کینیڈا!! امریکہ مخالف رجحان کی کامیابی
کینیڈا میں تادم تحریر ووٹوں
کی گنتی جاری ہے۔ وفاقی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ میں خرابی کی وجہ سے نتائج کا
سرکاری اعلان کچھ دیر معطل رہا۔
تین برس پہلے ہونے والے انتخابات میں لبرل پارٹی 338 رکنی دارالعوام (قومی اسمبلی)
کی 160 نشستیں جیتنےمیں کامیاب ہوئی جبکہ حکومت سازی کیلئے 170 ووٹ درکار تھے۔وزیراعظم
جسٹن ٹروڈو نے جگمیت سنگھ کی نیو ڈیمو کریٹک پارٹی سے مفاہمت کرکے حکومت بنالی۔
نظریاتی اختلاف کی بناپر گزشتہ برس ستمبر میں نیوڈیموکریٹک پارٹی نے لبرل پارٹی سے
معاہدہ ختم کردیا۔تاہم جگمیت سنگھ نے وزیر اعظم ٹروڈو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک
میں قدامت پسندوں کا ساتھ نہیں دیا۔ایوان میں اکثریت کھونے کے علاوہ وزیراعظم
ٹروڈو کو اپنی جماعت میں بھی رسہ کشی کا سامنا تھا چنانچہ 14 مارچ کو جناب ٹروڈو
مستعفی ہوگئے اور 60 سالہ مارک کارنی نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ صرف 9 دن بعد جناب
کارنی نے گورنر جنرل سے دارالعوام تحلیل کرنے کی درخواست کردی اور 28 اپریل کو
انتخابات منعقد ہوئے، 2021 کی مردم شماری کے نتیجے میں اب دارالعوام کی کل نشستیں
343 ہوگئی ہیں۔
جماعتی
گروہ بندی اور خراب معیشت کی بنا پر لبرل پارٹی بے حد غیر مقبول اور رائے عامہ کے اکثر جائروں میں
قدامت پسندوں سے 20 فیصد پیچھے تھی، لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے کنیڈا کو
امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کے بیانات پر سابق وزیراعظم ٹروڈو، وزیراعظم کارنی
اور لبرل پارٹی کے دوٹوک و سخت موقف نے پارٹی کو مقبول بنادیا۔کینیڈا پر بھاری
درآمدی محصول کے اعلان سے لبرل اور مضبوط ہوگئے۔ اگرچہ ان معاملات پر قدامت پسندوں
کا موقف اور رویہ لبرل سے کچھ مختلف نہیں لیکن ٹرمپ سے قدامت پسندوں کی نظریاتی ہم
آہنگی نے کنیڈا کے عوام کو لبرل سے قریب کردیا۔امریکہ مخالف لہر میں کینیڈا کی
چھوٹی جماعتوں کو خاصہ نقصان پہنچا۔دوسری جماعتوں کے بہت سے حامیوں نے ٹرمپ کے
مقابلے کیلئے مضبوط حکومت ضروری سمجھتے ہوئے لبرل کو ووٹ دئے۔ لبرل کے سابق اتحادی
جگمیت سنگھ کی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کی نشستیں 25 سے کم ہوکر7 ہو
گئیں۔ فرانسیی قوم پرست کیوبک بلاک کا حجم بھی 33 سے سکڑ کر 22 رہ گیا۔
کینیڈا
میں بھی ہندوستان و پاکستان کی طرح آبادی کے
اعتبار سے مختلف صوبوں میں گہری تفاوت پائی جاتی ہے۔ دارالعوام کی 59 فیصد نشستیں
اسکے دوصوبوں اونٹاریو Ontario اور کیوبیک Quebecمیں
ہیں۔ان دونوں صوبوں میں قدامت پسند بہت زیادہ مقبول نہیں۔احباب کی دلچسپی کیلئے
عرض ہے کہ مشہور شہر ٹورنٹو اور دارالحکومت اٹاوا صوبے اونٹاریو اور مانٹریال صوبہ
کوبیک میں ہے جہاں سب سے زیادہ پاکستانی اور سکھ آباد ہیں۔کینیڈا کے مغرب پر قدامت
پسند چھاپ بہت واضح ہے۔تیل سے مالامال و خوشحال صوبوں البرٹا اور سیسکیٹچوان Saskatchewanقدامت
