Thursday, October 24, 2024

غزہ مزاحمت کاروں کا چوتھا قائد قتل مکمل جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی سے پہلے اسرائیلی قیدی نہیں رہا ہونگے لاش کی حوالگی کو قیدیوں کی تبادلے سے مشروط کردیا گیا نیتھن یاہو کی نجی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ ایک اضافی بریگیڈ لبنان بھیج دی گئی دشمن شکست تسلیم کرتا نظر نہیں آتا۔ امریکی ماہر

 

غزہ مزاحمت کاروں کا چوتھا قائد قتل

مکمل جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی سے پہلے اسرائیلی قیدی نہیں رہا ہونگے

لاش کی حوالگی کو قیدیوں کی تبادلے سے مشروط کردیا گیا

نیتھن یاہو کی نجی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ

ایک اضافی بریگیڈ لبنان بھیج دی گئی

دشمن شکست تسلیم کرتا نظر نہیں آتا۔ امریکی ماہر

غزہ مزاحمت کاروں کے قائد اور پولیٹیکل بیورو کے سربراہ، ر فح (جنوبی غزہ) میں قتل کردئے گئے۔ ڈیڑھ ماہ قبل 31 جولائی کو انکے پیشرو تہران میں قتل کئے گئے تھے۔ تحریک کے بانی، شیخ یاسین مارچ 2004میں امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹر سے داغےجانے والے ہیل فائر میزائیل کا اسوقت نشانہ بنے جب وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی وہیل چئیر پرگھر واپس جارہے تھے۔ شیخ صاحب کے بعد 56 سالہ ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی نے حماس کی قیادت سنبھالی لیکن صرف ایک ماہ بعد 17 اپریل کو انھیں بھی ہیل فائر میزائیل سے شہید کردیا گیا۔عجیب اتفاق کےسنوا  رسمیت چاروں قائدین حافظ تھے اور سب کو  اسرائیل کےہاتھوں جاں بحق ہوئے۔

اکسٹھ سالہ یحیٰی کے والدین 1948 میں ساحلی شہر اثقلان (Ashkelon)سے بیدخل کئے گئے اور غزہ کے علاقے خان یونس میں آکر پناہ لی جو اسوقت مصر کا حصہ تھا۔ یہیں ایک پناہ گزین خیمے میں سنوار صاحب نے آنکھ کھولی۔ انھوں نے جامعہ اسلامیہ غزہ سے علومِ عربی میں بی اے کی سند حاصل کی۔ موصوف اسرائیلی قبضے کے خلاف مظاہرے پر پہلی بار 20 برس کی عمر میں گرفتارہوئے اور کئی ماہ فرعہ جیل میں گزارے۔ جیل میں انکی ملاقات کئی حریت پسند رہنماوں سے ہوئی اور انھوں نے اپنی زندگی جدوجہد آزادی کیلئے وقف کرنے کا عزم کرلیا۔رہائی کے دوسال بعد سنوار پھر گرفتار ہوئے اور چند ماہ بعد رہائی ملی۔ فروری 1988 کو انھیں دواسرائیلی سپاہیوں کو ہلاک کرنے کےالزام میں عمر قید کی سزاہوئی۔ جیل میں سنوار نے عبرانی زبان سیکھی۔ وہ جیل سے عبرانی اخبارات کے اہم مضامین کا عربی ترجمہ کرکے اپنے قائدین کو بھجواتے تھے۔ دوانِ اسیری جناب سنوار نے اسرائیل کی اوپن یونورسٹی سے تاریخِ بنی اسرائیل (حضرت یعقوبؑ سے حضرت عیسیٰؑتک)، عبرانی زبان کی تاریخ، عبرانی قصصِ الانبیاؑ، صیہونیت، اور ہولوکاسٹ وغیرہ پر پندرہ کورس کئے۔اوپن یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم (میڈیم)عبرانی ہے۔ یہ سب اتفاقی یا وقت گزارےکی سرگرمی نہ تھی بلکہ سنوار صاحب نے یہ کام منظم منصوبے کے تحت کیا۔رہائی پر انھوں نے کہا  'اسرائیلی چاہتے تھے کہ جیل ہمارے لئے قبر اور ہماری مرضی، عزم اور جسموں کو پیسنے کے لیے ایک چکی ہو۔ لیکن اللہ  کا شکر ہے کہ ہم نے اپنے مقصد پر یقین رکھتے ہوئے اس جیل کو عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیوں میں تبدیل کر دیا'۔عقوبت کدے میں انھوں نے کئی ناول بھی لکھے۔ اکثر مسودے اسرائیلی حکام نے تلف کردئے۔دوران ِ قید انکے دماغ میں ایک رسولی (Tumor)کا انکشاف ہوا۔آپریش انتہائی نازک اور خطرناک تھا۔ انھوں نے اسرائیلی سرجن جنرل سے کہا کہ مجھے تم لوگوں کی نیت پر بھروسہ نہیں لیکن زندگی کامالک میرا رب ہے اور میں آپریشن کیلئے تیار ہوں۔

