قیدیوں کو بندوق کے زور پر رہا کرانے کی کوشش
ناکام ۔ چھ اسرائیلی ہلاک
غزہ میں بربریت کے 11 ماہ، 53 بچے یومیہ مارے
جارہے ہیں
غربِ
اردن پر چنگیز و ہلاکو کی یلغار
مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر یہودی نماز
القدس شریف میں Synagogue کی
تعمیر کا منصوبہ
اسرائیلی وزیراعظم نیتھن یاہو
کی ضد 6 قیدیوں کی جان لے گئی۔اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینئیل ہجاری کا کہنا
ہے کہ فوج انھیں چھڑانے کیلئے رفح میں قیدخانے تک پہنچ چکی تھی لیکن مزاحمت کاروں
نے اسرائیلی فوج کے اندر آنے سے پہلے انھیں ہلاک کردیا۔یہ واقعہ ر فح میں پیش آیا۔
ان افراد میں 23 سالہ امریکی ہرش گولڈبرگ بھی شامل ہے جسکے ماں باپ نے ڈیموکریٹک
پارٹی کنونشن میں جذباتی تقریر کی تھی۔
آٹھ جون کو اسرائیلیوں نے
دیر البلاح کے علاقے پر زبردست حملہ کرکے 4 قیدیوں کو چھڑا لیا تھا۔اس وحشیانہ
حملے میں بچوں اور عورتوں سمیت 240 بے گناہ فلسطینی مارے گئے تھے ۔اسرائیلی فوج نے
اس پر خوب جشن منایا اور وزیرعظم نیتھن یاہو نے تاثر دیا کہ غزہ پر اسرائیلی فوج
کی گرفت مضبوط ہوچکی ہےاور اب ہم اپنے قیدی بزور طاقت چھڑا سکتے ہیں۔ تاہم واقعہ
کے بعد مزاحمت کاروں نے متنبہ کردیا تھا کہ بازیابی کی کسی بھی نئی کاروائی کے
صورت میں وہ قیدیوں کو ہلاک کردینگے اور گزشتہ ہفتے ایسا ہی ہوا۔
ایک ہفتہ قبل 27 اگست کو
اسرائیلی فوج نے 52 سالہ فرحان قاضی کو
بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ بدو مسلم فرحان کو طوفان اقصیٰ آپریشن کے دوران
مزاحمت کاروں نے قیدی بنایا تھا۔ اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسی نےاس پر شیخی تو
خوب بگھاری لیکن غیر جابندار حلقوں کا خیال ہے کہ فرحان کو عرب اور مسلمان ہونے کی
بنا پر مزاحمت کاروں نے خود ہی رہا کردیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی حالیہ ناکام
مہم پر قیدیوں کے لواحقین کے ساتھ اسرائیل کے سنجیدہ عناصر سخت خوفزدہ ہیں۔ انھیں
ڈر ہے کہ بوکھلائے نیتھن یاہو اسرائیلی فوج کو اس نوعیت کی دوسری مہمات کا حکم
دینگے جس سے مزید قیدیوں موت کے گھاٹ اتر سکتے ہیں۔اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط
پر اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ 'متوازی سفارتی کوششوں کے
بغیر فوجی دباؤ یرغمالیوں کیلئےموت کا پیغام ہے'۔قائد حزب اختلاف یار
لیپڈ قیدیوں کی موت پر پھٹ پڑے اور ایک بیان میں کہا 'نیتھن یاہو کو نہ فلاڈیلفی
راہداری سے دلچسپی ہے اور نہ وہ غزہ میں پولیو پھوٹ پڑنے سے پریشان ہیں۔ وہ اپنے
انتہا پسند اتحادیو ں کو خوش کرکے ہر صورت کرسی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔اس شیطانی
خواہش کی تکمیل میں ہمارے بچے روندے اور خاندان تباہ ہورہے ہیں' حوالہ: ٹائمز آف
اسرائیل
ناکام آپریشن کی خبر شایع
ہوتے ہے سارے اسرائیل میں مظاہرے شروع ہوگئے اور وزیراعظم
نیتھن یاہو کو امن معاہدے پر مجبور کرنے کیلئے 2 ستمبر کومکمل ہڑتال ہوئی۔اس دوران وزیراعظم سیکریٹیریٹ سمیت سرکاری
دفاتر، بندرگاہیں اور تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ سمیت ہر جگہ کام معطل رہا۔
مارے جانے والے دوافراد کے لواحقین نے نیتھن یاہو کے تعزیتی فون سننے سے انکار
کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ جس شخص کی بے حسی نے ہمارے پیارے کی جان لی اس کی تعزیت
قبول کرکے ہم مرنے والے کی روح کو اذیت نہیں پہنچاسکتے۔
جس وقت آپ یہ سطور ملاحظہ