پسندوں کے گڑھ ہیں۔اسی طرح برٹش کولمبیا اور مونیٹوبا Manitobaمیں
بھی قدامت پسندوں کی کارکردگی بہتر رہی لیکن اسکے مشرق میں اونٹاریو سے بحر
اوقیانوس کے ساحل تک لبرل کا پلہ بھاری نظر آیا۔ کینیڈا
میں ووٹروں کی کل تعداد دو کروڑ 9 لاکھ
ہے۔ امریکہ کی طرح یہاں بھی یوم انتخاب سے دو ہفتہ پہلے کچھ مخصوص مقامات پر early votingشروع ہوجاتی ہے، اس بار تقریباً ایک چوتھائی یا 73لاکھ ووٹر قبل از انتخاب یا
early voting کے دوران اپنے ووٹ بھگتا چکے تھے۔
ان
اتخابات میں چھ بڑی جماعتوں، ایک درجن کے قریب غیر مقبول و معروف جماعتوں اور 175
سے زائد آزاد امیدواروں نے حصہ لیا۔ تقریباً 98 فیصد گنتی مکمل ہونے
پر انتخابی نتائج کچھ اسطرح ہیں
وزیراعظم مارک کارنی کی لبرل
پارٹی 169 نشستوں کیساتھ پہلے نمبر پر ہے۔اسے 43.7فیصد ووٹ ملے۔ گزشتہ انتخابات میں لبرل نے
160 نشستیں جیتی تھیں۔ قدامت پسند 144 نشستوں پر کامیاب ٹہرے۔ انکے حاصل کردہ
مجموعی ووٹوں کا تناسب 41.3فیصد ہے۔ گزشتہ انتخابات میں قدامت پسندوں کو
119 نشستیں ملی تھیں۔ فرانسیسی قوم پرست کیوبیک بلاک 22 نشستوں کیساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ
انتخابات میں اس بلاک نے 33 نشستیں جیتی تھیں۔ سب سے مایوس کن نتائج جگمیت سنگھ کے
رہے جنکی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کی نشستیں
25 سے سکڑ کر 7رہ گئیں۔ نیو ڈیموکریٹس کو 6.3 فیصد ووٹ ملے، گزشتہ انتخابات میں یہ جماعت 17.82فیصد لوگوں کی پہلی ترجیح تھی۔گرین پارٹی بھی
ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی، گزشتہ انتخابات میں ماحول دوست گرین پارٹی نے
دونشستیں حاصل کی تھیں۔
لبرل
پارٹی کی کارکردگی گزشتہ انتخابات سے تو بہتر ہے لیکن اس بار بھی وہ واضح اکثریت
حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم انکے نظریاتی اتحادی جگمیت سنگھ کی جماعت سے اتحاد
کرکے وہ حکومت بناسکتے ہیں۔نتائج کے اعلان کے بعد خراب کارکردگی کی ذمہ داری قبول
کرتے ہوئے جناب جگمیت سنگھ نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیدیا۔
جناب
کارنی جامعہ اکسفورڈ سے معاشیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اس اعتبار سے انھیںWilliam Lyon Mackenzie King کے بعد کینیڈا کی تاریخ کے
دوسرے پی ایچ ڈی وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جناب کارنی مشہور سرمایہ کار ادارے Goldman Sachsسے
وابستہ رہ چکے ہیں۔ انھوں نے 2008 سے 2013 تک بینک آف کینڈا کی بطور گورنر قیادت
کی۔موصوف بینک آف انگلینڈ کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ عملی سیاست میں انکا داخلہ
گزشتہ برس ستمبر میں ہوا جب سابق وزیراعظم
جسٹن ٹروڈو نے انھیں لبرل پارٹی کی ٹاسک فورس برائے اقتصادی ترقی کا سربراہ نامزد
کیا۔ اس سال جنوری میں وہ لبرل پارٹی کے سربراہ اور 14 مارچ کو ملک کے 24 ویں
وزیراعظم مقرر ہوئے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 2 مئی 2025
No comments:
Post a Comment