Wednesday, June 15, 2022

او جی ڈی سی کو سندھ میں کامیابی

 

او جی ڈی سی کو سندھ میں کامیابی

تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن    (OGDC) نے گھوٹکی کے قریب  گدو بلاک میں  گیس کے ایک نئے ذخیرے کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ا س بلاک میں او جی ڈی سی کی ملکیت 70 فیصد اور حکومت پاکستان کی گورنمنٹ ہولڈنگ 5 فیصد کی مالک ہے۔مشارکے کے باقی حصص دوسری دو نجی کمپنیوں کے پاس ہیں۔

عمیر ساوتھ نمبر 1 نامی  کنویں کی کھدائی کا کام 9  مئی  کو شروع ہوا  اور  مطلوبہ ہدف 785 میٹر گہرائی پر حاصل ہوگیا۔کھدائی کے بعد آزمائش و پیمائش (Logging & Testing) کا  مرحلہ بھی کامیابی سے مکمل کرلیا گیا۔

ابتدائی نتائج کے مطابق اس کنویں سے یومیہ    دس لاکھ 63 ہزار  مکعب فٹ (1.063MMSCFD) گیس حاصل کی جاسکے گی

یہ مقدار بہت معمولی ہے کہ پاکستان کی ضرورت اس وقت 7 ارب مکعب فٹ یومیہ ہے لیکن  گہرائی کم  ہونے کیا بنا پر کھدائی کی لاگت  بہت کم ہے ۔گیس تقسیم کا نیٹ ورک بھی موجود ہے اسلئے یہاں سے حاصل ہونے والی گیس کو فوری طور پر صارفین تک پہنچایا جاسکے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ    ترقیاتی   پروگرام جلد از جلد تشکیل دیکر فوری طور پر  نئے کنووں کی کھدائی شروع کردی جائے

شاندار کامیابی پر او جی ٖڈی سی کے کارکنوں کو دلی مبارکباد

فخر ِبلوچاں گوپی چند نارنگ انتقال کرگئے ۔۔۔اِک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

 

فخر ِبلوچاں   گوپی چند نارنگ انتقال کرگئے  ۔۔۔اِک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

فخر ِبلوچاں گوپی چند نارنگ انتقال کرگئے ۔۔۔اِک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

اردو کے نامور نقاد اور ماہرلسانیات ڈاکٹر و پروفیسر گوپی چند نارنگ طویل علالت کے بعد امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر شارلیٹ میں انتقال کر گئے۔ گوپی جی 11 فروری 1931 کو بلوچستان کے ضلع دُکّی میں پیدا ہوئے۔انکے والد دھرم چند نارنگ اردو اور فارسی کے ادیب تھے۔ گوپی چند تقسیم ہند کے وقت ہندوستان چلے گئے لیکن بلوچستان اور پاکستان سے تعلق برقراررہا۔

انھوں نے جامعہ دہلی سے اردو ادب میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب ماسٹر کی تکمیل کے ساتھ ہی دلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد جامعہ دہلی سے وابستہ ہوگئے۔بعد میں وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر نارنگ نے ناروے کی جامعہ اوسلو، امریکہ کی جامعہ وسکونسن اور جامعہ منی سوٹا میں بھی درس و تدریس کے فرائض سرانجام دئے۔

ڈاکٹر صاحب کو لہجے اور ہجے سے بہت دلچسپی تھی اور اس موضوع پر انھوں نے 'املانامہ' کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی

انکی پہلی کتاب 'دلی کا کرخنداری لہجہ'1961 میں شایع ہوئی جسےبے حد پزیرائی نصیب ہوئی۔ڈاکٹر صاحب نے اردو ، ہندی اور انگریزی میں 60 سے زیادہ کتابیں تخلیق کیں جن میں

ہندسوستانی قصوں سے ماخوذاردو مثنویاں

پرانوں کی کہانیاں

انیس شناسی

اقبال کا فن

اصولیاتِ میر

سانحہِ کربلا بطورِ شعری استعارہ

امیر خسرو کا ہندی کلام

اردوغزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب

ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری

ترقی پسندی اور جدیدیت

دیکھنا تقریر کی لذت

بہت مشہور ہوئیں۔

گوپی چند نارنگ کو ہندوستان کا سب سے بڑے اعزاز پدما بھوشن اور صدرپاکستان کی جانب سے طلائی تمغے کے علاوہ دنیا کے کئی ددسرے ممالک نے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔

بلاشبہ پاکستان اور بلوچوں کیلئے فرزندِ بلوچستان کے یہ اعزازات فخر کا باعث ہیں

گوپی جی ادھر کچھ عرصے سے اپنے بیٹے ڈاکٹر تارُن نارنگ کے ساتھ شارلٹ میں قیام پزیر تھے۔ انتقال کے وقت انکی عمر 91 سال تھی۔ آنجہانی نے بیوہ منّوراما نورنگ اور دو بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں۔ایک شاعر نے گوپی جی کو کچھ اس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا

دوپاوں سے چلتا دریا، اِک پاوں پہ ٹہری جھیل

جھیل کی نبھی پر رکھی ہے اردو کی قندیل


Thursday, June 9, 2022

روسی تیل اور گیس پر پابندی ۔۔۔ خواہش اور زمینی حقائق

 

روسی تیل اور گیس پر پابندی ۔۔۔ خواہش اور زمینی حقائق  

چار جون کو روس یوکرین جنگ کے 100 دن مکمل ہوگئے۔ جب 24 فراوری کو روسی فوج نے حملے کا آغاز کیا اسوقت صدر ولادیمر پوٹن کا خیال تھا کہ چار دن میں کاروائی مکمل کرلی جائیگی لیکن اسکا اختتام چار مہینے میں بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ یورپ کےعسکری ماہرین یوکرین کو روس کا ایک اور افغانستان بنتا دیکھ رہے ہیں۔

