Friday, June 28, 2024

سرائیلی وزیرعظم کی جھنجھلاہٹ غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے،جسے فنا کرنا ممکن نہیں۔ فوجی ترجمان کا اعتراف لبنان اسرائیل جنگ کا خطرہ؟؟؟

 

 اسرائیلی وزیرعظم کی جھنجھلاہٹ

غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے،جسے فنا کرنا ممکن نہیں۔ فوجی ترجمان کا اعتراف

لبنان اسرائیل جنگ کا خطرہ؟؟؟

غزہ میں عسکری ہدف کے حصول میں ناکامی پر اسرائیلی وزیراعظم اضطراب کا شکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک نشری تقریر میں جناب نیتن یاہو نے شکوہ کیا کہ امریکہ نے اسلحے کی فراہمی روکدی ہے جسکی وجہ سے اسرائیلی فوج دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرپارہی۔ اسلحہ ملے تو ہم اپنا ہنر دکھائیں۔ Give us the tools and we'll finish the job۔ تل ابیب میں انکی تقریر جاری ہی تھی کہ واشنگٹن میں صحافیوں کو طلب کرکے امریکی حکومت کی ترجمان محترمہ کرین جین پئیر(Karine Jean-Pierre) بولیں 'بی بی کی بات درست نہیں۔ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی جاری ہے، بس 2000 پونڈ کے بموں کی فراہمی معطل کی گئی ہے اور وہ بھی ر فح پر حملے کے بعد'۔ امریکی ترجمان کے مدافعانہ لہجے اور انداز سے صاف لگ رہاتھا کہ صدر بائیڈن خوف میں مبتلا ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں اسرائیلی ترغیب کار (Lobbyists) انکے خلاف مہم نہ شروع کردیں اسی لئے صفائیاں پیش کی جارہی ہیں۔

پئے درپئے ناکامیوں نے وزیراعظم کے ساتھ اسرائیل کے خاندانِ اول میں جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔ فرزندِ اول یار نیتن یاہو نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں اب تک کی ناکامی کا الزام ہنگامی کابینہ سے علیحدہ ہونے والے نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز، فوج، خفیہ ایجنسی اور عسکری محکمہ سراغرسانی کے سربراہ پر دھر دیا۔ صاحبزادے کے خیال میں بینی گینٹز 'خیالی و تصوراتی بادشاہ' ہیں۔ پوسٹ میں فوج کے سربراہ جنرل حلوی، خفیہ ایجنسی Shin Betالمعروف شاباک کے ڈائریکٹر جنرل رونن بار اور عسکری محکمہ سراغرسانی کے قائد ہارون خلیفہ کو 'مہلک ناکامیوں' کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پوچھا گیا ہے کہ ان مسخروں کا تقرر کس نے کیا؟؟ ان تینوں کی تعیناتی سابق وزرائے اعظم نیفتالی بینیٹاور یار لیپیڈ کے دور میں ہوئی تھی جب بینی گینٹز وزیردفاع تھے۔

فراہمیِ اسلحے پر پابندی کے رونے دھونے کیساتھ اسرائیلی حکومت اپنی جارحیت کادائرہ لبنان تک بڑھا کر اسے ایک علاقائی جنگ میں تبدیل کردینے کی خواہشمند یے۔منگل 18 جون کو شمالی کمان کے سربراہ میجر جنرل اوری گورڈِن (Ori Gordin)کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں دوسرے جرنیلوں کے علاوہ آپریشنل ڈائریکٹوریٹ کے قائد عدد بسیوک (Oded Basiuk)نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جو فوجی اعلامیہ جاری ہوا اسکے مطابق 'اجلاس میں لبنان پر حملے کے لئے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دی گئی اور چوٹی کے کمانڈروں نے زمین پر فورسز کی تیاری کو تیز کرنے کے بارے میں بھی فیصلے کیے'۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل۔

جب واشنگٹن میں صحافیوں نے اس خبر پر تبصرہ کرنے کیلئے امریکی فوج کے ترجمان جنرل پیٹرک رائیڈر سےرابطہ کہ کیا تو جنرل صاحب نے فرمایا 'مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اور اسی کیساتھ صدر بائیڈن نے اپنے معتمد خاص  ایمس ہکسٹین (Amos Hochstein) کو علاقے کے دورے پر بھیج دیا۔ اکیاون سالہ ایمس، توانائی کی دنیا میں ترغیب کاری سے وابستہ رہے ہیں جسکی وجہ سے خلیجی ممالک میں بہت اوپر کی سطح تک انکی رسائی ہے۔راسخ العقیدہ یہودی، ایمس کے  اسرائیلی قیادت سے بھی گہرے  مراسم ہیں۔ اجکل جناب ہکسٹین توانائی اور سرمایہ کاری کیلئے صدر بائیڈن کے مشیر ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے دھمکی کا لبنان کے مزاحمت کاروں نےاسی انداز میں جواب دیا۔ بیروت سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنانی جنگ کو طول نہیں دیا چاہتے لیکن ہم نے چوڑیاں بھی نہیں پہن رکھیں۔ حملے کی صورت میں زمین، فضا اور سمندر ہرجانب سے اسرائیل کو نشانہ بنایا جائیگا اور تل ابیب کی طرح ہم بھی کسی قانون و ضابطے کی پابندی نہیں کرینگے۔ مزاحمت کاروں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ حملے کی دھمکی دیکر اسرائیل ہمیں ڈرا رہا ہے حالانکہ ڈرنا انھیں چاہئے کہ ہماری جوابی کاروائی انھیں ریزہ ریزہ کرسکتی پے۔ اس خبر پر کہ اسرائیلی فضائیہ حملے کیلئے یونانی قبرض کے ہوائی اڈے پر جنگی طیارے تعینات کررہی ہے، مزاحمت کاروں نے متنبہ کیا کہ قبرص زیادہ شوخیاں نہ دکھلائے، کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے ہوسکتے ہیں، اسرائیل سے گٹھ جوڑ انھیں بہت مہنگا پڑیگا۔

لبنانی مزاحمت کاروں کی دھمکی پر یونانی قبرص کے صدر Nikos Christodoulides نے فوراً ایک بیان جاری کیا کہ (یونانی) قبرص کسی علاقائی تنازعے میں فریق نہیں۔ کشیدگی کے پرامن حل کا حصہ بننا ہماری ترجیح ہے لیکن جھگڑے میں فریق بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

امریکی نمائندے اموس ہکسٹین سے تفصیلی ملاقات کے بعد بھی تل ابیب سے جواشارے مل رہے ہیں اسکی مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے لبنان پر حملے کی منظوری دیدی ہے۔اسے ستم ظریفی کہئے یا بے شرم سفارتکاری کہ میڈیا پر اسرائیل کو لبنان سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے  اور دوسری طرف  واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون نے اسرائیل کے وزیرتزویراتی امور ران ڈڑمر اور مشیر سلامتی زکی حنیگبی کو جنگ کی صورت امریکہ کی جانب سے مکمل حمائت کا یقین دلایا۔حوالہ CNN

اسرائیلی فوج کا بڑا حصہ گزشتہ آٹھ ماہ سے غزہ میں برسرِ پیکار ہے جہاں فوج کا جانی و مالی نقصان بڑھتا جارہا ہے۔ پرکشش تنخواہوں اور مراعات کے باوجود نوجوان بھرتی سے ہچکچا رہے ہیں۔ اسی بنا پر کنیسہ میں ایک مسودہ قانون (بل) پیش کیا گیا ہے جسکے تحت ریزرو(reserve)دستوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ایک سال بڑھادی جائیگی۔اس تناظر میں ایک نیا محاذ کھول دینا تھکن کا شکار اسرائیلی فوج کیلئے اتنا آسان نہیں۔ 

