Thursday, October 31, 2024

 

ایران پر اسرائیل کا حملہ

نقصانات کے بارے میں متضاد خبریں

اسرائیلی کاروائی کا غیر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے، رہبرِ معظم،  ایران کا حکم

غزہ کا آخری اسپتال بھی منہدم

 ایک سال کے دوران 17ہزار سے زیادہ بچے قتل کردیے گئے

اپنے پیاروں کی واپسی کیلئے ہمیں تکلیف دہ شرائط ماننی ہونگی، اسرائیلی وزیردفاع

کئی ہفتوں کی دھمکیوں کے بعد 26 اکتوبر کو صبح سویرے اسرائیل نے ایران پر فضائی حملہ کردیا۔ یہ دراصل اس ماہ کی پہلی تاریخ کو اسرائیل پر ایران کے میزائیل، راکٹ اور ڈرون حملے کے جواب تھا۔ایرانی کاروائی پر مشتعل ہوکر وزیراعظم نیتھن یاہو نے کہا تھاکہ ایران نے حملہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے  اور اسکی تہران کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور فوجی ذرایع تاثر دے رہے تھے کہ ایران کی تیل و گیس تنصیبات اور جوہری اثاثوں کیساتھ حضرت علی خامنہ ای سمیت اعلیٰ ترین ایرانی قیادت کو ہدف بنایا جائیگا۔

ایران پر حملے سے پہلے، پیش بندی کے طور پر امریکہ نے جدید ترین فضائی دفاعی نظام،  Terminal High Altitude Area Defense یا THAADاسرائیل میں نصب کردیا تھا۔عجلت میں بھیجے جانے والے ٹھاڈ نظام کیساتھ اسے چلانے کیلئے  100 امریکی فوجی بھی اسرائیل آئے ہیں کہ تربیت کا وقت نہیں۔

حملے سے دودن پہلے اسرائیلی وزیردفاع یوف گیلینٹ، بئیر سبع (Beersheba) میں ہتزرم Hatzerim اڈے پہنچے۔صحرائے نقب  (Negev Desert) میں واقع اس فضائی اڈے پر خصوصی مہمات کیلئے ہوابازوں کو تزویرانی (strategic)تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں  فضائیہ کے سربراہ تومر بار کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'اسرائیل پر ایرانی حملہ جارحانہ لیکن احمقانہ اور غلط تھا۔ اس کے برعکس، ہمارا حملہ مہلک، درست اور حیران کن ہوگا -ایرانی یہ جان بھی نہیں سکیں گے کہ کیا ہوا یا یہ سب کچھ کیسے ہوگیا. وہ صرف نتائج دیکھیں گے۔ ایران کے خلاف کاروائی کے بعد دنیا کو اندازہ ہوگا کہ ہم نے اسکے لئے کیسی تربیت اور تیاری کی تھی۔

ہفتہ 26 اکتوبر کو ایرانی وقت کے مطابق صبح ڈھائی بجے F-151 Ra’amاور F161 Sufaطیاروں کی ٹکریوں نے  تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں کے مخلتف مقامات پر ریڈار اور دوسرے فضائی دفاعی نظام کو جدید ترین سپر سونک میزائیلوں سے نشانہ بنایا۔ تہران میں موجود AFPکے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایرانی اس حملے کیلئے تیار تھے اسلئے زمین پر بم دھماکے سے پہلے آسمان حملہ آور میزائیلوں اور ان کا شکار کرنے والے مزاحمتی گولوں یا Interceptor کی روشنی سے منور تھا۔ڈیڑھ گھنٹے بعد آسمان صاف ہوگیا جسکے تھوڑی دیر بعد F-35 بمبار نمودار ہوئے اور انھوں نے فوجی ٹھکانوں کونشانہ بنایا۔ اس دوران تہران کے امام خمینی اور مہرآباد ایرپورٹ سے پروازوں کا سلسلہ جاری رہا۔

حملہ ہوتے ہی اسرائیل سمیت دنیا بھر کے ابلاغ عامہ پر خبر آنا شروع ہوگئی لیکن ایران اور اسرائیل دونوں جانب حکومتی سطح پر مکمل خاموشی تھی۔اسی دوران امریکی ٹیلی ویژن NBCنے بتایا کہ نام افشا نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ سطحی اسرائیلی اہلکار نے ایران پر حملے کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہ اسرائیل کا ایران کے جوہری اثاثوں اور تیل وگیس کی تنصیبات پر حملے کا ارادہ نہیں۔

ایرانی وقت کے مطابق صبح ساڑھے چھ بجے کاروائی کی تکمیل پر اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیر جنرل ڈینیل ہگاری نے ایک بصری پیغام میں کہا کہ ایرانی حکومت اور خطے میں اس کے آلہ کار سات اکتوبر سے اسرائیل پر مسلسل حملے کر رہے ہیں جن میں ایرانی سرزمین سے براہ راست حملے بھی شامل ہیں۔کئی ماہ سے جاری مسلسل حملوں کے جواب میں ایرانی فوجی اہداف پر "نپے تلے حملے" کیے گئے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ روسی ساختہ S-300فضائی دفاعی نظام، میزائیل، راکٹ اور ڈرون کارخانوں کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان کے مطابق 'آپریشن ایامِ توبہ' (Days of Repentance)  کے دوران بمباروں، لڑاکا طیاروں، ایندھن فراہم کرنے والے جہازوں اور جاسوس طیاروں نے اسرائیل سے 1600 کلومیٹر دور ایک انتہائی دشوار اور پیچیدہ کاروائی میں حصہ لیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام اسرائیلی طیارے بخیریت اپنے ٹھکانوں پر واپس پہنچ گئے۔ جب ان سے دشمن کے نقصان کا پوچھا گیا تو سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جنرل ہگاری نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ہمارا آپریشن مکمل ہوچکااور توقع ہے کہ ایران جوابی کاروائی کے نام پر معاملے کو طول دینے سے باز رہے گا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ یہودی عقیدے کے مطابق یہ 'اعتراف و توبہ' اور 'تلاوتِ توریت' کے ایام ہیں، جسکی مناسبت سے  اسے آپریش توبہ کا نام دیا گیا۔

جس وقت جنرل ہگاری تل ابیب میں صحافیوں سے باتیں کررہے تقریباً عین اسی وقت تہران میں سرکاری ترجمان محترمہ فاطمہ مہاجرانی نے غیر ملکی صحافیوں کوبتایا کہ 'ایرانی فضائیہ کے دفاعی نظام نے 'کشور ایران' کا کامیابی سے دفاع کیا۔ تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں پر 100 اسرائیلی طیاروں کا حملہ ناکام بنادیا گیا۔ بہت معمولی سا نقصان ہوا۔ تمام ریفائنریز اور اہم اثاثے بالکل محفوظ ہیں۔ فضائی اور بحری ٹریفک معمول کے مطابق ہے۔ اسلامک ریپبلک جوابی کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے'۔

تھوڑی دیر بعد ایرانی جنرل اسٹاف (GHQ) نے اپنے ایک بیان میں تفصیلات سے آگاہ کرتےہوئے کہا کہ اسلامی جہوریہ پر حملوں کے لیے اسرائیل نے عراق میں امریکہ کے زیر کنٹرول فضائی حدود کا استعمال کیا۔ اعلامئے میں بتایا گیاکہ حملے کے دوران اسرائیلی طیارے ایرانی سرحد سے 100 کلومیٹر دور رہے اور دشمن کے طیاروں کو ملک کی فضائی حدود میں نہیں داخل ہونے دیا گیا۔عراقی حددود میں پرواز کرتے ہوئے جنگی طیاروں نے میزائل داغے۔ ہمارے چوکس دفاعی نطام نے حملہ آور میزائیلوں کا بروقت سراغ لگاکر زیادہ تر کو فضا ہی میں غیر موثر کردیا۔ جنرل استاف نے نقصانات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ایلام،خوزستان اور دارالحکومت تہران کے قریب ریڈار یونٹوں کو "معمولی اور غیر موثر" نقصان پہنچا ہے۔زیادہ تر یونٹوں کی مرمت کردی گئی ہے اور کچھ پر مرمتی کام جاری ہے۔ ترجمان نے حملوں میں چار ایرانی سپاہیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے۔ حوالہ: IRNA