کشیدگی کے آغاز پر  امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں نے جنگ کی صورت میں یوکرین کو مکمل حمائت کا یقین دلایا تھا تاہم یہ وضاحت کردی گئی تھی کہ جنگ کیلئے فوجی نہیں بھیجے جائینگے، یعنی اسلحے کی شکل میں یوکرین کی حمائت اور اقتصادی پابندیاں لگاکر روس کو لاغر و کمزور کیا جائیگا۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ سونے کی ان گولیوں  سے لگنے والا زخم گولہ بارود سے زیادہ  گہرا، مہلک و تکلیف دہ ہوگا۔

فروری کے اختتام پر جیسے ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا، امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا نے دنیا بھر میں پھیلے روسی اثاثے منجمد کردئے۔ایک اندازے کے مطابق  کریملن کے معطل و منجمد کئے جانے والے اثاثوں کا مجموعی حجم 300 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

امریکہ کا اصل ہدف روسی ایندھن ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار کا 33 فیصد حصہ امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہ بہ ماہ معمولی کمی و بیشی کے ساتھ ان تینوں ملکوں کی پیدوار تقریباً برابر ہے اور اوسطاً ہر ملک اپنے کنووں سے ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ نکالتاہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی پیداوار ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ اور روس کی ایک کروڑ دس لاکھ بیرل بتائی جارہی ہے جبکہ سعودی عرب کی پیدوار 95 لاکھ سے ایک کروڑ پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

تیل اور گیس کی روسی برآمدات کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل روزانہ ہے جس میں سے 25 لاکھ بیرل یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جو یورپی ضرورت کا چالیس فیصد ہے۔ پولینڈ، ہنگری، فن لینڈ، مالدووا اور چیکو سلاواکیہ (سلاوانیہ اور چیک ریپبلک) کی 70 سے 80 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم عرض کرچکے ہیں،  جب تیل اور گیس کی بات ہوتی ہے تو اسکا ذکر بیرل میں کیا جاتا ہے۔  بیرل مائع کو ناپنے کا پیمانہ ہے جبکہ  گیس کی پیمائش حجم یا حرارت کے معیار (Thermal)پر ہوتی ہے لیکن تجزیاتی آسانی کیلئے تیل اور گیس کے مجموعی حجم کو  'تیل کے مساوی'کی شرح سے فی بیرل یا Oil Equivalent  میں پیش کیا جاتا ہے۔

جنگ سے پہلے خیال تھاکہ جیسے ہی یوکرین پر حملہ ہوا روس سے  یورپ کیلئے جرمنی آنے والی گیس پائپ لائن بند کردی جائیگی۔ لیکن حملے کے بعد بھی یورپ کو روسی گیس کی فراہمی جاری ہے ۔ یوکرینی صدر مسلسل اصرار کررہے ہیں کہ روسی ایندھن  پر پابندی عائد کی جائے۔ صدر زیلینسکی کہتے ہیں کہ 'ہم پر گرنے والا اور ہر روسی بم اور میزائیل یورو اور ڈالر سے خریدا جارہا ہے'

گزشتہ ہفتے  یورپی یونین  کے اجلاس کے بعد یونین کی بیرونی پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے  اعلان کیا کہ اس سال کے اختتام تک یورپ کیلئے روسی ایندھن کی درآمد دوتہائی کم کردی جائیگی۔روس سے یورپ آنے والی گیس اور LNGکا حجم 185 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک  رومانیہ، پولینڈ، سلاواکیہ ، چیک ریپبلک، فن لینڈ ،بلغاریہ اور مالدوواکو فراہم کی جانے والی روسی گیس  اسکے علاوہ ہے۔

جناب بوریل  کا خیال  ہے کہ  یورپ کیلئے  تیل اور گیس پر پابندی کے بعد بھی دنیا میں روسی ایندھن کے گاہکوں کی کمی نہیں رہیگی لیکن اس سے روسی تیل اور گیس کے بھاو ، دباو میں آجائینگے۔ یورپی یونین کے حالیہ اجلاس میں روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع کرنے کے دوسرے طریقوں پر بھی غور کیا گیا۔ مجوزہ پابندیوں کی اس فہرست میں روس کے  تمام بینکوں کابین الاقوامی مالیاتی ترسیلات کے نظام سوئفٹ SWIFT سے رابطہ منقطع کرنا شامل ہے۔

دلچسپ بات کہ روسی تیل اور گیس پر پابندی کے ضمن میں پائپ لائن کے ذریعے درآمدات  کو استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض  ہے کہ  روس سے آنے والے تیل اور گیس کا 80 فیصد حجم پائپ لائن کے ذریعے یورپ پہنچتا ہے۔ توانائی کے ماہرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جہازوں کے ذریعے آنے والے 20 فیصد ایندھن پر پابندی لگاکر  درآمد ایک تہائی کردینے کا ہدف کیسے حاصل ہوگا ۔ روسی گیس کی خریداری روکنے کی یوکرینی خواہش اور امریکی دباو اپنی جگہ لیکن مشرقی یورپ کے غریب اور خاص طور سے خشکی میں گھرے ممالک کی اپنی مجبوریاں ہیں۔

مثال کے طور پر  ہنگری صاف صاف کہہ چکا ہے کہ روسی  تیل پر پابدی اسکے لئے قابل قبول نہیں بلکہ وہ  درآمدات کے دام  بھی اب روسی سکّے یعنی  روبل میں ادا کررہا ہے۔ آسٹریا اور نیٹو کے چند دوسرے ارکان بھی  روس سے روبل میں لین دین کررہے ہیں۔ یررپی یونین کے دستور کے تحت تمام کلیدی فیصلے متفقہ ہونے ضروری ہیں اسلئے پابندی سے مخالف ممالک کو استثنیٰ دینا یونین کی مجبوری ہے۔