امریکی وزارت دفاع نے بھی اسرائیل کو لبنان کے خلاف کھلی جنگ شروع نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ واشنگٹن کے عسکری ماپرین کا خیال ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے پاس ہزاروں راکٹ، میزائیل اور ڈرون ہیں۔ اگر بیک وقت سینکڑوں راکٹ داغ دئے گئے تو سب کو فضا میں ناکارہ بنادینا آئرن ڈوم دفاعی نظام کیلئے ممکن نہ ہوگا اور غچہ دے جانیوالے راکٹ و ڈرون بڑی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے لبنان کے جاسوسی ڈرون نے  حیفہ میں اسرائیل کے حساس ترین فوجی اڈے کی کامیابی سے فلمبندی کی۔ جاری ہونے والے نو منٹ کے اس بصری تراشے میں اڈے کے اہم مقامات کی نشاندپی کی گئی ہے۔اسرائیلی فوج نے اس ویڈیو کو خودساختہ یا جعلی نہیں کہا لیکن وضاحت کی کہ ہمارے ترکش میں اور بھی بہت سارے تیر ہیں جو ویڈیو میں نظر نہیں آئے۔اگراسرائیل کے دعوے کو درست مان لیا جائے تب بھی اتنا تو ثابت ہوگیا کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے ہوپو (Hoopoe)ڈرون امریکہ کے مشہور زمانہ آئرن ڈوم دفاعی نظام سے مخفی رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

غزہ کی حمائت میں لبنان کیساتھ یمن کے ایران نواز حوثی بھی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے لائیبیریا کے پرچم بردار یونانی جہاز Tutorکو حوثیوں نے بحیرہ احمر میں غرق کردیا۔ جہازوں کی آمدورفت پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارےUKMTOنے  اسکی تصدیق کرتے ہوئے بتایامیزائیل اور ڈرون کا نشانہ بننے والا جہاز اٹھارہ جون کو ڈوب گیا۔اس حملے میں عملے کا ایک فلپائنی کارکن بھی ہلاک ہوا۔ مال بردار جہاز پر مبینہ طور پر اسرائیل کا سامان تجارت لدا تھا۔مارچ میں اسرائیل کیلئے کھاد سے لدا Belizeکا پرچم بردار برطانوی جہاز Rubynarبھی اسی مقام پر غرق ہوچکا ہے۔

اسلحہ برآمدات کے باب میں اسرائیلی میڈیا نے گزشتہ ہفتے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا جسکے مطابق متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے 2022 میں اسرائیل سے مجموعی طور پر تین ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا جو تل ابیب سے اسلحے کی کُل برآمد کا 24 فیصد تھا۔ خریدے جانیوالے سامان میں ڈرون، ٹینک شکن میزائیل اور جاسوسی کے آلات شامل ہیں۔ گزشتہ سال کے اختتام پر غزہ خونریزی کی وجہ سے  2023 میں ان ملکوں کی خریداری کم ہوکر 3کروڑ نوے لاکھ ڈالر رہ گئی۔

غزہ کے زمینی حقائق پر فوج اور حکومت کا تجزیہ بالکل مختلف ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو بار بار اپنے اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ پٹی سے مستضعفین کے مکمل خاتمے کے بعد ہی جنگ بند ہوگی اور انکا خیال ہے کہ اس سال کے آخر تک یہ ہدف حاصل ہوجائیگا۔ گزشتہ ہفتے وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ ر فح سے مزاحمت کاروں کی نصف تعداد موت کے گھاٹ اترچکی اور سرنگوں میں قائم اسلحہ سازی کے کارخانے اور گودام تباہ کردئے گئے۔ لیکن یوم عرفہ کو تابڑ تؤر حملوں میں مزاحمت کاروں نے 11 فوجیوں کو ہلاک اور درجنوں کو شدید زخمی کرکے اس دعوے کی قلعی کھولدی۔

اس حوالے سے  اسرائیلی فوج کے ترجمان رئر ایڈمرل ڈینیل ہیگاری (Daniel Hagari) کے انٹرویو نے اسرائیل میں سنسنی پیدا کردی ہے ۔ عبرانی ٹی وی چینل 13 پر 20 جون کو گفتگو کرتے ہوئے  شریک امیرالبحر نے کہا کہ 'غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جو سمجھتے ہیں کہ مزاحمت جلد ختم کر دی جائیگی وہ قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔ (نظرئے کی بیخ کنی کیلئے) اگر حکومت نے متبادل حکمت عملی وضع نہ کی تو (مزاحمت) باقی رہیگی'۔ اسکی وضاحت کرتے ہوئے فوجی قیادت نے کہا کہ میڈیا پر جناب ہیگاری کے انٹرویو کا تجزیہ  سیاق و سباق سے ہٹ کر کیا جارہا ہے۔ انکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عسکری کاروائی کے ساتھ مقامی لوگوں کے تعاون سے ذہنی تطہیر کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی تجزیہ نگار نے اس وضاحت کو سنجیدہ نہیں لیا۔ یہ بات امریکہ کے عسکری ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ مستضفعفین روائتی پیشہ ور فوج نہیں بلکہ نظریاتی جماعت ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے مزاحمت کی عوام میں پزیرائی اور افرادی قوت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل میں نیتن یاہو کے استعفے اور نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ نیتھن یاہو کے استعفے کیلئے 16 سے 22 جون تک ہفتہ تعطل (Disturbance Week)منایا گیا۔ درجنوں انعام پانے والے 70 سالہ دانشور اور عبرانی زبان کے محقق و مصنف ڈیوڈ گراسمین نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے میں اسحاق رابن المعروف کریا (Kirya) فوجی اڈے کے باہر امن ریلی سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ  ہمیں ایک بڑی لڑائی کا سامنا ہے اور یہ جنگ اسرائیل کے گلی کوچوں میں ہوگی۔ ایک شخص ہمارے جگر گوشوں کی لاشوں پر اپنے اقتدار کا محل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دینگے۔ ہمارے بچے فوجی وردی پہن کر اور اسلحہ سجا کر سرحد پر نہیں جائینگے ہم انھیں قرطاس و قلم دیکر اسکول اور مدارس بھیجیں گے تاکہ یہ انسانیت کو قتل کرنے کے بجائے انکی راحت کا سامان بنیں۔

گھیراو کے دوران مشتعل مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے گملوں کو آگ لگادی۔ بجلی کے پول گرادئے اور گیٹ پر لگے بلب آور ارائیشی قمقمے تؤر دئے گیے۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے Water Cannonسے چھوڑی جانیوالی پانی کی دھار سے متعدد افراد کی آنکھوں میں شدید زخم آئے اور ایسے بہت سے مریض اب تک ہسپتال میں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے آتھ ہزار ڈاکٹروں نے اسرائیلی پولیس کمشنر کو خط لکھا کہ پانی کی دھار مجمع متشر کرنے کا صحت مندانہ طریقہ نہیں، اس سے آنکھیں ضایع ہوسکتی ہیں۔ پولیس گردی کا دفاع کرتے ہوئے برسراقتدار لیکڈ پارٹی کے رہنما نسیم وٹوری (Nessim Vaturi)نے  حکومت کی مخالفت اور امن معاہدے کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کو دہشت گردوں کی بی ٹیم قراردیا۔

