Thursday, August 29, 2024

روس یوکرین جنگ اب یوکرین کا پلہ بھاری

 

روس یوکرین جنگ

اب یوکرین کا پلہ بھاری

روس یوکرین جنگ ایک نیا رخ اختیار کرگئی ہے اور روس کو پیشقدمی کے بجائے اب اپنی سرزمین کے دفاع میں مشکل پیش آرہی ہے۔ تین کروڑ 34 لاکھ نفوس پر مشتمل یوکرین رقبے کے اعتبار سے روس کے بعد یورپ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتاتھا ویسے ہی یوکرین  اور روس کاسرحدی علاقہ  روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ85 لاکھ ایکڑ (7.5million hectares)رقبے پر گندم، جو، مکئی، rye، تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ جنگ سے ایک سال قبل یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کیا جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔

یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔لیبیا اپنی ضرورت کا 43  اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔افریقی ممالک، ملائیشیا ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔

یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کا آغاز فروری 2014 میں ہوا جب جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضے کے ساتھ ہی، مشرقی یوکرین  کے دونیسک Donetskاور لوہانسک  Luhanskصوبوں کےکچھ علاقوں پر روس نواز باغیوں نے قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس علاقے کو جغرافیہ داں دونبس Donbasکہتے ہیں۔ اسکے دس برس بعد بعد 24فروری 2022کو روس نے یوکرین پر ایک بار پھر حملہ کردیا جسے کریملن نے 'خصوصی عسکری کاروائی' قراردیا۔ نیٹو رکنیت کیلئے یوکرین کی خواہش اس حملے کی بنیادی وجہ تھی۔

روس یوکرین لڑائی جنگ عظیم دوم کے بعد یورپی سرزمین پر لڑی جانیوالی پہلی بڑی جنگ ہے۔اس خونریزی ایک اور منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں یوکرین کی جانب سے ترکیہ کے Bayraktar TB2 ڈرون کلیدی کردار اداکررہے ہیں اور روس، ایران کے شاہد ڈرون استعمال کررہا ہے۔ شاہد ڈرون خود کش ہیں جبکہ ترک ڈرون روائتی بمباروں کی طرح مطلوبہ ہدف پر قیامت ڈھاکر دوبارہ استعمال کیلئے اہنے ٹھکانوں پر واپس آجاتے ہیں۔

اس جنگ نے جہاں یوکرینی شہریوں پر قیامت ڈھائی وہیں وہیں اس جنگ نے ساری دنیا کیلئے توانائی اور غذائی بحران پیدا کردیا۔قدرت کی مہربانی سےگندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیتوں کو زیادہ نقصان نہ پہنچا لیکن کسانوں کی بڑی تعداد جان کے خوف سے نقل مکانی کرگئی اسلئے پیداوار میں کمی  واقع ہوئی اور  جنگ کی وجہ غلےکی  برآمد میں خلل پڑا۔ساری دنیا خاص طور  سے افریقہ اور بحرروم کے ممالک میں غذائی قلت پیدا ہوگئی۔ترک صدر طیب ایردوان کی کوششوں سے صورتحال اتنی خراب نہ ہوئی جسکا خیال ظاہر کیا جارہا تھا۔ لیکن روس پر امریکی پابندیوں نے روسی اناج اور تیل کی برآمد کو ناممکن حد تک مشکل بنادیا۔تنازعے کا افسوسناک  پہلو یہ ہے کہ انااور مغرب کے خبطِ عظمت کی قیمت ایشیا اور افریقہ کے بھوکے اداکررہے ہیں۔

جب روسی فوج نے یوکرین پر دھاوا بولا، اسوقت کریملن کو یقین تھا کہ عسکری کاروائی کا دورانیہ چار دن سے زیادہ نہیں  ہوگا اور یکم مارچ کو دارالحکومت کیف میں ماسکو نواز حکومت کے قیام کے بعد روسی افواج کی فاتحانہ واپسی شروع ہوجائیگی۔ ابتدا میں  روسی افواج نے جارحانہ پیشقدمی کرکے جنوب مشرقی یوکرین  کے بڑے حصے پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اور انکی فوجوں کا ہراول دستہ دارالحکومت کیف کے مضافات تک جاپہنچا۔ مارچ 2022 کے اختتام تک روسی فوج نے جنوب میں Mariupolاور Multipoolپر قبضہ کرکے دونبس کو کریمیا سے ملاکر مشرقی یوکرین میں راہداری مکمل کرلی۔شمال میں انکی فوجیں یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف تک پہنچ گئیں۔ اس تیز رفتار پیشقدمی کی روس کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اور غیر جانب دار عسکری مبصرین کے خیال میں اس دوران روس کا جانی نقصان 1200 فوجی روزانہ رہا۔

نیٹو کی جانب سے بھرپور مدد نے یوکرین کو سہارا دیا اور نومبر 2022 میں یوکرین نے نہ صرف روس کی پیشقدمی روک دی بلکہ روس کو خارکیف سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔تاہم اس سال مارچ میں بھرپور حملہ کرکے روسی سپاہ دوبارہ خارکیف کے قریب پہنچ گئی۔

چند ہفتہ پہلے صورتحال نے ڈرامائی کروٹ لی جب یوکرینی فوج نے خارکیف میں مزاحمت برقرا ررکھتے ہوئے تازہ دم دستے اپنی شمال مشرقی سرحد سے روسی صوبے کرسک (Kursk) میں داخل کردئے۔ روسیوں کی اصل قوت مشرقی یوکرین کی سرحدوں پر تعینات تھی اور شمال کا محاذ تقریباً خالی تھا۔اچانک آپڑنے والی افتاد سے روسی فوج کے اوسان خطا ہوگئے اور یوکرینی ذرایع کے مطابق وہاں تعینات جرنیل نے راہ فرار اختیار کرلی۔سورماوں کے بزدلانہ فرار سے فوج کا رہا سہاحوصلہ بھی جواب دے گیا، سپاہیوں کی بڑی تعداد نے ہتھیار ڈالدئے اور یوکرینی فوجوں نے کسی بڑے نقصان کے بغیر کرسک کے شہر سوزا (Sudzha) سمیت 1200 مربع کلومیٹر روسی سرزمین پر قبضہ کرلیا۔کرسک کے جنوب مغربی حصے پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد یوکرینی فوج بیلکرود (Belgorod)صوبے کی طرف پیشقدمی کررہی ہے۔

روسی سرزمین پر یوکرین کے قبضہ صدر پیوٹن کیلئے شرمندگی کا باعث ہے جو اپنی قوم کو یقین دلارہے تھے کہ روس کی شرائط پر جنگ بندی اور امن معاہدے کے سوا یوکرین کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں۔لیکن یوکرین کی  چشم کشا جارحانہ حکمت عملی نے پانسہ پلٹ دیاہے۔ اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے بجائے روسی سرحد پامال کرکے صدر ولادیمر زیلینسکی، روس کو یوکرین کی شرط پر جنگ بندی کیلئے مجبور کرناچاہ رہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اگست 2024


مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا وقفہ امن مذاکرات کے دوران اسرائیل کا لبنان پر بڑا حملہ امریکہ کی امن تجویز یا ہتھیار ڈالنے کی دستاویز؟؟ غزہ کی دو حصوں میں تقسیم کیلئے نظارم راہداری کی تعمیر غیر مشروط جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی پر مزاحمت کاروں کا اصرار

 

مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا وقفہ

امن مذاکرات کے دوران اسرائیل کا لبنان پر بڑا حملہ

امریکہ کی امن تجویز یا ہتھیار ڈالنے کی دستاویز؟؟

غزہ کی دو حصوں میں تقسیم کیلئے نظارم راہداری کی تعمیر

 غیر مشروط جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی پر مزاحمت کاروں کا اصرار

ایک ہفتہ 'سُستانے' کے بعد امریکی، اسرائیلی اور عرب مذاکرات کاروں نے غزہ امن کیلئے قاہرہ میں سر جوڑ لئے۔ اسرائیلی وفد کی قیادت موساد کے سرنراہ ڈیوڈ برنی جبکہ اسرائیلی فوج کے تزویرانی (اسٹریٹیجک) ڈائریکٹر  الائیزر تولیڈانو Eliezer Toledanoانکی اعانت کررہے ہیں۔امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس، قطر کے وزیراعظم و وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور مصر کے عسکری و سراغرساں حکام بھی بات چیت میں شریک ہیں۔عجیب بات کہ مزاحمت کاروں کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ ان کے ایک نمائندے نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPکو بتایا کہ اہلِ غزہ  کا ایک نمائندہ بھی قاہرہ جارہا ہے تاہم وہ امن اور قیدیوں کی رہائی پر ہونے والی بات چیت میں حصہ نہیں لیگا۔

امریکہ اور اسرائیل نے 'معاہدہ امن' کی جو تجویز پیش کررہے ہیں اسکے مطابق

  • معاہدے پر دستخط ہوتے ہی تمام عسکری سرکرمیاں روک دی جائینگی تاکہ قیدیوں کا تبادلہ پرامن انداز میں ہوسکے
  • اہل غزہ تمام اسرائیلی قیدی رہا کردینگے جبکہ رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اسرائیل کی تیار کردہ فہرست کے مطابق ہوگی
  • اسرائیلی فوج غزہ سے واپس نہیں ہوگی بس آبادعلاقوں سے پیچھے ہٹ جائیگی
  • مصری سرحد پر فلاڈیلفی راہداری (Philedelphi Corridor)  کے علاوہ غزہ پٹی کو درمیان سے تقسیم کرنے والی نظارم راہدرای (Netzarim Corridor)پر اسرائیلی فوج موجود رہیگی
  • بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی اسرائیلی  فوجی چوکیوں سے گزر کر ہوگی
  • غزہ تعمیر نو کاسارا کام اسرائیلی حکام کی نگرانی میں ہوگا
  • 'دہشت گردی' کی صورت میں اسرائیل کو پھرپورفوجی کاروائی کا حق حاصل ہوگا

قاہرہ میں امن مذاکرات جاری تھے کہ 24 اور 25 اگست کی درمیانی شب اسرائیل نے جنوبی لبنان پر خوفناک حملہ کردیا۔ امریکی ساختہ 100 طیاروں کی ٹکری نے سینکڑوں مقامات پر بم اور میزائیل برسائے۔ صبح کو اپنے وزیردفاع اور عسکری سربراہ کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے فخر سے کہا کہ لبنانی، اپنے کمانڈر فہد شکر کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے اسرائیل پر بڑا حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فضائیہ نے انکا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔ موصوف کی یہ لن ترانی جاری ہی تھی کہ فضا گڑگڑاہٹ سے تھرّا اٹھی۔لبنانی مزاحمت کاروں نے بیک وقت320 روسی ساختہ  Katyusha راکٹ، میزائیل اور خودکش ڈرون داغ دئے۔ امریکہ کے فراہم کردہ دفاعی نظام، آئرن ڈوم نے اکثر میزائیل دوارانِ پرواز غیر موثر کردئے لیکن مزاحمت کاروں نے جلیل الاعلیٰ (Upper Galilee)میں جبل الجرمق (Mount Meron)کے اسرائیلی اڈے، تل ابیب کے قریب گیلوٹ میں اسرائیلی فوج کے سراغرساں مرکز اور جولان کی پہاڑیوں پر چار عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔میزائیل حملے میں لبنانی سرحد کے قریب گشت کرتی بحریہ کی ایک کشتی ڈوب گئی اور ایک پیٹی افسر ہلاک ہوگیا۔ شعلوں سے جھلس کر کشتی پر سوار کئی فوجی زخمی بھی ہوئے۔اسرائیلی حکام نے گیلوٹ پر حملے کی تردید کی ہے۔

اسی کیساتھ 25 اگست کی صبح اہل غزہ نے وسطی اسرائیل کی جانب راکٹ داغ کر امریکہ امن منصوبہ مسترد کرنے کا اعلان کردیا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے  مطابق ایک بیان میں مزاحمت کاروں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اسرائیلی فوج کی مکمل پسپائی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر بات نہیں ہوگی۔ بات چیت کے دوران اسرائیلیوں نے خیر سگالی کے طور پر مرکزی قیادت کو نشانہ نہ بنانے کی پیشکش کی تھی جسے اہل غزہ نے انتہائی توہین آمیز قراردیا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے قائدین کا خون 30 ہزار بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں۔ مزاحمت کاروں کے خیال میں یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی میں سہولت کاری کی فارمولا ہے۔

اسرائیل اور مصر دونوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا موجودہ دور کسی اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگیالیکن امریکہ کے خیال میں گفتگو کے دوران فریقین کا انداز مثبت رہا۔واشنگٹن پرامید ہے کہ معاہدہ جلد ہوجائیگااور تفصیلات طئے کرنے کیلئے ورکنگ گروپ میں بات چیت جاری رہیگی۔ معلوم نہیں یہ چچا سام کی خوش فہمی ہے یا کملا ہیرس کی انتخابی مہم کا حصہ۔

یہاں فلاڈیلفی اور نظارم راہداریوں پر چند سطور سے قارئین کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے عسکری انخلا پر اصرار کی وجہ سمجھنے میں مدد ملے کی۔

