Saturday, October 19, 2024

امریکی انتخابات مغرور ہاتھی اور مجبور گدھا قصر مرمریں کے ساتھ گنبدِ قانون بھی ہا تھ سے نکلنے کا خطرہ مسلمان ڈیوکریٹک پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

 

امریکی انتخابات

مغرور ہاتھی اور مجبور گدھا

قصر مرمریں کے ساتھ گنبدِ قانون بھی ہا تھ سے نکلنے کا خطرہ

مسلمان ڈیوکریٹک پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے

اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

امریکی انتخابات کیلئے قبل ازوقت (early)ووٹنگ جاری ہے۔گفتگو کے آغاز سے پہلے سرنامہِ کلام کی وضاحت۔ جناب ڈانلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کا امتیازی (انتخابی نہیں) نشان ہاتھی جبکہ کملا ہیرس کی ڈیموکریٹک پارٹی گدھے سے پہچانی جاتی ہے۔قصر مرمریں، امریکی ایوان صدر المعروف وہائٹ ہاوس کا اردو مترادف ہے،عرب صحافیوں نے اسکا ترجمہ قصرِ الابیض کیا ہے۔ امریکی کانگریس (پارلیمان) کی پہچان گنبد یا Rotundaہے۔ ریاستٰی قانون ساز ایوانوں کی عمارتیں بھی گنبد سے مزین ہیں۔

انتخابی جائزوں کے مطابق مقابلہ خاصہ سخت، لیکن قبل از وقت ووٹنگ کے دوران جو جائزے آرہے پیں اس سے لگتاہے کہ گھمسان کی لڑائی والی ریاستوں میں جناب ڈانلڈ ٹرمپ کو معمولی سے برتری حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم یہ فرق اتنا خفیف ہے کہ متوقع نتائج کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔

امریکہ میں صدارتی نتائج کا فیصلہ انتخابی یا electoralووٹوں سے ہوتا ہے جسکا تفصیلی ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔اس بات پر تمام سیاسی پنڈت متفق ہیں کہ آنے والے انتخابات کا فیصلہ سات ریاستوں ایروزونا، جارجیا، مشیگن، شمالی کیرولینا،  نیواڈا، پینسلوانیہ اور وسکونسن میں ہونا ہے۔ ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹ 94 ہیں۔ چار سال پہلے صدر بائیڈن نے شمالی کیرولینا کے علاوہ  یہ تمام کی تمام ریاستیں جیت کر 79 انتخابی ووٹ اپنے نام کرلئے تھے۔ ان چھ ریاستوں میں مسلمان ووٹروں نے صدر بائیڈن کی کامیابی میں کلیدی کردار اداکیا۔ جناب بائیڈن کو 2020 میں پورے ملک سے  306 اور ڈانلڈ ٹرمپ کو 232 انتخابی ووٹ ملے تھے۔

مسلمان،  غزہ نسل کشی کیلئے اسرائیل کی سہولت کاری پر بائیڈن اور کملا ہیرس سے پہلے ہی ناراض تھے اور اب لبنان پر وحشیانہ بمباری نے جلتی پر مزید تیل چھڑک دیا۔ایران کے خلاف اسرائیلی کاروائی  اب دنوں کی بات معلوم ہورہی ہے اور اس میں عملی معاونت کیلئے واشنگٹن نے جدید ترین دفاعی نظام THAAD کے چھ یونٹ کیساتھ 100 سے زیادہ تجربہ کار امریکی ماہرین اسرائیل بھج دئے ہیں۔ ٹھاڈ کے ان چھ یونٹوں کی مجموعی لاگت 138 ارب ڈالر اور حملہ آور میزائیلوں کو روکنے کیلئے ٹھاڈ  سے جو گولے یا Interceptorsداغے جاتے ہیں انکے ایک راونڈ کی قیمت 25 لاکھ ڈالر ہے۔مسلمانوں کی ناراضگی سے کملا ہیرس پریشان تو ہیں لیکن ہونٹوں پراسرائیل نواز امریکی میڈیا اور ترغیب کاروں (Lobby)کے خوف کا تالہ لگا ہے۔

ریت بن کر مری مٹھی سے پھسل جاتی ہے ۔۔ اب محبت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے

