غزہ ! رونگٹے کھڑے دینے والے انکشافات
وحشت
کے آغاز ہی سے غزہ کے بارے میں چونکا دینے والی خبریں سامنے آرہی رہی ہیں، مگر برطانوی چینل
ITV پر نشر ہونے والی نئی دستاویزی فلم “Breaking
Ranks: Inside Israel’s War” اس سلسلے میں ایک
نئی اور ہولناک جہت کا اضافہ کرتی ہے۔اس فلم میں موجودہ اور سابق اسرائیلی اہلکار
پہلی بار کھلے انداز میں کیمرے کے سامنے بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک گھنٹے کی اس
فلم میں پہلے سے رپورٹ شدہ باتوں کے علاوہ کچھ ایسے مخصوص واقعات بھی پیش کیے گئے
ہیں جو اس سے قبل منظرِ عام پر نہیں آئے تھے۔
یہ فلم
ایرانی نژاد معروف فلم ساز بنجامن زینڈ
(Ben Zand) نے ترتیب دی ہے، جو مشکل اور حساس موضوعات
پر تحقیقی دستاویزی فلموں کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ متعدد فوجیوں نے اپنی شناخت
پوشیدہ رکھی، لیکن ان کے بیانات مل کر ایک ایسی عسکری مہم کی تصویر کھینچتے ہیں
جسے کئی اہلکاروں نے ’’بے مہار‘‘ اور ’’اخلاقی طور پر گمراہ کن‘‘ قرار دیا۔
انکار کی دیوار میں پڑتی دراڑیں
فلم
میں شامل کئی فوجیوں نے اعتراف کیا کہ غزہ میں کارروائی کے دوران عسکری ضوابط اتنے
ڈھیلے کردئےگئے تھے کہ عام شہریوں کی زندگی یا موت ایک لمحاتی غلط فہمی پر منحصر
رہ گئی۔ایک افسر کے مطابق، اُن کے سامنے ایسے واقعات ہوئے کہ چھت
پر کپڑے سکھاتے لوگوں کو مشتبہ قرار دے کر
اُن پر فائر کھول دیا گیا۔
مچھر پروٹوکول، انسانی ڈھال کے ذریعے سرنگوں کا نقشہ
فلم کا
سب سے خوفناک انکشاف وہ طریقہ ہے جسے “Mosquito
Protocol” کانام دیا گیا۔ٹینک کمانڈر ڈینیل (Daniel)
نے بتایا کہ گرفتار فلسطینی شہریوں کی جیکٹ
میں اسمارٹ فون نصب کرکے انھیں زیرِ زمین سرنگوں میں بھیجا جاتاتاکہ GPSکے ذریعے راستوں کا نقشہ اور
خطرات سے آگہی حاصل کی جاسکے۔۔ڈینیل کے مطابق اسکے یونٹ نے سب سے پہلے یہ طریقہ
آزمایا، اور ایک ہفتے کے اندر تقریباً ہر کمپنی اپنا ’مچھر‘ استعمال کر رہی
تھی۔اکتوبر 2024 کی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بھی اس بات کا ذکر تھا کہ کاوائیوں
کے دوران ڈرونزاور کتوں
کے ساتھ گرفتار افراد کو بھی خطرناک مقامات پر استعمال کیا جاتا تھا۔
توہین
آمیز شناخت
اس
مقصد کیلئےاسرائیلی جیل سے لائے گئے
قیدیوں کو ’ بھِڑ یا واسپس‘‘ (Wasps) اور غزہ
سے مقامی طور پکڑے گئے افراد کو ’’مچھر‘‘
(Mosquitoes) کہا جاتا تھا۔
کارروائیوں پر مذہبی رہنماؤں کا دباؤ
میجر نیٹا
کیس پین (Neeta Caspin)نے ایک
واقعہ بیان کیا جس میں بریگیڈ کے مذہبی رہنما ربی ابراہام زاربِو (Rabbi
Avraham Zarbiv)نے انہیں کہا کہ ہمیں بھی 7 اکتوبر
جیسا جواب دینا چاہیے, چاہے
سامنے شہری ہی کیوں نہ ہوں۔ کوئی امتیاز نہیں کرنا چاہیے۔ یہی واحد راستہ ہے۔ فلم
میں رابائی زاربِو خود بولتے دکھائی دیتے ہیں کہ “غزہ
میں سب کچھ ایک بڑے عسکری ڈھانچے کا حصہ ہے۔ ہم اس جگہ کو تباہ کرنے پر لاکھوں
شیکل (اسرائیلی کرنسی) خرچ کر
رہے ہیں۔”
زاربِو
اس سے پہلے بھ اسرائیلی میڈیا میں بھی
اپنے خیالات ظاہر کر چکے ہیں۔ انھوں نے
مئی میں کہا تھا کہ غزہ کو ’’زمین بوس‘‘ کرنا ہی واحد حل ہے۔ سوشل میڈیا پر
ایک بصری تراشہ وائرل ہوا جس میں ربائی صاحب خان یونس میں ایک عمارت کو بُل ڈوزر سے گراتے
دکھائے گے۔ پس منظر میں ایک سپاہی کی آواز آتی ہے:
“Rabbi Zarbiv is ‘Zarbiving’ a house in Gaza.”
جب جوابدہی ختم ہوجائے تو جنگ میں کیا ہوتا
ہے؟
فلمساز
نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ گواہیاں نہ صرف ان اقدامات اور فیصلوں پر روشنی
ڈالتی ہیں جو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھے گئے بلکہ اس سے پتہ چلتا ہے جب جوابدہی
ختم ہوجائے تو جنگ میں کیا ہوتا ہے۔'
غزہ
جنگ پر دنیا کی بحث اب کسی ایک ملک کے بیانیے تک محدود نہیں رہی۔جب خود کارروائی
میں شامل اہلکار یہ کہیں کہ قوانین جنگ معطل کردئے گئے تھے تو کیا یہ سب محض ’’غلطیاں‘‘ تھیں، یا نظم کے
نام پر بے نظم طاقت کی ایک منظم حکمتِ عملی؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 نومبر 2025
No comments:
Post a Comment