غزہ بربریت کے 500 دن
قیدیوں کی رہائی کے بارے میں صدر ٹرمپ کا
الٹی میٹم اہل غزہ نے نظر اندازکردیا
مصر کے جنرل السیسی کا دورہ امریکہ منسوخ
شمالی غرب اردن کے 76ہزار فلسطینی اپنے گھروں
سے بیدخل کردئے گئے
غزہ بیدخلی منصوبہ کلیسائے روم نے مسترد
کردیا
نصف کے قریب اسرائیلی شہری ذہنی دباو کا شکار
تفریح کیلئے برازیل آنے والے اسرائیلی سپاہی
پر نسل کشی میں سہولت کاری کا مقدمہ
غزہ
میں فلسطینیوں کے قتل عام بلکہ نسل کشی کے 500 دن مکمل ہوگئے اور اب جنگ بندی کا
مستقبل بھی مشکوک نظر آرہا ہے۔اچانک پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال کے ذمہ دار
امریکی صدر ٹرمپ ہیں۔مہنیوں بات چیت کے بعد اسرائیل اور اہل غزہ تین مرحلے پر محیط
مفاہمت کی ایک تجویز پر متفق ہوئے تھے۔جسکے مطابق 6 ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں
عارضی جنگ بندی ہوگی اور 1904 فلسطینیوں کے عوض ضعیف، بیمار، خواتین اور کم عمر
بچوں سمیت 33 اسرائیلی رہا کئے جاینگے۔ معاہدے کے ایک ضامن سابق امریکی صدر جو
بائیڈن کے مطابق یہ بھی طئے پایا تھا کہ عارضی جنگ بندی کے چھ ہفتوں کے دوران
دیرپا اور مکمل جنگ بندی کیلئے مذاکرات ہونگے اور انکے منطقی انجام تک تلواریں نیام میں
رہینگی۔
پہلے
مرحلے پر 9 فروری تک معاملہ ٹھیک چل رہا تھا۔معاہدے کے مطابق غزہ کو تقسیم
کرنے والی خونی لکیر، نظارم راہداری (Netzarim Corridor)سے اسرائیلی فوج بھی ہٹالی گئی اور بمباری کے دوران شمالی غزہ سے
جنوب کی طرف ہجرت کرجانے والے فلسطین اپنے گھروں کو واپس آنا شروع ہوگئے۔ اُسوقت
تک اہل غزہ 16 اسرائیلیوں اور 5 تھائی باشندوں کو رہا کرچکے تھے کہ واشنگٹن میں
صدر ٹرمپ کی غیر معمولی آوبھگت سے وزیراعظم نیتن یاہو شوخی پر اترآئے۔شمالی غزہ کی
طرف آنے والے قافلوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی گیں۔کئی مقامات پر واپس آتے
نہتے لوگوں کو ٹینک کے گولوں اور گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔امدادی سامان خاص طور سے
خیمے، عارضی مکانات اور ایندھن لانے والے ٹرکوں کو روک دیا گیا۔اس پر ضامنوں کے
نام ایک سندیسے میں غزہ کے بانکوں نے کہا کہ مزاحمت کار امن معاہدے پر اسکے متن
اور روح کےمطابق عمل کررہے ہیں۔ نظارم راہداری سے پسپا پونے والی اسرائیلی سپاہ
ہمارے نشانے پر تھی لیکن ہم نے اپنے ہاتھ باندھے رکھے۔ دوسری جانب اسرائیل ،امدادی
ٹرکوں کاراستہ روک کراور گھر واپس آنے والے فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرکے معاہدے کی
خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔ ان خلاف ورزیوں کی بنا پر 15 فروری کو ہونے والا
تبادلہ اہل غزہ نے معطل کردیا۔ تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ قبضہ گردوں کی جانب سے
معاہدے کی پاسداری تک مزاحمت کار بھی اپنے عہد پر قائم رہینگے کہ ہمارے رب نے وعدے
کی پاسداری کا حکم دیا ہے۔
اس خبر پر صد ٹرمپ کو تو
گویا آگ لگ گئی۔ اپنے مخصوص دانت پیستے لہجے میں انھوں نے کہا کہ اگر 15 فروری 12 بجے دوپہر تک تمام کے
تمام اسرائیلی قیدی رہا نہ کئے گئے تو عارضی جنگ بندی ختم کرکے غزہ پر جہنم کے
دروازے کھول دئے جائنگے۔ انھوں نے زور دیکر کہا کہ اب قسطوں میں رہائی قابل قبول
نہیں سب کو فوراً رہا کرو۔ غزہ سے
