Thursday, September 12, 2024

سرائیلی عوام سڑکوں پر غزہ سے فوج بلاو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو انتہا پسند وزیراندرونی سلامتی کے منہہ پر خاک پھینک دی گئی ناروے، نسل کشی کے سہولت کار اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کریگا

 

اسرائیلی عوام سڑکوں پر

غزہ سے فوج بلاو، ہمارے پیاروں کو واپس لاو

انتہا پسند وزیراندرونی سلامتی کے منہہ پر خاک پھینک دی گئی

ناروے، نسل کشی کے سہولت کار اداروں میں سرمایہ کاری نہیں کریگا

پیر، 8 ستمبر کی صبح امریکی سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس نے لندن میں اپنے برطانوی ہم منصب رچرڈ مور کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نوید سنائی کہ 'غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر 90فیصد اتفاق ہوچکا ہے'۔نوے فیصد سن کر ہمیں اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ  مشغلہ زبان سے زیادہ کچھ نہیں۔ برنس صاحب اگر 99 فیصد کہہ دیتے تب بھی غلط نہ ہوتا کہ اختلاف تو بس غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر ہے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ شام کو اسرائیل کے ٹیلی ویژن چینل 12 نے  مذاکرات کاروں کے حوالے سے بتایا کہ اہل غزہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں اور وہ اپنے موقف میں لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد پرامید نظر آنے والے سی آئی اے کے سربراہ نے مذاکرات ناکام ہونے کا مایوس کن اعلان کردیا۔دوپہر کو CNNکے ایک پروگرام میں اسرائیلی مذاکراتی وفد کے قائد ریٹائرڈ بریگیڈئر جنرل گال ہرش (Gal Hirsch) نے فرمایا اگر مزاحمت کار قیدی رہا کردیں تو جنگ ابھی بند ہوسکتی ہے اور پھر 'فراخدلانہ' یشکش کی کہ ہم دہشت گرد رہنماوں کو غزہ سے  بحفاطٹ نکلنے کیلئے راستہ دینے کو بھی تیار ہیں۔ غزہ سے اسکا ترنت جواب آیا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں، واپسی کا راستہ حملہ آوروں اور قبضہ گردوں کو ڈھونڈنا ہے

فوج کے انخلا پر فریقین کے غیر لچکدار روئے کی وجوہات بہت واضح ہیں۔ مزاحمت کارجانتے ہیں کہ زیرِحراست اسرائیلی قیدی وہ آنکُس ہے جس سے انھوں نے بدمست ہاتھی اور انکے سرپرستوں کو قابو کیا ہوا ہے اور اپنی تمام شرائط منوائے بغیر وہ انھیں رہا کرنے کو تیار نہیں۔ زمینی حقائق بھی اسرائیل کیلئے مایوس کن ہیں کہ سارے غزہ کو ریت کا ڈھیر بنادینے کے باوجود وہ مزاحمت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بارش کی طرح برستے لبنانی میزائیلوں اور راکٹوں سے شمالی اسرائیل تیزی سے کھنڈر بن رہا ہے۔ بحالی مراکز معذوراسرائیلی سپاہیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ چار ستمبر کو سالانہ دماغی صحت کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے وزیرصحت یوریل بیوسو (Uriel Buso)نے کہا کہ ملک کو دماغی صحت کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔اس تناظر میں جنگ بندی اسرائیل کی ضرورت ہے اسلئے کہ اہل غزہ ے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں

شیخی اور لاف زنی اپنی جگہ لیکن نیتھن یاہو کی وزارت عظمیٰ بیساکھیوں پر کھڑی لڑکھڑارہی ہے کہ 120رکنی اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں برسراقتدار لیکڈ پارٹی کی صرف 32 نشستیں ہیں اور وہ کرسی برقرار رکھنے کیلئے توریت پارٹی، پاسبان توریت یا Shasپارٹی، عظمت یہود پارٹی اور دینِ صیہون جماعت کے محتاج ہیں۔ بھان متی کا یہ کنبہ جوڑ کر نیتھن یاہو نے رائے شماری کے دوران 64 ووٹ حاصل کئے جو کم سے کم کے نشان سے صرف 3 زیادہ ہے اور پارلیمانی حلیف صاف صاف کہہ  چکے ہیں کہ اگر حکومت نے انخلا کا فیصلہ قبول کیا تو وہ اتحاد سے نکل جائینگے۔معاملہ صرف اقتدار کا نہیں بلکہ نیتھن یاہو کے خلاف بدعنوانی اور بے ایمانی کے کئی مقدمات تیار ہیں۔ وزارت عظمیٰ ختم ہونے پر جیسے ہی استثنیٰ کی چھتری ہٹی، موصوف کو جیل جانا ہوگا۔ یعنی جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