فلسطینیوں کے تابڑ توڑ حملوں سے پریشان ہوکر 2004 میں اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نےقبضہ بستیاں (Settlements) اپنے ہاتھوں مسمار کرکے غزہ سے واپسی کی قرارداد منظور کی جو 'معاہدہ دستبردای یا Disengagement Agreementکے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے کے تحت مصر غزہ سرحد پر بحیرہ روم سے کریم شلوم تک 100میٹر چوڑی پٹی کو فلاڈیلفی راہداری کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت اس راہداری کے جنوب یعنی مصری سرحد پرواقع معبر رفح ( رفح کراسنک) کی نگرانی مصری فوج کریگی اور راہداری کے شمالی حصے میں مقتدرہ فلسطین (PA)کے فوجی تعینات ہونگے۔ اس بندوبست کامقصد غزہ کی ناکہ بندی تھا کہ ساحلوں  کی جانب اسرائیلی بحریہ جبکہ شمالی و مشرقی سرحدوں پر اسرائیلی فوج کھڑی ہے۔ پارلیمانی اتتخابات میں مزاحمت کاروں کی زبردست کامیابی اور اسماعیل ہنیہ کے وزیراعظم بننے کے بعد اہل غزہ اور مقتدرہ فلسطین میں کشیدگی پیدا ہوئی اور جب اسرائیل و مغرب کے دباو پر ہنیہ معزول کئے گئے تو کشیدگی نے خونریز تصادم کا رخ اختیار کرلیا اور بات چیت کے بعد مقتدرہ فلسطین نے فلاڈیلفی راہداری سے اپنے فوجی ہٹالیے۔ اب اسکے ایک جانب مزاحمت کار دستے تھے تو رفح گیٹ کے دوسری جانب مصری فوج۔

صدر حسنی مباک کے دور تک ر فح گیٹ مضبوطی سے مقفل رہا اور ایک سوئی بھی مصری خفیہ پولیس کی چھان پھٹک کے بغیر نہ آسکتی تھی۔ زبردست عوامی تحریک کے بعد ہونے والے  کے انتخابات میں جب ڈاکٹر مورسی مصر کے صدر منتخب ہوگئے تو 30 جون 2012کو حلف اٹھانے ہی انھوں نے رفح جاکر علامتی تالہ یہ کہہ کر توڑ دیا کہ فلسطینیوں تم ہمارے اور مصر تمہارا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں صرف ایک سال بعد مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر معزول کرکے جیل بھیج دئے گئے اور حراست کے دوران ہی 2019میں انکا انتقال ہوگیا، جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی غزہ کی ناکہ بندی سخت کردی۔اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ اپنے ایک سالہ اقتدار میں ڈاکٹر مرسی نے راہداری کے نیچے سرنگیں کھُدوائیں جن سے اسلحہ غزہ بھیجا جارہا تھا۔ جنرل السیسی نے سرنگوں کا سراغ لگاکر انھیں گٹر کے غلیظ پانی سے بھردیا لیکن اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ بہت سی سرنگیں اب بھی موجود ہیں۔ اسی کا بہانہ بناکر اسرائیل نے ر فح کی گنجاں آبادی پر دس دن تک مسلسل بمباری کرکے اس راہداری پر قبضہ کرلیا۔ اس آپریشن میں ہزاروں نہتے فلسطینی مارے گئے۔ گزشتہ ہفتے ر فح کے قریب المواصی کے کھیتوں میں کام کرتے چار دہقانوں کو ٹینکوں نے روند دیاگیا۔

فلاڈلفی راہداری کے علاوہ کنٹرول مستحکم کرنے کیلئے غزہ پٹی کے بیچوں بیچ اسرائیل سرحد پر  نحل آز سے بحر روم کے ساحل تک نظارم کے نام سے ایک  7 کلومیٹر طویل اور چار کلومیٹر چوڑی اضافی راہداری تعمیر کی گئی ہے۔ یہاں نظارم نام کی اسرائیلی بستی موجود تھی جسے 2005 میں پسپا ہوتے ہوئے اسرائیلی فوج نے خود تباہ کیا تھا۔ راہداری کو اپنی 'عظمت رفتہ' سے موسوم کرکے قبضہ گردوں نے بد نیتی ظاہر کردی ہے۔راہداری کا راستہ بنانےکیلئے بحیرہ روم  کے ساحل پر آباد فلسطینیوں کے ہنستے  بستے شہر دیر البلاح کو فنا کردیا گیا۔اسکے بازار پر بمباری سے درجنوں جاں بحق ہوئے اور ایک اسکول کو زمیں بوس کردیا گیا جس میں بچوں سمیت 22 افرارد زندہ دفن ہوگئے۔

اس راہداری نے 41 کلومیٹر طویل غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہےجنکا ایک دوسرے سے اب کوئی رابطہ نہیں۔ جنوب میں  رفح یا فلاڈیلفی اور درمیان میں نظارم راہداری پر کنٹرول برقرار رہنے کی صورت میں غزہ،  غربِ اردن کی شکل اختیار کرجائیگا۔

اہل غزہ کے سخت روئے پر اب یہ کہا جارہا ہے کہ رفح پر کنٹرول کے معاملے میں تو اسرائیل کوئی رعائت دینے کو تیار نہیں لیکن نظارم راہداری کا انتظام امریکہ، اسرائیل اور 'معتدل' عرب ریاستوں کی مشترکہ فوج کو دینے پر نیتن یاہو کو رضامند کیا جاسکتا ہے۔ اس افواہ نما نئی تجویز پر اہل غزہ کا رد عمل سامنے نہیں آیا۔

شرمناک شرائط اہل غزہ سے منوانے کیلئے غزہ پر آتش و آہن کی بارش تیز کردی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطین UNRWAکا کہنا ہے کہ 17 اگست سے غزہ پرمسلسل بمباری ہورہی ہے۔تمام پناہ گاہیں تباہ ہوچکی ہیں۔لوگ بمباری اور ڈرونوں کی برستی گولیوں سے بچنے کیلئے تباہ شدہ عمارت کے ملبے کے بچے کھچے حصوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج اس بے رحمی سے بمباری کررہی ہے کہ گزشتہ ہفتے انکے اپنے فوجی لپیٹ میں آگئے اور اکیس سالہ اسرائیلی کپتان ہلاک ہوگیا۔غزہ کیساتھ غرب اردن پر غضب ڈھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اسرائیلی فوج کے کیساتھ مسلح قبضہ گرد فلسطینی آبادیوں پر حملہ کررہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مشترکہ کاوائی میں قلقیلیہ کا گاوں باقۃ الحطب تباہ کردیا گیا۔فوجی گھروں میں گھس گئے، خواتین کے بال نوچے گئے۔ حملے میں درجنوں مکان منہدم ہوئے اور سو سے زیادہ نوجوانوں کو فوج پکڑ کر لے گئی۔

کامیابی کے دعوے اور بہیمانہ کاروائی اپنی جگہ لیکن مزاحمت میں کمی کے اب تک کوئی آثار نہیں۔انیس اگست کو تل ابیب میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں بمبار جاں بحق  اور افراد چند افراد زخمی ہوئے۔ اہل غزہ نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے اعلامئے میں کہا کہ یہ محض آغاز ہے۔ ہمارے گھروندے پھونکنے والوں کے محلات بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

