مہینوں کے اعصاب شکن مذاکرات،
صدر ٹرمپ کی دھمکیوں اور توہین آمیز جھڑپ کے بعد یوکرین اور امریکہ نےیوکرین کے
معدنیات اور قدرتی وسائل کو ترقی دینے کے ایک معاہدے پر دستخط کردئے۔ بنیادی طور پر
یہ نایاب زیرزمین معدنیات یا Rare Earth Elements(REEs)
کی تلاش و ترقی کا معاہدہ ہے جس کو آخری شکل دینے فروری کی 28 تاریخ کو صدر ولادیمیر زیلینسکی امریکی دارالحکومت آئے تھے لیکن قصرِ مرمریں کے بیضوی دفتر میں ہونے والی یہ ملاقات
سلام کلام کے فوراً بعد جھڑپ میں تبدیل ہوگئی اور صدر ٹرمپ نے اپنے معزز مہمان کو
بصد سامان رسوائی وہاں سے نکال دیا۔
آج واشنگٹن
میں اس معاہدے پر یوکرین کی وزیراعظم محترمہ Yulia Svyrydenko اور امریکی وزیرخزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے دستخط کئے۔ مسودے کے مطابق ان وسائل
کی ملکیت یوکرین کے پاس رہیگی۔ تلاش و ترقی کیلئے امریکہ سرمایہ کار تلاش کریگا
اور معدنیات کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم یوکرین کی تعمیر نو میں استعمال ہوگی۔
یہ معدنیات کیا ہیں، اور
امریکہ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟
نایاب زیرزمین معدنیات جنھیں
Rare Earth Elementsیا REEs کہا جاتا ہے، 17 ملتی جلتی کیمیائی خصوصیات والی معدنیات ہیں جو سمارٹ
فون، کمپیوٹر، طبی سامان اور کئی دیگر اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ان میں
سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم،
سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم،
یٹیربیئم اور لٹیٹیئم نامی معدنیات شامل ہیں۔علم کیمیا کے ماہرین نے عناصر کے اس گروپ کو Lanthanides کانام دیا ہے جسکا یونانی زبان میں مطلب ہے 'ڈھکا ہوا' یعنی
خالص حالت میں یہ عناصر بہت کم جگہ دستیاب ہیں۔عام طور سے ان قیمتی
معدنیات میں تھوریم اور یورینیم جیسے تابکاری عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ اِن ناپسندیدہ
کثافتوں سے جان چھڑاناممکن
تو ہے لیکن اس مشکل عمل پربھاری سرمایہ
خرچ ہوتا ہے۔
تاہم دنیا میں کئی مقامات پر
یہ عناصر خالص حالت میں پائے جاتے ہیں۔ان میں چین سرِ فہرست ہے جہاں REEsذخائر کا مجموعی حجم چار کروڑ چالیس لاکھ ٹن
ہے جو آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ آف انرجی اسٹڈیز کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے نایاب
معدنیات کا 90 فیصد ہے۔ ہندوستان دوسرے پر نمبر ہے جہاں 69
لاکھ ٹن REEsموجود ہیں، ارٹیس لاکھ (38)ٹن کیساتھ روس کا تیسرا نمبر ہے اور چوتھے
نمبر پر ویتنام جہاں نایاب معدنیات کا مجموعی حجم 25 لاکھ ٹن ہے۔ گرین لینڈ پر بھی
صدر ٹرمپ کی نظریں ہیں جہاں ان قیمتی عناصر کا تخمینہ 15لاکھ ٹن ہے،امریکہ میں REEs
کا مجموعی حجم 19 لاکھ ٹن ہے۔ نایاب معدنیات کے اعتبار سے یوکرین دنیا کے 10 بڑے
ممالک میں نہیں آتا، تاہم امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں REEsکے پانچ فیصد ذخائر اسی ملک میں ہیں۔دلچسپ بات
کہ معدنیات پر نظر رکھنے والے موقر برطانوی
ادارے بینچ مارک منرل انٹیلیجنس‘ المعروف Benchmarkکے مطابق،یوکرین میں REEsکے
حوالے سے اب تک جو تخمینے لگائے گئے ہیں وہ قیاس آرائی سے زیادہ کچھ نہیں۔یوکرینی
ماہرین ارضیات دارالحکومت کیف، شمال وسطی یوکرین میں Vinnytsiaاور چند دوسرے مقامات پر بھی ان معدنیات کی
