یہ
جنازہ نہیں میرے شہزادے کی برات ہے ، کفن پر دولہا لکھو، ایک ماں کی فریاد
یوم سبت (24 مئی) پر تل ابیب سے ایک سنسنی خیز بیان جاری ہوا جسکے
مطابق آخری اور فیصلہ کن حملے کیلئے اسرائیل نے اپنی
پوری پیدل اور بکتر بند فوج غزہ طلب کرلی ہے۔ اعلامئے میں مزید کہا گیا کہ گولانی
چھاپہ مار ڈویژن، گیواتی کمانڈوز بریگیڈاور نحل ٹینک ڈیژن کے ساتھ تمام محفوظ یا reserveدستوں نے بھی پوزیشنیں
سنبھال لی ہیں۔ فوج کے سربرہ جنرل ایال ضمیر کا کہنا تھا کہ اس بھرپور حملے کا
مقصد مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔
اسکے دودن بعد 26 مئی کی صبح امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف کے
حوالے سے خبر دی کہ اہل غزہ 70 دن کی عبوری جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ تفصیلات
کے مطابق، مزاحمت کار اپنے سینکڑوں قیدیوں اور جزوی اسرائیلی انخلا کے عوض 70 دنوں
میں اسرائیل کے 10 قیدی رہاکردینگے۔اس
معاہدے کے ضامن صدر ٹرمپ ہیں جنھوں نے بانکوں کو یقین دلایا ہے کہ 70 دنوں
میں پائیدار و مستقل امن معاہدہ ہوجائیگا
اور اگر معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں آئیں تب بھی اسرائیل غزہ پر حملہ نہیں کریگا۔
اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد اسٹیو وٹکاف نے اس خبر کی تردید کرتے
ہوئے کہا کہ جنگ بندی کیلئے امریکی تجویز اسرائیل نے تسلیم کرلی ہے اور مزاحمت
کاروں کو چاہئے کہ وہ بھی اسرائیل کی پیشکش قبول کرلیں۔ اسی کیساتھ ٹائمز آف
اسرائیل نے اہل غزہ سے منسوب ایک بیان شائع کیا جس میں الزام لگایاگیا ہے کہ جناب
وٹکاف پہلے طئے کی گئی شرائط سے مکر رہے ہیں یعنی اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا انکے
ترمیم شدید اعلان میں شامل نہیں۔جواب میں جناب وٹکاف خوب غرائے اور کہا کہ مزاحمت
کار ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔غزہ امن کے بارے میں جناب وٹکاف اور صد ٹرمپ کی نیتوں
کا فطور بہت واضح ہے۔ یہ دونوں میدانِ Real Estate کے شہسوار ہیں اور انھیں لٹے پٹے غزہ کی پشت پر نفع بخش Beach Frontنظر آرہا ہے۔ زمین مفت اور
تعمیر قطر، سعودی و متحدہ عرب امارات کے پیسوں سے۔ یعنی آم کے آم آور گٹھلیوں کے
دام
گزشتہ انیس ماہ کے دوران، بنکر بسٹر بموں سمیت اسرائیل نے اپنے
ترکش کا ہر تیز آزمالیا۔ اسکے نتیجے میں غزہ کھنڈر اور اہل غزہ زندہ درگور ہوگئے
لیکن اسرائیل اب تک اپنا ایک بھی عسکری ہدف حاصل نہ کرسکا۔ اسی جنجھلاہٹ کا نتیجہ
ہے کہ حملوں میں شدت کیساتھ وحشت و درندگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اسرائیل
کے امریکی دوستوں کے خیال میں 'اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا'
صد ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور فلورڈا سے
ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس رینڈی فائن نے غزہ پر جوہری بم گرانے کی تجویز دے ہے۔راسخ
العقیدہ یہودی، مسٹر فائن یکم اپریل کو سابق مشیر سلامتی مائک والز کی خالی کردہ
نشست پر رکن منتخب ہوئے ہیں، صدر ٹرمپ نے موصوف کی انتخابی مہم می بنفس نفیس حصہ لیا تھا۔ واشنگٹن میں اسرائیلی
