صدر ٹرمپ کا دورہ خلیج
امریکی اسلحے کی خریداری اور سرمایہ کاری پر
کھربوں خرچ ہونگے
قطر نے ماضی میں دہشت گردوں کی مالی اعانت کی
ہے۔ صدر ٹرمپ
ٹرمپ کارپوریشن کی Crypto Currencyمیں
امارات کی بھاری سرمایہ کاری
شام پر عائد امریکی پابندیاں ختم کردی گئیں
صدر
ڈانلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرق وسطیٰ کا دور کرنے کی روائت برقرار رکھی۔
اس سے پہلے جنوری 2017 میں حلف اٹھانے کے بعد وہ 20 مئی کو سعودی عرب پہنچے تھے
اور اس بار بھی وہ جنوری 2025 میں باگ ڈور سنبھالنے کے بعد 13 مئی کو سعودی عرب
پہنچے۔فرق یہ تھا کہ جناب ٹرمپ اس بار اسرائیل نہیں گئے بلکہ انھوں نے قطر، اور
متحدہ عرب امارات کو شرف میزبانی بخشا۔ تاہم کاروباری معاہدوں اور سلامتی و عالمی
امور پر تزویراتی گفتگو کے اعتبار سے 2017 اور حالیہ دوروں میں کوئی فرق نہ تھا۔ صدر
ٹرمپ کے دورے کا بنیادی مقصد امریکہ میں سرمایہ کاری، امریکی اداروں کیلئے کاروبار
کے مواقع ڈھونڈھنا، اسرائیل سے عرب ومسلم ممالک کے تعقات، غزہ سے فلسطینیوں کا
انخلا، ایران کےجوہری پروگرام کے خلاف عرب دنیا کو آگاہی اور اسی کیساتھ ٹرمپ
کارپوریشن کے مفادات کو آگے بڑھانا تھا۔ صدر ٹرمپ کو اس بات پر بڑا ناز ہے وہ
امریکی تاریخ کے پہلے بزنس مین صدر ہیں اور انھیں مول تول میں مہارت حاصل ہے۔ وہ
فخر سے خود کو deal
makerکہتے ہیں۔
سب
سے پہلے وہ سعوددی عرب پہنچے جہاں آوبھگت کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ صدر
ٹرمپ کی ارغوانی ٹائی کی مناسبت سے جامنی قالین بچھائے گئے۔ولی عہد محمد بن سلمان
سے ملاقات میں دونوں رہنماوں نے مفاہمت کی ایک یادداشت (MOU)پر دستخط کئے
جسکے تحت سعودی عرب، امریکی اسلحہ ساز ادراوں سے 142 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا۔
امریکہ سے اسلحے کی خریداری بڑا گنجلک معاملہ ہے کہ سودا خریدار اور اسلحہ ساز
اداروں لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، جرنل ڈائنامکس وغیرہ سے ہوتا ہے لیکن امریکی کانگریس
اسلحے کی روانگی پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی ہے۔
پاکستان اس عذاب سے گزر چکا ہے۔ ضیاالحق انتظامیہ نے ایف 16
کی خریداری کیلئے طیارہ ساز ادارے لاک ھیڈ مارٹنMartin Lockheedسے معاہدہ کیا
اورپرچیز آرڈر کے ساتھ پیشکی ادائیگی بھی کردی گئی، لیکن امریکی کانگریس نے
پاکستان کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی لگادی۔لاک
ہیڈ نے رقم کی واپسی سے انکار کردیا۔ انکا موقف تھا کہ جہازوں کی کھیپ تیار
ہوچکی ہے لہٰذا رقم واپس نہیں ہوسکتی اور چونکہ پابندی حکومت نے لگائی ہے، اسلئے
لاک ہیڈ اسکی ذمہ دار نہیں۔ دس بارہ سال بعد جب لاک ہیڈ کو ان طیاروں کا ایک دوسرا
خریدار مل گیا تو یہ رقم اس تکلف سے واپس ہوئی کہ اسکا ایک حصہ لاک ہیڈ نے گودام
کے کرائے اور سروس چارج کے نام پر رکھ لیا، کچھ رقم گندم اور سویابین کی شکل میں
