Thursday, November 6, 2025

 

غزہ: امن معاہدے کی دھجیاں اور معاہدہ ابراہیمؑ کا انجام

غزہ میں اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔گزشتہ ماہ بمباری، فائرنگ، گولہ باری اور ڈرون حملوں کی صورت میں 150 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔امن معاہدے کے ضامن اور ثالث، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیال میں غزہ میں چین ہی چین ہےاور اسرائیلی کارروائیاں دراصل مزاحمت کاروں کے حملوں کا “معمولی جواب” ہیں۔

جمعہ 28 اکتوبر کو اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ایال زامیر (Eyal Zamir) نے اعلان کیا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، ہمیں اپنا مشن مکمل کرنا ہے۔ لاشوں کی واپسی اور مزاحمت کاروں کے خلاف مہم جاری رہے گی۔
اسی روز رفح کے قریب مزاحمت کاروں نے ایک اسرائیلی فوجی یونٹ کو نشانہ بنایا، جس کے جواب میں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فضائیہ کو غزہ پر بھرپور حملے کا حکم دے دیا۔نتیجتاً صرف بارہ گھنٹوں کے دوران 46 بچوں سمیت سو سے زائد فلسطینی جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔طبی سہولتوں کی شدید کمی کے باعث درجنوں زخمی سڑکوں پر تڑپتے رہے۔

بدعنوانی کے مقدمات اور جنگی جنون

امریکہ کی غیر مشروط و لامحدود حمایت کے سائے میں نیتن یاہو کا جنگی جنون دراصل کرپشن کے مقدمات سے راہِ فرار کی کوشش ہے۔ بی بی اور انکی بی بی پر بدعنوانی و بے ایمانی کے مقدمات برسوں پہلے قائم ہوئے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے سماعت ملتوی کراتے چلے آئے ہیں۔ گزشتہ دوسال سے وہ غزہ کے نام پر عدالت سے بھاگتے رہے۔جنگ کے بعد 28 اکتوبر کو سماعت کا جب دوبارہ آغاز ہوا تو نیتن یاہو پیشی سے پہلے ہی اسرائیلی فضائیہ کو حملے کا حکم دے چکے تھے۔ چنانچہ سماعت کے آغاز پر انھوں نے عدالت کومطلع کیا کہ  مزاحمت کاروں کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ہماری فوج جواب دے رہی ہے اور صورتحال پر غور کرنے کیلئے چند گھنٹوں بعدکابینہ کا ہنگامی اجلاس ہونا ہےلہذا فددی کو رخصت دی جائے۔یوں جنگ اور مقدمات ایک دوسرے کا سایہ بن چکے ہیں۔

لاشوں کا تنازع اور اسرائیلی بدنیتی

مزاحمت کاروں نے ثالثوں اور ضامنین کو مطلع کیا ہے کہ اسرائیل ریڈ کراس کو لاشوں کی تلاش کے لیے اپنے زیرِقبضہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دے رہا،اور تاخیر کا الزام اہلِ غزہ پر لگا کر بدنیتی دکھا رہا ہے۔
جواب میں صدر ٹرمپ نے مزاحمت کاروں کو دھمکی دی کہ اگر لاشوں کی حوالگی میں تاخیر ہوئی تو “سنگین نتائج” بھگتنا ہوں گے۔انہوں نے اسرائیلی موقف دہرایا کہ مزاحمت کار جان بوجھ کر جاں بحق یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کر رہے۔

جہاں تک لاشوں کے تبادلے کا تعلق ہے تو گزشتہ ہفتے اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں۔اکثر لاشوں پر تشدد کے نشانات تھے، چہرے مسخ ، جسم جلائے ہوئے۔کئی اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی آخری صورت تک نہ دیکھ سکے۔ حضرت حمزہ(ر) کا ظالموں نے شہادت کے بعد مثلہ کیاتھا۔ یہاں زندہ انسانوں کے چہرے بگاڑ دئے گئے گویا اپنی وحشت و سفاکیت میں اسرائیلیوں نےمشرکین مکہ کا ریکارڈ توڑدیا۔ ان خبروں پر جب عالمی ریڈکراس نے عقوبت کدوں میں بند فلسطینی تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا تو اسرائیل نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کردی کہ اس سے جیلوں کے حفاظتی انتظامات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ریڈکراس کے ڈائیریکٹر جنرل Pierre Krahembuhlنے اپنے ایک بیان میں کہاکہ جنگی قیدیوں تک ریڈکراس کو نہ جانے دینا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔(حوالہ (AFP۔

