Sunday, September 15, 2024

ڈانلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مباحثہ افغانستان سے پسپائی پر دلچسپ نونک جھونک تارکین وطن کا حقارت انگیز ذکر کملا کم عقل ہیں، دو جملے ترتیب نہیں دے سکتیں ۔ ڈانلڈ ٹرمپ خواتین کی بیحرمتی اور ٹیکس چوری جیسے 34الزامات پر مجرم قرار پانیوالاہمیں لیکچر دے رہا ہے۔ کملا کا جواب

 

ڈانلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مباحثہ

افغانستان سے پسپائی پر دلچسپ نونک جھونک

تارکین وطن کا حقارت انگیز ذکر

کملا کم عقل ہیں، دو جملے ترتیب نہیں دے سکتیں ۔ ڈانلڈ ٹرمپ

خواتین کی بیحرمتی اور ٹیکس چوری جیسے  34الزامات پر مجرم قرار پانیوالاہمیں لیکچر دے رہا ہے۔ کملا کا جواب

 منگل 10 ستمبر کو سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان براہ راست  مباحثہ ہوا۔ اسکا اہتمامABC  ٹیلی ویژن نے کیا تھا۔جائزے کے مطابق 1 ایک کروڑ 20 لاکھ امریکیوں نے 90 منٹ کا یہ مباحثہ براہ راست دیکھا۔ سوا دوماہ پہلے 27 جون کو ڈانلد ٹرمپ اور صدر بائیڈن کے مابین مباحثے کو چار کروڑ لوگوں نے ملاحظہ کیا۔ حوالہ: ChatGPT۔ ناظرین کی کم تعداد معنی خیز اور امریکی انتخابات میں عوام کی عدم دلچسی کو ظاہر کرتی ہے۔ پہلےمباحثے میں صدر بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی نے انھیں دوڑ سے دستبرداری پر مجبور کیا۔

یہ کملا ہیرس کا پہلا صدارتی مباحثہ تھا جبکہ ڈانلڈ ٹرمپ 2016 کی مہم کے دوران ہیلیری کلنٹن اور 2020 میں صدر باییڈن سے کئی بار بحث کرچکے ہیں۔ہیرس صاحبہ نے مباحثے کیلئے بھرپور تیاری کی اوروہ ماہرین کی نگرانی میں  دو ہفتے سے مشق کررہی تھیں۔ یہ درست کہ کملا ہیرس کو صدارتی مباحثے کا تجربہ نہیں لیکن وہ ایک منجھی ہوئی وکیل اور فنِ گفتگو و تقریر کی ماہر ہیں۔ دوسری طرف اس میدان میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی صلاحیت قابلِ رشک نہیں۔ انکا ذخیرہ الفاط  بے حد مختصر ہے جسکی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو  بار باردہراتے  ہیں۔

گفتگو کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے اپنی حریف پر کمیونسٹ ہونے کی پھبتی کسی اور بولے 'کامریڈ ہیرس مارکسسٹ ہیں، انکے والد مارکسزم کے پروفیسر تھے'۔جناب ٹرمپ کے خیال میں کملا جی کم عقل ہیں، یہ دوجملے ترتیب نہیں دے سکتیں اور اگر محترمہ  صدر منتخب ہوگئیں تو امریکہ کیلئے یہ ایک المیہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ  اس ملک کے دو بڑے مسائل ہیں۔ایک شکستہ سرحد جسکی وجہ سے ملک میں جرائم پیشہ لوگوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور دوسرا غیر شفاف انتخابی نظام۔ لاکھوں غیر ملکی تاریکین وطن کو ووٹر بنایا جارہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ بائیڈن انتطامیہ کی مہمل امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے ہر ملک کے مجرم پیشہ عناصر، دہشت گرد اور عصمت دری کے عادی امریکہ آرہے ہیں۔ دنیا میں جرائم کم ہورہے ہیں لیکن امریکہ میں پُر تشدد جرائم کی شرح آسمان پر ہے، اسلئے کہ سب وحشی یہاں آگئے ہیں۔ اس پر میزبان ڈیوڈ موئر نے توجہ دلائی کہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چارسالوں کے دوران امریکہ میں سنگین جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے جسے مسترد کرتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جھوٹی حکومت فیک اعدادوشمار جاری کررہی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ آنے والے غیر ملکی،  مقامی شہریوں کےپالتو کتے اور بلیاں کھارہے ہیں جس پر میزبان نے پھر مداخلت کی اورکہا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی اس خبر کو شہری انتظامیہ نے من گھڑت خبر قراردیا ہے۔

اسکا جواب دیتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا 'واہ واہ ذرا دیکھو یہ کون کہہ رہا ہے۔ وہ شخص جس پر خواتین کی بیحرمتی، ٹیکس چوری، قومی راز افشا کرنے سمیت 34 سنگیین جرائم ثابت ہوچکے ہیں اور موصوف کو نومبر میں سزا سنائی جائیگی۔ جواب میں ٹرمپ بولے کہ  بائیڈن انتظامیہ نے عدالت اور محکمہ انصاف میں اپنے حامی بٹھادیے ہیں جو میرے خلاف انتقامی کاروائی کررہے ہیں۔ انکے جھوٹے پروپینگنڈے کی وجہ سے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔

نوے منٹ پر میط اس مباحثے کے  تمام نکات کو اس کالم میں سمونا ممکن نہیں تاہم اس دوران غزہ نسل کشی اور افغانستان کے معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی اور ان نکات پر ان دونوں رہنماوں نے بہت ہی بے شرمی سے جھوٹ بولے۔

 افغانستان سے پسپائی کا ذکر کرتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بائیڈن حکومت نے وہاں سے بھاگنے میں جس بدحواسی بلکہ نامردی کا مطاہرہ کیا اس نے اقوام عالم میں امریکہ کا رعب و دبدبہ ختم کردیا۔ امریکہ کے تیرہ جوان مارے گئے اور 85 ارب ڈالر کا جدید ترین اسلحہ افغانوں نے ہتھیالیا۔ حسبِ عادت شیخٰی بگھاری کہ 'میں نے عبدل (قطر امن مذاکرات میں افغان وفد کے سربراہ ملا عبدالغنئ برادر) کو فون کیا اور کہا 'خبردار جو اب ہمارے کسی جوان پر حملہ کیا۔ میں نے اسکے گھر کی تصویر اسکو بھیجی، یہ ایک پیغام تھا کہ تمہارا گھر بھی ہمارے نشانے پر ہے'۔ اسکا جواب دیتے ہوئے کملا بولیں' صدر بش، صدر اوباما اور صدر ٹرمپ تینوں نے افغانستان سے فوج بلانے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی صدر بائیڈن کو نصیب ہوئی۔ امریکی نائب صدر نے انکشاف کیا کہ افغان جنگ کا خرچہ 300 ملین یا 30 کروڑ ڈالر روزانہ تھا۔ انھوں نے جوابی الزام لگایا کہ ٹرمپ دور میں افغان معاہدہ دب کر کیا گیا اور افغان حکومت کے بجاے دہشت گردوں سے مذاکرات ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر دونوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔افغان حکومت کے بجائے ملاوں سے مذکرات کا اصولی فیصلہ اوباماحکومت کے آخری دنوں ہوچکا تھا۔ ملاوں کو منانے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کئی بار غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان آئے لیکن ملا انکی بات نہ مانے اور آخرِ کار واشنگٹن براہ راست مذاکرات پر مجبور ہوا۔اسی طرح ٹرمپ صاحب کی جانب سے عبدل کو ڈرانے کا دعوی نری شیخی اور لن ترانی ہے۔ فون گفتگو کی حقیقت یہ ہے کہ جب قطر امن معاہدے پر اصولی اتفاق ہوگیا تو سوال اٹھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کیسے ہو؟ امریکہ کے مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے جب یہ معاملہ افغان وفد کے کے سامنے رکھا تو 'عبدل' نے کہا کہ ہم امریکی سپاہیوں کو واپسی کیلئے محفوظ راستہ دینے و تیار ہیں لیکن ہتھیار واپس نہیں لے جانیں دینگے۔ کافی بحث مباحثے کے بعد یہ طئے پایا کہ ہر سپاہی گولیوں کے بغیر اپنا ذاتی اسلحہ ساتھ لےجاسکتا ہے۔ محفوظ راستے کی یہی ضمانت حاصل کرنے کیلئے صدر ٹرمپ نے عبدل کو فون کیا تھا۔ گھر کی تصویر دکھانے والی بات اس اعتبار سے لغو ہے کہ امریکی حملے کے آغاز پر ہی عبدل کراچی میں گرفتار ہوگئے تھے اور زلمے خلیل زاد کی درخواست پر انھیں رہا کرکے کراچی سے قطر بھیجا گیا۔ انکا کابل میں کوئی گھر تھا ہی نہیں جسکی ٹرمپ صاحب تصویر دکھاتے۔ یہ معاہدہ 1400 سال پہلے ہونے والے بنو نضیر معاہدے کی نقل ہے جب اس شرط پر ان لوگوں کی جان بخشی کی گئی تھی کہ وہ اسلحہ چھوڑ کر جلا وطن ہونگےجائیں۔

