Sunday, September 8, 2024

امریکی انتخابات ڈانلڈ ٹرمپ کون ہیں ؟؟؟؟؟

 

امریکی انتخابات  

ڈانلڈ ٹرمپ کون ہیں ؟؟؟؟؟

ڈیموکریٹک پارٹی کے شکاگو کنونش میں شریمتی کملا دیوی ہیرس کو صدر اور ٹم والزکو نائب صدر کا امیدوار نامزد کردیا گیا۔ گزشتہ ماہ رییلکن پارٹی کے قومی اجتماع میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کو صدر اور سینیٹر جے ڈی وانس کو نائب صدارت کا ٹکٹ جاری کیا جاچکا ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے علاوہ لیریٹیرین پارٹی، گرین پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی سمیت 11 دوسری جماعتوں کے علاوہ درجن بھر آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ قارئیں کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ گرین پارٹی نے نائب صدارت کیلئے ایک مسلمان پروفیسر ڈاکٹر بُچ وئر  (Butch Ware)کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔

پانچ نومبر کو صدارتی انتخاب کیساتھ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی جملہ 435اور سینیٹ کی 34 نشستوں کیلئے بھی ووٹ ڈالے جائینگے۔ اسی روز تیرہ ریاستوں میں گورنروں کیلئے بھی میدان سجے گا۔

سو رکنی سینیٹ میں اسوقت ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد 46 اور 4 آزاد ارکان نے خودکو ڈیموکریٹک کاکس  (Caucus) یا پارلیمانی پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ ریپبلکن سینیٹروں کی تعداد 49 اور ایک نشست خالی ہے۔ سینیٹ کی جن 34 نشستوں پر انتخابات ہونگے ان میں سے 19 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی، 11 ریپبلکن اورچار آزاد ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔

ایوان نمائندگان میں اسوقت 212 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن ارکان کی تعداد 220 ہے یعنی قصرِ مرمریں کے ساتھ کانگریس (پارلیمان) پر بالادستی کیلئے بھی نومبر کے پہلے منگل کو گھمسان کا رن پڑیگا۔

اب سے 5 نومبر تک انشااللہ ہم امریکی انتخابات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہینگے جو  امید ہے کہ آپ کو  دلچسپ محسوس ہوگی

حالیہ انتخابات اس اعتبار سے تاریخی ہیں کہ صدر بائیڈن امریکہ کے چھٹے صدر ہیں جنھوں نے دوسری مدت کا انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی ہے۔ امریکی صدرکی دستبردای حالات کے جبر کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح جناب ٹرمپ پہلے مدت صدارت کی تکمیل پر شکست کھاجانے کے بعد دوسری بار قسمت آزمائی کرنے والے چھٹے سابق صدر ہیں۔ پہلے رہنماوں میں سے صرف صدر گروور کلیولینڈ Grover Clevelandکو کامیابی نصیب ہوئی۔جناب کلیولینڈ 1884میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرادیا۔ 1892 کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔

حالیہ معرکہ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ پہلی بار ایک غیر مسیحی امیدوار کو کسی بڑی جماعت نے اپنا امیدوار نامزد کیا ہے، کملا ہیرس امریکی تاریخ کی غیر مسیحی اور پہلی خاتون نائب صدر تھیں۔ اگر 5 اکتوبر کو کملا جی صدر منتخب ہوگئیں تو وہ ایک نئی تاریخ رقم کرینگی۔

آج کی نشست میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ کا ٹعارف

اٹھتر (78) سالہ ڈانلڈ جے ٹرمپ ددھیال کی جانب سے جرمن نژاد اور انکی والدہ صاحبہ کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ہم نے انکے خاندانی پس منظر کا ذکر اسلئے کیا کہ موصوف کو غیر ملکی تارکین وطن کا امریکہ آنا سخت ناپسند ہے۔انکے داداجان 16 برس کی عمر میں اور والدہ،  محترمہ ماریہ مکلیوڈ جب 17 سال کی تھیں تو سیاح کی حیثیت سے امریکہ تشریف لائیں۔ ماریہ صاحبہ نے ڈانلڈ ٹرمپ کے والد سے شادی کرکے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہدیا۔اس اعتبار سے  ٹرمپ صاحب تارکین وطن کے پوتے اور بیٹے ہیں۔انکی پہلی اہلیہ ایوانا کا تعلق چیکوسلاواکیہ سے تھا، جن سے طلاق کے بعد انھوں نے ایک امریکی اداکارہ مارلا میپل سے شادی کی۔ ٹرمپ صح کی تیسری اور موجودہ بیوی  ملانیا، سلووانیہ (سابق یوگو سلاویہ) نژاد ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے والد فریڈ ٹرمپ کو اپنے والد سے ترکے میں کثیر سرمایہ ملا جس سے انھوں نے جائیداد کی خرید و ٖفروخت اور تعمیر کا کام شروع کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے والد کے ساتھ اس کاروبار کے آگئے اور رئیل اسٹیٹ کے ساتھ تفریحی ٹیلی ویژن، ہوٹل، گالف کورس اور ملبوسات کا کام شروع کیا۔ تفریح کی دنیا سے وابستگی کے باوجود ڈانلڈٖ ٹرمپ شراب اور سگریٹ سے مکمل پر ہیز کرتے ہیں جسکی وجہ انکے برادر بزرگ کی کثرت مئے نوشی سے ہلاکت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انکے بیٹے بیٹیاں، داماد اور بہو بھی شراب سے اجتناب کرتے ہیں۔ جنگ ویتنام کے دوران مسٹر ٹرمپ نے جھوٹ بول کر لازمی فوجی خدمت سے استثنا حاصل کرلیا۔ مسٹر ٹرمپ کی کاروباری ساکھ  بے حد مشکوک ہے۔ وہ چھ بار خود کو دیوالیہ قرار دے چکے ہیں جسکا بنیادی مقصد قرض کی ادائیگی سے فرار تھا۔ وہ ایک سخت گیر آجر اور مغرور افسر bossکے طور پر مشہور ہیں۔ معمولی باتوں پر زیر دستوں کی بے عزتی اور ملازمتوں سے فراغت انکی عادت ہے۔دفتر میں You-are-firedانکا تکیہ کلام ہے۔تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، واجبات سے نارواکٹوتی اور ملازمین پر بھاری جرمانے موصوف کا طرہ امتیاز ہے۔

