Monday, September 30, 2024

روش ہشنا (نیا عبرانی سال)

 

روش ہشنا (نیا عبرانی سال)

آج    منگل یکم اکتوبر  سے  عبرانی نئے سال کا آغاز ہورہا ہے۔ اگر لفظ روش ہشنا کا تجزیہ کیا جائے تو یہ عربی لفظ راس اورسنہ سےماخوذ ہے۔ راس کا مطلب ہے سر جسکا عبرانی تلفظ راش ہے اور  سنہ یعنی سال عبرانی میں ہشنا بن گیا۔ گویا راش ہشنا کے لغوی معنی ہوئے سال کا سر یا نیا سال۔  سالِ نو عبرانی کلینڈر کے ساتویں مہینے سے شروع ہوتا ہے جسے تشری کہتے ہیں۔ جیسے مسلمان رجب سے رمضان المبارک کا انتظار شروع کردیتے ہیں ایسے ہی استقبال روش ہشنا ایک ماہ پہلے ایل Elul کے مہینے سے شروع کردیا جاتا ہے

یہودی  روایات کے مطابق   یکم تشری  کواللہ نےحضرت آدم علیہ السلام اور انکی اہلیہ حضرت حواکو تخلیق فرمایا تھا۔ مورث اعلیٰ کے جشن ولادت پر تمام معبدوں میں  بکرے کے سینگوں کا بنا نرسنگا( بگل) پھونکا جاتاتا ہے۔ عبرانی میں نرسنگے کو  Shofarکہتے ہیں۔ ایل کے مہینے کے آغاز پر بھی شوفر بجایا جاتا ہے لیکن صرف ایک یا دوبار دیوار گریہ پر عبادت کے آغاز سے پہلے جبکہ روش ہشنا پر ساری رات  نرسنگا پھونکنے   اور شور کرنے کا روج ہے۔عہد نامہِ عتیق    (Old Testament)یا عبرانی انجیل میں روش ہشنا کو یوم ترووا Yom Teruahکا نام دیا گیا ہے یعنی شورشرابے کا دن

یہودیوں کے یہاں دیوار گریہ  قبولیت دعا کی جگہ سمجھی  جاتی ہے جسے یورپ کے یہودی Kotel، عبرانی میں  ہکوتل ہمعرروی، عربی میں المبکیٰ  اور فارسی میں کوچہِ آہ و زاری کہتے ہیں۔مسلمان اسے حائط البراق بھی کہتے ہیں کہ روائت کے مطابق نبی مہربان  صل اللہ علیہ وسلم نے معراج کی شب براق پر سوار ہوکر اسی مقام سے آسمانوں کی جانب پرواز کی تھی ۔

 دیوار گریہ پر صرف مردشوفر بجاتے ہیں اور خواتین  کو بگل بجانے کی اجازت نہیں ،  البتہ  چھوٹی بچیاں بگل بجاسکتی ہیں۔ اسی طرح عام لوگوں کو دیوار گریہ کے پاس توریت پڑھنے کی اجازت نہیں۔  ربائیوں کا کہنا ہے کہ توریت سمجھنے کیلئے علم کی ضرورت ہے اور کلام اللہ کو سمجھنا ہر کس و ناکس  کے بس کی بات نہیں۔ یہ بیان تو قرآن میں بھی موجود ہے کہ اللہ نے حضرت موسیؑ کو 40 دن کیلئے کوہ طور پر طلب کیا تھا اور اسوقت حضرتؑ کچھ قبائلی سرداروں کو بھی اپنے ساتھ لے  کرگئے تھے۔ اس موقع پر اللہ نے احکامات کی لوح یاتختیاں حضرت موسیٰ کو عطا کی تھی۔اس واقعہ سے ربائی یہ ثابت کرتے ہیں کہ توریت کا سمجھنا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں اور اللہ نے بھی اسے عوام پر نازل کرنے کے بجائے مخصوص لوگوں کو بلا کر سمجھایا تھا۔

لبرل خواتین یہ ماننے کو تیار نہیں انکا خیال ہے کہ توریت ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ خواتین کو  بگل بجانے پر بھی اصرار ہے۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ توریت قرآن کی طرح مصحف کی طرح شایع  نہیں کیا جاتا بلکہ یہ  طومار یا Scrollکی شکل میں ہے۔

دیوار گریہ پر خواتین اور سیکیورٹی حکام کے درمیان   بحث و مباحثہ اور ہاتھا پائی عام ہے۔ پولیس والے خواتین سے  شوفر اور توریت کے نسخےچھین  لیتے ہیں لیکن  کچھ تیز طرار لڑکیاں  وہاں تعینات محافظین کو غچہ دیکر توریت و بگل اندر لے جانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ دیوارکے اس حصے سے جو خواتین کیلئے مختص ہے،  تلاوتِ توریت کے  ساتھ  نرسنگھے  کی آواز آتی رہتی ہے۔ اس جسارت پر ربائی حضرات کو غصہ تو آتا ہے لیکن بیچارے کچھ کرنہیں سکتے کہ خواتین کے حصے میں مردوں کا جانا منع ہے،  چانچہ وہ لاوڈاسپیکر پر خواتین  سے  شوفر  نہ بجانے اور بلند آواز میں تلاوت سے پرہیز کی درخواست کرتے  رہتے ہیں تاکہ مرد  توریت سن سکیں۔  بگل کا احسن طریقہ یہ ہے دعا کے آغاز سے پہلے دو ایک بار بجایا جاتا ہے پھر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے تاکہ لوگ سکون سے آہ و زاری کریں یا ربائیوں سے توریت کی تلاوت سن سکیں۔لیکن شوخ و شنگ بچیاں ربائیوں کو ستانے کیلئے مسلسل بگل بجاتی رہتی  ہیں۔

اگر شوفر میسر نہ ہو تو  تو کسی بھی قسم کا بھو نپو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہودی عقائد کے مطابق اپنے مورث اعلیٰ (آدم و حوا) کے جشن ولادت کے موقع پر بگل بجانا اور شور کرنے کا حکم توریت سے ثابت ہے۔شور مچانے کے علاوہ روش ہشنا کے موقع پر مٹھائی کھانا اور تقسیم کرنا انکے یہاں مستحب ہے۔نئے سال کے دسویں دن یعنی 10 تشری کو یہودی ملت یوم کپر منائیگی جو دراصل یوم استغفار ہے۔ اس سال یہ تہوار  11 اکتوبر کوغروب آفتاب سے اگلے روز رات تک جاری رہیگا۔یہودی یوم کپر کے موقع پر 25 گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ روزے کے دوران اکل و شرب سے پر ہیز کے ساتھ چمڑے کے جوتے پہننے کی ممانعت ہے۔ منہہ ہاتھ دھونا، غسل کرنا اور خوشبو لگانے کی بھی اجازت نہیں۔کپر کی پہلی رات یہودی مسلک کے اعتبار سے شب جائزہ ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ آنے والے یوم کپر تک اپنے بندوں کی قسمت تحریر فرماتے ہیں۔ چنانچہ اس   رات عبادت و گریہ زاری  کرتے ہوئے اللہ سے نصیب اچھا لکھنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ یوم استغفار کے موقع پرانفرادی توبہ کے ساتھ ملی کوتاہیوں اور قومی گناہوں سے اجتماعی توبہ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یوم کپر یہودیوں کا مقدس ترین دن ہے۔