صدر بائیڈن کی جانب سے  اسرائیل کی غیر مشروط حمائت سے انکی انتظامیہ میں بیچینی بھی بڑھتی جارہی ہے اور وزارت خارجہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری(نائب وزیرخارجہ) برائے اسرائیل و فلسطینی امور اینڈریو ملر نے استعفیٰ دیدیا۔ ملز صاحب نے استعفیٰ تو بظاہر خانگی مصروفیتوں کی بنا پر دیا ہے لیکن انکے قریبی حلقوں کا کہنا کہ وہ اسرائیل کی غیر مشروط پشت پناہی اور غزہ نسل کشی پر بائیڈن انتطامیہ کی بے حسی سے بہت پریشان تھے۔ واشنگٹن پوسٹ نے وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ جناب ملز اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں لیکن غزہ میں نیتن یاہو حکومت کے اقدامات کو وہ بنیادی انسانی اقدار اور اخلاقیات سے متصادم سمجھتے ہیں۔

عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کی حمائت بڑھتی جارہی ہے۔ چار جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اپنے منشور میں ایک آزاد و خودمختار ریاست کے قیام کو فلسطینیوں کا ناقابل تنسیخ حق تسلیم کیا ہے۔ منشور میں فلسطینی ریاست کو اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کے لیے 'ضروری' قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم ایک فلسطینی ریاست کو علاقے میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے ضروری سمجھتے یعنی محفوظ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد و خودمختار فلسطین۔ جمعہ 21 جون کو مغربی ایشیا کے ملک آرمینیا نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا۔ وزارت خارجہ کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا پائیدارامن دوریاستی حل سے وابستہ ہے۔

ذکر جب چھڑگیا قیامت کا ۔۔ بات پہنچی تری جوانی تک کہ امریکی طلبہ تحریک کا ذکر کئے بغیر اہل غزہ کا تذکرہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ بیس جون کو نیویارک کی جامعہ کولمبیا سے گرفتار ہونے والے 46 طلبہ، اساتدہ اور غیر تدریسی عملے کے ارکان کو عدالت نے پیش کیاگیا۔ یہ افراد 30 اپریل سے زیرِ حراست تھے۔ جج Kevin McGrathنے 30 افراد کے خلاف مقدمات کو ابتدائی سماعت کے بعد فوری طور پر خارج کردیا۔ایک لڑکے کے خلاف مقدمہ سرکاری وکیل نے واپس لے لیا۔جن باقی 15 لوگوں پر تشدد اور توڑ پھڑ کے الزامات تھے انھیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ مستقنل میں نیک چال چلن کا وعدہ کریں یعنی مزید مظاہرہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت دیدیں تو ان کے خلاف مقدمات واپس لے لئے جائینگے.

طلبہ نے جج کے سامنے باآواز بلند معافی مانگنے سے انکار کردیا۔ اپنے مشترکہ تحریری بیان میں ان نوجوانوں نے کہا کہ ہم فلسطین کی آزادی اور اہل غزہ کے حقوق کی حمائت سے کسی قیمت دست بردار نہیں ہونگے اور اپنے اس عزم و عہد کی بھاری سے بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 28 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 جون 2024

روزنامہ امت 28 جون 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 جون 2024


Thursday, June 20, 2024

اسرائیل، امریکہ اور خلیجی جرنیلوں کے 'مشاورت' دوتہائی فلسطینی فتح کیلئے پرامید اسرائیلیوں کو نقل مکانی کے بحران کا سامنا

 

اسرائیل، امریکہ اور خلیجی جرنیلوں کے 'مشاورت'

دوتہائی فلسطینی فتح کیلئے پرامید

اسرائیلیوں کو نقل مکانی کے بحران کا سامنا

اہلِ غزہ نے رمضان اور عیدالفطر کے بعد عیدِ قرباں بھی آتش و اہن کی موسلا دھار بارش میں منائی۔ اب سے ایک ماہ بعد سانحہ کربلا کی یاد منائی جائیگی جب محبوبِ خدا (ص) کے محبوب نظر نے خلیل اللہ ؑ کے لختِ جگر ؑکاعزمِ پورا کردکھایا۔ نہائت اسکی حسین (ر) ابتدا ہے اسماعیل ؑ۔ غزہ اور غرب اردن میں جہاں ذبیح اللہ ؑ کی سپردگی اور امامِ عالی مقام (ر) کے پرعزم صبرکے اتباع کا شاندار مظاہرہ نظر آرہا ہے وہیں قید وبند کی صعبوبتوں کاخندہ پیشانی سے سامنا کرکے بچیوں، باعفت خواتین اور کم سن نوجوانوں سمیت ہزاروں فلسطینی فرزندِ اسرائیل ؑ کی سنت بھی تازہ کررپے ہں۔کیا عجب کہ جیسے جرم پاکدامنی میں بند یوسف ؑ کو ان  کے رب نے زنداں سے نکال کر تختِ شاہاں عطا کردیا، ایسی ہی مہربانی ان نہتوں پر بھی ہوجائے کہ ہمارارب ہر چیز پر قادر ہے۔

نوٹ: حضرت یوسف ؑ کے والد، حضرت یعقوبؑ کی کنیت اسرائیل تھی اسی لئے انکی قوم بنی اسرائیل کہلائی

ڈھائی سو دن سے  جاری بربریت کی اس مشق نے ہزاروں معصوم شہریوں کیساتھ 15694بچوں کو پیوند خاک کردیا اور 17 ہزار بچے یتیم و بے سہارا ہوگئے۔ زخموں  سے کراہتے اور چیختے نونہالوں کی تعداد کا تخمینہ بھی مشکل ہے کہ اسپتال ریت کا ڈھیر ہیں اور  سڑکوں کے کنارے یہ پھول تڑپ رہے ہیں۔ غزہ کیساتھ غرب اردن میں بھی وحشیانہ کارواائیاں جاری ہیں۔جنین، نابلوس ، اریحا، تلکرم، رام اللہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی فوج کے دھاووں میں 7 اکتوبر سے مئی کے اختتام تک 26 کم سن بچوں سمیت 504 افراد جاں بحق اور 5400 سے زیادہ زخمی ہیں۔ گرفتار ہونیوالوں کی تعداد  9170 ہے۔ حملوں کے دوران ڈرون کے ذریعے میزائیل داغنے کے علاوہ کئی بار بمبار طیارے بھی استعمال ہوئے۔انسانی جانوں کیساتھ معاشی قتل عام اسرائیلی فوج کا ہدف نظر آرہا ہے۔ جنینن اور تلکرم میں کارخانوں کو چن چن کر تباہ کردیا گیا۔ غرب اردن ایک زرخیز علاقہ ہے کہ خود اللہ نے اسے برکت والی سرزمین کہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے یہاں زینون، سنگترے، سیب اور انگوروں کےباغات کو پامال کردیا۔عیدالاضحیٰ پر قربانی کیلئے بھیڑ اور دنبے بھی سارے اسرائیل اور اردن کے کچھ علاقوں کو یہیں سے فراہم کئے جاتے ہیں لیکن حملوں کے بعد واپس ہوتی اسرائیلی سپاہ  دنبوں کے گلے ہنکا کر اپنے ساتھ لے گئی۔ زراعت اجڑ جانے کی وجہ سے مویشیوں کیلئے چارہ بھی میسر نہیں یعنی ٖحیات کیساتھ اسباب حیات بھی ختم کئے جارہے ہیں۔

بائیڈن امن معاہدے کیلئے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینلن کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہیں۔ موصوف ناشتہ قاہرہ میں کرتے ہیں تو چائے کیلئے عمان تشریف لے آتے ہں۔ تل ابیب میں کوشر ظہرانہ تناول فرماے کے بعد قیلولہ ریاض میں ہوتا ہے۔ایک ہفتہ پہلے انھیں نے خوشخبری سنائی کہ اسرائیل نے بائیڈن کا تین مرحلوں پر مشتمل امن منصوبہ منظور کرلیا ہے۔امن معاہدے پر اسرائیلی آمادگی کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیل کے عبرانی چینل 12 نے بتایا کہ نیتھن یاہو حکومت نے بائیڈن امن منصوبے پر جو چار صفحاتی جواب بھیجا ہے اس میں قیدیوں کی رہائی سے پہلے ہی مستقل جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ اسرائیل کے جواب میں غزہ سے مزاحمت کاروں کے اقتدار کے خاتمے پر بھی اصرار نہیں کیا گیا۔ موقف سے باعزت پسپائی کیلئے Permanent Cease Fire کےبجائے عسکری کشیدگی کا مستقل خاتمہ یا cessation of military hostilities permanentlyکے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