سفارتخانے کے دو اہلکاروں کے قتل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے رینڈی فائن نے فاکس
ٹیلی ویژن پر کہاکہ 'فلسطینیوں کا موقف (cause) بذات خود ایک شیطنت ہے۔ غزہ
میں تنازعہ کا خاتمہ مسلم دہشت گردی کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے ہتھیار ڈالنے
کی صورت ہی میں ممکن ہے۔دوسری جنگ عظیم میں نازیوں سے ہتھیار ڈالنے کی بات کی گئی
نہ جاپانیوں سے۔ہم نے جاپانیوں پر دو بار ایٹم گرایا اور معاملہ ختم۔ یہاں بھی اسی
کی ضرورت ہے۔جیسے امریکہ نے جاپان پر جوہری بم گرایا، شائد اب اسی کی ضرورت غزہ
میں ہے'
بلاشبہ
نہتے افراد کا قتل حد درجہ افسوسناک ہے، لیکن غزہ میں ہونے والے واقعات کا دکھ ساری دنیا محسوس کررہی
جسکا رد عمل 21 مئی کی شام کو نظر آیا جب امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے یہودی
میوزیم سے باہر آتے اسرائیلی سفرتخانے کے دوافسران یارون لچنسکی اور اسکی گرل فرینڈ
سارہ ملگرم کو ایک 30 سالہ شخص الیاس راڈریگز نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔حملے کے بعد بھاگنے کے
بجائے الیاس نے میوزیم کے اندر جاکر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔پولیس کمشنر
پامیلا اسمتھ کے مطابق گرفتاری کے وقت الیاس 'آزاد فلسطین' کے نعرے لگارہا تھا۔دوسرے
روز عدالت کے روبرو بھی الیاس نے کہا کہ غزہ میں ہونے والے مظالم نے اسے راست
اقدام پر مجبور کیا۔ الیاس ایک تعلیم یافتہ اور برسرروزگار شخص ہے۔ اسکے ریکارڈ میں
کسی قسم کی مجرمامہ یا پُر تشدد سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی اندراج نہیں۔ سوشلسٹ
خیالات کی طرف مائل الیاس، انسانی حقوق کا سرگرم کارکن ہے۔واضح رہے کہ الیاس
مسلمان نہیں۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ اور یورپ کے یہودیوں میں شدید خوف و ہراس
پیدا ہوگیا۔ جرمنی میں انسداد سام دشمنی (Antisemitism)کے کمشنر فیلیکس کلائن نے
خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کے مزید واقعات پیش آسکتے
ہیں۔اسرائیلی ماہرین کی فکرمندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ الیاس راڈریگز کسی گروپ یا
گروہ سے وابستہ تھا اور نہ اس نے اس کام کیلئے کسی کی مدد لی۔ جس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ غزہ نسل کشی عام لوگوں کو راست قدم اٹھانے پر اکسارہی ہے اور اس قسم کے
واقعات کو روکنا بہت مشکل ہے۔
پابندیوں اور بدترین سینسر کے باوجود اب غزہ نسل کشی کی خبریں
اسرائیل پہنچ رہی ہیں اور وہاں بھی عوام سطح پر بیچینی کا اظہار ہورہا ہے۔ سابق
ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ جنرل (ر) یائر گولان نے کہا کہ اسرائیل
بہت تیزی سے Apartheid دور کا جنوبی افریقہ بن رہا ہے۔ ایک معقول ملک شہریوں کے خلاف نہیں
لڑتا، بچوں کو شوقیہ نہیں مارتا اور آبادیوں کو بے دخل کرنا اسکی قومی حکمت عملی
نہیں ہوتی۔ جنرل صاحب کے اس بیان پر وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے انھیں محفوظ یا
ریزرو دستے سے فارغ کردیا۔ اسرائیل میں تمام فوجی ریٹائر ہونے کے بعد ریزرو شمار
ہوتے ہیں جنھیں بوقت ضرورت محاذ پر بھیجا جاسکتا ہے۔ دوسرے دن بی بی سی سے باتیں
