Saturday, November 1, 2025

 

جنگ بندی کے بعد بھی تباہی برقرار — غزہ، غربِ اردن اور امریکی تضادات

جنگ بندی کے باوجود غزہ کی فضا بارود، بھوک اور بے بسی کی استعارہ ہے۔فلسطینی عوام کے لیے امن ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔عالمی طاقتوں کے وعدے، اقوامِ متحدہ کے مطالبے اور انسانی حقوق کے نعرے سب اسرائیلی جارحیت کے شور میں دب چکے ہیں۔ امن معاہدے کا ثالث،  نگراں و ضامن ، امریکہ، اسرائیلی درندگی کی غیر مشروط پشت پناہی کا عزم لئے ہوئے ہے۔

تباہی کا تسلسل اور خوراک کا بحران

غزہ میں جنگ بندی کو دو ہفتے ہوگئے، مگر اہلِ غزہ نے ایک دن بھی سکون سے نہیں گزارا۔ بمباری، ڈرون حملوں اور فائرنگ سے سینکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔جنگ بندی کے باوجود غزہ میں خوراک کا بحران بدستور ’’تباہ کن‘‘ ہے۔عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایدھنوم گیبریئیسس (Tedros Adhanom Ghebreyesus) کا کہنا ہے کہ 'غزہ پٹی پر بھوک میں کوئی کمی نہیں آئی'۔اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے گیارہ ہزار حاملہ خواتین سمیت غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھوک کا شکار ہے، ستر فیصد نوزائیدہ بچے یا تو قبل از وقت پیدا ہورہے ہیں یا ان کا وزن معمول سے بہت کم ہے۔ رَفَح کراسنگ اب تک مکمل طور پر نہیں کھولی گئی۔جنگ بندی کے ابتدائی گیارہ دنوں میں صرف 986 امدادی ٹرک غزہ داخل ہوسکے، جبکہ معاہدے کے مطابق 6600 ٹرک پہنچنے چاہئیں تھے۔

ملبے کا سمندر: رہائش کا نیا بحران

یہاں خوراک کے بعد رہائش ایک اورسنگین مسئلہ ہے۔اقوام کے ادارہِ ماحولیات (UNEP)کے مطابق اس سال آٹھ جولائی تک اسرائیلی بمباری سے ایک لاکھ 93ہزار رہائشی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں جن سے جنم لینے والے ملبے کا حجم چھ کروڑ دس لاکھ ٹن ہے۔یعنی ہر مربع میٹر رقبہ 169 کلوگرام ملبے تلے دباہوا ہے۔انتیس لاکھ ٹن ملبے میں بارود اور زہریلے مواد کی آمیزش ہے۔ حوالہ: ٹائمز اف اسرائیل

امریکی دوغلا کردار اور اسرائیلی خلاف ورزیاں

اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزیوں پر معاہدے کے ضامن، امریکہ نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔جمعہ 24 اکتوبر کو تل ابیب میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے گل افشانی فرمائی کہ اسرائیل امن معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے، اب مزاحمت کار غیر مسلح ہوں اور لاشیں واپس کریں۔ نیک چلنی کی اس امریکی سند سے محض پانچ روز قبل نیتن یاہو نے جنگ بندی کے دوران غزہ پر 153 ٹن بارود برسانے کا فخریہ اعتراف کیا اور اس وحشیانہ بمباری کو فوجی ضرورت قرار دیا۔اقوامِ متحدہ کے مطابق یہ اقدام عالمی قانون کی رو سے سنگین جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ فائر بندی کے دوران کسی بھی قسم کی جارحیت بین الاقوامی عہد کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اسی دوران، اسرائیل آمد پر امریکی نائب صدر جے ڈی وانس (J.D. Vance) نے اپنے وزیرِ خارجہ کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'غزہ فائر بندی توقع سے زیادہ کامیاب ہے'۔ستم ظریفی کہ جب جناب وانس یہ مژدہ سنا رہے تھے، عین اسی وقت ایک اسرائیلی ڈرون حملے میں 13 فلسطینی اپنی جان سے گئے۔

ثالث یا شریکِ جرم؟

اپنے وزیرِ خارجہ اور نائب صدر کے بعد اب صدر ٹرمپ بھی مزاحمت کاروں پر برہم ہیں۔ اسرائیلی مؤقف دہراتے ہوئے انھوں نے 25 اکتوبر کو دعویٰ کیا کہ 'مزاحمت کار جان بوجھ کر بعض جاں بحق یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں کر رہے'۔اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم TRUTH پر صدر ٹرمپ نے لکھا 'اگر تمام لاشیں فوری طور پر اسرائیل کے حوالے نہ کی گئیں تو مزاحمت کاروں کو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے'۔دلچسپ بات  کہ چند روز قبل خود امریکی ایلچی اسٹیو وٹکاف (Steve Witkoff) نے تسلیم کیا تھا کہ مزاحمتی گروہ جنگ بندی معاہدے پر مخلصانہ عمل کر رہا ہے اور لاشوں کی تلاش میں سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔ایسے میں یکطرفہ دباؤ اور دھمکیوں نے امریکی ثالثی کے کردار کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔اگر امن واقعی مقصد ہے تو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر تل ابیب کی گوشمالی کیوں نہیں؟