غزہ نسل کشی کے معاملہ اٹھانے کیلئے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے صبح کو مباحثے کے مقام نیشنل کانسٹیٹیوشن سینٹر فلاڈیلفیا جانیوالی مرکزی سڑک پر دھرنا دیا۔ پولیس سے مذاکرات کے بعد یہ نوجواان اس شرط پر وہاں سے اٹھے کہ انھیں ہال کے مرکزی دروازے پر مظاہرے کی اجازت ہوگی۔روائیتی کفیہ اوڑھے نوجوان غزہ نسل کشی کیخلاف نعرے لگاتے رہے۔ وہان ایک  تقابلی کتبہ لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنا رہا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ غزہ نسل کش، ماحول دشمنی اور تارکینِ وطن سے تضحیک آمیز برتاو کےحوالے سے ٹرمپ اور کملا بالکل ایک ہیں اور ان دونوں نے سیاست و ایوان حکومت کو بڑی کارپویشنوں کےپاس گروی رکھدیا ہے

غزہ خونریزی کے سوال پراسرائیل نوازی کا بھرم رکھتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا کہ موجودہ تنازعے کا آغاز 7 اکتوبر کو ہوا جب دہشت گردوں نے 1200 بے گناہ اسرائیلیوں کو ہلاک، خواتین کو بے آبرو اور سینکڑوں معصوم لوگوں کو یرغمال بنایا۔اس تناظر میں اسرائیل کو اپنے دفاع اور جوابی کاروائی کا حق حاصل ہے۔ لیکن دفاع اور جواب دیتے ہوئے اخلاقی اقدار کی پاسداری ضروری ہے۔ غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے اور سارا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔فوری جنگ بندی اور غزہ کی تعمیر نو ہماری ترجیح ہے۔ محفوظ اسرائیل کیساتھ پرامن، بااختیار،مستحکم اور خوشحال فلسطینی ریاست ضروری ہے۔اپنی بات ختم کرتے ہوئے نائب صدر صاحبہ بولیں 'پھر سن لیں!! اسرائیل کے تحفظ کیلئے میرا عزم آہنی ہے۔

اسکا جواب دیتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا 'ہیرس کواسرائیل سے نفرت ہے۔اگریہ صدر بن گئیں تو اسرائیل ختم ہوجائیگا۔ تاہم یہ عربوں کی بھی دوست و ہمدرد نہیں۔

صدارتی مباحثے کے بعد ناظرین کا جو جائزہ CNNنے شایع کیا اسکے مطابق 63 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ کملا ہیرس بحث کے دوران چھائی رہیں جبکہ 37 فیصد کہتے ہیں کہ ٹرمپ غالب رہے۔جناب ٹرمپ نے CNNکےجائزے کو تعصب سے آلودہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے جائزوں میں 72 سے 92 فیصد لوگوں نے انھیں فاتح گردانا ہے۔ صدر بائیڈن اور جناب ٹرمپ کے درمیان 27 جون کو ہونے والے مباحثے میں 67 فیصد افراد نے سابق صدر کو فاتح تسلیم کیا تھا

ہفت روزہ سنڈے میگزین، روزنامہ جسارت کراچی 15 ستمبر 2024


Thursday, September 12, 2024

سرائیلی عوام سڑکوں پر غزہ سے فوج بلاو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو انتہا پسند وزیراندرونی سلامتی کے منہہ پر خاک پھینک دی گئی ناروے، نسل کشی کے سہولت کار اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کریگا

 

اسرائیلی عوام سڑکوں پر

غزہ سے فوج بلاو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو

انتہا پسند وزیراندرونی سلامتی کے منہہ پر خاک پھینک دی گئی

ناروے، نسل کشی کے سہولت کار اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کریگا

پیر، 8 ستمبر کی صبح امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس نے لندن میں اپنے برطانوی ہم منصب رچرڈ مور کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نوید سنائی کہ 'غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر 90فیصد اتفاق ہوچکا ہے'۔نوے فیصد سن کر ہمیں اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ  مشغلہ زبان سے زیادہ کچھ نہیں۔ برنس صاحب اگر 99 فیصد کہہ دیتے تب بھی غلط نہ ہوتا کہ اختلاف تو بس غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر ہے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ شام کو اسرائیل کے ٹیلی ویژن چینل 12 نے  مذاکرات کاروں کے حوالے سے بتایا کہ اہل غزہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں اور وہ اپنے موقف میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد پرامید نظر آنے والے سی آئی اے کے سربراہ نے مذاکرات ناکام ہونے کا مایوس کن اعلان کردیا۔دوپہر کو CNNکے ایک پروگرام میں اسرائیلی مذاکراتی وفد کے قائد ریٹائرڈ بریگیڈئر جنرل گال ہرش (Gal Hirsch) نے فرمایا اگر مزاحمت کار قیدی رہا کردیں تو جنگ ابھی بند ہوسکتی ہے اور پھر 'فراخدلانہ' یشکش کی کہ ہم دہشت گرد رہنماوں کو غزہ سے  بحفاطٹ نکلنے کیلئے راستہ دینے کو بھی تیار ہیں۔ غزہ سے اسکا ترنت جواب آیا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں، واپسی کا راستہ حملہ آوروں اور قبضہ گردوں کو ڈھونڈنا ہے

فوج کے انخلا پر فریقین کے غیر لچکدار روئے کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ مزاحمت کارجانتے ہیں کہ زیرِحراست اسرائیلی قیدی وہ آنکُس ہے جس سے انھوں نے بدمست ہاتھی اور انکے سرپرستوں کو قابو کیا ہوا ہے اور اپنی تمام شرائط منوائے بغیر وہ انھیں رہا کرنے کو تیار نہیں۔ زمینی حقائق بھی اسرائیل کیلئے مایوس کن ہیں کہ سارے غزہ کو ریت کا ڈھیر بنادینے کے باوجود وہ مزاحمت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بارش کی طرح برستے لبنانی میزائیلوں اور راکٹوں سے شمالی اسرائیل تیزی سے کھنڈر بن رہا ہے۔ بحالی مراکز معذوراسرائیلی سپاہیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ چار ستمبر کو سالانہ دماغی صحت کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے وزیرصحت یوریل بیوسو (Uriel Buso)نے کہا کہ ملک کو دماغی صحت کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔اس تناظر میں جنگ بندی اسرائیل کی ضرورت ہے اسلئے کہ اہل غزہ ے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں

شیخی اور لاف زنی اپنی جگہ لیکن نیتھن یاہو کی وزارت عظمیٰ بیساکھیوں پر کھڑی لڑکھڑارہی ہے کہ 120رکنی اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں برسراقتدار لیکڈ پارٹی کی صرف 32 نشستیں ہیں اور وہ کرسی برقرار رکھنے کیلئے توریت پارٹی، پاسبان توریت یا Shasپارٹی، عظمت یہود پارٹی اور دینِ صیہون جماعت کے محتاج ہیں۔ بھان متی کا یہ کنبہ جوڑ کر نیتھن یاہو نے رائے شماری کے دوران 64 ووٹ حاصل کئے جو کم سے کم کے نشان سے صرف 3 زیادہ ہے اور پارلیمانی حلیف صاف صاف کہہ  چکے ہیں کہ اگر حکومت نے انخلا کا فیصلہ قبول کیا تو وہ اتحاد سے نکل جائینگے۔معاملہ صرف اقتدار کا نہیں بلکہ نیتھن یاہو کے خلاف بدعنوانی اور بے ایمانی کے کئی مقدمات تیار ہیں۔ وزارت عظمیٰ ختم ہونے پر جیسے ہی استثنیٰ کی چھتری ہٹی، موصوف کو جیل جانا ہوگا۔ یعنی جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

عوامی سطح پر حکومت سخت دباو میں ہے۔ بندوق کی نوک پر قیدی چھڑانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد سے اسرائیلی سڑکوں پر ہیں۔اس مہم جوئی میں پانچ اسرائیلی قیدی ہلاک ہوئے تھے۔ قیدیوں کے لواحقین نے علامتی تابوتوں کیساتھ اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر کے باہردھرنا دے رکھا ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک قیدی کی والدہ نے کہا'اگر اپنے پیاروں کی جان بچانا چاہتے ہو تو اس جلاد کو ازا اسٹریٹ (اسرائیلی وزیراعظم کی سرکاری رہائشگاہ) سے نکال باہر کرو اور اس قصاب کی جگہ کسی درد مند انسان کو لے آو'۔ 'بی بی اور بی بی کے بے ضمیر وزیرو!! تاریخ میں تمہارے نام قتل ہونے والے یرغمالیوں کے خون سے لکھے جائیں گے'۔ جنگ سے نفرت کے اظہار میں کچھ مظاہرین نے تل ابیب کے چوک پر لگے غزہ کے 'اسرائیلی شہدا' کی تصویریں پھاڑدیں۔