فلسطینی قیدیوں پر تشدد کا بصری تراشہ منظر عام پر

اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل عفت تومر یروشلمی (Yifat Tomer-Yerushalmi) نے گزشتہ ہفتے اُس وقت استعفیٰ دے دیا جب اسرائیلی چینل 12 نے ایک ویڈیو نشر کی جس میں صحرائے نقب (Negev Desert) میں قائم فوجی مرکز پر فلسطینی قیدیوں پر تشدد دکھایا گیا تھا۔یروشلمی نے اعتراف کیا کہ ویڈیو کے افشا کی منظوری انہوں نے خود دی تھی۔تاہم معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اب اسرائیلی پولیس نے میجر جنرل عفت تومر یروشلمی اور فوج کے سابق چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتان سولوموش (Col. Matan Solomosh) کو گرفتار کرلیا ہے۔دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے تشدد کی ویڈیو کے اخراج اور بعد ازاں اس کی پردہ پوشی میں کردار ادا کیا۔ پولیس کے مطابق ان پر “افشاے راز اور دیگر سنگین فوجداری جرائم” کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انہیں جلد تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔تومر یروشلمی چند گھنٹے تک لاپتہ بھی رہیں، ان کے گھر والوں کو ایک تشویشناک نوٹ ملا جس کے بعد انہیں ڈھونڈنے کیلئے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیا گیا، تاہم بعد ازاں وہ بحفاظت مل گئیں۔اس واقعہ نے اسرائیلی فوج کے اندر بڑھتی ہوئی بےچینی، اندرونی اختلافات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کردیا ہے۔

تشدد کی حکومتی سرپرستی

اسرائیلی جیلوں میں تشدد سرکاری پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔یکم نومبر کو وزیرِ اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر (Itamar Ben-Gvir) نےایک عقوبت خانے کا دورہ کیا جہاں فلسطینی قیدیوں پر تشدد کیا جارہا تھا۔
انہوں نے قیدیوں کو براہِ راست دھمکیاں دیں کہ وہ ان کے لیے سزائے موت کا بل پارلیمان میں پیش کرنے والے ہیں۔ بن گوئر کے دورے اور تشدد کی تصاویر حکومتی ذرائع نے خود جاری کیں۔

غرب اردن: زیتون کے باغ اور شناخت کی جنگ

غزہ ہی نہیں، غربِ اردن بھی تباہی کا شکار ہے۔رام اللہ میں پندرہ سالہ یامین یوسف حمید کے قتل سے لے کر
الخلیل (Hebron) کے گاؤں اُم الخیر کی بربادی تک قبضہ گروں کی درندگی اور عالمی خاموشی نے انسانیت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔

زیتون غرب اردن و غزہ  میں روزگار کا بڑا ذریعہ اور ارض فلسطین کی شناخت ہے جسے قبضہ گرد ہدف بناکر کر تباہ کررہے ہیں۔فسادیوں نے شمال میں جنین، وسطی ٖغرب اردن کے المغیر اور ترمسعیا سے جنوب میں الخلیل (Hebron)تک زیتون کی کھڑی فصلیں روند ڈالیں۔یعنی ذریعہ معاش کیساتھ ثقافتی اور تمدنی پہچان مٹانے کی منظم مہم جاری ہے۔

اسرائیلی معاشرہ: اندرونی بحران اور مذہبی بغاوت

دوسری طرف اسرائیل میں فرقہ وارانہ بحران سنگین ہوچکا ہے۔ مدارس (Yeshiva)کے طلبہ نے لازمی فوجی خدمت سے انکار کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں یروشلم میں دو لاکھ حریدی نوجوانوں اور علما نے دھرنا دیا کہ “ہم تورات کے طالب علم ہیں، سپاہی نہیں۔یہ احتجاج بتاتا ہے کہ جس ملک کو اپنی قوت پر گھمنڈ ہے، وہاں کے شہری خود اپنے ہی فوجی نظام سے بغاوت کر رہے ہیں۔