اسی دوران  قاہرہ اور قطر سے اعلان ہوا کہ مجوزہ معاہدہ مستضعفین کو بھی  قبول ے لیکن اہل غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی فوج کی واپسی کیلئے امریکہ اور اقوام متحدہ کی ضمانت چاہتے ہیں۔جناب بلینکن نے وضاحت کی اس درخواست کو ترمیم قراردیتے ہوئے اسے ناقابل عمل قراردیدیا۔اس پر تبصرے کرتے ہوئے مزاحمت کاروں کے ترجمان نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ غیرجانبدار ہیں اور نہ قابل اعتماد، انکا دوغلا رویہ قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

امن کی بات چیت کیساتھ کچھ پراسرار بلکہ مشکوک سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی AXIOSنے انکشاف کیا کہ 10 جون کو اسرائیلی فوج کے سربرہ جنرل ہرزی حلوی (Herzi Halevi)نے بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور مصر کے فوجی سربراہان سے ملاقات کی۔یہ اجلاس مناما، بحرین میں ہوا اور امریکی مرکزی کمان (Central Command)کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا (Michael Kurilla) اس نشست کے میزبان تھے۔ صحافتی و عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ  گفتگو کے دوران لبنان سےاسرائیل پر حملوں کے تناظر میں ایران کی گوشمالی اور علاقے میں تہران کے سفارتی و عسکری اثرات کو لگام دینے کی مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ اسی کیساتھ اسرائیل کے فوجی انخلا  کے بعد مستقبل میں غزہ کی صورت گری پر بھی بحث کی گئی۔امریکی مرکزی کمان اور اسرائیلی فوج کے ترجمانوں نے اس خبر پر تبصرے سے انکار کردیا لیکن تردید بھی نہیں کی۔

جنگ بندی پر نیتھن یاہو کی آمادگی زمینی حقائق کے ادراک و اعتراف کا مظہر ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی فوج کے محکمہ سراغرسانی نے اپنی حکومت کو قیدیوں کی بازیابی کیلئے طاقت کے استعمال کی مزید کوئی کوشش نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ فوجی ذرایع کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی نگرانی پر مامور مزاحمت کاروں کو مبینہ طور پر ہدائت جاری کردی گئی ہے کہ آئندہ وہ 'قیدخانوں' کی طرف اسرائیلی چھاپہ ماروں کی حرکت کا مشاہدہ کرتے ہی قیدیوں کو ہلاک کردیں۔ اسرائیلی خفیہ ذرایع کے مطابق یہ 120 قیدی تین سے پانچ کی ٹولیوں میں پٹی کے مختلف  گھروں  پر رکھے گئے ہیں لہٰذا ان سب کو بیک وقت بازیاب کرانا ممکن نہیں۔ اس خبر نے اسرائیلی میں سنسنی پھیلادی۔

قیدیوں کے لواحقین، بازیابی کی کوششوں سے مستضعفین کو مشتعل کرنے کے بجائے امن معاہدے  پر زور دے رہے ہں۔اسی بناپر غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کا مطالبہ خود اسرائیل میں زور پکڑ گیا ہے۔ لوگوں کو ڈرہے کہ کہیں غلط اطلاع اور افواہ پر ہی انکے پیارے مارنہ دئےجائیں۔ قیدیوں کے رہائی اور امن معاہدے کیلئے جارحیت کے 250 دن مکمل ہونے پر اسرائیلی طلبہ،  اپنی قومی انجمن کی اپیل پر 250 منٹ کلاسوں سے باہر رہے۔امریکہ کے NBCٹیلی ویژن نے انکشاف کیا ہے کہ اسی خدشے کے پیش نظر امریکہ بہادر نے اسرائیل سے بالا بالا ان پانچ امریکی شہریوں کی رہائی کیلئے مستضعفین سے براہ راست مذاکرات شروع کردئے ہیں جنھیں سات اکتوبر کو پکڑا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPپر جاری ہونے والے ضعیف خاتوں تامی میٹسگر (Tami Metsger)کے انٹرویو نے اسرائیلیوں کو رلادیا۔اس خاتون کے 79 سالہ شوہر جورام میٹسگر (Yoram Metsger)کا غزہ میں دوران حراست انتقال ہوگیا۔ تامی نے اپنے شوہر کی تصوہر گود میں رکھ کر زاروقطار روتے ہوئے کہا کہ کہ ا'گر بی بی ٰ(وزیراعظم نیتھن یاہو) کی سنگدل حکومت جنگ بند کردیتی تو میرا شوہر آج زندہ ہوتا۔ بی بی کے سینے میں دل ہے نہ اسکو انسانی جانوں کی پرواہ ۔اس بے حس حکومت نے میرا سہاگ لوٹ لیا'

اسی ہفتے عرب دنیا کے موقر مرکزدانش Palestinian Center for Policy and Survey Research(PSR) نے فلسطینی رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے۔ یہ سروے، غربِ اردن، مشرقی بیت المقدس اور بے گھر اہل غزہ کی آرا پر مشتمل ہے، یعنی اس میں شمالی غزہ کے وہ علاقے شامل نہیں جو نسبتاً کم متاثر ہیں۔ جائزے کے مطابق،

غزہ کے 60 فیصد خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد اسرائیلی وحشت کی نذر ہوگیا  لیکن دوتہائی اہل غزہ کے خیال میں 7 اکتوبر کی کاروائی درست تھی اور 80 فیصٖد سمجھتے ہیں کہ اسکی وجہ سے مسئلہ فلسطین عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔ دوتہائی فلسطینی مستضعفین کی فتح کے بارے میں اب بھی پرامید ہیں، تاہم غزہ کے رہائشیوں میں یہ تناسب 50 فیصد ہے جبکہ 25 فیصد لوکوں کا خیال ہے کہ اسرائیل جنگ جیت رہا ہے۔ فلسطینیوں کی اکثریت محمود عباس پر اعتماد نہیں کرتی اور 60 فیصد لوگ مقتدرہ فلسطین (PA)کی تحلیل چاہتے ہیں۔ اہل غزہ کی اکثریت دوریاستی حل کی حامی نہیں۔

ایک طرف بدترین مشکلات، جان و مال کے زیاں اور مکانات و زرعی زمینوں کی بربادی کے باوجود فلسطینی اپنی فتح  کے بارے میں پرامید ہیں تو دوسری جانب  اسرائیلیوں میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔ جنگی کابینہ سے حزب اختلاف کی علیحدگی کے بعد امن کے خواہشمند اسرائیلی خود کو انتہا پسند حکومت کے رحم و کرم پر محسوس کر رہے ہیں۔