اسرائیلی Hostages and Missing Families Forum کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا 'قیدیوں کی ہلاکت نیتن یاہو کی جانب سے امن معاہدوں کوثبوتاژ کرنے اور فلاڈیلفی کوریڈور میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر اصرار کا براہ راست نتیجہ' ہے۔ کرائم منسٹر عسکری ترجمان کے پیچھے نہ چھپیں اور عوام کو قیدیوں سے غداری کا حساب دیں۔ اتوار 8 ستمبر کو تل ابیب میں اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جس میں ساڑھے سات لاکھ افراد شریک ہوئے۔ کئی جگہ پولیس نے تشدد کیا اور صحافی، قانون نافذ کرنے والوں کا نشانہ بنے۔

حزب اختلاف کے رہنما اب کھل کر ان مظاہروں میں شرکت کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے  اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے قائد بینی گینٹز نے کہا کہ ہماری بنیادی ترجیح قیدیوں کی واپسی ہونی چاہے اسکی کوئی بھی قیمت اداکرنی پڑے۔ ہمارے پیارے اہم ہیں فلاڈیلفی راہداری نہیں۔ 'بی بی استعفیٰ دو' کی گونج میں جرنیل صاحب نے کہا کہ وزیراعظم نیتھن یاہو ہمارے قیدی واپس لاسکتے ہیں نہ وہ لبنانی میزائیلوں سے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں۔شمالی اسرائیل، راکٹ بازی اور میزائیل حملوں سے کھنڈر بنتا جارہا ہے۔ غزہ بھی بی بی کے بس کی بات نہیں۔

صحافیوں کی جانب سے بھی اب اسرائیلی وزیراعظم کاکڑا احتساب ہورہا ہے اور قلم کے مزدور نیتھن یاہو کو آئینہ ایام میں انکی ادا دکھلا رہے ہیں۔پانچ ستمبر کواخباری کانفرنس میں ایک صحافی نے  اپنے موبائل پر وزیراعظم کو انکی اس تقریر کا بصری تراشہ دکھایا جو موصوف نے اپریل کے آغازمیں کی تھی۔ اس خطاب میں موصوف فرمارہے تھے کہ 'غزہ میں اسرائیلی فوج، 'فتح مبیں' سے بس ایک قدم دور ہے'۔ تراشہ دکھاکر الارض (Haaretz)کے صحافی نے پوچھا کہ 'اسرائیلی فوج کا ایک قدم کتنا بڑا ہے کہ چار ماہ میں بھی عبور نہیں ہوا بلکہ قومی سلامتی کے مشیر زکی حنگبی نے کل ہی کہا کہ جنگ 2025 کے دوران بھی جاری رہیگی'۔ نیتھن یاہو، انتہائی ڈھٹائی سے بولے ''اس وقت میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس اہم سنگِ میل سے ایک قدم دور ہیں جہاں سے ہماری فتح کی راہ ہموار نظر آرہی ہے' واقعی،  جب آدمی بے حیا ہوجائے تو جو چاہے کہتا پھرے

وزیراعظم کی جانب سے فتح مبیں اور قیدی چھڑانے کے بلند باند دعووں پر اب عام اسرائیلیوں کو اعتماد نہیں رہا۔ رائے عامہ پر نظر رکھنے والے انتہائی موقر ادارے اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ  نے 4 ستمبر کو ایک جائزہ شائع کیا ہے جسکے مطابق 73فیصد سے زیادہ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ حکومت غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کو بحفاظت واپس لانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

عوامی مقامات پر نظر آنے والے وزرا کو عام لوگوں کی جانب سے ناراضگی کا سامنا ہے۔ چند روز پہلے وزیرتعلیم یوو کیش (Yoav Kisch) کفر مناحم اسکول کے دورے پر آئے تو مظاہرین نے انھیں گھیر لیا اور 'قیدی واپس لاو یا گھر جاو' کے نعرے لگائے۔ پولیس نے نرغے میں لے کر وزیرباتدبیر کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا۔

انتہا پسند عظمتِ یہود جماعت کے سربراہ اور وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر 6 ستمبر کو تل ابیب کے ساحل پر عوام کے ہاتھوں رگیدے گئے۔لوگوں نے قاتل قاتل کے نعرے لگائے اور ایک 27 سالہ خاتون نے انھیں  دہشت گرد کہتے ہوئے وزیر کے منہہ پر ریت پھینک دی۔مکافات عمل کی اس سے زیادہ عبرتناک مثال اور کیا ہوگی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت ساری دنیا سے مستضعفین کو دہشت گرد قرار دلوانے والوں کو اب خود انکے اہل وطن دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔

غزہ جنگ اور قیدیوں کے بارے میں ہیجان حکومتی و سیاسی ایوانوں میں بھی نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ہفتے شادی کی ایک نجی تقریب میں بینی گینٹز نے اتمار بن گوئر سے مصافحہ کرلیا۔ یہ تصویر دکھا کر جب ایک صحافی نے قائد حزب اختلاف سے تبصرہ کرنے کو کہا تو یار لیپڈ بولے 'میں دہشت گردوں کے پشت پناہوں سے ہاتھ نہیں ملاتا' اس بات پر اتامر بن گوئر سخت مشتعل ہوگئے اور دوسرے دن خصوصی پریس کانفرنس طلب کرکے کہا "یار لیپڈ نے اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی مدد سے حکومت تشکیل دی، وہ فوجیوں کے قتل کی حمائت اور دہشت گردی کی مذمت کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمیں انکے لیکچر کی ضرورت نہیں۔ آپ ( مقتدرہ فلسطین کے سربراہ) عباس اور دیگر دوستوں سے ہاتھ ملاتے رہئے جن سے آپ کودلی محبت ہے۔

بربریت کے حوالے سے دہلی میں مقیم اسکاٹ لینڈ کے مشہور ادیب و مورخ ولیم ڈلرمپل (William Dalrymple)   نے  غزہ پر بمباری کے جو اعدادوشمار شایع کئے اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جناب ڈالرمپل کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما پر جو جوہری بم گرایا گیا اسکی شدت 15000ٹن بارود کے مساوی تھی۔ س عرصے میں جرمنوں نے لندن پر 20 ہزار ٹن بارود برسایا، جبکہ غزہ پر اب تک 85 ہزار ٹن بارود گرایا جاچکا ہے۔ حوالہ؛ ٹویٹر

فراہمیِ اسلحے کے حوالے سے کسی حد تک حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ برطانیہ نے اسرائیل کو جاری ہونے والے  اسلحے کے 350 میں سے 30 لائسنس معطل کردئے۔وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی کے مطابق 'تفصیلی جائزے سے پتہ چلا اسرائیل کو بعض ہتھیاروں کی فروخت سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے۔ بلا شبہہ یہ بہت تاخیر سے اٹھایا گیا بہت ہی چھوٹا قدم ہے۔ کی مرے قتل کے بعد اس سے جفا سے (علامتی) توبہ

ایسا ہی تاخیری سجدہ سہو فیس بک کے مالک ادارے metaنے اداکیا ہے یعنی 11 ماہ سوچ و بچار کے بعد 'نہر ٰتا بحر فلسطین' کے نعرے کو 'جائز' قرار دیدیاگیا۔دنیاکی اس مقبول ترین پکار اور نوشتہ دیوار کو فیس بک سے نفرت انگیر مواد یا Hate Speechقرار دیکر حذف کیا جاتا رہا۔اب meta کی نگراں کمیٹی (Oversight Board)نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ نعرہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے، جس میں دعوتِ تشدد یا کسی قوم، ملک یا لسانی و معاشرتی اکائی کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں چانچہ یہ جملہ کمپنی کی پالیسیوں سے متصادم تصور نہیں کیا جاسکتا۔کاش امریکہ کے اسرائیل نواز ارکان کانگریس بھی اپنا ذہن ذرا وسیع کرلیں جنکے خیال میں نہر تا بحر فلسطین کا نعرہ اسرائیلی ریاست کو مٹانے کا عزم اور antisemitism کی ایک شکل ہے۔

ایسی ہی ایک خبر ناروے سے کہ سرکای وقف المعروف Norway Wealth Fundنے غزہ نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مدد اور سہولت فراہم کرنے والے اداروں میں سرمایہ کاری نہ کرنےکا عندیہ دیا ہے۔فنڈکی کمیٹی برائے اخلاقیات نے سرمایہ کاری کمیٹی کے نام خط میں ہدائت کی ہے کہ ان اداروں میں سرمایہ کاری نہ کی جائے جو نسل کشی اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی میں کسی بھی طرح مدد کررہے ہیں۔ناروے ویلتھ فنڈ دنیا بھر کی 8800 کمپنیوں میں 1700ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے

غزہ قتل عام کیساتھ شمالی غرب اردن کو پتھروں کے دور میں پہنچادینے کاعمل جاری ہے۔جنین میں شہری سہولیات ( پانی، سیوریج، بجلی اورگیس) تباہ کرنے کے بعد سڑکیں بلدوزروں سے ادھیڑ دی گئیں۔شہر رہنے کے قابل نہیں رہا، لیکن اہل جنین کہتے ہیں یہ ہماری زمین ارضِ فلسطین ہے ، ہم یہاں سے کہیں جانے والے نہیں

فوجی کاروائی کیساتھ انتہا پسند قبضہ گردوں نے غنڈہ گردی کا بازار گرم کررکھا ہے۔ جمعہ 6 ستمبر کو رام اللہ کے مضافاتی علاقے خربۃ ابو فلاح پر فوج کی نگرانی میں مسلح قابضین (Settlers) نے حملہ کیا۔ درجنوں مکانات تباہ،کاریں نذرِ آتش اور زیتون کے باغ نوچ ڈالے گئے۔ مقامی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ان اوباشوں نے جاتے جاتے دیوارں پر ستارہ داودؑ بنا کر (غزہ کا) انتقام لکھدیا۔عین اسی وقت غارتگر قابضین کی ایک اور ٹولی نابلوس کے گاوں قریوت پر حملہ آور ہوئی۔اندھاھند فائرنگ سے ایک 13 سالہ بچی بنا امجد بکر جان سے گئی۔اسی دن نابلوس کے مضافاتی علاقے بیتا میں فوج کی فائرنگ سے 26 سالہ ترک امریکی خاتون عائشہ نور آئیگی جاں بحق ہوگئی۔ عائشہ نور فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے کام کرنے والے ادارے International Solidarity Movement (ISM) کی رضاکار تھی جسے مظاہرے کے دوران ماتھے پر گولی ماری گئی۔

امریکہ میں گرفتاری، انتقامی کاروائیوں اور اخراج کی دھمکیوں کے باوجود جامعہ کولمبیا میں تعطیلات کے بعد تعلیمی سال کے پہلے ہی دن غزہ نسل کشی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ جامعہ ہاوروڈ اور جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC)میں بھی جلوس نکالے گئے۔ نائب صدارت کیلئے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جے ڈی وانس نے جامعات میں مظاہروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ پر زوردیا ہے کہ وہ کیمپس پر مظاہروں کو غیر قانونی قراردیں۔ ڈانلڈ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں  کہ اگر وہ انتخابات جیت گئے تو امریکہ بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگادی جائیگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 ستمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 ستمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 15 ستمبر 2024


Sunday, September 8, 2024

امریکی انتخابات کملا دیوی ہیرس کا تعارف

 

امریکی انتخابات  

کملا دیوی ہیرس کا تعارف

امریکہ میں انتخابی مہم  زوروں پر ہے۔انتخابات تو 5 نومبر کو منعقد ہونگے لیکن اکثر ریاستوں میں پندرہ اکتوبر سے 'قبل از وقت ووٹنگ' یا Early Votingکا آغازہوجائیگا۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کو بھی اگلے ماہ کے وسط سے پرچہ انتخابات کا اجرا شروع ہوگا۔

عام انتخابات کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے علاوہ لیریٹیرین پارٹی، گرین پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی سمیت 11 دوسری جماعتوں کے علاوہ درجن بھر آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ لیکن امریکہ کے مہمل انتخابی نظام میں تیسرے امیدوار کی کامیابی کاکوئی خفیف سا بھی امکان نہیں۔اسلئے اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی ٹکٹ یافتہ نائب صدر کملا دیوی ہیرس کے درمیان ہے۔ کملا صاحبہ خود کوکمالا کہلاتی ہیں۔ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم ڈانلڈ ٹرمپ کا تعارف پیش کرچکے ہیں۔ آج شریمتی کملا صاحبہ پر چند سطور

کملا دیوی صاحبہ کو امریکی تاریخ کی پہلی غیر مسیحی، ہندنژاد خاتون نائب صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان سے پہلے امریکہ کی ڈھائی سوسالہ تاریخ میں صرف دو خواتین کو کسی بڑی جماعت نے نائب صدر کیلئے امیدوار نامزد کیا۔ محترمہ جیرالڈین فرارو 1984 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار والٹر مانڈیل کے ہمراہ میدان میں اتریں اور صدر ریگن کے امیدوار برائے نائب صدارت جارج بش سے شکست کھاگئیں۔ اسکے چوبیس سال بعد 2008 میں محترمہ سارہ پیلن کو ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مک کین نے نائب صدارت کیلئے نامزد کیا لیکن انھیں جو بائیڈن نے ہرادیا۔

صدارت کیلئے کملا جی امریکی تاریخ کی دوسری خاتون امیدوار ہیں اس سے پہلے 2016 میں انھیں کی پارٹی کی سینیٹر ہلیری کلنٹن کو ڈانلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شکست ہوچکی ہے۔

کملا صاحبہ کی والدہ انجہانی شیمالہ گوپلان مدراس سے امریکہ تشریف لائیں۔ انھیں امریکہ کے انتہائی موقر دانشگاہ جامعہ کیلی فورنیا کے شعبہ حیاتیات میں داخلہ مل گیا۔ امریکہ آمد کے وقت شیمالہ صاحبہ صرف 17 سال کی تھیں۔ انھوں نے برکلے سے تغذیہ و درافرازیات (Nutrition & Endocrinology) میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اسی جامعہ میں انکی ملاقات جمیکا کے جناب ڈانلڈ ہیرس سے ہوئی جو مارکسسٹ معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کےبعد جامعہ اسٹینفورڈ میں پروفیسر تھے۔ملاقات پسند اور محبت کے مرحلے طئے کرتی چند ہی ماہ میں نکاح تک جاپہنچی۔ شیمالہ صاحبہ اپنے شوہر سے صرف چار مہنیہ چھوٹی تھیں۔ شادی کے ایک سال بعد کملا بی بی نے جنم لیا اور اسکے تین سال بعد انکی چھوٹی بہن مایہ نے آنکھ کھولی۔ مایہ کی پیدائش کے چار سال بعد شیمالہ جی کو طلاق ہوگئی۔ کملا ہیرس کے اپنے والد سے تعلقات رسمی نوعیت کے ہیں۔ شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے وقت وہ صرف 9 سال کی تھیں اور انکی پرورش والدہ نے کی جو ہندوستانی اقدار سے وابستہ رکھنے کیلئے کملا اور انکی بہن کو کئی بار چنائے (ہندوستان) لے گئیں۔

کملا ہیرس نے امریکی دارالحکومت کی جامعہ ہوورڈ (Howard)سے معاشیات اور سیاسیات میں بی اے کرنے کے بعد جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے قانون کی سند حاصل کی۔

انھوں نے عملی زندگی کا آغاز 1990 میں اپنی ہی کاونٹی کی ڈسٹرکٹ اٹارنی کی حیثیت سے کیا اور وہ دبنگ مستغیث (Prosecutor)مشہور ہوئیں۔ چار سال بعد انکا کیلی فورنیا اسمبلی کے اسپیکرولی براون سے معاشقہ شروع ہوا جو ان سے عمر میں24سال بڑے تھے۔ ولی براون صاحب نے کملا جی کو Unemployment Insurance Appeals Boardاور پھر غریبوں کے علاج معالجے کے کمیشن کا رکن نامزد کردیا۔ ولی براون کے علاوہ کملا ہیرس کے ٹی وی میزبان مونٹیل ولیمز (Montel Williams)سے بھی رازونیاز رہے جسے یہاں کی اصطلاح میں datingکہتے ہیں۔

کملا ہیرس کی شہرت کا آغاز 1998 میں ہوا جب سان فرانسسکو ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل نے انھیں اسسٹنت اٹارنی نامزد کیا اور وہ فوجداری (Criminal)ڈویژن کی سربراہ مقرر ہوئیں۔ اس دوران سیاہ فاموں سے انکا رویہ بہت سخت تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قانوں منظور ہوا تھا کہ لگاتار تین چھوٹے جرائم کے مرتکب شخص کوعادی مجرم گردانا جائیگا۔ یہ بدنام زمانہ قانون Three strikes law کے نام سے مشہور ہے۔ اس غیر منصفانہ قانون کی زد میں آکر ہزاروں سیاہ فام بچے طویل قید بھگت رہے ہیں۔ اپنا رعب بٹھانے کیلئے کملا ہیرس نے اس قانون کا بیدریغ استعمال کیا اور سیاہ فاموں کو سخت سزا دلوائیں۔ اسی پس منظر کی بنا پر وہ طنزیہ کہتی ہیں 'میں 'ٹرمپ ٹائپ' کے مجرم پیشہ لوگوں کو خوب جانتی ہوں۔