عوامی سطح پر حکومت سخت دباو میں ہے۔ بندوق کی نوک پر قیدی چھڑانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد سے اسرائیلی سڑکوں پر ہیں۔اس مہم جوئی میں پانچ اسرائیلی قیدی ہلاک ہوئے تھے۔ قیدیوں کے لواحقین نے علامتی تابوتوں کیساتھ اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر کے باہردھرنا دے رکھا ہے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک قیدی کی والدہ نے کہا'اگر اپنے پیاروں کی جان بچانا چاہتے ہو تو اس جلاد کو ازا اسٹریٹ (اسرائیلی وزیراعظم کی سرکاری رہائشگاہ) سے نکال باہر کرو اور اس قصاب کی جگہ کسی درد مند انسان کو لے آو'۔ 'بی بی اور بی بی کے بے ضمیر وزیرو!! تاریخ میں تمہارے نام قتل ہونے والے یرغمالیوں کے خون سے لکھے جائیں گے'۔ جنگ سے نفرت کے اظہار میں کچھ مظاہرین نے تل ابیب کے چوک پر لگے غزہ کے 'اسرائیلی شہدا' کی تصویریں پھاڑدیں۔

اسرائیلی Hostages and Missing Families Forum کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا 'قیدیوں کی ہلاکت نیتن یاہو کی جانب سے امن معاہدوں کوثبوتاژ کرنے اور فلاڈیلفی کوریڈور میں فوجی موجودگی برقرار رکھنے پر اصرار کا براہ راست نتیجہ' ہے۔ کرائم منسٹر عسکری ترجمان کے پیچھے نہ چھپیں اور عوام کو قیدیوں سے غداری کا حساب دیں۔ اتوار 8 ستمبر کو تل ابیب میں اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا جس میں ساڑھے سات لاکھ افراد شریک ہوئے۔ کئی جگہ پولیس نے تشدد کیا اور صحافی، قانون نافذ کرنے والوں کا نشانہ بنے۔

حزب اختلاف کے رہنما اب کھل کر ان مظاہروں میں شرکت کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے  اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے قائد بینی گینٹز نے کہا کہ ہماری بنیادی ترجیح قیدیوں کی واپسی ہونی چاہے اسکی کوئی بھی قیمت اداکرنی پڑے۔ ہمارے پیارے اہم ہیں فلاڈیلفی راہداری نہیں۔ 'بی بی استعفیٰ دو' کی گونج میں جرنیل صاحب نے کہا کہ وزیراعظم نیتھن یاہو ہمارے قیدی واپس لاسکتے ہیں نہ وہ لبنانی میزائیلوں سے ملک کا دفاع کرسکتے ہیں۔شمالی اسرائیل، راکٹ بازی اور میزائیل حملوں سے کھنڈر بنتا جارہا ہے۔ غزہ بھی بی بی کے بس کی بات نہیں۔

صحافیوں کی جانب سے بھی اب اسرائیلی وزیراعظم کاکڑا احتساب ہورہا ہے اور قلم کے مزدور نیتھن یاہو کو آئینہ ایام میں انکی ادا دکھلا رہے ہیں۔پانچ ستمبر کواخباری کانفرنس میں ایک صحافی نے  اپنے موبائل پر وزیراعظم کو انکی اس تقریر کا بصری تراشہ دکھایا جو موصوف نے اپریل کے آغازمیں کی تھی۔ اس خطاب میں موصوف فرمارہے تھے کہ 'غزہ میں اسرائیلی فوج، 'فتح مبیں' سے بس ایک قدم دور ہے'۔ تراشہ دکھاکر الارض (Haaretz)کے صحافی نے پوچھا کہ 'اسرائیلی فوج کا ایک قدم کتنا بڑا ہے کہ چار ماہ میں بھی عبور نہیں ہوا بلکہ قومی سلامتی کے مشیر زکی حنگبی نے کل ہی کہا کہ جنگ 2025 کے دوران بھی جاری رہیگی'۔ نیتھن یاہو، انتہائی ڈھٹائی سے بولے ''اس وقت میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس اہم سنگِ میل سے ایک قدم دور ہیں جہاں سے ہماری فتح کی راہ ہموار نظر آرہی ہے' واقعی،  جب آدمی بے حیا ہوجائے تو جو چاہے کہتا پھرے

