امریکی انتخابات
کملا دیوی ہیرس کا تعارف
امریکہ
میں انتخابی مہم زوروں پر ہے۔انتخابات تو
5 نومبر کو منعقد ہونگے لیکن اکثر ریاستوں میں پندرہ اکتوبر سے 'قبل از وقت ووٹنگ'
یا Early Votingکا آغازہوجائیگا۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے والوں کو بھی اگلے
ماہ کے وسط سے پرچہ انتخابات کا اجرا شروع ہوگا۔
عام
انتخابات کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے علاوہ لیریٹیرین پارٹی، گرین
پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی سمیت 11 دوسری جماعتوں کے علاوہ درجن بھر آزاد امیدوار بھی
میدان میں ہیں۔ لیکن امریکہ کے مہمل انتخابی نظام میں تیسرے امیدوار کی کامیابی
کاکوئی خفیف سا بھی امکان نہیں۔اسلئے اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر ڈانلڈ
ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی ٹکٹ یافتہ نائب صدر کملا دیوی ہیرس کے درمیان ہے۔
کملا صاحبہ خود کوکمالا کہلاتی ہیں۔ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم ڈانلڈ ٹرمپ کا
تعارف پیش کرچکے ہیں۔ آج شریمتی کملا صاحبہ پر چند سطور
کملا
دیوی صاحبہ کو امریکی تاریخ کی پہلی غیر مسیحی، ہندنژاد خاتون نائب صدر منتخب ہونے
کا اعزاز حاصل ہے۔ ان سے پہلے امریکہ کی ڈھائی سوسالہ تاریخ میں صرف دو خواتین کو
کسی بڑی جماعت نے نائب صدر کیلئے امیدوار نامزد کیا۔ محترمہ جیرالڈین فرارو 1984
میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار والٹر مانڈیل کے ہمراہ میدان میں اتریں اور
صدر ریگن کے امیدوار برائے نائب صدارت جارج بش سے شکست کھاگئیں۔ اسکے چوبیس سال
بعد 2008 میں محترمہ سارہ پیلن کو ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مک کین نے
نائب صدارت کیلئے نامزد کیا لیکن انھیں جو بائیڈن نے ہرادیا۔
صدارت
کیلئے کملا جی امریکی تاریخ کی دوسری خاتون امیدوار ہیں اس سے پہلے 2016 میں انھیں
کی پارٹی کی سینیٹر ہلیری کلنٹن کو ڈانلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شکست ہوچکی ہے۔
کملا
صاحبہ کی والدہ انجہانی شیمالہ گوپلان مدراس سے امریکہ تشریف لائیں۔ انھیں امریکہ
کے انتہائی موقر دانشگاہ جامعہ کیلی فورنیا کے شعبہ حیاتیات میں داخلہ مل گیا۔
امریکہ آمد کے وقت شیمالہ صاحبہ صرف 17 سال کی تھیں۔ انھوں نے برکلے سے تغذیہ و
درافرازیات (Nutrition
& Endocrinology) میں پی ایچ ڈی کی
سند حاصل کی۔ اسی جامعہ میں انکی ملاقات جمیکا کے جناب ڈانلڈ ہیرس سے ہوئی جو
مارکسسٹ معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے کےبعد جامعہ اسٹینفورڈ میں پروفیسر تھے۔ملاقات
پسند اور محبت کے مرحلے طئے کرتی چند ہی ماہ میں نکاح تک جاپہنچی۔ شیمالہ صاحبہ
اپنے شوہر سے صرف چار مہنیہ چھوٹی تھیں۔ شادی کے ایک سال بعد کملا بی بی نے جنم
لیا اور اسکے تین سال بعد انکی چھوٹی بہن مایہ نے آنکھ کھولی۔ مایہ کی پیدائش کے
چار سال بعد شیمالہ جی کو طلاق ہوگئی۔ کملا ہیرس کے اپنے والد سے تعلقات رسمی
نوعیت کے ہیں۔ شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے وقت وہ صرف 9 سال کی تھیں اور انکی