نومبر 2002 میں کملا سان فرانسسکو کو ڈسڑکٹ اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں، وہ سان فرانسسکو کی پہلی رنگدار اٹارنی جنرل تھیں۔ نومبر 2010میں انھیں ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل منتخب کرلیا گیا، یہاں بھی انھوں نے ریاست کی پہلی ایشیا نژاد سیاہ فام خاتون اٹارنی جنرل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ چار سال بعد ہونے والے انتخابات میں انھوں نے یہ نشست برقرار رکھی۔ اسی دوران 2013 میں انکی ملاقات مشہور وکیل ڈک ایمہوف (Doug Emhoff)سے ہوئی۔ ڈگ مذہباً یہودی ہیں اور پانچ سال پہلے انکی طلاق اس وجہ سے ہوگئی کہ موصوف کا اپنی صاحبزادی کی استانی سےمعاشقہ چل رہا تھا۔ ایک سال بعد کملا ہیرس اور ڈگ نے شادی کرلی۔

بیس سال تک امریکی سینیٹ کی رکن رہنے کے بعد 2015 میں سیننٹر باربراباکسر نے سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کیا اور 2016 میں انکی خالی ہونے والی نشست پر کملا ہیرس سیینیٹر منتخب ہوگئیں۔جب اقتدار سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم المعروف Muslin Ban کے ذریعے ایران، لبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور عراق کےباشندوں کیلئے امریکی ویزے پر پابندی لگائی تواسکے خلاف سب سے توانا آواز سینیٹر کملا ہیرس کی تھی۔ 

2020 کے صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس نے بھی قسمت آزمائی کی اور مباحثے کے دوران انکی جو بائیڈن سے کئی بار تلخ کلامی ہوئی۔تاہم نوشتہ دیوار پڑھ کر وہ پرائمری انتخابات کےآغاز سے پہلے ہی دوڑ سے باہر نکل آئیں،  جناب بائیڈن نے انھیں نائب صدر کا امیدوار نامزد کردیا اور 3 نومبر 2020 کو وہ نائب صدر مائک پینس کا ہراکر امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر بن گئیں۔

صدارت کیلئے کملا ہیرس کی نامزدگی کو اس اعتبار سے حادثاتی کہا جاسکتا ہے کہ صدر بائیڈن تمام کی تمام 50ریاستوں اور وفاقی دارالحکومت میں پرائمری انتخابات جیت کر نامزدگی کیلئے مندوبین کی مطلوبہ تعدادکی حمائت حاصل کرچکے تھے۔انھوں نے مجموعئ طور پر ایک کروڑ 44 لاکھ 65 ہزار ووٹ حاصل کئے جو کل ووٹ کے 87فیصد سے زیادہ ہے۔ نامزدگی کیلئے مندوبین کے 1886 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ بائیڈن حمائت سے منتخب ہونے والے یعنی committed مندوبین کی تعداد 3586 تھی۔اس اعتبار سے پارٹی کے قومی کنونشن سے انکی نامزدگی بس ایک رسمی کاروائی تھی۔

کچھ عرصے سے صدر بائیڈن لغزشِ زبان اور وقتی نسیان کا شکار نظر آنے کیساتھ انکی حرکات و سکنات سے خیالات کے الجھاو، بے ترتیبی و پراگندگی کا اظہار ہورہا تھا۔ اس کا بڑا مظاہرہ 27 جون کو صدر ٹرمپ کیساتھ انکے مباحثے میں ہوا جب انکی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ گفتگو کا زیروبم غیر مستحکم تھا یعنی آواز کبھی اتنی ہلکی کہ جیسے سرگوشی فرمارہے ہیں اور کبھی ایسی کہ چیخنے کا گماں ہورہاتھا۔بحث کے دوران کئی بارایسا محسوس ہوا کہ گویا سوال انھیں سجھ ہی نہ آیا اوردماغی مشق و سوچ بچار کے بعد جب وہ بات کی تہہ تک پہنچے تو جواب دینے کیلئے الفاط کے انتخاب میں غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ اس صورٹحال سے جناب ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔یعنی سابق صدردھڑلے سے جھوت بولتے رہے اور بائیڈن صاحب سے بولا ہی نہ گیا۔ اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے اسے سفرِ یورپ، نزلے  اور تھکن کا شاخسانہ قراردیا۔ تاہم ڈیموکریٹک پارتی کے اندرونی دباو سے مجبور ہوکر انھوں نے کملا ہیرس کو امیدوار نامزد کردیا۔

سیاسی و نظریاتی اعتبار سے کملا ہیرس ایک روائتی سیاستدان ہیں۔امریکی سرحدوں کو غیر ملکیوں پر بند کرنے، چین کے گھیراو، یوکرین کے ذریعے روس کی مرمت، ایران اور افغانستان میں عدم استحکام اور سب سے بڑھ کر اسرائیل کی غیر مشروط حمائت کے معاملے میں انکے خیالات اپنے حریف ڈانلڈ ٹرمپ سے زیادہ مختلف نہیں۔ کملا ہیرس نے صاف صاف کہا کہ اسرائیل کو مسلح رکھنا انکے منشور کا حصہ ہے اور  اسرائیل کی سلامتی یقینی بنانے کیلئے  وہ انتہائی پر عزم ہیں۔

سماجی معاملات پر کملا دیوی ہیرس اسقاط یا Reproductive Rightsکو خواتین کا استحقاق سمجھتی ہیں۔ ہم جنس ہرستی (LGBT)کے حوالے سے  جنسی ترجیح پر پابندی یا جبری ترغیب انکے خیال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دلچسپ بات کہ پیدائشی ہندو ہونے کے باوجود وہ ہندوتوا اور بی جے پی کی سخت مخالف اور کشمیریوں کے حقوق کی حامی ہیں۔   

ہفت روزہ سنڈے اسہیشل کراچی 8 ستمبر 2024


 

امریکی انتخابات ڈانلڈ ٹرمپ کون ہیں ؟؟؟؟؟

 

امریکی انتخابات  

ڈانلڈ ٹرمپ کون ہیں ؟؟؟؟؟

ڈیموکریٹک پارٹی کے شکاگو کنونش میں شریمتی کملا دیوی ہیرس کو صدر اور ٹم والزکو نائب صدر کا امیدوار نامزد کردیا گیا۔ گزشتہ ماہ رییلکن پارٹی کے قومی اجتماع میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کو صدر اور سینیٹر جے ڈی وانس کو نائب صدارت کا ٹکٹ جاری کیا جاچکا ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے علاوہ لیریٹیرین پارٹی، گرین پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی سمیت 11 دوسری جماعتوں کے علاوہ درجن بھر آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ قارئیں کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ گرین پارٹی نے نائب صدارت کیلئے ایک مسلمان پروفیسر ڈاکٹر بُچ وئر  (Butch Ware)کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

پانچ نومبر کو صدارتی انتخاب کیساتھ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435اور سینیٹ کی 34 نشستوں کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائینگے۔ اسی روز تیرہ ریاستوں میں گورنروں کیلئے بھی میدان سجے گا۔

سو رکنی سینیٹ میں اسوقت ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد 46 اور 4 آزاد ارکان نے خودکو ڈیموکریٹک کاکس  (Caucus) یا پارلیمانی پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ ریپبلکن سینیٹروں کی تعداد 49 اور ایک نشست خالی ہے۔ سینیٹ کی جن 34 نشستوں پر انتخابات ہونگے ان میں سے 19 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی، 11 ریپبلکن اورچار آزاد ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔

ایوان نمائندگان میں اسوقت 212 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن ارکان کی تعداد 220 ہے یعنی قصرِ مرمریں کے ساتھ کانگریس (پارلیمان) پر بالادستی کیلئے بھی نومبر کے پہلے منگل کو گھمسان کا رن پڑیگا۔

اب سے 5 نومبر تک انشااللہ ہم امریکی انتخابات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہینگے جو  امید ہے کہ آپ کو  دلچسپ محسوس ہوگی

حالیہ انتخابات اس اعتبار سے تاریخی ہیں کہ صدر بائیڈن امریکہ کے چھٹے صدر ہیں جنھوں نے دوسری مدت کا انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے۔ امریکی صدرکی دستبردای حالات کے جبر کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح جناب ٹرمپ پہلے مدت صدارت کی تکمیل پر شکست کھاجانے کے بعد دوسری بار قسمت آزمائی کرنے والے چھٹے سابق صدر ہیں۔ پہلے رہنماوں میں سے صرف صدر گروور کلیولینڈ Grover Clevelandکو کامیابی نصیب ہوئی۔جناب کلیولینڈ 1884میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرادیا۔ 1892 کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔

حالیہ معرکہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ پہلی بار ایک غیر مسیحی امیدوار کو کسی بڑی جماعت نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے، کملا ہیرس امریکی تاریخ کی غیر مسیحی اور پہلی خاتون نائب صدر تھیں۔ اگر 5 اکتوبر کو کملا جی صدر منتخب ہوگئیں تو وہ ایک نئی تاریخ رقم کرینگی۔