تین جون کو جناب بوریل نے معاہدے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اسکے مطابق روس سے آنے والی تاریخی درزبا (Druzbha)تیل پائپ لائن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائیگی۔ روسی زبان میں درزبا کے معنی دوستی کے ہیں، چنانچہ مغربی یورپ میں اسے دوستی پائپ لائن کہا جاتا ہے۔ اپنے  نظریاتی اتحادیوں کو تیل فراہم کرنے کیلئے سوویت یونین نے  1958 میں یہ پائپ لائن بچھائی تھی۔ چالیس انچ قطر کی 4 ہزار کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کی گنجائش 14 لاکھ بیرل یومیہ سے زیا دہ ہے ۔ دوستی پائپ لائین  مشرقی روس سے یوکرین،بلارُس، پولینڈ ، ہنگری، سلاواکیہ، چیک ریپبلک، آسٹڑیا اور جرمنی کے مشرقی حصے کو روسی تیل فراہم کرتی ہے۔ مرکزی پائپ لائن اور اس سے ملحق جزوی ٹکٖڑوں کی  مجموعی لمبائی ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر سے زیادہ  ہے اور اس اعتبار سے درزبا کو  دنیا کی طویل ترین پائپ لاین کہا جاسکتا ہے

فیصلے کا اعلان تو جمعہ 3 جون کا ہوا لیکن پولینڈ اور ہنگری کے اصرار کی بنا پر درزبا پائپ لائن کو ملنے والا استثنیٰ نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا۔ اس خبر پر یوکرینی صدر زیلینسکی نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ یکم جون کو سمعی اور بصری رابطے پر یورپی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ روسی تیل کی درآمد پر مکمل پابندی  ضروری ہے تاکہ کریملن کی آمدن میں کمی واقع ہو۔ انھوں نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ یکجہتی کے دعوے زبانی خرچ سے زیادہ کچھ نہیں جب یوکرین کے خلاف جارحیت کی سرمایہ کاری کوئی اور نہیں بلکہ خود یورپ اور نیٹو ممالک کررہے ہیں۔

صدر زیلینسکی کے جذباتی خطاب کے بعد یورپی کمیشن کی صدر، ارسلا وان ڈر لین نے یوکرینی دوستوں کو یقین دلایا کہ چھ ماہ کے اندر روسی تیل کی خریداری میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور 2022 کے اختتام تک خام تیل کی درآمد میں دوتہائی کٹوتی کا ہدف حاصل کرلیا جائیگا۔ اسی کیساتھ محترمہ وانڈرلین نے دعویٰ کیا کہ اس سال کے اختتام تک روسی  LNG اور پٰٹرولیم مصنوعات کی درآمد صفر ہوجائیگی۔اپنی تقریر میں واندرلین صاحبہ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ ہدف کا اصول بہت آسان نہیں کہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ارکان کی جانب سے  متفقہ منظوری درکار  ہے جبکہ کئی رکن ممالک کا روسی تیل پر   انحصار 80 فیصد سے زیادہ ہے۔

توانائی کی صنعت سے وابستہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے ہے کہ  جناب جوزف بوریل اور وانڈرلین صاحبہ کی یقین دہانیاں صدر زالینسکی سے اشک شوئی سے زیادہ کچھ نہیں۔ یوکرین کے سرکاری ٹیلی ویژن پر محترمہ واندڑ لین کی تقریر کے آخری حصے کا خوب مضحکہ اڑایا گیا جس میں انھوں نے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کو یوکرین میں اپنی وحشیانہ جارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

ماہرینِ توانائی  کے خیال میں یورپ کو روسی تیل اور گیس کی خریداری  صفر کردینے کی امریکی خواہش غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ دو ماہ پہلے اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی بحث مباحثہ ہو چکا  ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی سہیل بن محمدالمزروئ نے روس کے بائیکاٹ کو ناقابل عمل قراردیتے ہوئے جب  وہاں موجود تیکنیکی  ماہرین سے سوال کیا  کہ  اگر روسی تیل پر پابندی لگادی جائے تو اس کمی کو کون پورا کرے گا؟ تو وہاں مکمل خاموشی رہی۔بعد میں اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے جناب المرزوئی نے بتایا کہ روسی تیل کا حجم ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے اور فی الوقت دنیا میں کسی بھی مقام سے  تیل کی اتنی بڑی اضافی مقدار حاصل نہیں کی جاسکتی۔

ایک ماہ پہلے محترمہ ارسلا وانڈرلین سے  ملاقات کے دوران امریکی صدر نے یورپ کو 15 ارب مکعب میٹراضافی گیس فراہم کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن اب تک امریکی LNGکا اضافی حجم وعدے کا دس فیصد بھی نہ ہوسکا۔ایک اور مشکل کہ LNG ٹینکروں کے ذریعے یورپ پہنچائی جارہی ہے اور ایندھن کا خرچ بڑھنے کی وجہ سے باربرداری کے اخراجات دگنے سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

تیل اور گیس کے علاوہ فن لینڈ کو بجلی کے بحران کا بھی سامنا  ہے کہ اسکے مشرقی حصوں کیلئے سستی برقی توانائی روس سے خریدی  جاتی تھی لیکن جیسے  ہی نیٹو کو رکنیت کی درخواست  دی  گئی،  روسی کمپنیوں نے بجلی بند کردی۔ متبادل انتظام تو ہوکیا لیکن روس کے مقابے میں مغربی فن لینڈ سے آنے والی بجلی کے نرخ دگنے ہیں۔اسی نوعیت کی پریشانی  ایستونیا، لٹویا اور لتھوانیہ  اور مشرقی پولینڈ کو بھی ہے جو اب تک روس کی سستی بجلی سے مستفید ہورہے ہیں لیکن اگر یورپی یونین نے کریملن  کا قافیہ مزید تنگ کیا تو انکے تار بھی بے جان ہوسکتے ہیں ۔