فرمارہے ہیں، غزہ پر اسرائیلی وحشت کے 11 مہینے مکمل ہوگئے لیکن نہ تو دست قاتل میں تھکن کے آثار ہیں
اور نہ مستضعفین کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ایک ہفتہ قبل تک 40
ہزار بے گناہ افراد نسل کشی کا شکار ہوئے، جن میں رزقِ خاک ہونے والے مہہ پاروں کی تعداد 17000سے زیادہ ہے یعنی غزہ
کے 3 فیصد بچے فنا ہوچکے۔
سات اکتوبر سے آج تک ہر روز 53 بچے جان سےجارہے ہیں۔تقریباً دس ہزار افراد ملبے
تلے دبے ہیں۔
اس
ہفتے شمالی غربِ اردن کو اسرائیلی فوج نے روند ڈالا۔ حملے کا آغاز 28 اگست کو وادی
اردن کے شہر طوباس کے پناہ گزین کیمپ فارعہ پر خوفناک ڈرون حملے سے ہوا جس میں سات
فلسطینی مارے گئے۔ امریکی ساختہ F16 بمباروں نےمرکزی جامعہ مسجد کو نشانہ بنایا
اور اسکا بڑا حصہ منہدم ہوگیا۔عثمانی دور کی یہ مسجد فارعہ
خیمہ بستی کے قریب واقع ہے۔ حسبِ توقع اسرائیل نے الزام لگایا کہ مسجد کو دہشت
گردوں نے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا ہوا تھا۔اسی دن شام کو اسرائیلی ٹینک اور بکتر بند دستوں نے طوباس کے شمال مغرب
میں جنین اور مشرقی جانب تلکرم کو گھیر لیا۔تلکرم کے جنوب میں قلقیلیہ پر بھی ڈرون
سے حملے کئے گئے۔ تین دن بعد وحشت کا دائرہ جنوبی غرب
اردن تک وسیع کردیا گیااور اسرائیلی سپاہ الخلیل (Hebron)پر چڑھ دوڑیں اور فوجی جوتوں سمیت الحرم الابراہیمی ؑ میں گھس
گئے۔عبرانی و مسیحی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم نے اپنے اور اپنے خانوادے کی
تدفین کیلئے یہاں اراضی خریدی تھی۔ مسیحی اس مقام کو Cave of the
Patriarchs کہتے ہیں۔مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں کیلئے الحرم الابراہیمی
ؑایک مقدس خانقاہ ہے۔
منگول وحشیوں کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ سفاک ہونے کےساتھ وہ لوگ تہذیب کے دشمن بھی تھے۔ اپنے مفتوحہ
علاقوں میں جہاں لاشوں کے انبار اور کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے ، وہیں شعرا کی
زبانیں تراش دیتے۔ ہنرمندوں کے ہاتھ قلم، عبادت گاہیں مسمار، کتب خانے نذر آتش اور
تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بنادئے جاتے۔ ایسا ہی منظر آجکل شمالی غرب اردن میں نظر
آرہا ہے۔ جنین میں اندھا دھند فائرنگ کیساتھ آبنوشی کے ذخائر تباہ کردیے گئے۔نکاسیِ
آب کے پمپوں کو بموں سے اڑادیا گیا۔ نتیجے کے طور پر گٹر کے متعفن پانی اور غلاظت
سے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ مرکزی جامعہ مسجد کا بڑا حصہ زمیں بوس کردیا
گیا۔اسکول اورتعلیمی اداروں کو میزائیل بردار ڈرونوں سے چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔
بلڈوزروں سے سڑکیں اکھیڑدی گئیں اور پبلک پارک مسمار کردئے گئے۔ علاقے کے واحد
ہسپتال پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے اور زخمی سڑکوں ہر تڑپ رہے ہیں۔
اس آپریشن کا بنیادی ہدف
شہری سہولتیں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ کرکے علاقے کو ناقابل رہائش بنانا ہے۔
وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز نے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ ایران نے شمالی غرب اردن میں اسلحے
کا انبار لگادیا ہے اور دنیا بھر کے دہشت گرد اس علاقے جمع ہوگئے ہیں۔ انکا کہنا
تھا کہ شمالی غرب اردن کی صورت غزہ سے بدتر ہوگئی ہے اور 'محفوظ عسکری آپریشن'
کیلئے لوگوں کو یہاں سے کہیں اور منتقل کرنا پڑیگا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ
اسرائیل یہاں آباد لاکھوں لوگوں کو اردن دھکیلنے کی تیاری کررہا ہے۔
طوباس، جنین، تلکرم اور
الخلیل کی پامالی کیساتھ مسجد اقصیٰ اور القدس شریف میں دراندازی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ نیتن
یاہو کی اتحادی جماعت، عظمتِ یہود کے سربراہ اور وزیراندرونی سلامتی اتامر بن
گوئرکئی بار گنبدِ صخرا کے قریب عبادت کرچکے ہیں جو دراصل مسجد اقصیٰ کا
دالان ہے۔ تیرہ اگست کو جب یہودی ہیکلِ
سلیمانی کی تباہی پر یوم نوحہ (Tisha B'Av) مناتے ہیں، وزیر صاحب کی قیادت میں انتہاپسند القدس میں داخل ہوگئے
اور مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں کے پاس منشا یا ظہر کی نماز ادا کی۔گزشتہ ہفتے
،اسرائیلی فوج کے ریڈیو پر انٹرویو دیتے ہوئے ے انھوں کہا کہ القدس سب کا ہے، یہاں
کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے، یہودیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں عبادت کا حق ہے۔ جب ان
سے پوچھا گیا کہ کیا وہ القدس شریف میں یہودی معبد (Synagogue)تعمیر کرینگے تو انھوں نے کہا یقیناً۔ حوالہ: رائٹرز
اسکے دوسرے دن اپنے عزم کا
اعادہ کرتے ہوئے بن گوئر صاحب نے فرمایا کہ مسلمانوں کیلئے احترام کے حوالے سے
کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسجد اقصیٰ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ Temple Mount ہمارا مقدس ترین مقام ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کا
حق حاصل ہے۔ انھوں نے کہا وہ یہاں Synagogue یا یہودی عبادت گاہ ضرور تعمیر کرینگے۔ٹائمز آف اسرائیل کا کہنا ہے
کہ مسجد اقصیٰ کی دہلیز پر منشا کی ادائیگی اب معمول بن چکی ہے۔
انتہا
پسند اسرائیلیوں کی اشتعال انگیزیوں پر انکے اتحادیوں کو سخت تشویش ہے لیکن لاڈلہ
کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ امریکی قومی سلامتی
کے ترجمان جان کربی نے بہت زور دیکر کہا کہ (القدس شریف) کے بارے میں اسرائیلی
وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور اقدامات نفرت و
افراتفری کا بیج بورہے ہیں۔انکے بیانات سے ایسے وقت میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جب
اسرائیل کو ایران نواز فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کاروں کے خلاف اپنے عرب اتحادیوں
کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کے اشتعال انگیز بیانا ت سے کسی اور کا
کوئی نقصان نہیں البتہ خود اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑرہی ہے۔
یورپی یونین کے ذمہ دار برائے
امورِ خارجہ کی لاچارگی دیکھ کر تو ہمارا دل بھی پسیج گیا۔ جمعہ 30 اگست کو برسلز
میں صحافیوں سے بات کرتے ہوے موصوف گویا ہوئے 'اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے
دووزیر (وزیر خزانہ اور وزیراندرونی سلامتی) کھلے عام نفرت پھیلارہے ہیں۔ ان پر
پابندی عائد ہونی چایئے لیکن کیا کروں یورپی یونین اس پر یکسو نہیں'
اسرائیل کے روئے پر تشویش
کیساتھ اسلحے کی غیر مشروط فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق
سات اکتوبر کو غزہ پر حملے بعد سے اب تک امریکہ نے 500 مال بردار طیاروں اور 107 بحری جہازوں کے ذریعے 50 ہزار ٹن اسلحہ
اسرائیل پہنچایا۔سامان میں 2000پاونڈ کے بم، بکتر بند گاڑیاں، توپ کے گولے، دستی
بم، ذاتی بکتر، اندھیرے میں دیکھنے کے چشمے اور ڈائپرز شامل ہیں۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل
مغرب کی مکمل پشت پناہی اور
