Thursday, May 8, 2025

 

غزہ پر تازہ حملوں کیلئے اضافی محفوظ (Reserve)دستے  طلب کرلئے گئے

مزاحمت کاروں کو فنا کرنا قیدیوں کی بازیابی سے اہم ہدف قرار

اہل غزہ کو بھوکا مارکر مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ممکن نہیں

یروشلم کے قریب خوفناک آگ، چھ ہزار ایکڑ پر لگے عرقد کے درخت جل کر خاک

تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ پر حوثیوں کا میزائیل حملہ

عالمی فوجداری عدالت کا خوف، اسرائیلی سپاہیوں کیلے بے نامی اعزاز

ترکیہ نے اسرائیلی وزیراعظم کے طیارے پر اپنی فضائی حدود بند کردی

اپنی سیاست کیلئے ہمارے کندھے استعمال نہ کرو، پانچ سو یہودی علما کا صدر ٹرمپ کو خط

غزہ جانیوالی امدادی کشتی پر اسرائیل کا ڈرون حملہ

اسرائیل کی ہنگامی کابینہ نے غزہ میں عسکری کاروائیوں کا دائرہ مزید بڑھانے اور حملوں میں شدت لانے کیلئے اضافی محفوظ (Reserve)دستوں کو طلب کرلیا ہے۔غزہ میں مارے جانیوالے اسرائیلی سپاہیوں کے اعزاز میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ قیدیوں کو بحفاظت واپس لانا بہت ضروری لیکن ہمارا ارفع ترین ہدف (Supreme Goal)، فتح مبیں اور مزاحمت کاروں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ اسی نشست میں گفتگو کرتے ہوئےخاتون اول سارہ نیتن یاہو نے انکشاف کیا کہ غزہ میں اب صرف 24 قیدی زندہ بچے ہیں۔ محترمہ نے اپنی معلومات کا ماخد نہیں بتایا اسلئے کہ اسرائیلی شعبہ سراغرسانی، شاباک (Shin Bet)کے مطابق 59 قیدی مزاحمت کاروں کی تحویل میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے غرب اردن میں قبضہ کی جگہ پر بنائے مدرسے میں طلبہ اور ربائیوں (ائمہ) سےاپنے جذباتی خطاب میں وزیرخزانہ بیزلیل اسموترچ نےکہا 'خدا کی مدد اور اپنے جوانوں کی قربانیوں کے صدقے ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گےجب تک غزہ  فلسطینیوں سے پاک، شام تحلیل، لبنانی مزاحمت کارفنا اور ایران کاجوہری پروگرام ملیامیٹ نہیں ہوجاتا' (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)۔ یعنی معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ یہ مہم جوئی گریٹر اسرائیل کا حصہ نظر آرہی ہے۔ سفارتی سرگرمیوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ عرب و مسلم ممالک بھی اہل غزہ  کی شکست کے منتظر ہیں۔ اسرائیلی وزیرِتزویراتی امور ران ڈرمر نے کابینہ اجلاس میں انکشاف کیا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند کئی ممالک غزہ میں اسرائیل کی فتح کا انتظار کررہے ہیں۔ ڈرمر صاحب پُراعتماد ہیں کہ اسرائیل اگلے بارہ ماہ میں یہ ہدف حاصل کرلے گا۔

اسرائیلیوں کا خوش فہمی کی حد تک اعتماد اپنی جگہ لیکن اہل غزہ کی مزاحمت میں تادم تحریر کوئی کمی یا کمزوری نظر نہیں آئی جسکی غیر جانب دار سفارتی ماہرین بھی تصدیق کررہے ہیں۔ اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پرامن بات چیت میں شریک ایک اعلی سطحی مصری افسر نے 2 مئی کو لبنانی جریدے الاخبار سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر اسرائیل اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اہل غزہ کو بھوکا مارکر وہ مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو یہ انکی بھول ہے۔ جنگ کا فوری خاتمہ اور غزہ سے فوجی انخلا باقی ماندہ قیدیوں کو بحفاظت بازیاب کرنے کا واحد راستہ ہے۔

اتوار (4 مئی) کی شام تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر حوٹیوں کے میزائیل حملے کے بعد سارے اسرائیل پر سراسیمگی طاری ہے۔ اس روز یمن سے پانچ منجنیقی (ballistic)میزائیل داغے گئے۔تل ابیب، یروشلم، بحیرہ مردار کے ساحل ، حتی کہ شمال میں وادی اردن تک سائرن گونجتے رہے اور لاکھوں اسرائیلیوں نے  چھٹی کا دن زیر زمین تہہ خانوں میں گزارا۔اسرائیلی فضائیہ نے بن گوریان ائرپورٹ کی طرف آنے والے میزائیل کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ میزائیل ائرپورٹ کے بہت قریب سڑک پر گرا جس سے چھ اسرائیلی شدید زخمی ہوگئے۔