واپس ہوئی اور ایک حقیر ساحصہ نقد عطا ہوا۔
اسلحے کی خریداری کے علاوہ سعودی عرب نے امریکہ میں 600 ارب
ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری دراصل شہزدہ محمد بن
سلمان کے وژن 2030کا حصہ ہے جسکے تحت سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم سے کم کیا
جارہا ہے۔ولی عہد کی ہدائت پر مملکت،
سیاحت، صنعت، بینکنگ اور تجارت کےمیدان میں بھاری سرمایہ کاری کررہی۔ تیل کے
معاملے میں بھی اب خام تیل کی فروخت کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات اور اس سے متعلقہ خدمات
سعودیوں کی ترجیحات ہیں۔اسی وجہ سے سعودی ارامکو نے 2 ارب 65 کروڑ ڈالر دیکر
گاڑیوں میں Oil Changeاور فلٹر کی سہولت
فراہم کرنے والے امریکی ادارے Valvoline کی ملکیت حاصل کی ہے۔ اگلے دس سال کے دوران سعودی ارامکو،
امریکہ میں LNG، تیل صاف کرنے
کے کارخانے اور تیل و گیس کے دوسرے وسائل کے حصول و ترقی پر 200 ارب ڈالر کی
سرمایہ کاری کریگی۔
سعودی عرب میں قیام کے دوران صدر ٹرمپ نے خلیج تعاونی کونسل
GCCکے سربراہی اجلاس
میں شرکت کے علاوہ شہزادہ محمد بن سلمان
کے ہمراہ شام کے صدر احمد الشرح سے خصوصی ملاقات کی جس میں ترکیہ کے صدر طیب رجب ایردوان فون پر موجود تھے۔
بات چیت کے درران صدر ٹرمپ نے شامی صدر کی بصیرت، ذہانت اور حوصلے کی تعریف کرتے
ہوئے انھیں شام سے فلسطینیی مزاحمت کاروں کونکالنے اور داعش کو کچلنے کی تلقین کی،
ساتھ ہی شام کو دعوت دی گئی کہ وہ معاہدہ ابراہیمؑ کا حصہ بن جائے۔ اس موقع پر
انھوں نے شام پر سے تمام پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا۔ اسی کیساتھ قطر اور سعودی
عرب نے شام پر واجب الادا عالمی بینک کا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرضہ اداکردیا۔
سعودی عرب سے امریکی صدر قطر پہنچے اور ائرپورٹ سے شاہی محل
تک بلند وبالا، عالیشان و خوبصورت عمارات اور انکے حسنِ تعمیر سے جناب ٹرمپ بہت
متاثر ہوئے۔ مہمان کے استقبال میں مقامی روایات کا بھی خیال رکھاگیا کہ صدارتی
قافلے کی راستے میں اونٹوں کی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ شاہی محل پہنچنے پر صدر
ٹرمپ تلواروں کی رقص سے لطف اندوز ہوئے۔ اس موقع پر قطر نے امریکہ کے طیارہ ساز
ادارے بوئنگ سے 160 طیارے خریدنے کا اعلان کیا جسکی مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔ اس
دوران باہمی سرمایہ کاری کے جو وعدے وعید ہوئے اسکا مجموعی حجم ایک ہزار ارب ڈالر
سے زیادہ ہے۔مہرومحبت کے ان گرم جوش اشاروں کے باوجود صدر ٹرمپ نے صاف صاف کہدیاکہ
ماضی میں قطر دہشت گردوں کی بھاری مالی اعانت کرتا رہا ہے۔ امریکیوں کے خیال میں
قطر کا الجزیرہ ٹیلی ویژن، دہشت گردوں کا ترجمان ہے اور اشاروں کنایوں میں امریکی
قائدین کئی بار اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
قطر کی جانب سے قیمتی تحفے
کی بازگشت اب امریکی کانگریس میں سنائی دے رہی ہے۔ امیر قطر ، صدر ٹرمپ کو ایک