غزہ سے ملحق علاقوں میں رہنے والوں کو گھر چھوڑے  اٹھ ماہ سے زیادہ ہوچکے  ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد غزہ کے شمال میں اشدود اور اثقلان سےہزاروں لوگ وسط اسرائیل منتقل ہوئے۔ کچھ عرصہ حکومت نے ان لوگوں کو ہوٹلوں میں رکھا لیکن سرکاری میزبانی ختم ہونے کے بعد بہت سے خاندانوں نے اب میدانوں اور پارکوں میں خیمے گاڑ دئے ہیں۔ لبنان سے میزائیل اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں الجلیل اور الناصرہ کا علاقہ بھی مخدوش ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزارت تعلیم کے ترجمان نے بتایا کہ اگر غزہ جنگ اور لبنان سے حملے ختم نہ ہوئے تو الخلیل، الناصرہ، اثقلان اور اشدود کے اسکول،  اگست میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر نہیں کھلیں گے۔اس اعلان کے بعد ان علاقوں سے نقل مکانی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی بہت سے اسرائیلی بے گھر ہوکر اقوام متحدہ کی اصطلاح میں Internally Displaced People (IDPs) کی حیثیت اختیار کرچکے ہے۔

ادھر امریکی جامعات اور شہروں میں غزہ کیلئے مظاہرہ کرنےوالوں کیخلاف انتقامی کاروائیاں عروج پر پیں۔ شکاگو کی نجی جامعہ ڈی پال (DePaul University)میں حیاتیات (Biology)کی ایک پروفیسر کو برطرف کردیا گیا۔ پروفیسر این  ڈی اکینو (Ann d' Aquino)نے اپنی کلاس کے طلبہ کو مضامین لکھنے کیلئے جو موضوعات دئے ان میں Gaza Genocide بھی شامل تھا۔یہ جامعہ 1898میں قائم ہوئی اور حیاتیاتی علوم میں جستجو و تحقیق کا ایک موقر ادارہ سمجھی جاتی ہے۔ اپنی مقبول پروفیسر کی برطرفی پر طلبہ نےزبردست احتجاج کیا۔ پروفیسر صاحبہ نے اپنے شاگردوں کو پرامن رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کےساتھ اب جامعات میں علمی مباحثوں کی روائت بھی ختم کی جاری ہے۔ ڈاکٹر اکینونے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے اقدامات سے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں تحقیقی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

گرمی کی تعطیلات کی وجہ سے صرف summer semesterکے طلبہ کلاسوں میں آرہے ہیں چنانچہ جامعات میں سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں لیکن رہائشی علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں۔ گزشتہ ہفتے نیویارک کے جرمن قونصل خانے کے  باہر مظاہرہ کیا گیا اور غزہ میں بہنے والے  سرخ لہو اور اس خونریزی میں جرمنی کی سہولت کاری کے خلاف بطور احتجاج قونصل خانے کے مرکزی دروازے پر سرخ رنگ پھینک دیا گی۔ اسی روز نیویارک کے ریلوے اسٹیشن پر زبردست مظاہرہ ہوا جس میں اسرائیل کے خلاف نعروں پر رئیسِ شہر سخت برہم ہیں اور انھوں نے آئندہ اس قسم کے مظاہرے روکنے کیلئے پولیس کا احکامات جاری کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ریل اڈے کے نعروں پر امریکی سینیٹ نے بھی 'تشویش' کا اظہار کیا اور قائد ایوان سینیٹر چک شومر نے کہا اسرائیل مردہ باد کا نعرہ ناقابل قبول ہےاور آزادی اظہار رائے کے نام پر اس قسم کے اشتعال انگیز نعرے لگانے کی اجازت نہیں۔

اور آخر میں گروپ 7کے سربراہی اجلاس کا ذکر۔ اٹلی میں ہونے والی اس بیٹھک کے افتتاحی اجلاس میں جنگی اخراجات کیلئے یوکرین کو 50 ارب ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا گیابھی ہے۔اب یہ بھی سن لیجئے کہ رقم کہاں سے آئیگی؟؟؟

یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں نے اپنے ملکوں میں روسی ہوٹلوں، تیل کمپنیوں، بینکوں اور دوسرے تجارتی اداروں کی شاخوں اور اثاثہ جات کو منجمد کردیا تھا جن سے حاصل ہونے والی آمدی (سود) سے یوکرین کو قرض دیا جائیگا۔یعنی قزاقی کے مال سے 'دوست' کی مدد ہوگی۔ یہاں سگےاور سوتیلے کا فرق ایک بار پھر ظاہر ہوگیا۔ اسرائیل کو غزہ قتل عام کیلئے کئی سو ارب ڈالر بطور تحفہ پیش کئے گئے جبکہ یوکرین کو قرض دیا جارہا ہے۔ قرض کی شکل میں ملنے والی رقم کا 90 فیصد حصہ امریکی اور یورپی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس چلا جائیگا اور یوکرینی اپنا پیٹ کاٹ کر سود کیساتھ قرض واپس کرینگے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 جون 2024

روزنامہ امت کراچی 21 جون 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 جون 2024


Friday, June 14, 2024

امریکہ کی مدد سے چار قیدیوں کی بازیابی آتھ ماہ کے دوران غزہ پرسو فضائی حملے یومیہ سفید فاسفورس کا استعمال

 

امریکہ کی مدد سے چار قیدیوں کی بازیابی ۔۔ آتھ ماہ کے دوران غزہ پرسو فضائی حملے یومیہ ۔۔ سفید فاسفورس کا استعمال

اس ہفتے کی سب سے اہم خبر ، وسطِ غزہ کے علاقے  نصیرات سے ایک خاتون سمیت چار اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی ہے۔ ہفتہ 8 جون کو امدادی سامان سے لدے  ٹرکوں میں بھیس بدل کر اسرائیلی چھاپہ مار وہاں آئے۔ بھوکے پیاسے لوگ امداد کیلئے دوڑے اور وہ گھر جہاں قیدی رکھے گئے تھے اسکی حفاظت پر تعینات کچھ مزاحمت کار بھی امدادی سامان لینے والوں کی قطار میں لگ گئے۔ اسرائیلیوں کو اسی موقع کا انتظار تھا۔ 'امداادی کارکنوں' نے مشین گنوں سے مجمع کو بھون دیا۔نصرت کیلئے آنے والے ڈرونوں نے تاک تاک کر نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا۔ اس دوران چاروں قیدی گھر سے باہر آگئے جنھیں اسرائیلی فوج کے خصوصی دستے نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔جسکے بعد فضا میں بمبارگرجے اور پورے علاقے کو ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا۔ اس کاروائی میں 249 شہری مارے گئے۔ ایسوسی ایٹیڈ(AP)کے مطابق 23بچوں اور 11خواتین سمیت 200لاشیں اسپتال لائی گئی جبکہ درجنوں افراد ملبے  تلے دبے ہوئے ہیں۔

مستضعفین اور عرب حلقے الزام لگارہے ہیں کہ قیدیوں کو چھڑانے کیلئے اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹر نے غزہ کے ساحل پر امریکہ کی تعمیر کردہ عارضی بندرگاہ (Piers)سے اڑان بھری تھی۔ یہ بندرگاہ امدادی سامان کیلئے تعمیر کی گئی ہے۔ عرب میڈیا کے جاریکردہ ایک بصری تراشے میں ہیلی کاپٹر کواامریکی ساخٹہ بندرگاہ سے اڑتا دکھایا گیاہے۔ فلسطینی ذرایع کے مطابق یہ بندرگاہ  غزہ کے شہریوں پر گولہ باری کیلئے بھی استعمال ہورہی ہے۔امریکہ کی مرکزی کمان نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بندرگاہ کا امدادی سامان کی ترسیل و تقسیم کے سوا اور کوئی مصرف نہیں۔

اس عظیم کامیابی پر اسرائیل اور امریکہ میں جشن بپا پے۔ اسرائیلی محکمہ سرغرانی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مکان کی نشاندہی امریکہ نے کی اور اسی اطلاع کو بنیاد بناکر آپریشن کیا گیا، جو اسرائیلی نقطہ نظر سے بہت کامیاب رہا۔ یہ اور بات کہ چار افراد کو چھڑانے میں ڈھائی سو  فلسطینی مارے گئے لیکن خونِ خاک نشیناں کس شمارو قطار میں؟۔ کاروائی میں اسرائیلی فوج کا ایک افسر بھی مارا گیا۔