گزشتہ ہفتے عرب امریکی سیاسی مجلس عمل یا AAPACنے اپنے اجلاس میں دونوں بڑی جماعتوں کو مسترد کردیا۔ بیٹھک کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اس سال دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدوار امریکہ میں عرب و مسلم  برادریوں اور آبائی علاقوں میں ہمارے خاندانوں اور دوستوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ہم ڈیموکریٹ کملا ہیرس یا ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کسی کو بھی اپنا ووٹ نہیں دے سکتے جو وزیر اعظم نیتن یاہو اور مجرم انتہا پسنداسرائیلی حکومت کی اندھا دھند حمایت پر کمربستہ ہیں'

رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق ایریزونا اور جارجیا میں ڈانلڈ ٹرمپ کی برتری بہت واضح ہے۔ ان دوریاستوں میں شکست کے باوجود بھی کملا ہیرس کے انتخابی ووٹوں کی مجموعی تعداد 279 ہوگی جو کامیابی کے نشان 270 سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر وہ نیواڈا، پینسلوانیہ وسکونس اور مشیگن میں سے ایک بھی ریاست ہار گئیں تو معاملہ چوپٹ ہوسکتا ہے۔ وسکونسن اور مشیگن میں مقابلہ بہت سخت ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ڈاکٹر جل اسٹائن کے نام پر ٹھپہ لگانے کیلئے پرعزم نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کو قانونی مدد فراہم کرنے والے رفاحی ادارے CAIRکے مطابق مشیگن کے صرف 12 فیصد مسلمان کملا ہیرس کے حامی ہیں۔قبل ازوقت انتخابات میں اس بار غیر معمولی جوش و خروش نظر آرہا ہے۔پندرہ اکتوبر کو جب جارجیا میں ووٹنگ کا آغاز ہوا تو پہلے ہی دن چارلاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سیاہ فام علاقوں کے پولنگ اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں بنی تھیں جو کملا ہیرس کیلئے حوصلہ افزا ہے

مسلمانوں کی ناراضگی سے سینیٹ کیلئے بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار مشکل میں ہیں۔ وسکونسن میں سینیٹر ٹیمی بالڈون Tammy Baldwinصاحبہ کو اپنے ریپبلکن حریف کی طرف سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مشیگن میں ہے جہاں اسرائیل نواز سینیٹر ایلیسا سلوٹکن Elissa Slotkin  صاحبہ دباو میں ہیں۔ محترمہ سلوٹکن خیر سے یہودی بھی ہیں اسلئے مسلمانوں کیلئے مزید ناقابل قبول۔ پینسلوانیہ کے سینیٹر باب کیسی Bob Caseyکی نشست بھی قدرےغیر محفوظ نظر آرہی ہے۔ جناب کیسی 2006 میں پہلی بار 59 فیصد ووٹ لیکر منتخب ہوئے 2012 میں انھوں نے 54 فیصد کیساتھ اپنی نشست برقرار رکھی اور 2018 میں انھیں 55.7فیصد ووٹ ملے لیکن اس بار فاضل سینیٹر کو ریپبلکن پارٹی کی جانب سےسخت مزاحمت  کا سامنا ہے۔ جبکہ مغربی ورجنیا اور مونٹانا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست یقینی نظر آرہئ ہے۔

اس وقت سینیٹ میں 51 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 49 ہے ۔اگر وہ مونٹانا اور مغربی ورجنیا کیساتھ مشیگن اور وسکونسن کی نشست جیتنے میں بھی کامیاب ہوگئے تو 100 رکنی سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کا پارلیمانی حجم 53 ہوسکتا ہے۔مسلمانوں نے اب تک سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا لیکن یہ عام تاثر ہے کہ ووٹر Top of The Ballotیعنی صٖدر کیلئے جس جماعت کو ووٹ دینے ہیں دوسرے مناصب کیلئے بھی اسی جماعت کے امیدواروں پر صاد کردیتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ڈانلڈ ٹرمپ کی برتری بہت خفیف اور فی الحال غیر فیصلہ کن ہے۔ اسقاط حمل کا معاملہ امریکی خواتین کیلئے بہت اہم اور کملا ہیرس کی مہم کا سارا زور 'میرا جسم میری مرضی' پر ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 36 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ انکے لئے اسقاطِ حمل کی آزادی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ آنے والے دوہفتوں میں اگر کملا جی اس نکتے پر خواتین کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئیں تو وہ امریکی تاریخ کی پہلی غیر مسیحی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔

روزنامہ جسارت کراچی سنڈے میگزین


 

 

No comments:

Post a Comment