آج کی نشست میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ کا ٹعارف

اٹھتر (78) سالہ ڈانلڈ جے ٹرمپ ددھیال کی جانب سے جرمن نژاد اور انکی والدہ صاحبہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ہم نے انکے خاندانی پس منظر کا ذکر اسلئے کیا کہ موصوف کو غیر ملکی تارکین وطن کا امریکہ آنا سخت ناپسند ہے۔انکے داداجان 16 برس کی عمر میں اور والدہ،  محترمہ ماریہ مکلیوڈ جب 17 سال کی تھیں تو سیاح کی حیثیت سے امریکہ تشریف لائیں۔ ماریہ صاحبہ نے ڈانلڈ ٹرمپ کے والد سے شادی کرکے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہدیا۔اس اعتبار سے  ٹرمپ صاحب تارکین وطن کے پوتے اور بیٹے ہیں۔انکی پہلی اہلیہ ایوانا کا تعلق چیکوسلاواکیہ سے تھا، جن سے طلاق کے بعد انھوں نے ایک امریکی اداکارہ مارلا میپل سے شادی کی۔ ٹرمپ صح کی تیسری اور موجودہ بیوی  ملانیا، سلووانیہ (سابق یوگو سلاویہ) نژاد ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے والد فریڈ ٹرمپ کو اپنے والد سے ترکے میں کثیر سرمایہ ملا جس سے انھوں نے جائیداد کی خرید و ٖفروخت اور تعمیر کا کام شروع کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے والد کے ساتھ اس کاروبار کے آگئے اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تفریحی ٹیلی ویژن، ہوٹل، گالف کورس اور ملبوسات کا کام شروع کیا۔ تفریح کی دنیا سے وابستگی کے باوجود ڈانلڈٖ ٹرمپ شراب اور سگریٹ سے مکمل پر ہیز کرتے ہیں جسکی وجہ انکے برادر بزرگ کی کثرت مئے نوشی سے ہلاکت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انکے بیٹے بیٹیاں، داماد اور بہو بھی شراب سے اجتناب کرتے ہیں۔ جنگ ویتنام کے دوران مسٹر ٹرمپ نے جھوٹ بول کر لازمی فوجی خدمت سے استثنا حاصل کرلیا۔ مسٹر ٹرمپ کی کاروباری ساکھ  بے حد مشکوک ہے۔ وہ چھ بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں جسکا بنیادی مقصد قرض کی ادائیگی سے فرار تھا۔ وہ ایک سخت گیر آجر اور مغرور افسر bossکے طور پر مشہور ہیں۔ معمولی باتوں پر زیر دستوں کی بے عزتی اور ملازمتوں سے فراغت انکی عادت ہے۔دفتر میں You-are-firedانکا تکیہ کلام ہے۔تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، واجبات سے نارواکٹوتی اور ملازمین پر بھاری جرمانے موصوف کا طرہ امتیاز ہے۔

گفتگو اور تقریر کے میدان میں انکی صلاحیت واجبی سی ہے۔ ذخیرہ الفاط  بے حد مختصر ہے جسکی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو  بار باردہراتے  ہیں۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باب میں بھی جناب ٹرمپ کی شہرت اچھی نہیں۔ وہ بہت فخر سے فرماتے ہیں کہ میں ٹیکس بچانے کیلئے ہر قانونی حربہ استعمال کرتاہوں۔ اصرار کے باوجود مسٹر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی اشاعت پر تیار نہیں حالانکہ یہ امریکہ کے صدراتی امیدواروں کے روائت ہے۔جناب ڈانلڈٹرمپ امریکی تاریخ کے واحد صدارتی امیدوار ہیں جو سرکاری راز افشا کرنے، آمدنی و اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی، مالی بدعنوانی اور دوسرے 34 الزامات میں مجاز عدالت سے مجرم ثابت ہوچکے ہیں۔ عدالت عظمی کی فراہم کردہ استثنائی چھتری نے انھیں جیل یاترا سے امان دی ہوئی ہے۔

تلون مزاج ٹرمپ اپنی سیاسی وابستگی نظریہ ضرورت کے تحت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 1980 میں وہ ریپبلکن پارٹی میں تھے اورانھوں نے رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ رونالڈ ریگن کے بعد وہ صدر (ڈیڈی) بش کے ساتھ رہے لیکن وہائٹ ہاوس کی مبینہ'سردمہری' کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1999 میں وہ ریفورم پارٹی میں شامل ہوگئے۔ انکی نظریں 2000 کے انتخابات پر تھیں لیکن وہاں خرانٹ سیاستدان پیٹ بوکینن نے انکی ایک نہ چلنے دی چنانچہ 2001 میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا دامن تھام لیا۔ 2004 میں انھوں نے ڈیموکریٹک کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہوا کا رخ دیکھ دبکے رہنے ہی میں عافیت جانی۔ 2008 میں دوسری ناکام کوشش کے بعد 2011 میں انھوں نےدوبارہ ریپبلکن پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔

آٹھ سال پہلے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں انکا رویہ بہت سخت تھا۔مسٹر ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر مسلمانوں کی امریکہ آمد کو اسوقت تک معطل رکھیں گے جب تک ایف بی آئی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امریکہ داخل ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں تحقیقات کا ایک قابل اعتماد طریقہ وضع نہیں کرلیتے۔ وہ مسلمان آبادیوں کی نگرانی، امریکی مسلمانوں کی فکری و ذہنی وابستگی  کےتجزئے یا profiling اور نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ وہ تارکین وطن کے متعلق پالیسی بناتے وقت اس بات کو یقینی بنائینگے کے دہشت گردی کی حمائت کرنے والے ممالک (پاکستان، ایران، سوڈان، شام، سعودی عرب، ترکی اور مصر) کے لوگوں کو ویزا جاری کرتے وقت انتہائی احتیاط برتی جائے۔ کامیابی کے بعد 2017 میں برسراقتدار آتے ہی انھوں نے اس سلسلے میں احکامات بھی جاری کئے۔ تاہم حالیہ انتخابی مہم میں اس معاملے پر وہ خاموشی اختیار کئے ہوے ہیں۔

دوسرے امریکی رینماوں کی طرح صدر ٹرمپ بھی اسرائیل کے پر جوش حامی ہیں انھوں نے برسراقتدار آتے ہی اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل  کیا۔ تاہم یہ بات سامنے رہنے چاہیے کہ منتقلی کا فیصلہ صدر کلنٹن کے دور میں ہوا جس پر صدر ٹرمپ نے عملدرآمد کروایا۔ انھوں نے مقبوضہ شامی علاقے گولان کو اسرائیلی ریاست کا حصہ تسلیم کرلیا۔ انھیں کی کوششوں نے بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش نے اسرائیل سے سفارت تعلقات قائم کئے۔

مسٹر ٹرمپ کا خیال ہے کہ غیر ملکی امریکیوں کو ملازمتوں سے محروم کر رہے ہیں چنانچہ وہ ویزوں کی تعداد کم کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری چاہتے ہیں۔ غیر ملکیوں کی ضمن میں ہسپانوی تارکین وطن انکا ہدف ہیں۔ انکا خیال ہے کہ میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن کی اکثریت جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ امریکی خواتین پر مجرمانہ حملوں میں ملوث ہیں۔ انھوں نے  2016 میں وعدہ کیا تھا کہ ہسپانویوں کی امریکہ میں غیر قانونی آمد روکنے کیلئے وہ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کردینگے۔ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد3200 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے اور چار امریکی ریاستوں یعنی ٹیکسس، نیو میکسیکو، ایریزونا اور کیلی فورنیا کی سرحدیں میکسیکو سے ملتی ہیں۔ اس منصوبےکا تخمینہ اربوں ڈالر ہے اور مسٹر ٹرمپ کا دعویٰ تھاکہ وہ دیوار کی تعمیر کا خرچ میکسیکو سے وصول کرینگے۔ مزے کی بات کہ جناب ٹرمپ کی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے والے مزدوروں کی غالب اکثریت غیر قانونی ہسپانوی تارکین وطن پر مشتمل ہے۔

اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ غیر ملکی تارکین وطن تعلیمیافتہ امریکیوں کا حق مار  رہے ہیں۔ لیکن بیچارے ہسپانوی تو گھانس کاٹنے، مچھلی صاف کرنے، تعمیراتی صنعت اور محنت مزدوری کے کام سے وابستہ ہیں جو امریکیوں کے بس کی بات نہیں۔ تعلیم یافتہ امریکیوں کا اصل مسئلہ ITکی صنعت ہے جہاں ہندوستانیوں نے مقامی لوگوں کو دیوار سے لگارکھا ہے۔ ایک جانب امریکہ میں تمام پرکشش اسامیوں پر ہندوستانی قابض ہیں تو دوسری طرف IT اداروں نے صارفین کی خدمت Customer-Supportکا کام ہندوستان منتقل کردیا ہےاور ٹیلیفون کے ذریعے چنائے اور بنگلور میں بیٹھے ماہرین امریکی صارفین کو تکنیکی مدد فراہم کرتے ہیں۔