اسرائیل کی جانب سے کاروائی کی خبر آتے ہی امریکی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان شان سیورٹ Sean Savett نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی کاروائی 'اپنے دفاع کی مشق اور یکم اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف ایران کے بیلسٹک میزائل حملے کا جواب ہے'۔سیکیورٹی کونسل کے موقف کی حمائت کرتے ہوئے صدر بائیڈن بولے کہ امریکہ اسرائیل کے حق دفاع کی حمائت کرتاہے۔ انھوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اسرائیل نے اپنی کاروائی عسکری اہداف تک محدود رکھی اور اس سے شہریوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ امریکی صدر نے تاثر دیا کہ گویا انکے اصرار بلکہ دباو نےاسرائیل کو جوہری اثاثوں اور تیل و گیس کی تنصیبات پر حملے سے باز رکھا لیکن اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر (PMO)نے یہ کہہ کر شیخی کے غبارے میں سوئی چبھودی کہ 'اسرائیل نے وقت سے پہلے اہداف کا انتخاب اپنے قومی مفادات کے مطابق کیا نہ کہ امریکی ہدایات پر'

اسرائیل نے اس حملے میں ایران کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا۔اس حوالے سے ایران کا موقف ہم اوپر پیش کرچکے ہیں۔ غیر سرکاری سطح پر اسرائیلی فوجی ذرایع ان حملوں میں میزائیل بنانے کے کارخانوں اورمیزائیل شکن نظام کو تباہ کردینے کا دعوی کررہے ہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن Kan Public Broadcastingکے مطابق سیارچوں (Satellite) سے حاصل ہونے والی تصاویر سے دفاعی نظام کی مکمل بربادی ظاہر ہورہی ہے اور تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اسکی تعمیرِ نو میں خاصہ وقت لگے گا۔ کین براڈکاسٹنگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی جوہری اثاثوں سے تو براہ راست کوئی چھیڑ خانی نہیں کی لیکن تہران سے  30 کلومیٹر جنوب مشرق میں پارچین کے خفیہ اڈے کو  نشانہ بنایا جو ایک عرصے تک جوہری تحقیقی مرکز تھا اب  یہاں شاہد ڈرون اور راکٹ بنائے جاتے ہیں۔اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ دفاعی نظام کے تباہ ہوجانے سے ایران کیلئے اپنی تیل تنصیبات اور جوہری اثاثوں کی حفاظت ناممکن حد تک مشکل ہوگئی ہے۔اسرائیل کے اس دعوے کی کسی آزاد ذرایع سے تصدیق نہیں ہوسکی لیکن ایرانی،  بظاہر پریشان نظر نہیں آرہے اور تہران میں موجود غیر ملکی صحافیوں نے کسی بڑی آتشزدگی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔اگر اسرائیلی حملے میں ڈرون ساز فیکٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے تو یہ روس کیلئے بھی تشویشناک خبر ہے کہ یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ شاہد ڈرون سب سے موثر ہتھیار ہے۔ دوسرے دن حضرت علی خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل نے ایران کے عزم کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ انھوں نے ایرانی حکومت سے کہا کہ نقصانات کا تجزیہ کرتے ہوئے نہ کسی پہلو کو نظر انداز کیا جائے اور نہ ہی مبالغہ آرائی کی جانی چاہئے۔

رہبر معظم کے حکم پر ایرانی حکام نے نقصانات کا حقیقت پسندانہ جائزہ شروع کردیا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے یہ کہنا مشکل ہے کہ حملے کے نتیجے میں ایران کے دفاعی نظام اور میزائیل سازی کی صلاحیت  کو کتنا نقصان پہنچا ہے  لیکن اسرائیلی سیاستدان اس حملے کو وقت و وسائل کا زیاں اور بے مقصد مشق قرار دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے سوال اٹھادیاکہ جب  جوہری آثاثہ جات اور  تیل و گیس کی تنصیبات کو ہاتھ بھی نہیں لگانا تھا توسینکڑوں تجربہ کار ہوابازوں کو 1600 کلومیٹر دور بھیج کر خطرے میں ڈالنے اور کروڑوں کا ایندھن پھونکنے کی ضرورت کیا تھی؟ بائیں بازواتحاد کے قائد میجر جنرل (ر) یار گولان نے اپنے طنزیہ بیان میں کہا کہ 'اگر ایران کے ساتھ 'بدلہ' مکمل ہو چکا ہے تو حکومت کو اُس ذمہ داری کی طرف توجہ دینی چاہئے جس سے بی بی مسلسل پہلو تہی کررہے ہیں، یعنی غزہ میں یرغمالیوں کا معاہدہ'

اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امن معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر قاہرہ میں گفتگو کاایک دور مکمل کرنے کے بعد موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنی  27 اکتوبر سے قطر میں ہیں۔ مصری خفیہ ذرایع نے موساد کو مطلع کردیا ہے کہ یحییٰ سنوار کے قتل کے باوجود مزاحمت کار قیدیوں کی رہائی کیلئے غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی پر اصرار کررہے ہیں۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ڈیوڈ برنی نے اپنے مصری ہم منصب کے ذریعے مزاحمت کار قائدین کو سندیسہ بھجوایاکہ اگر وہ ہتھیار ڈال کر قیدی رہا کردیں تو انھیں بحفاظت غزہ سے نکلنے دیا جائیگا۔ پیغام  ملتے ہی جواب آیا کہ 'ہم اپنے وطن میں ہیں، جانا تو قبضہ گردوں کو ہے۔ دن و ہفتہ، ماہ وسال  نہیں،ہمیں لڑتے سات دہائیاں گزرچکی ہیں اور ہر آنے والا دن ہمارے عزم کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ فیصلہ قابضین کو کرنا ہے کہ وہ کب تک ہماری مزاحمت سہہ سکیں گے؟'دوسری جانب اسرائیلی وزیردفاع گیلنٹ نے حقیقت پسندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قوت مسئلے کا حل نہیں، صرف طاقت سے تمام اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ قیدیوں کی رہائی ہماری اخلاقی و قومی ذمہ داری ہےاور اپنے پیاروں کی واپسی کیلئے ہمیں تکلیف دہ شرائط ماننی ہونگی۔حوالہ: فرانس 24 ٹیلی ویژن

گفتگو کا اختتام اس اطلاع پرکہ غزہ میں طبی سہولتوں کا آخری مرکز،کمال عدوان اسپتال بھی تباہ کردیاگیا۔اسپتال منہدم کرنے سے  پہلے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو گرفتار کرنے کے لئے آنے والے اسرائیلی دستے نے اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کے 8 سالہ بچے ابراہیم کو گولی ماردی۔ لیکن 'بکمال مہربانی' ڈاکٹر صاحب کی مشکیں کسنے سے پہلے انھیں اپنے لخت جگر کا جنازہ پڑھانے کی مہلت دیدی گئی۔ غزہ میں ایک سال کے دوران 17029نونہال قتل کئے گئے، ان میں سے 171 بچے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنی ماؤں کے ساتھ انکے پیٹوں میں جان سے گئے۔ قتل ہونے والے سات سو سے زیادہ بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ بھی نہیں دیکھی۔چنگیز و ہلاکو جیسے وحشی بھی خونریزی کے دوران مریضوں ، شفاخانوں اور بیمارستانوں کی حفاظت کرتے تھے لیکن غزہ میں انسان، انسانیت اور اخلاقیات سب کا جنازہ نکل گیا

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم نومبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی یکم نومبر 2024

ہفت روزہ رہبر 3 نومبر 2024


Saturday, October 26, 2024

 

امریکی انتخابات ۔۔ڈانلڈ ٹرمپ کا پلہ بھاری

سابق صدر نے میکڈانلڈ ریستوران میں آلو کے قتلے تلے

اسقاط حمل امریکی خواتین کا کلیدی نکتہ،  مسلمان گرین پارٹی کی طرف مائل

سارے امریکہ میں قبل از وقت یا earlyووٹنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس بارفیصلہ کن یا swingریاستوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان زیادہ نظر آرہا ہے۔ ریاست جارجیا میں پہلے دودن کے دوران 15 لاکھ رائے دہندگان نے اپے ووٹ بھگتالئے۔چار سال پہلے یہاں کُل  24لاکھ 74ہزار ووٹ ڈالے گئے تھے۔ تقریباً ہر ریاست میں اس بار یہی حال ہے۔

سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ اقتصادی خرابیوں اور غیر قانونی تارکین وطن کا خوف دلاکر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ کو میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کی شکل میں جارحیت کا سامنا ہے۔ ساری دنیا سے جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروش امریکہ آرہے ہیں جسکی وجہ سے شہری سہولتیں دباوکا شکار ہیں۔ یہ تارکین وطن بازار سے بہت کم اجرت پر کام کو تیار ہیں اسلئے امریکیوں کو بیروزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔انکا کہنا ہے کہ گنوار تارکین وطن  امریکی شہریوں کے پالتو کتے اور بلیاں ذبح کرکے کھارہے ہیں۔روسائے شہر نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے لیکن جناب ٹرمپ یہ الزام ہر جگہ دہرارہے ہیں۔

