموں میں مال اتارتے ہیں جہاں سے راشن کارڈ پر سامان تقسیم ہوتا ہے۔ نظام کے تباہ و برباد ہوجانے کے باوجود مزاحمت کاروں نے لوگوں کو راشن کارڈ بناکر دیے ہیں جن پر درج تفصیل کے مطابق خاندانوں کو سامان دیا جاتا ہے۔ سترہ سو جوانوں پر مشتمل پولیس سرگرم ہے جنکے کیلئے گزشتہ دوہفتوں میں اٹھارہ تھانے بنائے گئے ہیں۔ گویا فاقہ کش اہل غزہ صرف برستی آگ کے سامنے ہی ثابت قدم نہیں رہے بلکہ پیٹ کی آگ بھی انھیں آپے سے باہر نہیں کررہی۔ دوسری طرف لاس اینجلس میں آتشزدگی کے دوران لوٹ مار، چوری اور اب انشورنس کے جعلی دعووں کی کہانیاں عام ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 فروری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 فروری 2025

روزنامہ امت کراچی 14 فروری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 16 فروری 2025


 

No comments:

Post a Comment