وزیراعظم کی جانب سے فتح مبیں اور قیدی چھڑانے کے بلند باند دعووں پر اب عام اسرائیلیوں کو اعتماد نہیں رہا۔ رائے عامہ پر نظر رکھنے والے انتہائی موقر ادارے اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ  نے 4 ستمبر کو ایک جائزہ شائع کیا ہے جسکے مطابق 73فیصد سے زیادہ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ حکومت غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کو بحفاظت واپس لانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

عوامی مقامات پر نظر آنے والے وزرا کو عام لوگوں کی جانب سے ناراضگی کا سامنا ہے۔ چند روز پہلے وزیرتعلیم یوو کیش (Yoav Kisch) کفر مناحم اسکول کے دورے پر آئے تو مظاہرین نے انھیں گھیر لیا اور 'قیدی واپس لاو یا گھر جاو' کے نعرے لگائے۔ پولیس نے نرغے میں لے کر وزیرباتدبیر کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا۔

انتہا پسند عظمتِ یہود جماعت کے سربراہ اور وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر 6 ستمبر کو تل ابیب کے ساحل پر عوام کے ہاتھوں رگیدے گئے۔لوگوں نے قاتل قاتل کے نعرے لگائے اور ایک 27 سالہ خاتون نے انھیں  دہشت گرد کہتے ہوئے وزیر کے منہہ پر ریت پھینک دی۔مکافات عمل کی اس سے زیادہ عبرتناک مثال اور کیا ہوگی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت ساری دنیا سے مستضعفین کو دہشت گرد قرار دلوانے والوں کو اب خود انکے اہل وطن دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔

غزہ جنگ اور قیدیوں کے بارے میں ہیجان حکومتی و سیاسی ایوانوں میں بھی نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ہفتے شادی کی ایک نجی تقریب میں بینی گینٹز نے اتمار بن گوئر سے مصافحہ کرلیا۔ یہ تصویر دکھا کر جب ایک صحافی نے قائد حزب اختلاف سے تبصرہ کرنے کو کہا تو یار لیپڈ بولے 'میں دہشت گردوں کے پشت پناہوں سے ہاتھ نہیں ملاتا' اس بات پر اتامر بن گوئر سخت مشتعل ہوگئے اور دوسرے دن خصوصی پریس کانفرنس طلب کرکے کہا "یار لیپڈ نے اسلامی تحریک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی مدد سے حکومت تشکیل دی، وہ فوجیوں کے قتل کی حمائت اور دہشت گردی کی مذمت کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمیں انکے لیکچر کی ضرورت نہیں۔ آپ ( مقتدرہ فلسطین کے سربراہ) عباس اور دیگر دوستوں سے ہاتھ ملاتے رہئے جن سے آپ کودلی محبت ہے۔

بربریت کے حوالے سے دہلی میں مقیم اسکاٹ لینڈ کے مشہور ادیب و مورخ ولیم ڈلرمپل (William Dalrymple)   نے  غزہ پر بمباری کے جو اعدادوشمار شایع کئے اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جناب ڈالرمپل کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما پر جو جوہری بم گرایا گیا اسکی شدت 15000ٹن بارود کے مساوی تھی۔ س عرصے میں جرمنوں نے لندن پر 20 ہزار ٹن بارود برسایا، جبکہ غزہ پر اب تک 85 ہزار ٹن بارود گرایا جاچکا ہے۔ حوالہ؛ ٹویٹر

فراہمیِ اسلحے کے حوالے سے کسی حد تک حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ برطانیہ نے اسرائیل کو جاری ہونے والے  اسلحے کے 350 میں سے 30 لائسنس معطل کردئے۔وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی کے مطابق 'تفصیلی جائزے سے پتہ چلا اسرائیل کو بعض ہتھیاروں کی فروخت سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے۔ بلا شبہہ یہ بہت تاخیر سے اٹھایا گیا بہت ہی چھوٹا قدم ہے۔ کی مرے قتل کے بعد اس سے جفا سے (علامتی) توبہ