بلا خوفِ خمیازہ قتل عام کے باوجود غزہ میں اسرائیل کے لئے سب بہتر نہیں۔ اسرائیلی
آرمڈ کور کے سابق کمانڈر اسحٰق برک نے عبرانی اخبار معارف (مغرب) سے باتیں کرتے
ہوئے کہا کہ فوجیوں کا چیف آف آرمی اسٹاف ہرزی ہالوی پر سےاعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسحٰق
برک کے مطابق سپاہیوں نے انھیں بتایا کہ اسرائیلی فوج اپنے اعلامیوں میں مزاحمت
کاروں کی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے جبکہ درحقیقت اسرائیلی فوجی شاذ و
نادر ہی قریبی لڑائی میں ملوث ہوتے ہیں اور زیادہ تر جوان مزاحمت کاروں کے چھاپہ
مار حملوں اور راستے میں بچھائی بارودی سرنگوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔جنرل برک نے
اسرائیلی چیف آف اسٹاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی فوج
کو تقسیم اور سپاہیوں کا اعتماد کھو دیا ہے۔'جنرل برک نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر جلد جنگ بندی کا
معاہدہ نہ ہوا تو صورتحال بگڑ جائیگی اور ہمیں اس سے بھی زیادہ خطرے کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے'
اس معاملے پر وزیردفاع اور
وزیراعظم کی چپقلش بحث و تکرار تک آچکی ہے۔ عبرانی نیوز ایجنسی Ynetکے مطابق 29 اگست کو جنگی کابینہ کے
اجلاس میں مصر غزہ سرحد پر فلاڈلفی راہداری کے نقشے پر بحث ہوئی۔ نیتن یاہو نے فوج
کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے اپنا نقشہ پیش کیا۔وزیردفاع نے جنرل صاحب کے موقف کی
تائید کی جس پر وزیراعظم نے کہا کہ گر ہنگامی کابینہ نے انکی تجویز منظور نہ کی تو
وہ یہ معاملہ پوری کابینہ کے پاس لے جائینگے۔ اس پر وزیر دفاع غصے میں آگئے اور
میز پر مکہ مارتے ہوئے چیخ کر بولے 'نیتن یاہو آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) پر اپنے
نقشے مسلط کر رہے ہیں حالانکہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں مزید لچکدار ہونے کا
مشورہ دیا ہے۔ وزیر اعظم کو یقیناً تمام فیصلوں کا اختیار ہے اور اپنی انا کی
تسکین کیئے وہ تمام یرغمالیوں کو ہلاک کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں'
غزہ کے مزاحمت کار، اسرائیلی
فوج کی مکمل پسپائی سے پہلے قیدی رہا کرنے کو تیار نہیں جبکہ نیتھن یاہو کا اصرار
ہے کہ وہ غزہ مصر سرحد پر فلاڈلفی راہداری خالی نہیں کرینگے۔ جب کابینہ کے اجلاس
میں اسرائیلی وزیردفاع نے نیتھن یاہو سے پوچھا قیدی یا راہداری میں آپکی ترجیح کیا
ہے؟ تو سنگدل وزیراعظم نے صاف صاف کہا فلاڈلفی راہداری۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل
خونریزی اور نسل کشی سے بے
پرواہ صدر بائیڈن کو اسرائیل سعودی عرب سفارتی تعلقات کی فکر کھائے جارہی ہے۔بدھ
18 اگست کو اخباری نمائندوں سےباتیں کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان
کربی نے کہا'صدر بائیڈن کے خٰیال میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے
سفاتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں اور یہ 'مبارک کام' انکی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے
ممکن ہے'۔ صدر بائیڈن کی مدتِ صدارت اگلے برس 20 جنوری کو ختم ہورہی ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 ستمبر 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 6 ستمبر 2024
روزنامہ امت کراچی 6 ستمبر 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 ستمبر 2024
No comments:
Post a Comment