 کاش شب جائزہ   میں دوسری باتوں کے ساتھ اہل غزہ    سے روا رویئے کا بھی جائزہ لیا جائے جسے   اسرائیلی حکومت کے شوق کشور کشائی نے جہنم بنادیا  ہے۔

ہجری کیلینڈر کے اعتبار سے یہ 1446 عیسوی کیلینڈر 2024 اور عبرانی سال 5785ہے


Saturday, September 28, 2024

امریکہ کے پارلیمانی انتخابات سینیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کی بالادستی خطرے میں

 

امریکہ کے پارلیمانی انتخابات

سینیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کی بالادستی خطرے میں

اس سال 5 نومبر کو جہاں امریکہ کے 47 ویں صدر کا انتخاب ہوگا وہیں کانگریس (پارلیمان) کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کی جملہ 435 اورایوان بالا (سینیٹ یا راجیہ سبھا) کی 34 نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے جائینگے۔اسی دن امریکہ کی 11 ریاستوں میں گورنر کیلئے بھی میدان سجے گا۔

کانگریس یا مقننہ امریکی نظم حکومت کی مثلث کا ایک اہم ستون ہے جسکو قانون سازی اور انتظامیہ و عدلیہ کے احتساب کیساتھ قومی خزانے پر مکمل دسترس حاصل ہے، بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ قومی بٹوے کی زپ کانگریس کے ہاتھ میں ہے۔ صدر کے صوابدیدی فنڈ پر بھی کانگریس کی نظر رہتی ہے۔ کابینہ کے وزرا، اٹارنی جنرل، سی آئی اے، ایف بی ائی سمیت ایجنسیوں کی قیادت، عدالت عظمٰی و وفاقی عدالت کے قاضی، فوجی سربراہان، سفیروں اور دوسری اہم تقرریاں سنیٹ کی توثیق سے مشروط ہیں۔

سیینیٹ کے اختیار کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج انٹون اسکالیہ 13 فروری 2016 کو انتقال کرگئے۔ ضابطےکے تحت سابق صدر بارک حسین اوباما نے اپیلیٹ کورٹ کے سربراہ میرک گارلینڈ (حالیہ اٹارنی جنرل)کو جسٹس اسکالیہ کا جانشیں نامزد کردیا۔ اسوقت سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل تھی۔ سینیٹ کے اکثریتی رہنما سینیٹر مچ مکانل نے اعتراض اٹھادیا کہ کہ گیارہ ماہ بعد صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہورہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جج کا تقرر تاعمر ہوتا ہے لہذا چند ماہ بعد سبکدوش ہونے والے صدر کو اتنی اہم تقرری کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ ریپبلکن کا یہ موقف اس اعتبار سے غیر منطقی تھا کہ ایک منتخب صدر کو اپنی مدت صدارت مکمل ہونے تک آئین کے اندر رہتے ہوئے تمام فیصلوں کاحق حاصل ہے۔ لیکن مچ مکانل اپنی بات پر اڑے رہے اور انھوں نے رائے شماری تو دورکی بات ابتدائی سماعت کیلئے سینیٹ کی مجلس قائمہ براے انصاف کا اجلاس ہی طلب نہیں کیا۔ حتیٰ کہ صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہوگئی اور صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی قدامت پسند جج نیل گورسچ کو اس منصب کیلئے نامزد کیا اور سینیٹ نے توثیق کردی۔

اِسوقت 435 رکنی ایوان نمائندگان میں 220 ریپبلکن نمائندوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹ ارکان کی تعداد 212 ہے جبکہ 3 نشستیں خالی ہیں۔ گویا ٹرمپ صاحب کی ریپبلکن پارٹی کو برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی پر معمولی برتری حاصل ہے۔امریکہ میں ایوان نمائندگان کی مدت دوسال ہے۔ رائے عامہ ے جائزوں کے مطابق ایوان نمائندگان پر بالادستی کیلئے مقابلہ بہت سخت ہے اور کسی بھی جماعت کو پانچ نشستوں سے زیادہ کی برتری حاصل نہیں ہوگی۔ ایک دلچپ بات کہ حالیہ ایوان کو عوام نے کاکردگی کے اعتبار سے بدترین قرار دیا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صرف 13 فیصد امریکی اپنے نمائندوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے اور ہر ریاست کیلئے سینیٹ کی دونشستیں مختص ہیں یعنی یہاں تمام کی تمام پچاس ریاستوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔براہ راست انتخاب کے ذریعے سینیٹر چھ سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ پالیسی  کا تسلسل برقرار رکھنے کی غرض سے انتخاب کا نظام اسطرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر دوسال بعد سینیٹ کی ایک تہائی نشستیں خالی ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ پانچ نومبر کو سینیٹ کی 34 نشستوں پر انتخابات ہونگے۔ نومبر میں جن نشستوں پر  چناو  ہوگا، ان میں سے 20 ڈیموکریٹک   اور  10 نشستیں ریپبلکن ارکان کی مدت مکمل ہونے پر خالی ہورہی   ہیں ، جبکہ چار آزاد ارکان کی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔ ان چار آزاد ارکان میں سے سینیٹر برنی سینڈرز اور سینیٹر انگس کنگ نے خود کو ڈیموکریٹک کاکس (گروپ) سے وابستہ کررکھا ہے۔

سینیٹ کیلئے جن ریاستوں میں سخت مقابلے کی توقع ہے وہ کچھ اسطرح ہیں

  • ایریزونا: اس نشست پر چھ برس پہلے ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ پر محترمہ کرسٹینا سنیما کامیاب ہوئی تھیں۔ گزشتہ برس پارٹی سے اختلاف کی بنیاد پر انھوں نے آزاد بنچوں پر بیٹھنا شروع کردیا اور اس سال انھوں نے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یہاں ڈیموکریٹک پارٹی کا پلہ بھاری ہے
  • مشیگن میں بھی مقابلہ سخت ہے۔ یہاں سے 2000 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی محترمہ ڈیبی اسٹبینو منتخب ہوئی تھیں جو اب ریٹائر ہورہی ہیں۔ ٰیہاں عرب و مسلم ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں
  • مونٹانا: یہ نشست 2006 سے ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہے لیکن اس بار سینیٹر ٹیسٹر کے ستارے گردش میں لگ رہے ہیں
  • اوہایو سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر شیر براون ک نشست خطرے میں ہے
  • پینسلوانیہ میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹرباب کیسی جونیر کو سخت مقابلہ درپیش ہے
  • ٹیکسس میں تیسری مدت کا انتخاب لڑنے والے ریپبلکن سییٹر ٹیڈ کروز سخت دباو میں ہیں، اگر ڈیموکریٹک سینیٹ کی اس نشست  پر کامیاب  ہو  گئی تو یہ 1994 کے بعد ٹیکسس سے انکی پہلی کامیابی ہوگئی۔
  • مغربی ورجنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کے جو مینشن سینیٹر منتخب ہوئے تھے جو اس سال پارٹی کے الگ ہوگئے، یہ نشست ریپبلکن کے پاس جاتی نظر آرہی ہے

جائزوں کے مطابق مستقبل کی  سینیٹ میں 47 ڈیموکریٹ کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 50 یقینی ہے جبکہ 3 پر سخت مقابلہ ہے۔گویا اگر کملا ہیرس صدر منتخب ہوگئیں تو انھیں قانون سازی اور تقرریوں میں شدید مشلات کا سامنا ہوگا جبکہ ڈانلڈ ٹرمپ کو اپنی کامیابی کی صورت میں مقننہ اور عدلیہ کی مکمل حمائت حاصل ہوگی

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 ستمبر


2024

Friday, September 27, 2024

ہندوستانی وزیراعظم کا دورہ امریکہ معاہدہ اربع (QUAD)کا سربراہی اجلاس کواڈ اتحاد، چین کا گھیراو، گوادر پر نظر

 

ہندوستانی وزیراعظم کا دورہ امریکہ

معاہدہ اربع (QUAD)کا سربراہی اجلاس

کواڈ اتحاد، چین کا گھیراو، گوادر پر نظر

جون میں تیسری مدت کیلئے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد جناب نریندرا مودی  20 ستمبر کو امریکہ کے دورے پر پہنچے۔ ہفتہ (21 ستمبر)کو انھوں نے امریکی صدر کی رہائشگاہ پر معاہدہ اربع المعروف QUADکے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اسکے دوسرے دن وہ  نیویارک آئے جہاں انھوں نے ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کیا۔پیر کی صبح انھوں نے امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات کی اور اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرکے وطن واپس چلے گئے۔

غزہ جنگ میں اسرائیل کی فوجی مدد اور اقوام متحدہ میں فلسطین سے اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کی قرارداد پر غیر جانبدار رہ کر مودی جی اسرائیل نواز طبقے خاص طور سے امریکی میڈیا کے ڈارلنگ بن چکے ہیں۔مسلمانون سے مبینہ بدسلوکی پرحضرت آئت اللہ خامنہ ای کے بیان پر ہندوستانی وزارت خارجہ نے جس تلخ ردعمل کا اظہار کیا ہےاس پر بھی چچا سام بہت خوش ہیں۔امریکہ آمد سے قبل ہندوستان کو کھیل کے میدان میں ایک تاریخی کامیابی نصیب ہوئی جب  بڈاپسٹ (ہنگری) کے45 ویں شطرنج اولمپیاڈ (Olympiad) میں شریمتی ونتیکا اگروال نے خواتین اور جناب ارجن اریگاسی  نے خواتین و مرد (OPEN)کا مقابلہ  جیت کر دونوں طلائی تمغے ہندوستان کے نام کردئے۔ نیویارک میں ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی صاحب نے بہت فخر سے اسکا ذکر کیا۔

معاہدہ اربع کے نام سے امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستان کے درمیان  بحرالکاہل  کی نگرانی کیلئے  فوجی تعاون   2007 سے جاری  ہے۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد چین کا آبی گھیراو ہے۔ صدر اوبامانے اس اتحاد کو مضبوط و مربوط بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ اسوقت کے نائب صدرجوبائیڈن اور موجودہ وزیرخارجہ و مشیر قومی سلامتی  سمیت  بائیڈن ٹیم کے کلیدی ارکان  اس چار طرفہ دفاعی مکالمے یا Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUADکےمعمار سمجھے جاتے ہیں۔بظاہراس تعاون کا مقصد بحرالکاہل، خلیج بنگال اور بحر ہند میں  بلاروک ٹوک  آزادانہ تجارت کو یقینی بنانا ہے چنانچہ علاقائی اہمیت کے پیشِ نظر اسے  ہند بحرالکاہل کواڈ Indo-Pacific Quad بھی کہتے ہیں۔

لیکن ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ، یعنی  کواڈ  کا  تزویراتی  (Strategic)ہدف  بحرالکاہل خاص طور سے بحر جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو غیر موثر کرنا ہے۔ اسی  بناپر سیاسیات کے علما کواڈ کو ایشیائی نیٹو (Asian NATO)کہتے ہیں۔عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال  کیلئے کواڈ ممالک وقتاً فوقتاً  بحری مشقیں  کرتے ہیں۔ اس نوعیت   کی  پہلی مشق 1992میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت  سے اسے  مالابار بحری مشق  پکارا گیا۔  بعد میں اس سرگرمی کا نام ہی مالابار مشق پڑگیا۔اب تک اس نوعیت کی 26 مشقیں ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا مظاہرہ  2020 میں ہوا جب تین سے چھ نومبر کو خلیج بنگال اور  17 سے 20 نومبر تک بحرعرب میں دوستانہ میچ  ہوا۔ان مشقوں  میں  امریکہ کےتباہ کن جہاز یوایس ایس مک کین، ہندوستان کے جہازوں شکتی، رنجیو  اور شوالہ، آسٹریلیا کےبلیرٹ اور جاپانی تباہ کن  جہازاونامی  کے علاوہ جدید ترین آبدوزوں نے حصہ لیا۔ آخری مالابار مشق گزشتہ سال 10 سے 21 اگست بحر الکاہل کے جنوبی حصے میں جنوبی تیمور کے قریب ہوئی جس میں ہندوستان کے میزائیل بردار کلکتہ، تباہ کن سیہادری، آسٹریلوی بحریہ کے ساحل پر اترنے کی صلاحیت رکھنے والے شولز Choules، طیارہ بردار برسبن امریکہ کے میزائیل بردار رفائیل پیرالتا اور جاپان کے جدید ترین جہاز شیرانوئی (Shiranui)نے شرکت کی۔

گزشتہ دس بارہ سالوں میں چین نے بحر جنوبی  اور مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے بنا کراس پر اڈے قائم کردئے ہیں۔ عسکری ماہرین  نے شک ظاہر کیا ہے کہ کچھ تنصیبات جوہری نوعیت کی بھی ہیں۔امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لیناآاسان نہیں  لہٰذا کواڈ کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب  سے اہم بحر الکاہل کو بحر ہند سے ملانے والی آبنائے ملاکا ہے۔

ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی  آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل کے قریب ہے۔ کواڈ بندوبست  کے تحت اس آبنائے کے شمالی دہانے کی نگراں ہندوستانی ناو سینا جبکہ آسٹریلیوی بحریہ بحرالکاہل  کے جنوب مشرقی حصے پر نظر رکھتی ہے۔ بحر انڈمان سے خلیج بنگال تک   بھارتی بحریہ کے جہاز گشت کررہے ہیں۔  جزائر انڈمان پر امریکی و بھارتی بحریہ کی تنصیبات بھی ہیں۔

کواڈ کا سب سے ہیجان بلکہ اشتعال انگیز اجلاس  2020 میں ہوا جب وزرائے خارجہ کی بیٹھک میں ٹرمپ انتظامیہ  کے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ کواڈ کا مقصد اپنے عوام اور اتحادیوں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے استحصال، بدعنوانی اور سکھاشاہی (coercion)سے محفوظ رکھناہے۔مائک پومپیو کے اس بیان پر   بیجنگ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ انکے سرکاری اخبار نے کہا کہ امریکہ کی  استعماری و توسیع پسندانہ فطرت  نے اب جنوبی ایشیا کا رخ کرلیا ہے اور واشنگٹن   ایشیائی نیٹو بناکر پرامن خطے کو تشدد و بد امنی کامرکز بنانا چاہتا ہے۔

اس بار صدر بائیڈن اور امریکی انتظامیہ نے چین کا کوئی ذکر نہیں کیا حتیٰ کہ مشترکہ اعلامئے میں چین کا نام لئے بغیر کہا گیا کہ 'یہ اجلاس بحیرہ جنوبی چین میں زبردستی اور ڈرانے دھمکانے والی مشقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے'۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا 'کواڈ سربراہ اجلاس کا مقصد کسی دوسرے ملک کو نشانہ بنانا نہیں تھا اور بیجنگ کو ہماری مشاورت سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں' تاہم اجلاس میں موجود ایک اعلیٰ امریکی افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اپنے افتتاحی خطاب میں جناب بائیڈن نے فلپائنی بحریہ سے چھیڑ چھاڑ کا حوالہ دیکر چین کے جارحانہ روئے پر روشنی ڈالی۔امریکی صدر نے کہا کہ انکے چینی ہم منصب، شی جن پنگ فی الحال اپنے ملک کو لاحق اقتصادی مشکلات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور حالیہ دنوں میں چین کا نرم رویہ معاشی حالات کے بہتر ہونے تک مہلت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ (حوالہ Straits Times، سنگاپور)

