سارے غزہ پر مکمل قبضے کا اسرائیلی منصوبہ
اہل غزہ کو ہجرت پر مجبور کرنے کیلئے اسرائیلی
فوج جان کر رہائشی عمارتیں مسمار کررہی ہے
صیہونی ریاست اور ناپاک فوج کا وجود توریت کے خلاف ہے، حفظِ توریت
مدارس کا موقف
مزاحمت کاروں نے امریکی شہری کو رہا کردیا
اسرائیل کیلئے امریکی امداد کی بندش؟؟؟
مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنا آسان نہیں۔ ٹرمپ
انتطامیہ کا تجزیہ
ریاض میں، امریکہ، مقتدرہ فلسطین، لبنان، سعودی
عرب، قطر اور UAE کا سربراہ اجلاس
غزہ نسل کشی کے خلاف میگزین میں مضمون لکھنے والی
ترک طالبہ کو عدالت نے رہا کردیا
جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں عرض کیا تھا، غزہ پر مکمل قبضے کیلئے
محفوظ (Reserve)دستوں کے 75ہزار سے زیادہ
سپاہی طلب کرلئے گئے ہیں۔منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے وزیرتزویراتی امور ران ڈرمر نے
کہا کہ مکمل قبضے کا مطلب ہے کہ کاروائی کے اختتام پر واپسی کی موجودہ حکمت عملی
کے بجائے اب مزاحمت کاروں کو ٹھکانے لگانے کے بعد ان سے بازیاب کرائے گئے علاقوں
پر مکمل قبضہ کرکے علاقے کا انتظام و انصرام عسکری انتظامیہ کے حوالے کردیا
جائیگا۔ علاقے کے بنیادی ڈھانچے یعنی سرکاری دفاتر، اسکول، بجلی گھر، آبنوشی کے
وسائل اور اہم تنصیبات کاکنٹرول عسکری انتظامیہ سنبھال لے گی۔اس منصوبے کا سب سے
اہم نکتہ غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا ہے۔ شدید فوجی دباو کے ذریعے غزہ کی کُل آبادی
کو جنوب میں رفح کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کردیا جائیگا تاکہ دوسرے مرحلے میں
انھیں صحرائے سینائی کی طرف دھکیلا جاسکے۔ ٹائمز
آف اسرائیل کے مطابق نیتن یاہو نے پالیمان کی مجلس قائمہ برائے خارجہ اور
دفاع کے خصوصی اجلاس کو بتایا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں رہائشی عمارتوں کو جان کر مسمار
کررہی ہے تاکہ اہل غزہ کیلیے یہاں سے ہجرت کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے۔ اس پر ایک
رکن پارلیمان لائمن سن نے تجویز پیش کی کہ امریکہ سےیہودیوں کو غزہ آباد ہونے کی
دعوت دیجائے۔
اسرائیلی فوج کو غزہ قبضہ منصوبے پر شدید تحفظات ہیں۔ عسکری قیادت
کا کہنا ہے کہ اسکے لئے جتنی بڑی تعداد میں سپاہی درکار ہیں وہ فوج کے پاس میسر
نہیں۔حریدی فرقے اور مدارس کے طلبہ کی جانب سے لازمی فوجی بھرتی
کی مزاحمت میں شدت کیساتھ انکا لہجہ بہت سخت ہوگیا ہے۔ گزشتہ ہفتے مدارس (Yeshiva)
کے طلبہ اور انکے اساتذہ نے فوجی ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرہ
کیا۔ ان طلبہ کے بینر پر لکھا تھا 'صیہونی ریاست اور اسکی
ناپاک فوج کا وجود توریت کے خلاف
ہے'
اسرائیلی جرنیلوں کے مطابق، فوج 20 ماہ سے حالت جنگ میں ہے اور تھکن کے آثار
بہت واضح ہیں۔اس تناظر میں چھاپہ مار جنگ کا سامنا اتنا آسان نہیں۔ اسرائیلی فوج
کے سربراہ جنرل ایال ضمیر نے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دفاع کو بتایا کہ قبضہ
آپریشن کے نتیجے میں ہمارے قیدیوں کی جانیں خطرےمیں پڑسکتی ہیں۔ جنرل ضمیر نے خدشہ
ظاہر کیا کہ فلسطینیوں کو جنوب کی طرف دھکیلنے کے عمل میں شہریوں کے بھاری جانی
نقصان سے ایک خوفناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔بحث کے دوران کئی حکومت مخالف
ارکان نے اس منصوبے کو گزشتہ 19 ماہ سے جاری کاروائی کا تسلسل قرار دیا۔ انکا کہنا
تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی فوج غزہ پر قبضے کی کوشش کررہی ہے اور نئے
منصوبے میں اضافی فوجی دستوں کے سوا اور کچھ نیا نہیں، یعنی حکومت اپنی ناکامی کا