رسد بڑھانے کیلئے امریکہ کے دباو پر تیل پیدا کرنے والے ممالک (OPEC) اپنی مجموعی پیداور میں 6 لاکھ 48ہزار بیرل یومیہ اضافے پر رضامند ہوگئے۔ خیال ہے کہ اس اضافی حجم کا بڑا حصہ سعودی عرب سے حاصل ہوگا۔ متحدہ عرب امارات سے ایک  لاکھ بیرل اضافہ متوقع ہے۔ اوپیک کے باقی ارکان کے لئے پیداوار میں قابل ذکر اضافہ ممکن نہیں۔دوسری طرف پابندیوں کی بنا پر روس کی پیداوار اپریل میں گھٹ کر 95لاکھ بیرل روزانہ رہ گئی۔مارچ میں روسی کنووں سے پیداوار کا تخمینہ ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل یومیہ تھا۔

روسی تیل اور گیس کی فروخت کم سے کم کردینے کی امریکی کوششیں  کس حد تک کامیاب رہینگی، اسکے بارے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن تیل کی سیاست نے   ایندھن درآمد کرنے والے غریب ملکوں کو جس عذاب میں  مبتلاکررکھا ہے اس سے نجات کی مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اوپیک کی جانب سے پیداوار میں اضافے کی خبر ہے تو خوش آئند لیکن اس اعلان سے پہلے اوپیک ممالک ہر ماہ اپنی پیداوار میں چار لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کررہے تھے۔ گویا حقیقی اضافہ ڈھائی لاکھ بیرل روزانہ سے بھی کم ہے۔

صدر بائیڈن جولائی میں ریاض جارہے ہیں جہاں وہ ولی عہد محمد بن سلمان  سے سعودی کنووں کا منہہ مزید کھولدینے کی درخواست کرینگے۔ دیکھنا ہے کہ شہزادہِ عالم امریکی صدر کو کیا جواب دیتے ہیں؟ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی  قتل کے حوالے سے صدر بائیٖڈن کے تبصروں پر شہزادہ صاحب سخت برہم ہیں بلکہ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی ولی عہد صدر بائیڈن  کے فون کا جواب  بھی نہیں دے رہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 جون 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 جون 2022

روزنامہ امت کراچی 11 جون 2022

ہفت روزہ رہبر سرینکر 13 جون 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Friday, June 3, 2022

ترک اسرائیل قربت ۔۔ فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟؟؟؟

 

ترک اسرائیل قربت ۔۔ فلسطینیوں کا کیا ہوگا؟؟؟؟

اسرائیلی صدر کی ترکی یاترا کے بعد گزشتہ ہفتے ترک وزیرخارجہ مولت چاوش اوغلو نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ ترک وزیرخارجہ  نے اس دوران رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین (PA) کی قیادت سے ملاقات کی اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کی  زیارت بھی کی۔ بیت المقدس کے دورے میں جناب اوغلو کو متحدہ عرب امارات کے وفد کی طرح کسی قسم کے منفی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم انکی آمد پر کوئی جوش و خروش بھی نظر نہیں آیا۔ تین سال پہلے صدر ایردوان کی فلسطینیوں میں مقبولیت ترکی سے زیادہ تھی۔

بلاشبہ خلافتِ عثمانیہ اسرائیلیوں کی محسن اعظم ہے۔ پندرھویں صدی کے اختتام (سن 1480 کے قریب) پر ترک حکمران سلطان  بایزید دوم نے یورپ میں بدسلوکی بلکہ نسل کشی کا شکار یہودیوں کو یروشلم کے قریب آباد ہونے کی اجازت دی تھی۔ اسرائیلی اسے اپنی تاریخ کا سنہری دور گردانتے ہیں جب ترکوں کے رعب کی وجہ سے انھیں روس اور بحیرہ بلقان کے ساحلی علاقوں میں امن و اما ن نصیب ہوا۔

جنگ عظیم دوم میں امریکہ، روس اور برطانیہ کے دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے عثمانیوں نے  اس خونریزی میں  حصہ نہیں لیا جسے متعصب مغرب نازیوں کی حمائت سے تعبیر کرتا ہے۔ اسی مغربی تکبر کا اظہار نائن الیون سانحے کے بعدامریکہ کے سابق  جارج ڈبلیو بش نے یہ کہہ کر کیا کہ' دہشت گردی کی جنگ میں جو ہمارے ساتھ نہیں وہ دہشت گردوں کا ساتھی ہے'۔ جھوٹے پرپیگنڈے کے باوجود ترکوں نے اپنے غیرجانبدار  روئے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے  مشرقی یورپ میں نسل کشی کا نشانہ بننے والے ہزاروں یہودیوں کو اپنی حفاظت میں فلسطین لاکر بسایا جبکہ اسی دوران برطانیہ نے  نازی ہمدردکا الزام لگاکر فلسطین میں آباد یہودیوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکایا۔ اُسوقت فلسطین میں آباد یہودیوں کی غالب اکثریت روسی نژاد تھی اور روسی حکمرانوں کو بحیرہ بلقان و بحر اسود  دونوں جگہ ترک بحریہ کی بالادستی پسند نہ تھی چنانچہ روس نے بھی یہودیوں میں آگ لگائی۔ عجیب بات کہ روسی مظالم سے تنگ آکر ان روسی یہودیوں نے  فلسسطین ہجرت کی تھی جو عثمانی خلافت کا حصہ تھا۔ اپنی تقریروں میں روس نژاد یہوددیوں کے رہنما داود بن گوریان  ترکوں کو اپنا محسن قراردیتے تھے۔ یہ بات تو قارئین کو معلوم ہی ہوگی کہ بن گوریان موجودہ اسرائیلی ریاست کے بانی قراردئے جاتے ہیں ۔ آنجہانی ، اسرائیل کے پہلے وزیراعظم  تھے۔