اجلاس میں اگلے برس سے مشترکہ کوسٹ گارڈ آپریشن شروع کرنے ا فیصلہ کیا گیا۔اس مقصد کیلئے نگراں امریکی کشتیوں پرامریکہ کے ساتھ آسڑیلیا، جاپان اور ہندوستانی بحریہ کے سپاہی بھی سوار ہونگے۔ اعلامئے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کشتیاں بحیرہ جنوبی چین یا بحر ہند میں کہاں گشت کرینگی۔ اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان مواصلاتی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق پایا گیا۔ کواڈ پر اپنے اعتراض کا اعادہ کرتے ہوئے صدر شی جن پنگ نے اسے بیجنگ کو گھیرنے اور تنازعات کو بڑھاوا دینے کی کوشش قرار دیا۔(حوالہ: رائٹرز)

معاہدہ اربع کے چارٹر اور بیانئے میں بحر عرب کاکہیں کوئی ذکر نہیں لیکن امریکہ اور اسکے کواڈ اتحادی گوادر کو چینی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا 2020 کی مالابار مشقوں کا دائرہ خلیج بنگال سے بحیرہ عرب تک بڑھادیا گیا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحفظات نہ ہوں  تب بھی کواڈ اتحادیوں کو گوادر سے دلچسپی تو ضرور ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 ستمبر 2024


Thursday, September 26, 2024

پیجر نما ٹائم بم سے لبنان میں قتل عام

 

پیجر نما ٹائم بم سے لبنان میں قتل عام

مشکوک مواصلاتی آلات کس نے بنائے،کہاں سے آئے؟

پیجر واقعہ جنگی جرم شمار ہوسکتا ہے۔ انسانی حقوق ماہرین

اقوام متحدہ میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کی قرارداد منظور

شمالی غزہ کے مکمل محاصرے کی تیاریاں

نسل کشی کے خلاف مظاہروں پر پابندی نہ لگانے والی جامعات کو ٹرمپ کی دھمکی

سترہ اور اٹھارہ ستمبر،انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ایام ہیں جب سارے جنوبی لبنان اور شام میں بارودی مواد سے بھرے مواصلاتی آلات پھٹ گئے۔ اس وحشیانہ کاروائی میں 40 افراد جاں بحق اور 3000 سے زیادہ زخمی ہیں۔منگل 17 ستمبر کو پیجر (pager)یا beepers پھٹنے سے تباہی مچی اور دوسرے دن دہشت گرد سرگرمی کیلئے واکی ٹاکی (Walkie Talkie) استعمال ہوا۔

جن قارئین نے کبھی پیجر استعمال نہیں کیا، انکے لئے عرض ہے کہ پیجر کو انتہائی ابتدائی نوعیت کا موبائل فون کہہ جاسکتا ہے ہیں جو صرف چند الفاط پر مشتمل SMSبھیجنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ آلہ بنا تو 1949 میں تھا لیکن اسکا بڑے پیمانے پر استعمال 80 کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں صرف گھنٹی یا beep ہی کی سہولت موجود تھی اور beepکے ساتھ پیغام کنندہ کا فون نمبر اسکرین پر آجاتا۔ جسکا مطلب ہے کہ اس نمبر پر فون کرلو، کچھ اور آلات میں ایک انتہائی مختصر پیغام جیسے  'براہ کرم زید کو فون کرلیجئے' لکھا آجاتا کہ کیلکیولیٹر جیسی اسکرین پر اس سے زیادہ گنجایش نہیں۔ بعد میں OK کا بٹن آگیا جس سے پیغام مل جانے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

اب بھی پیجر متروک تو نہیں ہوا لیکن موبائل فون آنے کے بعد اسکا استعمال کم ہوگیا ہے۔چونکہ موبائل فون استعمال کرنے والے کی حرکت و مقام پر نظر رکھی جاسکتی ہے اسلئے  میدان جنگ اور حساس مقامات پر پیغام رسانی کیلئے موبائل فون کے بجائے پجر یا بیپر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ پیجر ہی کے ساتھ واکی ٹاکی بھی باہمی رابطے کا بڑا محفوظ ذریعہ ہے۔اس متحرک ٹیلی فون کا نیٹ ورک محدود اور محفوظ ہے اور نیٹ ورک سے باہر اسکا کوئی رابطہ نہیں لہذا واکی ٹاکی استعمال کرنے والوں کے مقام کا اندازہ ممکن ہےاور نہ باہمی گفتگو پر نقب لگائی جاسکتی ہے۔

واقعہ کچھ اسطرح ہوا کہ 17 ستمبر کو لبنانی وقت کے مطابق دوپہر ساڑھے تین بجے جنوبی لبنان اور شام میں پیجروں پر پیغام آئے۔ جیسے ہی وصول کنندہ نے جیب یا کمر میں لگے تھیلے (Pouch)سے پیجر نکال کر بٹن دبایا، یہ دھماکے سے پھٹ گیا۔ چونکہ گھنٹی بجنے پر پیجر چہرے کے قریب کرکے نمبر پڑھا جاتا ہے لہذا پھٹنے پر ہاتھ اُڑجانے کے ساتھ چہرے جھلسے اور سینکڑوں افراد کی آنکھیں ضایع ہوگئیں۔

شروع میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ اسرائیلی ماہرین نے کوئی ایسا پروگرام تیار کیا جسکی وجہ سے جنوبی لبنان میں پیغام وصول کرنے والے کا ہر پیجر شارٹ سرکٹ ہوا اور آلہ پھٹ گیا۔لیکن تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ یہ سائنسی مہارت کے بجائے اسرائیل کے سرپرستوں کی مکارانہ شرارت ہے۔

لبنان نے تائیوان کے ادارے Global Apoloسے AR-924ماڈل کے پانچ ہزار پیجر خریدنے کا معاہدہ کیا۔ کمپنی نے پیجر خود فراہم کرنے کے بجائے ہنگری میں اپنے ذیلی ادارے BAC Consulting KFTسے پیجر تیار کرنے کو کہا جسکا دفتر ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ (Budapest)میں ہے۔ بیک کے افسران نے 19 ستمبر کو بتایا کہ صوفیہ (بلغاریہ) میں Norta Global Ltdنے مال تیار کیا۔ ہنگری کا ادارہ سودے میں شامل تو تھا لیکن پیجر کی تیاری اور روانگی میں اسکا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ تائیوانی کپمنی گلوبل اپولو کے سربراہ Hsu Ching-kuangنے 18 ستمبر کو امریکی ریڈیو NPRسے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ انکا ادارہ پیجر کا یہ ماڈل نہیں بناتا اور لبنان کیلئے ہم نے ہنگری کی بیک کپمنی سے مال فراہم کرنے کو کہا تھا۔ یہ ماڈل نہ بنانے کی بات سفید جھوٹ ہے، اسلئے کہ گلوبل اپولو کی ویب سائٹ پر AR-924کا اشتہار اس واقعے سے پہلے تک موجود تھا جس میں بڑی صراحت اور فخر کیساتھ کہا گیا کہ اس نئے ماڈل میں لیتھیم بیٹری کے استعمال نے اسکی پائیداری کو دوچند کردیا ہے۔ پانچ دن پہلے AR-924پیجر کا اشتہار کمپنی کی ویب سائٹ سے ہٹالیا گیا۔