747جمبو جیٹ تحفے میں دینا چاہتے ہیں۔ چالیس کروڑ ڈالر کا پُرتعیش سہولیات سے مزین
یہ جہاز عملاً ایک اڑتا ہوا محل ہے جسے جناب ٹرمپ، صدارتی طیارے یا Air Force oneکے طور پر استعمال کرنا
چاہتے ہیں۔ جہاں اس غیر معمولی قیمت کے حامل تحفے پر ماہرین اخلاقیات اور علمائے
قانون رائے زنی فرمارہے ہیں وہیں کچھ تیکنیکی معاملات پر بھی بحث ہورہی ہے۔امریکی
ماہرین کو ڈر ہے کہ قطریوں نے جہاز پر جاسوسی کے انتہائی حساس آلات نصب کردئے ہی،
چنانچہ خفیہ کیمروں اور ریکارڈرز کی تلاش میں سارے جہاز کو ادھیڑنا پڑیگا۔اسکے
علاوہ جہاز پر خصوصی ریڈار اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں کی تنصیب
پر بھی خطیر رقم خرچ ہوگی یعنی 40 کروڑ کے جہاز پر 75 کروڑ ڈالر اضافی خرچ کرنے
ہونگے۔ تادم تحریر صدر ٹرمپ نے تحفہ قبول نہیں کیا
اور 18 مئی کو قائد حزب اختلاف چک شومر نے Presidential Airlift
Security Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون سینیٹ میں پیش کردیا۔ بل کے مطابق غیر
ملکی ملکیت میں رہنے والا کوئی طیارہ ائرفورس ون نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر قانون
منظور ہوگیا تو یہ قطر کیلئے شرمندگی کا سبب بنے گا کہ اسکا 40 کروڑ ڈالر کا قیمتی
تحفہ امریکہ نے مسترد کردیا۔
صدر ٹرمپ کا آخری پڑاو متحدہ عرب امارات تھا جہاں ایک نئے
انداز میں انکا استقبال کیا گیا۔قدیم زمانے میں
دیدہ و دل فرش راہ کے عملی مظاہے کیلئے کنیزیں اپنے بال زمین پر بچھا دیتی
تھیں اور مہمان اس پر چلتا ہوا محل پہنچتاتھا۔ ابوظہبی پہنچنے پرنازنینوں نے بال
تو فرشِ راہ نہیں کئے لیکن محل کی رہداری میں میں لڑکیاں دونوں طرف اپنی سیاہ
زلفیں لہرارہی تھیں۔متحدہ عرب امارات نے مصنوعی
ذہانت یا AI کیلئے جدید پرتیں (Chips)بنانے والے اداروں اور امریکہ میں
توانائی اور صنعتی منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا۔اسکے علاوہ
اماراتی اسٹیٹ بینک، ٹرمپ کارپوریشن کے Crypto Currency کاروبار میں 2 ارب ڈالر لگائے گا۔ ٹرمپ کارپویشن جدہ اور
دوحہ میں ٹرمپ ٹاور تعمیر کررہی ہے۔شامی صدر نے دمشق میں ٹرمپ ٹاور کیلئے سرکاری
زمین پرکشش شرائط پر فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ یعنی اس دورے میں صدر ٹرمپ نے امریکہ
کے ساتھ اپنے ذاتی کاروبار کیلئے بھی سرمایہ اکھٹا کیا۔
صدر ٹرمپ کے دورہ امارات میں 'مذہبی رنگ' نمایاں تھا۔انھوں
نے ابوظہبی کی جامع مسجد شیخ زاید کی زیارت کی اور دوسرے دن وہ یہودی
معبد (Synagogue) گئے۔
صدر ٹرمپ نے معبد کو ابراہیمی مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کا استعارہ
قراردیا۔ زائرین کی کتاب میں صدر ترمپ نے لکھا کہ 'یہ معبد انسانیت کیلئے امید کی
کرن ہے یعنی علاقے کے انسانوں نے تصادم پر تعاون، دشمنی پر دوستی، غربت پر خوشحالی
اور مایوسی پر امید کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرلیا ہے'۔ بلاشبہ الفاظ بہت شاندار