اعتراف کرنے کے بجائے نئے منصوبے کے نام پراضافی افرادی قوت غزہ کے دلدل میں
اتارنا چاہتی ہے۔ قیدیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل کے سینیر مصالحت کار میجر جنرل
(ر) نزان ایلن پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ
عسکری کاروائی میں شدت قیدیوں کے لئے خطرات میں اضافہ کردیگی۔
غزہ قبضہ منصوبے پر اسرائیل کے اقتصادی ماہرین بھی تشویش کا اظہار
کررہے ہیں۔اس وقت غزہ آپریش کا یومیہ خرچ 8 کروڑ ڈالر ہے جسکا بڑا حصہ چچا سام کی
گرانٹ سے پورا ہورہا ہے لیکن صدر ٹرمپ حکومتی اخراجات کے معاملے میں بے حد حساس و
محتاط ہیں۔واشنگٹن میں خبر گرم ہے کہ صدر ٹرمپ جہاں سماجی بہبود کے پروگراموں،
جامعات، USAID، وائس آف امریکہ،
سرکاری ریڈیو NPRاور بچوں کے پروگرام Sesame Street بنانے والے PBSوغیرہ کی گرانٹ ختم کررہے ہیں وہیں اب انکی نظریں مختلف ممالک کی
امداد پر ہیں، جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی زیادہ تر
تجاویز قدامت پسند مرکزِ دانش Heritage Foundationکی ترتیب کردہ ہیں جو صدر ٹرمپ کے پروجیکٹ 2025 کا حصہ ہے۔یروشلم
پوسٹ کے مطابق، فاونڈیشن نے جن ممالک کی مدد پر آرا چلانے کی سفارش کی ہے، ان میں
اسرائیل اور مصر سر فہرست ہیں۔ صدر اوباما نے 2016 میں اسرائیل کیلئے دس سال
دورانئے کی 38 ارب ڈالر مدد منظور کی تھی۔ مفاہمت کی یادداشت (MOU)کے مطابق اسرائیل کو ہرسال
تین ارب تیس کروڑ ڈالر فوجی سازوسامان اور 50 کروڑ میزائیل پروگرام کیلئے دئے
جائینگے۔اس دس سالہ MOU کی مدت اگلے برس ختم ہورہی ہے۔ یروشلم ٹائمز کے مطابق Heritage Foundationنے مدت مکمل ہونے پر MOUکی تجدید نہ کرنے کی سفارش
کی ہے۔
صدر ٹرمپ بھی اب مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو
ناقابل عمل سمجھنے لگے ہیں۔ لندن سے شایع ہونے والے اخبار العربی الجدید نے حالیہ
اشاعت میں انکشاف کیا کہ امریکہ نے غزہ امن کیلئے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے
کی شرط واپس لے لی ہے۔اخبار نے اعلیٰ سطحی مصری افسر کے حوالے سے لکھا کہ امریکی
سراغرساں اداروں کے خیال میں مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں
بزور قوت غزہ سے بیدخل کرنا ممکن نہیں۔ رپورٹ کے مطابق واشنگٹن، غزہ میں مزید فوجی
بھیجنے کے منصوبے کا بھی مخالف ہے کہ اس سے انسانی جانوں کےزیاں میں اضافے کے سوا
اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مزاحمت کاروں کے ٹھکانے سارے غزہ میں ہیں اور انکی صفوں میں داخل ہونے والے نوخیز
فلسطینیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی حکام سے رابطہ کرنے والے مزاحمت کاروں
نے یقین دلایا ہے کہ پائیدار جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے غیر مشروط انخلا کی
صورت میں قیدیوں کو رہا کردیا جائیگا۔ حالیہ دورہ امریکہ میں غزہ قبضہ منصوبے کے
خالق ران ڈرمر کو بھی یہ باور کرادیاگیا ہے کہ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی ناکام
ہوچکی ہے ۔اسرائیل 582 دن کی مسلسل سرماری کے بعد ایک بھی قیدی رہا نہیں کراسکا اور جو
قیدی آزاد ہوئے وہ سب کے سب فائربندی اور مذکرات کے نتیجے میں اپنے پیاروں تک
بحفاظت واپس پہنچے ہیں۔اس سے پہلے صدر کےخصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف بھی کہہ چکے ہیں
کہ طاقت نہیں سفارت مسئلے کا حل ہے۔ مزاحمت کاروں سے امریکہ کے براہ راست مذاکرات
ے نتیجے میں 12 مئی کو مزاحمت کاروں نے امریکی شہریت کے حامل عیدن الیکزنڈر کو رہا
کردیا۔ امریکی ریاست نیوجرسی میں جنم لینے والا 21 سالہ عیدن اسرائیل کا سپاہی ہے
