Thursday, September 19, 2024

تل ابیب پر Hypersonic میزائیل حملہ اسرائیلی وزیراعظم کی بددیانتی پر دستاویزی فلم عالمی فوجداری عدالت کو متاثر کرنے کی سازش طشت ازبام فوجی جرنیل کی جانب سے ناکامی کا اعتراف نیتھن یاہو قیدیوں کی ہلاکت چاہتے ہیں۔ مارے جانیوالے قیدی کا تاثر برباد غزہ میں اسکول آباد

 

تل ابیب پر Hypersonic میزائیل حملہ

اسرائیلی وزیراعظم کی بددیانتی پر دستاویزی فلم

عالمی فوجداری عدالت کو متاثر کرنے کی سازش طشت ازبام

فوجی جرنیل کی جانب سے ناکامی کا اعتراف

نیتھن یاہو قیدیوں کی ہلاکت چاہتے ہیں۔ مارے جانیوالے قیدی کا تاثر

برباد غزہ میں اسکول آباد

غزہ نسل کشی وزیراعظم نیتھن یاہو کیلئے اعصاب کی جنگ بن گئی ہے۔دو انتہاپسند وزیروں کے سوا انکی پوری کابینہ اور فوجی قیادت تسلیم چکی ہے کہ سارے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنادینے کے باوجود اسرائیل اپنا عسکری ہدف نہیں حاصل نہیں کرسکا اور مستقبل قریب میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ سارے ملک میں جنگ بندی کیلئے مظاہرے ہورہے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر کے گھیراو کے دوران مظاہرین جو بینر لئے کھڑے تھےان میں کچھ پر لکھا تھا ' ' فوجیو!! تمہارے پاس (جنگ سے) انکار کا راستہ موجو ہے'۔

اتوار 15 ستمبر کو یمن سے پھینکے جانیوالے منجنیقی (Ballistic) میزائیل نے اسرائیلیوں کو سراسیمہ کردیاہے۔ صبح چھ بجکر 21 منٹ پر جیسے ہی یہ میزائیل یمن سے روانہ ہوا امریکی ساختہ دفاعی نظام نے اسے پہنچان لیا اور اسکے 'استقبال' کیلے ایرو (Arrow) میزائیل شکن گولہ داغ دیا گیا۔ گیارہ منٹ بعد یمنی میزائیل کے اسرائیل کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی ایرو میزائیل نے اسکا راستہ روکا۔لیکن اسرائیل کا یہ تیر یمنی میزائیل کو فضا میں مکمل طور پر تحلیل نہ کرسکا اور اسکے دامن میں چھپے راکٹ بن گوریان ائرپورٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر گرے جس سے کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔ ایرو نظام کا ناکام ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔ ماہرین کے خیال میں اسکی دو وجہ ہوسکتی ہے۔ایک تو یہ کہ میزائیل کچھ ایسے حساس آلات سے لیس تھا جس نے ایرو کا راستہ کھوٹا کردیا اور وہ یمنی میزائیل کوجزوی نقصان پہنچاسکا یا یہ آواز سے پانچ گنا تیز Hypersonicمیزائیل تھا کہ اسرائیلی تیر کے پہنچنے سے پہلے ہی میزائیل کا سامنے والا حصہ آگے نکل چکا تھا جس نے زمین پر اپنے ہدف کا نشانہ بنایا لیکن کنٹرول سسٹم ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے راکٹ اپنے ممکنہ ہدف یعنی بن گوریان ایر اپورٹ تک نہ پہنچ سکے۔کچھ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ ایرانی ساختہ Hypersonicمیزائیل کی آزمائش تھی جسکے لئے اسرائیل کو بطور ہدف چناگیا۔