کملا ہیرس مہم کا بنیادی نکتہ اسقاط حمل ہے۔کچھ عرصہ پہلے صدر ٹرمپ کے تعینات کردہ سپریم کورٹ ججوں نے استقاط حمل کے معاملے ریاستوں کے حوالے کردیا جسکے بعد ریپبلکن گورنروں کی زیرانتظام ریاستوں میں اسقاط حمل غیر قانونی اور اسے قتل جیسی واردات کادرجہ دیدیا گیاہے۔خواتین کیلئے یہ پابندیاں قابل قبول نہیں۔ایک جائزے کے مطابق امریکہ کی 56 فیصد خواتین 'میرا جسم میری مرضی' کی قائل ہیں اور انکے خیال میں اسقاط پر پابندی خواتین کے  بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔اسی بنا پر خواتین میں کملا ہیرس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جسکا اعتراف خود ڈانلڈ ٹرمپ بھی کررہے ہیں۔ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'امریکی خواتین مجھ سے پیار کرتی ہیں لیکن اسقاط کے معاملے پر انکے تحفظات مجھے نقصان پہنچاریے ہیں۔

کملا ہیرس، ڈانلڈ ٹرمپ سے ناراض ریپبلکن پارٹی کے حامیوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ گزشتہ دنوں ریپبلکن پارٹی کی سینیر رہنما اور سابق نائب صدر ڈک چینی کی صاحبزادی لز چینی نے انکے لئے ریپبلکن پارٹی کے حامیوں کا ایک اجتماع منعقد کیا جس میں چینی صاحبہ نے 'محب وطن' ریپبلکن ارکان پر زور دیا کہ وہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہوکر ریاست کو جماعت پر ترجیح دیں۔ جناب ٹرمپ نیٹو کے بارے میں بہت زیادہ پرجوش نہیں۔ اسکے علاوہ قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ وہ روس اور شمالی کوریا کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جناب ٹرمپ  نے 2020 کے انتخابات کے نتائج کا تسلیم نہیں کیا اور نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں کے الزام میں ان پر مقدمات بھی قائم ہیں۔ محترمہ لز چینی اور انکے ہمخیال ریپبلکن ان معاملات پر ڈانلڈ ٹرمپ کے شدید مخالف ہیں۔

ہرگزرتے دن کیساتھ مقابلہ سخت ہوتا جارہا ہے۔ تازہ ترین جائزے کے مطابق سات میں سے تین فیصلہ کن ریاستوں میں ڈانلڈ ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ تین میں کملا، ڈانلڈ ٹرمپ سے آگے ہیں جبکہ نواڈا میں دونوں 49 فیصد کیساتھ بالکل برابر ہیں۔ جارجیا اور اریرزونا میں ڈانلڈ ٹرمپ کی برتری دو فیصد ہے، باقی ریاستوں مں فرق اتنا کم ہے کہ نتیجے کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔تاہم سیاسی پنڈتوں نے ڈانلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی پیشنگوئی شروع کردی ہے۔

سرگرمیوں میں تیزی آنے کے ساتھ زبانی جنگ بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔ ٹرمپ صاحب کی بے ساختگی اور بذلہ سنجی نے نوک جھونک کو دلچسپ بنا دیا ہے۔کسی جلسے میں کملا ہیرس نے بتایا کہ دوران طالب علمی وہ میکڈانلڈ میں آلو کے قتلے المعروف French Friesتلا کرتی تھیں۔ یہ سن کر جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے ہانک لگائی کہ یہ کام وہ اپنی حریف سے  اچھا کرسکتے ہیں۔اپنے دعوے کو درست  ثابت کرنے کیلئے سابق صدر نے پینسلوانیہ کے ایک میکڈانلڈ جاکر نہ صرف آلو کے قتلے تلے بلکہ Drive Thruکھڑکی پر آکر صارفین کو یہ کہہ کر دئے کہ 'دیکھو میں کملا ہیرس سے اچھی فرنچ فرائیز بناسکتا ہوں'۔ جب ایک کرمفرما نے پوچھا 'کیا آپ انتخاب جیت جائینگے تو جناب ٹرمپ بے دھڑک بولے 'ہاں اگر  شفاف ہوئے تو'

اسرائیل کی غیر مشروط حمائت کی بنا پر مسلمانوں کی ڈیموکریٹک پارٹی سے دوری بڑھتی جارہی ہے۔ مشیگن، وسکونسن، جارجیا،پینسلوانیہ اور ایریزونا میں کملا ہیرس کی مہم سخت دباو میں ہے۔ محترمہ مسلمانوں سے رابطے میں تو ہیں اور نجی نشستوں میں اہل غزہ  کی مشکلات پر تشویش کا اظہار بھی کردیتی لیکن سرکاری و عوامی سطح پر وہ اپنے موقف میں نرمی کو تیار نہیں

پیر 21 اکتوبر کو جب کملا ہیرس نے جامعہ واسکونسن، ملواکی میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انکی حکومت اعلیٰ تعلیم کیلئے بھاری سرمایہ کاری کررہی ہے تو فلسطینی کفیہ گلے میں ڈالے ایک نوجوان کھڑا ہوگیا اور بولا 'جی نہیں آپ نے نسل کشی کیلئے سرمایہ کاری کی ہے آپ کی حکومت نے بچوں کے قتل عام کیلئے اسرائیل کو اربوں ڈالر دئے ہیں'۔ کملا ہیرس نے تردید کرتے ہوئے کہا ہم غزہ میں فوری جنگ بندی کیلیے کام کررہے ہیں۔ پولیس نے اس لڑکے کو ہال سے نکال دیا۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بھی ٹھیک تھا۔ شام کو ایک بیان میں کملا ہیرس انتخابی مہم کے ترجمان نے وضاحت کی کہ ہیرس صاحبہ طالب علم کے اس الزام سے متفق نہیں کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کررہا ہے۔

دوسرے دن جامعہ منیسٹوٹا، منیاپولس (University of Minnesota, Minneapolis) میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے درجنوں طلبہ گرفتار کرلئے گئے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار برائے نائب صدارت ٹم والز اس ریاست کے گورنر ہیں۔

روزنامہ جسارت کراچی 27 اکتوبر 2024


Friday, October 25, 2024

پشتون غیرت کا امین

جسٹس قاضی فائز عیسٰی عدالت عظمیٰ سے سبکدوش ہوکر گھر چلے گئے۔ چند ماہ پہلے جب انھوں نے ملازمت میں توسیع نہ لینے کا اعلان کیا تھا اسوقت تحریک انصاف کے حامی اور عشق تازہ میں مبتلا سابقین و صالحین قسمیں کھاکھاکر کہہ رہے تھے 'جھوٹے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں'۔ الحمد اللہ قاضی صاحب نے ایفائے عہد کے ذریعے جہاں اپنی سرفرازی کا انتظام کیا وہیں انکے ہم جیسے مداحوں کا سر بھی فخر سے بلند ہوگیا۔

ہم یہ سطور اسلئے قلمبند کررہے ہیں کہ آقاؐ نےاس شخص کی تعریف فرمائی ہے جو اپنے بھائی کی اسوقت حمائت کرے جب اسکی بے عزتی کی جارہی ہو۔

ہمیں قاضی صاحب سے عقیدت اسوقت پیدا ہوئی جب مبارک ثانی کے مقدمے میں انکے فیصلے پر ختم نبوت کے حوالے سے تحفظات کا اظہار ہوا۔ قاضی صاحب نے اسے ناک کا مسئلہ بنانے کے بجائے فوراً علما سے مشورہ کیا۔ انکی مفتی تقی عثمانی سے گفتگو کا بصری تراشہ ہم نے دیکھا۔ قاضی صاحب جس ادب و احترام اور احتیاط سے گفتگو کررہے تھے وہ انتہائی متاثر کن تھا۔ علما کی بات سن کر قاضی صاحب نے اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے فیصلے پر نظر ثانی فرمالی۔ یادش بخیر سزائے موت کے ایک حساس مقدمے کے دوران سابق چیف جسٹس اصف سعید کھوسہ نے جس رعونت کا اظہار کیا تھا وہ ہمیں اب تک یاد ہے۔ یا مسجد گرانے کے معاملے پر مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے جس توہین آمیز انداز میں محترم نعیم الرحمان کو کمرہ عدالت سے نکالا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ اور بات کہ حافظ نعیم الرحمان پاکستان کی سب منظم جماعت کے منتخب امیر ہیں جبکہ فرعون صفت گلزار احمد تاریخ کے کوڑے دان کی زینت۔

قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کی تارئخ کے وہ واحد سرکاری ملازم ہیں جنھوں نے:

  • سرکاری پرٹوکول نہیں لیا
  • بلٹ پروف کار نہیں لی۔ موصوف اکثر پیدل چلتے ہوئے عدالت آیا جایا کرتے تھے۔ ہماری تاریخ میں ایک وزیراعظم وہ بھی گزرے ہیں جو روزانہ گھر سے دفتر اور واپسی کیلئے سرکاری خرچ پر خصوصی ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے۔
  • ریٹائرمنٹ پر پلاٹ نہیں لیا
  • سرکا ری خرچ پر الوداعی عشائیہ قبول نہیں کیا
  • اپنے اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ٖڈالنےکی پیشکش کی

قاضی صاحب کے خلاف توہین و تضحیک کا جو طوفان بدتمیزی برپا پے وہ انشااللہ جسٹس صاحب کے مقام کو مزید بلند کرنے کا سبب بنے گا۔ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔ فرعون و ہامان نے بھی جھوٹ کا طومار باندھ کر ایک عرصہ اپنی حکمرانی مسلط رکھی لیکن دروغ کا ذلت آمیز و عبرت انگیز  خاتمہ تاریخ میں ثبت ہوگیا۔

دعا ہے کہ اللہ اپنے اس صابر بندے کو صحت و ایمان کے ساتھ طویل زندگی عطاکرے اور قیامت کے روز اپنے عرش کے سائے میں اس مظلوم جج کو بھی جگہ دے جو ہمارے رب نے منصف قاضیوں کیلئے مختص فرمائی ہے



Thursday, October 24, 2024

غزہ مزاحمت کاروں کا چوتھا قائد قتل مکمل جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی سے پہلے اسرائیلی قیدی نہیں رہا ہونگے لاش کی حوالگی کو قیدیوں کی تبادلے سے مشروط کردیا گیا نیتھن یاہو کی نجی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ ایک اضافی بریگیڈ لبنان بھیج دی گئی دشمن شکست تسلیم کرتا نظر نہیں آتا۔ امریکی ماہر

 

غزہ مزاحمت کاروں کا چوتھا قائد قتل

مکمل جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی سے پہلے اسرائیلی قیدی نہیں رہا ہونگے

لاش کی حوالگی کو قیدیوں کی تبادلے سے مشروط کردیا گیا

نیتھن یاہو کی نجی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ

ایک اضافی بریگیڈ لبنان بھیج دی گئی

دشمن شکست تسلیم کرتا نظر نہیں آتا۔ امریکی ماہر

غزہ مزاحمت کاروں کے قائد اور پولیٹیکل بیورو کے سربراہ، ر فح (جنوبی غزہ) میں قتل کردئے گئے۔ ڈیڑھ ماہ قبل 31 جولائی کو انکے پیشرو تہران میں قتل کئے گئے تھے۔ تحریک کے بانی، شیخ یاسین مارچ 2004میں امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹر سے داغےجانے والے ہیل فائر میزائیل کا اسوقت نشانہ بنے جب وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی وہیل چئیر پرگھر واپس جارہے تھے۔ شیخ صاحب کے بعد 56 سالہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی نے حماس کی قیادت سنبھالی لیکن صرف ایک ماہ بعد 17 اپریل کو انھیں بھی ہیل فائر میزائیل سے شہید کردیا گیا۔عجیب اتفاق کےسنوا  رسمیت چاروں قائدین حافظ تھے اور سب کو  اسرائیل کےہاتھوں جاں بحق ہوئے۔

اکسٹھ سالہ یحیٰی کے والدین 1948 میں ساحلی شہر اثقلان (Ashkelon)سے بیدخل کئے گئے اور غزہ کے علاقے خان یونس میں آکر پناہ لی جو اسوقت مصر کا حصہ تھا۔ یہیں ایک پناہ گزین خیمے میں سنوار صاحب نے آنکھ کھولی۔ انھوں نے جامعہ اسلامیہ غزہ سے علومِ عربی میں بی اے کی سند حاصل کی۔ موصوف اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے پر پہلی بار 20 برس کی عمر میں گرفتارہوئے اور کئی ماہ فرعہ جیل میں گزارے۔ جیل میں انکی ملاقات کئی حریت پسند رہنماوں سے ہوئی اور انھوں نے اپنی زندگی جدوجہد آزادی کیلئے وقف کرنے کا عزم کرلیا۔رہائی کے دوسال بعد سنوار پھر گرفتار ہوئے اور چند ماہ بعد رہائی ملی۔ فروری 1988 کو انھیں دواسرائیلی سپاہیوں کو ہلاک کرنے کےالزام میں عمر قید کی سزاہوئی۔ جیل میں سنوار نے عبرانی زبان سیکھی۔ وہ جیل سے عبرانی اخبارات کے اہم مضامین کا عربی ترجمہ کرکے اپنے قائدین کو بھجواتے تھے۔ دوانِ اسیری جناب سنوار نے اسرائیل کی اوپن یونورسٹی سے تاریخِ بنی اسرائیل (حضرت یعقوبؑ سے حضرت عیسیٰؑتک)، عبرانی زبان کی تاریخ، عبرانی قصصِ الانبیاؑ، صیہونیت، اور ہولوکاسٹ وغیرہ پر پندرہ کورس کئے۔اوپن یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم (میڈیم)عبرانی ہے۔ یہ سب اتفاقی یا وقت گزارےکی سرگرمی نہ تھی بلکہ سنوار صاحب نے یہ کام منظم منصوبے کے تحت کیا۔رہائی پر انھوں نے کہا  'اسرائیلی چاہتے تھے کہ جیل ہمارے لئے قبر اور ہماری مرضی، عزم اور جسموں کو پیسنے کے لیے ایک چکی ہو۔ لیکن اللہ  کا شکر ہے کہ ہم نے اپنے مقصد پر یقین رکھتے ہوئے اس جیل کو عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیوں میں تبدیل کر دیا'۔عقوبت کدے میں انھوں نے کئی ناول بھی لکھے۔ اکثر مسودے اسرائیلی حکام نے تلف کردئے۔دوران ِ قید انکے دماغ میں ایک رسولی (Tumor)کا انکشاف ہوا۔آپریش انتہائی نازک اور خطرناک تھا۔ انھوں نے اسرائیلی سرجن جنرل سے کہا کہ مجھے تم لوگوں کی نیت پر بھروسہ نہیں لیکن زندگی کامالک میرا رب ہے اور میں آپریشن کیلئے تیار ہوں۔

گرفتاری کے 22 سال بعد 2011 میں ایک گرفتار اسرائیلی فوجی کے عوض جو 1026 فلسطینی قیدی رہا ہوئے ان میں سنوار بھی شامل تھے۔ انکا خان یونس پہنچنے پر شاندار استقبال ہوا اور وہ ایک قومی ہیرو بن گئے۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایک عالمہ سے شادی کی۔ انکی اہلیہ دینیات میں ایم اے ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی منصوبہ بندی یحییٰ سنوار اور محمد الضیف نے کی تھی۔ اکتیس جولائی کو اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل پر سنوار مزاحمت کاروں کے پولٹ بیورو کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ موصوف کو یہ اعزاز حاصل کہ وہ میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والے غزہ مزاحمت کاروں کے پہلے سربراہ ہیں۔

یحییٰ سنوار کے قتل کی جو تفصیلات اسرائیلی  فوج نے جاری کی ہیں اسکے مطابق 15 اور 16 اکتوبر کی درمیانی رات رفح کے تل السلطان محلے پر اسرائیلیوں نے شدید بمباری کی جس سے کئی عمارتیں کھنڈر بن گئیں۔ سورج طلوع ہوتے ہی اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری شروع کردی جسکے جواب میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی فوج کی طرف گولیاں برسائیں۔ کئی گھنٹوں بعد جب مزاحمت کاروں کی جانب سے جواب نہ آیا تو  مشین گنوں سے فائرنگ کرتے ہوئے اسرائیل کا پیدل دستہ آگے بڑھا۔عمارت کے کھنڈر سے دو لاشیں ملیں، قریب ہی ایک شخص جاں بلب نظر آیا۔ کرسی پر بیٹھے خون میں لت پت اس آدمی کا دایاں بازو اڑچکا تھا لیکن اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں ایک لاٹھی مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ایک نشانچی ڈرون اسکے سرپر منڈلا رہا تھا۔اس شخص نے اپنی لاٹھی موت کے اس پرندے پر مارنے کی کوشش کی لیکن ڈرون سے نکلنے والی درجنوں گولیاں اسکے سر میں پیوست ہوگئیں۔ گویا چوبیس گھنٹوں سے صرف تین مزاحمت کار اسرائیلی بمباروں، ڈرون  اور توپ خانے کا مقابلہ کررہے تھے۔