اسرائیل  فوج بھی شدید دباو میں ہے اور سپاہیوں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں۔ روزنامہ الارض (Haaretz) کے مطابق محفوظ دستوں (Reservists) کے 15000سپاہیوں کو طویل دورانیے تک محاذ پر فرائض انجام دینے کے بعد گھر واپس جاتے ہی دوبارہ طلب کرلیا گیا۔ کنیسہ کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے روبرو سماعت کے دوران اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ نوجوان فوج میں بھرتی سے گریز کررہے ہیں، لازمی فوجی بھرتی سے بچنے کیلئے بیماری کا بہانہ اور  استثنی کیلئے حفظ توریت مدارس (Yeshiva)میں داخلے بڑھ گئے ہیں۔مدارس کے طلبہ کی جانب سے فوی بھرتی کی حکم عدولی جاری ہے۔اخباری نمایندوں سے باتیں کرتے ہوئے ان طلبہ کے ترجمان نے کہا 'ہتھکڑی پہن کر جیل جانا، فوجی وردی پہن کر غزہ کی جہنم میں اترنے سے بہتر ہے'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 اگست 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 30 اگست 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم ستمبر 2024


Thursday, August 22, 2024

حسینہ واجد پر بین الاقوامی جرائم کی عدالت (ICC)میں مقدمہ کپڑےکی صنعت کو خطرہ ہنگاموں میں فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا۔ اقوام متحدہ

 

حسینہ واجد پر بین الاقوامی جرائم کی عدالت (ICC)میں مقدمہ

کپڑےکی صنعت کو خطرہ

ہنگاموں میں فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا۔ اقوام متحدہ

بنگلہ دیش میں صورتحال آہستہ آہستہ معمول پر آتی جارہی ہے۔ تاہم عوامی سطح پر حسینہ واجد اور انکےوالد شیخ مجیب الرحمان کیخلاف نفرت کم ہوتی نظر نہیں آتی اور عوامی لیگی کارکنوں پر حملے کے اکا دکا واقعات اب بھی ہورہے ہیں۔ بدھ 14 اگست کو عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس سے فون پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے  کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک(  (Volker Türk نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات کی تحقیق کیلئے ایک ٹیم ڈھاکہ بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے

اس گفتگو کے بعد کمشنر کے آفس  نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ بنگلہ دیش کے حالیہ ہنگاموں میں 32 بچوں سمیت ساڑھے چھ سو ہلاک اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ زخمی اور ہلاک شدگان میں مظاہرین کے علاوہ عام راہگیر بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فوج نے مظاہرین کیخلاف طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا۔ کمشنر نے عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ تناو اور کشیدگی کم کرنے اور اقلیتوں کے تحفظ کے موثر اقدامات کے جائیں۔

مظاہرین پر تشدد اور قتل عام کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے بنگلہ دیش کے بین الاقوامی جنگی جرائم ٹریبونل (ICT)نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ مکافات عمل کا جبر کہ حسینہ واجد صاحبہ نے یہ کمیشن اپنے دورحکومت میں جماعت اسلامی کے رہنماوں کو پھانسی دینے کیلئے تشکیل دیا تھا۔ حسینہ واجد کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی کے رہنماوں کے خلاف 'جنگی جرائم' کے مقدمات بین الاقوامی جرائم عدالت (ICC)میں چلائے جائیں لیکن ICCنے عدم شواہد کی بنا پر مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ انھوں نے ایک کچن ٹریبیونل بناکر جماعتی رہنماوں کو تختہ دار پر کھینچ دیا۔

اب اسی ٹریبیونل میں حسینہ واجد اور انکی حکومت کے 8 افراد پرانسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا مقدمہ دائر کردیا گیا۔ استغاثہ، پولیس کی براہ راست فائرنگ سے مارے جانے والے طالب علم احمد صائم کے غمزدہ باپ کی جانب سے بنگلہ دیشی وکیل غازی ایم ایچ تمیم  نے درج کرایا ہے۔احمد صائم نویں جماعت کا طالب علم تھا۔مقدمے میں شیح حسینہ واجد کے ساتھ سابق وزیر مواصلات عبیدالقدیر، سابق وزیرداخلہ اسدالزمان خان، سابق وزیر مملکت برائے مواصلات جنید احمد پالک، سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات محمد علی عرفات، سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللّٰہ المامون ، سابق سربراہ محکمہ سراغرسانی (ڈی بی) چیف ہارون رشید، پولیس کمشنر ڈھاکہ حبیب الرحمان اور ریپیڈ ایکشن بٹالین (ریب) کے سابق ڈائریکٹر جنرل ہارون الرشید کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ایم ایچ تمیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ICTکیساتھاایسی ہی درخواست وہ ICCکو بھی پیش کررہے ہیں۔

بنگلہ دیشی حکومت، حسینہ واجد کی حوالگی کیلئے ہندوستان سے درخواست کررہی ہے۔ ڈاکٹر یونس کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ  15 اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی پر مبارکباد کیلئے جب انھوں نے وزیراعظم نریندرامودی کو فون کیا تو سابق وزیراعظم کی حوالگی پر بھی بات ہوئی۔ سفارتی ذرایع کے مطابق ہندوستانی وزیراعظم نے ڈاکٹر یونس کی بات تحمل سے سن کر کہا کہ درخواست ملنے کی صورت میں معاملے کے تفصیلی جائزے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائیگا۔

تطہیر و احتساب کیساتھ عبوری حکومت کیلئے اسوقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے۔ بنگلہ دیشی برآمدات کا 90 فیصہ حصہ سلے سلاے کپڑوں یا گارمنٹس پر مشتمل ہے۔ بنگلہ دیشی ساختہ پاپلین اور فلالین کی قمیضیں امریکہ اور یورپ میں خاصی مقبول ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق سلے سلائے کپڑوں کی برآمدات میں بنگلہ دیش کا چین کے بعد دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ George Classic, Croft & Barrowاور Wranglerبرانڈ کی بنگلہ دیش ساختہ مردانہ قمیضیں امریکہ میں ہرجگہ نظر آتی ہیں۔

احتجاج کے دوران سرکاری املاک کے ساتھ معروف برانڈز کے کارخانے بڑے پیمانے پر نذرِآتش ہوئے۔ کپڑوں کے اکثر بڑے کارخانے عوامی لیگ رہنماوں کی ملکیت ہیں اسلئے عوام نے ان پر اپنا غصہ اتارا۔ لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ کارخانے جل جانے کی بنا پر عالمی فیشن برانڈز کی طلب کے مطابق مال کی فراہمی بنگلہ دیش کیلئے ممکن نہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا میں موسم سرما کےلیے کپڑوں کی فراہمی میں تاخیر ہورہی ہے۔ جسکی وجہ سے عالمی تقسیم کنندگان نے دوسرے ممالک کا رخ کرلیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کو ملنے والے آرڈر کا 40 فیصد حصہ کمبوڈیا یا انڈونیشیا کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔

اگلے ماہ سے کرسمس کیلئے آرڈر جاری ہونگے اور لگتا ہے کہ فراہمی کے حوالے سے بنگلہ دیش پر تقسیم کنندگان کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے جسکی بحالی میں وقت لگے گا۔ برآمدات کے بنگلہ دیشی ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ  بین الاقوامی برانڈز نے کرسمس کیلئے چین، تھائی لینڈ، مصر، کمبوٖڈیا اور انڈونیشا کی طرف دیکھنا شروع کردیاہے۔ اگر بنگلہ دیشی کارمنٹس کی صنعت پر عالمی برانڈز کا اعتماد بحال نہ ہوا تو سُنار بنگلہ کی معیشت بدترین کساد بازاری کا شکار ہوسکتی ہے۔معاملہ صرف بنگلہ دیش تک محدود نہیں بلکہ اسکے منفی اثرات سے ہندوستان بھی متاثر ہوگا جو یہاں کی گارمنٹس صنعت کو سالانہ 11 ارب ڈالر مالیت کے دھاگے اور خام مال فراہم کرتا ہے۔

عبوری حکومت کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے۔ گارمنٹس فیکٹریوں کے گرد  فوج کی تعیناتی کے ساتھ صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایک Quick Reaction Force (QRF) تشکیل دی گئی ہے جسکی نگرانی ڈاکٹر یونس خود کررہے ہیں۔

عمدہ معیار کے پارچہ جات اور خوبصورت سلائی کی وجہ سے  ساختہ بنگلہ دیش کپڑوں کی امریکہ میں مقبولیت عروج پر ہے۔ اسی بنا پر مقامی تاجروں کا خیال ہے کہ اگر ملکی سیاست میں استحکام اور امن و امان بحال ہوجائے تو منسوخ شدہ آرڈر واپس آسکتے ہیں۔

 ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اگست 2024

ہفت رزوہ دعوت دہلی 23 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 23 اگست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 اگست 2024


مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا وقفہ انسانی جانوں کے زیاں پر تشویش لیکن بمباری کیلئے طیارے اور بموں کی فراہمی جاں بحق ہونے والے اہل غزہ کی تعداد 40 ہزار ہوگئی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سعودی ولی عہد کی جان کو خطرہ

 

مذاکرات کار 'تھک گئے' بات چیت میں ایک ہفتے کا وقفہ

انسانی جانوں کے زیاں پر تشویش لیکن بمباری کیلئے طیارے اور بموں کی فراہمی

 جاں بحق ہونے والے اہل غزہ کی تعداد 40 ہزار ہوگئی

اسرائیل کو تسلیم کرنے پر سعودی ولی عہد کی جان کو خطرہ

غزہ میں ہر لمحے بے گناہ افراد مارے جارہے ہیں لیکن  ٹھیکیدارانِ امن کے نخرے ہی ختم ہونے کو نہیں آرہے۔قطر میں امریکہ، اسرائیل، مصراور میزبان ملک کے لال بجھکڑ دو دن بات چیت کے بعد تھک گئے اور گفتگو کا اگلا دورایک ہفتہ بعد قاہرہ میں ہوگا۔مذاکرات کی میز پر مزاحمت کار موجود نہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے امریکہ سے بمو ں کی نئی کھیپ ملنے پر بارود کی بارش تیز کردی ہے۔ اوسطاً 40 حملے یومیہ کئے جارہے ہیں۔تازہ ترین اعدادشمار کے مطابق 7 اگست کو اس وحشت کے 10 مہینے مکمل ہونے پر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40 ہزار سےتجاوز کرچکی ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔ان میں ملبے تلے دبے ہزاروں افراد شامل نہیں۔خونریزی کیلئے امریکہ ، برطانیہ، جرمنی اور ہندوستان کا اسلحہ استعمال ہورہا ہے۔

آبنوشی اور نکاسیِ آب کا ڈھانچہ تباہ ہوجانے کی وجہ سے وبائی امراض شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ شدید بمباری، اسکولوں کی بندش اور صحت کی سہولتیں تباہ ہونے کی بنا پر اس سال بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاسکے۔ گزشتہ ہفتے ایک 11ماہ کی بچی پولیو سے متاثر پائی گئی۔ انیس برس پہلے غزہ میں فلسطینیوں کی حکومت قائم ہونے پر وزارت صحت نے زبردست مہم چلا کر پوری پٹی کو پولیو سے پاک کردیا تھا۔ اب یہ موذی مرض دوبارہ رینگ رہا ہے۔خوراک کی قلت یا malnutrition کی شکل میں معذوری کی ڈائن پہلے ہی معصوم بچوں کا کلیجہ چبارہی تھی کہ اب پولیو کے اژدہے نے بھی اپنا منہہ کھول دیا ہے۔

قطر کے حالیہ مذاکرات سے پہلے اہل غزہ نے صاف صاف کہا کہ مکمل و غیر مشروط جنگ بندی اور فوجی انخلا پر اسرائیل کی آمادگی سے پہلے قیدیوں کے تبادلے پر بات نہیں ہوگی۔ شائد اسی لئے مہذب دنیا 25 لاکھ انسانوں کی موت کا انتظار کررہی ہے۔ دس ماہ کے دوران ڈیڑھ لاکھ اہل غزہ کو قتل اور زخمی کر کے ٹھکانے لگایا جاچکا۔ بمباری کیساتھ قحط اور وبائی امراض کا ہتھیار بھی اب بہت موثر انداز میں استعمال ہورہا ہے۔ مغربی دنیا اور انکے عرب اتحادیوں کو یقین ہے کہ کہ باقی بچ جانے والے 23 لاکھ سخت جان بھی جلد ہی پیوند خاک ہوجائینگے۔صدر ٹرمپ کے داماد نے Gaza Beachfront کی تیاری شروع کردی ہے اور اس نفع بخش منصوبے سے روپئے کی آٹھ چونّی بنانے کیلئے اماراتی و عرب سرمایہ کار بھی پر عزم ہیں۔

 فائربندی کیلئے امریکہ کی دوڑ دھوپ قطری فرمانروا تمیم بن حمد کے اس بیان کے بعد بڑھ گئی جس میں انھوں کہا کہ اگر غزہ خونریزی بند ہوجائے تو وہ ایران کو قتلِ اسماعیل ہانیہ کے انتقام سے  دستبردار ہونے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے سیاسی و سفارتی ذرایع کاکہنا ہے کہ مذاکرات کے آغاز پر امیرِ قطر نے ایران سے درخواست کی تھی کہ امن کا 'ماحول' بنانے کیلئے بات چیت کے دوران اسرائیل پر حملہ نہ کیا جائے جس کا تہران نے مثبت جواب دیا اور ایرانی قیادت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر امن کیلئے اہلِ غزہ کی شرائط مان لی جائیں تو اسرائیل پر حملے کا منصوبہ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ 