قیامِ اسرائیل  کے صرف ایک سال بعد تعصب و بدگمانی کے باوجود  ترکی نے  مارچ 1949 میں اسرائیل  سے سفارتی تعلقات استوار کرلئے۔ اس اعتبار سے ترکی دنیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک ہے۔ دلچسپ بات کہ اسوقت تک اقوام  متحدہ نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیاتھا اور ترکی نے عالمی ادارے میں قیامِ اسرائیل اور  تقسیمِ فلسطین کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ سابق ترک صدر عصمت انونو اسرائیل کے پرجوش حامی تھے۔ وزیراعظم محمد شمس الدین کویاتلے نے عجلت میں   اسرائیل کو تسلیم کرنے  کے مخالفت کی۔ انکا موقف تھا کہ جب بحر روم کے کسی بھی دوسرے مسلم ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تو اس کام میں پہل کرکے مسلم برادری کو ناراض کرنا مناسب نہیں لیکن صدر عصمت انونو  کے آگے انکی ایک نہ چل سکی۔ اتفاق سے اس واقعے کے صرف سوا سال بعد مئی 1950 میں اسلامی خیالات کے حامل عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو انتخابات میں  بھاری اکثریت سے  کامیابی نصیب ہوئی۔ عدنان میندریس کو ترکی میں تحریک اسلامی کا پہلا سیاسی رہنما مانا جاتا ہے۔جناب منیدریس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات پر ناراضگی کا اظہار کیا لیکن وہ فیصلہ تبدیل نہ کراسکے۔ چند سال بعد انھیں جن الزامات کے تحت تختہ دار پر لٹکایا گیا ان میں 'اسرائیل مخالف جذبات کی حوصلہ افزائی'  بھی شامل تھا۔

ترکی میں 1949 کے بعد سے اس صدی کے آٖغاز تک عوامی سطح پر  اسرائیل سے سفارتی تعلقات کےباب میں کسی قسم کی بےچینی یا ناگواری کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا ۔جون 1967 کی  چھ روزہ جنگ،  جس میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ پرقبضہ کیا، ترکی نے اسرائیل کی مخالفت کی۔ انقرہ نے  اقوام متحدہ کی اُس قراداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں مقبوضۃ عرب علاقے خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھالیکن اسرائیل کو جارح قراردی جانیوالی قرارداد پر رائے شماری کے دورران ترکی غیر جانبدار رہا۔دوسال بعد  اس کی وضاحت کرتے ہوئے رباط (مراکش)کے  او آئی سی  اجلاس میں ترک وزیر خارجہ احسان صابری  نے کہا کہ قرارداد کی حمائت سے اسرائیل ترک سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے تھے۔

دووسری طرف ترکوں کو  قبلہ اول ( مسجد اقصیٰ ) میں نوافل ادا کرنے کا بہت شوق ہے۔ ہرسال ہزاروں ترک بیت المقدس کا سفر کرتے ہیں۔ ترکی کے عیسائی باشندے بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش بیت اللحم، کلیسائے میلاد (Church of Nativity)اور جبلِ صیہون کے قدیم مسیحی قبرستان کی زیارت کو جاتے ہیں۔اس بنا پر ترکوں اور فلسطینیوں کے باہمی تعلقات بہت گہرے ہیں اور ان مظلوموں کی حالتِ زار کے بارے میں ترک عوام کی فکر بہت واضح ہے۔

طیب رجب ایردوان  اور انکے سیاسی و نظریاتی استاد پروفیسر نجم الدین اربکان وہ دو  ترک رہنما ہیں جنھوں نے کھل کر   فلسطینیوں کی پشتیانی کی۔ ایردوان نے 2003 کی انتخابی مہم کے دوران بہت دوٹوک انداز میں  فلسطییوں کے حقوق کی بات کی، اپنے جلسوں میں انھوں نے کہا کہ ترک کئی صدیوں تک  بیت المقدس کے خادم رہے ہیں اور اس حیثیت سے فلسطینیوں کی اعانت ہمارا مذہبی، ملی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

اسرائیل اور ترکی کے درمیان حقیقی کشیدگی کا آغاز اسوقت ہوا جب غزہ کی اسرائیل اور مصر کی جانب سے ناکہ بندی کیخلاف مئی 2010 میں  انسانی حقوق کے لئے سرگرم ترک تنظیم انسانی یاردم (حقوق) وقف یا IHHنے امدادی سامان سے لدا کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ آزادی کارواں (Gaza Freedom Flotilla) میں 37 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 663 افراد سوار تھے۔ جن میں پاکستان کے ممتاز صحافی سید طلعت حسین، اقوام متحدہ کے شریک معتمد ڈینس ہالیڈے، موریطانیہ میں امریکہ کے سابق سفیر، اسرائیلی اور یورپی پارلیمان کے کچھ ارکان  شامل  تھے حتیٰ کہ چند اسرائیلی یہودی خواتین بھی ان کشتیوں پر سوار تھیں۔ قبرص کی بندرگاہ پر روانگی سے پہلے صحافیوں کو جہاز وں کا تفصیلی معائینہ کروایاگیا۔ اسرائیلی جریدے ہرٹز کے نمائندے نے کہا کہ جہاز پر لدے سامان، مسافروں اور عملے کے ارکان کے پاس ایک چاقو تک نہ تھا۔ چھ چھوٹے جہازوں پر مشتمل اس قافلے میں دو پر امریکی، دو یونانی اور ایک پر کیمیرون کے پرچم لہراریے تھے صرف غزہ نامی جہاز ترکی کی ملکیت تھا۔  تین مال بردار جہازوں پر غذائی اجناس، دوا، معذوروں کیلئے کرسیاں (وھیل چئیر)، کپڑے، جوتے اور بچوں میں تقسیم  کیلئے نقدی سے بھرے لفافے شامل تھے۔ اس سامان  کی کُل مالیت کسٹم کی دستاویز میں 2 کرورڑ الر بتائی گئی۔