فلسطینیوں کی بیدخلی پر اصرار کرتے ہوئے وہ متکبرانہ لہجے میں بولے کہ اگر اردن اور مصر نے غزہ مہاجرین کو قبول نہ کیا تو انکی امداد
منسوخ کردی جائیگی۔مصاحبین اور
درباریوں کو مصرع طرح ملنے کی دیر تھی۔ کیا وزیرخارجہ مارکو روبیو اور کیا
وزیردفاع و قومی سلامتی کے مشیر سب ہی نے آتشیں غزلیں بلکہ دو غزلے ارشاد فرمانے
شروع کردئے۔اس ہلہ شیری پر نیتن یاہو نے جرنیلوں کو 15 فروری کی رات سے دوبارہ
بمباری کا حکم دیدیا۔ قوم کے نام خطاب میں انھوں نے کہا کہ
اگر ہفتے کی دوپہر تک ہمارے قیدی رہا نہ ہوئے تو جنگ بندی ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی فوج
حماس کی مکمل شکست تک شدید لڑائی جاری رکھےگی۔دلچسپ بات کہ اس آتش فشانی پر اہل
غزہ کی طرف سے جواب آنے سے پہلے ہی اسرائیلی سڑکوں پر آگئے۔ قیدیوں کی رہائی اور
امن معاہدے کی پاسداری کیلئے لواحقین نے اسرائیلی وزیراعظم کی سرکاری رہائش کا
گھیراوکرلیا۔ چوراہوں پر ٹائر جلائے گئے۔تل ابیب میں امن کی علامت کے طور پر سفید
چھتری کیساتھ قیدیوں کے لواحقین نے دھرنا دیا جس پر اسرائیلی میڈیانے سرخی جمائی
کہ صرف غزہ ہی نہیں بلکہ تل ابیب کی سڑکوں پر بھی مزاحمت کاروں کا راج ہے۔ اسی
کیساتھ یمن کے ایران نواز حوثیوں نے دھمکی دی کہ لڑائی دوبارہ شروع ہونے کی صورت
میں حوثی اہل غزہ کو تنہا نہیں چھوڑینگے۔اسرائیل نہ بھولے کہ ہمارے ہاتھ اسوقت بھی
لبلبی یا Trigger پر
ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے جنگی جنون
پر مشتعل ہونے کے بجائے مزاحمت کاروں نے انتہائی شائشتہ لیکن دوٹوک انداز میں کہا
کہ دھمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں، معاہدے پر عملدرآمد میں سب کا بھلا ہے۔اگر اسرائیل
اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتا ہے توامن منصوبے کے مطابق قیدیوں کے تبادلے اور
امن کی راہ پر آگے بڑھنے کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔
اسی
دوران اردن کے بادشاہ عبداللہ چہارم صدر ٹرمپ کے ملاقات کیلئے حاضر ہوئے۔مشترکہ
پریس کانفرنس ے دوران شاہِ اردن نے بہت محتاط رویہ اختیار کیا۔ صدر ٹرمپ کی جانب
سے اہل غزہ کواردن بسانے کے سوال پر انھوں نےکہا کہ ہم 2000 بیمار فلسطینی بچوں کو
اردن لے جارہے ہیں۔شاہ صاحب نے تجویز دی کہ ٹرمپ منصوبے کو ایسے نافذ کیا جائے جوسب کے مفاد میں ہو،
اس معاملے میں ہمیں مصراور دوسرے عرب رہنماوں کے جواب کا انتظار کرنا چاہئے۔ اس پر صدر ٹرمپ نے گرہ لگائی کہ” میں 99.9فیصد پر اعتماد ہوں کہ مصر مان
جائیگا'۔ جب کسی صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ “کیا وہ غرب اردن کے اسرائیل سے
الحاق کی حمایت کرتے ہیں ؟ تو انھوں نے کہا الحاق تو ہوہی رہا ہے اور بہت اچھی طرح
ہورہا ہے” ۔اس دوران شاہ صاحب خاموش رہے۔ اپنے دوست کو شرمندگی سے بچانے کیلئے صدر
ٹرمپ نے کہا” ہماری ملاقات میں اس معاملے پر بات نہیں ہوئی'
جہاں تک مصر کا تعلق ہے تو
جنرل السیسی نے 18فروری کو امریکہ آنے کی دعوت پر صدر ٹرمپ سے معذرت کر لی ہے۔ اہل
غزہ کی وطن بدری کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے جنرل السیسی نے کہا کہ عرب ممالک
فلسطینیوں کو بیدخل کئے بغیر غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ بنارے ہیں۔
ادھر اسرائیلی حکومت دہرا
کھیل کھیل رہی تھی، یعنی جرنیلوں کے اجلاس
کی میڈیا پر خوب تشہیر کی گئی اور تاثر یہ ابھرا کہ ہفتے کی شام خوفناک بمباری کا
