Saturday, September 28, 2024

امریکہ کے پارلیمانی انتخابات سینیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کی بالادستی خطرے میں

 

امریکہ کے پارلیمانی انتخابات

سینیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کی بالادستی خطرے میں

اس سال 5 نومبر کو جہاں امریکہ کے 47 ویں صدر کا انتخاب ہوگا وہیں کانگریس (پارلیمان) کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کی جملہ 435 اورایوان بالا (سینیٹ یا راجیہ سبھا) کی 34 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جائینگے۔اسی دن امریکہ کی 11 ریاستوں میں گورنر کیلئے بھی میدان سجے گا۔

کانگریس یا مقننہ امریکی نظم حکومت کی مثلث کا ایک اہم ستون ہے جسکو قانون سازی اور انتظامیہ و عدلیہ کے احتساب کیساتھ قومی خزانے پر مکمل دسترس حاصل ہے، بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ قومی بٹوے کی زپ کانگریس کے ہاتھ میں ہے۔ صدر کے صوابدیدی فنڈ پر بھی کانگریس کی نظر رہتی ہے۔ کابینہ کے وزرا، اٹارنی جنرل، سی آئی اے، ایف بی ائی سمیت ایجنسیوں کی قیادت، عدالت عظمٰی و وفاقی عدالت کے قاضی، فوجی سربراہان، سفیروں اور دوسری اہم تقرریاں سنیٹ کی توثیق سے مشروط ہیں۔

سیینیٹ کے اختیار کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج انٹون اسکالیہ 13 فروری 2016 کو انتقال کرگئے۔ ضابطےکے تحت سابق صدر بارک حسین اوباما نے اپیلیٹ کورٹ کے سربراہ میرک گارلینڈ (حالیہ اٹارنی جنرل)کو جسٹس اسکالیہ کا جانشیں نامزد کردیا۔ اسوقت سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل تھی۔ سینیٹ کے اکثریتی رہنما سینیٹر مچ مکانل نے اعتراض اٹھادیا کہ کہ گیارہ ماہ بعد صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہورہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جج کا تقرر تاعمر ہوتا ہے لہذا چند ماہ بعد سبکدوش ہونے والے صدر کو اتنی اہم تقرری کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ ریپبلکن کا یہ موقف اس اعتبار سے غیر منطقی تھا کہ ایک منتخب صدر کو اپنی مدت صدارت مکمل ہونے تک آئین کے اندر رہتے ہوئے تمام فیصلوں کاحق حاصل ہے۔ لیکن مچ مکانل اپنی بات پر اڑے رہے اور انھوں نے رائے شماری تو دورکی بات ابتدائی سماعت کیلئے سینیٹ کی مجلس قائمہ براے انصاف کا اجلاس ہی طلب نہیں کیا۔ حتیٰ کہ صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہوگئی اور صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی قدامت پسند جج نیل گورسچ کو اس منصب کیلئے نامزد کیا اور سینیٹ نے توثیق کردی۔

اِسوقت 435 رکنی ایوان نمائندگان میں 220 ریپبلکن نمائندوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد 212 ہے جبکہ 3 نشستیں خالی ہیں۔ گویا ٹرمپ صاحب کی ریپبلکن پارٹی کو برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی پر معمولی برتری حاصل ہے۔امریکہ میں ایوان نمائندگان کی مدت دوسال ہے۔ رائے عامہ ے جائزوں کے مطابق ایوان نمائندگان پر بالادستی کیلئے مقابلہ بہت سخت ہے اور کسی بھی جماعت کو پانچ نشستوں سے زیادہ کی برتری حاصل نہیں ہوگی۔ ایک دلچپ بات کہ حالیہ ایوان کو عوام نے کاکردگی کے اعتبار سے بدترین قرار دیا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صرف 13 فیصد امریکی اپنے نمائندوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے اور ہر ریاست کیلئے سینیٹ کی دونشستیں مختص ہیں یعنی یہاں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔براہ راست انتخاب کے ذریعے سینیٹر چھ سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ پالیسی  کا تسلسل برقرار رکھنے کی غرض سے انتخاب کا نظام اسطرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد سینیٹ کی ایک تہائی نشستیں خالی ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ پانچ نومبر کو سینیٹ کی 34 نشستوں پر انتخابات ہونگے۔ نومبر میں جن نشستوں پر  چناو  ہوگا، ان میں سے 20 ڈیموکریٹک   اور  10 نشستیں ریپبلکن ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی   ہیں ، جبکہ چار آزاد ارکان کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔ ان چار آزاد ارکان میں سے سینیٹر برنی سینڈرز اور سینیٹر انگس کنگ نے خود کو ڈیموکریٹک کاکس (گروپ) سے وابستہ کررکھا ہے۔

سینیٹ کیلئے جن ریاستوں میں سخت مقابلے کی توقع ہے وہ کچھ اسطرح ہیں

  • ایریزونا: اس نشست پر چھ برس پہلے ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ پر محترمہ کرسٹینا سنیما کامیاب ہوئی تھیں۔ گزشتہ برس پارٹی سے اختلاف کی بنیاد پر انھوں نے آزاد بنچوں پر بیٹھنا شروع کردیا اور اس سال انھوں نے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یہاں ڈیموکریٹک پارٹی کا پلہ بھاری ہے
  • مشیگن میں بھی مقابلہ سخت ہے۔ یہاں سے 2000 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی محترمہ ڈیبی اسٹبینو منتخب ہوئی تھیں جو اب ریٹائر ہورہی ہیں۔ ٰیہاں عرب و مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں
  • مونٹانا: یہ نشست 2006 سے ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہے لیکن اس بار سینیٹر ٹیسٹر کے ستارے گردش میں لگ رہے ہیں
  • اوہایو سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر شیر براون ک نشست خطرے میں ہے
  • پینسلوانیہ میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹرباب کیسی جونیر کو سخت مقابلہ درپیش ہے
  • ٹیکسس میں تیسری مدت کا انتخاب لڑنے والے ریپبلکن سییٹر ٹیڈ کروز سخت دباو میں ہیں، اگر ڈیموکریٹک سینیٹ کی اس نشست  پر کامیاب  ہو  گئی تو یہ 1994 کے بعد ٹیکسس سے انکی پہلی کامیابی ہوگئی۔
  • مغربی ورجنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کے جو مینشن سینیٹر منتخب ہوئے تھے جو اس سال پارٹی کے الگ ہوگئے، یہ نشست ریپبلکن کے پاس جاتی نظر آرہی ہے

جائزوں کے مطابق مستقبل کی  سینیٹ میں 47 ڈیموکریٹ کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 50 یقینی ہے جبکہ 3 پر سخت مقابلہ ہے۔گویا اگر کملا ہیرس صدر منتخب ہوگئیں تو انھیں قانون سازی اور تقرریوں میں شدید مشلات کا سامنا ہوگا جبکہ ڈانلڈ ٹرمپ کو اپنی کامیابی کی صورت میں مقننہ اور عدلیہ کی مکمل حمائت حاصل ہوگی

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 ستمبر


2024

No comments:

Post a Comment