زخمی مزاحمت کار کے بیدم ہوکر زمین پر گرتے ہی اسرائیلی فوجی آگے بڑھے، کمانڈر صاحب نے لاش پہچان کر فاتحانہ نعرہ بلند کیا اور چھرے سے لاش کے بائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کاٹ کر اسے بوسہ دیا اور نشان بہادری کے طور پر جیب میں  ڈال لیا۔ ایک اور سپاہی نے یحییٰ سنوار کی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر بطور مال غنیمت رکھ لی۔ یعنی جناب السنوارنے حضرت حمزہ (ر) کی طرح مثلے کی آزمائش بھی سہی۔چھ گھنٹے تک علاقے پر ٹینکوں سے شدید ترین گولہ باری کی گئی اور اس بات کا یقین کرلینے کے بعد کہ اب یہاں کوئی متنفس باقی نہیں بچا، ایک ہیلی کاپٹر پر یحییٰ سنوار کی لاش اسرائیل پہنچادی دی گئی۔لاش ہتھیانے کی بہادرانہ کاروائی پر کمپنی کمانڈر صاحب کیلئے تمغہ تجویز کیا جارہا ہے۔

کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قومی ترانوں کی دھنیں بجنا شروع ہوئیں اور وزیراعظم نیتھں یاہو نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ یحیٰی سنوار کیساتھ حماس کا خاتمہ ہوگیاہے۔ اپنے فاتحانہ خطاب میں انھوں نے 'فراخدلانہ' پیشکش کی کہ اگر اسرائیلی قیدی رہا کردئے جائیں تو وہ باقی رہ جانے والے مزاحمت کارکمانڈروں کی جان بخشی پر غور کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر سنتے ہی انتہاپسند سڑکوں پر نکل آئے۔سب سے بڑا مظاہرہ یروشلم میں ہوا جہاں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت یحییٰ سنوار کی لاش کو قیدیوں کے تبادلے کی شرط کے طور پر استعمال کررہی ہے یعنی قیدی واپس کرو تو لاش ملے گی

اسرائیل کیساتھ اسکے اتحادیوں اور سرپرستوں کی خوشی دیکھنے کے قابل ہے۔ امریکی صدارت کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی ہیرس نے سنوار کے جاں بحق ہونے پر دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوجانے کے بعد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں دیرپا امن کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا کہ وہ سنوار کی موت پر غمگین نہیں ہیں۔ سب سے حیرت انگیز یو ٹرن یورپی یونین کے سربراہ برائے خارجہ امور جوزف بورل کا ہے جواسرائیلی وزیراعظم کے انتہا پسند روئے پر اپنی جھنجھلاہٹ کا مسلسل اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ اس خبر پر نہال ہوکر جناب بورل نے فرمایا 'اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ امن کے راہ میں کی سب سے بڑی رکاوٹ یحییٰ سنوار تھے۔ سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کا موقف اپنی حریف کے عین مطابق ہے کہ اب غزہ میں امن کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ طنز کے تیر عرب میڈیا نے بھی برسائے۔ سعوی ہفت روزہ عکاظ نے سرخی جمائی کہ اسرائیل نے سنوار کو ہنیہ کے پاس پہنچادیا اور طنز سے جلی حرفوں میں لکھا کہ 'حماس بلا راس' یعنی مزاحمت کار بے سر کے ہوگئے۔اس قتل پر سب سے اچھا تبصرہ ہمیں امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا محسوس ہوا۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں حافظ صاحب نے کہا 'اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شہادتوں کا سفر اہل غزہ کو منزل سے قریب تر کررہا ہے۔ ان شاء اللہ القدس آزاد ہوگا'

یحییٰ سنوار کے جاں بحق ہونے پر اسرائیل، انکے سرپرست، اتحادی اور سہولت کاروں کو جشن کا حق حاصل ہے لیکن قتل کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے اسرائیلی وزیراعظم کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا ہے۔ دودن پہلے اسرائیلی خفیہ ادارے شاباک نے کہا تھا کہ یحییٰ سنوارایک گہری سرنک کے اندر  اسرائیلی قیدیوں کے حصار میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نیتھن یاہو نے شیخی بگھاری کہ 'غزہ کی کوئی بھی سرنگ اتنی گہری نہیں جہاں ہم نے پہنچ سکیں'۔انکے قتل کے بعد قوم سے “فاتحانہ” خطاب میں نیتھن یاہو نے کہا کہ “وہ ڈالروں کی گڈی لئے فرار ہونے کی کوشش میں رفح کی ایک سرنگ سے نکلا اور ہم نے اسے جالیا۔ تاہم مقتول کی جو تصویر خود اسرائیل نے جاری کی ہے اس میں وہ سرنگ سے باہر لڑائی میں مصروف تھا اور جب اس سے ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا تو وہ لڑنے کیلئے لاٹھی لے کر کھڑا ہوگیا۔ رہی بات تک ڈالروں کی گڈی کی تو خود اسرائیلی فوج کی جاری کردہ تصویر میں صرف چند شیکال(اسرائیلی کرنسی) نظر آرہے ہیں

یحییٰ سنوار کے جانشیں کے طور پر تین نام لئے جارہے ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ قائم مقام قائد خالد مشعل کو یہ ذمہ داری مستقل بنیادوں پر سونپ دی جائے۔ اسکے علاوہ انکے چھوٹے بھائی 49 سالہ محمد السنوار اور پولٹ بیورو کے ڈپنی چیف خالد الحیۃ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔

سنوار کے بعد مزاحمت کاری کیا رنگ اختیار کریگی اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن اپنے قائد کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے غزہ سے جاری ہونے والے اعلان میں دوٹوک کہا گیا ہے کہ 'جنگ کے خاتمے، اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے پہلے اسرائیلی قیدی رہا نہیں ہونگے'۔لبنانی مزاحمت کاروں نے بھی غزہ کی حمائت جاری رکھنے کا اعلان کیا اور جشن مناتے اسرائیل پر سینکڑوں میزائیل اور راکٹ داغ دئے جسکی وجہ سے اکثر مقامات پر لوگوں نے رقص چھوڑکر زیر زمین خندقوں کی طرف دوڑ لگادی۔اسی دوران 19 اکتوبر کو صبح سویرے قیصریہ (Caesarea) کے ساحلی علاقے میں وزیراعظم نیتھن یاہو کے گھر پر ڈرون حملہ ہوا۔ مزاحمت کاروں کا خیال تھا کہ وزیرعظم سبت گزارنے گھر آئے ہونگے لیکن نیتھن یاہو اور انکی اہلیہ اس وقت رہائش گاہ پر نہیں تھے۔

اسکے دوسرے دن شمالی غزہ میں مزاحمت کاروں نے مقامی طور پر تیار کردہ یاسین راکٹ  سے دوبکتر بند گاڑیاں اڑادیں جس میں بکتر بندبریگیڈ 401کا کمانڈر احسان دقصیٰ مارا گیا۔مذبباً دروز، 41 سالہ احسان غزہ میں مارا جاینوالا سب سے سینیر فوجی افسر ہے۔ اسرائیلی فوج میں فل کرنل کا عہدہ ہندوپاک کے بریگیڈیر کے مساوی ہے۔ مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اب تک اسرائیلی فوج کے چھ کرنیل مارے جاچکے ہیں جن میں سے چار، 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے آغاز پر اپنی چھاونیوں میں ہلاک کئے گئے۔

جہاں تک لبنان کی زمینی صورتحال کا تعلق ہے تو وہاں اسرائیلی فوج کے مطابق بیس سے پچیس ہزار 'دہشت گرد' مورچے جمائے ہوئے ہیں۔ انھیں کچلنے کیلئے جدید ترین اسلحے سے لیس 4 ڈویژن اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں موجود ہے اور اب اضافی بریگیڈ کو لبنان کوچ کرنے کا حکم دیدیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامئے میں کہا گیا ہے:

'زمینی صورتحال کے جائزے کے بعد شمالی سیکٹر میں آپریشنل کاموں کے لیے اضافی ریزرو بریگیڈ بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس کے متحرک ہونے سے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی کوششوں کو جاری رکھنے اور جنگ کے مقاصد کے حصول میں مدد ملے گی، جس میں شمال کے رہائشیوں کی محفوظ واپسی بھی شامل ہے'