غزہ جنگ بندی اسرائیلی وزیراعظم کی سیاسی عاقبت کیلئے بے حد مہلک ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ اگر انکی جماعت اور اتحادی دوبارہ انتخابات جیت گئے تب بھی نیتن یاہو وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت انتہا پسندوں کو اکسا کر[ma1]  جنگی جنون و ہیجان برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

بدھ 14 اگست کی صبح اسرائیلی وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے ایک بار پھر مسلح فوجیوں کے پہرے  میں گنبد صخرا کے قریب عبادت کی۔ یہ 1967 کے معاہدہ Status Queکی خلاف ورزی ہے جسکے تحت غیر مسلم بلا اجازت القدس شریف (مشرقی بیت المقدس) میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ خود یہودی عقائد کے اعتبار سے بھی درست نہیں کہ معبد عظمیٰ (Temple Mount)کی تعمیرِ نو سے پہلے یہودیوں کا القدس شریف میں داخلہ توہینِ ناموس حضرت سلیمان ؑہے۔اسرائیلی وزیر کی القدس شریف میں دراندازی پر سرکاری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا 'مسٹر بن گوئر کا Temple Mount جانا ان اقدامات میں شامل ہے جسے امریکہ اسرائیل کی سلامتی سے انحراف اور خطے میں عدم تحفظ وعدم استحکام کا باعث سمجھتا ہے'۔ کچھ ایسا ہی بیان یورپی یونین سے بھی آیا اور اسرائیلی انتہاپسندوں کا یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے بیانات محض موذیوں کا منہہ بند کرنے کو دئے جاتے ہیں۔ 

اسکے دوسرے دن انتہا پسند غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔پئے در پئے جانی نقصان اٹھاکر 15اگست 2005 کو اسرائیل نے تمام بستیاں اپنے ہاتھوں مسمار کرکے غزہ خالی کردیا تھا۔انتہا پسندوں نے اس دن کی یاد منانے اور دوبارہ آبادکاری کیلئے غزہ میں خیمہ زنی کامنصوبہ بنایا۔قافلے کا استقبال سوختہ جاں اہل غزہ نے بھرپور فائرنگ سے کیاچنانچہ اسرائیلی فوج نے ان لوگوں کو غزہ کی سرحد پر روک دیا۔قبضے کی علامت کے طور پر وہیں سحر کی نماز یا شاہریت ادا کی گئی۔شایع شدہ پروگرام کے تحت تینوں فرض نماز غزہ میں ادا کرنی تھیں۔ لیکن شدید مزاحمت کی بنا نمازِسحر کے بعد ہی ممجع منتشر ہوگیا۔احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ یہودیوں کے یہاں روزانہ تین نمازیں فرض ہیں۔

شاہریت (Shacharit): شاہریت دراصل سحر کی نماز ہے جسکا وقت طلوع آفتاب سے دو گھنٹے تک ہے۔ اس نماز کا حکم حضرت ابراہیمؑ نے دیا تھا

منشا (Minchah):اس نماز کا وقت زوال سے غروب آفتاب تک ہے۔ توریت کے مطابق اس دوسری نماز کا آغاز حضرت اسحاقؑ نے کیا اور توریت میں یہ 'ظہر' درج ہے

مغرب (Maarive) کا وقت غروب آفتاب کے ڈیڑھ گھنٹے بعد سے نصف شب تک ہے۔ اس نماز کا حکم حضرت یعقوب ؑ المعروف اسرائیل نے دیا تھا

اسی دن غرب اردن میں قیلقیلہ کے گاؤں جیت پر مسلح اسرائیلی قبضہ گرد (Setters)چڑھ دوڑے۔اندھا دھند فائرنگ کے بعد درجنوں مکانات،گاڑیاں اور مویشی خانے جلا دئے گئے۔فائرنگ سے ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ غنڈوں کو فوج کا تحفظ حاصل تھا۔

امریکہ بہادر بزعم خود امن مذاکرات کے سب سے بڑے سہولت کارہیں اور انکے اخلاص کا یہ عالم کہ مذاکرات کے نئے دور کے آغاز پر 14 اگست کو امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن صاحب نے بہت مسرت کے ساتھ اسرائیل کیلئے 20 ارب ڈالر عسکری امداد کا اعلان فرمایا۔ اس رقم میں سے 19 ارب ڈالر، ایف 15 بمبار طیاروں پر خرچ ہونگے جبکہ ٹینک کے گولے، بکتر بند گاڑیوں اور دوسرے 'دفاعی' سامان کیلئے ایک ارب ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔ بیس ارب کی یہ اعانت،  14 ارب ڈالر کی اس امداد کے علاوہ ہے جسکی منظوری کانگریس نے کچھ عرصہ پہلے دی تھی۔ فوجی امداد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے بہت دلگیر لہجے میں کہا کہ 'مشرق وسطی میں امن و استحکام امریکہ کی خواہش ہے  اور غزہ میں انسانی جانوں کے زیاں کی تفصیلات سن کر صدر بائیڈن کو نیند نہیں آتی'

مغرب کی بھرپور مدد کے باجود زمینی حقائق اسرائیل کیلئے اب بھی مایوس کن ہیں۔تیرہ اگست کو اسرائیلی پارلیمان کی مجلس قائمہ براے دفاع کے اجلاس میں وزیردفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ نیتن یاہو کا 'مکمل فتح' والا بیانیہ بکواس ہے۔ جواب میں وزیراعظم تنک کر بولے 'گیلنٹ نے اسرائیل مخالف بیانیہ اپناکر (قیدیوں کی رہائی کے) معاہدے کے امکانات کو نقصان پہنچایا ہے'۔ حوالہ: اسرائیلی روزنامہ الارض Haaretz

وزیردفاع اور اسرائیلی فوج کے خدشات بے سبب نہیں۔ لاکھوں ٹن بارود برسانے اور پوری پٹی کو فاقے میں مبتلا کردینے کے باوجود اسرائیل مزاحمت کچل نہیں پایا۔ جس وقت کنیسہ (پارلیمان) میں وزیراعظم اپنے وزیردفاع کو سخت و سست کہہ رہے تھے عین اسی وقت اہل غزہ نے دورمار میزائیل داغے جو امریکی ساختہ جدید ترین حفاظتی نظام آئرن ڈوم سے کنی کتراکر تل ابیب کے ساحلوں تک ہہنچ گئے۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن اس سے نہ صرف غزہ پر اسرائیل کے قبضے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ اہل غزہ اسلحہ بنانے اور میزائیل چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جواب میں اسرائیلی فوج نے غرب اردن میں رام اللہ کے ایک محلے کو پامال کردیا یا یوں کہئے کہ دھوبی پر بس نہ چلا تو گدھے کے کان انیٹھ دئے۔