گفتگو اور تقریر کے میدان میں انکی صلاحیت واجبی سی ہے۔ ذخیرہ الفاط  بے حد مختصر ہے جسکی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو  بار باردہراتے  ہیں۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے باب میں بھی جناب ٹرمپ کی شہرت اچھی نہیں۔ وہ بہت فخر سے فرماتے ہیں کہ میں ٹیکس بچانے کیلئے ہر قانونی حربہ استعمال کرتاہوں۔ اصرار کے باوجود مسٹر ٹرمپ اپنے ٹیکس گوشواروں کی اشاعت پر تیار نہیں حالانکہ یہ امریکہ کے صدراتی امیدواروں کے روائت ہے۔جناب ڈانلڈٹرمپ امریکی تاریخ کے واحد صدارتی امیدوار ہیں جو سرکاری راز افشا کرنے، آمدنی و اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی، مالی بدعنوانی اور دوسرے 34 الزامات میں مجاز عدالت سے مجرم ثابت ہوچکے ہیں۔ عدالت عظمی کی فراہم کردہ استثنائی چھتری نے انھیں جیل یاترا سے امان دی ہوئی ہے۔

تلون مزاج ٹرمپ اپنی سیاسی وابستگی نظریہ ضرورت کے تحت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 1980 میں وہ ریپبلکن پارٹی میں تھے اورانھوں نے رونالڈ ریگن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ رونالڈ ریگن کے بعد وہ صدر (ڈیڈی) بش کے ساتھ رہے لیکن وہائٹ ہاوس کی مبینہ'سردمہری' کے باعث سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1999 میں وہ ریفورم پارٹی میں شامل ہوگئے۔ انکی نظریں 2000 کے انتخابات پر تھیں لیکن وہاں خرانٹ سیاستدان پیٹ بوکینن نے انکی ایک نہ چلنے دی چنانچہ 2001 میں انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کا دامن تھام لیا۔ 2004 میں انھوں نے ڈیموکریٹک کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہوا کا رخ دیکھ دبکے رہنے ہی میں عافیت جانی۔ 2008 میں دوسری ناکام کوشش کے بعد 2011 میں انھوں نےدوبارہ ریپبلکن پارٹی کی رکنیت اختیار کرلی۔

آٹھ سال پہلے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں انکا رویہ بہت سخت تھا۔مسٹر ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر مسلمانوں کی امریکہ آمد کو اسوقت تک معطل رکھیں گے جب تک ایف بی آئی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امریکہ داخل ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں تحقیقات کا ایک قابل اعتماد طریقہ وضع نہیں کرلیتے۔ وہ مسلمان آبادیوں کی نگرانی، امریکی مسلمانوں کی فکری و ذہنی وابستگی  کےتجزئے یا profiling اور نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ وہ تارکین وطن کے متعلق پالیسی بناتے وقت اس بات کو یقینی بنائینگے کے دہشت گردی کی حمائت کرنے والے ممالک (پاکستان، ایران، سوڈان، شام، سعودی عرب، ترکی اور مصر) کے لوگوں کو ویزا جاری کرتے وقت انتہائی احتیاط برتی جائے۔ کامیابی کے بعد 2017 میں برسراقتدار آتے ہی انھوں نے اس سلسلے میں احکامات بھی جاری کئے۔ تاہم حالیہ انتخابی مہم میں اس معاملے پر وہ خاموشی اختیار کئے ہوے ہیں۔

دوسرے امریکی رینماوں کی طرح صدر ٹرمپ بھی اسرائیل کے پر جوش حامی ہیں انھوں نے برسراقتدار آتے ہی اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل  کیا۔ تاہم یہ بات سامنے رہنے چاہیے کہ منتقلی کا فیصلہ صدر کلنٹن کے دور میں ہوا جس پر صدر ٹرمپ نے عملدرآمد کروایا۔ انھوں نے مقبوضہ شامی علاقے گولان کو اسرائیلی ریاست کا حصہ تسلیم کرلیا۔ انھیں کی کوششوں نے بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش نے اسرائیل سے سفارت تعلقات قائم کئے۔

مسٹر ٹرمپ کا خیال ہے کہ غیر ملکی امریکیوں کو ملازمتوں سے محروم کر رہے ہیں چنانچہ وہ ویزوں کی تعداد کم کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری چاہتے ہیں۔ غیر ملکیوں کی ضمن میں ہسپانوی تارکین وطن انکا ہدف ہیں۔ انکا خیال ہے کہ میکسیکو سے آنے والے تارکین وطن کی اکثریت جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ امریکی خواتین پر مجرمانہ حملوں میں ملوث ہیں۔ انھوں نے  2016 میں وعدہ کیا تھا کہ ہسپانویوں کی امریکہ میں غیر قانونی آمد روکنے کیلئے وہ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کردینگے۔ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد3200 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے اور چار امریکی ریاستوں یعنی ٹیکسس، نیو میکسیکو، ایریزونا اور کیلی فورنیا کی سرحدیں میکسیکو سے ملتی ہیں۔ اس منصوبےکا تخمینہ اربوں ڈالر ہے اور مسٹر ٹرمپ کا دعویٰ تھاکہ وہ دیوار کی تعمیر کا خرچ میکسیکو سے وصول کرینگے۔ مزے کی بات کہ جناب ٹرمپ کی کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے والے مزدوروں کی غالب اکثریت غیر قانونی ہسپانوی تارکین وطن پر مشتمل ہے۔

اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ غیر ملکی تارکین وطن تعلیمیافتہ امریکیوں کا حق مار  رہے ہیں۔ لیکن بیچارے ہسپانوی تو گھانس کاٹنے، مچھلی صاف کرنے، تعمیراتی صنعت اور محنت مزدوری کے کام سے وابستہ ہیں جو امریکیوں کے بس کی بات نہیں۔ تعلیم یافتہ امریکیوں کا اصل مسئلہ ITکی صنعت ہے جہاں ہندوستانیوں نے مقامی لوگوں کو دیوار سے لگارکھا ہے۔ ایک جانب امریکہ میں تمام پرکشش اسامیوں پر ہندوستانی قابض ہیں تو دوسری طرف IT اداروں نے صارفین کی خدمت Customer-Supportکا کام ہندوستان منتقل کردیا ہےاور ٹیلیفون کے ذریعے چنائے اور بنگلور میں بیٹھے ماہرین امریکی صارفین کو تکنیکی مدد فراہم کرتے ہیں۔

جناب ٹرمپ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔انھوں نے 2016 میں وعدہ  کیا تھا  وہ حلف اٹھاتے ہی آدھے گھنٹے کے اندر اندر پاکستان کو شکیل آفریدی کی رہائی پر قائل یا مجبور کردینگے۔ لیکن کامیابی کے بعد انھوں نے اسکا کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔اس بار انھوں نے ایسا ہی وعدہ غزہ کے اسرائیلی قیدیوں کے بارے میں کیا ہے۔

مسٹر ٹرمپ نیٹو کی کارکردگی سے مطمعن نہیں اور اسے امریکی خزانے پر بوجھ سمھتے ہیں۔ حکومت میں آتے ی انھوں نے نیٹو ارکان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے واجبات دیادننداری سے ادا کریں۔

صدر ٹرمپ کا بڑا کارنامہ افغان جنگ کا خاتمہ ہے۔ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی افغانستان پر تاریخ کا سب سے بڑا غیرجوہری بم گراکر فتح مبیں حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعدقطر میں مذاکرات کی میز بچھادی اور طالبان کی شرائط پر امن معاہدہ ہوگیا۔ انتخابات میں شکست کی بناپر امریکی فوج کا انخلا بائیڈن انتطامیہ کے دور میں ہوا۔

مسٹر ٹرمپ کا منشور دہشت گردی کے خلاف جنگ، داعش کا خاتمہ، امریکہ آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں کمی، غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری، نیٹو اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں پر نظر ثانی،کارپوریشنوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ کے ذریعے تجارت کی حوصلہ افزائی، کم سے کم اجرت، اجتماعی سوداکاری اور دوسری 'پابندیوں' کے خاتمے پر مشتمل ہے۔

انشااللہ آئندہ نشست میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار اور منشور کا تعارف پیش کیا جائیگا۔

ہفت روزہ سنڈے میگزین 26 جولائی 2025


No comments:

Post a Comment