گرفتاری کے 22 سال بعد 2011 میں ایک گرفتار اسرائیلی فوجی کے عوض جو 1026 فلسطینی قیدی رہا ہوئے ان میں سنوار بھی شامل تھے۔ انکا خان یونس پہنچنے پر شاندار استقبال ہوا اور وہ ایک قومی ہیرو بن گئے۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایک عالمہ سے شادی کی۔ انکی اہلیہ دینیات میں ایم اے ہیں۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کی منصوبہ بندی یحییٰ سنوار اور محمد الضیف نے کی تھی۔ اکتیس جولائی کو اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل پر سنوار مزاحمت کاروں کے پولٹ بیورو کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ موصوف کو یہ اعزاز حاصل کہ وہ میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والے غزہ مزاحمت کاروں کے پہلے سربراہ ہیں۔

یحییٰ سنوار کے قتل کی جو تفصیلات اسرائیلی  فوج نے جاری کی ہیں اسکے مطابق 15 اور 16 اکتوبر کی درمیانی رات رفح کے تل السلطان محلے پر اسرائیلیوں نے شدید بمباری کی جس سے کئی عمارتیں کھنڈر بن گئیں۔ سورج طلوع ہوتے ہی اسرائیلی ٹینکوں نے گولہ باری شروع کردی جسکے جواب میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی فوج کی طرف گولیاں برسائیں۔ کئی گھنٹوں بعد جب مزاحمت کاروں کی جانب سے جواب نہ آیا تو  مشین گنوں سے فائرنگ کرتے ہوئے اسرائیل کا پیدل دستہ آگے بڑھا۔عمارت کے کھنڈر سے دو لاشیں ملیں، قریب ہی ایک شخص جاں بلب نظر آیا۔ کرسی پر بیٹھے خون میں لت پت اس آدمی کا دایاں بازو اڑچکا تھا لیکن اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں ایک لاٹھی مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔ایک نشانچی ڈرون اسکے سرپر منڈلا رہا تھا۔اس شخص نے اپنی لاٹھی موت کے اس پرندے پر مارنے کی کوشش کی لیکن ڈرون سے نکلنے والی درجنوں گولیاں اسکے سر میں پیوست ہوگئیں۔ گویا چوبیس گھنٹوں سے صرف تین مزاحمت کار اسرائیلی بمباروں، ڈرون  اور توپ خانے کا مقابلہ کررہے تھے۔

زخمی مزاحمت کار کے بیدم ہوکر زمین پر گرتے ہی اسرائیلی فوجی آگے بڑھے، کمانڈر صاحب نے لاش پہچان کر فاتحانہ نعرہ بلند کیا اور چھرے سے لاش کے بائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کاٹ کر اسے بوسہ دیا اور نشان بہادری کے طور پر جیب میں  ڈال لیا۔ ایک اور سپاہی نے یحییٰ سنوار کی کلائی پر بندھی گھڑی اتار کر بطور مال غنیمت رکھ لی۔ یعنی جناب السنوارنے حضرت حمزہ (ر) کی طرح مثلے کی آزمائش بھی سہی۔چھ گھنٹے تک علاقے پر ٹینکوں سے شدید ترین گولہ باری کی گئی اور اس بات کا یقین کرلینے کے بعد کہ اب یہاں کوئی متنفس باقی نہیں بچا، ایک ہیلی کاپٹر پر یحییٰ سنوار کی لاش اسرائیل پہنچادی دی گئی۔لاش ہتھیانے کی بہادرانہ کاروائی پر کمپنی کمانڈر صاحب کیلئے تمغہ تجویز کیا جارہا ہے۔

کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قومی ترانوں کی دھنیں بجنا شروع ہوئیں اور وزیراعظم نیتھں یاہو نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ یحیٰی سنوار کیساتھ حماس کا خاتمہ ہوگیاہے۔ اپنے فاتحانہ خطاب میں انھوں نے 'فراخدلانہ' پیشکش کی کہ اگر اسرائیلی قیدی رہا کردئے جائیں تو وہ باقی رہ جانے والے مزاحمت کارکمانڈروں کی جان بخشی پر غور کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم کی تقریر سنتے ہی انتہاپسند سڑکوں پر نکل آئے۔سب سے بڑا مظاہرہ یروشلم میں ہوا جہاں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت یحییٰ سنوار کی لاش کو قیدیوں کے تبادلے کی شرط کے طور پر استعمال کررہی ہے یعنی قیدی واپس کرو تو لاش ملے گی

اسرائیل کیساتھ اسکے اتحادیوں اور سرپرستوں کی خوشی دیکھنے کے قابل ہے۔ امریکی صدارت کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا دیوی ہیرس نے سنوار کے جاں بحق ہونے پر دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوجانے کے بعد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں دیرپا امن کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا کہ وہ سنوار کی موت پر غمگین نہیں ہیں۔ سب سے حیرت انگیز یو ٹرن یورپی یونین کے سربراہ برائے خارجہ امور جوزف بورل کا ہے جواسرائیلی وزیراعظم کے انتہا پسند روئے پر اپنی جھنجھلاہٹ کا مسلسل اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ اس خبر پر نہال ہوکر جناب بورل نے فرمایا 'اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ امن کے راہ میں کی سب سے بڑی رکاوٹ یحییٰ سنوار تھے۔ سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کا موقف اپنی حریف کے عین مطابق ہے کہ اب غزہ میں امن کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ طنز کے تیر عرب میڈیا نے بھی برسائے۔ سعوی ہفت روزہ عکاظ نے سرخی جمائی کہ اسرائیل نے سنوار کو ہنیہ کے پاس پہنچادیا اور طنز سے جلی حرفوں میں لکھا کہ 'حماس بلا راس' یعنی مزاحمت کار بے سر کے ہوگئے۔اس قتل پر سب سے اچھا تبصرہ ہمیں امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا محسوس ہوا۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں حافظ صاحب نے کہا 'اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شہادتوں کا سفر اہل غزہ کو منزل سے قریب تر کررہا ہے۔ ان شاء اللہ القدس آزاد ہوگا'

یحییٰ سنوار کے جاں بحق ہونے پر اسرائیل، انکے سرپرست، اتحادی اور سہولت کاروں کو جشن کا حق حاصل ہے لیکن قتل کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے اسرائیلی وزیراعظم کا جھوٹ بے نقاب ہوگیا ہے۔ دودن پہلے اسرائیلی خفیہ ادارے شاباک نے کہا تھا کہ یحییٰ سنوارایک گہری سرنک کے اندر  اسرائیلی قیدیوں کے حصار میں چھپے بیٹھے ہیں۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نیتھن یاہو نے شیخی بگھاری کہ 'غزہ کی کوئی بھی سرنگ اتنی گہری نہیں جہاں ہم نے پہنچ سکیں'۔انکے قتل کے بعد قوم سے “فاتحانہ” خطاب میں نیتھن یاہو نے کہا کہ “وہ ڈالروں کی گڈی لئے فرار ہونے کی کوشش میں رفح کی ایک سرنگ سے نکلا اور ہم نے اسے جالیا۔ تاہم مقتول کی جو تصویر خود اسرائیل نے جاری کی ہے اس میں وہ سرنگ سے باہر لڑائی میں مصروف تھا اور جب اس سے ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا تو وہ لڑنے کیلئے لاٹھی لے کر کھڑا ہوگیا۔ رہی بات تک ڈالروں کی گڈی کی تو خود اسرائیلی فوج کی جاری کردہ تصویر میں صرف چند شیکال(اسرائیلی کرنسی) نظر آرہے ہیں

یحییٰ سنوار کے جانشیں کے طور پر تین نام لئے جارہے ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ قائم مقام قائد خالد مشعل کو یہ ذمہ داری مستقل بنیادوں پر سونپ دی جائے۔ اسکے علاوہ انکے چھوٹے بھائی 49 سالہ محمد السنوار اور پولٹ بیورو کے ڈپنی چیف خالد الحیۃ کا نام بھی لیا جارہا ہے۔

