جنوبی لبنان دوسرا غزہ
حزب اللہ کی عسکری قیادت کے ساتھ معتمدِ عام حسن
نصراللہ بھی جاں بحق
سعودی عرب سے سفارتی تعلقات برکت، جبکہ ایران،
شام، عراق اور یمن لعنت کا استعارہ
اسرائیل بھر میں جنگی جنون، حسن نصر اللہ کے قتل
پر مٹھائی کی تقسیم
نیتھن یاہو! فائرنگ روکو، خونریزی بندکرو ۔
اقوام متحدہ میں سیلوانیہ کے وزیراعظم چیخ
پڑے ناروے کی پولیس نے پیجر لبنان بھیجنے والوں کے پروانہ گرفتاری جاری کردئے
نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طالب علم کو
امریکی جامعہ سے نکال دیا گیا
سترہ
اور اٹھارہ ستمبر کوجنوبی لبنان میں پیجر قتل عام عام سے شروع ہونے والے خون کی
ہولی عروج پر ہے۔ تادم تحریر معصوم بچوں سمیت ایک ہزار افراد جاں بحق اور تیس ہزار
سے زیادہ زخمی ہیں۔ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوکر سڑکوں کے کنارے پناہ لئے ہوئے
ہیں۔ جنوبی لبنان کے خلاف بمباری مہم انسانی تاریخ کا ایک ریکارڈ بلکہ سیاہ ترین
سنگ میل ہے کہ صرف 12 گھنٹے کے دوران وہاں 1800 یا ہر دومنٹ پر پانچ حملے کئے گئے۔
اگر ہر حملے میں 1000 پاونڈ کا صرف ایک بم بھی استعمال
ہوا ہو تو صرف آدھے دن میں کھجور و زیتون سے مزین سرسبز وشاداب جنوبی لبنان پر 18
لاکھ پاونڈ بارود برسادیا گیا
بمباری
کا ہدف بیروت کا فلک بوس عمارتوں پر مشتمل رہائشی علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کے
سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لبنانی وزیرخارجہ عبداللہ ابو حبیب نے گلوگیر
لہجے میں کہا'میرا خوبصورت ملک شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ وحشیانہ بمباری سے ہمارے
بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہورہی ہیں۔ خدا کیلئے جنگ بندکردو'
صرف
لبنانی وزیرہی نہیں بلکہ 27 ستمبر کو جب اقوام متحدہ میں تقاریر کا آغاز ہوا تو سب
سے پہلے سلوانیہ Sloveniaکے وزیراعظم Robert Golobخطاب کیلئے آئے۔ انکی تقریر کے دوران اسرائیلی وزیراعظم ہال میں
داخل ہوئے تو وزیراعظم رابرٹ نے اپنے اسرائیلی ہم منصب کو دیکھ کر تقریر کا مسودہ
اک طرف کیا اور بلند آواز میں بولے 'خونریزی بند کرو، غزہ کے بچوں کو زندہ رہنے دو،
جوش جذبات میں روسٹرم پر مکہ مارکر سلوانیہ کے وزیراعظم نے چیختے ہوئے کہا 'مسٹر
نتھن یاہو!! جنگ فوراً بندکرو'
انکے بعد پاکستان کے
وزیراعظم شہباز شریف تقریر کیلئے کھڑے ہوئے اور کہا اسرائیل کی غزہ میں نسل پرست
خونریزی نیوورلڈ آرڈر کی بری شکل ہے۔ غزہ کے بچوں کا لہو صرف اسرائیل کے ہاتھ ہر
نہیں، بلکہ ہر خاموش طاقت اس ظلمِ عظیم میں برابر کی شریک ہے۔ پاکستانی وزیراعظم
نے کہا کہ جرائم پر دنیا کی خاموشی سے حوصلہ پاکر اسرائیل نے لبنان میں بھی
خونریزی شروع کردی ہے۔شہباز شریف کے بعد جب اسرائیل کے وزیراعظم کو تقریر کیلئے
دعوت دی گئی تو سلوانیہ اور پاکستای وزیرعظم کی
تقریروں پر تالیاں بجانے والے مندوبین کی اکثریت Ceasefire
Now کے نعرے لگاتی باہر چلی گئی۔ تاہم ہندوستان مندوبین نہ صرف بیٹھے
ریے بلکہ نیتھن یاہو کے ہر جارحانہ جملے پر سب سے زوردار تالی ہندوستانی بینچوں سے
سنائی دی۔
اسرائیلی
وزیراعظم نے مذہبی حکائت سناتے ہوئے کہا حضرت موسیٰ ؑ نے مبارک سرزمین میں داخل
ہوتے ہوئے کہا تھا 'تمہں برکت کے ساتھ لعنت کا سامنا بھی کرنا پڑیگا'۔ آجکل ایسا
ہی اسرائیل کے ساتھ ہورہا ہے کہ گزشتہ برس 10 ستمبر کو گروپ 20 کی نئی دہلی
سربراہی کانفرنس میں ہندوستان مشرق وسطٰی یورپ اقتصادی راہداری (IMEC)
