سوڈان: تیل ،سونا، خون اور
فوجی ہوس کی نئی داستان
پہلے
سیاہ سونا(تیل) ملک کو دو ٹکڑے کرگیااور اب زرد سونا ان بدنصیبوں کے سروں پر آگ
برسا رہا ہے۔سوڈان ایک بار پھر بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ وہ جنگ جو 2023رمضان
کے آخری عشرے میں شروع ہوئی تھی، دو برس گزرنے کے بعد اب دارفور، خرطوم، اور
کردفان سمیت پورے ملک کو جھلسا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پچاس ہزار سے زائد
سوڈانی شہری جاں بحق، دس لاکھ سے زیادہ زخمی یا لاپتہ، اور ڈیڑھ کروڑافراد بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے
ایک بڑی تعداد سرحد عبور کرکے چاڈ، مصر اور جنوبی سوڈان میں پناہ لینے پر مجبور
ہے۔
یہ خانہ جنگی بظاہر سوڈانی فوج کے سربراہ
جنرل عبدالفتاح البرہان اور نیم فوجی تنظیم قوات الدعم السریع (RSF) کے سربراہ محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی
کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے، مگر دراصل یہ جنگ سونے کے ذخائر، غیر ملکی مفادات
اور طاقت کی دائمی ہوس کی داستان ہے۔
وردی
میں لٹیرے، عوام نشانے پر
سوڈان، افریقہ کا سونا برآمد کرنے والا سب
سے بڑا ملک ہے جسکی برآمدات کا
تخمینہ 2023 میں 40 ٹن
تھا، لیکن سرکاری خزانے میں فروخت کا دسواں حصہ بھی جمع نہ ہوا۔باقی سب فوج، نیم
فوجی گروہوں اور ان کے غیر ملکی تجارتی شراکت داروں کی جیبوں میں چلا گیا۔آر ایس
ایف کے بیشتر مالی وسائل انہی طلائی کانوں سے حاصل ہوتے ہیں، جو دارفور اور کردفان
کے علاقوں میں واقع ہیں۔
جنرل حمیدتی کےدستے اب بھی خرطوم کے کئی
علاقوں پر قابض ہیں۔ فضائی بمباری اور توپ خانے کے حملوں نے ملک کے بنیادی ڈھانچے
کو تباہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ نے حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر جنگ جاری
رہی تو سوڈان تیسری بڑی افریقی قحط زدہ ریاست بن سکتا ہے، جہاں غذائی فراہمی مکمل
طور پر رک جائے گی۔
سونا،
اسرائیل اور معاہدہ ابراہیم
جنرل برہان کے دور میں سوڈان نے امریکی
دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ اختیار کی تھی۔ ’’معاہدہ ابراہیم‘‘ (Abraham Accords) کے تحت سوڈان کو دہشت گرد ممالک کی فہرست
سے نکالنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مگر اقتدار کی جنگ اور بدامنی نے یہ خواب چکنا چور
کردیا۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیلی جارحیت کے خلاف پورے عرب خطے میں جو جذبات
بھڑکے، اس کے اثرات سوڈان میں بھی گہرے ہوئے۔ اب عوام اسرائیل سے تعلقات کے بجائے
فلسطینی مسئلے کے منصفانہ حل کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ
غزہ اور خرطوم کے ملبے تلے معاہدہ ابراہیم بھی دفن ہوچکا ہے۔
عالمی
ردِعمل اور سوڈان کا مستقبل
خلیجی ممالک نے جنگ بندی کی اپیل کیساتھ متحارب فریقوں کی مدد
بلکہ سہولت کاری جاری رکھی۔ اقوام متحدہ، افریقی یونین اور عرب لیگ کے ثالثی مشن بھی
ناکام رہے۔ روس، چین، اور خلیجی کمپنیاں سونے کی تجارت میں اپنے مفادات کے تحفظ کے
لیے خاموش کردار ادا کر رہی ہیں۔مگر عالمی خاموشی کے بیچ سب سے بلند صدا وہ ہے جو
سوڈان کے ملبے سے اٹھ رہی ہے یعنی بھوک،
ظلم اور بربادی کا نوحہ
سوڈان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر فوجی
انقلاب کے بعد ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔ کبھی سیال سیاہ سونا جنوب کی علیحدگی کا
سبب بنا، اور اب زرد سونا شمال کو کھا رہا ہے۔ان خزانوں نے سوڈانیوں کو خوشحالی کے
بجائےتقسیم، بدامنی اور لاشیں دی ہیں۔
سوڈان میں متحدہ
عرب امارات اور سعودی عرب کا کردار
سوڈان کے جنگ زدہ علاقوں، خاص طور سے
دارفور اور شمالی علاقوں کے زرعی وسائل، سونے کے ذخائر اور بندرگاہ کی ترقیاتی
منصوبوں میں اماراتی سرمایہ کاری شامل ہے۔اقوام متحدہ اور دوسرے تحقیقاتی اداروں
کے مطابق، سونے کی 97 فیصد قانونی برآمدات سوڈان کی فوج یا نیم فوجی گروپ کے
کنٹرول والے علاقوں سے متحدہ عرب امارات
کی طرف جاتی ہیں۔دوسری طرف اماراتی حکومت RSF
کو ہتھیار، ڈرونز
اور مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔
متحدہ عرب امارات سونے کے تجارتی مراکزپر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ بحیرہ احمرمیں
اثر و رسوخ بڑھاکرعلاقائی طاقت بننا چاہتا ہے۔
سعودی عرب کی بھی سوڈان کے طلائی اثاثوں پر
نظر ہے تاہم سعودیوں کی توجہ بظاہر سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی طرف
ہے۔سعودی عرب نے جدہ مذاکرات کی میزبانی کرکے جنگ بندی اور سیاسی عبوری حکومت کے
قیام کے لیے ثالثی کی کوششیں بھی کی ہیں۔
یعنی متحدہ عرب امارات جنگی مشین کو مالیاتی اور عسکری وسائل فراہم کرنے
کے ساتھ سونے کی تجارت سے فائدہ اٹھارہا ہے جبکہ سعودی عرب نے سرمایہ کار اور
ثالثی کا کردار اپنایا۔تاہم یہ دونوں ممالک اپنی اپنی حکمتِ عملی کے تحت سوڈان کی
جنگ میں ملوث ہیں، جو سوڈانی عوام کو درد اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کررہی
ہیں۔
سوڈان کی تاریخ میں اقتدار کی ہوس نے ہمیشہ
ایمان، اصول اور انسانیت کو شکست دی ہے۔جنرل بدلتے رہے، وردیاں تبدیل ہوئیں، مگر
بندوق کی گولی ہمیشہ عوام کے سینے پر ہی چلی۔کل تیل خونریزی کاسبب تھا اور آج سونا
سوڈانیوں کیلئے لعنت بن گیا ہے۔جنوبی سوڈان کی علیحدگی نے ملک کے جسم کو زخمی کیا
تھا،اور اب زرد سونا اس کے وجود میں ناسور بن کر پھوٹ رہا ہے۔اگر یہ جنگ نہ رکی،
تو آنے والی نسلیں شاید سونا تو دیکھ لیں لیکن سوڈان نہیں دیکھ سکیں گی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 نومبر 2025
No comments:
Post a Comment