اس کامیابی سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وزیراعظم نیتھن یاہو نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارے قیدی معاہدہ امن سے  نہیں دشمن کی بربادی سے ہی رہا ہونگے۔ مزاحمت کاروں نے اس آپریشن پر رد عمل میں کہا کہ فرار ہوتے قیدیوں کو ہلاک کردنیا کچھ مشکل نہ تھا لیکن ہمارا عقییدہ زیرحراست افراد کو قتل کرنے کیا اجازت  نہیں دیتا۔ قطر سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سجھا جائے اور مستضعفین کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرینگے جس میں اسرائیلی فوج کی پسپائی، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کی  بین الاقوامی ضمانت شامل نہ ہو۔

سات جون کو غزہ پر جاری بموں کی موسلادھار بارش کے آٹھ ماہ  مکمل ہوگئے۔ سات کلومیٹر چوڑی اور 21 کلومیٹر لمبی اس پٹی پر 244دن سے آگ برس رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم HRWنے اپنے اس الزام کو دہرایا کہ اسرائیل لبنان اور غزہ پر بمباری میں سفید فاسفورس استعمال کررہا ہے۔ اس سریع الاشتعال مادے سے بھڑکنے والی آگ کی 800 ڈگری سینٹی گریڈ حرارت، فولاد پگھلانے کیلئے کافی ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت شہری آبادیوں پر سفید فاسفورس کا استعمال ممنوع ہے۔ ایح آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ تحقیقات کےدوران انھیں کم از کم 19 مقامات پر سفید فاسفورس کے شواہد ملے ہیں۔ یعنی جس حرارت پر فولاد پانی ہوجائے اسکا سامنا پھول سے بچے کررہے ہیں۔

سب بلاوں کا ہے جہاں سے نزول ۔۔ یہ بلا بھی وہیں سی آئی ہے

دوسرے مہلک ہتھیاروں کی طرح اسرائیل کو 'انسانیت سوز' سفید فاسفورس بھی چچا سام فراہم کرتے ہیں

بچے کھچے شفاخانے اور تعلیمی ادارے اسرائیلی بمباروں کا خاص نشانہ ہیں۔ پانچ جون کو وسطی غزہ کے علاقے نصیرات میں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی چلنے والے اسکول کو نشانہ بنایا گیا جس میں بچوں سمیت 27 افراد جاں بحق ہوگئے۔اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ اسکول کے کمپاونڈ میں رکھا ایک کنٹینر دہشت گردوں کا اڈا تھا جسے نشانہ بنایا گیا اور شہری ہلاکتیں بالواسطہ و غیرارادی نقصان ہے۔ افغانستان میں معصوم جانوں کے زیاں کو امریکہ بہادر بہت معصومیت سے Collateral Damageکہا کرتے تھے۔

غزہ میں وحشیانہ کاروائیاں اب عالمی سطح پر مذمت کا نشانہ بن رہی ہیں۔اقوام متحدہ نے بچوں کے قتل عام پر اسرائیل  کو List of Shame کی زینت بنادیا۔اسکا اعلان کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے معتمد عام انتونیو گچیرس نے کہا کہ غزہ میں بچوں کا قتل عام ناقابل برداشت اور متحارب فریقوں کیلئے شرم کا باعث ہے۔ غیرجانبداری کابھرم رکھنے اور موذیوں کو منہہ بند کرنے کیلئے  شرمناک فہرست میں مزاحمت کاروں کا نام بھی ٹانک دیا گیا۔ ماضی میں روس، افغانستان، عراق، شام، صومالیہ اور یمن کا نام شرمناک فہرست پر ڈالا جاچکاہے۔

اقوام عالم کے ردعمل کا گلا گھونٹنے  کیلئے امریکہ مزید مستعد ہوگیا ہے۔جنوبی افریقہ کی درخواست پر عالمی فوجداری عدالت (ICC)کی جانب سے غزہ نسل کشی کی تحقیقات واشنگٹن کو پسند نہیں اور عدالت کے مستغٰیث (Prosecutor)نے تفتیش کیلئے اسرائیلی وزیراعظم، وزیر دفاع اور عسکری سربراہ کے پروانہ گرفتاری جاری کرنے کی جو استدعا کی ہے اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ منگل 4 جون کو امریکی ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) نے ایک مسودہ قانون (بل) منظور کرلیا جسکے تحت عدالتی اہلکاروں پر پابندی لگانے کا عزم ظاہر کیا گیاہے۔ اسکے علاوہ امریکہ میں عدالت کے اثاثوں، مفادات کے لین دین اور نقل و حمل کیلئے بھی خصوصی اجازت درکار ہوگی۔ یہ بل 155 کے مقابلے میں 247 ووٹوں سے منظور ہوا اور 205 قدامت پسند ریپبلکن ارکان کے ساتھ ڈیموکریٹک ہارٹی کے 42 روشن خیالوں نے بھی اس کی حمائت میں ہاتھ بلند کئے۔

دوسری طرف چلی اور میکسیکو کے بعد اسپین نے  عالمی عدالت کے مقدمے میں فریق بننے کا اعلان کیا ہے۔ اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے ہسپانوی وزیر خارجہ ہوزے مینوئل الباریس نے کہا  کہ انکا ملک نسل کشی کے اس مقدمے میں فریق بننا چاہتا ہے۔اسپین اس کیس میں شامل ہونے والا پہلا یورپی ملک ہے۔

کولمبیا  نے اسرائیل کو کوئلے کی فراہمی بند کردی ہے۔اسرائیل کو کولمبین کوئلے کی برآمد کا حجم  32 کروڑڈالر سالانہ ہے جو اس چھوٹے سے ملک کیلئے معمولی  رقم نہیں۔ملک کے صدر گستاوو پیدرو نے کہا کہ اہلِ کولمبیا غزہ نسل کشی پر دلگرفتہ ہیں اور ہم نہتے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے والوں سے معمول کے تجارتی تعلقات نہیں رکھ سکتے۔

جہاں تک بائیڈن امن معاہدے کا تعلق ہے تودس بارہ دن گزرجانے کے باوجود کوئی عملی پیشرفت نظر نہیں آئی اور چار قیدیوں کی بازیابی کے بعد یہ معاملہ خاصہ پیچھے چلاگیا ہے۔ فتح کے نشے میں چور اسرائیل نے غزہ کے طول و عرض میں بمباری کی نئی مہم شروع کردی ہے۔ فضا سے آتش و آہن کی بارش کیساتھ ٹینکوں اور بحیرہِ احمر سے بھی میزائیل برس رہے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہر طرف شعلہ و دھواں اور سڑکوں پر لاشیں بکھری ہیں۔ زخمیوں کی چیخوں سے آسمان پھٹتا محسوس ہورہا ہے۔

امن کے بارے میں اسرائیلی حکومت کے اتحادی بھی یکسو نہیں۔ وزیراعظم نیتھن یاہو کے اتحادی حریدی قدامت پسندوں کی جماعت توریت (UTJ)پارٹی نے بائیڈن امن فارمولے کی حمائت کا اعلان کیا ہے۔پارٹی قیادت نے ایک بیان میں کہا کہ قیدیوں کی رہائی ہماری  سب سے پہلی ترجیح اور انکی محفوظ واپسی کی ضمانت دینے والا ہر معاہدہ UTJ کیلئے قابل قبول ہے۔ تاہم عظمت یہود اور دینِ صیہون (RZP-Otzma) جماعتیں مُصر ہیں کہ مستضعفین کی مکمل بربادی سے پہلے جنگ بندی نہیں ہوگی۔ اس گروہ کے پاس کنیسہ کی 14 نشستتیں ہیں یعنی ترپ کا پتہ انکے پاس ہے۔اس معاملے میں انتہا پسند کسی رعائت و درگزر یا رواداری کے قائل نہیں۔ بیک وقت  عبرانی، انگریزی اور عربی میں شایع ہونے والےاخبار  روزنامہ الارض (Haaretz)نے امن معاہدے کے حق میں اداریہ لکھا تو تل ابیب میں اسکے دفتر کے شیشے توڑ دئے گئے۔

