Wednesday, May 14, 2025

 

سیندور آپریشن اور اسرائیل ہند تعاون

پاکستان کے خلاف حالیہ سیندور آپریشن کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد میں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان جامع تزویراتی تعاون بہت واضح تھا۔ قیام اسرائیل کے وقت سے بھارت و اسرائیل قریبی اتحادی ہیں۔ صیہونی ریاست قائم ہونے کے فوراً بعد ہندوستان سے بڑی تعداد میں قادیانی، خلیج عقبہ کے ساحلی شہر ایلات جاکر آباد ہوے جہاں 1949 میں اسرائیلی بحریہ نے بہت بڑا اڈہ قائم کیا۔خلیج عقبہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ یہاں سعودی عرب، مصر، اردن اور اسرائیل کی آبی سرحدیں ملتی ہیں۔بحری اڈہ کھلنے سے یہاں آباد قادیانیوں کو اسرائیلی بحریہ میں ملازمتوں کے مواقع میسر آئے اور اِسوقت اسرائیلی بحریہ میں افسران سمیت ہندوستانی قادیانیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

اسرائیل اپنی تحفظ کے بارے میں حد درجہ محتاط و حساس ہے اور ریاست کے وجود کو لاحق کوئی مبہم و برائے نام خطرہ بھی اسکے لئے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں لیکن اسرائیل کو اس پر بھی سخت تشویش ہے اور اسے ہندوستان کی شکل میں 'دشمن کا دشمن' دوست  میسر آگیا ہے۔

اسرائیل اور امریکہ کی اصل طاقت انکی فضائیہ اور ٖفضائی دفاعی نظام ہے۔ گزشتہ دس بارہ سالوں کے دوران اسرائیل نے ڈرون ٹیکنالوجی میں بہت مہارت حاصل کی ہے۔ انکا سب سے مہلک خودکش ڈرون، Harop ہے۔ ہاروپ 16 کلو گرام بارود لیکر ایک ہزار کلومیٹر دور چھ گھنٹے تک پرواز کرسکتا ہے۔ اسکے کمیونکیشن نظام کی حد200کلومیٹر ہے یعنی اڈے پر تعینات آپریٹر 200 کلومیٹر دور تک اسے حکم جاری کرسکتے ہیں۔ یہ ڈرون جاسوسی، نگرانی، ہدف کے چناو اور جائزے کیلے حساس ٹیکنالوجی ISR سے لیس ہیں۔ ہندوستان نے  2009 میں دس کروڑ ڈالر کے عوض 10 ہاروپ ڈرون خریدے تھے، دس سال میں یعنی 2019 تک ہندوستان میں ہاروپ ڈرونوں کی تعداد 110 ہوگئی۔ پہلگام واقعہ کے بعد اسرائیل نے مزید 50 ہاروپ ہندوستان بھیجے۔ 

اسلحے کے علاوہ سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل نے ہندوستان کی بھرپور مدد کی۔ بہاولپور و مریدکے پر حملے کے بعد آپریشن سیندور کی مکمل حمائت  کرتے ہوئے ہندوستان میں اسرائیل کے سفیر رووین آزار نے ٹویٹر (X)پر لکھا

’’اسرائیل، ہندوستان کے  حقِ دفاع کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ دہشت گردوں کو جان لینا چاہیے کہ ان کے پاس معصوم لوگوں کے خلاف اپنے گھناؤنے جرائم سے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘


No comments:

Post a Comment