پرورش والدہ نے کی جو ہندوستانی اقدار سے وابستہ رکھنے کیلئے کملا اور انکی بہن کو
کئی بار چنائے (ہندوستان) لے گئیں۔
کملا ہیرس
نے امریکی دارالحکومت کی جامعہ ہوورڈ (Howard)سے معاشیات اور سیاسیات میں بی اے کرنے کے
بعد جامعہ کیلی فورنیا سان فرانسسکو سے قانون کی سند حاصل کی۔
انھوں
نے عملی زندگی کا آغاز 1990 میں اپنی ہی کاونٹی کی ڈسٹرکٹ اٹارنی کی حیثیت سے کیا
اور وہ دبنگ مستغیث (Prosecutor)مشہور ہوئیں۔ چار سال بعد انکا کیلی فورنیا
اسمبلی کے اسپیکرولی براون سے معاشقہ شروع ہوا جو ان سے عمر میں24سال بڑے تھے۔ ولی
براون صاحب نے کملا جی کو Unemployment
Insurance Appeals Boardاور پھر غریبوں کے
علاج معالجے کے کمیشن کا رکن نامزد کردیا۔ ولی براون کے علاوہ کملا ہیرس کے ٹی وی
میزبان مونٹیل ولیمز (Montel
Williams)سے بھی رازونیاز رہے جسے یہاں کی اصطلاح میں datingکہتے ہیں۔
کملا
ہیرس کی شہرت کا آغاز 1998 میں ہوا جب سان فرانسسکو ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل نے انھیں
اسسٹنت اٹارنی نامزد کیا اور وہ فوجداری (Criminal)ڈویژن کی سربراہ مقرر ہوئیں۔ اس دوران سیاہ
فاموں سے انکا رویہ بہت سخت تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک قانوں منظور ہوا تھا کہ لگاتار
تین چھوٹے جرائم کے مرتکب شخص کوعادی مجرم گردانا جائیگا۔ یہ بدنام زمانہ قانون Three strikes law کے نام سے مشہور ہے۔ اس غیر منصفانہ قانون کی زد میں آکر
ہزاروں سیاہ فام بچے طویل قید بھگت رہے ہیں۔ اپنا رعب بٹھانے کیلئے کملا ہیرس نے
اس قانون کا بیدریغ استعمال کیا اور سیاہ فاموں کو سخت سزا دلوائیں۔ اسی پس منظر
کی بنا پر وہ طنزیہ کہتی ہیں 'میں 'ٹرمپ ٹائپ' کے مجرم پیشہ لوگوں کو خوب جانتی
ہوں۔
نومبر
2002 میں کملا سان فرانسسکو کو ڈسڑکٹ اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں، وہ سان فرانسسکو کی
پہلی رنگدار اٹارنی جنرل تھیں۔ نومبر 2010میں انھیں ریاست کیلی فورنیا کی اٹارنی
جنرل منتخب کرلیا گیا، یہاں بھی انھوں نے ریاست کی پہلی ایشیا نژاد سیاہ فام خاتون
اٹارنی جنرل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ چار سال بعد ہونے والے انتخابات میں انھوں نے
یہ نشست برقرار رکھی۔ اسی دوران 2013 میں انکی ملاقات مشہور وکیل ڈک ایمہوف (Doug Emhoff)سے ہوئی۔ ڈگ مذہباً یہودی ہیں اور پانچ سال پہلے انکی طلاق
اس وجہ سے ہوگئی کہ موصوف کا اپنی صاحبزادی کی استانی سےمعاشقہ چل رہا تھا۔ ایک
سال بعد کملا ہیرس اور ڈگ نے شادی کرلی۔
بیس
سال تک امریکی سینیٹ کی رکن رہنے کے بعد 2015 میں سیننٹر باربراباکسر نے سیاست سے
سبکدوشی کا اعلان کیا اور 2016 میں انکی خالی ہونے والی نشست پر کملا ہیرس سیینیٹر
منتخب ہوگئیں۔جب اقتدار سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم المعروف Muslin Ban کے ذریعے ایران، لبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور عراق
کےباشندوں کیلئے امریکی ویزے پر پابندی لگائی تواسکے خلاف سب سے توانا آواز سینیٹر
کملا ہیرس کی تھی۔
2020
کے صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس نے بھی قسمت آزمائی کی اور مباحثے کے دوران انکی
جو بائیڈن سے کئی بار تلخ کلامی ہوئی۔تاہم نوشتہ دیوار پڑھ کر وہ پرائمری انتخابات
کےآغاز سے پہلے ہی دوڑ سے باہر نکل آئیں، جناب بائیڈن نے انھیں نائب صدر کا امیدوار نامزد
کردیا اور 3 نومبر 2020 کو وہ نائب صدر مائک پینس کا ہراکر امریکہ کی پہلی خاتون
نائب صدر بن گئیں۔
صدارت
کیلئے کملا ہیرس کی نامزدگی کو اس اعتبار سے حادثاتی کہا جاسکتا ہے کہ صدر بائیڈن تمام کی تمام 50ریاستوں اور وفاقی دارالحکومت میں پرائمری انتخابات
جیت کر نامزدگی کیلئے مندوبین کی مطلوبہ تعدادکی حمائت حاصل کرچکے تھے۔انھوں نے
مجموعئ طور پر ایک کروڑ 44 لاکھ 65 ہزار ووٹ حاصل کئے جو کل ووٹ کے 87فیصد سے زیادہ ہے۔ نامزدگی کیلئے مندوبین کے
1886 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ بائیڈن حمائت سے منتخب ہونے والے یعنی committed مندوبین کی تعداد 3586 تھی۔اس
اعتبار سے پارٹی کے قومی کنونشن سے انکی نامزدگی بس ایک
رسمی کاروائی تھی۔
کچھ
عرصے سے صدر بائیڈن لغزشِ زبان اور وقتی نسیان کا شکار نظر آنے کیساتھ انکی حرکات
و سکنات سے خیالات کے الجھاو، بے ترتیبی و پراگندگی کا اظہار ہورہا تھا۔ اس کا بڑا
مظاہرہ 27 جون کو صدر ٹرمپ کیساتھ انکے مباحثے میں ہوا جب انکی آواز بھرائی ہوئی
تھی۔ گفتگو کا زیروبم غیر مستحکم تھا یعنی آواز کبھی اتنی ہلکی کہ جیسے سرگوشی
فرمارہے ہیں اور کبھی ایسی کہ چیخنے کا گماں ہورہاتھا۔بحث کے دوران کئی بارایسا
محسوس ہوا کہ گویا سوال انھیں سجھ ہی نہ آیا اوردماغی مشق و سوچ بچار کے بعد جب وہ
بات کی تہہ تک پہنچے تو جواب دینے کیلئے الفاط کے انتخاب میں غیر ضروری تاخیر
ہوئی۔ اس صورٹحال سے جناب ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔یعنی سابق صدردھڑلے سے جھوت
بولتے رہے اور بائیڈن صاحب سے بولا ہی نہ گیا۔ اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کرتے
ہوئے انھوں نے اسے سفرِ یورپ، نزلے اور
تھکن کا شاخسانہ قراردیا۔ تاہم ڈیموکریٹک پارتی کے اندرونی دباو سے مجبور ہوکر انھوں
نے کملا ہیرس کو امیدوار نامزد کردیا۔
سیاسی و نظریاتی اعتبار سے
کملا ہیرس ایک روائتی سیاستدان ہیں۔امریکی سرحدوں کو غیر ملکیوں پر بند کرنے، چین
کے گھیراو، یوکرین کے ذریعے روس کی مرمت، ایران اور افغانستان میں عدم استحکام اور
سب سے بڑھ کر اسرائیل کی غیر مشروط حمائت کے معاملے میں انکے خیالات اپنے حریف
ڈانلڈ ٹرمپ سے زیادہ مختلف نہیں۔ کملا ہیرس نے صاف صاف کہا کہ اسرائیل کو مسلح رکھنا
انکے منشور کا حصہ ہے اور اسرائیل کی
سلامتی یقینی بنانے کیلئے وہ انتہائی پر
عزم ہیں۔
سماجی معاملات پر کملا دیوی
ہیرس اسقاط یا Reproductive Rightsکو خواتین کا استحقاق
سمجھتی ہیں۔ ہم جنس ہرستی (LGBT)کے حوالے سے
جنسی ترجیح پر پابندی یا جبری ترغیب انکے خیال میں انسانی حقوق کی خلاف
ورزی ہے۔ دلچسپ بات کہ پیدائشی ہندو ہونے کے باوجود وہ ہندوتوا اور بی جے پی کی سخت
مخالف اور کشمیریوں کے حقوق کی حامی ہیں۔
ہفت روزہ سنڈے اسہیشل کراچی 8 ستمبر 2024
No comments:
Post a Comment