ہیں لیکن بقائے باہمی کا یہ بھاشن اس شخصیت کی طرف سے دیا گیا جسکی فراہم کی ہوئی
گولیوں ، گولوں، ڈرون و بم اور توپ خانے نے غزہ کو قبرستان بنادیااور اس پر
شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ایک دن پہلے انھوں نے بہت رعونت سے کہاکہ غزہ رہنے
کے قابل نہیں، شہری وہاں سے نکل جائیں۔ امریکہ اس پر قبضہ کرکے غزہ کو کوچہ آزادی
میں تبدیل کردیگا۔ کاش کوئی انکو بتاتا کہ آزادی کی ضرورت انسان کو ہے، قبرستان کو
نہیں۔ انکی یہ تحریر اس لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہے کہ غزہ کو کوچہ آزادی بنانے کے
خواہشمند صدر ٹرمپ نے اپنے ملک کو غریب ہسپانویوں کیلئے قید خانہ بنادیا ہے۔
اگر صدر کے اس دورے کا غیر
جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس سے لگتا ہے کہ خلیجی رہنما نے آوبھگت میں حد سے
تجاوز تو کیا لیکن صدر ٹرمپ سے روابط بڑھانے کا یہی سب سے موثر طریقہ ہے۔ صدر ٹرمپ
تعریف کے خوگر اناپرست انسان ہیں۔ اپنی ٹقریروں میں انھوں نے ہر جگہ سابق امریکی
صدر جو بائیڈن پر سخت تنقید کی اور امریکہ بلکہ عالم تمام کی ہر خرابی کا ذمہ دار Sleepy Joeکو
ٹہرایا۔ سرمایہ کاری اور تجارت کے باب میں خلیجیوں نے صدر ٹرمپ کی جھولی بھردی اور
موصوف Billion and Billions کے نعرے لگاتے واپس چلے گئے۔عرب رہنماوں کو
معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ کو بڑے اعدادوشمار پسند ہیں چنانچہ انھوں نے منہہ مانگا
وعدہ کرلیا۔مثال کے طور پر قطر نے بوئنگ
سے جو 160 طیارے خریدنے کا وعدہ کیا ہے، ان میں 130 کے پرچیز آرڈر کئی سال پہلے
جاری ہوچکے ہیں اور اب مزید 30 جہاز اگلے 15 سالوں میں خریدے جائینگے یعنی پرانی
بوتل میں نئی شراب انڈیل کر قطریوں نے صدر ٹرمپ کیلئے خوشی کا سامان کردیا۔ سعودی
عرب، امریکہ سے جو اسلحہ خردینا چاہتا ہے ان کیلئے کانگریس کی توثیق درکار ہے اور
اسرائیل نے ابھی سے ان پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ اسلحے کی خریداری کیلئے جس MOUپر دستخط ہوئے ہیں اس میں سعودی جوہری پروگرام میں
تعاون بھی شامل ہے۔ متن میں بہت صراحت کیساتھ Civil Nuclear Capabilitiesلکھا گیا ہے تاکہ کوئی ابہام نہ ہو۔ لیکن اس بےضرر پروگرام پر بھی
اسرائیل کو تشویش ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف یائر لیپڈ نے کہا کہ
سعودی عرب کو شہری جوہری صلاحیتوں کی ترقی کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی ہوگی اور اس
سے مشرق وسطیٰ میں جوہری دوڑ کانیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اصل کامیابی
خلیجی ممالک کی جانب سے ٹرمپ کارپوریشن کی پزیرائی ہے، خیال ہے کہ خلیجی ریاستیں
ٹرمپ کارپویشن میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 اپریل 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 23 اپریل 2025
No comments:
Post a Comment