اسرائیلی فوج اپنی افرادی قوت پر بڑھتے دباو سے بھی خاصی ہریشان ہے۔ پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے جس اجلاس میں وزیراعظم و وزیردفاع کے درمیان زبانی جھڑپ ہوئی، اسی نشست میں فوج کے سربرہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کا بڑا حصہ غزہ میں مصروف ہے۔ لبنان کی جانب سے میزائیل و راکٹ حملوں کے  ساتھ غرب اردن میں 'دہشت گردی' خطرے کے نشان کو چھورہی ہے اور اب ایران کی جانب سے بھی شدید حملہ خارج از امکان نہیں۔جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ موثر دفاع کیلئے نئی بھرتی ضروری ہے لیکن مذہبی عناصر حفظِ توریت کے نام پر نوجوانوں کو فوج میں بھرتی سے روک رہے ہیں۔مدارس کی جانب سے مزاحمت کا زور توڑنے کیئے اسرائیلی اٹارنی جنرل نے ایک سرکاری خط میں وزارت محنت کو حکم دیا ہے کہ نوریت مدارس کے جو طلبہ فوج میں بھرتی سے انکار کریں انکے بچوں کی دیکھ بھال کیئے day careکی سہولت ختم کردی جائے۔ دوسری طرف اہلِ توریت کے خیال میں سہولتوں سے محرومی اور جیل،  غزہ کی جہنم  سے بہتر ہے

ادھر امریکہ میں تعطیلات کے بعد جامعات میں کلاسیں شروع ہونے کو  ہیں اور اسی کیساتھ آنے واالے دنوں میں مظاہروں کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔ آزادی وانصاف کے لئے پرعزم طلبہ کو اس ہفتے ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ فلسطین اور انسانی حقوق کیلئے مظاہرے کرنے والے طلبہ کے اخراج،اسناد سے محروم کرنے اور احتجاجی کیمپ اکھاڑنے کیلئے نیم فوجی دستے طلب کرنے والی جامعہ کولمبیا (نیویارک) کی شیخ الجامعہ ڈاکٹر مونیکا شفیق مستعفی ہوگئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر استعفیٰ کیلئے طلبہ اور اساتذہ کا دباو تھا۔

اب آخر میں سعودی عرب  کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا معاملہ۔ ٹائمز آف اسرائیل نے امریکی آن لائن سیاسی جریدے، Politico کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔ خبر کے مطابق امریکی ارکانِ کانگریس سے باتیں کرتے ہوئےسعودی ولی عہد محمد بن سلمان المعروف MBSنے کہا “عرب عوام فلسطین کے بارے میں بہت حساس ہیں اور اسرائیل سے تعلقات کے یکطرفہ فیصلے کو عرب ممالک کی سڑکوں پر غداری سمجھا جائیگا۔ہم نے اگر فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو میں مارا جاسکتا ہوں' ارکان کانگریس کے سوال پر MBSنے کہا 'آپ کو یاد نہیں (مصری صدر) انوار السادات کیساتھ کیا ہواتھا؟'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اگست 2024

ہفت رزوہ دعوت دہلی 23 اگست 2024

روزنامہ امت کراچی 23 اگست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 اگست 2024




Thursday, August 15, 2024

بنگلہ دیش میں تبدیلی ۔۔۔ حسینہ واجد کا امریکہ پر الزام عبوری بندوبست یا ٹیکنوکریٹ حکومت

 

بنگلہ دیش میں تبدیلی ۔۔۔ حسینہ واجد کا امریکہ پر الزام

عبوری بندوبست یا ٹیکنوکریٹ حکومت

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے فرار کے بعد نئی عبوری حکومت نے 8 اگست کو حلف اٹھالیا۔ عبوری بندوبست روائتی وزرا کے بجائے مشیروں پر مشتمل ہے جسکی سربراہی مشیراعلیٰ (Chief Advisor)ڈاکٹر محمد یونس کررہے ہیں۔ چوراسی سالہ نوبل انعام یافتہ،  ڈاکٹر محمد یونس بینکار، معاشیات کے پروفیسر اور دانشور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے  غریب طبقے کو آسان شرائط پر قرضوں (Microfinancing)کے ذریعے اقتصادی طور پر خودمختار بنانے کا ایک جامع منصوبہ پیش کیا۔یہ فلسفہ نیا نہیں لیکن ڈاکٹر یونس کا کمال ہے کہ انھوں نے اس مقصد کیلئے خالص تجارتی بنیادوں پر ایک بینک کی بنیاد رکھی۔ گرامین بینک کے نام سے یہ ادارہ 1983 میں قائم ہوا اور سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھاکر بنگلہ دیش کے لاکھوں افراد غربت و افلاس کی دلدل سے باہر نکل آئے۔

قیامِ بنگلہ دیش کے وقت ڈاکٹر صاحب امریکہ میں تھے جہاں انھوں نے فوجی آپریشن کے مضمرات سے امریکی رائے عامہ کو آگاہ کرنے کیلئے بنگلہ دیش نیوز لیٹر کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ وطن واپسی پر حسینہ واجد سے تعلقات خوشگوار رہے اور انھیں تمغہِ آزادی  عطا ہوا لیکن 2014 کے انتخابات کے بعد حسینہ واجد اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ بنگلہ دیش حکومت نے ڈاکٹر یونس پر گرامین بینک کے اثاثوں میں خردبرد، قرض کے اجرا میں گھپلوں اور دوسرے الزامات پر تحقیقات شروع کردی۔عدالت نے انھیں سزا بھی سنائی لیکن بین لاقوامی دباو پر ضمانت منظور ہوگئی اور ڈاکٹر صاحب جیل یاترا سے محفوظ رہے۔

جب 5 اگست کو ڈھاکہ مارچ کے نتیجے میں حسینہ واجد ہندوستان فرار پر مجبور ہوئیں تو فوج کے سربراہ جنرل وقار الزامان سے ملاقات میں انقلاب کی قیادت کرنے والے طالب علم رہنماوں ناہید اسلام،آصف محمود اور ابوبکر مجمدار نے صاف صاف کہا کہ آئین کی منسوخی و معطلی اور فوجی حکومت ایک دن کیلئے بھی قبول نہیں۔ طلبہ  کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد یونس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو معاملات کو سنبھالےاور انتخابات منعقد کرکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردے ۔

ڈاکٹر یونس کی وطن واپسی پر 8 اگست کو انکی قیادت میں مشیروں کی 16 رکنی کونسل نے حلف اٹھالیا۔ عبوری کونسل میں طالب علم رہنما ناہید اسلام اور اصف محمود، حفاطت اسلام پارٹی کے رہنما، ماحول کیلئے سرگرم وکیل سیدہ رضوانہ حسن، خواتین حقوق کی علمبردار، فریدہ اختر، مکتی باہنی کے سابق کمانڈر فاروق اعظم ، بینکار۔ قانون کے پروفیسر، سابق الیکشن کمشنر، چکمہ (لسانی و مذہنی اقلیت) کے نمائندے، ڈاکٹر اور اور وزارت خارجہ کے سابق سکریٹری شامل ہیں۔ زیادہ تر قلمدان ڈاکٹر محمد یونس نے اپنے پاس رکھے ہیں۔