کیلئے مفاہمت کی یاداداشت پر دستخط ہوئے جسکے تحت بھارت سے متحدہ عرب امارات سعودی
عرب، اسرائیل اور یونان کےراستے یورپ تک ایک تجارتی راہداری تعمیر ہونی ہے۔اس
منصوبے سے پہلے ہی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار
ہوچکے تھے ، جبکہ سعودی عرب اور اسرائیل
کے درمیان سفارتی تعلقات کیلئے بات چیت آخری مرحلے میں تھی۔یہ ایک با برکت قدم تھا
کہ ایران کی مدد سے حماس نے سات اکتوبر کو لعنتی حملہ کردیا۔ ایران، عراق، شام اور
یمن مشرق وسطیٰ میں لعنت کا استعارہ ہیں۔ ہماری
عسکری مہم اِسی عنت کے سدباب کیلئے ہے تاکہ بابرکت سفر کا راستہ ہموارہوسکے۔
جمعہ 27 ستمبر کو بیروت کے
نواحی علاقے الضاحية الجنوبية پر خوفناک فضائی حملہ ہوا جس میں امریکہ کے فراہم
کردہ مورچہ شکن یا بنکر بسٹر بم استعمال ہوئے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ بم کنکریٹ سے بنے مورچوں کو تباہ کرنے کیلئے بنائے
گئے ہیں جنکا شہری علاقوں میں استعمال غیر قانونی ہے لیکن طاقت کے اس جنگل میں
وحشی کب کسی ضابطے کومناتے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بنکر بسٹر بم کا
بے دریغ استعمال کیا تھا۔ چار ہزار پاونڈ وزنی یہ بم فولاد کی 20 فٹ موٹی چادر کو
چیر کربنیاد میں پھٹتے ہیں جسکی وجہ سے بلندوبالا عمارات کے چیتھڑے اڑجاتے ہیں۔
الضاحیہ حملے میں حزب کے ہیڈکوارٹر پر 85 مورچہ شکن بم پھینکے گئے جس سے یہ 14
منزلہ عمارت ریزہ ریزہ ہوگئی اور حزب اللہ کے معتعمد عام حسن نصراللہ اپنے ساتھیوں
سمیت جاں بحق ہوگئے۔
اس
حوالے سے حماس اور حزب اللہ کی تاریخ کچھ ایک طرح کی ہے کہ دونوں کے قائدین کو
اسرائیل نے براہ راست نشانہ بنایا۔عباس الموسوی نے صبحی الطفیلی کیساتھ حزب اللہ
کی بنیاد رکھی اور صبحی صاحب کی حزب سے علیحدگی کے بعد جناب موسوی مئی 1991 میں
تنظیم کے معتمد عام بنائے گئے اور صرف نو ماہ بعد فروری 1992 میں انھیں اسرائیلی
اپاچی ہیلی کاپٹر نے میزائیل پھینک کر قتل کردیا۔ جسکے بعد سے حزب کی قیادت
جناب نصر اللہ کے ہاتھ میں تھی جو 64 برس
کی عمر میں بنکر بسٹر بم سے قتل کئے گئے۔ اب قیادت کی شمع 71 سالہ نعیم قاسم کے
سامنے رکھ دی گئی ہیں جو تعلیم کے اعتبار سے ایک کیمیادان ہیں۔قاسم صاحب عبوری
معتمد عام ہیں جو نئے معتمد کے انتخاب تک ذمہ داری سنھالیں گے۔ حماس کے سربراہ 31
جولائی کو راستے سے ہٹائے گئے اور اب حزب کے رہنما بھی قتل کردئے گئے۔
اس
معاملے میں صدر بائیڈن کا رویہ بے حسی اور سفاکیت کا شاہکار نظر آرہا ہے۔ اقوام
متحدہ کے سربراہی اجلاس میں انھوں نے
اسرائیل کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم
7 اکتوبر کو نہیں بھول سکتے جب بے گناہ قتل اور معصوم لوگ یرغمال بنائے گئے، لیکن
اہل غزہ بھی پریشان ہیں۔ ہم نے جنگ ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ یرغمالی آزاد، غزہ
خوشحال اور حماس کے پنجے سے آزاد ہونا چاہئے۔غرب اردن کے لوگوں کی پریشانیاں قابل
تشویش ہیں۔ دوریاستی حل پر کام آگے بڑھانے کی ضرورت ہے
لبنان پر حملے کے آغاز میں
امریکی صدر نے کہا کہ بھرپور جنگ یقینی
نظر آرہی ہے لیکن ہم اب بھی پر امید ہیں کہ اس مسئلے کا سیاسی حل نکل سکتا ہے
(حوالہ: (ABC۔ اسی روز اسی ABCسے گفتگو کرتے ہوئے
انکے وزیرخارجہ نے کہا جنگ مسئلے کا حل نہیں لیکن
اسرائیل کے مسائل کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سات اکتوبر کو ان پر خوفناک حملہ کیا