سنوار کے بعد مزاحمت کاری کیا رنگ اختیار کریگی اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن اپنے قائد کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے غزہ سے جاری ہونے والے اعلان میں دوٹوک کہا گیا ہے کہ 'جنگ کے خاتمے، اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے پہلے اسرائیلی قیدی رہا نہیں ہونگے'۔لبنانی مزاحمت کاروں نے بھی غزہ کی حمائت جاری رکھنے کا اعلان کیا اور جشن مناتے اسرائیل پر سینکڑوں میزائیل اور راکٹ داغ دئے جسکی وجہ سے اکثر مقامات پر لوگوں نے رقص چھوڑکر زیر زمین خندقوں کی طرف دوڑ لگادی۔اسی دوران 19 اکتوبر کو صبح سویرے قیصریہ (Caesarea) کے ساحلی علاقے میں وزیراعظم نیتھن یاہو کے گھر پر ڈرون حملہ ہوا۔ مزاحمت کاروں کا خیال تھا کہ وزیرعظم سبت گزارنے گھر آئے ہونگے لیکن نیتھن یاہو اور انکی اہلیہ اس وقت رہائش گاہ پر نہیں تھے۔

اسکے دوسرے دن شمالی غزہ میں مزاحمت کاروں نے مقامی طور پر تیار کردہ یاسین راکٹ  سے دوبکتر بند گاڑیاں اڑادیں جس میں بکتر بندبریگیڈ 401کا کمانڈر احسان دقصیٰ مارا گیا۔مذبباً دروز، 41 سالہ احسان غزہ میں مارا جاینوالا سب سے سینیر فوجی افسر ہے۔ اسرائیلی فوج میں فل کرنل کا عہدہ ہندوپاک کے بریگیڈیر کے مساوی ہے۔ مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اب تک اسرائیلی فوج کے چھ کرنیل مارے جاچکے ہیں جن میں سے چار، 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے آغاز پر اپنی چھاونیوں میں ہلاک کئے گئے۔

جہاں تک لبنان کی زمینی صورتحال کا تعلق ہے تو وہاں اسرائیلی فوج کے مطابق بیس سے پچیس ہزار 'دہشت گرد' مورچے جمائے ہوئے ہیں۔ انھیں کچلنے کیلئے جدید ترین اسلحے سے لیس 4 ڈویژن اسرائیلی فوج جنوبی لبنان میں موجود ہے اور اب اضافی بریگیڈ کو لبنان کوچ کرنے کا حکم دیدیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے اعلامئے میں کہا گیا ہے:

'زمینی صورتحال کے جائزے کے بعد شمالی سیکٹر میں آپریشنل کاموں کے لیے اضافی ریزرو بریگیڈ بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس کے متحرک ہونے سے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی کوششوں کو جاری رکھنے اور جنگ کے مقاصد کے حصول میں مدد ملے گی، جس میں شمال کے رہائشیوں کی محفوظ واپسی بھی شامل ہے'

حوالہ: نیوزویک

آج کی نشست کا اختتام یحییٰ سنوار کے قتل پر ایک ماہر امریکی سفارتکار کے تجزئے سے

ریان کروکر (Ryan Crocker) امریکہ کے منجھے ہوئے سفارتکار اور عرب امور کے ماہر ہیں۔ عرب قائدین سے گہرے تعلقات کی بنا پر انھیں امریکی لارنس آف عربیہ بھی کہا جاتا ہے۔ پجھتر سالہ کروکر لبنان، شام، عرا ق، کوئت، افغانستان اور پاکستان میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ سنوار کے قتل کے فوراً بعد انھوں میں امریکہ کی آن لائن خبر رساں ایجنسی POLITICOسے غزہ اور لبنان کی تازہ ترین صورتحال پرتفصیلی گفتگو کی جسکا لب لباب کچھ یوں تھا

'ایک چیز جو میں نے برسوں میں سیکھی، خاص طور پر عراق اور افغانستان میں رہ کر، وہ یہ ہے کہ دشمن کی شکست کا تصور صرف اس دشمن کے ذہن میں معنی رکھتا ہے۔ اگر ہزیمت پر دشمن خود کو شکست خوردہ محسوس کرے تو وہ ہار جاتا ہے۔ لیکن اگر ذہن شکست قبول کرنے کو تیار نہیں تو مزاحمت جاری رہتی ہے بلکہ اہانت و نفرت کا تڑکہ اسکو دوآتشہ کردیتا ہے۔ کیا حسن نصراللہ اور یحییٰ سنوار کےقتل دشمن کو شکست کا احساس دلائیں گے؟یہ تو وقت بتائے گا لیکن میں شرطیہ کہتا ہوں ایسا نہیں ہوگا'

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 اکتوبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 اکتوبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 اکتوبر 2024


No comments:

Post a Comment