گلوبل اپولو کے CEOنے یہ انکشاف بھی کیا کہ لبنان بھیجے جانے والے پیجروں میں جو پتری یا Chip استعمال ہوئی ہے وہ ہمارے ماڈل میں نہیں لگائی جاتی۔ تائیوان کے وزیر معاشیات Kuo Jyh-Hueiنے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ لبنان بھیجے جانے والے پیجر نہ تائیوان میں بنے اور نہ یہاں سے بھیجے گئے۔تائیوانی وزارت تجارت کا کہنا ہےکہ اس سال اگست تک اپولو نے 40 ہزار پیجر یورپ برآمد کئے ہیں لیکن BAC ہماری براست گاہک نہیں۔ اس سودے کے مشکوک ہونےکا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے BAC نے فروخت کی رقم جس بینک سے اپولو کو بھیجی اس بینک کو اپولو کا تائیوانی بینک ماضی میں ناپسندیدہ قرار دے چکا ہے۔وزیراعظم ہنگری کے ترجمانZoltan Kovács نے سوشل میڈیا پر اس بات کی وضاحت کی کہ BAC کنسلٹنک کاروباری ادارہ ہے اور اسکا ہنگری یا کسی اور جگہ پیجر بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں۔ بیک کی سربراہ Cristiana Barsony-Arcidiaconoصاحبہ یورپی یونین کمیشن، بین لاقوامی جوہری کمیشن (IAE)اور اقوام متحدہ کے ادارے UNESCOکیلئے بھی کام کرتی ہیں۔انچاس (49)سالہ اطالوی نواز کرسٹینا اس واقعے کے بعد سے منظر عام پر نہیں آئیں اور بڈاپیسٹ میں انکے اپارٹمنٹ پر کوئی موجود نہیں۔ انکے پڑوسیوں نے بتایا کہ محترمہ یہاں کبھی دکھائی نہیں دیں۔ اٹھارہ ستمبر کو CNNکا نمائندہ بڈاپسٹ میں  BACکے دفتر پہنچا جوایک رہائشی عمارت میں ہے۔وہاں استقبالیہ کلرک نے بتایا کہ BACنے دفتر کرائے پر لیا ہوا تو ہے لیکن یہاں کبھی کسی کو نہیں دیکھاگیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اتفاق ہو لیکن عین اسوقت جب CNNکے نمائندے BACکے دفتر پہنچے، ہنگری پولیس کے چند افسران سادہ لباس میں وہاں موجود تھے۔اس سے پہلے کسی نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے کرسٹینا صاحبہ نے امریکہ کے NBCٹیلی ویژن کو بتایا کہ 'میں پیجر نہیں بناتی، میں صرف الیکٹرانک کا سامان بیچتی ہوں'۔ایک معنی خیز بات کہ اس سال اپریل میں اسرائیلی قانون سازوں کے ایک وفد نے تائیوان کا دورہ کیا اور اس دوران وہ لوگ مبینہ طور پر گلوبل اپولو کے کارخانے بھی گئے تھے۔

جہاں تک پیجر بنانے اور روانہ کرنے والے بلغاروی ادارے Norta Globalکا تعلق ہے تو یہ کمپنی اپریل 2022میں رجسٹر ہوئی جسکے مالک ناروے کےایک شہری رنسن ہوزے Rinson Jose ہیں۔ اس ادارے کا بھی اپنا کوئی کارخانہ نہیں اور دستاویز کے مطابق کمپنی خریدوفروخت (outsourcing)، تیکینکی مشاورت اور فروغِ کاروبار کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ (حوالہ: CBS،NBC، NPR، CNN،نیویارک ٹائمز)۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ Nortraنے پیجر کہاں بنائے یا کس سے خریدے ؟۔ کچھ ذرایع کا کہنا ہے کہ پیجر آسٹریا میں بنے اور وہیں سے روانہ کئے گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی،  امریکہ کے نجی سراغرساں حلقوں کا کہنا ہے کہ بارود سے بھرے ان پیجروں کی ڈیزائننگ میں سائینسی تحقیق کے کسی امریکی ادارے نے معاونت فراہم کی۔ آسٹریا میں پیجروں کی یہ کھیپ موساد کے حوالے کی گئی جو آسٹریا سے براستہ بلغاریہ، لبنان پہنچی۔

ابتدائی تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لبنان روانہ کئے جانیوالے پیجرز کی لیتھیم بیٹریوں پر سریع الاشتعال لیس دارکیمیکل pentaerythritol tetranitrate (PETN) لیپ دیا گیا۔پیجر کو کچھ اسطرح پروگرام کیا گیا تھا کہ ایک مخصوص  نمبر سے کال موصول ہونے پرلیتھیم بیٹری گرم ہوکر PETNکو مشتعل کردے اور دھماکے کے ساتھ پیجر پھٹ جائے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے پیجر میں بارودی مواد رکھ ایک بٹن نصب کردیا جسے ضبطِ بعید (Remote Control) سےدباکر دھماکہ کردیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے درآمد شدہ پیجر مزاحمت کاروں کے علاوہ عام لوگوں کے پاس بھی تھے۔ جیسا کہ ذرایع ابلاغ کے سمعی و بصری تراشوں میں دیکھا جاسکتا ہے بہت سے پھل فروش اور ٹھیلے والے بھی اسکا شکار ہوئے۔کئی جگہوں پر متاثر شخص کے کپڑوں نے آگ پکڑ لی اور اسکے قریب موجود کئی لوگ آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اگر ڈرائیونگ کے دوران  پیجر پھٹا تو گاڑی بلکہ قریب گزرتی دوسری گاڑیوں میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔

ان ساری تفصیلات سامنے آنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کی مافوق الفطرت ذہانت اور ٹیکنالوجی کا اظہار نہیں بلکہ فلسطینیوں کے خلاف بدترین شیطانی اتحاد کا کارنامہ ہے جو انکی نسل کشی کیلئے ہرحد تک جانے کو تیار ہے۔بے گناہوں کے قتل عام کیلئے امریکہ اور یورپی یونین کے  تجارتی اور کسٹم ضابطوں کی دھجیاں اڑادی گئیں لیکن اسکی مذمت تو دور کی بات، سوشل میڈیاپر اسے فلسطینیوں کے خلاف محضحکہ اور تضحیک کا استعارہ بنالیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک Volker Turk نے اس بہیمانہ کاروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی قانون، عام استعمال کی اشیا میں دھماکہ خیز مواد بھرکر عام لوگوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ قدم جنگی جرائم شمار کیا جاسکتاہے۔لیکن جب لاقانونیت ہی قانون بن جائے تو پھر تہذیب و انصاف کی بات تقریرو تحریر سے آگے نہیں بڑھتی۔

اس واقعے کے دوسرے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 کے مقابلے میں 124 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ'مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو بلا تاخیر ختم کرے اور یہ کام 12 ماہ کے اندر مکمل ہوجانا چاہئے'۔ یہ قراراداد جولائی میں عالمی عدالت انصاف (ICJ)کے اس فیصلے کے نفاذ کی طرف ایک قدم تھا جسکے مطابق 'فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے'

