Sunday, September 15, 2024

ڈانلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مباحثہ افغانستان سے پسپائی پر دلچسپ نونک جھونک تارکین وطن کا حقارت انگیز ذکر کملا کم عقل ہیں، دو جملے ترتیب نہیں دے سکتیں ۔ ڈانلڈ ٹرمپ خواتین کی بیحرمتی اور ٹیکس چوری جیسے 34الزامات پر مجرم قرار پانیوالاہمیں لیکچر دے رہا ہے۔ کملا کا جواب

 

ڈانلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مباحثہ

افغانستان سے پسپائی پر دلچسپ نونک جھونک

تارکین وطن کا حقارت انگیز ذکر

کملا کم عقل ہیں، دو جملے ترتیب نہیں دے سکتیں ۔ ڈانلڈ ٹرمپ

خواتین کی بیحرمتی اور ٹیکس چوری جیسے  34الزامات پر مجرم قرار پانیوالاہمیں لیکچر دے رہا ہے۔ کملا کا جواب

 منگل 10 ستمبر کو سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان براہ راست  مباحثہ ہوا۔ اسکا اہتمامABC  ٹیلی ویژن نے کیا تھا۔جائزے کے مطابق 1 ایک کروڑ 20 لاکھ امریکیوں نے 90 منٹ کا یہ مباحثہ براہ راست دیکھا۔ سوا دوماہ پہلے 27 جون کو ڈانلد ٹرمپ اور صدر بائیڈن کے مابین مباحثے کو چار کروڑ لوگوں نے ملاحظہ کیا۔ حوالہ: ChatGPT۔ ناظرین کی کم تعداد معنی خیز اور امریکی انتخابات میں عوام کی عدم دلچسی کو ظاہر کرتی ہے۔ پہلےمباحثے میں صدر بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی نے انھیں دوڑ سے دستبرداری پر مجبور کیا۔

یہ کملا ہیرس کا پہلا صدارتی مباحثہ تھا جبکہ ڈانلڈ ٹرمپ 2016 کی مہم کے دوران ہیلیری کلنٹن اور 2020 میں صدر باییڈن سے کئی بار بحث کرچکے ہیں۔ہیرس صاحبہ نے مباحثے کیلئے بھرپور تیاری کی اوروہ ماہرین کی نگرانی میں  دو ہفتے سے مشق کررہی تھیں۔ یہ درست کہ کملا ہیرس کو صدارتی مباحثے کا تجربہ نہیں لیکن وہ ایک منجھی ہوئی وکیل اور فنِ گفتگو و تقریر کی ماہر ہیں۔ دوسری طرف اس میدان میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی صلاحیت قابلِ رشک نہیں۔ انکا ذخیرہ الفاط  بے حد مختصر ہے جسکی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو  بار باردہراتے  ہیں۔

گفتگو کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے اپنی حریف پر کمیونسٹ ہونے کی پھبتی کسی اور بولے 'کامریڈ ہیرس مارکسسٹ ہیں، انکے والد مارکسزم کے پروفیسر تھے'۔جناب ٹرمپ کے خیال میں کملا جی کم عقل ہیں، یہ دوجملے ترتیب نہیں دے سکتیں اور اگر محترمہ  صدر منتخب ہوگئیں تو امریکہ کیلئے یہ ایک المیہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ  اس ملک کے دو بڑے مسائل ہیں۔ایک شکستہ سرحد جسکی وجہ سے ملک میں جرائم پیشہ لوگوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور دوسرا غیر شفاف انتخابی نظام۔ لاکھوں غیر ملکی تاریکین وطن کو ووٹر بنایا جارہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ بائیڈن انتطامیہ کی مہمل امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے ہر ملک کے مجرم پیشہ عناصر، دہشت گرد اور عصمت دری کے عادی امریکہ آرہے ہیں۔ دنیا میں جرائم کم ہورہے ہیں لیکن امریکہ میں پُر تشدد جرائم کی شرح آسمان پر ہے، اسلئے کہ سب وحشی یہاں آگئے ہیں۔ اس پر میزبان ڈیوڈ موئر نے توجہ دلائی کہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چارسالوں کے دوران امریکہ میں سنگین جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے جسے مسترد کرتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جھوٹی حکومت فیک اعدادوشمار جاری کررہی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ آنے والے غیر ملکی،  مقامی شہریوں کےپالتو کتے اور بلیاں کھارہے ہیں جس پر میزبان نے پھر مداخلت کی اورکہا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی اس خبر کو شہری انتظامیہ نے من گھڑت خبر قراردیا ہے۔