تیس اور 31 مئی کی درمیانی شب جب یہ کارواں بحر روم میں اسرائیلی آبی حدود سے کافی دور  تھا،  فوجی کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسرائیلی فوجی ان جہازوں پر اتر گئے اور سامان کی تلاشی شروع کردی۔ اس دوران جہاز پر سوار انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسرائیل کے خلاف   نعرے لگائے جس پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کردی۔ گولیوں سے 9ترک کارکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

اس واقعے سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات بے حد کشیدہ ہوگئے اور جب چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے قافلے پر اسرائیلی حملے کو غیر منصفانہ اور جارحیت پر مبنی قراردیا تو ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک سے نکال دیا۔ جسکے بعد ترکی اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات عملاً ختم  ہوگئے۔ مارچ 2013 میں اسرائیلی وزیراعظم نے جناب ایردوان کو فون کرکے اس واقعے پر معافی مانگ لی۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ ترکی سے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے کو انا کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے معذرت کی ہے۔

معافی کے بعد تعلقات میں بہتری کا آغاز ہوا اور 2016 کے آغاز پر دونوں کے سفارتخانوں نے  کام شروع کردیا۔ جون 2017 میں ترک وزارت خزانہ نے دعویٰ کیاکہ اسرائیل نے بحری کارواں پر حملے میں جان بحق ہونے والوں کیلئے دوکروڑ ڈالر خون بہا ادا کیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اسکی تصدیق یا تردید سے انکار کرتےہوئے کہا کہ وزیراعظم (نین یاہو) نے اس واقعے پر اسرائیلی عوام کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا ہے اور جان کے زیاں پر لواحقین کو اسکا تاوان ملنا چاہیے۔

 اسکے بعد بھی غزہ پر بمباری اور فلسطین کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔ دسمبر 2019 میں صدر ٹرمپ نے جب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا تو ترک اسرائیل کشیدگی پھر بڑھ گئی۔ اس فیصلے کے خلاف فلسطینیوں نے زبردست احتجاج کیا اور اس دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی درجن فلسطینی جاں بحق ہوئے ۔ فوج کی اس بہیمانہ کاروائی کی مذمت کرتے ہوئےصدر ایردوان نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا جس پر اسرائیل نے سخت رد عمل اظہار کیا ۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے فیصلے کی بھی ترکی نے مذمت کی۔

فلسطین کے علاوہ مشرقی بحر روم کے معدنی وسائل کے معاملے پر بھی ترکی اور اسرائیل ایک دوسرے کےمخالف ہیں۔ اسرائیل اس حوالے سے قبرص اور یونان کے موقف کا حامی ہے۔ گزشتہ سال اسرائیل نے  بحر روم سے یورپ کو گیس کی فراہمی کیلئے قبرص اور یونان کے تعاون سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اس پائپ لائن کو مشرقی بحر روم کے جس حصے سے گزرنا تھا اسے ترکی اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ ترک بحریہ نے دھمکی دی کہ وہ بزورِ طاقت پائپ لائن بچھانے کے کام کو روکے گی۔ ترکی کے اس سخت روئے کی بناپر منصوبہ ختم کردیا گیا۔صدر ایردوان نے اس فیصلے کو اسرائیل کی جانب سئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہارقرارراردیا۔ساتھ ہی انھوں نے  کہا کہ یورپ کو گیس کی فراہمی کیلئے وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنےکو تیار ہیں۔ ترک صدر کا یہ بیان انکے ابتدائی موقف کی نفی ہے۔ بحر روم میں لیویاتھن کے نام سے مشہور یہ گیس میدان غزہ کے ساحلوں  سے بہت قریب ہے اور 990 ارب مکعب میٹر گیس کے اس ذخیرے کو ترک صدر نے  فلسطین کی ملکیت قراردیا تھا۔

دوسرے ممالک کی طرح  کرونا کی وجہ سے ترک معیشت شدید دباو میں ہے۔ روس سے فضائی دفاعی نظام خریدنے کی بناپر امریکہ نے ترکی  پر پابندیاں لگادی ہیں جس سے ترک برامدات متاثر  ہیں۔مشرقی بحر روم کے معاملے میں صرف یونان ہی نہیں بلکہ  یورپی ممالک خاص طور سے اٹلی اور فرانس کے تعلقات بھی ترکی سے کشیدہ ہیں جنکی تیل کمپنیوں کو ترک بحریہ نے اُن علاقوں سے نکال دیا ہے جسے انقرہ اپنا حصہ  قراردیتا ہے۔

معیشت کی بحالی اسوقت ترک قیادت کی ترجیح ہے اور اقتصادیات کو بہتر کرنے کیلئے صدر ایردوان  علاقائی اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ترک صدر کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ جناب ایردوان نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی طرف بھی خیر سگالی کے پیغامات کیساتھ ایلچی بھجوائے ہیں اور قاہرہ سے آنے والے اشارے حوصلہ افزا ہیں۔