ڈرون نگرانی: امن کی ضمانت یا جاسوسی؟

 خبر گرم ہے کہ جنگ بندی کی نگرانی کیلئے امریکہ ایک موثر نظام وضع کررہا ہے۔امریکی فوج نے غزہ پر ڈرون پروازیں شروع کی ہیں تاکہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروپ کے درمیان جنگ بندی کی صورت حال پر نظر رکھی جا سکے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق، نگرانی امریکہ-اسرائیل سول ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر کے ذریعے اسرائیلی رضامندی سے ہو رہی ہے۔اسرائیل کی شراکت سے ہونے والی نگرانی کو جاسوسی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟غزہ کی تباہ حال بستیوں کے اوپر اڑتے یہ ڈرون جنگ بندی کی پاسداری کے ضامن ہیں یا نگرانی کا نیا جال؟

غرب اردن کا اگلا محاذ

اسی کیساتھ غرب اردن کو ہتھیانے کی قانونی کاروائی شروع ہوچکی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے غربِ اردن کو اسرائیل کا حصہ بنانے سے متعلق قرارداد کی پہلی خواندگی مکمل کرلی۔بظاہر وزیراعظم نیتن یاہو کی لیکوڈ (Likud)پارٹی کے ایک کے سوا تمام ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت یا غیرجانبداری اختیار کی، لیکن کسی نے اجلاس سے واک آؤٹ کرکے کورم توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ طرزِعمل اس خاموش رضامندی کا اظہار ہے جس کے ذریعے اسرائیل کے انتہا پسند ایک عرصے سے Judea and Samaria کے نام پر مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔یہ مہم محض جغرافیائی نہیں بلکہ لسانی و مذہبی شناخت کی تبدیلی کا منصوبہ ہے۔اسرائیلی دستاویزات میں ’’غربِ اردن‘‘ کی عربی شناخت مٹا کر عبرانی اصطلاحات رائج کی جا رہی ہیں تاکہ علاقے کی تاریخی حقیقت کو دھندلایا جا سکے۔

قابض بستیوں کی توسیع اور زمینی حقائق کی تبدیلی

اسی منصوبے کا ایک اہم پہلو قبضہ بستیوں (Settlements) کی تیز رفتار تعمیر ہے۔ ان بستیوں کے ذریعے اسرائیلی حکومت علاقے کی معاشرتی ساخت تبدیل کر رہی ہے تاکہ ایک ایسا ’’زمینی حق‘‘ (Ground Reality) قائم ہو جائے جسے مستقبل میں کوئی امن معاہدہ چیلنج نہ کر سکے۔

ٹرمپ پالیسی کا تضاد

اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ غربِ اردن کے انضمام کی صورت میں اسرائیل کے لیے امریکی حمایت خطرے میں پڑ سکتی ہے، مگر یہ انتباہ ان کے سابقہ رویّے کے برعکس ہے۔اپنے پہلے دورِ اقتدار میں صدر ٹرمپ نے نہ صرف شامی مقبوضہ علاقے گولان کو اسرائیل میں ضم کرنے کی حمایت کی بلکہ الحاق کی تقریب میں بنفسِ نفیس شرکت کرکے اسرائیلی قبضے کو بین الاقوامی حیثیت دلانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس پس منظر میں ان کے موجودہ وعدوں پر اعتماد کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

امریکی نائب صدر جے ڈی وانس (J.D. Vance) نے اسرائیل کے حالیہ دورے کے بعد کنیسہ کی قرارداد کوstupidقرار دیا اور کہا کہ 'اسرائیل میں قیام کے دوران اس پر ووٹنگ میرے لئے ذاتی طور پر توہین آمیز تھی۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی قیادت کو سخت لہجے میں متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکی نائب صدر کی توہین کا سلسلہ جاری رہا تو اسرائیلی امداد روکنے پر غور کیا جائے گا۔لیکن جنگ بندی کی صریح خلاف ورزیوں  پر واشنگٹن بدستور خاموش ہے۔اس تناظر میں امریکہ کا ثالثی کردار غیر معتبر اور اس کی یقین دہانیاں محض سفارتی نعرے معلوم ہوتی ہیں۔