اسکا جواب دیتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا 'واہ واہ ذرا دیکھو یہ کون کہہ رہا ہے۔ وہ شخص جس پر خواتین کی بیحرمتی، ٹیکس چوری، قومی راز افشا کرنے سمیت 34 سنگیین جرائم ثابت ہوچکے ہیں اور موصوف کو نومبر میں سزا سنائی جائیگی۔ جواب میں ٹرمپ بولے کہ  بائیڈن انتظامیہ نے عدالت اور محکمہ انصاف میں اپنے حامی بٹھادیے ہیں جو میرے خلاف انتقامی کاروائی کررہے ہیں۔ انکے جھوٹے پروپینگنڈے کی وجہ سے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔

نوے منٹ پر میط اس مباحثے کے  تمام نکات کو اس کالم میں سمونا ممکن نہیں تاہم اس دوران غزہ نسل کشی اور افغانستان کے معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی اور ان نکات پر ان دونوں رہنماوں نے بہت ہی بے شرمی سے جھوٹ بولے۔

 افغانستان سے پسپائی کا ذکر کرتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بائیڈن حکومت نے وہاں سے بھاگنے میں جس بدحواسی بلکہ نامردی کا مطاہرہ کیا اس نے اقوام عالم میں امریکہ کا رعب و دبدبہ ختم کردیا۔ امریکہ کے تیرہ جوان مارے گئے اور 85 ارب ڈالر کا جدید ترین اسلحہ افغانوں نے ہتھیالیا۔ حسبِ عادت شیخٰی بگھاری کہ 'میں نے عبدل (قطر امن مذاکرات میں افغان وفد کے سربراہ ملا عبدالغنئ برادر) کو فون کیا اور کہا 'خبردار جو اب ہمارے کسی جوان پر حملہ کیا۔ میں نے اسکے گھر کی تصویر اسکو بھیجی، یہ ایک پیغام تھا کہ تمہارا گھر بھی ہمارے نشانے پر ہے'۔ اسکا جواب دیتے ہوئے کملا بولیں' صدر بش، صدر اوباما اور صدر ٹرمپ تینوں نے افغانستان سے فوج بلانے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی صدر بائیڈن کو نصیب ہوئی۔ امریکی نائب صدر نے انکشاف کیا کہ افغان جنگ کا خرچہ 300 ملین یا 30 کروڑ ڈالر روزانہ تھا۔ انھوں نے جوابی الزام لگایا کہ ٹرمپ دور میں افغان معاہدہ دب کر کیا گیا اور افغان حکومت کے بجاے دہشت گردوں سے مذاکرات ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر دونوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔افغان حکومت کے بجائے ملاوں سے مذکرات کا اصولی فیصلہ اوباماحکومت کے آخری دنوں ہوچکا تھا۔ ملاوں کو منانے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کئی بار غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان آئے لیکن ملا انکی بات نہ مانے اور آخرِ کار واشنگٹن براہ راست مذاکرات پر مجبور ہوا۔اسی طرح ٹرمپ صاحب کی جانب سے عبدل کو ڈرانے کا دعوی نری شیخی اور لن ترانی ہے۔ فون گفتگو کی حقیقت یہ ہے کہ جب قطر امن معاہدے پر اصولی اتفاق ہوگیا تو سوال اٹھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کیسے ہو؟ امریکہ کے مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے جب یہ معاملہ افغان وفد کے کے سامنے رکھا تو 'عبدل' نے کہا کہ ہم امریکی سپاہیوں کو واپسی کیلئے محفوظ راستہ دینے و تیار ہیں لیکن ہتھیار واپس نہیں لے جانیں دینگے۔ کافی بحث مباحثے کے بعد یہ طئے پایا کہ ہر سپاہی گولیوں کے بغیر اپنا ذاتی اسلحہ ساتھ لےجاسکتا ہے۔ محفوظ راستے کی یہی ضمانت حاصل کرنے کیلئے صدر ٹرمپ نے عبدل کو فون کیا تھا۔ گھر کی تصویر دکھانے والی بات اس اعتبار سے لغو ہے کہ امریکی حملے کے آغاز پر ہی عبدل کراچی میں گرفتار ہوگئے تھے اور زلمے خلیل زاد کی درخواست پر انھیں رہا کرکے کراچی سے قطر بھیجا گیا۔ انکا کابل میں کوئی گھر تھا ہی نہیں جسکی ٹرمپ صاحب تصویر دکھاتے۔ یہ معاہدہ 1400 سال پہلے ہونے والے بنو نضیر معاہدے کی نقل ہے جب اس شرط پر ان لوگوں کی جان بخشی کی گئی تھی کہ وہ اسلحہ چھوڑ کر جلا وطن ہونگےجائیں۔