بلاشبہہ معیشت کی بہتری کیلئے علاقے میں پائیدار امن ضروری ہے اور سفارتی تعلقات کی بہتری سے تنازعات کے پر امن حل میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی پر فلسطینیوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ایک ایک کرکے تمام عرب ممالک  نے آزاد فلسطین کی شرط کو پس پشت ڈال کر اسرائیل سے دوستی استوار کرلی ہے اور جن ملکوں نے اب تک صیہونی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا وہ بھی اسرائیل سے تقریباً ہر سطح پر تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے فلسطینیوں کی رہی سہی سیاسی اور اخلاقی پشت پناہی  ختم ہوچکی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کی بناپر فلسطینی اب  ایران اور لبنانی حِزب اللہ کی حمائت سے بھی محروم ہیں۔ فی الوقت ترکی فلسطینیوں، خاص طور سےاہل غزہ کا سب سے مضبوط پشت پناہ ہے۔ یہی وجہ سے ہے ترکی اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قربت سے غزہ میں سوگ کی سی کیفیت ہے۔

اپنے دورہ اسرائیل میں ترک وزیرخارجہ نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا ہےکہ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ترکی فلسطین سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کرچکا ہے۔ تل  ابیب میں صحافیوں  سے باتیں کرتےہوے جناب اوغلو نے کہا کہ مشرقی بیت المقدس دارالحکومت کیساتھ آزادو خودمختار فلسطینی ریاست، القدس کی حیثیت، غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے اور فسلطینیوں کے حقوق پر انقرہ کے موقف اور عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔  انکا کہناتھا کہ  سفارتی تعلقات کی بحالی سے اسرائیلیوں کو معقولیت پرآمادہ کرنے کی کوششوں کو تقویت پہنچے گی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ایسے ہی دلائل متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رہنماوں نے بھی دئے تھے۔

اسرائیلی رہنماوں کا خیال ہے کہ اس وقت اسرائیل سے زیادہ ترکی کو ا چھے تعلقات کی ضرورت ہے اور نوشتہ دیوار پڑھ کر صدر ایردوان یو ٹرن لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے سیاسی مراکزِ دانش (THINK TANKS) نے اسرائیلی وزارت خارجہ کو  بدلتے ہوئے ترک روئےکا جو تجزیہ پیش کیا ہے اسکے مطابق  ترک معیشت کی خرابی نے اسرائیل کے ساتھ تعلق میں بہتری کے لیے ترکی پر دباؤ بڑھایا ہے۔ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ  تعلقات کے بعد  ترکی  سے دوستی اسرائیل کی  ’ضرورت ‘ نہیں رہی۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین شام کے  علاوہ کسی اور جگہ تعاون کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ شام کی جانب سے کُرد دہشت گردوں کی پشتیبانی پر ترکی کو تشویش ہے اور اسرائیل کو بھی شام میں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی پسند نہیں۔ تاہم یہاں بھی تل ابیب اور انقرہ میں مکمل ہم آہنگی نہیں کہ شام کے معاملے پر اختلاف  ہوتے ہوئے بھی  ترکی  کے ایران سے تعلقات اچھے ہیں اور امر یکی اعتراضات کے  باوجود ترکی ایران سے تیل اور گیس خرید رہا ہے۔

خیال ہے کہ  اسرائیل، اب ترکی کو حماس کی حمائت ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریگا۔ صحافتی ذرایع کے مطابق  اسرائیلی صدر انقرہ میں اپنے ترک ہم منصب کے کان میں یہ بات ڈال چکے ہیں کہ اسرائیل حماس کو اپنی سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور حماس کے بارے میں نقطہ نظر کی بنیادی تبدیلی کے بغیر اسرائیل ترک تعلقات میں نتیجہ خیز بہتری ممکن نہیں۔ تل ابیب کا کہنا ہے  کہ حماس کے 'دہشتگردوں'  کو ترکی میں سفارتکارو ٓں درجہ حاصل ہے اور یہ صورتحال اسرائیل کیلئے قابل قبول نہیں۔ دیکھنا ہے کہ صدر ایردوان الفت کی نئی منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے فلسطینیوں سے کئے  گئےوعدوں کو کیسے نبھاتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 جون 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 3 جون 2022

روزنامہ امت کراچی 3 جون 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 5 جون 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, June 2, 2022

تلفظ بہت اہم ہے ۔۔ ہمیں تُرکی پُکارا اور Türkiye لکھا جائے

 

 تلفظ بہت اہم ہے ۔۔ ہمیں تُرکی پُکارا  اور Türkiye لکھا جائے

گوروں  نے بہت سے ملکوں کے ناموں کو حُلیہ بگاڑ دیاہے

قاہرہ، کائرو کہلاتا ہے

دمشق کو ڈماسکس بنادیا کیا

قطر کو یہ لوگ گٹر کہتے ہیں

ترکی کا تلفظ ٹرکی بنادیا گیا ہے جو درااصل فیل مرغ (تصویر) کا انگریزی ترجمہ ہے

چند برس پہلے جب استنبول کی ایک تقریب میں سابق وزیراعظم نواز شریف  نےانگریزی جتانے کیلئے اپنی تقریر میں  بار بار 'ٹرکی' کہا تو ایک ترک صحافی سے نہ رہا گیا اور وہ شُستہ اردو میں بولا

محترم وزیراعظم صاحب آپکی زبان میں ت اور ٹ دو بالکل مختلف حروف ہیں، اپ ت کا تلفظ ٹ کیوں فرمارہے ہیں۔

بدقسمتی سے نواز شریف یہ اشارہ نہ سمجھ سکے اور اسکے بعد بھی ٹرکی بولتے رہے

امریکہ میں چکن اور ٹرکی بزدلی کا استعارہ بھی ہے۔ جب 1974 میں ترکی نے قبرصی ترکوں کو نسل کُشی سے بچانے کیلئے عسکری کاروائی کی تو امریکی کانگریس میں یونان کے حامی سخت غصے میں آگئے۔ رکن کانگریس محترمہ جیرالڈین فرارو نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے تحقیر آمیز لہجے میں کہا