نئی انتظامیہ کا سب سے اہم کام امن عامہ کی صورتحال کو معمول پر لانا ہے۔ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوامی لیگ اور حسینہ واجد کی باقیات پر عوام غصہ اتار رہے ہیں۔ شیخ مجیب  کے مجسموں اور یادگاروں کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔تحریک کے دوران بدترین تشدد کی وجہ سے پولیس عوامی انتقام کا نشانہ بنی اور ڈھاکہ شہر میں تقریباًتمام تھانے، حوالات، بھرتی مراکز اور دوسری تنصبات جلادی گئیں۔ 5 اگست کے بعد سے پولیس کے سپاہی ڈیوٹی پر نہیں آئے اور اہم چوہراہوں پر فوجی تعینات ہیں۔

ہڑتال اور مظاہروں کی وجہ سے بینک کا نظام بری طرح متاثر ہوا اور اکثر شاخوں میں نقدی ختم ہوگئی۔ پولیس نہ ہونے کی وجہ سے حفاظت بھی مشکوک ہے اسلئے بہت سے بینک اور ڈاک خانے بند ہیں، بینکاری نظام میں تعطل سے جہاں عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے  وہیں صنعتی ادارے بھی ٹھپ پڑے ہیں۔ پارچہ جات (ٹکسٹائل) کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہے۔بنگلہ دیش کی برامدات میں پارچہ جات کا تناسب 90 فیصد ہے۔

ملک بھر میں انتظامی تطہیر کا عمل جاری ہے۔عدالت عظمی کے قاضی القضاۃ، اکثر جامعات کے شیوخ الجامعہ، پولیس کے سربراہ اور دوسری کلیدی اہلکار تبدیل کردئے گئے۔ اسٹیٹ بینک کے نئے سربراہ کا تقرر نہیں ہوا جسکی وجہ سے بینکوں کے معاملات مزید الجھ گئے ہیں۔برآمدی صنعت کے خام مال کی درآمد معطل ہے اور بندرگاہوں پر کلیرنس میں مشکل پیش آرہی ہے۔ سڑکوں پر طلبہ ٹریفک کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔انتظامی و معاشی معاملات پر تیزی سے پیشرفت ہورہی ہے اور اس ہفتے  بازار کھل جانے کی وجہ سے دہاڑی دار لوگوں کا روزگاربحال ہوگیا اور کپڑے کے کارخانوں میں بھی جزوی کام شروع ہوچکا ہے۔

گزشتہ دنوں محترمہ حسینہ واجد نے ذرائع ابلاغ کے ہندوستانی ادارے 'پرنٹ' کو بتایا کہ انکی حکومت امریکہ نے گرائی ہے۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ  جزیرہ سینٹ مارٹن  پر اپنا ایک اڈہ ٹعمیر کرنا چاہتا ہے۔تین مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ جزیرہ خلیج بنگال میں کاکس بازار کے قریب واقع ہے۔ حسینہ واجد نے  کہا 'ایک گورے نے پیغام دیا کہ تم یہ جزیرہ  ہم کو دیدو اور جم کر حکومت کرو' ۔ حسینہ واجد نے مزید کہا کہ امریکہ برما اور بنگلہ دیش کے کچھ علاقے کو ملاکر ایک 'مسیحی ریاست' قائم کرنا چاہتا تھا لیکن میں اپنی دھرتی ماتا کی ایک انچ سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہں اور اسی 'جرم' میں مجھے معزول کردیا گیا۔امریکی حکومت کے ترجمان نے حسینہ واجد کے الزام کو من گھڑت اور بے بنیاد قراردیا ہے۔

اس سے پہلے انکے صاحبزادے سرجیب واجد نے کہا تھا کہ میری والدہ اب بھی اپنے ملک کی وزیراعظم ہیں کہ انھوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ سرجیب نے لندن میں بی بی سی کو بتایاکہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی حسینہ واجد ملک واپس چلی جائینگی۔

جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو دستور کی روسے  تحلیلِ اسمبلی کے 90 روز میں نئے انتخابات ضروری ہیں۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ پانچ اگست کو جنرل وقار الزمان اور صدر شہاب الدین سے ملاقات میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP)، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے مطالبہ کیا تھا کہ عبوری حکومت قائم ہوتے ہی انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔ دوسرے روز اپنی رہائی کے بعد ڈھاکہ میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا نے کہا کہ لاقانونیت اور عدم استحکام کے ذریعے جمہوریت کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ ہم تیزی سے ابھرتی سازش پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت میں شامل ہونے کا شوق نہیں۔ فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔

عبوری حکومت کے قیام پر جماعت اسلامی، BNP، عوامی لیگ، جاتیہ پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے کابینہ میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم عبوری حکومت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بی این پی فوری انتخاب کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔ بارہ اگست کو ڈاکٹر یونس سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بی این پی کے سکریٹری جنرل فخرالاسلام عالمگیر نے کہا انتخابات کا 'ماحول' بنانے کیلئے بنگلہ دیش نیشنلٹ پارٹی نے عبوری حکومت کو مہلت دینے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات اور حالات درست کرنے کیلئے وقت چاہئے۔ اس معاملے پر جماعت اسلامی کا موقف سامنے نہیں آیا۔ ڈاکٹر یونس کہہ رہے ہیں کہ حسینہ واجد نے ملک کو بہت برے حال میں چھوڑا ہے  اسے ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ڈاکٹر صاحب نے مطلوبہ وقت کی وضاحت نہیں کی۔ علمائے سیاست کا خیال ہے کہ عبوری بندوبست جلد ہی ٹیکنوکریٹ حکومت کی شکل اختیار کرلیگا جسکا دورانیہ 12 سے 18 ماہ ہوسکتا ہے۔

آخر میں اس تبدیلی پر ڈھاکہ کی جامعہ لبرل آرٹس کے پروفیسر اور دانشور ڈاکٹر سلیم اللہ خان کا مختصر لیکن جامع تبصرہ: ' بنگلہ دیش کا حالیہ رجیم چینج 1975 کے بعد ہندوستان کی بڑی ناکامی ہے۔ شیخ مجیب کے خلاف 1975 کی بغاوت ہندوستان کے سراغرساں اداروں کی ناکامی تھی جو پاکستان نواز فوجی افسران کی سازش نہ پکڑ پائے لیکن 5 اگست 2024 کو عوامی انقلاب آیا ہے جس میں ہندوستان کے خلاف عوامی نفرت نے بنیادی کردار ادا کیا' حوالہ: ڈھاکہ اسٹار

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 اگست 2024