گیا۔ اسکے بعد سے انھیں لبنان کی طرف سے میزائیلوں کا سامنا ہے
حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر
حملے کی خبر آتے ہیں صدر بائیڈں نے وضاحت کی کہ مزاحمت
کاروں کے ہیڈکوارٹر پر حملے میں نہ امریکہ کا ہاتھ ہے اور نہ واشنگٹن کو اس سے
پہلے مطلع کیا گیا۔ جب کسی صحافی نے امریکہ کے فراہم کردہ بنکر بسٹر بم استعمال
کرنے کی بات کی وہ امریکی صدر شانےاچکاتے وہاں سے چلے گئے۔اسی دن اسرائیلی حکومت
نے بتایا کہ امریکہ نے حالیہ عسکری مہم
کیلئے آٹھ ارب 70 کروڑ ڈالر کی منظوری دی ہے (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)
حسن
نصراللہ پر اسرائیلی حملے کی حمائت کرتے ہوئے قصرِ مرمریں نے ایک بیان میں کہا 'حسن
نصراللہ اور ان کی زیر قیادت حزب اللہ کی دہشت گردی چار دہائیوں پر محیط تھی۔ وہ
سینکڑوں امریکیوں کو ہلاک کرنے کے ذمہ دار تھے۔ اسرائیلی فضائی حملے میں ان کی
ہلاکت ان کے بہت سے متاثرین کے لیے انصاف کا ایک پیمانہ ہے، جن میں ہزاروں امریکی،
اسرائیلی اور لبنانی شہری شامل ہیں۔ نصراللہ پر حملے کو 7 اکتوبر 2023 کے قتل عام
سے شروع ہونے والے تنازع کے تناظر میں
دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نصراللہ نے حماس کی نصرت کیلئے حملے کے دوسرے ہی دن اسرائیل
کے خلاف "شمالی محاذ" کھولنے کا فیصلہ کیا'۔
اسماعیل ہانیہ کے قتل اور اب
حسن نصراللہ کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد اسرائیل میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ گلی گلی مٹھائی تقسیم ہورہی ہے اور جنگ
بندی کیلئے ہونے مظاہروں میں وہ شدت اب نہیں رہی۔اسرائیلی اپنے قیدیوں کو بزور
طاقت چھڑانے کیلئے ایک بار پھر پُر اعتماد لگ رہے ہیں۔ جب ایک خاتون قیدی لیری
الباگ کا باپ ایلی الباگ حکمراں لیکڈ پارٹی کی ایک تقریب کے دوران اپنی بیٹی کی
تصویر والی ٹی شرٹ پہن کر احتجاج کرنے آیا تو اس پر حکومت کے حامیوں نے گندے انڈے
پھینکے۔ لوگوں نے نعرے لگائے کہ یہ بزدل،
معاشرے کا سرطان ہیں۔ کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ مظاہرین، 'دہشت گردوں' کے زرخرید غلام ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے بمباری
کا دائرہ جنوبی لبنان اور وادی بقاع سے بڑھاکر بیروت کے مرکزِ شہر (Downtown)کو بھی
نشانے پر رکھ لیا ہے۔ مشرقی شام میں دیرالزور پر کئی حملے ہوئے۔ ہفتہ 28 ستمبر کو
یمن کی بندرگاہ الحدیدہ اور بجلی مرکز پر خوفناک حملہ کیا گیا جس میں بندرگاہ کی
اکثر گودیاں تباہ ہوگئیں۔
جنگی جنون
سے نیتھن یاہو کا حکمراں اتحاد بھی مزید مضبوط ہورہا ہے۔الگ ہونے والی امیدِ نو
پارٹی کے قائد گدین سعر( (Gideon
Sa'arاتحاد میں واپس آگئے ہیں۔امیدِ نو جماعت، قیدیوں
کو واپس لانے میں بی بی کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے الگ ہو گئی تھی۔اس پارٹی کی کنیسہ
(اسرئیلی پارلیمان) میں چار نشستیں ہیں جسکی بنا پر 120 رکنی کنیسہ میں اب حکمراں اتحاد کا پارلیمانی حجم 68 ہوگیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی ے امکانات
بھی معدوم ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے یورپی یونین کے
سربراہ برائے خارجہ امور جوزف بورل نے مایوس کن لہجے میں کہا 'ہم جنگ بندی کے لیے بھرپور سفارتی دباؤ
ڈال رہے ہیں ، لیکن نیتن یاہو کو کوئی روکنے والا نہیں، غزہ میں اور نہ مغربی
کنارےپر''۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسماعیل
ہانیہ اور حسن نصراللہ کے قتل کے بعدنیتھن یاہو قابوسے باہر ہوچکے ہیں۔ اتوار (29
ستمبر) کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ایران کو دھکی دی کہ 'حسن
نصراللہ کے قتل سے مشرق وسطیٰ کے طاقت کے ڈھانچے کو نئی شکل مل گئی ہے اوراسرائیلی
فوج خطے میں جہاں بھی چاہے حملہ کر سکتی ہے'
وزیراعظم نیتھن یاہو کے شوقِ
کشور کشائی سے جہاں لاکھوں فلسطینی اور لبنانی عذاب میں مبتلا ہیں وہیں انکی معیشت
بھی دباو کا شکار ہے۔ گزشتہ ہفتے کاروباری ساکھ متعین کرنے والے ادارے Moody’s نے اسرائیل کا درجہ
A2سے کم کرکے Baa1کردیا۔ ایک ماہ پہلے ایک اور موقر ادارے Fitch نے
اسرائیل کی ساکھ A
plusسے گھٹاکر Aکردی تھی۔جنگی اخراجات کی بنا پر اسرائیلی وزیرخزانہ اسموترچ نے 8 ارب ڈالر
کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔ غیر عسکری اخراجات کو حد میں رکھنے کی غرض
سے پینشن اور اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص رقم گزشتہ سال کی سطح پر منجمد کردینے کیساتھ
سیاحت پر VATمیں
چھوٹ ختم کرنے کی سفارش کی جاری ہے۔
دوسری طرف عالمی سطح پر
آتشیں پیجر کی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ناروے کی پولیس نے مشکوک
پیجر (pager)لبنان
بھیجنے والے شخص کی گرفتاری کیلئے عالمی وارنٹ جاری کردئے۔ابتدائی تحقیقات کے
مطابق یہ پیجر بلغاروی ادارے Norta Globalنے بناکر بھجوائے ہیں۔ نورٹا کا 39 سالہ ہند نژاد نارویجین مالک
رنسن ہوزے Rinson Jose، اس واقعہ کے بعد سے
مفرور ہے۔
اسرائیل کی بھرپور مدد
کیساتھ امریکی تعلیمی اداروں میں 'فکری تطہیر' کا عمل تیز کردیاگیا ہے۔کئی جامعات
اور مراکزِ دانش میں سات اکتور کو غزہ حملے کی پہلی برسی پر انتظامیہ کی جانب سے
اسرائیلی نقطہ نظر کی تفہیم کیلئے مذاکروں کے اہتمام کیا جارہا ہے تو دوسری جانب
'باغیوں' کو نشانِ عبرت بنادینے کی کاروائی بھی عروج پر ہے۔ نیویارک کی جامعہ
کورنیل (Cornell)میں
پی ایچ ڈی کے طالب علم ممدوح طال کو غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرنے پر جامعہ سے
نکال کر اسکا F1ویزہ
معطل کردیا گیا۔اس افریقی نوجوان کوجلد ہی امریکہ بدر کردیا جائیگا۔
فلسطینیوں کی نسل کشی کے
ساتھ نیتھن یاہو کے تجویز کردہ 'برکت و لعنت' فلسفے پر کام جاری ہے ۔ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید
النہیان نے واشنگٹن میں امریکی نائب صدر سے تفصیلی ملاقات کی۔ جسکے بعد صحافیوں سے
باتیں کرتے ہوئے اماراتی صدر نے کہا کہ 'میرا ملک امریکہ کے ساتھ کام کرنے اور
اتحادیوں کے درمیان تزویراتی (اسٹریٹجک) شراکت داری کو مزید مربوط و مستحکم کرنے
کا "غیر متزلزل عزم" رکھتا ہے۔ امارات کی اسرائیل سے تزویراتی شراکت
داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
تاہم غزہ کے مزاحمت کار اب
بھی پرعزم ہیں اور اسرائیلی فوج پر حملوں کے ساتھ راکٹ باری بھی جاری ہے۔ گزشتہ
ہفتے ایک بیان میں مزاحمت کاروں نے کہا کہ ہمیں اس جنگ کو ختم کردیتے کی کوئی جلدی
نہیں کہ اہل غزہ جان و مال القدس پرقربان
کرچکے اور اس مقدس جدوجہد سے پیچھے ہٹ کر
ہم اپنے معصوم شہدا کو شرمندہ نہیں کرینگے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 اکتوبر 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی، 4 اکتور 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 اکتوبر 2024
No comments:
Post a Comment