برما سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک نے قرارداد کی پرجوش حمائت کی تاہم ہندوستان نےان 43 ممالک کا ساتھ دیا جو رائے شماری کے دوران غیر جانب دار رہے۔ اس بھاری اکثریت سے منظور ہونے قرارداد کو اسرائیل کی جانب سے سے مسترد کیا جانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن امریکی ریپبلکن پارٹی کے 30 سینٹروں نے اس قرارداد کو دہشت گردوں کو انعام سے نوازنے کے مترادف قراردیا۔ دوسرے دن اقوام متحدہ کی کمیٹی برئے حقوقِ اطفال (CRC)کے نائب سربراہ Bragi Gudbrandssonکی جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کی ہولناک موت تاریخی اعتبار سے منفرد اور تاریک ترین ہے۔اس سے پہلے (بچوں کے حقوق سے معتلق چارٹر) کی اتنی بڑی خلاف ورزی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ایسی سنگین خلاف ورزیوں کا تصور بھی محال ہے۔یہ تبصرہ بھی اخبارات کی زینت سے آگے نہ بڑھ سکا۔

لبنان میں پیجر کے ذریعے مزاحمت کاروں کے بھاری نقصان اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہوجانے کے بعد اسرائیل نے سارے لبنان پر زبردست بمباری کی اور اسی دوران زمینی کاروائی کیلئے ٹینک اور توپ خانہ بھی لبنانی سرحد پر پہنچادیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے کہا ہے کہ اب ہماری توجہ کا مرکز لبنان ہے۔ زبردست نقصان کے باوجود  جنوبی لبنان نے راکٹ حملے جاری ہیں اور 19 ستمبر کو ڈرون حملے میں کمپنی کمانڈر سمیت اسرائیل کے دوفوجی ہلاک ہوگئے۔

لبنان میں مزاحمت کاروں کے بھاری نقصان اور کئی قائدین کے خاتمے سے اسرائیلی وزیراعظم کا لہجہ مزید رعونت آمیز ہوگیا ہے۔ پیر (23) ستمبر کو کنیسہ (اسرائیلی پارلیمان) کی دفاعی و خارجہ امور کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کو وزیراعظم نیتھن یاہو نے بتایا کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے مکمل محاصرے پر غور کررہی ہے اور اس دوران پانی کا ایک قطرہ، اناج کا ایک ذرہ اور  پیڑول کی ایک بوند بھی وہاں لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

مغرب کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی میں کمی نہیں آئی لیکن عالمی عدالت کی کاروائی نے اسرائیل کے سرپستوں کو مدافعت پر مجبور کردیاہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر جزوی پابندی لگانے کا اعلان کیاتھا اور اب جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی کا عندیہ دیا ہے۔جرمن اٹارنی جنرل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف (ICJ)میں جاری مقدمات کی زد غزہ خونریزی میں اسرائیل کی معاونت کرنے والے ممالک پر بھی پڑسکتی ہے۔گزشتہ برس جرمنی نے 36 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کو فراہم کیا تھا۔ اس سال عسکری برآمدات کا حجم ایک کروڑ 45 لاکھ ڈالر ہے۔امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیل کو حال ہی میں منظور کئے جانیوالے 20 ارب ٖڈالر مالیت اسلحے کی فراہمی روکنے کیلئے سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھی سینیٹروں کے نام خط میں انھوں نے لکھا کہ 'غزہ میں زیادہ تر قتل عام امریکی اسلحے کیا گیا ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر قانونی جنگ میں اپنی سہولت کاری ختم کرنی ہوگی'

سخت پابندیوں کے باوجود امریکی جامعات میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں جن میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ اور غیر تدریسی شریک ہورہا ہے۔ اس رجحان پر ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ سخت غصے میں ہیں۔ گزشتہ ہفتےایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'میری حکومت آنے پراگر کسی جامعہ میں یہودی طلبہ کو ہراساں کیا گیا یاAntisemitic مظاہرے ہوئے، ان اداروں کی انتظامیہ کو ذمہ درا ٹہرایا جائیگا۔ مقدمات چلیں گے، اہلکاروں کو سزا بھگتنی ہوگی۔ صداقت نامے (Accreditation) کی چھان بین ہوگی اور وفاقی مدد بند کردی جائیگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27ستمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 ستمبر 2024

روزنامہ امت کراچی 27 ستمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 ستمبر 2024


 

پیجر نما ٹائم بم سے لبنان میں قتل عام مشکوک مواصلاتی آلات کس نے بنائے،کہاں سے آئے؟ پیجر واقعہ جنگی جرم شمار ہوسکتا ہے۔ انسانی حقوق ماہرین اقوام متحدہ میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کی قرارداد منظور شمالی غزہ کے مکمل محاصرے کی تیاریاں نسل کشی کے خلاف مظاہروں پر پابندی نہ لگانے والی جامعات کو ٹرمپ کی دھمکی

 

پیجر نما ٹائم بم سے لبنان میں قتل عام

مشکوک مواصلاتی آلات کس نے بنائے،کہاں سے آئے؟

پیجر واقعہ جنگی جرم شمار ہوسکتا ہے۔ انسانی حقوق ماہرین

اقوام متحدہ میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کی قرارداد منظور

شمالی غزہ کے مکمل محاصرے کی تیاریاں

نسل کشی کے خلاف مظاہروں پر پابندی نہ لگانے والی جامعات کو ٹرمپ کی دھمکی

سترہ اور اٹھارہ ستمبر،انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ایام ہیں جب سارے جنوبی لبنان اور شام میں بارودی مواد سے بھرے مواصلاتی آلات پھٹ گئے۔ اس وحشیانہ کاروائی میں 40 افراد جاں بحق اور 3000 سے زیادہ زخمی ہیں۔منگل 17 ستمبر کو پیجر (pager)یا beepers پھٹنے سے تباہی مچی اور دوسرے دن دہشت گرد سرگرمی کیلئے واکی ٹاکی (Walkie Talkie) استعمال ہوا۔

جن قارئین نے کبھی پیجر استعمال نہیں کیا، انکے لئے عرض ہے کہ پیجر کو انتہائی ابتدائی نوعیت کا موبائل فون کہہ جاسکتا ہے ہیں جو صرف چند الفاط پر مشتمل SMSبھیجنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ آلہ بنا تو 1949 میں تھا لیکن اسکا بڑے پیمانے پر استعمال 80 کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں صرف گھنٹی یا beep ہی کی سہولت موجود تھی اور beepکے ساتھ پیغام کنندہ کا فون نمبر اسکرین پر آجاتا۔ جسکا مطلب ہے کہ اس نمبر پر فون کرلو، کچھ اور آلات میں ایک انتہائی مختصر پیغام جیسے  'براہ کرم زید کو فون کرلیجئے' لکھا آجاتا کہ کیلکیولیٹر جیسی اسکرین پر اس سے زیادہ گنجایش نہیں۔ بعد میں OK کا بٹن آگیا جس سے پیغام مل جانے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔

اب بھی پیجر متروک تو نہیں ہوا لیکن موبائل فون آنے کے بعد اسکا استعمال کم ہوگیا ہے۔چونکہ موبائل فون استعمال کرنے والے کی حرکت و مقام پر نظر رکھی جاسکتی ہے اسلئے  میدان جنگ اور حساس مقامات پر پیغام رسانی کیلئے موبائل فون کے بجائے پجر یا بیپر ہی استعمال ہوتے ہیں۔ پیجر ہی کے ساتھ واکی ٹاکی بھی باہمی رابطے کا بڑا محفوظ ذریعہ ہے۔اس متحرک ٹیلی فون کا نیٹ ورک محدود اور محفوظ ہے اور نیٹ ورک سے باہر اسکا کوئی رابطہ نہیں لہذا واکی ٹاکی استعمال کرنے والوں کے مقام کا اندازہ ممکن ہےاور نہ باہمی گفتگو پر نقب لگائی جاسکتی ہے۔

واقعہ کچھ اسطرح ہوا کہ 17 ستمبر کو لبنانی وقت کے مطابق دوپہر ساڑھے تین بجے جنوبی لبنان اور شام میں پیجروں پر پیغام آئے۔ جیسے ہی وصول کنندہ نے جیب یا کمر میں لگے تھیلے (Pouch)سے پیجر نکال کر بٹن دبایا، یہ دھماکے سے پھٹ گیا۔ چونکہ گھنٹی بجنے پر پیجر چہرے کے قریب کرکے نمبر پڑھا جاتا ہے لہذا پھٹنے پر ہاتھ اُڑجانے کے ساتھ چہرے جھلسے اور سینکڑوں افراد کی آنکھیں ضایع ہوگئیں۔

شروع میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ اسرائیلی ماہرین نے کوئی ایسا پروگرام تیار کیا جسکی وجہ سے جنوبی لبنان میں پیغام وصول کرنے والے کا ہر پیجر شارٹ سرکٹ ہوا اور آلہ پھٹ گیا۔لیکن تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ یہ سائنسی مہارت کے بجائے اسرائیل کے سرپرستوں کی مکارانہ شرارت ہے۔

لبنان نے تائیوان کے ادارے Global Apoloسے AR-924ماڈل کے پانچ ہزار پیجر خریدنے کا معاہدہ کیا۔ کمپنی نے پیجر خود فراہم کرنے کے بجائے ہنگری میں اپنے ذیلی ادارے BAC Consulting KFTسے پیجر تیار کرنے کو کہا جسکا دفتر ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ (Budapest)میں ہے۔ بیک کے افسران نے 19 ستمبر کو بتایا کہ صوفیہ (بلغاریہ) میں Norta Global Ltdنے مال تیار کیا۔ ہنگری کا ادارہ سودے میں شامل تو تھا لیکن پیجر کی تیاری اور روانگی میں اسکا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ تائیوانی کپمنی گلوبل اپولو کے سربراہ Hsu Ching-kuangنے 18 ستمبر کو امریکی ریڈیو NPRسے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ انکا ادارہ پیجر کا یہ ماڈل نہیں بناتا اور لبنان کیلئے ہم نے ہنگری کی بیک کپمنی سے مال فراہم کرنے کو کہا تھا۔ یہ ماڈل نہ بنانے کی بات سفید جھوٹ ہے، اسلئے کہ گلوبل اپولو کی ویب سائٹ پر AR-924کا اشتہار اس واقعے سے پہلے تک موجود تھا جس میں بڑی صراحت اور فخر کیساتھ کہا گیا کہ اس نئے ماڈل میں لیتھیم بیٹری کے استعمال نے اسکی پائیداری کو دوچند کردیا ہے۔ پانچ دن پہلے AR-924پیجر کا اشتہار کمپنی کی ویب سائٹ سے ہٹالیا گیا۔

گلوبل اپولو کے CEOنے یہ انکشاف بھی کیا کہ لبنان بھیجے جانے والے پیجروں میں جو پتری یا Chip استعمال ہوئی ہے وہ ہمارے ماڈل میں نہیں لگائی جاتی۔ تائیوان کے وزیر معاشیات Kuo Jyh-Hueiنے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ لبنان بھیجے جانے والے پیجر نہ تائیوان میں بنے اور نہ یہاں سے بھیجے گئے۔تائیوانی وزارت تجارت کا کہنا ہےکہ اس سال اگست تک اپولو نے 40 ہزار پیجر یورپ برآمد کئے ہیں لیکن BAC ہماری براست گاہک نہیں۔ اس سودے کے مشکوک ہونےکا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے BAC نے فروخت کی رقم جس بینک سے اپولو کو بھیجی اس بینک کو اپولو کا تائیوانی بینک ماضی میں ناپسندیدہ قرار دے چکا ہے۔وزیراعظم ہنگری کے ترجمانZoltan Kovács نے سوشل میڈیا پر اس بات کی وضاحت کی کہ BAC کنسلٹنک کاروباری ادارہ ہے اور اسکا ہنگری یا کسی اور جگہ پیجر بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں۔ بیک کی سربراہ Cristiana Barsony-Arcidiaconoصاحبہ یورپی یونین کمیشن، بین لاقوامی جوہری کمیشن (IAE)اور اقوام متحدہ کے ادارے UNESCOکیلئے بھی کام کرتی ہیں۔انچاس (49)سالہ اطالوی نواز کرسٹینا اس واقعے کے بعد سے منظر عام پر نہیں آئیں اور بڈاپیسٹ میں انکے اپارٹمنٹ پر کوئی موجود نہیں۔ انکے پڑوسیوں نے بتایا کہ محترمہ یہاں کبھی دکھائی نہیں دیں۔ اٹھارہ ستمبر کو CNNکا نمائندہ بڈاپسٹ میں  BACکے دفتر پہنچا جوایک رہائشی عمارت میں ہے۔وہاں استقبالیہ کلرک نے بتایا کہ BACنے دفتر کرائے پر لیا ہوا تو ہے لیکن یہاں کبھی کسی کو نہیں دیکھاگیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اتفاق ہو لیکن عین اسوقت جب CNNکے نمائندے BACکے دفتر پہنچے، ہنگری پولیس کے چند افسران سادہ لباس میں وہاں موجود تھے۔اس سے پہلے کسی نامعلوم مقام سے بات کرتے ہوئے کرسٹینا صاحبہ نے امریکہ کے NBCٹیلی ویژن کو بتایا کہ 'میں پیجر نہیں بناتی، میں صرف الیکٹرانک کا سامان بیچتی ہوں'۔ایک معنی خیز بات کہ اس سال اپریل میں اسرائیلی قانون سازوں کے ایک وفد نے تائیوان کا دورہ کیا اور اس دوران وہ لوگ مبینہ طور پر گلوبل اپولو کے کارخانے بھی گئے تھے۔

جہاں تک پیجر بنانے اور روانہ کرنے والے بلغاروی ادارے Norta Globalکا تعلق ہے تو یہ کمپنی اپریل 2022میں رجسٹر ہوئی جسکے مالک ناروے کےایک شہری رنسن ہوزے Rinson Jose ہیں۔ اس ادارے کا بھی اپنا کوئی کارخانہ نہیں اور دستاویز کے مطابق کمپنی خریدوفروخت (outsourcing)، تیکینکی مشاورت اور فروغِ کاروبار کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ (حوالہ: CBS،NBC، NPR، CNN،نیویارک ٹائمز)۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ Nortraنے پیجر کہاں بنائے یا کس سے خریدے ؟۔ کچھ ذرایع کا کہنا ہے کہ پیجر آسٹریا میں بنے اور وہیں سے روانہ کئے گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی،  امریکہ کے نجی سراغرساں حلقوں کا کہنا ہے کہ بارود سے بھرے ان پیجروں کی ڈیزائننگ میں سائینسی تحقیق کے کسی امریکی ادارے نے معاونت فراہم کی۔ آسٹریا میں پیجروں کی یہ کھیپ موساد کے حوالے کی گئی جو آسٹریا سے براستہ بلغاریہ، لبنان پہنچی۔