عسکری کمزوری کیساتھ، نیتھن یاہو کے ذاتی کردار پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ملک میں انکی خیانت کے قصے تو  مشہور تھے ہی، ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹول (TIFF24)میں The Bibi Filesکے نام سے ایک دستاویزی فلم بھی منظرِعام پر آگئی۔کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں 5 ستمبر سے شروع ہونے والا یہ فلم میلہ اس مہینے کی 15 تاریخ تک جاری رہا۔سواگھنٹے کے دوارنئے پر مشتمل یہ دستاویزی فلم امریکہ کی مشہور ہدائت کار و فلمساز محترمہ الیکسس بلوم (Alexix Bloom)کے زیرہدائت تیار ہوئی۔امریکی فلمساز الیکس گبنی (Alex Gibney) اوراسرائیلی صحافی رویوڈرکر (Raviv Drucker) فلمسازوں میں شامل ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کو انکی اہلیہ پیار سے بی بی کہتی ہیں اور یہ دستاویزی فلم بی بی, انکی بی بی اور صاحبزادے یار نیھن یاہو کی بے ایمانی، مالی خردبرد اور سرکاری خزانے میں لوٹ مار کے دلچسپ قصوں پر مشتمل ہے۔ جہاں اس میں اسلحے کی خریداری، تعمیراتی منصوبوں اوربھرتی کے بھتوں کی ہوشربا داستانوں کا ذکر ہے وہیں انکی سرکاری رہائش گاہ کے مالیاتی آڈٹ کے دوران چھوٹی موٹی چوریوں کی دلچست وارداتوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ جیسےخاتون اول سارہ نیتھن یاہو نے ایوان وزیراعظم کی مختص رقم سے اپنے ذاتی گھر کیلئے فرنیچر خریدا، ایک لاکھ ڈالرانکے ضعیف والد کے علاج پر خرچ ہوئے اور 6300 ڈالر محترمہ نے اپنے پرس میں ڈال لئے۔خوش خوراک سارہ ایوان وزیراعظم آنے والے مہمانوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر لکھواتی تھیں اور اسے بنیاد بناکر انھوں نے سرکاری مطبخ کیلئےدو تین اضافی باروچی بھرتی کروالئے جو دراصل خاتون اول کے پسندیدہ پکوان کے ماہر تھے۔ موصوفہ ونیلا اور پستے کی آئسکریم بہت شوق سے کھاتی ہیں۔سارہ نیتھن یاہو کی فرمائش پر سالانہ بجٹ میں وزیراعظم ہاوس کیلئے آئسکریم کی خریداری کی مد میں 2700ڈالر مختص کئے گئے تھےلیکن محترمہ مئی تک 2000 ڈالر کی ائسکریم چٹور گئیں جسکے بعد آئسکریم کیلئے ضمنی بجٹ منظور ہوا۔

نیتھن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات پر کئی پرچے کٹ  چکے ہیں لیکن وزیراعظم ہونے کے ناطے موصوف کو عدالت میں اصالتاً پیشی سے استثنیٰ حاصل ہے۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ غزہ خونریزی بند نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جنگ ختم ہوتے ہی نئے عام انتخابات ہونگے جس میں نیتھن یاہو اور انکے انتہا پسند اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی پر جیسے ہی استثنیٰ کی چھتری ہٹی، جوڑہِ اول کو کرپشن کے الزام میں جیل جانا ہوگا۔ یعنی جو کوئے یار سے نکلے توسوئے دار چلے

مالی باعنوانی پر مبنی دستاویزی فلم کیساتھ اسرائیلی میڈیا پر بھی انکے مکروفریب کا شرمناک انکشاف ہواہے۔ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ وزیر انصاف یاریف لیون (Yariv Levin)نے اٹارنی جنرل محترمہ غالی باہراومیارا (Gali Baharav-Miara) سےغزہ جنگ میں انسانی حقوق کی ممکنہ خلاف وزیوں اور اس میں وزیراعظم نیتھن یاہو و وزیردفاع سمیت دوسرے ملوث افراد کے خلاف مجرمانہ (criminal)تحقیقات کی درخواست کی۔ بادی النظر میں یہ بات بڑی خوش آئند لگی بلکہ مسلم دنیا کے اسرائیل نواز روشن خیالوں نے اسے خود احتسابی کی عظیم مثال بھی قراردینا شروع کردیا۔ لیکن اسکے دوسرے ہی دن اسرائیلی ٹیلی ویژن کے چینل 12 نے اسرائیلی جمہوریت کے پھولتے غبارے میں انکشاف کی سوئی چبھودی۔ چینل نے وزارت انصاف کے اعلیٰ حکام کے حوالے سے بتایا کہ اپنے خلاف تحقیق کی فرمائش وزیراعظم نے خود کی ہے جسکا مقصد عالمی فوجداری عدالت (ICC)میں چلنے والے مقدمے پر انداز ہونا ہے۔منصوبے کے مطابق چھان بین  شروع ہونے پر ICCکو درخواست دی جانی تھی کہ اسرائیلی عدلیہ نے معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہیں لہذا اسکے نتائج کے انتظار تک ICCکی کاروائی معطل کردی جائے۔وزیراعظم کی سیاست طشت از بام ہوجانے سے پہلے ہی اٹارنی جنرل صاحبہ نے وزیرانصاف کے نام یادداشت میں قانونی رائے دے دی تھی کہ اسرائیلی وزارت انصاف کی تحقیق سے ICCمطمئن نہیں ہوگی۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تحقیقات کا ڈول ڈال کر نیتھن یاہو ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتے تھے۔ یعنی ایک طرف تو ICCکی تحقیقات کو معطل کراکے نئے پینترے کیلئے مہلت حاصل کی جائے تو دوسری طرف  طوفانِ اقصیٰ کی تحقیق کیلئے جو اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ ہورہااسے یہ کہہ کر مسترد کردیا جائے کہ وزارت انصاف نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔وزیرانصاف کی درخواست پر اپنے جوابی مکتوب میں فاضل اٹارنی جنرل نے لکھا کہ  7 اکتوبر کا سانحہ حد درجہ سنگین اور وزارت انصاف کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔اٹارنی جنرل صاحبہ اسکے لئے ایک اعلیٰ سطحی ریاستی کمیشن بنانے کی تجویز پہلے ہی د چکی ہیں۔خبر سامنے آنے پر اسرائیلی حزب اختلاف نے نیتھن یاہو کی سستی سیاست گری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اپنے ذااتی مفاد کے تحفظ کیلئے اسرائیل کی ساکھ کو داو پر لگاریے ہیں۔

فتح مبیں کے بلندو بانگ دعوے کے ساتھ فوج میں بیچینی بھی بڑی واضح  ہے۔ جمعرات 12 ستمبر کو اسرائیلی انٹیلیجنس کور (Intelligence Corps) کے سربراہ بریگیڈیر جنرل یوسی ساریل (Yossi Sariel)نے استعفیٰ دیدیا۔ یونٹ 8200 کہلانے والی اس کور کے سربراہ نے اپنے افسران اور ماتحتوں کے نام خط میں کہا کہ 'میں اپنا مشن پوراکرنے میں ناکام رہا ہوں، لہذا اس  منصب پر برقرار نہیں رہنا چاہتا۔ خفت مٹانے کیلئے فوجی قیادت نے وضاحت کی کہ 7 اکتوبر کے حملے سے بے خبری کی بنا پر جنرل صاحب کی سبکدوشی کا فیصلہ پہلے کیا جاچکا تھا۔

قیدیوں کو بزور چھڑانے کی کوششوں میں ہلاک ہونے والے الیکس لوبانوو (Alex Lobanov)کے سمعی و بصری پیغام نے وزیراعظم کیلئے مزید شرمندگی کا سامان کردیا۔ الیکس ان پانچ قیدیوں میں شامل تھا جو اس زور زبردستی  میں ماراگیا۔ تیرہ ستمبر کو الیکس کی اہلیہ نے وہ پیغام اشاعتِ عام کیلئے جاری کردیا جو آنجہانی نےاپنی موت سے چند روز پہلے ریکارڈ کرایا تھا۔ویڈیو میں دوسالہ بچے کا یہ باپ سسکیاں بھرتے ہوئے کہہ رہا تھا ہے کہ 'وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو 7 اکتوبر کو ہماری حفاظت میں ناکام ریے اور اب لگتا ہے کہ وہ ہمیں  زندہ واپس لانے میں بھی ناکام رہینگے' اپنی حاملہ بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ 'شاید خاندان میں اس خوبصورت نئے اضافے کا دیدار میری قسمت میں نہیں'۔بہت ہی دوٹوک لہجے میں الیکس نے کہا 'حکومت چاہتی ہے کہ ہم یہیں مرجائیں تاکہ  انہیں امن معاہدہ نہ کرنا پڑے'

اس ویڈیو کے بعد وزیراعظم پر تنقید میں اضافہ ہوگیا توحالات کا رخ موڑنے کیلئے نیتھن یاہو نے قومی حکومت کی تجویز پیش کردی۔ نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز کے نام ایک خط میں انھوں نے کہا کہ ملک کو انتشار سے بچانے کیلئے قومی حکومت کی ضرورت ہے۔ انکی اس پیشکش کو بینٰی گینٹز اور قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے فوراًمسترد کریا۔ کنیسہ (پارلیمان) میں تقریر کرتے ہوئے بینی گینٹز نے  کہا کہ اتحاد و یکجہتی کیلئے قومی حکومت نہیں بلکہ منتخب حکومت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اور انکا انتہاپسند جتھہ حق حکمرانی کھوچکا ہے۔نااہل حکومت میزائیلوں کی بارش روک سکی نہ غزہ پر قابو انکے بس کی بات ہے۔ اب غرب اردن میں بھی شورش برپا ہے۔ بی بی (وزیراعظم) کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔

اسرائیلی حکومت کو ملک کے اندر  سخت پریشانی کا سامنا ہے لیکن صدر بائیڈن،   بربریت، نسل کشی اور قتل عام کی پشتیبانی کے لئے اب تک پرعزم ہیں۔گزشتہ ہفتے واشنگٹن نے ٹینکوں کی نقل و حمل کیلئے اسرائیل کو ایک کروڑ 65 لاکھ ڈالر مالیت کے ٹریلر فراہم کرنے کا اعلان کیاہے۔چند ہفتہ پہلے صدر بائیڈن نے اسرائیل کیلئے 20 ارب ڈالر کے F15 بمبار طیاروں کی منظوری دی تھی۔

جہاں اسرائیل کے اتحادی اسکی وحشت و خونریزی میں سہولت کاری کیلئے پرجوش ہیں وہیں دنیا بھر میں مستضعفین کی سیاسی و اخلاقی حمائت میں بھئ کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ جامعات، سیاسی اجتماعات، نمائش و میلہ ہر جگہ فلسطیینوں کی نصرت اور ظالموں کی مذمت کیلئے تحریکی عناصر موجود ہیں۔امریکہ میں صدارتی مباحثے کے دوران بھی ہال کے باہر زبردست مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران ایک تقابلی کتبہ لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنا رہا جس میں بتایا گیا تھا کہ نسل کشی، ماحول دشمنی اور تارکینِ وطن سے تضحیک آمیز برتاو کےحوالے سے ٹرمپ اور کملا بالکل ایک ہیں اور ان دونوں نے سیاست و ایوان حکومت کو بڑی کارپویشنوں کےپاس گروی رکھدیا ہے۔

آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر میلبورن میں 11 سے 13 ستمبر تک آسٹریلین آرمز کنونشن کے عنوان سے اسلحے کی نمائش ہوئی۔ اس موقع پر 'طلبہ برائے فلسطین' اور 'جنگ بند کرو محاذ' نے زبردست مظاہرہ کیا۔ گھڑ سوار پولیس نے لوگوں کو رگیدا، جواب میں مظاہرین نے پولیس پر ٹماٹر اورانڈے پھینکے۔متنانت اور باوقار صبر کے ساتھ پولیس تشدد کا سامنا  کرتے ہوئے طلبہ نے نمائش کے  آخری دن تک مظاہرہ جاری رہا۔

اخراج،اجرائے اسناد سے انکار اور گرفتاریوں کے باوجود موسم گرما کی تعطیلات کے بعد امریکی جامعات کھلتے ہی غزہ نسل کشے کے خلاف طلبہ کے مظاہرے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں۔ دلچسپ بات کہ ہارورڈ، ایم آئی ٹی، جامعہ پنسلوانیہ (Upen)،جامعہ جنوبی کیلی فورنیا جیسے انتہائی موقرادارے اس تحریک کا مرکز ہیں۔گذشتہ ہفتے طبی تحقیقات کے لئے مشہور جامعہ جان ہاپکنس میں زبردست مظاہرہ ہوا۔

دوسری طرف ایک لاکھ ٹن بارود برسادینے کے بعد بھی مزاحمت باقی ہے۔ بارہ ستمبر کو عسکری قیادت نے نوید سنائی کہ اہلِ غزہ کا ر فح بریگٰیڈ نیست و نابود کردیا گیا۔اس پر مبارک سلامت کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ دوسرے دن ر فح میں اسرائیلی ہیلی کاپٹر گرجانے سے اس پر سوار دو فوجی ہلاک اور سات شدید زخمی ہوگئے۔یہ حادثہ تھا یادشمن کی کاروائی؟عسکری ترجمان نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا لیکن ملبے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اسے میزائیل مار کر گرایا گیا ہے۔

مکمل تباہی کے باوجود غزہ میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے اسکولوں کو چن چن کر نشانہ بنایا لیکن ایک دن کیلئے بھی غزہ میں تعلیم کا سلسلہ بند یا معطل نہیں ہوا اور ملبے پر چادروں سے بنے 'اسکول' شاد و آباد ہیں۔ یعنی حسرت کی طرح آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں بھی 'مشق سخن' جاری ہے۔اسکے مقابلے میں شمالی اسرائیل کے چاروں اضلاع عکا، یزرعیل، كينيرت اور صفد کے علاوہ  مقبوضہ جولان کے اسکول گزشتہ سال اکتوبر سے بند پڑے ہیں۔

شوق و انہماک سے قلم و قرطاس کے اسلحے کو صیقل کرتے  فلسطینی بچے سفاک حملہ آوروں کو اپنے معصوم لیکن پرعزم لہجے میں پیغام دے رہے ہیں کہ 

اسے ہے سطوت شمشیر پر گھمنڈ بہت ۔۔ اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ    (احمد فراز)

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 ستمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 ستمبر 2024

روزنامہ امت کراچی 20 ستمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 ستمبر 2024


No comments:

Post a Comment