غزہ مزاحمت کاروں کے خلاف مقتدرہ فلسطین (PA)کی مہم بھی زور شور سے جاری ہے۔ اسرائیلی موقف کی حمائت کرتے ہوئے مقتدرہ کے سربراہ محمود عباس نے غزہ میں غذائی قلت کا الزام مزاحمت کاروں پر لگایا کہ انکے مسلح جتھے امدادی سامان لوٹ رہے ہیں۔ خود اسرائیلی ذرایع کے مطابق گزشتہ 60دنوں سےایک بھی امدادی ٹرک غزہ نہیں پہنچا تو معلوم نہں مزاحمت کار کیا لوٹ رہے ہیں۔

اس ہفتے یروشلم کی جھاڑیوں میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے اسرائیل کے شہری دفاعی نظام کی قلعی کھل گئی۔ آگ چند گھنٹوں میں مرکزی شاہرہ تک آگئی۔ اتفاق سے یہ تباہ کن آگ 29 مئی کو بھڑکی جب فوج سے ہم آہنگی کیلئے میموریل ڈے منایا جارہا تھا اور آگ کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ اسکے شعلے یروشلم کے مضافات میں پریڈ گراونڈ تک پہنچ گئے اور وہاں موجود کچھ ٹینک بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگئے جن پر سوار سپاہیوں کو بہت مشکل سے نکالا گیا۔سارے ملک سے فائر انجن جمع کرلینے کے بعد بھی آگ پر قابو نہ پایا جاسکا تو یونان، کروشیا، اٹلی، یونانی قبرص، بلغاریہ، برطانیہ، فرانس، چیک ریپبلک، سویڈن، ارجنٹینا، ہسپانیہ اور آذربائیجان سے ماہرین اور کیمیکل طلب کئے  گئے۔ یعنی غزہ، بیروت، شام، یمن اور غربِ اردن کو جلا کر خاک کردینے والے اسرائیل کے پاس اپنے گھروندوں میں لگی آگ بجھانے کے وسائل نہیں

یکم مئی کو درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار کم ہونے کی بناپر آگ پھیلنے کی رفتار آہستہ ہوئی اور اس پر قابو پالیا گیا۔ یہودی روایات کے مطابق نزول مسییحؑ کے وقت عرقد (Nitraria Schoberi) کے درخت انھیں تحفظ فراہم کرینگے چنانچہ یروشلم کے قریب جنگلات میں عرقد کے 24 کروڑ درخت لگائے گئے ہیں جو اس آگ سے بری طرح متاثر ہوئے اور خوفناک آگ نے عرقد جنگلات کے 6000ایکڑ رقبے کو جلاکر خاک کردیا۔درجنوں گاڑیاں اور قیمتی املاک کے علاوہ  دورجن سے زیادہ لوگ جھلس کر شدید زخمی ہوئے۔

حکومت نے آتشزنی کا الزام فلسطینیوں پر تھوپ دیا اور یروشلم کے ام طوبیٰ محلے کے ایک پچاس سالہ شخص کے قبضے سے برآمد ہونے والے لائٹر اور ٹشوپیپر کو بطورِ ثبوت پیش کرکے اسکے خلاف دہشت گردی اور مجرمانہ آتشزنی کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔ دلچسپ بات کہ فرزند اول یائر نیتن یاہو نے ٹویٹر (X)پر لکھا کہ 'آگ بائیں بازو کے انتہاپسندوں نے بھڑکائی ہے تاکہ یوم آزادی نہ منایا جاسکے'

عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے نیتن یاہو، سابق وزیردفاع اور فوج کے سابق سرابرہ کے خلاف جو پروانہ گرفتاری جاری کئے ہیں، انکی وجہ سے عام اسرائیلی سپاہی سخت خوفزدہ ہیں۔ غزہ میں 'شجاعت و بہادری' کا مظاہرہ کرنے والے 120 سپاہیوں کو تمغات سے نوازا گیا لیکن ICCکے خوف سے یہ تقریب خفیہ رکھی گئی اور میڈل بھی نام کے بجائے سپاہیوں کے بیج نمبر کو عطا کئے گئے۔تقریب ِتقسیمِ اعزاز میں صدر اور فوج کے چیف آف اسٹاف سمیت کسی کو اپنا موبائل فون وہاں لے جانے کی اجازت نہ تھی۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہند رجب فاونڈیشن نے تمغے لینے والے ان سپاہیوں پر جنگی جرائم کے مقدمات درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔

آئی سی سی کے پروانہ گرفتاری کو بنیاد بناکر، ترکیہ نے اسرائیلی وزیراعظم کے خصوصی طیارے کو اپنی فضائی حدود میں پرواز کرنے سے روک دیا۔ نیتن یاہوتین 4مئی کو سرکاری دورے پر باکوجارہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم متبادل راستے یعنی بحیرہ روم سے شمال کی جانب خلیج یونان اور پھر بلغاریہ وبحیرہ اسود عبور کرکے جارجیا کے اوپر سے ہوتے ہوئے آذر بائیجان جاسکتے تھے لیکن انھیں ڈر تھا کہ کہیں بلغاریہ اور جارجیا آئی سی سی کے وارنٹ پر عملدرآمد کیلئے انکے جہاز کو اترنے پر مجبور نہ کردیں، چنانچہ دورہ آذربائیجان منسوخ کردیا گیا۔

دنیا بھر میں نسل کشی کرنے والوں کا تعاقب جاری ہے۔ دو مئی کو لندن میں جب اسرائیلی اداکارہ غال غدوت (Gal Gadot)کی زیر تکمیل فلم The Runnerکی  شوٹنگ شروع ہوئی تو فلسطین پر بمباری بند کرو اور آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے مظاہرین سیٹ تک آگئے اور منتظمیں شوٹنگ رکواکر اداکارہ کو عقبی دروازے نکال کر لے گئے۔ غال غدوت صاحبہ سابق اسرائیلی فوجی ہیں۔

امریکہ میں غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک چلانے والے طلبہ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی انتقامی کاروائی میں مزید شدت آگئی ہے۔ یکم مئی کو صدر ٹرمپ نے جامعہ ہارورڈ کا ٹیکس سے استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔یعنی اب جامعہ کو دئے جانیوالے عطیات پر معاونین کو ٹیکس میں چھوٹ نہیں ملے گی۔ صدر ٹرمپ کو شکائت ہے کہ جامعہ نے اسرائیل مخالف مظاہروں کو کچلنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے جامعہ ییل (Yale University)نے Yelies4Palestine کے بعد مرکزی تنظیم Students for Justice in Palestine (SJP) پر بھی پابندی لگادی۔

لیکن طلبہ کی مزاحمت جاری ہے۔امریکی دارالحکومت کی جامعہ جارج ٹاون (Georgetown University)کے ریفرنڈم میں طلبہ نے اسرائیلی فوج سے وابستہ کسی ادارے میں جامعہ کے وقف فنڈ سے سر مایہ کاری نہ کرنے کی منظوری دیدی۔تجویز کے حق میں 67.7 اور مخالفت میں 32.1 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 30 فیصد تھا۔ ریفرنڈم کے فیصلے پر علمدرآمد کیلئے ووٹ ڈالنے کا کم سے کم تناسب 25 فیصد ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کی سفارشات اب جامعہ کے بورڈ آر گورنرز میں پیش کی جائینگی۔

تیس اپریل کو امریکی عدالت نے غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طالب علم محسن مہدوی کو رہا کردیا۔ چونتیس سالہ مہدوی کو ایمیگریشن اور وزارت اندرونی سلامتی (DHS)کے ایجنٹوں نے اسوقت گرفتار کرلیا تھاجب وہ امریکی شہریت کیلئے انٹرویو دے رہا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نے محسن مہدوی کے ملک بدری کا احکامات جاری کئے ہیں۔رہائی پر سینکڑوں نوجوان مہدوی کے استقبال کیلئے ورمونٹ (Vermont)کے ایمگریشن حراستی مرکز کے سامنے جمع ہوگئے۔اپنے مداحوں سے خطاب کرتے ہوئے محسن مہدوی نے کہا 'میں صدر ٹرمپ اور انکی کابینہ سے صاف اور دوٹوک کہدینا چاہتا ہوں کہ ہم آپ سے خوفزدہ نہیں'۔غربِ اردن کے فرعا مہاجر کیمپ میں جنم لینے والے مہدوی نے اہل فلسطین کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہماری آزادی کے لمحات بہت قریب آچکے ہیں۔

طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی پر یہودیوں کو بھی تشویش ہے۔ صاحبانِ بصیرت کو معلوم ہے کہ ماورائے قانون اقدامات کو نہ روکا گیا تو مسلمانوں پر برسنے والا یہ کوڑا کل کسی اور برادری کی پیٹھ لہو لہان کر سکتا ہے۔ ساڑھے پانچ سو یہودی ائمہ (Rabbis)نے ٹرمپ انتظامیہ کے نام خط میں کہا ہے کہ اپنی سیاست کیلئے ہمارے کندھے استعمال نہ کرو۔ سام دشمنی (Antisemitism) کے نام پر مسلم طلبہ کے خلاف انتقامی کاروائی کی مذمت کرتے ہوئے یہودی علما نے اسے مذہبی آہنگی اور خود یہودیوں کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ علما نے اپنے خط میں لکھاکہ'جامعات کی فنڈنگ ختم کرنا، طلبہ مظاہرین کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دینا اور یہودیوں کو آمرانہ ہتھکنڈوں کے جواز کے طور پر استعمال کرنا ہمیں محفوظ نہیں بناتا بلکہ اس سے امریکی یہودیوں کے خلاف خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہم یہودی طالب علموں کے تحفظ کے بہانے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر ان گھناؤنے حملوں کو مسترد کرتے ہیں جو ہماری تعلیمی اور ثقافتی زندگی کے ناقابل تسخیر قلعے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے غزہ میں فاقہ کشی کا شکارلوگوں کی مدد کیلئے پاکستان، ترکیہ اور انڈرونیشیا کی بحریہ سے درخواست کی تھی کہ ایک مشترکہ بحری قافلے یا Flotilla کے ذریعہ غزہ کے لوگوں کیلئے امدادی سامان بھیجا جائے۔حافظ صاحب کی تجویز پر تو کسی نے کان نہ دھرا لیکن ترک، یورپ و فلسطینی رفاحی ادارے Freedom Flotilla Coalition(FCC) نے ایک جہاز پر خوراک اور ادویات غزہ بھیجنے کا اہمتام کیاجسکی نگرانی FCCکی رہنما گریتا تھنبرگ (Greta Thunberg) کررہی تھیں۔گریٹا کا تعلق سوئٹزرلینڈ سے ہے۔اس مشن کو الضمیر یا Conscienceکا نام دیا گیا۔ الضمیر پر عملے کے 12 افراد کے ساتھ انسانی حقوق کے 4کارکن بھی سوار تھے۔کشتی پر دومئی کی صبح اسرائیل نے مالٹا کے قریب ڈرون حملہ کیا جس سےکوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن کشتی کے آگلے حصے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے اسکے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مالٹا کے حکام نے تمام افراد کو بحفاظت کشتی سے نکال لیا۔ الضمیر کو اسوقت نشانہ بنایا گیا جب یہ بین الاقوامی پانیوں میں تھی۔اس اعتبار سے یہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی پانیوں میں جہازرانی کے حقوق جتانے کیلئے امریکی بحریہ کے جہاز بحر جنوبی چین میں چینی ساحل کے قریب سفر کرتے ہیں۔ اسی دلیل پر چچا سام نے یمن کو کھنڈر بنادیا کہ حوثیوں کے حملوں سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے بین الاقوامی پانیوں میں آزاد جہاز رانی متاثر ہورہی ہے۔

پندرہ برس پہلے 31مئی 2010 کو غزہ فریڈم فلوٹیلا کے عنوان سے ترک کشتی ماوی مرمرہ (MV Mavi Marmara)امداسی سامان کیساتھ غزہ روانہ کی گئی تھی۔ چھ کشتیوں کے اس قافلے کا اہتمام Free Gaza Movement اور ترک تنظیم iHHنے کیا تھا۔ جب فلوٹیلا غزہ سے 190 کلومیٹر دور تھا تو ہیلی کاپٹروں می مدد سے اسرائیلی کمانڈو ان کشتیوں پر اترآئے، انکی اندھا دھند فائرنگ سے 10 ترک کارکن جاں بحق ہوئے۔ اس قافلے کی ایک کشتی پرمعروف صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے جنھوں نے بحفاطت نکلنے کیلئے اسرائیلی چھاپہ ماروں کی پیشکش مسترد کردی اور آخر تک کشتی پر رہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 مئی 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 9 مئی 2025

روزنامہ امت کراچی 9 مئی 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 11 مئی 2025


No comments:

Post a Comment