حوالہ: نیوزویک

آج کی نشست کا اختتام یحییٰ سنوار کے قتل پر ایک ماہر امریکی سفارتکار کے تجزئے سے

ریان کروکر (Ryan Crocker) امریکہ کے منجھے ہوئے سفارتکار اور عرب امور کے ماہر ہیں۔ عرب قائدین سے گہرے تعلقات کی بنا پر انھیں امریکی لارنس آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔ پجھتر سالہ کروکر لبنان، شام، عرا ق، کوئت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ سنوار کے قتل کے فوراً بعد انھوں میں امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی POLITICOسے غزہ اور لبنان کی تازہ ترین صورتحال پرتفصیلی گفتگو کی جسکا لب لباب کچھ یوں تھا

'ایک چیز جو میں نے برسوں میں سیکھی، خاص طور پر عراق اور افغانستان میں رہ کر، وہ یہ ہے کہ دشمن کی شکست کا تصور صرف اس دشمن کے ذہن میں معنی رکھتا ہے۔ اگر ہزیمت پر دشمن خود کو شکست خوردہ محسوس کرے تو وہ ہار جاتا ہے۔ لیکن اگر ذہن شکست قبول کرنے کو تیار نہیں تو مزاحمت جاری رہتی ہے بلکہ اہانت و نفرت کا تڑکہ اسکو دوآتشہ کردیتا ہے۔ کیا حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کےقتل دشمن کو شکست کا احساس دلائیں گے؟یہ تو وقت بتائے گا لیکن میں شرطیہ کہتا ہوں ایسا نہیں ہوگا'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 اکتوبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 اکتوبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 اکتوبر 2024


Saturday, October 19, 2024

امریکی انتخابات مغرور ہاتھی اور مجبور گدھا قصر مرمریں کے ساتھ گنبدِ قانون بھی ہا تھ سے نکلنے کا خطرہ مسلمان ڈیوکریٹک پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

 

امریکی انتخابات

مغرور ہاتھی اور مجبور گدھا

قصر مرمریں کے ساتھ گنبدِ قانون بھی ہا تھ سے نکلنے کا خطرہ

مسلمان ڈیوکریٹک پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے

اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

امریکی انتخابات کیلئے قبل ازوقت (early)ووٹنگ جاری ہے۔گفتگو کے آغاز سے پہلے سرنامہِ کلام کی وضاحت۔ جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا امتیازی (انتخابی نہیں) نشان ہاتھی جبکہ کملا ہیرس کی ڈیموکریٹک پارٹی گدھے سے پہچانی جاتی ہے۔قصر مرمریں، امریکی ایوان صدر المعروف وہائٹ ہاوس کا اردو مترادف ہے،عرب صحافیوں نے اسکا ترجمہ قصرِ الابیض کیا ہے۔ امریکی کانگریس (پارلیمان) کی پہچان گنبد یا Rotundaہے۔ ریاستٰی قانون ساز ایوانوں کی عمارتیں بھی گنبد سے مزین ہیں۔

انتخابی جائزوں کے مطابق مقابلہ خاصہ سخت، لیکن قبل از وقت ووٹنگ کے دوران جو جائزے آرہے پیں اس سے لگتاہے کہ گھمسان کی لڑائی والی ریاستوں میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کو معمولی سے برتری حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم یہ فرق اتنا خفیف ہے کہ متوقع نتائج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔

امریکہ میں صدارتی نتائج کا فیصلہ انتخابی یا electoralووٹوں سے ہوتا ہے جسکا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اس بات پر تمام سیاسی پنڈت متفق ہیں کہ آنے والے انتخابات کا فیصلہ سات ریاستوں ایروزونا، جارجیا، مشیگن، شمالی کیرولینا،  نیواڈا، پینسلوانیہ اور وسکونسن میں ہونا ہے۔ ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹ 94 ہیں۔ چار سال پہلے صدر بائیڈن نے شمالی کیرولینا کے علاوہ  یہ تمام کی تمام ریاستیں جیت کر 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کرلئے تھے۔ ان چھ ریاستوں میں مسلمان ووٹروں نے صدر بائیڈن کی کامیابی میں کلیدی کردار اداکیا۔ جناب بائیڈن کو 2020 میں پورے ملک سے  306 اور ڈانلڈ ٹرمپ کو 232 انتخابی ووٹ ملے تھے۔

مسلمان،  غزہ نسل کشی کیلئے اسرائیل کی سہولت کاری پر بائیڈن اور کملا ہیرس سے پہلے ہی ناراض تھے اور اب لبنان پر وحشیانہ بمباری نے جلتی پر مزید تیل چھڑک دیا۔ایران کے خلاف اسرائیلی کاروائی  اب دنوں کی بات معلوم ہورہی ہے اور اس میں عملی معاونت کیلئے واشنگٹن نے جدید ترین دفاعی نظام THAAD کے چھ یونٹ کیساتھ 100 سے زیادہ تجربہ کار امریکی ماہرین اسرائیل بھج دئے ہیں۔ ٹھاڈ کے ان چھ یونٹوں کی مجموعی لاگت 138 ارب ڈالر اور حملہ آور میزائیلوں کو روکنے کیلئے ٹھاڈ  سے جو گولے یا Interceptorsداغے جاتے ہیں انکے ایک راونڈ کی قیمت 25 لاکھ ڈالر ہے۔مسلمانوں کی ناراضگی سے کملا ہیرس پریشان تو ہیں لیکن ہونٹوں پراسرائیل نواز امریکی میڈیا اور ترغیب کاروں (Lobby)کے خوف کا تالہ لگا ہے۔

ریت بن کر مری مٹھی سے پھسل جاتی ہے ۔۔ اب محبت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے

گزشتہ ہفتے عرب امریکی سیاسی مجلس عمل یا AAPACنے اپنے اجلاس میں دونوں بڑی جماعتوں کو مسترد کردیا۔ بیٹھک کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اس سال دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدوار امریکہ میں عرب و مسلم  برادریوں اور آبائی علاقوں میں ہمارے خاندانوں اور دوستوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ہم ڈیموکریٹ کملا ہیرس یا ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کسی کو بھی اپنا ووٹ نہیں دے سکتے جو وزیر اعظم نیتن یاہو اور مجرم انتہا پسنداسرائیلی حکومت کی اندھا دھند حمایت پر کمربستہ ہیں'

رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق ایریزونا اور جارجیا میں ڈانلڈ ٹرمپ کی برتری بہت واضح ہے۔ ان دوریاستوں میں شکست کے باوجود بھی کملا ہیرس کے انتخابی ووٹوں کی مجموعی تعداد 279 ہوگی جو کامیابی کے نشان 270 سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر وہ نیواڈا، پینسلوانیہ وسکونس اور مشیگن میں سے ایک بھی ریاست ہار گئیں تو معاملہ چوپٹ ہوسکتا ہے۔ وسکونسن اور مشیگن میں مقابلہ بہت سخت ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ڈاکٹر جل اسٹائن کے نام پر ٹھپہ لگانے کیلئے پرعزم نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والے رفاحی ادارے CAIRکے مطابق مشیگن کے صرف 12 فیصد مسلمان کملا ہیرس کے حامی ہیں۔قبل ازوقت انتخابات میں اس بار غیر معمولی جوش و خروش نظر آرہا ہے۔پندرہ اکتوبر کو جب جارجیا میں ووٹنگ کا آغاز ہوا تو پہلے ہی دن چارلاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سیاہ فام علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں بنی تھیں جو کملا ہیرس کیلئے حوصلہ افزا ہے

مسلمانوں کی ناراضگی سے سینیٹ کیلئے بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مشکل میں ہیں۔ وسکونسن میں سینیٹر ٹیمی بالڈون Tammy Baldwinصاحبہ کو اپنے ریپبلکن حریف کی طرف سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مشیگن میں ہے جہاں اسرائیل نواز سینیٹر ایلیسا سلوٹکن Elissa Slotkin  صاحبہ دباو میں ہیں۔ محترمہ سلوٹکن خیر سے یہودی بھی ہیں اسلئے مسلمانوں کیلئے مزید ناقابل قبول۔ پینسلوانیہ کے سینیٹر باب کیسی Bob Caseyکی نشست بھی قدرےغیر محفوظ نظر آرہی ہے۔ جناب کیسی 2006 میں پہلی بار 59 فیصد ووٹ لیکر منتخب ہوئے 2012 میں انھوں نے 54 فیصد کیساتھ اپنی نشست برقرار رکھی اور 2018 میں انھیں 55.7فیصد ووٹ ملے لیکن اس بار فاضل سینیٹر کو ریپبلکن پارٹی کی جانب سےسخت مزاحمت  کا سامنا ہے۔ جبکہ مغربی ورجنیا اور مونٹانا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست یقینی نظر آرہئ ہے۔