دوبارہ آغاز ہوگا لیکن امدادی قافلوں کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹاکر نیتن یاہو معاہدے
کی پاسداری پر بلا اعلان راضی ہوگئے۔چینل 12 کے مطابق قطر پیغام بھجوایا گیا کہ
اگر مزاحمت کار معاہدے کی شرائط کے مطابق ہفتے کے روز قیدیوں کے چھٹے گروپ کو رہا
کردیں تو اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے پر عمل جاری رکھے گا۔معاملہ ٹھنڈا رکھنے
کیلئےاسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان امر دوستری نے کابینہ کے وزراء کو ہدائت کی ہے
کہ وہ غزہ کے بارے میں کوئی انٹرویو نہ دیں اور بیان بازی سے پرہیز فرمائیں۔
امدادی قافلوں کے راستے سے
رکاوٹ ہٹتے ہی اہل غزہ نے اعلان کیا کہ 15 فروری کو تین اسرائیلی قیدی رہا کئے
جائینگے جن میں روسی و اسرائیلی دہری شہریت کے حامل ساشا طرفانوف اور امریکی و
اسرائیلی شہری ساقی دیکل شن شامل ہیں۔اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی
اعلامئے میں کہا گیا کہ 'یہ قدم ٹھیک ہے لیکن Okنہیں'۔جمعہ کی شام خان یونس میں اسٹیج سج گیا۔ وہاں نصب ایک بینر
پر صدر ٹرمپ کے غزہ سے انخلا کا شائستہ جواب عبرانی و عربی میں درج تھاکہ 'ہجرت تو بس القدس ہی کی طرف ہوگی'۔اسرائیلی
قیدیوں کو تقریبِ حوالگی تک غنیمت میں ہاتھ آئی اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر لایا گیا۔
مزاحمت کاروں کی وردی بھی اسرائیلی فوجیوں کی تھی جسے اہل غزہ نے 7 اکتوبر کو فوجی
چھاونیوں سے ہتھیایاتھا۔
معاہدے کے مطابق تین
اسرائیلیوں کے عوض 369 فلسطینی رہا کردئے
گئے۔ ان افراد کو اسرائیل کے قومی نشان چھ کونے والے ستارہ داؤدؑ کی ٹی شرٹ پہنائی
گئی جس پر عربی میں لکھا تھا'ہم بھولیں گے نہ معاف کرینگے'۔اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں اسرائیلی قیدیوں اور باقیات
کی حوالگی کچھ اسطرح ہوگی:
- جمعرات 20
فروری: چار اسرائیلیوں کی لاشیں اقوام متحدہ کے حوالے کی جائینگی
- ہفتہ 22 فروری:
تین اسرائیلی قیدی رہاہونگے
- ہفتہ 27 فروری:
مزید چار لاشیں اقوام متحدہ کے سپرد کی جائینگی
- اتوار 2 مارچ:
دس سال پہلے پکڑے گئے دوافراد سمیت تین مزید قیدی چھوڑے جائینگے
اتوار 16 فروری کی دوپہر،
مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے واشنگٹن میں قومی
سلامتی کے مشیر مائیکل والز کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انکشاف کیا
کہ کہ قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی
معاہدے کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات رواں ہفتے شروع ہوجائینگے۔ انھوں نے مزید کہا کہ
اس معاملے پر وہ اسرائیلی و قطری وزرائے اعظم اور مصر سراغرسانی کے سربراہ حسن رشد
سے رابطے میں ہیں۔ دلچسپ بات کہ ایک دن قبل تمام قیدیوں کی رہائی سے پہلے مزید بات
چیت نہ کرنے کا اعلان کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم نے مسٹر وٹکوف کے بیان کے فوراً
بعد مذاکرات میں اسرائیل کی شرکت پر آمادگی ظاہرکردی۔ امریکی وزیرخارجہ مارکو
روبیو نے نے بھی رائے دی کہ جنگ کے دوبارہ آغاز سے غزہ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا،
اسلئے کہ فوجی طاقت سے مزاحمت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ صرف تین پہلے انھوں نے کہا تھا