قوم پرستی کے نعروں اور حب الوطنی کی ہاہاکار کے علی الرغم حکومتی حلقوں میں بیچینی رنگ دکھانا شروع ہوگئی ہے۔اسرائیلی حزب اختلاف کی ماہانِ مملکت (ریاستی مورچہ) المعروف نیشنل یونٹی پارٹی، ہنگامی کابینہ سے الگ ہوگئی۔ غزہ پر حملے کے بعد قومی یکجہتی کے اظہار کیلیے پارٹی کے قائد اور فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز نے وزیراعظم اور وزیردفاع پر مشتمل عبوری ہنگامی کابینہ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ ایک اور سابق جرنیل غادی الائزنکوٹ، وزیر تزویراتی امور ران ڈرمر اور پاسبانِ توریت یا Shasپارٹی کے سربراہ آریا دری کو اس تین رکنی ہنگامی کابینہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔ نو جون کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوے جناب گینٹز نے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کو "حقیقی فتح" تک پہنچنے سے روک دیا ہے اور وہ اپنے ذاتی سیاسی مفادات کیلئے عسکری کوششوں کو نقصان پہنچارہے۔ موصوف گلوگیر لہجے میں بولے کہ ہمارے بچے گرم خون بہارہے ہیں اور بی بی کو اپنی کرسی بچانے کی پڑی ہے۔ اس تناظر میں میرے لئے ساتھ چلنا ممکن نہیں۔

نیتن یاہو نے جناب گینٹز کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا، "بینی، یہ پسپائی کا نہیں بلکہ محاذ پر عزم کیساتھ کھڑے رہنےکاوقت ہے۔

بدترین سینسر کے باجود غزہ مظالم کی خبریں کسی نہ کسی شکل میں دنیا ے سامنے آرہی ہیں لیکن اسی نوعیت کی قیامت غرب اردن پر  بھی برپا ہے۔ گزشتہ ہفتے  نابلوس پر اسرائیلی فوج کے دھاوے میں بہت سے فلسطینی جاں بحق ہوئے اور درجنوں نوجوان گرفتار کرلئے گئے۔ اسرائیلی فوج مظاہرین کے تعقب میں جوتوں سمیت حضرتِ یوسف ؑ کے مزار میں گھس گئی۔ اس مزار کے بارے میں مورخٰین کو تحفظات ہیں، اسلئے کہ حضرت یوسفؑ کا انتقال اور تدفین مصر میں ہوئی تھی۔ یہودی روایات کے مطابق مصر سے ہجرت کرتے ہوئے حضرت موسیؑ نے جناب یوسف ؑ کی باقیات کا کچھ حصہ بطور تبرک اپنے ساتھ رکھ لیا تھا جسے نابلوس کے قریب بلاطۃ البلد میں دفن کیا گیا جو قبرِ یوسفؑ کے نام سے مشہور ہے۔ غرب اردن کے شہر اریحا(Jericho)کی خیمہ بستی عقبة جبر بھی جبر کا نشانہ بنی۔ گھر گھر تلاشی کے دوران خواتین سے بدتمیزی پر نوجوان مشتعل ہوگئے اور دست بدست لڑائی میں دواسرائیلی فوجی مارے گئے۔انتقام میں ٹینکوں سے گولہ باری کی گئی جس سے کئی رہائشی عمارتیں تباہ اور متعدد نوجوان جاں سے گئے

ادھر امریکی جامعات فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں خلاف بھرپور انتقامی کاروائیاں کررہی ہیں۔ ملک کی انتہائی موقر جامعہ اسٹینفرڈ (Stanford)نے 12 طلبہ اور مظاہرہ کی فلمبندی کرنے والے ایک صحافی کے خلاف مجرمانہ (felony)سرگرمی کا پرچہ کٹوادیا۔عدالت سے ضمانت منظور ہوجانے پر بھی یہ طلبہ جامعہ نہیں آسکیں گے اور نہ کامیاب طلبہ کو سند جاری ہوگی۔

آٹھ ماہ سے جاری بمباری و گولہ باری کے باوجود اہل غزہ کی مزاحمت جاری ہے۔ پٹی پر اسرائیلی کنٹرول کے دعووں کی قلعی اسوقت کھل گئی جب 5 جون کو چار پیادہ  مزاحمت کار رفح سے غزہ کے گرد بنی ٹینکوں اور بکتر بند کاڑوں کی آہنی دیوار عبور کرکے اسرائیلی فوج کی پشت پر پہنچ گئے۔ اسرائیل نے حملے میں اپنے ایک سپاہی کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ حملے میں کئی فوجی زخمی ہوئے۔ ان چار لڑکوں سے لڑنے کی اسرائیلی فوجیوں میں ہمت نہ تھی چنانچہ ابھیں ڈرونوں سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ تین 'دہشت گرد' جاں بحق ہوگئے جبکہ چوتھے کی تلاش جاری ہے۔ انھیں کاروائیوں کی بنا پر قومی سلامتی کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر ذکی حینیبی( Tzachi Hanegbi) نے گزشتہ ہفتے کہا کہ مستضعفین کا مکمل خاتمہ دسمبر سے پہلے ممکن نہیں۔

آخر میں ایک مظاہرے پر گفتگو کا اختتام۔

تین جون کو تل ابیب میں انسداد بیرحمی حیوانات” کیلئے مظاہرہ کیا گیا۔ ان روش خیالوں کو کوشر (حلال) ذبیحہ، جانوروں پر ظلم محسوس ہوتا ہے۔ مظاہرین نے جانوررں کا قتل عام بند کرواور کوشر ذبیحہ پر پابندی لگاو کے فلک شگاف نعرے لگائے۔یہ مظاہرہ اس ملک کے باشندوں نے کیا جو آٹھ ماہ سے شہری علاقوں پر یومیہ سو سے زیادہ فضائی حملے  کررہا ہے۔کاش یہ لوگ غزہ کے Gentilesکو حیوان ہی تسلیم کرلیں

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 جون 2024

روزنامہ امت کراچی 14 جون 2024

ہفت روزہ رہبر سرنگر 16 جون 2024


Thursday, June 13, 2024

بھارتی انتخابات ۔۔ چارسو پار کرنے کا دعویٰ لیکن 272 بھی پار نہ ہوسکا

 

 بھارتی انتخابات ۔۔ چارسو پار کرنے کا دعویٰ  لیکن 272 بھی پار نہ ہوسکا

تہتر سالہ نریندرا مودی نے 9 جون کو جے شری رام کی گونج میں تیسری مدت کیلئے وزیراعظم کا حلف اٹھالیا۔ جواہر لال نہرو کے بعد تیسری مدت کیلئے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والے یہ دوسرے فرد ہیں۔ تقریب میں  سری لنکا اور مالدیپ کے صدور، ماریشس، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم سمیت 9000 مہمانوں نے شرکت کی۔اسی کیساتھ انکی 72 رکنی کابینہ بھی تشکیل پاگئی جس میں 30 وفاقی وزرا، 5 خصوصی اختیارات کے حامل وزرائے مملکت اور 36 وزرائے مملکت شامل ہیں۔کابینہ کے 11 ارکان کا تعلق اتحادی جماعتوں سے ہے۔

