روس یوکرین جنگ
اب یوکرین کا پلہ بھاری
روس یوکرین
جنگ ایک نیا رخ اختیار کرگئی ہے اور روس کو پیشقدمی کے بجائے اب اپنی سرزمین کے
دفاع میں مشکل پیش آرہی ہے۔ تین کروڑ 34 لاکھ نفوس پر مشتمل یوکرین رقبے کے اعتبار
سے روس کے بعد یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب
کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتاتھا ویسے ہی یوکرین اور روس کاسرحدی علاقہ روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ85 لاکھ ایکڑ (7.5million hectares)رقبے پر گندم، جو، مکئی، rye،
تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ جنگ سے ایک سال قبل یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم
برآمد کیا جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔
یورپی
یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔چین اور
یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت
کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔لیبیا اپنی ضرورت کا 43 اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔افریقی ممالک، ملائیشیا ، انڈونیشیا
اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے
گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔
یوکرین
کے خلاف روسی جارحیت کا آغاز فروری 2014 میں ہوا جب جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضے کے
ساتھ ہی، مشرقی یوکرین کے دونیسک Donetskاور لوہانسک Luhanskصوبوں کےکچھ علاقوں پر روس نواز باغیوں نے
قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس علاقے کو جغرافیہ داں دونبس Donbasکہتے ہیں۔ اسکے دس برس بعد
بعد 24فروری 2022کو روس نے یوکرین پر ایک بار پھر حملہ کردیا جسے کریملن
نے 'خصوصی عسکری کاروائی' قراردیا۔ نیٹو رکنیت کیلئے یوکرین کی خواہش اس حملے کی
بنیادی وجہ تھی۔
روس یوکرین لڑائی جنگ عظیم
دوم کے بعد یورپی سرزمین پر لڑی جانیوالی پہلی بڑی جنگ ہے۔اس خونریزی ایک اور
منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں یوکرین کی جانب سے ترکیہ کے Bayraktar TB2 ڈرون کلیدی کردار
اداکررہے ہیں اور روس، ایران کے شاہد ڈرون استعمال کررہا ہے۔ شاہد ڈرون خود کش ہیں
جبکہ ترک ڈرون روائتی بمباروں کی طرح مطلوبہ ہدف پر قیامت ڈھاکر دوبارہ استعمال
کیلئے اہنے ٹھکانوں پر واپس آجاتے ہیں۔
اس جنگ نے جہاں یوکرینی شہریوں پر قیامت ڈھائی وہیں وہیں اس جنگ نے ساری دنیا کیلئے توانائی اور غذائی بحران پیدا
کردیا۔قدرت
کی مہربانی سےگندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیتوں کو زیادہ نقصان نہ پہنچا لیکن
کسانوں کی بڑی تعداد جان کے خوف سے نقل مکانی کرگئی اسلئے پیداوار میں کمی واقع ہوئی اور
جنگ کی وجہ غلےکی برآمد میں خلل
پڑا۔ساری دنیا خاص طور سے
افریقہ اور بحرروم کے ممالک میں غذائی قلت پیدا ہوگئی۔ترک صدر طیب ایردوان کی
کوششوں سے صورتحال اتنی خراب نہ ہوئی جسکا خیال ظاہر کیا جارہا تھا۔ لیکن روس پر
امریکی پابندیوں نے روسی اناج اور تیل کی برآمد کو ناممکن حد تک مشکل بنادیا۔تنازعے
کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انااور مغرب کے
خبطِ عظمت کی قیمت ایشیا اور افریقہ کے بھوکے اداکررہے ہیں۔
جب روسی فوج نے یوکرین پر دھاوا بولا، اسوقت کریملن کو یقین
تھا کہ عسکری کاروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو
نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائیگی۔ ابتدا میں روسی افواج نے جارحانہ پیشقدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین کے بڑے حصے
پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اور انکی فوجوں کا ہراول دستہ دارالحکومت کیف کے مضافات
تک جاپہنچا۔ مارچ 2022 کے اختتام تک روسی فوج نے جنوب میں Mariupolاور Multipoolپر قبضہ کرکے دونبس کو کریمیا سے ملاکر مشرقی
یوکرین میں راہداری مکمل کرلی۔شمال میں انکی فوجیں یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف
تک پہنچ گئیں۔ اس تیز رفتار پیشقدمی کی روس کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور غیر
جانب دار عسکری مبصرین کے خیال میں اس دوران روس کا جانی نقصان 1200 فوجی روزانہ
رہا۔
نیٹو
کی جانب سے بھرپور مدد نے یوکرین کو سہارا دیا اور نومبر 2022 میں یوکرین نے نہ
صرف روس کی پیشقدمی روک دی بلکہ روس کو خارکیف سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔تاہم اس سال
مارچ میں بھرپور حملہ کرکے روسی سپاہ دوبارہ خارکیف کے قریب پہنچ گئی۔
چند
ہفتہ پہلے صورتحال نے ڈرامائی کروٹ لی جب یوکرینی فوج نے خارکیف میں مزاحمت برقرا ررکھتے
ہوئے تازہ دم دستے اپنی شمال مشرقی سرحد سے روسی صوبے کرسک (Kursk) میں داخل کردئے۔ روسیوں کی اصل قوت مشرقی یوکرین کی
سرحدوں پر تعینات تھی اور شمال کا محاذ تقریباً خالی تھا۔اچانک آپڑنے والی افتاد
سے روسی فوج کے اوسان خطا ہوگئے اور یوکرینی ذرایع کے مطابق وہاں تعینات جرنیل نے
راہ فرار اختیار کرلی۔سورماوں کے بزدلانہ فرار سے فوج کا رہا سہاحوصلہ بھی جواب دے
گیا، سپاہیوں کی بڑی تعداد نے ہتھیار ڈالدئے اور یوکرینی فوجوں نے کسی بڑے نقصان
کے بغیر کرسک کے شہر سوزا (Sudzha)
سمیت 1200 مربع کلومیٹر روسی سرزمین پر قبضہ
کرلیا۔کرسک کے جنوب مغربی حصے پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد یوکرینی فوج بیلکرود (Belgorod)صوبے کی طرف پیشقدمی کررہی ہے۔
روسی
سرزمین پر یوکرین کے قبضہ صدر پیوٹن کیلئے شرمندگی کا باعث ہے جو اپنی قوم کو یقین
دلارہے تھے کہ روس کی شرائط پر جنگ بندی اور امن معاہدے کے سوا یوکرین کے پاس اب اور
کوئی راستہ نہیں۔لیکن یوکرین کی چشم کشا
جارحانہ حکمت عملی نے پانسہ پلٹ دیاہے۔ اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے بجائے
روسی سرحد پامال کرکے صدر ولادیمر زیلینسکی، روس کو یوکرین کی شرط پر جنگ بندی
کیلئے مجبور کرناچاہ رہے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اگست 2024