غزہ کی دادی "ردا" — ایمان کی علامت

اس کے برعکس، غزہ کی ایک  60 سالہ دادی اماں "ردا" ہیں ، جن کے پانچوں بیٹے اسرائیلی بمباری کا شکار ہوگئے اور اب وہ اپنے ضعیف خاوند کیساتھ مل کر  36 یتیم پوتے پوتیوں کی پرورش کیلئے پرعزم ہیں۔ان کا کہنا ہے'ہمارے بیٹے شہید ہوئے، مگر ان کی اولاد کو ہم یتیم خانے نہیں جانے دیں گے۔ ہم نے انکے باپ کو پالا اور اب روکھی سوکھی کھا ان بچوں کی خود کی پرورش کریں گے۔ ہمارے لئے 'الرازق' بہت ہے'۔ یہی وہ ایمان ہے  جسےبمباری فنا نہ کرسکا۔

ڈائپر فورس اور قابض فوج کا خوف

ادھر، اسرائیلی میڈیا نے ایک تصویر شائع کی جس میں غزہ کے ایک گھر پر قبضہ کرنے والے فوجی استعمال شدہ ڈائپرز چھوڑ گئے۔یہ منظر صرف غلاظت کا نہیں، بلکہ ایک قابض فوج کے اندرونی خوف اور بزدلی کا عکاس ہے۔بچوں پر بم گرانے والے یہ سورما ڈائپر پہنتے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس ملک سے نسل کشی کے لیے بمبار، ڈرون اور مہلک ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں، وہیں سے ان سپاہیوں کی تسکینِ حاجت کے لیے ڈائپرز بھی آرہے ہیں۔

استنبول اجلاس — امید یا رسمی اظہارِ افسوس؟

تین نومبر کو ترکیہ، سعودی عرب، قطر، پاکستان، اردن، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے وزرائے خارجہ غزہ کی تباہ کن صورتحال پر غور کے لیے استنبول میں جمع ہوئے۔اجلاس میں انسانی امداد کی فوری بحالی اور حملوں کے خاتمے پر زور دیا گیا،اپنے افتتاحی خطاب میں ترک وزیرخارجہ نے غزہ میں غیر جانب دار بین الاقوامی نگرانی کی ضرورت پر زور دیا لیکن تمام شرکا اس بات پر متفق تھے کہ مشترکہ فوج یا امن فورس کا قیام امریکہ  کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وہ سیاسی بندش ہے جو ہر مسلم فورم کو محض بیانات تک محدود کر دیتی ہے۔کیا ان اجلاسوں سے اہلِ غزہ کے زخموں پر کوئی مرہم رکھا جا سکے گا یا یہ بھی نشستند، گفتند و برخواستند کی ایک مشق تھی؟

امریکہ، اسرائیل اور عرب دنیا کی نئی ترجیحات

نوبیل انعام سے محرومی کے بعد اب اسرائیل سعودی سفارتی تعلقات کے حوالے سے بھی صدر ٹرمپ کی 'تاریخی کامیابی' مشکل لگ رہی ہے۔سعودی قیادت کے قریب تجزیہ کار علی شہابی (Ali Shihabi) کے مطابق
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا امکان سال کے اختتام تک تقریباً ناممکن ہے۔
جناب شہابی کے خیال میں ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت کوئی ناقابلِ واپسی (Irrevocable)قدم اٹھائے جو اسرائیل کی موجودہ انتہا پسند حکومت کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے۔

طوفانِ الاقصیٰ کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے،مگر ایک بات طے ہے اس کے نتیجے میں نونہالانِ غزہ کے پاکیزہ جسموں کے ساتھ معاہدۂ ابراہیم بھی عملاً دفن ہو چکا ہے۔اب عرب دنیا کے لیے ترجیح اسرائیل سے تعلقات نہیں بلکہ فلسطینی مسئلے کا ایک مستقل اور منصفانہ حل ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 7 نومبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی، 7 نومبر 2025

روزنامہ امت کراچی 7 نومبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 9 نومبر 2025


No comments:

Post a Comment