کرتے ہوئے اسرائیل کے سابق وزیراعظم، یہود المرٹ نے کہدیا کہ 'غزہ میں اسرائیلی
اقدامات انسانیت کے خلاف جرائم کے “بہت قریب” ہیں'
غرب اردن میں ہونے والے تشدد اور جبری بیدخلی پر بھی دنیا تشویش کا
اظہار کررہی ہے۔اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کیلئے اسرائیل نے غیر ملکی سفارتکاروں کو
غرب اردن کا دورہ کرنے کی اجازت دیدی۔ وفد کی آمد سے پہلے علاقے کی ادھیڑی ہوئی سڑکوں کی استرکاری کی
گئی اور عمارتوں کو رنگ روغن کرکے چمکا دیا گیا۔ اس سارے انتظامات کے بعد 21 مئی
کو فوج کی نگرانی میں فرانس، برطانیہ، کینیڈا، روس، چین، ہندوستان، جاپان سمیت
21ممالک اور یورپی یونین کے سفارتکاروں کو جنین لایا گیا۔چونا کاری کاکام اس قدر
جلدبازی اور بھونڈے پن سے کیا گیا تھاکہ اسکا مصنوعی پن صاف نظر آرہا تھا، چنانچہ
یورپی یونین کے سفارتکار برابر والی گلی میں چلے گئے جہاں سڑک ادھڑی اور مکانات کی
دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں۔ اس پر اسرائیلی فوج نے زبردست ہوائی فائرنگ شروع
کردی۔سفارتکار بھاگ کر وہاں سے واپس آگئے اور کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔اسرائیلی فوج
نے اس پر معذرت کرتے ہوئے کہاکہ وفد نے پہلے سے طئے شدہ راستے سے انحراف کیا تھا
اور فائرنگ دہشت گردوں کو متنبہ کرنے کیلئے کی گئی تھی۔
اسرائیلی مظالم پر دنیا میں بیداری تو ہے لیکن ردعمل سست ہونے
کیساتھ گروہ بندی، اسلاموفوبیا اور
تعصب بہت واضح ہے۔ یورپی یونین کے وزرائے
خارجہ کے حالیہ اجلاس میں اسرائیل سے تجارت اور تعاون کے معاہدوں پر نظر ثانی کی
قرارداد27میں سے 17ممالک نے منظور کرلی۔ گویا دوتہائی سے بھی کم یورپی ممالک غزہ
کے معاملے کو سنگین سمجھ رہے ہیں۔یہ تحریک ہالینڈ نے پیش کی تھی جسکی بلغاریہ،
کروشیا، یونانی قبرص، چیک ریپبلک، جرمنی، یونان، ہنگری، اٹلی اور لتھوانیہ نے
مخالفت کی جبکہ لٹویا غیر جانبدار رہا۔ دوسری طرف برطانیہ نے اسرائیل سے آزادانہ
تجارت کے معاہدے (FTA)پر مذاکرات منجمد کردئے ہیں۔ پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے
وزیرخارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ غزہ اور غرب اردن میں اسرائیل کا رویہ انتہائی برا
اور انسانیت کے خلاف جرائم شمار ہوسکتا ہے
موسیقی کے عالمی مقابلے یورویژن (Eurovision) کا ذکر ہم گزشتہ نشست
میں کرچکے ہیں۔سوئزرلینڈ کے شہر باہزل (Basel)میں ہونے والے اس مقابلے کے اختتام
پر فاتح، آسٹریائی گلوکار، Johannes Pietschالمعروف JJ نے ایوارڈ لیتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا 'اسرائیل کو مقابلے میں شامل ہوتے دیکھ کر بہت مایوسی
ہوئی۔ میں چاہتا ہوں کہ اگلا یورووژن ویانا میں ہو اور اسرائیل کے بغیر'
کچھ ایسی ہی صورتحال Ivor
Novelloایوارڈ کی تقسیم کے وقت پیش آئی۔ مشہور یورپین فنکار آیور
نویلو کی یاد میں ہر سال عمدہ گیت کے تخلیق کار اور دھنیں تیار کرنے والوں کو انعامات
دئے جاتے ہیں۔ اس بار یہ تقریب 22 مئی کو لندن کے Grosvenor ہوٹل میں منعقد ہوئی، جس کے مہمان خصوصی آئرلینڈ کے مشہور گلوکار پال
ڈیوس ہیوسن المعروف بونوح (Bono) نے غزہ امن فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا 'غزہ میں خونریزی ختم ہو، مزاحمت