GET THOSE TURKEYS OUT

ان متعصب خاتون کو 1984 کے صدارتی انتحاب میں والٹر مانڈیل نے نائب صدر کیلئے امیدوار نامزد کیا تھا

کچھ عرصہ قبل ترکی نے اقوام متحدہ کو  ہجے میں اصلاح کیلئے درخواست دی تھی  چنانچہ آج قیّمِ اقوام متحدہ کے ترجمان استیفن دجارچ Stephane Dujarric نے اپنے ایک خط میں ترک وزارت خارجہ کو مطلع کیا کہ یکم جون سے انکے ملک کو Türkiyeلکھا اور پکارا جائیگا


Wednesday, June 1, 2022

خیبر پختونخواہ میں تیل اور گیس کے ایک نئے ذخیرے کی دریافت

 

خیبر پختونخواہ میں تیل اور گیس کے ایک نئے ذخیرے کی دریافت

ماری پیٹرولیم نے شمالی وزیرستان کے ایک کنویں سے تیل اور گیس کی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ بنوں بلاک 2005 میں آئرلینڈ کے ایک ادارے تلو Tullowنے حاصل کیا تھا۔ چند سال قبل ماری نے تلو سے اسکے حصص خرید لئے اور دوسری طرف سیف انرجی نے اپنے 10 فیصد حصص صدراالدین ہاشوانی کی کمپنی ، زیور پیٹرولیم کو فروخت کردئے۔ اس وقت اس مشارکے میں ماری 55، او جی ڈی سی 35 اور زیور 10 فیصد حصص کے مالک ہیں۔

بنون ویسٹ ایک (BW-1) کے نام سے اس کنویں کی کھدائی کا کام گزشتہ سال 6 جون کو شروع ہوا ۔ سخت چٹانوں اور غیر مستحکم زیرزمین دباو کی وجہ سے کئی مسایل کا سامنا رہا لیکن مستقل مزاج و پرعزم پاکستانی انجنیروں، ماہرینِ ارضیات اور بلند حوصلہ کارکنوں نے مطلوبہ ہدف 4915 میٹر گہرائی پر حاصل کرلیا۔کھدائی کے بعد آزمائش و پیمائش (Logging & Testing) کا سخت لیکن ولولہ خیز اور دلچسپ مرحلہ بھی کامیابی سے مکمل کرلیا گیا۔

ابتفائی نتائج کے مطابق اس کنویں سے یومیہ ڈھائی کروڑ مکعب فٹ (25MMSCFD) گیس اور 300 بیرل تیل حاصل کیا جاسکے گا۔

یہ اس علاقے میں تیل اور گیس کی پہلی دریافت ہے ۔ امید ہے کہ بنوں ایک کی کھدائی سے زیرزمین چٹانوں کی ماہیت، نفوذ پزیری اور ذخائر کے بارے میں جومعلومات ہوئی ہیں انکی بنیاد پر تلاش و ترقی کے کام کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائیگا۔ کھدائی کے دوران جن مسائل کا سامنا ہوا اس سے سبق سیکھتے ہوئے کارکردگی بھی مزید بہتر ہوگی۔

اچھی بات یہ ہے کھدائی کیلئے استعمال ہونے والی یہ چینی ساختہ جدید ترین رگ ماری پیٹرولیم کی ملکیت ہے۔ یہ نئی نویلی رگ ویدرفورڈ کیلئے چین میں بنی اور ہمارے زمانے میں پاکستان درآمد کی گئی، جسے کچھ عرصہ قبل ویدرفورڈ نے ماری کو فروخت کردیا۔


یوکرینی گندم کی ترسیل ترکی کی نگرانی میں؟

 

یوکرینی گندم کی ترسیل ترکی کی نگرانی میں؟

یوکرین اور روس کی جنگ میں جہاں بیگناہ یوکرینی شہری مارے جارہے ہیں وہیں، جنگ کی بنا پر یوکرینی گندم کے بازار نہ پہنچنے سے سای دنیا میں بحران پیداہوگیا ہے

گزشتہ سال یوکرین میں گندم کی پیداوار 3 کروڑ 30 لاکھ ٹن سے زیادہ تھی۔ لبنان، مصر، شام اور یمن کی گندم کی 70 فیصد ضرورت یوکرینی گیہوں سے پوری ہوتی ہے۔

جنگ کے باوجود یوکرین میں گندم کی پیداوار معمول کے مطابق ہے۔ فصل کی کٹائی کا کام شروع ہوچکا ہے لیکن بندرگاہوں پر روس کے قبضے اور ناکہ بندی کی بناپر گندم کی برآمد ممکن نہیں۔

اس ضمن میں روس اور یوکرین دونوں نے ترکی سے مدد کی درخواست کی ہے۔ بحر اسود اور بحر روم پر تر ک بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط ہے۔ ترکی اخبار روزنامہ صباح کے مطابق اگلے ہفتے روسی وزیرخارجہ سرجی لارو ایک عسکری وفد کے ہمراہ ترکی پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران ترک حکام سے گندم بردار جہازوں کیلئے ایک محفوظ بحری راہدرای قائم کرنے کے انتظامات کو آخری شکل دی جائیگی۔

اتبدائی اطلاعات کے مطابق یوکرینی بندرگاہ اوڈیسا سے چلنے والے گندم بردار جہازوں کو ترک بحریہ کی نگرانی میں بحر اسود سے آبنائے باسفورس کے ذریعے بحبرہ مرمرا کے راستے بحر روم پہنچایا جائیگا۔

گندم کی ترسیل کیلئے اس محفوظ راستے کے قیام میں ساری دنیا کا فائدہ ہے۔ تاہم ڈر ہے کہ چچا سام اور انکے یورپئ اتحادیوں کو اس بندوبست پر تحفظات ہونگے