جناب ٹرمپ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔انھوں نے 2016 میں وعدہ  کیا تھا  وہ حلف اٹھاتے ہی آدھے گھنٹے کے اندر اندر پاکستان کو شکیل آفریدی کی رہائی پر قائل یا مجبور کردینگے۔ لیکن کامیابی کے بعد انھوں نے اسکا کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔اس بار انھوں نے ایسا ہی وعدہ غزہ کے اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں کیا ہے۔

مسٹر ٹرمپ نیٹو کی کارکردگی سے مطمعن نہیں اور اسے امریکی خزانے پر بوجھ سمھتے ہیں۔ حکومت میں آتے ی انھوں نے نیٹو ارکان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے واجبات دیادننداری سے ادا کریں۔

صدر ٹرمپ کا بڑا کارنامہ افغان جنگ کا خاتمہ ہے۔ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی افغانستان پر تاریخ کا سب سے بڑا غیرجوہری بم گراکر فتح مبیں حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعدقطر میں مذاکرات کی میز بچھادی اور طالبان کی شرائط پر امن معاہدہ ہوگیا۔ انتخابات میں شکست کی بناپر امریکی فوج کا انخلا بائیڈن انتطامیہ کے دور میں ہوا۔

مسٹر ٹرمپ کا منشور دہشت گردی کے خلاف جنگ، داعش کا خاتمہ، امریکہ آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں کمی، غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری، نیٹو اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں پر نظر ثانی،کارپوریشنوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ کے ذریعے تجارت کی حوصلہ افزائی، کم سے کم اجرت، اجتماعی سوداکاری اور دوسری 'پابندیوں' کے خاتمے پر مشتمل ہے۔

انشااللہ آئندہ نشست میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور منشور کا تعارف پیش کیا جائیگا۔

ہفت روزہ سنڈے میگزین 26 جولائی 2025


قیدیوں کو بندوق کے زور پر رہا کرانے کی کوشش ناکام ۔ چھ اسرائیلی ہلاک غزہ میں بربریت کے 11 ماہ، 53 بچے یومیہ مارے جارہے ہیں غربِ اردن پر چنگیز و ہلاکو کی یلغار مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر یہودی نماز القدس شریف میں Synagogue کی تعمیر کا منصوب

 

قیدیوں کو بندوق کے زور پر رہا کرانے کی کوشش ناکام ۔ چھ اسرائیلی ہلاک

غزہ میں بربریت کے 11 ماہ، 53 بچے یومیہ مارے جارہے ہیں

 غربِ اردن پر چنگیز و ہلاکو کی یلغار

مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر یہودی نماز

القدس شریف میں  Synagogue کی تعمیر کا منصوبہ

اسرائیلی وزیراعظم نیتھن یاہو کی ضد 6 قیدیوں کی جان لے گئی۔اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینئیل ہجاری کا کہنا ہے کہ فوج انھیں چھڑانے کیلئے رفح میں قیدخانے تک پہنچ چکی تھی لیکن مزاحمت کاروں نے اسرائیلی فوج کے اندر آنے سے پہلے انھیں ہلاک کردیا۔یہ واقعہ ر فح میں پیش آیا۔ ان افراد میں 23 سالہ امریکی ہرش گولڈبرگ بھی شامل ہے جسکے ماں باپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کنونشن میں جذباتی تقریر کی تھی۔

آٹھ جون کو اسرائیلیوں نے دیر البلاح کے علاقے پر زبردست حملہ کرکے 4 قیدیوں کو چھڑا لیا تھا۔اس وحشیانہ حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت 240 بے گناہ فلسطینی مارے گئے تھے ۔اسرائیلی فوج نے اس پر خوب جشن منایا اور وزیرعظم نیتھن یاہو نے تاثر دیا کہ غزہ پر اسرائیلی فوج کی گرفت مضبوط ہوچکی ہےاور اب ہم اپنے قیدی بزور طاقت چھڑا سکتے ہیں۔ تاہم واقعہ کے بعد مزاحمت کاروں نے متنبہ کردیا تھا کہ بازیابی کی کسی بھی نئی کاروائی کے صورت میں وہ قیدیوں کو ہلاک کردینگے اور گزشتہ ہفتے ایسا ہی ہوا۔

ایک ہفتہ قبل 27 اگست کو اسرائیلی فوج نے  52 سالہ فرحان قاضی کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ بدو مسلم فرحان کو طوفان اقصیٰ آپریشن کے دوران مزاحمت کاروں نے قیدی بنایا تھا۔ اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسی نےاس پر شیخی تو خوب بگھاری لیکن غیر جابندار حلقوں کا خیال ہے کہ فرحان کو عرب اور مسلمان ہونے کی بنا پر مزاحمت کاروں نے خود ہی رہا کردیا تھا۔

اسرائیلی فوج کی حالیہ ناکام مہم پر قیدیوں کے لواحقین کے ساتھ اسرائیل کے سنجیدہ عناصر سخت خوفزدہ ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ بوکھلائے نیتھن یاہو اسرائیلی فوج کو اس نوعیت کی دوسری مہمات کا حکم دینگے جس سے مزید قیدیوں موت کے گھاٹ اتر سکتے ہیں۔اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ 'متوازی سفارتی کوششوں کے بغیر فوجی دباؤ یرغمالیوں کیلئےموت کا پیغام ہے'۔قائد حزب اختلاف یار لیپڈ قیدیوں کی موت پر پھٹ پڑے اور ایک بیان میں کہا 'نیتھن یاہو کو نہ فلاڈیلفی راہداری سے دلچسپی ہے اور نہ وہ غزہ میں پولیو پھوٹ پڑنے سے پریشان ہیں۔ وہ اپنے انتہا پسند اتحادیو ں کو خوش کرکے ہر صورت کرسی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔اس شیطانی خواہش کی تکمیل میں ہمارے بچے روندے اور خاندان تباہ ہورہے ہیں' حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

ناکام آپریشن کی خبر شایع ہوتے ہے سارے اسرائیل میں مظاہرے شروع ہوگئے اور وزیراعظم نیتھن یاہو کو امن معاہدے پر مجبور کرنے کیلئے 2 ستمبر کومکمل ہڑتال ہوئی۔اس دوران وزیراعظم سیکریٹیریٹ سمیت سرکاری دفاتر، بندرگاہیں اور تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ سمیت ہر جگہ کام معطل رہا۔ مارے جانے والے دوافراد کے لواحقین نے نیتھن یاہو کے تعزیتی فون سننے سے انکار کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ جس شخص کی بے حسی نے ہمارے پیارے کی جان لی اس کی تعزیت قبول کرکے ہم مرنے والے کی روح کو اذیت نہیں پہنچاسکتے۔

جس وقت آپ یہ سطور ملاحظہ فرمارہے ہیں، غزہ پر اسرائیلی وحشت کے 11 مہینے مکمل ہوگئے لیکن نہ تو دست قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ مستضعفین کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ایک ہفتہ قبل تک 40 ہزار بے گناہ افراد نسل کشی کا شکار ہوئے، جن میں رزقِ خاک ہونے والے  مہہ پاروں کی تعداد 17000سے زیادہ ہے یعنی غزہ کے 3 فیصد بچے فنا ہوچکے۔ سات اکتوبر سے آج تک ہر روز 53 بچے جان سےجارہے ہیں۔تقریباً دس ہزار افراد ملبے تلے دبے ہیں۔

اس ہفتے شمالی غربِ اردن کو اسرائیلی فوج نے روند ڈالا۔ حملے کا آغاز 28 اگست کو وادی اردن کے شہر طوباس کے پناہ گزین کیمپ فارعہ پر خوفناک ڈرون حملے سے ہوا جس میں سات فلسطینی مارے گئے۔ امریکی ساختہ F16 بمباروں نےمرکزی جامعہ مسجد کو نشانہ بنایا اور اسکا بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔عثمانی دور کی یہ مسجد فارعہ خیمہ بستی کے قریب واقع ہے۔ حسبِ توقع اسرائیل نے الزام لگایا کہ مسجد کو دہشت گردوں نے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا ہوا تھا۔اسی دن شام کو اسرائیلی ٹینک اور بکتر بند دستوں نے طوباس کے شمال مغرب میں جنین اور مشرقی جانب تلکرم کو گھیر لیا۔تلکرم کے جنوب میں قلقیلیہ پر بھی ڈرون سے حملے کئے گئے۔ تین دن بعد وحشت کا دائرہ جنوبی غرب اردن تک وسیع کردیا گیااور اسرائیلی سپاہ الخلیل (Hebron)پر چڑھ دوڑیں اور فوجی جوتوں سمیت الحرم الابراہیمی ؑ میں گھس گئے۔عبرانی و مسیحی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم نے اپنے اور اپنے خانوادے کی تدفین کیلئے یہاں اراضی خریدی تھی۔ مسیحی اس مقام کو Cave of the Patriarchs کہتے ہیں۔مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں کیلئے الحرم الابراہیمی ؑایک مقدس خانقاہ ہے۔