جسے طوفان الاقصیٰ کے دوران جنگی قیدی بنایاگیا۔ عیڈن کی رہائی کا خیرمقدم کرتے
ہوئے اسٹیو وٹکاف نے اپنا یہ موقف دہرایا کہ اسرائیل
جنگ کو غیر ضروری طور پر طول دے رہا ہے حالانکہ قیدیوں کی رہائی صرف امن اور
سفارتکاری سے ممکن ہے۔ عیدن الیگزنڈر کی رہائی سے نئی امید پیدا ہوئی ہے اور ہمیں
امید ہے کہ اسرائیل اور تمام ثالث اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔
آجکل صدر ڈانلڈٹرمپ، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے
پر ہیں۔ لندن سے شایع ہونے والے القدس العربی نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے
حوالے سے خبر دی ہے کہ مقتدرہ فلسطین (PA)کے سربراہ محمود عباس، شام کے صدر احمد الشرع اورانکے لبنانی ہم
منصب جوزف عون، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ہمراہ 13 مئی کو کو ریاض میں صدر
ٹرمپ سے ملاقات کرینگے۔ اس چوٹی کانفرنس میں غزہ کے معاملے پر بات ہوگی۔ اس حوالے
سے ایک معنی خیز بات یہ بھی کہ اپنے اس اہم دورہ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر
اسرائیل نہیں جائینگے اور نہ ہی کسی اسرائیلی رہنما سے کوئی ملاقات متوقع ہے۔
نیتن یاہو کی جانب سے جنگی جنون کی حوصلہ افزائی کے علی الرغم سلیم
الفطرت اسرائیلی اب اپنی آواز بلند لگے ہیں۔ آٹھ تا نو مئی ، یروشلم کنونشن سینڑ
میں عالمی امن کانفرنس ہوئی جس میں سابق اسرائیلی وزیراعظم یہودا ایلمرٹ، بائیں
بازو کی جماعت ہدث طعل کے سربراہ ایمن عودہ کے علاوہ فرانس کے صدر ایمیونل میکراں
اور مقتدرہ فلسطین کے سربراہ محمود عباس نے ٹیلی فونک خطاب کیا۔
اس بیٹھک کے محرک اسرائیل کے معوذ عنن (Maoz Inon) اور انسانی حقوق کے سرگرم
کارکن عزیز ابوسارہ تھے۔ معوض عنن کے والدین 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصیٰ میں
مارے گئے جبکہ عزیز ابوسارہ کے بھائی کو دوران حراست اسرائیلیوں نے تشدد کرکے قتل
کردیا۔اپنی ابتدائی گفتگو میں معوذ عینن نے کہا کہ مجھے اپنے والدین کی موت کا غم
ہے لیکن میں نے اپنے دکھ کو انتقام میں تبدیل کرنے بجائے اسے امن کی جدوجہد کا
عنوان بنادیا ہےتاکہ جس کرب سے میں گزررہا ہوں، میرے بچے اس سے محفوظ
رہیں۔فرانسیسی صدر میکراں نے اس بیٹھک کو درد کے زخموں پر امید کا مرہم
قراردیا۔ جناب میکراں نے کہا کہ آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست اسرائیل کی سلامتی
و تحفظ اور پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ جون میں سعودی عرب
کیساتھ مل کر وہ اس حوالے سے ایک جامع منصوبے کا اعلان کرینگے۔انکا کہنا تھا کہ یہ
اسی وقت ممکن ہے جب مزاحمت کار، قیدی رہا کرکے خود ہی غیر مسلح ہوجائیں۔سابق
اسرائیلی وزیراعظم یہودا ایلمرٹ نے غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا پر زور دیتے ہوئے
کہا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہے لہذا وہاں اسرائیلی فوج کا کوئی کام نہیں۔
انھوں نے مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرکے مقتدرہ فلسطین کی قیادت میں عبوری فوج
تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جو اس پٹی کی تعمیر نو کی نگرانی کرے۔
امن اور فوجی انخلا کی حد تک تو کانفرنس کی سفارشات خوش آئند ہیں
لیکن مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے والی بات اہل غزہ کبھی قبول نہیں کرینگے۔
فلسطینی ریاست کی بات بھی وضاحت طلب ہے کہ اب مطالبہ tow stateسے آگے بڑھ کر Forty Eightتک جاچکا ہے۔
غزہ کیساتھ غرب اردن کے فلسطینی بھی نسل کشی اور بیدخلی کے عذاب