ایسا ہی تاخیری سجدہ سہو فیس بک کے مالک ادارے metaنے اداکیا ہے یعنی 11 ماہ سوچ و بچار کے بعد 'نہر ٰتا بحر فلسطین' کے نعرے کو 'جائز' قرار دیدیاگیا۔دنیاکی اس مقبول ترین پکار اور نوشتہ دیوار کو فیس بک سے نفرت انگیر مواد یا Hate Speechقرار دیکر حذف کیا جاتا رہا۔اب meta کی نگراں کمیٹی (Oversight Board)نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ نعرہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے، جس میں دعوتِ تشدد یا کسی قوم، ملک یا لسانی و معاشرتی اکائی کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں چانچہ یہ جملہ کمپنی کی پالیسیوں سے متصادم تصور نہیں کیا جاسکتا۔کاش امریکہ کے اسرائیل نواز ارکان کانگریس بھی اپنا ذہن ذرا وسیع کرلیں جنکے خیال میں نہر تا بحر فلسطین کا نعرہ اسرائیلی ریاست کو مٹانے کا عزم اور antisemitism کی ایک شکل ہے۔

ایسی ہی ایک خبر ناروے سے کہ سرکای وقف المعروف Norway Wealth Fundنے غزہ نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مدد اور سہولت فراہم کرنے والے اداروں میں سرمایہ کاری نہ کرنےکا عندیہ دیا ہے۔فنڈکی کمیٹی برائے اخلاقیات نے سرمایہ کاری کمیٹی کے نام خط میں ہدائت کی ہے کہ ان اداروں میں سرمایہ کاری نہ کی جائے جو نسل کشی اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی میں کسی بھی طرح مدد کررہے ہیں۔ناروے ویلتھ فنڈ دنیا بھر کی 8800 کمپنیوں میں 1700ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے

غزہ قتل عام کیساتھ شمالی غرب اردن کو پتھروں کے دور میں پہنچادینے کاعمل جاری ہے۔جنین میں شہری سہولیات ( پانی، سیوریج، بجلی اورگیس) تباہ کرنے کے بعد سڑکیں بلدوزروں سے ادھیڑ دی گئیں۔شہر رہنے کے قابل نہیں رہا، لیکن اہل جنین کہتے ہیں یہ ہماری زمین ارضِ فلسطین ہے ، ہم یہاں سے کہیں جانے والے نہیں

فوجی کاروائی کیساتھ انتہا پسند قبضہ گردوں نے غنڈہ گردی کا بازار گرم کررکھا ہے۔ جمعہ 6 ستمبر کو رام اللہ کے مضافاتی علاقے خربۃ ابو فلاح پر فوج کی نگرانی میں مسلح قابضین (Settlers) نے حملہ کیا۔ درجنوں مکانات تباہ،کاریں نذرِ آتش اور زیتون کے باغ نوچ ڈالے گئے۔ مقامی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے ان اوباشوں نے جاتے جاتے دیوارں پر ستارہ داودؑ بنا کر (غزہ کا) انتقام لکھدیا۔عین اسی وقت غارتگر قابضین کی ایک اور ٹولی نابلوس کے گاوں قریوت پر حملہ آور ہوئی۔اندھاھند فائرنگ سے ایک 13 سالہ بچی بنا امجد بکر جان سے گئی۔اسی دن نابلوس کے مضافاتی علاقے بیتا میں فوج کی فائرنگ سے 26 سالہ ترک امریکی خاتون عائشہ نور آئیگی جاں بحق ہوگئی۔ عائشہ نور فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے کام کرنے والے ادارے International Solidarity Movement (ISM) کی رضاکار تھی جسے مظاہرے کے دوران ماتھے پر گولی ماری گئی۔

امریکہ میں گرفتاری، انتقامی کاروائیوں اور اخراج کی دھمکیوں کے باوجود جامعہ کولمبیا میں تعطیلات کے بعد تعلیمی سال کے پہلے ہی دن غزہ نسل کشی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ جامعہ ہاوروڈ اور جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC)میں بھی جلوس نکالے گئے۔ نائب صدارت کیلئے ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جے ڈی وانس نے جامعات میں مظاہروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ پر زوردیا ہے کہ وہ کیمپس پر مظاہروں کو غیر قانونی قراردیں۔ ڈانلڈ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں  کہ اگر وہ انتخابات جیت گئے تو امریکہ بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر پابندی لگادی جائیگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 ستمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 ستمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 15 ستمبر 2024


No comments:

Post a Comment