ایران پر جوابی حملے کی تیاری
آئت اللہ خامنہ ای کیساتھ عراق کے آئت اللہ
سیستانی بھی ممکنہ ہدف
فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا دائرہ اسرائیلی عربوں
تک بڑھادیا گیا
آئرن
ڈوم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان، THAAD نصب کئے جارہے ہیں
یروشلم اسرائیل کا اٹوٹ انگ نہیں، امریکی ٹیلی
ویژن CBS کا
اعلان
نکاراگوانے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع
کرلئے
ایک سال گزرنے کے بعد بھی
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کاروائیاں جاری ہیں اور 17 ستمبر کو لبنان پر پیجر
حملے سے شروع ہونے والی عسکری کاروائی کو بھی ایک مہینہ ہوگیا۔اس عرصے میں بیروت
اور اسکے مضافاتی علاقوں پراوسطاً 100 فضائی حملے یومیہ کئے جارہے ہیں۔ لیکن قتل و
غارت کی اس نہ ختم ہونے والی مہم کے باوجود غزہ اور جنوبی لبنان کے زمینی حقائق
اسرائیل کیلئے اب بھی مایوس کن ہیں۔دونوں جگہ سے تابوتوں اور زخمیوں کے آنے کا
سلسلہ جاری ہے۔ہرروز جنوبی لبنان سے سینکڑوں راکٹ برس رہے ہیں۔اسرائیلی وزارت
تعلیم کا کہنا ہے کہ لبنانی و فلسطینی راکٹوں سے
اسرائیل کے 90 اسکول تباہ ہوگئے جن میں زیرتعلیم 16000 طلبہ کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ عجیب اتفاق کہ جس روز
اسرائیلی وزارت تعلیم نے اپنے 90 اسکول تباہ ہونے کی تصدیق کی اسی روز اسرائیلیوں
نے بمباری کرکے وسطی غزہ کے دیر
البلاح میں باقی رہ جانےوالے آخری اسکول کو زمیں بوس کردیا۔اس حملے میں طلبہ اور اساتذہ سمیت 25 افراد زندہ جل گئے۔
لبنانی میزائیلوں اور ڈرونوں
سے اسرائیل سخت خوفزدہ ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے میزائیلوں اور ڈرونوں کی درستگی و ہلاکت خیزی دونوں میں بہتری
دکھائی دے رہی ہے۔لبنانی میزائیل اب انتہائی کامیابی سے حساس اہداف تک پہنچ رہے
ہیں۔ استغفار اور احتساب و جائزہ کے تہوار یوم کپر کے موقع پر کریات شمعونہ، صفد،
الحضیرہ، حیفہ اور خلیل بالا (Upper Galilee) میں کئی چھاونیوں کو ڈرونوں نے نشانہ بنایا۔ ڈراونے پرندے کے حملے
میں کیرات شمعونہ عسکری کالونی کا برقی نظام تباہ ہوجانے کی بنا پر شہر کا بڑا حصہ
ایک ہفتے سے تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔تہوار
کے دوران تل ابیب کے فیشن ایبل ساحلی علاقے ہرتسلیا
(Herzliya)پر ڈرون حملوں میں کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی۔سات اکتوبر کو برسی کے دن غزہ سے تل ابیب کو نشانہ بنایا گیا جس سے
دو افراد زخمی ہوگئے۔
تیرہ
اکتوبر کو بن یمینیہ چھاونی پر حملے سے اسرائیل کیساتھ امریکی فوج میں بھی تشویش
کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لبنانی ڈرون نے چھاونی کے مطعم کو اسوقت نشانہ بنایا جب سپاہی
وہاں ناشتہ کررہے تھے۔حملے میں 4 فوجی موقع پر ہی ہلاک اور 57 جھلس کر زخمی ہوگئے۔ ابتدائی تحقیقات
کے مطابق امریکہ کا فراہم کردہ حساس ترین دفاعی نظام آئرن ڈوم وقتی طورپر منجمد
ہوگیا اورسائرن نہ بجنے کی وجہ ہے ڈرون ایک ناگہانی آفت بن کر ٹوٹ پڑا۔اب تک یہ