موجودگی کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن اب تک ان علاقوں میں مساحت ارضی کا کوئی ٹھوس کام
نہیں کیا گیا۔یوکرین میں ان معدنیات کے دریافت شدہ ذخائر مشرقی یوکرین میں لوہانسک
(Luhansk)اور ڈونیتسک (Donetsk)صوبوں پر مشتمل علاقے دنباس (Donbas)،
اسکے مغرب میں زیپوریزا (Zaporizhia)، دریائے دنائپر (Dnieper)
کے کنارے، تاتاروں کے جزیرہ نما کریمیا اور
اسکے شمال میں بحیرہ آزوو (Azov) کے ساحل پر ہیں۔ یہ تمام کا تمام علاقہ روس
کے قبضے میں ہے۔ یوکرین مساحت ارضی کے مطابق ملک میں بیٹری
بنانے کے کام آنے والے قیمتی عنصر لیتھیم (Lithium)کے دریافت شدہ ذخائر کاتخمینہ ساڑھے چار لاکھ
ٹن ہے لیکن اسکے بڑے حصے پر بھی روسی قابض ہیں۔
یعنی
یوکرین میں نایاب معدنیات کے ذخائر تو ہیں لیکن روسی قبضے کی وجہ سے ان تک پہنچنافی
الحال ممکن نہیں، شائد اسی لئے یوکرینی حکومت نے صدر ٹرمپ کے عتاب سے بچنے کیلئے
اپنے معدنی وسائل تک امریکی رسائی کی کڑوی گولی یہ سوچ کر نگل لی کہ جب دادا مریں
گے تب بیل بٹیں گے۔ ماہرین کے مطابق امریکہ میں نایاب معدنیات کے دریافت شدہ
ذخائرکی مقداریوکرین سے زیادہ ہے لیکن صدر ٹرمپ خود کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے یوکرینی
معدنی وسائل تک رسائی کا معاہدہ چاہتے ہیں تاکہ وہ سینہ پھلاکر امریکی عوام کو
بتاسکیں کہ انکی انتظامیہ یوکرین کو مدد میں دی گئی ایک ایک پائی سود کے ساتھ واپس
لے رہی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، ان
معدنیات کے عالمی ذخائر کا 90 فیصد چین کے پاس ہے۔ خام ذخائر کے علاوہ چین نے نایاب معدنیات کی کانکنی اور نتھارنے (Processing)کے باب میں زبردست مہارت حاصل کرلی ہے۔امریکی
مساحت ارضی کےمطابق امریکہ درآمد کئے والے REEsمیں
چین کا حصہ 72 فیصد ہے۔ امریکہ کیلئے مزید پریشان کن بات کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں موجود ان نایاب معدنیات کی بہت
سی بڑی کانوں کے مالک چینی ادارے ہیں۔حالیہ
تجارتی جنگ میں چین نے جن جوابی اقدمات کا عندیہ دیا ہے ان میں امریکہ کو REEsبرآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔
امریکہ بہادربلاشبہ
ٹیکنالوجی کے مردِ میدان ہیں لیکن ارضیات، کانکنی اور خاص طور سے نایاب معدنیات کی
تلاش و ترقی میں انکا چین سے کوئی مقابلہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میدان میں ہم پاکستانی بھی مہارت و تجربے کے اعتبار
سے کچھ کم نہیں۔
معدنیات کو سنوارنے اور
نتھارنے کی ٹیکنالوجی میں تو مہارت حاصل کی جاسکتی لیکن اسکے ذخائر پر قدرت نے چین
کو جو برتری عطا کردی ہے اسکا صدر ٹرمپ کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ شائد اسی لئے انکی
نظریں یوکرین اور گرین لینڈ پر ہیں۔لیکن اب جبکہ امریکہ یوکرین کو اپنے معدنی
وسائل تک رسائی دینے پر جبراً راضی کرچکا ہے توکیا روس، معدنیات سے مالامال یہ علاقے امریکی کانکنوں
کیلئے خالی کردیگا؟؟ْ؟؟؟
اعتراف و تشکر: ان سطور کیلئے مساحت ارضی پاکستان (GSP) کے سابق سربراہ جناب حسن گوہر اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ کے سابق سربراہ معین رضاخان سے استفادہ کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment