Thursday, February 6, 2025

 

غزہ عارضی جنگ بندی پر عملدرآمد جاری

مزاحمت کاروں نے قیدیوں کی رہائی کو اسرائیل کیلئے ذلت آمیز تماشہ بنادیا

نیتن یاہو نے حکومت برقرار رکھنے کیلئے حزب اختلاف سے مدد مانگ لی

اہل غزہ نے اہم کمانڈروں اور قائدین کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی

صدر ٹرمپ اہل غزہ کو وطن بدر کرنے کے لئے پرعزم

جامعہ نیویارک کے اساتذہ نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی قرارداد منظور کرلی

گرفتاری کے خوف سے اسرائیلی وزیر کا دورہ بیلجیم منسوخ

جامعہ مشیگن نے فلسطینیوں کی حمائت کرنے والی طلبہ تنظیم کو دوسال کیلئے معطل کردیا

غزہ میں عارضی فائربندی پر عملدرآمد جاری ہے۔یکم فروری کو مزید تین اسرائیلی رہا کردئے گئے۔اب تک تھائی لینڈ کے پانچ باشندوں سمیت 18 قیدی رہا کئے جاچکے ہیں۔ دومارچ کو 6 ہفتوں پر مشتمل پہلا مرحلہ مکمل ہونے تک   1904 فلسطینی قیدیوں کے عوض 33 اسرائیلی رہا کئے جانے ہیں۔

اہل غزہ کی طرف سے معاہدے پر اسکی روح کے مطابق عمل ہورہا ہے۔ معاہدے کے تحت اسی ہفتے دوسرے مرحلے کیلئے مذاکرات شروع ہوجانے چاہئیں جس پر مشورے اور ہدایات کیلئے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی امریکہ میں ہیں۔یکم فروری کو واشنگٹن روانگی سے قبل تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اسرائیلی ٹیلی ویژن Kanسے گفتگو کرتے ہوئے بی بی نے کہا 'امریکی دارالحکومت میں ملاقاتوں کا مقصد اسرائیل اور خطے کو درپیش اہم مسائل پر تبادلہ خیال، حماس پر فتح، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور ایران کے دہشت گرد محور اور اس کے تمام اجزاء سے نمٹنا شامل ہے، ایک ایسا محور جو اسرائیل، مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے'۔ یعنی واشنگٹن میں غزہ سے جبری انخلا اور ایرانی جوہری اثاثوں کے خاتمے کی تزویراتی حکمت عملی طئے کی جائیگی۔اسرائیلی وزیراعظم کی امریکہ آمد سے دودن پہلے صدر ٹرمپ نے فون پر مصر کے آمرِمطلق جنرل السیسی سے تفصیلی گفتگو کی۔اردن کے بادشاہ سلامت کو بھی واشنگٹن یاترا کی دعوت دیدی گئی ہےاور شاہ عبداللہ دوم 11 فروری کو امریکی صدر  سے ملاقات کرینگے

بی بی کو سیاسی محاذ پر سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ انکے انتہا پسند اتحادیوں کے خیال میں امن معاہدہ دراصل ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے اور اسی بناپر عظمتِ یہود جماعت (Otzma Yehudit)حکمراں اتحاد سے الگ ہوچکی ہے جسکی وجہ سے 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں بی بی کے حامیوں کی تعداد صرف 61 رہ گئی ہے یعنی کوئی ایک رکن ادھر سے ادھر ہوا اور حکومت گئی۔ وزیرخزانہ  بیزلیل اسموترچ بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ اگر انکی دین صیہون جماعت (Religious Zionism)حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی تو نیتن یاہو سرکار تحلیل ہوجائیگی۔ حکومت بچانے کیلئے بی بی آجکل حزب اختلاف کے پیر پکڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انھوں نے قائد حزب اختلاف یار لیپڈ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹر کو پیشکش کی کہ اگر وہ دین صیہون کی علیحدگی کی صورت میں انکی حکومت کو گرنے سے بچالیں تو بی بی مئی 2026 میں نئے انتخابات کرانے کو تیار ہیں۔

سیاسی بحران کیساتھ بی بی غزہ اور غربِ اردن کے مزاحمت کاروں کی جانب سے شدید دباو میں ہیں۔بھاری جانی نقصان اور زخموں سے چور، تھکی ہاری اسرائیلی فوج جنگ بند کرنے پر اصرار کررہی ہے۔ ناکامی کا اعتراف کرکے فوج کے سربراہ مستعفی ہوچکے ہیں۔اہل غزہ پر رعب جھاڑنے کرنے کیلئے نیتن یاہو جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، وہ خود امریکہ بہادر انھیں واپس لینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اٹھائیس جنوری کو وزیراعظم نے الزام لگایا کہ امدادی سامان اقوام متحدہ کے بجائے مزاحمت کار تقسیم کررہے ہیں اور انھوں نے امدادی ٹرکوں کے قافلے روک دئے۔ اہل غزہ نے ترنت تڑی لگائی کہ اگر امدادی سامان کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی گئی تو قیدیوں کا تبادلہ معطل کردیا جائیگا۔ صدر ٹرمپ کے ایلچی Steve Witkoff فوراً ایوان وزیراعظم پہنچے اور بی بی  نے اپنی فوج کو امدادی قافلے کے سامنے سے تمام رکاوٹیں ہٹالینے کا حکم دے دیا۔

مزاحمت کاروں کے ہاتھوں انھیں ابلاغ عامہ کے محاذ پر بھی حزیمت کا سامنا ہے۔ بی بی  اور انکے انتہا پسند رفقا کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اہل غزہ اسرائیلی جنگی قیدی، مجمع عام میں ریڈکراس کے حوالے کیوں کررہے ہیں۔ غزہ چوک پر ہزاروں نعرہ زن افراد کے سامنے ان قیدیوں کی ریڈکراس منتقلی نیتن یاہو کو اسرائیل کی تضحیک نظر آتی ہے۔جمعرت 30 جنوری کو اپنے قیدیوں کی رہائی سے پہلے انھوں نے ریڈ کراس سے مداخلت کی درخواست کی لیکن مزاحمت کاروں سے 'خوفزدہ' ICRC نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپکا اور اہل غزہ کا معاملہ ہے۔ ہم تو بس غزہ سے ملنے والی ہدائت پر قیدی لادنے کیلئے اپنی گاڑیاں بھیج دیتے ہیں۔ ہمارا مزاحمت کاروں پر کوئی دباو یا اثرورسوخ نہپیں۔ ظاہر ہے کہ جو بانکے امریکہ اور اسرائیل کی نہیں سنتے وہ سرخ ٹوپی والوں کو کب خاطر میں لائیں گے۔

جھلا کر وزیراعظم  نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے مناظر شدت پسندی کا مظہر اور مزاحمت کاروں کی کٹھور دلی اور بربریت کا اضافی ثبوت ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے وقت غزہ میں فلمبندی پر پابندی لگائی جائے۔ یہ انتہائی گھناونا طریقہ ہے۔ اس سے ہماری فوج کا حوصلہ پست ہورہا ہے۔موصوف یہ مناظر دیکھ کر اتنے مشتعل ہوئے کہ انھوں نے اسرائیلی قیدیوں کے عوض فلسطینیوں کی رہائی سے انکار کردیا اور جیل کے دروازے پر کھڑی ریڈ کراس کی گاڑیاں واپس بھیج دی گئیں۔ اتفاق نے صدر ٹرمپ کے ایلچی Steve Witkoff ابھی یروشلم ہی میں تھے۔ انھوں نے بی بی کو سمجھایا کہ معاہدے کی پاسداری سب سے زیادہ انھیں کے مفاد میں ہے۔ اگر مزاحمت کاروں نے معاہدہ منسوخ کردیا تو کچھ اور ہو نہ ہو قید میں رہ جانے والے اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین بی بی کا باجہ بجادینگے، چنانچہ اسی شام کو تیس چھوٹے بچوں سمیت 110 فلسطینی قیدی رہا کردئے گئے۔ جب بی بی سے کچھ بھی نہ بن پڑا تو انھوں نے آزاد ہونے والے فلسطینیوں کے استقبال روکنے کیلئے غربِ اردن اور مشرقی بیت المقدس میں کرفیو لگادیا۔ اسکے باوجود لوگ اپنے پیاروں کے استقبال کو نکل آئے اور نابلوس میں استقبالی ہجوم پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

اسرائیلی وزیراعظم کی تشویش غلط بھی نہیں۔ اکتیس جنوری کو وال اسٹریٹ جنرل نے سرخی جمائی کہ 'مزاحمت کاروں نے قیدیوں کی رہائی کو اسرائیل کیلئے ذلت آمیز تماشہ بنادیاہے'۔اپنی عسکری برتری ثابت کرنے کیلئے قیدیوں کو مقام حوالگی تک لانے والے مزاحمت کار اسرائیلی فوج سے چھینے  اسلحے سے لیس نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انھوں نے مال غنیمت میں پکڑے جانے والے امریکی ساختہ Dodge RAM پک اپ ٹرکوں کی نمائش بھی کی۔ یہ دیکھ کر عظمت یہود جماعت کے سربراہ اتامر بن گوئر روتے ہوئے بولے کہ 'غزہ کی تصاویر سے اسرائیل کی شکست ظاہر ہورہی ہے'

مناظر براہ راست دکھا کر اہلِ غزہ نے دوران حراست قیدیوں سے بدسلوکی کے الزام کو بھی غلط ثابت کردیا۔ مزاحمت کاروں کے انداز و اطوار میں کوئی کرختگی نظر آتی ہے نہ قیدیوں کے چہرے پر دہشت و خوف کی کوئی علامت،حالیہ تبادلے کے دوران اسی سالہ بزرگ ملبے پر بغیر کسی سہارے چل رہے تھے۔ خواتین قیدیوں کے گلنار چہرے اور فلسطینی جوانانِ رعنا کو دیکھ کر ان مہہ رخوں کے لبوں پر پھوٹتی بے ساختہ مسکراہٹ سے پتہ چل رہا تھا کہ لڑکیاں خوش و خرم ہیں۔