کہ وہ عارضی جنگ بندی ختم کرنے کے حامی ہیں تاکہ مزاحمت کاروں کو ختم کردیا جائے۔ ان
باتوں سے امید پیدا ہورہی ہے کہ غزہ کا امن کم از کم اگلے چند ہفتے برقرار رہیگا۔تاہم
اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ غزہ کی طرف آنے والے عارضی مکانات (mobile homes)اور ایندھن سے لدے ٹرکوں کے
راستے میں اسرائیلی فوج نے دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جسکی تصدیق کرتے ہوئے
وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ اس معاملے کا ہنگامی کابینہ جائزہ لے رہی ہے۔
غزہ کیساتھ شمالی غرب اردن
میں بھی صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جنین، تلکرم، اسکے
مضافات میں قائم نورشمس خیمہ بستی اور وادی اردن کی فارعہ خیمہ بستی سے 76 ہزار
فلسطینیوں کو بیدخل کیا جاچکا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے International Federation for Human Rights (FIDH) نے اسکی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا اس غیر انسانی سلوک کے
خاتمے کیلئے اسرائیل پر دباو ڈالے۔ غزہ بیدخلی منصوبے پر کلیسائے روم نے بہت سخت
موقف اختیار کیا ہے۔ ویٹیکن کے سکریٹری آف اسٹیٹ Pietro Parolinنے ایک بیان میں کہا غزہ سے no deportationہمارا اصولی موقف ہےجس میں لچک تو کیا بات چیت کی بھی کوئی گنجائش
نہیں۔
نیتن یاہو کے شوقِ کشور
کشائی نے جہاں غزہ اور غرب اردن کے لاکھوں
فلسطینیوں کو تباہ کردیا وہیں اسرائیلی بھی اس وحشت کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ مرکزی
ناظم حسابات (Comptroller General) میتن یاہو انگلمین نے ذہنی صحت کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے
اسکے مطابق جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ بالغ اسرائیلی شہریوں کو اضطراب ، افسردگی
اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی علامات کا سامنا ہے۔اسرائیل کی کل یہودی آبادی 72 لاکھ ہے یعنی
ملک کے نصف کے قریب لوگ اس جنگ سے ذہنی طور پر متاثر ہیں
نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب
بھی جاری ہے۔ اسرائیلی محفوظ دستے کا ایک سپاہی یو وال وگدانی (Yuval Vagdani)جب تعطیلات منانے برازیل آیا
تو مجرموں کا پیچھا کرنے والی ہند رجب فاونڈیشن نے عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلے کی بنیاد پر اس
فوجی کے خلاف پرچہ کٹوا دیا۔دلائل اتنے جاندار تھے کہ موصوف کی گرفتاری کا پروانہ
جاری ہوگیا۔ تاہم اسرائیلی خفیہ ایجنسی بھی غافل نہ تھی، راتوں رات یووال وگڈانی
کو برازیل سے فرار کرادیا گیا۔
اور آخر میں فلسطین دشمنی کے
ایک اندھے مظاہرےکا ذکر۔میامی بیچ (فلورڈا) میں پولیس نے ایک 27 سالہ انتہا پسند
یہودی مردخائے برافمین (Mordchai Brafman) کو گرفتار کیا ہے جس نے اسرائیل سے تفریح کیلئے امریکہ آنے والے
یہودی باپ بیٹے کو فلسطینی سمجھ کر قتل کرنے کی کوشش کی۔مردخائے پر قتل کی 'کوشش'
کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور فرد جرم میں نفرت پر مبنی حمہ یا hate crimeکاالزام نہیں لگایا گیا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 فروری 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 21 فروری 2025
روزنامہ امت کراچی 21 فراوری 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 فروری 2025
No comments:
Post a Comment