اس وقت سینیٹ میں 51 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 49 ہے ۔اگر وہ مونٹانا اور مغربی ورجنیا کیساتھ مشیگن اور وسکونسن کی نشست جیتنے میں بھی کامیاب ہوگئے تو 100 رکنی سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کا پارلیمانی حجم 53 ہوسکتا ہے۔مسلمانوں نے اب تک سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا لیکن یہ عام تاثر ہے کہ ووٹر Top of The Ballotیعنی صٖدر کیلئے جس جماعت کو ووٹ دینے ہیں دوسرے مناصب کیلئے بھی اسی جماعت کے امیدواروں پر صاد کردیتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ڈانلڈ ٹرمپ کی برتری بہت خفیف اور فی الحال غیر فیصلہ کن ہے۔ اسقاط حمل کا معاملہ امریکی خواتین کیلئے بہت اہم اور کملا ہیرس کی مہم کا سارا زور 'میرا جسم میری مرضی' پر ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 36 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ انکے لئے اسقاطِ حمل کی آزادی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ آنے والے دوہفتوں میں اگر کملا جی اس نکتے پر خواتین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئیں تو وہ امریکی تاریخ کی پہلی غیر مسیحی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔

روزنامہ جسارت کراچی سنڈے میگزین


 

 

Thursday, October 17, 2024

ایران پر جوابی حملے کی تیاری آئت اللہ خامنہ ای کیساتھ عراق کے آئت اللہ سیستانی بھی ممکنہ ہدف فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا دائرہ اسرائیلی عربوں تک بڑھادیا گیا آئرن ڈوم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان، THAAD نصب کئے جارہے ہیں یروشلم اسرائیل کا اٹوٹ انگ نہیں، امریکی ٹیلی ویژن CBS کا اعلان نکاراگوانے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے

 

ایران پر جوابی حملے کی تیاری

آئت اللہ خامنہ ای کیساتھ عراق کے آئت اللہ سیستانی بھی ممکنہ ہدف

فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا دائرہ اسرائیلی عربوں تک بڑھادیا گیا

 آئرن ڈوم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان،  THAAD نصب کئے جارہے ہیں

یروشلم اسرائیل کا اٹوٹ انگ نہیں، امریکی ٹیلی ویژن CBS کا اعلان

نکاراگوانے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے

ایک سال گزرنے کے بعد بھی غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیاں جاری ہیں اور 17 ستمبر کو لبنان پر پیجر حملے سے شروع ہونے والی عسکری کاروائی کو بھی ایک مہینہ ہوگیا۔اس عرصے میں بیروت اور اسکے مضافاتی علاقوں پراوسطاً 100 فضائی حملے یومیہ کئے جارہے ہیں۔ لیکن قتل و غارت کی اس نہ ختم ہونے والی مہم کے باوجود غزہ اور جنوبی لبنان کے زمینی حقائق اسرائیل کیلئے اب بھی مایوس کن ہیں۔دونوں جگہ سے تابوتوں اور زخمیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ہرروز جنوبی لبنان سے سینکڑوں راکٹ برس رہے ہیں۔اسرائیلی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ لبنانی و فلسطینی راکٹوں سے اسرائیل کے 90 اسکول تباہ ہوگئے جن میں زیرتعلیم 16000 طلبہ کو  گھر بھیج دیا گیا ہے۔ عجیب اتفاق کہ جس روز اسرائیلی وزارت تعلیم نے اپنے 90 اسکول تباہ ہونے کی تصدیق کی اسی روز اسرائیلیوں نے بمباری کرکے وسطی غزہ  کے دیر البلاح میں باقی رہ جانےوالے آخری اسکول کو زمیں بوس کردیا۔اس حملے میں  طلبہ اور اساتذہ سمیت 25 افراد زندہ جل گئے۔

لبنانی میزائیلوں اور ڈرونوں سے اسرائیل سخت خوفزدہ ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے میزائیلوں اور ڈرونوں کی درستگی و ہلاکت خیزی دونوں میں بہتری دکھائی دے رہی ہے۔لبنانی میزائیل اب انتہائی کامیابی سے حساس اہداف تک پہنچ رہے ہیں۔ استغفار اور احتساب و جائزہ کے تہوار یوم کپر کے موقع پر کریات شمعونہ، صفد، الحضیرہ، حیفہ اور خلیل بالا (Upper Galilee) میں کئی چھاونیوں کو ڈرونوں نے نشانہ بنایا۔ ڈراونے پرندے کے حملے میں کیرات شمعونہ عسکری کالونی کا برقی نظام تباہ ہوجانے کی بنا پر شہر کا بڑا حصہ ایک ہفتے سے  تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔تہوار کے دوران تل ابیب کے فیشن ایبل ساحلی علاقے ہرتسلیا (Herzliya)پر ڈرون حملوں میں کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی۔سات اکتوبر کو برسی کے دن غزہ سے تل ابیب کو نشانہ بنایا گیا جس سے دو افراد زخمی ہوگئے۔

تیرہ اکتوبر کو بن یمینیہ چھاونی پر حملے سے اسرائیل کیساتھ امریکی فوج میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لبنانی ڈرون نے چھاونی کے مطعم کو اسوقت نشانہ بنایا جب سپاہی وہاں ناشتہ کررہے تھے۔حملے میں 4 فوجی موقع پر ہی ہلاک اور 57 جھلس کر زخمی ہوگئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق امریکہ کا فراہم کردہ حساس ترین دفاعی نظام آئرن ڈوم وقتی طورپر منجمد ہوگیا اورسائرن نہ بجنے کی وجہ ہے ڈرون ایک ناگہانی آفت بن کر ٹوٹ پڑا۔اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آئرن ڈوم کے اچانک ناکارہ ہوجانے کی وجہ انسانی خطا یا کسی پرزے کی خرابی ہے  یا حملہ آور ڈرون نے اسے منجمد کردیا؟

تہوار کے دوران سارا اسرائیل خطرے کے سائرن سے گونجتا رہا۔ لبنان، غزہ، عراق اور یمن کی جانب سے سینکڑوں، میزائیل، ڈرون اور راکٹ داغے گئے جن میں سے اکثر کو آئرن ڈوم نے ناکارہ کردیا لیکن سائرن پر شہریوں کی حفاطتی خندقوں کی طرف مسلسل دوڑسے سارا ملک افراتفری کا شکار نظر آیا۔دیوارِ گریہ کے ساتھ پارکوں اور چوراہوں پر عبادتی اجتماعات یوم کپر کی روائت ہے لیکن اس بار حفاظتی خندقوں میں عبادت کی گئی او تل ابیب میں صرف دو کھلی جگہوں پر اجتماعی عبادت کا انتظام تھا۔

بن یمینیہ میں آئرن  ڈوم کی ناکامی نے خوف و ہراس کو مزید بڑھا دیا اور عام اسرائیلی ہیجان میں مبتلا ہیں۔ عوام کی تسلی کیلئے فوج کے ترجمان شریک امیر البحر (رئیر ایڈمرل) ڈینیل ہگاری نے ایک ٹویٹ میں کہا 'اسرائیلی عوام پریشان نہ ہوں اور نہ افواہوں پر کان نہ دھریں، معاملات پوری طرح فوج کے قابو میں ہیں'

اسرائیلیوں کے اضطراب کو کم کرنے کیلئے امریکہ نے فوری طور پر جدید ترین فضائی دفاعی نظام،  Terminal High Altitude Area Defense یا THAADاسرائیل روانہ کردیا ہے۔ ٹھاڈ،  حملہ آور میزائیلوں کو 200 کلومیٹر دور سے بھانپ سکتا ہے۔ دشمن کے میزائیل کو فضا ہی میں اڑانے کیلئے اسکے مداخلتی گولے یا Interceptors 10 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے جھپٹنے کی صلاحیت رکھنے ہیں یعنی منجنیقی (بیلیسٹک) حتیٰ کہ آواز سے پانچ گنا تیز ہائپر سانک میزائیل کو ٹھکانے لگانا بھی ٹھاڈ کیلئے کچھ مشکل نہیں۔ عجلت میں بھیجے جانے والے ٹھاڈ نظام کیساتھ اسے چلانے کیلئے  100 امریکی فوجی بھی اسرائیل جارہے ہیں کہ تربیت کا وقت نہیں۔ یعنی اب امریکہ اسرائیل کی جنگ خود لڑیگا۔