اسی ہفتےمزاحمت کاروں نے اپنے چند کلیدی جرنیلوں اور قائدین کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی جن میں محمد ضیف ابوخالد، مروان عیسیٰ، غازی ابوطماعہ، رائدثابت، رافع سلامہ، احمد الغندور اور ایمن نوفل شامل ہیں۔بلاشبہ یہ مزاحمت کاروں کا بھاری نقصان ہے۔

اہل غزہ کو  مصر اور اردن دھکیلنے پر صدر ٹرمپ کا اصرار تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔جناب ٹرمپ کا یہ خاص انداز ہے کہ وہ چشم کشا نکات پر گفتگو کا آغاز لطیف بلکہ لطیفے کے انداز میں کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ انکے لہجے میں سختی آجاتی ہے۔ فلسطینیوں کو ارضِ فلسطین سے جلاوطن کرنے کی بات کوئی نئی نہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر اور سفارتکار جان بولٹن کئی سال پہلے یہ تجویز پیش کرچکے ہیں۔ اسرائیل کیلئے امریکہ کے نامزد سفیر مائک ہکابی کے خیال میں مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا سب سے منظقی اور حقیقت پسندانہ حل یہی ہے کہ غزہ، غربِ اردن ور مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کو اردن، شام، مصر اور لبنان منتقل کردیا جائے۔تیس جنوری کو  قصر ابیض میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے روائتی متکبرانہ لیکن پرعزم لہجے میں کہا 'وہ (یعنی اردن و مصر) مان جائینگے، یقینا مان جائینگے، سب ٹھیک ہوجائیگا، ہم نے بھی انکے لئے بہت کچھ کیا ہے، وہ بھی ہماری مانیں گے۔ لیکن اسکے دوسرے ہی دن مصر، اردن، سعودی عرب، مقتدرہ فلسطین (PA) اور قطر کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ تحریری بیان میں صاف صاف کہدیا کہ 'اہل غزہ کی ملک بدری کسی قیمت اور کسی حال قابل قبول نہیں'۔ مزاحمت کار منتقلی کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ اپنی تجویز پر علمدرآمد کیلئے بہت ہی مستقل مزاجی سے کام کررہے ہیں۔ جنرل السیسی سے فون پر تفصیلی گفتگو اور شاہِ اردن کی امریکہ طلبی اسی سلسلے کی کڑی ہے

صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری ہونے والے اس صدارتی حکم کے بعد کہ جس میں اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کردینے کی دھمکی دی گئی ہے، فلسطین کے حامیوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں خاصی بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے جامعہ مشیکن نے'طلبہ اتحاد برائے آزدای و مساوات' یا SAFE پر دوسال کیلئے پابندی لگادی۔جامعہ کا کہنا ہے کہ سیف نے گزشتہ موسم بہار میں ایک ریجنٹ کے گھر کے باہر احتجاج کیا اور انتظامیہ اجازت کے بغیر مظاہرے کرکے یونیورسٹی ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

دوسری طرف انصاف پسند اساتذہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ تیس جنوری کو سٹی یونیورسٹی آف نیویارک (CUNY)کے اساتذہ کی انجمن Professional Staff Congress (PSC) نے اسرائیل کے تعلیمی بائیکاٹ کی قرارداد 70 کے مقابلے میں 73 ووٹوں سے منظور کرلی۔پی ایس سی 30 ہزار اساتذہ کی نمائندہ تنظیم ہے۔قرارداد پر نیویارک کی گورنر صاحبہ سخت برہم ہیں۔ اپنے ردعمل میں انھوں نے کہا کہ 'اس قسم کی سرگرمیوں سے جامعات کے یہودی طلبہ اور اساتذہ کیخلاف امتیازی اقدامات کی حوصلہ افزائی ہوگی'

معاملہ صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں۔ نسل کشی کے ذمہ داروں اور سہولت کارہر جگہ دباو میں ہیں۔ گرفتاری کے خوف سے اسرائیلی وزیر برائےامورِ تارکین وطن (Diaspora Affairs) اماخائے شخلی (Amichai Chikli) نے بیلجیم کا دورہ منسوخ کردیا۔وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "ٹھوس انتباہوں اور سیکیورٹی حکام کی ہدایات کے مطابق فاضل وزیر کا دورہ منسوخ کیا جارہا ہے" لیکن کان ٹیلی ویژن کو سراغرساں ادارے شاباک (Shin Bet) کے ذرایع نے بتایا کہ شخلی کو ایسی کوئی ٹھوس دھمکی نہیں ملی۔اسرائیلی وزیر کیخلاف متوقع مقدمے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے برسلز میں حکام نے کہا تھا کہ قیام بیلجیم کے دوران قانونی کاروائی کی صورت میں جناب شخلی کو کسی قسم کا سفارتی تحفظ یا استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 فروری 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 7 فروری 2025

روزنامہ امت کراچی 7فروری 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 9 فروری 2025


No comments:

Post a Comment