معلوم نہیں ہوسکا کہ آئرن ڈوم کے اچانک ناکارہ ہوجانے کی وجہ انسانی خطا یا کسی
پرزے کی خرابی ہے یا حملہ آور ڈرون نے اسے
منجمد کردیا؟
تہوار کے دوران سارا اسرائیل
خطرے کے سائرن سے گونجتا رہا۔ لبنان، غزہ، عراق اور یمن کی جانب سے سینکڑوں،
میزائیل، ڈرون اور راکٹ داغے گئے جن میں سے اکثر کو آئرن ڈوم نے ناکارہ کردیا لیکن
سائرن پر شہریوں کی حفاطتی خندقوں کی طرف مسلسل دوڑسے سارا ملک افراتفری کا شکار
نظر آیا۔دیوارِ گریہ کے ساتھ پارکوں
اور چوراہوں پر عبادتی اجتماعات یوم کپر کی روائت ہے لیکن اس
بار حفاظتی خندقوں میں عبادت کی گئی او تل ابیب میں صرف دو کھلی جگہوں پر اجتماعی
عبادت کا انتظام تھا۔
بن یمینیہ میں آئرن ڈوم کی ناکامی نے خوف و ہراس کو مزید بڑھا دیا
اور عام اسرائیلی ہیجان میں مبتلا ہیں۔ عوام کی تسلی کیلئے فوج کے ترجمان شریک
امیر البحر (رئیر ایڈمرل) ڈینیل ہگاری نے ایک ٹویٹ میں کہا 'اسرائیلی عوام پریشان
نہ ہوں اور نہ افواہوں پر کان نہ دھریں، معاملات پوری طرح فوج کے قابو میں ہیں'
اسرائیلیوں کے اضطراب کو کم
کرنے کیلئے امریکہ نے فوری طور پر جدید ترین فضائی دفاعی نظام، Terminal High Altitude Area
Defense یا THAADاسرائیل روانہ کردیا ہے۔ ٹھاڈ، حملہ آور میزائیلوں کو 200 کلومیٹر دور سے بھانپ سکتا ہے۔ دشمن کے میزائیل کو فضا ہی میں
اڑانے کیلئے اسکے مداخلتی گولے
یا Interceptors 10 ہزار کلومیٹر فی
گھنٹے کی رفتار سے جھپٹنے کی صلاحیت رکھنے ہیں یعنی منجنیقی (بیلیسٹک) حتیٰ کہ
آواز سے پانچ گنا تیز ہائپر سانک میزائیل کو ٹھکانے لگانا بھی ٹھاڈ کیلئے کچھ مشکل
نہیں۔ عجلت میں بھیجے جانے والے ٹھاڈ نظام کیساتھ اسے چلانے کیلئے 100 امریکی فوجی بھی اسرائیل جارہے ہیں کہ تربیت
کا وقت نہیں۔ یعنی اب امریکہ اسرائیل کی جنگ خود لڑیگا۔
اسرائیلی میڈیا Ynetکے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیل کے خفیہ ادراروں
نے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ 'اہل غزہ نے اسرائیلی قیدیوں کے گرد پہرہ مزید سخت کردیا ہے۔ انکی
بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی بناپر سرغرسانی بھی غیر موثر ہوتی جارہی
ہے'۔ ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی حالت اچھی نہیں۔ معاہدہ کرکے انکی
رہائی کی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے'۔یہی وجہ ہے کہ غزہ کو کچل دو کا نعرہ لگانے
والے انتہاپسندوں کے مزاج بھی اب ٹھکانے آرہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے صفاردی (Sephardic) فرقے کے ربائیِ اعظم (مفتی)
یعقوب ایریل نے 'فتحِ مبیں تک جنگ' کے فتوے سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا کہ قیدیوں کی رہائی کیلیے ایک ذمہ دارانہ امن معاہدے کا وقت آچکا
ہے۔
گزشتہ ہفتہ ہم نے لبنان میں ایک
ڈویژن مزید فوج بھیجنے کی خبر دی تھی۔ اب نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہےکہ 36th اور 98th
ڈویژنوں کے بعد 91st اور 146th ڈویژنوں کو بھی جنوبی لبنان کوچ کرنےکا حکم دیدیا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق
اسرائیلی فوج کا ایک ڈویژن 10 سے پندرہ ہزار فوجیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسکا مطلب
ہوا کہ پچاس ہزار کے قریب اسرائیلی سپاہی لبنان میں ہیں اور کمک پر کمک ملنے کے
باوجود ہر محاذ پر انھیں پسپا ہونا پڑرہا ہے۔
عسکری اہداف کے حصول میں
ناکامی پر پیداہونے والی جھنجھلاہٹ اسرائیلی حکومت میں بھی نظر آرہی ہے۔ آٹھ
اکتوبر کو وزیراعظم نیتھن یاہو نے اپنے وزیردفاع گیلینٹ کو امریکہ کے دورے سے
روکدیا۔اسرائیلی وزیردفاع ایران پر حملے کیلئے اپنےامریکی ہم منصب سے مشورہ کرنے واشنگٹن
جارہے تھے لیکن جب وہ تل ابیب ائر پورٹ پہنچے تو انھیں بتایا گیاکہ نیتھن یاہو نے
انھیں دورے سے منع کردیا ہے۔ ایوان وزیراعظم نے ایک اعلامئے میں اسکی وضاحت کرتے
ہوئے بتایا کہ فوجی امور وزیراعظم خود دیکھ رہے ہیں۔ دوسرے دن حملے کی حکمت عملی
کے تعین کیلئے نیتھن یاہو نے صدر بائیڈن سے خود بات کی۔
سفارتی اور ابلاغ عامہ کی
سطح پر اس ہفتے اسرائیل کو پئے در پئے دو دھچکے لگے۔ ایک طرف وسط امریکی ملک
نکاراگواکے صدر ڈینیل اورتیگا نے یہ کہہ کر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے
کہ غزہ میں اسرائیل کی فسطائیت اور نسل کش کاروائیاں ناقابل برداشت ہیں۔
دوسری جانب امریکی ٹیلی ویژن CBSنے یروشلم کو اسرائیل کا حصہ ماننے سے
انکار کردیاہے ۔سی بی ایس کے سینیر ڈائریکٹر برائے معیار وطرزعمل (Standards & Practices) ، مارک میمٹ (Mark Mammott)نے ملازمین کے نام ایک برقی
خط میں کارکنوں سے کہا ہے کہ خبر سناتے وقت اصطلاحات میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت
ہے۔ جناب میمٹ نے کارکنوں کو باور کرایا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں بلکہ
متنازعہ علاقہ ہے لہذا اسے اسرائیل نہ کہا جائے۔ یعنی یروشلم سے خبر جاری کرتے وقت
رپورٹر صرف یروشلم کہے، یروشلم اسرائیل کہنا درست نہیں ۔جناب میمٹ نے یہ خط اگست
میں لکھا تھا لیکن اسکا انکشاف کل فاکس نیوز نے کیا جسکے بعد سے اسرائیل اورامریکہ
میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔
جہاں تک ایران پر حملے کا
تعلق ہے تو وہ یقینی نظر آرہا ہے۔ کابینہ اجلاس کے بعد اسرائیلی وزیردفاع نے کہا
کہ 'اسرائیل پر ایرانی حملہ جارحانہ لیکن احمقانہ
اور غلط تھا۔ اس کے برعکس، ہمارا حملہ مہلک، درست اور حیران کن ہوگا -ایرانی یہ
جان بھی نہیں سکیں گے کہ کیا ہوا یا یہ سب کچھ کیسے ہوگیا. وہ صرف نتائج دیکھیں
گے.' دفاعی تجزیہ نگاروں کا خٰیال ہے کہ مذہبی تہوار یوم کپر (گیارہ اور بارہ اکتوبر) کے بعد کسی بھی وقت یہ حملہ ہوسکتا
ہے۔اس حملے کی نوعیت کیا ہوگی اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے لیکن موساد ذرایع
بتارہے ہیں کہ اسرائیلی فوج ایران کی تیل و گیس تنصیبات اور جوہری اثاثوں کیساتھ
حضرت آئت اللہ خامنہ ای سمیت اعلیٰ ترین ایرانی قیادت کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی
کررہی ہے۔ نیتھن یاہو کا خیال ہے کہ جوہری تنصیبات کے خاتمے سے ایران کا فوجی
دبدبہ اورتیل و گیس کے وسائل پر ضرب سے ریاست کی معاشی طاقت صفر ہوجائیگی۔ اگر اسی