اسرائیلی  میڈیا Ynetکے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیل کے خفیہ ادراروں نے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ 'اہل غزہ نے اسرائیلی قیدیوں کے گرد پہرہ مزید سخت کردیا ہے۔ انکی بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی بناپر سرغرسانی بھی غیر موثر ہوتی جارہی ہے'۔ ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی حالت اچھی نہیں۔ معاہدہ کرکے انکی رہائی کی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے'۔یہی وجہ ہے کہ غزہ کو کچل دو کا نعرہ لگانے والے انتہاپسندوں کے مزاج بھی اب ٹھکانے آرہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صفاردی (Sephardic) فرقے کے ربائیِ اعظم (مفتی) یعقوب ایریل نے 'فتحِ مبیں تک جنگ' کے فتوے سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا کہ قیدیوں کی رہائی کیلیے ایک ذمہ دارانہ امن معاہدے کا وقت آچکا ہے۔

گزشتہ ہفتہ ہم نے لبنان میں ایک ڈویژن مزید فوج بھیجنے کی خبر دی تھی۔ اب نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہےکہ  36th اور 98th ڈویژنوں کے بعد  91st اور  146th ڈویژنوں کو بھی جنوبی لبنان کوچ کرنےکا حکم دیدیا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج کا ایک ڈویژن 10 سے پندرہ ہزار فوجیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکا مطلب ہوا کہ پچاس ہزار کے قریب اسرائیلی سپاہی لبنان میں ہیں اور کمک پر کمک ملنے کے باوجود ہر محاذ پر انھیں پسپا ہونا پڑرہا ہے۔

عسکری اہداف کے حصول میں ناکامی پر پیداہونے والی جھنجھلاہٹ اسرائیلی حکومت میں بھی نظر آرہی ہے۔ آٹھ اکتوبر کو وزیراعظم نیتھن یاہو نے اپنے وزیردفاع گیلینٹ کو امریکہ کے دورے سے روکدیا۔اسرائیلی وزیردفاع ایران پر حملے کیلئے اپنےامریکی ہم منصب سے مشورہ کرنے واشنگٹن جارہے تھے لیکن جب وہ تل ابیب ائر پورٹ پہنچے تو انھیں بتایا گیاکہ نیتھن یاہو نے انھیں دورے سے منع کردیا ہے۔ ایوان وزیراعظم نے ایک اعلامئے میں اسکی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی امور وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں۔ دوسرے دن حملے کی حکمت عملی کے تعین کیلئے نیتھن یاہو نے صدر بائیڈن سے خود بات کی۔

سفارتی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر اس ہفتے اسرائیل کو پئے در پئے دو دھچکے لگے۔ ایک طرف وسط امریکی ملک نکاراگواکے صدر ڈینیل اورتیگا نے یہ کہہ کر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے کہ غزہ میں اسرائیل کی فسطائیت اور نسل کش کاروائیاں ناقابل برداشت ہیں۔

دوسری جانب امریکی ٹیلی ویژن CBSنے یروشلم کو اسرائیل کا حصہ ماننے سے انکار کردیاہے ۔سی بی ایس کے سینیر ڈائریکٹر برائے معیار وطرزعمل (Standards & Practices) ، مارک میمٹ (Mark Mammott)نے ملازمین کے نام ایک برقی خط میں کارکنوں سے کہا ہے کہ خبر سناتے وقت اصطلاحات میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ جناب میمٹ نے کارکنوں کو باور کرایا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ علاقہ ہے لہذا اسے اسرائیل نہ کہا جائے۔ یعنی یروشلم سے خبر جاری کرتے وقت رپورٹر صرف یروشلم کہے، یروشلم اسرائیل کہنا درست نہیں ۔جناب میمٹ نے یہ خط اگست میں لکھا تھا لیکن اسکا انکشاف کل فاکس نیوز نے کیا جسکے بعد سے اسرائیل اورامریکہ میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔

جہاں تک ایران پر حملے کا تعلق ہے تو وہ یقینی نظر آرہا ہے۔ کابینہ اجلاس کے بعد اسرائیلی وزیردفاع نے کہا کہ 'اسرائیل پر ایرانی حملہ جارحانہ لیکن احمقانہ اور غلط تھا۔ اس کے برعکس، ہمارا حملہ مہلک، درست اور حیران کن ہوگا -ایرانی یہ جان بھی نہیں سکیں گے کہ کیا ہوا یا یہ سب کچھ کیسے ہوگیا. وہ صرف نتائج دیکھیں گے.' دفاعی تجزیہ نگاروں کا خٰیال ہے کہ مذہبی تہوار یوم کپر (گیارہ اور بارہ اکتوبر) کے بعد کسی بھی وقت یہ حملہ ہوسکتا ہے۔اس حملے کی نوعیت کیا ہوگی اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن موساد ذرایع بتارہے ہیں کہ اسرائیلی فوج ایران کی تیل و گیس تنصیبات اور جوہری اثاثوں کیساتھ حضرت آئت اللہ خامنہ ای سمیت اعلیٰ ترین ایرانی قیادت کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ نیتھن یاہو کا خیال ہے کہ جوہری تنصیبات کے خاتمے سے ایران کا فوجی دبدبہ اورتیل و گیس کے وسائل پر ضرب سے ریاست کی معاشی طاقت صفر ہوجائیگی۔ اگر اسی ہلے میں روحانی و سیاسی قیادت کو بھی راستے سے ہٹادیا جائے تو افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نواز عناصر کیلئے اقتدار پر قبضہ کرنا آسان ہوگا۔حسن نصراللہ کے قتل کا اعلان کرتے ہوئے نیتھن یاہو نے ایرانی روشن خیالوں کو نوید سنائی تھی کہ انکی  توقع سے بہت پہلے تہران ملاوں کی گرفت سے  آزاد ہوجائیگا۔

یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اسرائیل،  ایران میں یہ اہداف حاصل کرسکے گا یا نہیں لیکن تل ابیب کے عزائم سے خلیجی ممالک میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دس اکتوبر کو ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے متنبہ کیا کہ حملے کیلئے جس ملک نے بھی اسرائیل سے معاونت کی یا حملہ آور طیاروں پر اپنی فضائی حدود کھولیں، جوابی کاروائی میں سب سے پہلے انھیں نشانہ بنایا جائیگا۔ عراقچی صاحب نے  کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن ایرانی تیل تنصیبات پر حملے کیلئے اسرائیلی طیاروں کو اردن، سعودی عرب ، کوئت اور قطر پر سے گزرنا ہوگا۔اسرائیلی محکمہ سراغرسانی کے مطابق ایران نے حملے اور اس میں تعاون کی سزا دینے کیلئے اپنے میزائیلوں کا رخ اسرائیل کے خلیجی اتحادیوں کی طرف کردیا ہے۔ایرانی دھمکی سے پریشان خلیجی حکمراں امریکہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو ایران پر حملے سے روکے لیکن نیتھن یاہو کسی کی سنتے نظر نہیں آتے بلکہ 11 اکتوبر کو  اسرائیل کے چینل 14 نے انکشاف کیا کہ ایرانی  قیادت کیساتھ، شیعانِ عراق کے روحانی پیشوا آئت العظمیٰ سید علی سیستانی بھی اسرائیل کی ہِٹ لِسٹ پر ہیں۔

غزہ اور غرب اردن کے 'پناہ گزیں' فلسطینیوں کے بعد نسلی تطہیر کا دائرہ اسرائیلی شہریت کے حامل عربوں تک وسیع کردیا گیا ہے۔اسرائیل کے عرب شہریوں کی تعداد 21 لاکھ یا کل آبادی کا 21 فیصد ہے۔ ان لوگوں کو '48 عرب' کہا جاتا یے یعنی وہ عرب جو 1948 میں قیام اسرائیل کے وقت آباد تھے اور اہل غزہ کی طرح وہاں سے نکالے نہیں گئے۔انتہاپسند ان عربوں کو اسرائیل سے نکالنے یا کم ازکم عام انتخابات میں انکا حق رائے دہی منسوخ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔اسوقت اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں دس نشستیں مسلم و عرب ارکان کے پاس ہیں۔ ان میں سے 5 پر اخوانی فکر سے وابستہ رعم کے لوگ براجمان ہیں۔کافی عرصے سے کہا جارہا ہے کہ قلب اسرائیل میں آباد یہ 'آستین کے سانپ' ریاست کی سلامتی کیلئے خطرے کا سبب ہیں۔

دس اکتوبر کو اسرائیلی خفیہ پولیس شاباک (Shin Bet)نے پانچ عربوں کو وسط اسرائیل کے محلے طیبہ سے گرفتار کرلیا۔ جن پر عالمی دہشت گرد تنظیم سے وابستگی کا الزام ہے۔ شاباک کے مطابق محموداعظم اور ابراہیم شیخ یوسف کی قیادت میں ساجد، عبداللہ برانسی اور اسکا بھائی عبداکریم برانسی تل ابیب کے معروف اسرائیلی سینٹر (Merkaz Azrieli)کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 18 اکتوبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 اکتوبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 اکتوبر 2024