منگول وحشیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سفاک ہونے کےساتھ وہ لوگ تہذیب کے دشمن بھی تھے۔ اپنے مفتوحہ علاقوں میں جہاں لاشوں کے انبار اور کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے ، وہیں شعرا کی زبانیں تراش دیتے۔ ہنرمندوں کے ہاتھ قلم، عبادت گاہیں مسمار، کتب خانے نذر آتش اور تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بنادئے جاتے۔ ایسا ہی منظر آجکل شمالی غرب اردن میں نظر آرہا ہے۔ جنین میں اندھا دھند فائرنگ کیساتھ آبنوشی کے ذخائر تباہ کردیے گئے۔نکاسیِ آب کے پمپوں کو بموں سے اڑادیا گیا۔ نتیجے کے طور پر گٹر کے متعفن پانی اور غلاظت سے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ مرکزی جامعہ مسجد کا بڑا حصہ زمیں بوس کردیا گیا۔اسکول اورتعلیمی اداروں کو میزائیل بردار ڈرونوں سے چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ بلڈوزروں سے سڑکیں اکھیڑدی گئیں اور پبلک پارک مسمار کردئے گئے۔ علاقے کے واحد ہسپتال پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے اور زخمی سڑکوں ہر تڑپ رہے ہیں۔

اس آپریشن کا بنیادی ہدف شہری سہولتیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ کرکے علاقے کو ناقابل رہائش بنانا ہے۔ وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز نے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ ایران نے شمالی غرب اردن میں اسلحے کا انبار لگادیا ہے اور دنیا بھر کے دہشت گرد اس علاقے جمع ہوگئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ شمالی غرب اردن کی صورت غزہ سے بدتر ہوگئی ہے اور 'محفوظ عسکری آپریشن' کیلئے لوگوں کو یہاں سے کہیں اور منتقل کرنا پڑیگا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل یہاں آباد لاکھوں لوگوں کو اردن دھکیلنے کی تیاری کررہا ہے۔

طوباس، جنین، تلکرم اور الخلیل کی پامالی کیساتھ مسجد اقصیٰ اور القدس شریف  میں دراندازی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ نیتن یاہو کی اتحادی جماعت، عظمتِ یہود کے سربراہ اور وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئرکئی بار گنبدِ صخرا کے قریب عبادت کرچکے ہیں جو دراصل مسجد اقصیٰ کا دالان  ہے۔ تیرہ اگست کو جب یہودی ہیکلِ سلیمانی کی تباہی پر یوم نوحہ (Tisha B'Av) مناتے ہیں، وزیر صاحب کی قیادت میں انتہاپسند القدس میں داخل ہوگئے اور مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں کے پاس منشا یا ظہر کی نماز ادا کی۔گزشتہ ہفتے ،اسرائیلی فوج کے ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئے ے انھوں کہا کہ القدس سب کا ہے، یہاں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے، یہودیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں عبادت کا حق ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ القدس شریف میں یہودی معبد (Synagogue)تعمیر کرینگے تو انھوں نے کہا یقیناً۔ حوالہ: رائٹرز

اسکے دوسرے دن اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بن گوئر صاحب نے فرمایا کہ مسلمانوں کیلئے احترام کے حوالے سے کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسجد اقصیٰ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ Temple Mount ہمارا مقدس ترین مقام ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کا حق حاصل ہے۔ انھوں نے کہا وہ یہاں Synagogue یا یہودی عبادت گاہ ضرور تعمیر کرینگے۔ٹائمز آف اسرائیل کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر منشا کی ادائیگی اب معمول بن چکی ہے۔

انتہا پسند اسرائیلیوں کی اشتعال انگیزیوں پر انکے اتحادیوں کو سخت تشویش ہے لیکن لاڈلہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے بہت زور دیکر کہا کہ (القدس شریف) کے بارے میں اسرائیلی وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور اقدامات نفرت و افراتفری کا بیج بورہے ہیں۔انکے بیانات سے ایسے وقت میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جب اسرائیل کو ایران نواز فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کاروں کے خلاف اپنے عرب اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کے اشتعال انگیز بیانا ت سے کسی اور کا کوئی نقصان نہیں البتہ خود اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑرہی ہے۔

یورپی یونین کے ذمہ دار برائے امورِ خارجہ کی لاچارگی دیکھ کر تو ہمارا دل بھی پسیج گیا۔ جمعہ 30 اگست کو برسلز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوے موصوف گویا ہوئے 'اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے دووزیر (وزیر خزانہ اور وزیراندرونی سلامتی) کھلے عام نفرت پھیلارہے ہیں۔ ان پر پابندی عائد ہونی چایئے لیکن کیا کروں یورپی یونین اس پر یکسو نہیں'

اسرائیل کے روئے پر تشویش کیساتھ اسلحے کی غیر مشروط فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق سات اکتوبر کو غزہ پر حملے بعد سے اب تک امریکہ نے 500 مال بردار طیاروں اور 107 بحری جہازوں کے ذریعے 50 ہزار ٹن اسلحہ اسرائیل پہنچایا۔سامان میں 2000پاونڈ کے بم، بکتر بند گاڑیاں، توپ کے گولے، دستی بم، ذاتی بکتر، اندھیرے میں دیکھنے کے چشمے اور ڈائپرز شامل ہیں۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

مغرب کی مکمل پشت پناہی اور بلا خوفِ خمیازہ قتل عام کے باوجود غزہ میں اسرائیل کے لئے سب بہتر نہیں۔ اسرائیلی آرمڈ کور کے سابق کمانڈر اسحٰق برک نے عبرانی اخبار معارف (مغرب) سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کا چیف آف آرمی اسٹاف ہرزی ہالوی پر سےاعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسحٰق برک کے مطابق سپاہیوں نے انھیں بتایا کہ اسرائیلی فوج اپنے اعلامیوں میں مزاحمت کاروں کی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے جبکہ درحقیقت اسرائیلی فوجی شاذ و نادر ہی قریبی لڑائی میں ملوث ہوتے ہیں اور زیادہ تر جوان مزاحمت کاروں کے چھاپہ مار حملوں اور راستے میں بچھائی بارودی سرنگوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔جنرل برک نے اسرائیلی چیف آف اسٹاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج کو تقسیم اور سپاہیوں کا اعتماد کھو دیا ہے۔'جنرل برک نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر جلد جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہوا تو صورتحال بگڑ جائیگی اور ہمیں اس سے بھی زیادہ خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے'

اس معاملے پر وزیردفاع اور وزیراعظم کی چپقلش بحث و تکرار تک آچکی ہے۔ عبرانی نیوز ایجنسی Ynetکے مطابق 29 اگست کو جنگی کابینہ کے اجلاس میں مصر غزہ سرحد پر فلاڈلفی راہداری کے نقشے پر بحث ہوئی۔ نیتن یاہو نے فوج کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے اپنا نقشہ پیش کیا۔وزیردفاع نے جنرل صاحب کے موقف کی تائید کی جس پر وزیراعظم نے کہا کہ گر ہنگامی کابینہ نے انکی تجویز منظور نہ کی تو وہ یہ معاملہ پوری کابینہ کے پاس لے جائینگے۔ اس پر وزیر دفاع غصے میں آگئے اور میز پر مکہ مارتے ہوئے چیخ کر بولے 'نیتن یاہو آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) پر اپنے نقشے مسلط کر رہے ہیں حالانکہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں مزید لچکدار ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیر اعظم کو یقیناً تمام فیصلوں کا اختیار ہے اور اپنی انا کی تسکین کیئے وہ تمام یرغمالیوں کو ہلاک کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں'

غزہ کے مزاحمت کار، اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی سے پہلے قیدی رہا کرنے کو تیار نہیں جبکہ نیتھن یاہو کا اصرار ہے کہ وہ غزہ مصر سرحد پر فلاڈلفی راہداری خالی نہیں کرینگے۔ جب کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی وزیردفاع نے نیتھن یاہو سے پوچھا قیدی یا راہداری میں آپکی ترجیح کیا ہے؟ تو سنگدل وزیراعظم نے صاف صاف کہا فلاڈلفی راہداری۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

خونریزی اور نسل کشی سے بے پرواہ صدر بائیڈن کو اسرائیل سعودی عرب سفارتی تعلقات کی فکر کھائے جارہی ہے۔بدھ 18 اگست کو اخباری نمائندوں سےباتیں کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا'صدر بائیڈن کے خٰیال میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے سفاتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں اور یہ 'مبارک کام' انکی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے ممکن ہے'۔ صدر بائیڈن کی مدتِ صدارت اگلے برس 20 جنوری کو ختم ہورہی ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 ستمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 6 ستمبر 2024

روزنامہ امت کراچی 6 ستمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 ستمبر 2024