کار قیدی آزاد کردیں اور اسرائیل نیتن یاہو اوراسکے انتہا پسند ساتھیوں کے چنگل سے
آزاد ہوجائے'
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا لیو چہاردہم نے پوپ کی ذمہ داری
سنبھالنے کے بعد سینٹ پیٹرر برگ چوک پر اپنے پہلے ہفتہ وار خطبے میں کہا کہ 'غزہ
کی صورتحال تشویش ناک اور تکلیف دہ ہے۔ میں دلی التجا کرتا ہوں کہ وہاں خاطر خواہ
امداد کی اجازت دی جائے۔ اس دشمنی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس کی دل دہلا دینے
والی قیمت بچے، بزرگ اور بیمار ادا کررہے ہیں ہیں۔ کلیسائے انگلستان (Church of England)کے اسقف ہائے اعظم یا Bishops کے 22مئی کو یارک (York)میں ہونے والے سالانہ اجتماع
میں بھی ایک قراردادمنظور ہوئی جس میں کہا گیا کہ 'غزہ میں اسرائیل کے عسکری
اقدامات، دفاعی جنگ نہیں بلکہ قابل مذمت جارحیت ہے۔ ہم غزہ کیلئے انسانی امداد کی
پابندی کو نسل کشی کی ایک شکل سمجھتے ہیں'۔
امریکی جامعات میں تشدد و گرفتاری کے باوجود اہل غزہ کی حمائت
بڑھتی جارہی ہے۔ اجکل جامعات اور دوسرے تعلیمی اداروں میں تقسیم اسناد کی تقریبات ہورہی ہیں اور بلا
استثنیٰ ہر جگہ سند لینے والے طلبہ کی معقول تعداد فلسطینی
کفیہ گلے میں ڈال کر ڈگری وصول کررہی ہے۔ بہت دلچسپ صورتحال جامعہ شمالی ٹیکسس (UNT)کے
شعبہ طب کے جلسہ تقسیم اسناد میں پیش آئی۔ایک پاکستان نژاد ڈاکٹر کو رئیس کلیہ نے
اعزازی مفلر پہنایا تو اس نے فلسطین کا
پرچم لہرادیا۔ اس لڑکے کی جرات رندانہ سے زیادہ غیر متوقع سامعین کا ردعمل تھا۔ اس
علاقے اور جامعہ پر قدامت پسندوں کے اثرات بہت گہرے ہیں لیکن فلسطینی پرچم دیکھ کر
سارا مجمع کھڑا ہوگیا اور دیر تک تالی بجتی رہی۔
اور آخر میں دوواقعات کہ جنکا بصری تراشہ بھی ہم سے نہ دیکھا گیا۔
شہید ہونے والے ایک بچے کی ماں بلک بلک کر کہہ
رہی تھی۔ 'تم سب کو تمہارے رب کا واسطہ، اسے جنازہ نہ کہو یہ میرے شہزادے کی بارات
ہے'۔امدادی کارکنوں سے اس نے رو رو کر فریاد کی کہ کفن پردولہا لکھدو۔ جب ایک
کارکن نے کالے مارکر سے کفن پر 'العریس' یعنی دولہا تحریر کیا تب اس نے تدفین
کیلئے میت اٹھانے کی اجازت دی۔ دوسرا واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ ناصر ہسپتال سے وابستہ
مشہور
ماہر اطفال ڈاکٹر آلاء النجار 21 مئی کی
شام بدترین بمباری کے بعدزخمیوں اور لاشوں کو دیکھ رہی تھیں۔ سب کے جسم اس بری طرح
جھلسے ہوئے تھے کہ شناخت مشکل تھی۔ڈاکٹر صاحبہ ایک لاش کی شناخت کررہی تھیں تو
انھیں پتہ چلا کہ کوئلہ بنا یہ لاشہ انکے بڑے صاحبزادے یحییٰ کا ہے۔ اسکے بعد تو
جس لاش کو بھی ہاتھ لگاتیں وہ انکے کس بچے کی تھی۔ بمباری میں انکے دس میں سے نو بچے شہید ہوگئے اور بری طرح جھلسا ہوا دسواں لخت
جگر موت و حیات کی کشکمش میں ہے۔ لیکن آفرین ہے احساسِ ذمہ داری پر کہ اپنے مہ
پاروں کی لاشوں کو ایک طرف کرکے وہ معمول کے مطابق زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف
ہوگئیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 مئی 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 30 مئی 2025
رزنامہ امت کراچی 30 مئی 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم جون 2025