ہلے میں روحانی و سیاسی قیادت کو بھی راستے سے ہٹادیا جائے تو افراتفری سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے مغرب نواز عناصر کیلئے اقتدار پر قبضہ کرنا آسان ہوگا۔حسن نصراللہ کے
قتل کا اعلان کرتے ہوئے نیتھن یاہو نے ایرانی روشن خیالوں کو نوید سنائی تھی کہ
انکی توقع سے بہت پہلے تہران ملاوں کی
گرفت سے آزاد ہوجائیگا۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ
اسرائیل، ایران میں یہ اہداف حاصل کرسکے
گا یا نہیں لیکن تل ابیب کے عزائم سے خلیجی ممالک میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دس
اکتوبر کو ایرانی وزیرخارجہ سید
عباس عراقچی نے متنبہ کیا کہ حملے کیلئے جس ملک نے بھی
اسرائیل سے معاونت کی یا حملہ آور طیاروں پر اپنی فضائی حدود کھولیں، جوابی
کاروائی میں سب سے پہلے انھیں نشانہ بنایا جائیگا۔ عراقچی صاحب نے کسی ملک کا نام نہیں لیا لیکن ایرانی تیل
تنصیبات پر حملے کیلئے اسرائیلی طیاروں کو اردن، سعودی عرب ، کوئت اور قطر پر سے
گزرنا ہوگا۔اسرائیلی محکمہ سراغرسانی کے مطابق ایران نے حملے اور اس میں تعاون کی
سزا دینے کیلئے اپنے میزائیلوں کا رخ اسرائیل کے خلیجی اتحادیوں کی طرف کردیا ہے۔ایرانی
دھمکی سے پریشان خلیجی حکمراں امریکہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو ایران پر
حملے سے روکے لیکن نیتھن یاہو کسی کی سنتے نظر نہیں آتے بلکہ 11 اکتوبر کو اسرائیل کے چینل 14 نے انکشاف کیا کہ
ایرانی قیادت کیساتھ، شیعانِ عراق کے
روحانی پیشوا آئت العظمیٰ سید علی سیستانی بھی اسرائیل کی ہِٹ لِسٹ پر ہیں۔
غزہ اور غرب اردن کے 'پناہ
گزیں' فلسطینیوں کے بعد نسلی تطہیر کا دائرہ اسرائیلی شہریت کے حامل عربوں تک وسیع
کردیا گیا ہے۔اسرائیل کے عرب شہریوں کی تعداد 21 لاکھ یا کل آبادی کا 21 فیصد ہے۔
ان لوگوں کو '48 عرب' کہا جاتا یے یعنی وہ عرب جو 1948 میں قیام اسرائیل کے وقت
آباد تھے اور اہل غزہ کی طرح وہاں سے نکالے نہیں گئے۔انتہاپسند ان عربوں کو
اسرائیل سے نکالنے یا کم ازکم عام انتخابات میں انکا حق رائے دہی منسوخ کرنے کا
مطالبہ کررہے ہیں۔اسوقت اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) میں دس نشستیں مسلم و عرب ارکان
کے پاس ہیں۔ ان میں سے 5 پر اخوانی فکر سے وابستہ رعم کے لوگ براجمان ہیں۔کافی
عرصے سے کہا جارہا ہے کہ قلب اسرائیل میں آباد یہ 'آستین کے سانپ' ریاست کی سلامتی
کیلئے خطرے کا سبب ہیں۔
دس اکتوبر کو اسرائیلی خفیہ
پولیس شاباک (Shin Bet)نے
پانچ عربوں کو وسط اسرائیل کے محلے طیبہ سے گرفتار کرلیا۔ جن پر عالمی دہشت گرد
تنظیم سے وابستگی کا الزام ہے۔ شاباک کے مطابق محموداعظم اور ابراہیم شیخ یوسف کی
قیادت میں ساجد، عبداللہ برانسی اور اسکا بھائی عبداکریم برانسی تل ابیب کے معروف
اسرائیلی سینٹر (Merkaz Azrieli)کو
نشانہ بنانا چاہتے تھے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 18 اکتوبر 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 18 اکتوبر 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 20 اکتوبر 2024
No comments:
Post a Comment