امریکی سیاست اور سفارتی چالیں

ممکن ہے کہ اس شور شرابے کے پیچھے سفارتی سیاست کارفرما ہو یعن انضمام کی مزاحمت، معاہدہِ ابراہیم کی سعودی عرب اور دوسرے مسلم و عرب ممالک تک توسیع کی شرط کے طور پر استعمال کرتے ہوئے “موت کے خوف سے بخار برداشت کرنے” پر عرب قیادت کو آمادہ کیا جائے اور اسرائیل کو قابو کرنے کی آڑ میں عرب و مسلم دنیا سے وہ سفارتی رعایتیں حاصل کی جائیں جو شائد عام حالات میں ممکن نہ ہوں۔

اخلاقی بیداری کی لہر

اسرائیلی پارلیمان کے سابق اسپیکر ابراہام برگ (Avraham Burg) سمیت دنیا بھر کے یہودی دانشوروں، فنکاروں اور صحافیوں نےاقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام کھلے خط میں اسرائیلی جرائم کی مذمت کی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نیتن یاہو اور دیگر ذمہ داران کو عالمی فوجداری عدالت (ICC) میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

دوسری طرف اسپین، فرانس، جنوبی افریقہ، آئرلینڈ، بیلجیم، سوئیڈن اور ناروے کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی (Mark Carney) نے اعلان کیا ہے کہ اگر نیتن یاہو ان کے ملک آئے تو ICC کے وارنٹ کے مطابق انہیں گرفتار کیا جائے گا۔یہ اعلان صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی جرات کی مثال ہے کہ نسل کشی پر خاموشی بھی جرم ہے۔

غزہ امن مشن — پاکستان کیلئے امکانات یا دلدل؟

اسرائیلی نشریاتی ادارے Ynet نے کنیسہ (اسرائیلی پارلیمان) کی مجلسِ قائمہ برائے خارجہ امور و دفاع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے پاکستان نے اپنے فوجی بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔اس سے قبل انڈونیشیا، ترکیہ اور آذربائیجان بھی ایسی ہی پیشکش کرچکے ہیں۔ ابھی اسرائیل، امریکہ یا پاکستان نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ ترک اور قطری افواج کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

غزہ میں امن دستوں کی شمولیت بظاہر انسانی ہمدردی کے جذبے سے کی جانے والی پیشکش ہے، مگر اس کے علاقائی، سفارتی اور عسکری مضمرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔بین الاقوامی امن فوج کی کامیابی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب تمام فریق ان کی موجودگی کو تسلیم کریں۔ غزہ کے تناظر میں معاملہ اب بھی سیاسی اور عسکری تنازع کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔پاکستان اگر واقعی اس مشن میں شامل ہوتا ہے تو اسے  اپنے سفارتی کردار کے ساتھ مزاحمت کاروں کے  متوقع ردِعمل کو بھی پیشِ نظر رکھنا پڑے گا۔

اسرائیلی عقوبت گاہوں کے خوفناک مناظر

اسرائیل کے عقوبت کدوں سے واپس آنے والے قیدیوں اور لاشوں پر بہیمانہ تشدد کے آثارو نشانات نے لواحقین کے زخم تازہ کردئے ہیں۔ بدترین ٹارچر کی وجہ سے بعض متاثرین کی شکلیں ایسی ہیں کہ ڈاکٹروں نے تدفین سے پہلے لواحقین کو انکی زیارت سے منع کردیا ہے۔

اور آخر میں اسرائیلی قید سے رہا ہونے والے غزہ کے رہائشی محمود ابو فول کی روداد۔

یہ نوجوان بمباری سے زخمی ہوا اور اسکی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔ محمود کو اسرائیلی فوج نے اسی حالت میں گرفتار کرلیا۔ تفتیش کے دوران اس سے ناکردہ جرائم کا اعتراف کرنے کو کہا گیا۔ انکار پر بجلی کے جھٹکے لگائے گئے ۔ لب کشائی کیلئے یہ حربہ بھی ناکام رہا تو دو جلاد،آہنی مکوں سے اس کے منہہ پر اسوقت تک ضرب لگائے تھے جب تک وہ بیہوش نہیں ہوگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے سمجھا کہ یہ رات ہے اور اسکے سیل کا بلب خراب ہے۔محمود نے چیخ پر گارڈ سے کہا کہ میرے سیل کا بلب فیوز ہوگیاہے ۔ جواب میں قہقہہ گونجا اور اسے بتایا گیا۔ بلب بالکل ٹھیک ہے تمہاری آنکھوں کا بلب فیوز ہوگیا ہے

غزہ کے ملبے تلے دفن یہ کہانیاں انسانیت کے امتحان، عالمی ضمیر کے سکوت، اور طاقت کے دوہرے معیار کا نوحہ ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 31 اکتوبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 31 اکتوبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 نومبر 2025


No comments:

Post a Comment