میں مبتلا ہیں۔ شمالی غرب اردن میں طولکرم کے قریب نورشمس خٰمہ بستی کے تقریباً
سارے کچے اور نیم پختہ مکانات گرا کر مکینوں کو اردنی سرحد کی طرف ہنگا دیا گیا
ہے۔خالی کئے گئے علاقے میں اسرائیلی بستی تعمیر کی جائیگی۔ عین سبت کے دوران 10
مئی کو اسرائیلی قبضہ گردوں (Settlers) نے رام اللہ کے گاوں ابو فلاح میں فلسطینیوں کے ایک فارم ہاوس کو
آگ لگادی۔توسیع پسندی کے اس شیطانی مظاہرے میں سنگترے کے باغات پھونک دئے گئے۔اس
دہشت گردانہ کاروائی کو اسرائیلی فوج نے مکمل تحفظ فراہم کیا جسکے دوران ہزاروں
مرغیاں اور مویشی زندہ جل گئے۔
تاہم اہل غزہ کے حق میں عسکری اور سیاسی و سفارتی حمائت میں کوئی
کمی نہیں آئی۔ اسرائیل کی خوفناک بمباری اور دارالحکومت صنعا کے ائرپورٹ اور ملک
کی تمام بندرگاہوں کو پیوند خاک کردینے کے باوجود، حوثیوں نےاسرائیلی پر میزائیل
حملے جاری رکھے۔ جمعہ 9 مئی کی دوپہر تل ابیب کے ساحل پر منجنیقی (Ballistic)میزائیل
اس وقت داغے گئے جب سخت گرمی میں ہزاروں افراد غسل آبی و آفتابی سے طف اندوز ہورہے
تھے۔ سائرن بجنے پر یہ لوگ پناہ گاہوں کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے اور افراتفری کے دوران
بہت سے ضعیف العمر افراد اور بچے زخمی ہوگئے۔
اسرائیل کے خلاف مظاہروں پر غیر اعلانیہ پابندی کے باوجود نیویارک
میں 6 مئی کو غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔اسی دن جامعہ واشنگٹن سیاٹل (Seattle)میں غزہ نسل کشی کے خلاف
مظاہرہ کرنے والے 25 طلبہ گرفتار کرلئے گئےجسکے خلاف دوسرے دن جامعہ کیلی فورنیا لاس اینجلیس میں غزہ نسل کشی کے خلاف طلبہ نے
دھرنا دیا۔وپاں بھی پولیس نے زبردست تشدد کرکے طلبہ کا احتجاج ختم کرادیا۔ جامعہ
سے اخراج، اسناد کی معطلی، ویزوں کی منسوخٰ، امریکہ بدری، گرفتاری اور انسانیت سوز
تشدد کے باوجود جامعہ کولمبیا کے طلبہ کا غزہ نسل کشی کے خلاف احتجاج جاری ہے اور
7مئی کو طلبہ نے جامعہ کے ایک کتب خانے پر قبضہ کرلیا۔جامعہ انتظامیہ کیساتھ
ریاستی گورنر اور رئیس شہر نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم
کرانے کیلئے پولیس بھیج دی اور سو سے زیادہ طلبہ گرفتار کرلئے گئے۔صدر ٹرمپ کے
انتقامی اقدامات کی وجہ سے جامعہ کولمبیا سخت مشکل میں ہے اور وفاقی گرانٹ کی بندش سے پیدا ہونے والے مالی بحران کی بنا پر جامعہ نے
180 اساتذہ، محققین اور غیر تدریسی عملے کو فارغ کردیا۔
طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر عدلیہ کو بھی تشویش ہے اور
جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محسن مہدوی کے بعد وفاقی عدالت کے حکم پر ترک
طالبہ رمیسہ اوزترک Rümeysa Öztürk کو ضمانت پر رہا کردیا گا۔وفاقی جج ولیم کے سیشن نے اپنے فیصلے میں
لکھا کہ میگزین میں مضمون لکھنا کسی شخص کی گرفتاری کی معقول وجہ نہیں ہے۔ رمیسہ
کے خلاف کسی پُرتشدد کاروائی میں شرکت یا ایسی کسی سرگرمی کی حمائت کا کوئی ثبوت
نہیں پیش کیا گیا اور نہ اسکے ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز موجود ہے۔امریکی ریاست
میسیچیوسٹس کی جامعہ ٹفٹس (Tufts)میں پی ایچ ڈی کی طالبہ، غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کے میگزین میں
ایک مضمون لکھنے کے الزام میں 25 مارچ سے زیرحراست تھی۔ وزارت خارجہ نے اسی الزام
میں اسکا ویزہ بھی منسوخ کردیا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 مئی 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 16 مئی 2025
روزنامہ امت کراچی 16 مئی 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 مئی 2025
No comments:
Post a Comment