غزہ نسل کشی کے معاملہ اٹھانے کیلئے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے صبح کو مباحثے کے مقام نیشنل کانسٹیٹیوشن سینٹر فلاڈیلفیا جانیوالی مرکزی سڑک پر دھرنا دیا۔ پولیس سے مذاکرات کے بعد یہ نوجواان اس شرط پر وہاں سے اٹھے کہ انھیں ہال کے مرکزی دروازے پر مظاہرے کی اجازت ہوگی۔روائیتی کفیہ اوڑھے نوجوان غزہ نسل کشی کیخلاف نعرے لگاتے رہے۔ وہان ایک  تقابلی کتبہ لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنا رہا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ غزہ نسل کش، ماحول دشمنی اور تارکینِ وطن سے تضحیک آمیز برتاو کےحوالے سے ٹرمپ اور کملا بالکل ایک ہیں اور ان دونوں نے سیاست و ایوان حکومت کو بڑی کارپویشنوں کےپاس گروی رکھدیا ہے

غزہ خونریزی کے سوال پراسرائیل نوازی کا بھرم رکھتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا کہ موجودہ تنازعے کا آغاز 7 اکتوبر کو ہوا جب دہشت گردوں نے 1200 بے گناہ اسرائیلیوں کو ہلاک، خواتین کو بے آبرو اور سینکڑوں معصوم لوگوں کو یرغمال بنایا۔اس تناظر میں اسرائیل کو اپنے دفاع اور جوابی کاروائی کا حق حاصل ہے۔ لیکن دفاع اور جواب دیتے ہوئے اخلاقی اقدار کی پاسداری ضروری ہے۔ غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے اور سارا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔فوری جنگ بندی اور غزہ کی تعمیر نو ہماری ترجیح ہے۔ محفوظ اسرائیل کیساتھ پرامن، بااختیار،مستحکم اور خوشحال فلسطینی ریاست ضروری ہے۔اپنی بات ختم کرتے ہوئے نائب صدر صاحبہ بولیں 'پھر سن لیں!! اسرائیل کے تحفظ کیلئے میرا عزم آہنی ہے۔

اسکا جواب دیتے ہوئے ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا 'ہیرس کواسرائیل سے نفرت ہے۔اگریہ صدر بن گئیں تو اسرائیل ختم ہوجائیگا۔ تاہم یہ عربوں کی بھی دوست و ہمدرد نہیں۔

صدارتی مباحثے کے بعد ناظرین کا جو جائزہ CNNنے شایع کیا اسکے مطابق 63 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ کملا ہیرس بحث کے دوران چھائی رہیں جبکہ 37 فیصد کہتے ہیں کہ ٹرمپ غالب رہے۔جناب ٹرمپ نے CNNکےجائزے کو تعصب سے آلودہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے جائزوں میں 72 سے 92 فیصد لوگوں نے انھیں فاتح گردانا ہے۔ صدر بائیڈن اور جناب ٹرمپ کے درمیان 27 جون کو ہونے والے مباحثے میں 67 فیصد افراد نے سابق صدر کو فاتح تسلیم کیا تھا

ہفت روزہ سنڈے میگزین، روزنامہ جسارت کراچی 15 ستمبر 2024


No comments:

Post a Comment