ابتدائی تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ لبنان روانہ کئے جانیوالے پیجرز کی لیتھیم بیٹریوں پر سریع الاشتعال لیس دارکیمیکل pentaerythritol tetranitrate (PETN) لیپ دیا گیا۔پیجر کو کچھ اسطرح پروگرام کیا گیا تھا کہ ایک مخصوص  نمبر سے کال موصول ہونے پرلیتھیم بیٹری گرم ہوکر PETNکو مشتعل کردے اور دھماکے کے ساتھ پیجر پھٹ جائے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے پیجر میں بارودی مواد رکھ ایک بٹن نصب کردیا جسے ضبطِ بعید (Remote Control) سےدباکر دھماکہ کردیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے درآمد شدہ پیجر مزاحمت کاروں کے علاوہ عام لوگوں کے پاس بھی تھے۔ جیسا کہ ذرایع ابلاغ کے سمعی و بصری تراشوں میں دیکھا جاسکتا ہے بہت سے پھل فروش اور ٹھیلے والے بھی اسکا شکار ہوئے۔کئی جگہوں پر متاثر شخص کے کپڑوں نے آگ پکڑ لی اور اسکے قریب موجود کئی لوگ آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اگر ڈرائیونگ کے دوران  پیجر پھٹا تو گاڑی بلکہ قریب گزرتی دوسری گاڑیوں میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔

ان ساری تفصیلات سامنے آنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کی مافوق الفطرت ذہانت اور ٹیکنالوجی کا اظہار نہیں بلکہ فلسطینیوں کے خلاف بدترین شیطانی اتحاد کا کارنامہ ہے جو انکی نسل کشی کیلئے ہرحد تک جانے کو تیار ہے۔بے گناہوں کے قتل عام کیلئے امریکہ اور یورپی یونین کے  تجارتی اور کسٹم ضابطوں کی دھجیاں اڑادی گئیں لیکن اسکی مذمت تو دور کی بات، سوشل میڈیاپر اسے فلسطینیوں کے خلاف محضحکہ اور تضحیک کا استعارہ بنالیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے کمیشن براے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک Volker Turk نے اس بہیمانہ کاروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی قانون، عام استعمال کی اشیا میں دھماکہ خیز مواد بھرکر عام لوگوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ قدم جنگی جرائم شمار کیا جاسکتاہے۔لیکن جب لاقانونیت ہی قانون بن جائے تو پھر تہذیب و انصاف کی بات تقریرو تحریر سے آگے نہیں بڑھتی۔

اس واقعے کے دوسرے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 کے مقابلے میں 124 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ'مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو بلا تاخیر ختم کرے اور یہ کام 12 ماہ کے اندر مکمل ہوجانا چاہئے'۔ یہ قراراداد جولائی میں عالمی عدالت انصاف (ICJ)کے اس فیصلے کے نفاذ کی طرف ایک قدم تھا جسکے مطابق 'فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے'

برما سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک نے قرارداد کی پرجوش حمائت کی تاہم ہندوستان نےان 43 ممالک کا ساتھ دیا جو رائے شماری کے دوران غیر جانب دار رہے۔ اس بھاری اکثریت سے منظور ہونے قرارداد کو اسرائیل کی جانب سے سے مسترد کیا جانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن امریکی ریپبلکن پارٹی کے 30 سینٹروں نے اس قرارداد کو دہشت گردوں کو انعام سے نوازنے کے مترادف قراردیا۔ دوسرے دن اقوام متحدہ کی کمیٹی برئے حقوقِ اطفال (CRC)کے نائب سربراہ Bragi Gudbrandssonکی جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بچوں کی ہولناک موت تاریخی اعتبار سے منفرد اور تاریک ترین ہے۔اس سے پہلے (بچوں کے حقوق سے معتلق چارٹر) کی اتنی بڑی خلاف ورزی کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ایسی سنگین خلاف ورزیوں کا تصور بھی محال ہے۔یہ تبصرہ بھی اخبارات کی زینت سے آگے نہ بڑھ سکا۔

لبنان میں پیجر کے ذریعے مزاحمت کاروں کے بھاری نقصان اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہوجانے کے بعد اسرائیل نے سارے لبنان پر زبردست بمباری کی اور اسی دوران زمینی کاروائی کیلئے ٹینک اور توپ خانہ بھی لبنانی سرحد پر پہنچادیا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے کہا ہے کہ اب ہماری توجہ کا مرکز لبنان ہے۔ زبردست نقصان کے باوجود  جنوبی لبنان نے راکٹ حملے جاری ہیں اور 19 ستمبر کو ڈرون حملے میں کمپنی کمانڈر سمیت اسرائیل کے دوفوجی ہلاک ہوگئے۔

لبنان میں مزاحمت کاروں کے بھاری نقصان اور کئی قائدین کے خاتمے سے اسرائیلی وزیراعظم کا لہجہ مزید رعونت آمیز ہوگیا ہے۔ پیر (23) ستمبر کو کنیسہ (اسرائیلی پارلیمان) کی دفاعی و خارجہ امور کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کو وزیراعظم نیتھن یاہو نے بتایا کہ اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے مکمل محاصرے پر غور کررہی ہے اور اس دوران پانی کا ایک قطرہ، اناج کا ایک ذرہ اور  پیڑول کی ایک بوند بھی وہاں لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

مغرب کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی میں کمی نہیں آئی لیکن عالمی عدالت کی کاروائی نے اسرائیل کے سرپستوں کو مدافعت پر مجبور کردیاہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر جزوی پابندی لگانے کا اعلان کیاتھا اور اب جرمنی نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی کا عندیہ دیا ہے۔جرمن اٹارنی جنرل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف (ICJ)میں جاری مقدمات کی زد غزہ خونریزی میں اسرائیل کی معاونت کرنے والے ممالک پر بھی پڑسکتی ہے۔گزشتہ برس جرمنی نے 36 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کو فراہم کیا تھا۔ اس سال عسکری برآمدات کا حجم ایک کروڑ 45 لاکھ ڈالر ہے۔امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے اسرائیل کو حال ہی میں منظور کئے جانیوالے 20 ارب ٖڈالر مالیت اسلحے کی فراہمی روکنے کیلئے سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھی سینیٹروں کے نام خط میں انھوں نے لکھا کہ 'غزہ میں زیادہ تر قتل عام امریکی اسلحے کیا گیا ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر قانونی جنگ میں اپنی سہولت کاری ختم کرنی ہوگی'

سخت پابندیوں کے باوجود امریکی جامعات میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں جن میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ اور غیر تدریسی شریک ہورہا ہے۔ اس رجحان پر ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ سخت غصے میں ہیں۔ گزشتہ ہفتےایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'میری حکومت آنے پراگر کسی جامعہ میں یہودی طلبہ کو ہراساں کیا گیا یاAntisemitic مظاہرے ہوئے، ان اداروں کی انتظامیہ کو ذمہ درا ٹہرایا جائیگا۔ مقدمات چلیں گے، اہلکاروں کو سزا بھگتنی ہوگی۔ صداقت نامے (Accreditation) کی چھان بین ہوگی اور وفاقی مدد بند کردی جائیگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27ستمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 ستمبر 2024

روزنامہ امت کراچی 27 ستمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 ستمبر 2024