بھارتی لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات میں جناب مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی 240 کیساتھ پہلے نمبر پر ہے، کانگریس کے حصے میں 99 نشستیں آئیں۔گزشتہ انتخابات میں BJPکو 303 اور2014 میں جب مودی صاحب پہلی باروزیراعظم بنے اسوقت ایوان میں بی جے پی کےارکان کی تعداد282 تھی۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس کو 52 نشستیں ملی تھی۔انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 65.79فیصد رہا جو گزشتہ انتخابات سے 1.61 فیصد کم ہے۔ مجوعی طور پر 31 کروڑ خواتین سمیت 64 کروڑ 20 لاکھ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ااور س اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے بڑی انتخابی مشق تھی۔ساات مراحل میں ہونے والے یہ چناو 19 اپریل کو شروع ہوکر یکم جون کو ختم ہوئے۔

 ہریانہ، راجھستان ، یوپی اور مغربی بنگال میں حکمراں جماعت کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ ہندوستانی ایوان 453 ارکان پر مشتمل ہے اور 'ابکی بار چار سو کے پار' کا نعرہ لگانے والے نریندرا مودی،  حکومت سازی کیلئے  272 کے مطلوبہ نشان تک بھی نہ پہنچ سکے۔تاہم انکے قومی جمہوری اتحاد(NDA)نے 293نشستیں جیت کر مودی جی کیلئے تیسری بار وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کردی۔ کانگریس کی قیادت میں بننے والے اتحاد INDIAکے حصے میں 234 نشستیں آئیں جبکہ 17 نشستوں پر دیگر جماعتیں اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔

سات جون کو NDA کے قائدین نے وزرات عظمیٰ کے لئے نریندرا مودی کے نام پر رضامندی ظاہر کردی تھی جسکے بعد ہندوستان کی صٖدر شریمتی دروپڑی مرمو نے مودی صاحب کا  منہہ میٹھا کرکے انھیں حکومت سازی کی دعوت دیدی۔

بی جے پی کی خراب کارکردگی نے  بھارتی سرمایہ کاروں کو بے حد مایوس کیا اور بازار حصص میں شدید مندی کی بنا پر NIFTY-50اشاریہ 20 ہزار پواننٹ گرگیا۔ امبانی اور دوسرے روسا کے لاڈلے ، نریندرا مودی نے بھاری اکثریت سے کامیابی کی توقع پر 5جون کو بازار حصص میں 'تاریخی اچھال' کی پیشن گوئی کی تھی۔

جناب مودی کو حکومت سازی میں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن  وہ کرسی برقرار رکھنے کیلئے اپنے بڑے اتحادیوں تیلگو دیشم پارٹی، بہار کی جنتا دل اور مہاراشٹر کی شیوسینا کے ساتھ اپنی جماعت کے انتہا پسندوں کے رحم وکرم پر رہینگے۔ جسکے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

نریندرا مودی اور انکے معتمد امیت شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وقت پڑنے پر پیر اور وقت گزرجانے پر گلا پکڑ لیتے ہیں۔ نتائج کے اعلان کے بعد شیو سینا کے سینئر رہنما اروند سوانت نے تلگو دیشم پارٹی کے سربراہ  چندرابابو نائیڈو اور جنتا دل کے سربرہ نتیش کمار کو متنبہ کیا کہ 'آمر' کیلے سیج اقتدار سجاتے وقت چندرابابو اور کمار جی وہ وقت نہ بھولیں جب نریندرا انکی مدد کے بغیر وزیر اعظم بنے تھے۔ اروند سوانت نے کہا کہ اب جب 400 کے پار کا نشہ اتر گیا ہے، مودی جی تلخ و ترش کے بجائے کانوں میں شیرینی انڈیل رہے ہیں۔سیوا کے قائد ٹھاکرے نے این ڈی اے اور انڈیا دونوں اتحادوں کے پارلیمانی اجلاسوں میں شرکت کی  لیکن خود جانے کے بجائے انھوں نے اپنے نمائندے  بھیجے۔

شیو سینا کے رہنما سنجے راوت نے انڈیااتحاد اجلاس سے پہلے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ نریندرا مودی کو یہ اخلاقی شکست تسلیم کرلینی چاہئے، عوام نے انھیں حقِ حکمرانی (مینڈیٹ)  نہیں دیا اور مودی برانڈ اب پِٹ چکا۔ انھوں نے کہا کہ وہ آٹوکریٹ (آمر) مودی کے بجائے ڈیموکریٹ راہول گاندھی کو وزیراعظم دیکھنا زیادہ پسند کرینگے۔ پارلیمانی حجم کےاعتبار سے شیو سینا، NDAکی چوتھی بڑی جماعت ہے۔

چائے کی ییالی میں طوفان اٹھانے کے بعد شیو سینا نے نریندرا مودی کو اعتماد کا ووٹ دینے کا اعلان کردیا جسکی وجہ سے حکومت سازی کیلئے  وزیراعظم مودی کو چھوٹی جماعتوں کے مزید ناز اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ حمائت کے تحریری وعدے کے ساتھ ہی تیلگو دیشم اور بہار کی جنتا دل نے  'فرمائشوں' کی فہرست ترتیب دینی شروع کردی ہے۔ چندرابابو نائیڈو،  آندھرا پردیش ریاست کیلئے خصوصی حیثیت (Special Status)کا مطالبہ رہے ہیں اور جنتا دل کے قائد نتیش کمار کچھ ایسی ہی سہولت بہار کیلئے چاہتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چندرا بابو نے آندھرا پردیش میں نظامِ آبپاشی و آبنوشی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے اربوں روپئے کی وفاقی گرانٹ کیلئے درخواست تیار کرلی ہے۔کابینہ میں بھی ان جماعتوں کو حصہ بقدر جثہ کی توقع ہے۔ تیلگو دیشم اسپیکر کی مسند کی خواہشنمند ہے جبکہ نتیش کمار کی نظر اہم وزارتوں پر۔دوسری جانب بی جے پی کے پارلیمانی اجلاس میں یہ بات کہدی گئی ہے کہ وزارت دفاع، وزارت خرانہ، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کسی دوسری جماعت کو نہیں دی جائیگی۔

کانگریس کو بی جے پی کی پریشانیوں کا احساس ہے اور راہول گاندھی NDAکی جماعتوں سے رابطے میں ہیں۔ کسی بھی جگہ حکومت کیلئے انتخاب میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کہ پیچیدہ اور گنجلک عالمی تناطر میں عوام کی توقعات پر پورا اترنا آسان نہیں۔ تبدیلی کی فطری خواہش حزب اختلاف کیلئے نرم ہوا کے ہلکے تھپیڑے ثابت ہوتے ہیں لیکن ہندوستان کے انتخابی نتائج نریندرا مودی کی آمرانہ طرزِ حکمرانی پر عوامی ردعمل کا اظہار ہے۔ نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا 'ہمارا مقابلہ صرف بی جے پی سے نہیں تھا بلکہ الیکشن کمیشن، سراغرساں ادارے، پولیس اور بازار حصص پر قابض مافیا بھی ہندوستانیوں کے سامنے صف آرا تھا۔ کانگریس کی جوانسال رہنما ل شریمتی کماری شیلجا نے پر امید لہجے میں کہا کہ لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ’ٹریلر‘ دکھانے والے عوام ریاستی انتخابات میں پوری پکچر دکھائیں گے

وزیراعظم نریدرا مودی کی نئی مدت اس طنطنے سے محروم ہوگی جسکا مشاہدہ دنیا2014 سے کررہی ہے کہ اقتدار کی  لگام پر اس بار انکے اتحادیوں کا بھی ہاتھ ہوکا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 جون 2024